Wednesday, 27 March 2024

مغل 1707ء تا 1857ء ایک جائزہمغلیہ سلطنت نے 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر شاندارحکومت کی تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ مغل سلطنت کی بنیاد 1526ء میں بابر نے رکھی ۔ اس کے بعد 1707ء تک یہ حکومت اپنے عروج تک رہی۔ پھر اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد یہ زوال پذیر ہونی شروع ہوگئی۔ آپ کو مغلیہ سلطنت کے بارے میں تاریخ میں بے شمار مواد مل جائے گا۔ بابر 'ہمایوں ( بیچ میں شیر شاہ سوری کادور) پھر اکبر ' جہانگیر' شاہ جہاں اور اورنگ زیب تک آپ کو مغلیہ تاریخ کے اس سنہری دور کے تمام بادشاہوں کے نام اور ان کے کارنامے تک شاید یاد ہوں۔ اورنگ زیب کے زمانے تک تو مضبوط حکومت قائم تھی مگر 1707 کے بعد حالات نے اس تیزی سے پلٹا کھایا کہ ان کو جاننے سے ہی ہمیں اصل تصویر نظر آنے لگے گی۔ یہ بات پہلے سے بتا دیں کہ 18ویں صدی یعنی 1701 سے 1799 تک صرف جنوبی ایشیا اور مغل دربار ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بڑی بادشاہتوں کے ٹوٹنے اور جغرافیائی بنیادوں پر چھوٹی بادشاہتوں یا قومی ریاستوں کے بننے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ خود سلطنت برطانیہ یعنی Great Britainبھی انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے اشتراک سے1707 میں بنی تھی۔تقریباً 50 برس حکومت کرنے کے بعد مارچ 1707 میں اورنگ زیب کا عہد اس کی موت پر ختم ہوا تو اس کا فرزند محمد اعظم تخت نشین ہوا جو محض تین ماہ برسراقتدار رہا کہ اس کے بھائی معظم نے اسے ایک جنگ میں قتل کر ڈالا۔ 63 سالہ معظم بہادر شاہ اول کہلایا اور 1712 میں لاہور میں اس کا انتقال ہو گیا۔ لاہور ہی میں تاج شاہی پر بیٹھنے والا معظم کا فرزندجہاندار شاہ محض ایک سال حکومت کر سکا اور 1713 میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سید برادران کی مدد سے ’’فرخ سیار (سیر)‘‘ نے مغل دربار سنبھالا مگر انہی کے ہاتھوں وہ اندھا ہو کر 1719 میں راہی ملک عدم ہوا۔ یہ معظم کا پوتا اور ’’عظیم الشان‘‘ کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد معظم ہی کے دوسرے بیٹے ’’رفیع الشان‘‘ کا بیٹا ’’رفیع الدرجات‘‘ اقتدار میں آیا اور محض چار ماہ گذار سکا۔ اس کے بعد اس کا رشتے کا بھائی رفیع الدولہ بھی تین ماہ کے لیے تاج شاہی پر براجمان ہوا۔ ان کے بعد نصیرالدین محمد شاہ نے تخت سنبھالا جو 1748 تک ٹوٹتے ہوئے مغل دربار کو کبھی تخت پر بیٹھ کر اور کبھی خیمہ میں نظربند ہو کر گھسیٹتا رہا۔ ا1739 میں نادر شاہ افشار قندھار، غزنی، کابل، لاہور میں لشکرکشیاں کرتا ہوا تخت دلی پر جا بیٹھا، اپنا خطبہ بھی پڑھوایا اور مغل شہنشاہ کو خیمہ میں مقید کر دیا۔ پھر اس سے من مرضی کے فیصلے کروا کر محمد شاہ کو دوبارہ اقتدار بخشا اور واپس چلا آیا۔ 1747 میں جب وہ خراسان میں قتل کردیا گیا تو احمد شاہ ابدالی کی لشکری مہمیں شروع ہو گئیں جو 1765 تک جاری رہیں۔ اس دوران 1748 سے 1754 کے دوران مغل تخت پر احمد شاہ بہادر تخت نشین رہا تو 1754 سے 1759 تک عزیزالدین عالمگیر جبکہ 1759 سے 1806 تک بظاہر مغل تخت پر علی گوہر شاہ عالم دوئم برسراقتدار رہا۔ مگر اس دوران بنگال سے پنجاب تک کہیں مرہٹے تو کہیں پنجابی مضبوط ہو رہے تھے تو کہیں احمد شاہ ابدالی، فرانسیسی اور انگریز لشکرکشیاں کر رہے تھے۔ یہ سب ٹوٹتی ہوئی بادشاہت کا زمانہ تھا کہ جسے عدم مرکزیت کی عینک سے دیکھیں تو بات زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے۔ اس دوران پلاسی (1757)، پانی پت (1761) اور بکسر (1764) کی جنگیں ہو چکی تھیں جس میں مغل تخت لاچار اور صوبائی سرکاریں ہوشیار نظر آتی ہیں۔ جب 1761 میں احمدشاہ اور مرہٹوں نے پنجاب (پانی پت) میں لڑائی لڑی تو مغل بادشاہ دلی میں بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ وہ نہ تین میں تھا نہ تیرہ میں۔ بکسر کی جنگ کے بعد تو لارڈ کلائیو نے بنگال، بہار، اڑیسہ کی دیوانی اپنے نام شاہ عالم ثانی سے لکھوا لی تھی۔ حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے تھے کہ 1773 میں تو کمپنی کے لامحدود اختیارات کو تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے کر عملاً کمپنی کو ’’محدود‘‘ کر دیا تھا۔ یوں برطانوی حکومت نے کمپنی کی بادشاہی کا اسی وقت خاتمہ کر ڈالا تھا۔ تاہم پنجاب پر 1767 سے 1797تک سہہ حاکمان لاہور نے 30 سال تسلسل سے حکومت کر کے اس کی حیثیت کو مضبوط کیا۔ 1803 میں تو انگریزوں نے شاہ عالم ثانی (دوئم) یعنی بہادر شاہ ظفر کے دادا کی پنشن بھی مقرر کر ڈالی تھی۔ لارڈ لیک اور لارڈ ولزلی نے جس طرح یہ سب کیا یہ تمام کتب میں محفوظ ہے۔ ’’لارڈ ایلن برا‘‘ نے تو انہی دنوں بادشاہ کو دئیے جانے والے نذرانے بھی بند کروا دیئے۔ یہ ٹوٹ چکا مغل دربار تھا کہ جس میں خود شاہ عالم دلی کے ریذیڈنٹ چارلس مٹکاف کو فرزند ارجمند لکھتا تھا۔ مگر پھر ہاروے جیسے افسروں نے فرزند ارجمند لکھنے پر بھی اعتراض لگا دیاتو بادشاہ کو اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ اس زمانے میں یہ محاورے عام تھے جیسے حکومت بادشاہ کی اور حکم انگریز (کمپنی) کا یا پھرحکومت شاہ عالم: ازدلی تا پالم۔ (پالم پایہ تخت سے چند میل کے فاصلہ پر تھا۔) محاوروں میں جو تاریخ رقم ہے اسے تاریخ دان کہاں لے جائیں گے کہ عوامی تاریخ کا ایک بنیادی ماخذ تو محاوروں،لوک داستانوں اور شاعری میں محفوظ ہے۔ 1806 کے بعد مرزا اکبر کو اس مغل تخت پر بٹھایا گیا اور اس کے بعد 1837 میں بہادرشاہ ظفر کی باری بھی آ ہی گئی۔ 1837 سے 1857 کے دوران تمام تر فیصلے کون کر رہا تھا؟ 1835 میں میکالے نے تقریر کی اور 1837 میں ماسوائے پنجاب، ہر جگہ سے انگریزوں نے فارسی بھی ختم کر ڈالی۔پنجاب بشمول کشمیر، سرحد، فاٹا میں تو ’’لہور دربارــ‘‘ کی حکومت تھی۔ تمام تر اہم فیصلوں میں مغل دربار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ انگریزوں نے تو فرانسیسیوں کو 1799 ہی میں شکست دے ڈالی تھی اور ٹیپو سلطان بھی حیدرعلی کی میراث بچا نہ سکے تھے البتہ پنجاب میں ’’لہور دربار‘‘ نے 1799 سے 1849 تک انگریزوں کی حکومت نہ بننے دی۔ ’’لہور دربار‘‘ کا مغل دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب آپ ہی بتائیں آپ کو 1707 کے بعد برسراقتدار آنے والے مغل حکمرانوں کے نام یاد بھی رہے ہیں یا نہیں؟ اکبر، اورنگ زیب کا ’’مغل دربار‘‘ تو کب کا ختم ہو چکا تھا۔ پوری 18ویں صدی اور 19ویں صدی کے پہلے نصف کی تاریخ گواہ ہے تو پھر بیچارے بہادر شاہ ظفر کو اب معاف کر دینا چاہیے۔ محض 1857 کے واقعات کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لیے آپ اس بیچارے کو کیوں رگڑ رہے ہیں۔ مغلوں کی شان و شوکت تو 1707 میں ختم ہو گئی تھی جو باقی بچی تھی اسے نادرشاہ، احمد شاہ اور مرہٹوں نے اور بعد میں انگریزوں نے 1764 تک پارہ پارہ کر دیا تھا۔ اب اسے مزید کھینچنے کی کیا ضرورت تھی۔ 1857 کے واقعات کو کسی اور طرح بھی لکھا جا سکتا تھا۔ مگر جب پہلے سے نظریہ بنا لیا جائے تو تاریخ کے ساتھ یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر ہی آخری مغل بادشاہ تھا اور اس کے بعد مغل بادشاہت میں سے جغرافیائی بادشاہتیں برآمد ہوئیں۔ اگر انگریز نہ آتے تو امریکہ کی طرح یہاں بھی یہ جغرافیائی وحدتیں مضبوط ہو کر مشترکہ وفاق بنا سکتی تھیں۔ یہ ہے وہ تاریخ جسے جنوبی ایشیا کی نصابی کتابوں میں بوجوہ جگہ نہیں مل سکی۔

No comments:

Post a Comment