Wednesday, 20 March 2024
بہادر خواتین اسلام (صحابیات) ۔۔۔۔عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات عورت اس ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کا مرد بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔ غزوہِ حنین 8ھ 629ء میں لڑئی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد جب مکہ سے کوچ کررہے تھے تو خبر دینے والوں نے آپ تک یہ خبر پہنچائی کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف آپ پر حملہ کرنے کے لیے چکے ہیں ۔۔ قبیلہ ہوازن کی سرداری ایک نوجوان شخص جس کا نام مالک بن عوف نصری کررہے تھے نے بنو ثقیف کو جنگ کے لیے یہ کہہ کر ابھارا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم پر حملہ آور ہونے والے ہیں ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کردیں ہم پہلے حملہ کریں گے۔۔۔ اسکے بعد بنو ثقیف کے دو سردار قارب بن اسود اور احمر بن حارث مالک بن عوف کیساتھ مل گئے ۔۔۔ مالک بن عوف بڑے غرور سے کہہ رہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب تک جن لوگوں سے لڑ رہے تھے ان کو لڑنے کا ہنر اور ان میں شجاعت کی کمی تھی ہم جیسے جنگجووں سے انکا واسطہ نہیں پڑا ۔۔۔۔۔۔۔ حنین کے مقام پر جمع ہوئے تو ایک معمر شخص جنکا نام درید بن صمہ تھا جو اس وقت 150 سال سے زائد کے تھے اور آنکھوں کی بینائی بھی نہیں تھی جو انتہائی تجربہ کار اور جنگجو شخص گزرے تھے۔۔ انہیں جب وہاں لایا گیا تو انہوں نے زمین کے متعلق پوچھا یہ کون سی جگہ ہے تو انہیں بتاتا گیا کہ یہ اوطاس کا میدان ہے زمین دیکھنے کے بعد درید بن صمہ نے کہا یہ زمین نہ بہت سخت پتھریلی چٹانوں والی ہے نہ اس قدر نرم کے سواری دھنس جائے ۔۔۔ اسکے بعد دریافت کیا کہ بنو کعب اور کلاب کہاں ہیں انہوں نے کہا وہ ساتھ نہیں آئے ۔۔۔ بوڑھے شیخ درید نے کہا تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمھارا مقابلہ ایک معزز شخص سے ہے تمھیں شکست ہوگی بہتر یہی ہے کہ واپس چلے جاو۔۔۔ مالک بن عوف نے کہا ! یہ بوڑھا ہوچکا ہے اسے کیا معلوم اسے لے جاؤ ۔۔۔ ہوازن اور بنو ثقیف کے لوگوں نے اپنے دفاع کے لیے خواتین بچوں اور مال متاع کیساتھ میدان جنگ میں پڑاؤ ڈالا تھا تاکہ وقت ضرورت جنگ میں کام آسکے۔۔۔۔ بنو کلاب اور کعب اس جنگ میں اس لیے شریک نہیں ہوئے کیوں کہ انہیں ابن ابی براء نے منع کیا تھا ۔۔ بقول براء کہ اگر اہل مشرق اور اہل مغرب جمع ہوجائیں تب بھی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شکست نہیں دے سکتے یہی وجہ تھی کہ کعب اور کلاب باز رہے جنگ سے ۔۔۔ غزوہِ حنین کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر ترتیب دی انکی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں دس ہزار مہاجرین اور انصار تھے باقی نوجوان وہ تھے جو فتح مکہ کے وقت اسلام لائے ۔۔۔ جب تیاری شروع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے زرہیں اور ہتھیار ادھار مانگ لیے تو صفوان بن امیہ نے دے دیے اور کہا کہ وہ بھی اس جنگ کو دیکھنے آئیں گے ۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو اہل مکہ جو اب تک غیر مسلم تھے وہ ساتھ چلنے لگے جن میں صفوان بن امیہ ، حکیم بن حزام ، حویطب بن عبد العزی ، سھیل بن عمرو ، ابو سفیان بن حرب ، عبداللہ بن ربیعہ تھے ۔۔ یہ لوگ اس لیے چل رہے تھے کہ فتح کس ہوگی ان میں سب سے زیادہ بے چین صفوان بن امیہ تھے کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی تھے لیکن اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکر اسلام جب وادی میں اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں پہن رکھے تھے اور لشکر کو ترتیب دے رہے تھے ۔ اور جہاد کی ترغیب دے رہے تھے ۔۔۔ بنو سلیم بھی مکہ سے روانہ ہوکر وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان پر عامل مقرر فرمایا۔۔۔ اچانک حملہ حضرت انس کی زبانی ۔۔۔۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔ جب ہم وادی میں پہنچے یہ تہامہ کی وادیوں میں سے ایک تھی اس میں گھاٹیاں اور تنگ درے تھے ۔ ہوازن ہمارے سامنے تھے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس زمانے میں کبھی اتنی سیاہی یعنی جم غفیر اور کثرت نہیں دیکھی ۔۔ وہ لوگ اپنی عورتوں ، اموال ، اور آل اولاد کو بھی لائے تھے، پھر انہوں نے صف بندی کی ۔ عورتوں کو مردوں کے پچھلے صفوں میں اونٹوں پر بٹھا دیا۔ پھر وہ اونٹوں، گایوں اور بکریوں کو لائے اور انہیں پیچھے رکھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں ۔۔۔ صبح کی روشنی ہلکی پڑ رہی تھی پہلے پہل ہم انہیں مرد خیال کررہے تھے ۔۔ جب ہم میدان میں اترے تو صبح کی روشنی پڑتے ہی وہ ہم پر اچانک حملہ آور ہوئے جس سے بنو سلیم کے گھڑ سوار جو سب سے آگے تھے بھاگ نکلے ۔۔۔۔انکو دیکھ کر مکہ والے بھی بھاگ گئے ۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا حوصلہ اور شجاعت ۔۔۔۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دائیں بائیں دیکھ ریے تھے اور لوگ بھاگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ۔۔ اے اللہ کے مدد گارو ! اور اسکے رسول کے مدد گارو! میں اللہ کا بندہ اور اسکا صبر کرنے والا رسول ہوں ۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹا نیزہ لیے لوگوں کے آگے بڑھتے جارہے تھے ۔۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ! ہم نے جو تلوار چلائی اور نیزہ گھمایا تو اللہ نے انہیں شکست دی ۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لشکر کی طرف لوٹ آئے ۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ جو ثابت قدم رہے ان میں کل سو لوگ تھے ۔۔۔ جن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، عباس رضی اللہ عنہ علی المرتضی رضی اللہ عنہ ، فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ شامل تھے ۔۔۔۔ خواتین اسلام کی بہادری ۔۔۔۔۔اس جنگ میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھی وہ فرماتی ہیں۔۔۔جو ہوازن کی جانب سے حملہ تو شکست خوردہ بھاگ رہے تھے اور میں چار عورتوں کے ساتھ تھی میرے میری تلوار تھی اور ام سلیم کے پاس خنجر تھا۔ ام سلیم ان دنوں حاملہ تھی انکی کوکھ میں عبداللہ بن ابی طلحہ تھے ۔۔۔ اسکے علاؤہ ام حارث اور ام سلیط بھی تھیں ۔۔یہ خواتین تلوار لیے انصار کو چیخ چیخ کر پکار رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ یہ تمھاری عادت نہیں کہ تم میدان جنگ سے بھاگ جاؤ ۔۔۔مزید فرماتی ہیں۔۔ میں قبیلہ ہوازن کے ایک شخص کو دیکھ رہی تھی جو خاکی رنگ کے اونٹ پر سوار تھا اسکے پاس جھنڈا تھا ۔۔ وہ اپنے اونٹ کو مسلمانوں کو پچھے بھگا رہا تھا ۔۔ میں اسکے سامنے آگئی اور اونٹ پر وار کیا وہ اونٹ پشت کے بل گر گیا میں فوراً اس شخص پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اسکی تلوار لے لی اور اونٹ جو دھاڑتے ہوئے یونہی چھوڑ دیا ۔۔۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو پکارا تو واپس آگئے اسکے بعد ہوازن کو شکست ہوئی ۔۔۔۔ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو آپ پر ایمان لائے، پھر آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور آپ کو رسوا کردیا۔۔۔ آپ ان کو ہر گز معاف نہ کیجیے گا۔۔ جب اللہ نے آپ کو ان پر قدرت دے تو انکو بھی مشرکوں کی طرح قتل کر دیجیے گا۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! اللہ کافی ہے اور اللہ کی عافیت وسیع ہے۔۔ ام سلیم کیساتھ اس دن ابو طلحہ کا اونٹ تھا اس ڈر تھا کہ وہ اونٹ غالب کر بھاگ جائے گا۔۔ انہوں نے حاملہ ہونے کے باوجود ام سلیم نے اونٹ کو اپنے سر کے قریب کیا اور اپنا ہاتھ لگام کے ساتھ اسکے حلقے میں ڈالا اور اسکے درمیان میں اپنی چادر باندھ رہی تھیں ان سلیم کے ہاتھ میں خنجر بھی تھا۔۔۔ ابو طلحہ نے پوچھا : اے ام سلیم! یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ انہوں کہا خنجر ہے اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اسکا پیٹ پھاڑ دوں گی۔۔ حضرت ابو طلحہ مسکرائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سن رہے ہیں ام سلیم کیا کہہ رہی ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا دیا ۔۔ ام حارث انصاریہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابو حارث کے اونٹ کی لگام پکڑی ہوئی تھی انکے اونٹ کا نام مجسار تھا ۔۔ انہوں کہا اے ابو حارث تم اللہ کے رسول کو چھوڑتے ہو ؟ میں نے اونٹ کی لگام پکڑ رکھی ۔۔ وہاں باقی اونٹوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر ابو حارث کا اونٹ کا بھی کوشش کررہا تھا ان کیساتھ جاکر مل جائے لیکن ام حارث نے اسے مظبوطی سے پکڑی ہوئی تھی۔۔ وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب آ رہے تھے ان سے ام حارث نے ان لوگوں کے متعلق پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ یعنی یہ کہاں بھاگ رہے ہیں؟ تو حضرت عمر فاروق رضی عنہ نے فرمایا : یہ امر الٰہی ہے ۔۔۔ اس پر ام حارث نے غصے میں آکر کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو میرے اونٹ سے گزرے گا یعنی آگے نکل جائے گا میں اسے قتل کر دوں گی ۔۔۔ اللہ کی قسم آج کے دن کی طرح میں نے نہیں دیکھا ۔ یہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔۔ ام حارث بنو سلیم اور اہل مکہ کے بارے میں کہہ رہی تھی جو شکست کھا کر بھاگ رہے تھے۔۔۔ محمد رفیق مینگل ۔۔۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment