Friday, 22 March 2024
ایک انسان کے اندر کھربوں خلیے ہیں اور ہر خلیہ میں 46 کروموسومز ہیں ۔ اسی کروموسوم میں انسان کا سب سے قیمتی خزانہ (Data) ڈی این اے کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔ اگر ایک ڈی این اے کو دیکھا جائے تو یہ بہت ہی پیچیدہ ساخت رکھتا ہے ، یہ کل چار بیسز A, G, T, Cسے مل کر بنا ہوتا ہے۔ یہی بیسز آگے پیچھے مل ایک دھاگہ نما ساخت بناتے ہیں ۔اگر ہم ڈی این اے کی ساخت دیکھے تو یہ سیڑھیاں نما سی ہوتی ہے، یعنی ہمارا پورا ڈی این اے دو دھاگہ نما بیسز سے بنا ہوتا ہے ۔اگر ایک دھاگہ کا کوڈ ACTG ہے تو دوسرا اس کے بلکل برعکس TGAC ہوگا ۔میڈیکل سائنس میں اسی کو جین کوڈنگ کہتے ہیں اور اسی سے ہمیں ایک انسان کی خصوصیات معلوم ہوتی ہے ۔ اگر ایک انسان کی رنگت سفید ہے تو اس کا الگ کوڈ اور کالے رنگ والے کا الگ کوڈ ہوگا ۔ڈی این اے کو انسان کی لائبریری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی تمام معلومات اِن کوڈز کی شکل میں محفوظ رہتی ہے ۔ اسی کو استعمال کرتے ہوئے سائنسدان کئی صدیوں پرانے ڈھانچے سے ڈی این اے نکال کر اس کا سارا قصہ کھول دیتے ہیں ۔ڈی این اے مالیکیول جتنا اہم ہے اتنا ہی مستحکم یہ بنا ہوا ہے ۔ کیسے صدیوں پرانے ڈھانچے میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے لیکن ڈی این اے محفوظ رہتا ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ ڈی این اے پر منفی چارج ہوتا ہے اسی وجہ کوئی بھی دوسرا منفی چارج اس پر حملہ آور نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ ایک لمبے عرصے تک محفوظ رہتا ہے ۔ محمد زبیر راجپوت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment