Monday, 25 March 2024
کہانی 21 گرام کی- (انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی خاطر کیا جانے والا دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد تجربہ-)قدیم مصر کے لوگوں کا خیال تھا کہ موت کے بعد انسان ایک لمبے سفر پر نکل جاتا ہے۔ انکا خیال تھا کہ یہ سفر بہت کٹھن ہوتا ہے جس میں وہ سورج کے دیوتا (جسے مصری را کہتے تھے) کی کشتی پر سوار ہو کر "ہال آف ڈبل ٹروتھ" تک پہنچتا ہے۔ ان کے مطابق سچائی کا پتا لگانے والے اس ہال میں روح کے اعمال کو جانچا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور وہاں حق اور انصاف کا موازنہ انسان کے دل کے وزن سے کیا جاتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ انسان کے سارے اچھے اور برے اعمال اس کے دل پر لکھے ہوتے ہیں۔ اگر انسان نے ایمانداری سے زندگی گزاری ہے تو اس کی روح کا وزن پنکھ کی طرح ہلکا ہوگا اور اسے مصری خدا اوسائرس کی جنت میں سدا کے لیے جگہ مل جائے گی۔اسی طرح جدید سائنسی دور کے ڈاکٹروں کے خیال میں روح کا بھی ایک خاص وزن ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑا نام ڈاکٹر ڈنکن کا ھے- ڈاکٹر ڈنکن جہاں کام کرتے تھے وہاں آئے دن لوگوں کی موت واقع ہوتی اور ہسپتال میں وزن کرنے والی مشین دیکھ کر ان کے ذہن میں انسانی روح کا وزن کرنے کا خیال ابھرا- انکی چھ سالہ تحقیق کے مطابق "انسان کی موت کے بعد جب اس کی روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم میں بدلاؤ آتا ہے-" اور وہی بدلاؤ روح کا اصل وزن ھے- ان کی تحقیق کا مقصد قدیم مصریوں کے اعتقاد کو ثابت کرنا یا مصر کے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے نہیں تھا لیکن تحقیق کا موضوع اس قدیم عقیدے سے مطابقت رکھتا تھا- انھوں نے اپنی تحقیق کی ابتدا ہی اس بات سے کی کہ مرنے کے بعد روح انسانی جسم سے جدا ہو جاتی ہے یعنی وہ روح کے ہونے یا نہ ہونے پر سوال نہیں کر رہے تھے لیکن ان کی تحقیق کے نتیجے میں سائنسی سطح پر اس چیز کو تسلیم کرنے کا امکان موجود تھا- ڈاکٹر ڈنکن میک ڈوگل نے ایک خاص طرح کا بستر بنایا جس کا وزن بہت ہلکا تھا اور اسے ہسپتال میں موجود بڑے ترازو پر فٹ کیا- انھوں نے ترازو کا توازن اس طرح بنایا کہ اس میں ایک اونس سے بھی کم (ایک اونس تقریبا 28 گرام) وزن کیا جاسکتا تھا- جو لوگ شدید بیمار ہوتے یا جن کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی انھیں اس مخصوص بستر پر لیٹا دیا جاتا اور ان کے موت کے عمل کو باریک بینی کے ساتھ دیکھا جاتا- جسم کے وزن میں کسی قسم کی تبدیلی کو وہ اپنے نوٹ بک میں لکھتے رہتے۔ اس دوران وہ یہ فرض کرتے ہوئے وزن کا حساب بھی لگاتے کہ جسم میں پانی، خون، پسینے، پاخانے، پیشاب یا آکسیجن، نائٹروجن کی سطح میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ان کی تحقیق میں مزید چار ڈاکٹرز ان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور سبھی الگ الگ اعداد و شمار رکھتے تھے۔اپنی تحقیق سے ڈاکٹر ڈنکن نے دعوی کیا کہ "جب کوئی شخص اپنی آخری سانس لیتا ہے تو اس کے جسم میں آدھا یا سوا اونس وزن میں کمی ہو جاتی ہے۔" ڈاکٹر ڈنکن کا کہنا تھا کہ "جس وقت جسم غیر فعال ہو جاتا ہے، اسی لمحے ترازو کا پلڑا تیزی سے نیچے آجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جسم سے اچانک کوئی چیز نکل گئی ہے۔"ڈاکٹر ڈنکن کے مطابق انھوں نے یہ تجربہ 15 کتوں کے ساتھ بھی کیا اور ان میں نتائج منفی تھے۔ انھوں نے کہا کہ کتوں کی موت کے وقت اس کے جسمانی وزن میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی- انھوں نے اس تجربے کے نتائج کو اس طرح بیان کیا کہ موت کے وقت انسان کے جسمانی وزن میں تبدیلی آتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں روح ہوتی ہے لیکن کتوں کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے۔اس تحقیقی نتیجے کے مرحلے کے مطابق انسانی جسم کا وزن پہلے اچانک کم ہوا اور پھر کچھ وقت کے بعد اس میں اضافہ ہوا۔ ایک اور صورت میں پہلے جسم کا وزن اچانک کم ہوا پھر بڑھ گیا اور ایک بار پھر اس میں کمی واقع ہوئی۔اس تحقیق پر لوگ دو خیموں میں بٹے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ مذہب میں یقین رکھنے والے امریکہ کے کچھ اخبارات نے کہا ہے کہ تحقیق کے ان نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ روح و اعمال کا وجود ہے- تاہم خود ڈاکٹر ڈنکن نے کہا کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ان کی تحقیق نے کچھ بھی ثابت کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق صرف ابتدائی تفتیش ہے اور اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ سائنسی طبقہ نے نہ صرف ان کی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کے تجربے کی صداقت کو قبول کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا لیکن ڈاکٹر ڈنکن نے جن چھ افراد پر تحقیق کی تھی ان میں سے پہلے جسم میں آنے والی تبدیلی آج بھی بحث کا موضوع ہے اور اس تحقیق کی بنیاد پر بہت سارے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ ایک انسانی روح کا وزن تین چوتھائی اونس یا 21 گرام ہے- یہ ڈاکٹر ڈنکن کے مریضوں کی اموات پر جسم میں آنے والی وہ تبدیلی تھی جسے 21 گرام کا نام دیا گیا-Edited by Muhammad Nadeem Saleem.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment