Wednesday, 27 March 2024

حیرت انگیز دریافت ۔ کیا قوم سو رہی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: وہارا امباکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہم اعلان:سائنسدانوں نے ایک انقلابی شے دریافت کر لی ہے۔ اس سے آپ کی زندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے آپ کی یادداشت تیز ہو جائے گی اور تخلیقی صلاحیت بھی بہتر ہو گی۔ اس سے آپ کا زیادہ پرکشش لگیں گے۔ آپ کو موٹاپے سے بچا سکتی ہے، بے وقت بھوک نہیں لگے گی۔ کینسر کے خلاف دفاع کرنے میں مدد کرے گی۔ بھلکڑ پن سے حفاظت کرے گی۔ زکام اور فلو کو مار بھگائے گی اور اس سے جلد ریکوری میں مدد دے گی۔ دل کا دورہ پڑنے کے اور سٹروک کے امکان میں کمی کرے گی اور ذیابیطس کے بھی۔ آپ زیادہ خوش محسوس کریں گے، بے چینی میں اور ڈیپریشن میں کمی ہو گی۔ کیا آپ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ ایسا اشتہار دیکھیں تو کیا ردِعمل ہو گا؟ اگر یہ کسی نئی دوا کا اشتہار ہو تو کم ہی کوئی اس پر یقین کرے گا۔ اور اگر کوئی اس پر قائل ہو جائے گا وہ اس کے لئے بڑی قیمت دینے کو تیار ہو گا۔ اگر اس کو کلینیکل ٹرائل سے ثابت کیا جا سکے تو اس کو دریافت کرنے والی فارماسیوٹیکل کمپنی کے شئیر آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔اس اعلان میں کئے گئے دعوے بلند و بانگ ہیں لیکن غلط نہیں۔ ان دعووں کی بنیاد سترہ ہزار احتیاط سے پرکھی گئی سائنسی تحقیقات پر ہے۔ اور سب سے زبردست؟ اس کی قیمت۔ بالکل مفت۔یہ دریافت روز کی مکمل نیند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اس بارے میں آگاہی کی یہ ناکامی ہے کہ ہم میں سے اکثر اس کا احساس نہیں کرتے کہ نیند اکسیرِ اعظم ہے۔ دنیا کے ہر شخص کے لئے ہیلتھ کئیر فراہم کرتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں یہ سب سے اہم علاج ہے۔ اکیسویں صدی میں اس پر ہونے والی تحقیق کا خلاصہ شیکسپئیر کے لکھے مک بیتھ کے باب میں ایک فقرے میں ہے، “اس زندگی کی ضیافت کی سب سے غذائیت والی شے نیند ہے”۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی آپ کو کچھ ایسا ہی بتایا ہو۔ سائنس کو شکسپئیر کے اس فقرے اور آپ کی والدہ سے مکمل اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت شہروں کی دو تہائی آبادی نیند کی قلت کا شکار ہے۔ نیند کی اہمیت کے بارے معاشرے میں اس قدر لاعلمی اس وجہ سے پائی جاتی ہے کہ تاریخی طور پر سائنس یہ بتانے میں ناکام رہی کہ نیند کیوں؟ یہ ایک بائیولوجیکل اسرار رہی۔ سائنس کے کمالات ۔۔۔ جینیات، مالیکیولر بائیولوجی، ہائی پاور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ۔۔۔ نیند کی تجوری کے قفل کھولنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس لاعلمی کو بیان کرنے کے لئے ہم تصور کرتے ہیں کہ آپ کے گھر پہلی اولاد ہوئی ہے اور ڈاکٹر آ کر آپ کو بتاتی ہے،“مبارک ہو! صحت مند لڑکا ہے۔ اس کے سارے ٹیسٹ ٹھیک ہیں۔ سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ اب سے لے کر اور اپنی تمام زندگی میں یہ بچہ بار بار بے ہوشی کی سی کیفیت میں چلا جایا کرے گا۔ اور اس دوران یہ کئی بار عجیب عجیب چیزیں بھی دیکھا کرے گا۔ یہ کیفیت اس کی زندگی کا ایک تہائی وقت اس پر طاری رہے گی اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ یہ ایسا کیوں کرے گا اور ایسا ہوتا کیوں ہے”۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہی حقیقت تھی۔ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے پاس اس کا کوئی اچھا جواب نہیں تھا کہ ہم سوتے کیوں ہیں۔ زندگی کی دوسری بنیادی جبلتوں ۔۔ کھانا، پینا اور نسل آگے بڑھانا ۔۔۔ کے برعکس ہزاروں سال سے ہمیں اس جبلت کی وجہ معلوم نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سوتے کیوں ہیں؟ یہ سوال بہت عرصہ معمہ رہا۔ یہ غلط سوال تھا کیونکہ اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ نیند کا کوئی ایک فنکشن ہے۔ اس کے غلط یا نامکمل جواب بے بہا رہے ہیں۔ منطقی (توانائی محفوظ رکھنے کا وقت)، عجیب (آنکھ کی آکسیجینیشن کا موقع)، نفسیاتی (لاشعور میں اپنے نامکمل خواہشات کے اظہار کی حالت)، لیکن پچھلے بیس سال میں اس میں ہونے والی دریافتوں کی تیز پیشرفت نے اس بارے میں ہماری سوچ الٹا دی ہے۔ نیند سے جسم اور دماغ کیلئے ہونے والے فوائد کی ایک کہکشاں ہے۔ جسم کا کوئی ایک بھی ایسا عضو نہیں جو اس سے مستفید نہ ہوتا ہو اور نیند پوری نہ ہونے سے اس کو ضرر نہ پہنچتا ہو۔ یہ فطرت کا وہ نسخہ ہے جو آپ کے لئے لکھ دیا گیا ہے اور چوبیس گھنٹے کے سائیکل پر آپ نے اس پر عمل کرنا ہے۔ (کئی لوگ ایسا نہیں کرتے)۔دماغ میں سیکھنے کی صلاحیت، یادداشت، منطقی فیصلے لینے اور ٹھیک انتخاب کرنے، گہری فکر، نفسیاتی استحکام میں نیند مددگار ہے ہے۔ ہم خوابوں کے فوائد بھی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے ایک پرسکون نیوروکیمیکل شاور تکلیف دہ تجربات سے مرہم کا کام کرتا ہے۔ اس دوران ایک ورچوئل حقیقت کی جگہ بنا دیتا ہے جہاں ہمارا ماضی اور حال کا نالج مل کر نئے تجربات جوڑتا ہے، تخلیقی صلاحیت کو جلا ملتی ہے۔جسم میں امیون سسٹم کے ہتھیاروں کا سٹاک بنتا ہے، انفیکشن سے بچاوٴ میں مدد ملتی ہے۔ کئی بیماریاں اس حالت میں دور بھگائی جاتی ہیں۔ جسم کا میٹابولزم ایڈجسٹ ہوتا ہے۔ انسولین اور گلوکوز کی حالت ٹیون ہوتی ہے۔ آنتوں میں جراثیم کا صحت مند ماحول پنپتا ہے۔ دورانِ خون کے نظام میں فٹنس آتی ہے۔ بلڈ پریشر کم ہوتا ہے۔ دل کی حالت بہتر ہوتی ہے۔ صحت مند زندگی کے لئے متوازن غذا اور ورزش بہت ضروری ہیں لیکن اس مثلث میں نیند زیادہ ضروری فورس ہے۔ ایک رات کی خراب نیند ایک روز کی ورزش اور خوراک کی خرابی سے زیادہ مضر اثرات ڈالتی ہے۔ نیند کے بارے میں سائنس کی نئی سمجھ سے ہم اب یہ سوال نہیں کرتے کہ نیند کس کام کیلئے اچھی ہے بلکہ یہ کہ کیا کوئی بھی جسمانی نظام ایسا ہے جو ایک اچھی رات کی نیند سے فائدہ نہیں اٹھاتا؟ ہزاروں سٹڈیز سے ابھی تک جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ شاید اس کا جواب نفی میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا دوسرا اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نیند پر تحقیق سے معلوم ہونے والے فوائد پبلک ہیلتھ پر ہونے والی بحث اور عام لوگوں تک پہنچنے والی آگاہی کا حصہ نہیں۔اس حد تک کہ کلچر میں سونے کو سستی اور کاہلی سمجھا جاتا ہے۔ رات کو کم سونے کو اور دیر تک کام کرنے کے بارے میں فخریہ بتایا جاتا ہے۔ جس طرح تمباکونوشی کرنے یا کھانے میں الم غلم کھانا شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اس کو چھپایا جاتا ہے۔ کم نیند بھی اپنے اوپر کیا گیا ویسا ہی ظلم ہے جس کو معاشرے میں ویسی ہی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگر آپ اپنی زندگی اور لائف سٹائل میں ایک تبدیلی کرنا چاہتے ہیں تو وہ روزانہ کے آٹھ گھنٹے کی نیند ہے۔ کیا کہا؟ آپ چھ گھنٹے کی نیند کے ساتھ بھی چاق و چوبند رہ سکتے ہیں اور بالکل ٹھیک کام کر سکتے ہیں؟ بہت سے لوگوں کا ایسا خیال ضرور ہوتا ہے لیکن سات گھٹنے سے کم نیند کے ساتھ ایسا کر سکنے والوں کی تعداد دنیا میں صفر ہے۔کیا کہا؟ آپ نیند ویک اینڈ پر پوری کر لیتے ہیں؟ آپ کے ساتھ بھی معذرت۔ نیند روز عمل کرنے والا نسخہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا قوم سو رہی ہے؟ اگر نہیں، تو یہ تشویش کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیند پر اکیسویں صدی کی تحقیق پر پڑھنے کے لئے عام فہم کتابWhy We Sleep: Matthew Walker

No comments:

Post a Comment