Saturday, 30 March 2024

#وراثت#Inheritance کی تقسیم کا مکمل اور جامع قانونی طریقہ کار:(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی.(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے.(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی.جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار:(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں.(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی. (٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے گا.X(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ:(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے.(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا.(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی.(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا.(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا.(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا.(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ: (١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے. (٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے.(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا.(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا. (٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا. (3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا.(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے. (٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا.(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گ(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے.(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی.(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی.(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی.(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے. (٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا.(7): کلالہ: کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو.(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں: (١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے. (٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے.(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ اسکا جوکہ عورت کیلئے ہے.الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک الله ہر شے پر گواہ ہے. (4:33)مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)الله تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی (2/3) ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف (1/2) ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد اداۓ قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ الله کی طرف سے فریضہ ہے بیشک الله جاننے والا صاحب حکمت ہے. (4:11)اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف (1/2) حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی (1/4) حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی (1/3) میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب الله ہے اور الله جاننے والا بردبار ہے. (4:12)تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ الله تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجاۓ جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف (1/2) حصہ ہے. (اگر عورت ہلاک ہوجاۓ) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی (2/3) ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عورت کیلے ہے الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.#Law#قانون

Wednesday, 27 March 2024

تاریخ کو محفوظ کریں، یہ تاریخ کا سب سے بڑا سورج گرہن لگنے جا رہا ہے اور سورج گرہن بھی ایسا جو پورے دن کو رات میں بدل دے ! 8 اپریل 2024 کو مکمل سورج گرہن نظر آئے گا اور دن رات میں بدل جائے گا۔ درجہ حرارت گر جائے گا، جانور کیچڑ سے بھر جائیں گے اور اندھیرا سورج کی روشنی کو رات میں بدل دے گا۔ ہم 375 سال تک اس طرح کا دوسرا مکمل سورج گرہن نہیں دیکھیں گے کوشش کریں اپنے بچوں کے صدقات دیں اپنے روحانی معالج اپنے مرشد اپنے پیر صاحبان سے رابطہ میں رہیں سورج گرہن ایسے لوگوں کے لیے سخت ترین حالات پیدا کر دے گا جو لوگ جادو کی زد میں ہیں لہٰذا نماز قرآن کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور اللہ سے اپنی حفظ و امان مانگیں اپنے بچوں کو کیوں کہ اللہ نے دعا سے بڑی طاقت کسی چیز میں نہیں رکھی آپ کا اللہ سے تعلق اگر مضبوط ترین ہے تو آپ کو کچھ بھی نہیں ہو سکتا اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم سب کو بری آفات سے محفوظ رکھے آمیندعا گو

*ہر انسان کی زندگی میں اہم طبی نمبر*1. بلڈ پریشر: 120/80 2. نبض: 70 - 100 3. درجہ حرارت: 36.8 - 37 4. تنفس: 12-16 5. ہیموگلوبن: مرد (13.50-18) خواتین ( 11.50 - 16 ) 6. کولیسٹرول: 130 - 200 7. پوٹاشیم: 3.50 - 5 8. سوڈیم: 135 - 145 9. ٹرائگلیسرائیڈز: 220 10. جسم میں خون کی مقدار: پی سی وی 30-40% 11. شوگر: بچوں کے لیے (70-130) بالغ: 70 - 115 12. آئرن: 8-15 ملی گرام 13. سفید خون کے خلیات: 4000 - 11000 14. پلیٹلیٹس: 150,000 - 400,000 15. خون کے سرخ خلیے: 4.50 - 6 ملین۔ 16. کیلشیم: 8.6 - 10.3 ملی گرام/ڈی ایل 17. وٹامن ڈی 3: 20 - 50 این جی/ملی لیٹر (نینوگرام فی ملی لیٹر) 18. وٹامن B12: 200 - 900 pg/ml *جو لوگ اوور پہنچ چکے ہیں ان کے لیے تجاویز:* *40 سال* *50* *60* *پہلا مشورہ:* ہمیشہ پانی پئیں چاہے آپ کو پیاس نہ لگے یا ضرورت کیوں نہ ہو... صحت کے سب سے بڑے مسائل اور ان میں سے زیادہ تر جسم میں پانی کی کمی سے ہوتے ہیں۔ 2 لیٹر کم از کم فی دن (24 گھنٹے) *دوسرا مشورہ:* کھیل کھیلو یہاں تک کہ جب آپ اپنی مصروفیت کے عروج پر ہوں... جسم کو حرکت میں لانا چاہیے، چاہے صرف پیدل چل کر... یا تیراکی... یا کسی بھی قسم کے کھیل ہی کیوں نہ ہوں۔ 🚶 پیدل چلنا شروع کرنے کے لیے اچھا ہے... 👌 *تیسرا مشورہ:* کھانا کم کریں... ضرورت سے زیادہ کھانے کی خواہش کو چھوڑ دو... کیونکہ یہ کبھی اچھا نہیں لاتا۔ اپنے آپ کو محروم نہ کریں بلکہ مقدار کم کریں۔ پروٹین، کاربوہائیڈریٹس پر مبنی خوراک کا زیادہ استعمال کریں۔ *چوتھا مشورہ* جہاں تک ممکن ہو، گاڑی کا استعمال نہ کریں جب تک کہ بالکل ضروری نہ ہو... اپنے پیروں پر پہنچنے کی کوشش کریں جو آپ چاہتے ہیں ( گروسری، کسی سے ملنا...) یا کسی مقصد کے لیے۔ لفٹ، ایسکلیٹر استعمال کرنے کے بجائے سیڑھیوں کا دعوی کریں۔ *پانچواں مشورہ* غصہ چھوڑ دو... غصہ چھوڑ دو... غصہ چھوڑ دو... فکر چھوڑو.... چیزوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرو... اپنے آپ کو پریشانی کے حالات میں شامل نہ کریں ... یہ سب صحت کو کم کرتے ہیں اور روح کی رونق کو چھین لیتے ہیں۔ ایک نینی کا انتخاب کریں جس کے ساتھ آپ آرام دہ محسوس کریں۔ ان لوگوں سے بات کریں جو مثبت ہیں اور سنیں 👂 *چھٹا مشورہ* جیسا کہ کہا جاتا ہے.. اپنا پیسہ دھوپ میں چھوڑ دو.. اور سایہ میں بیٹھو.. اپنے آپ کو اور اپنے آس پاس والوں کو محدود نہ کرو.. پیسہ اس سے جینے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے لیے نہیں جینے کے لیے۔ *ساتواں مشورہ* اپنے آپ کو کسی کے لیے رنجیدہ نہ کرو، اور نہ ہی کسی ایسی چیز پر جو آپ حاصل نہ کر سکے، اور نہ ہی کوئی ایسی چیز جس کے آپ مالک نہ ہو سکے۔ اسے نظر انداز کریں، بھول جائیں؛ *آٹھواں مشورہ* عاجزی.. پھر عاجزی.. پیسے، وقار، طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے... یہ سب چیزیں ہیں جو تکبر اور تکبر سے خراب ہو جاتی ہیں.. عاجزی وہ ہے جو لوگوں کو محبت کے ساتھ آپ کے قریب لاتی ہے۔ ☺ *نواں مشورہ* اگر آپ کے بال سفید ہو جاتے ہیں، تو اس کا مطلب زندگی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک بہتر زندگی شروع ہو چکی ہے۔ پر امید بنیں، یاد کے ساتھ زندگی گزاریں، سفر کریں، خود سے لطف اندوز ہوں

مغل 1707ء تا 1857ء ایک جائزہمغلیہ سلطنت نے 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر شاندارحکومت کی تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ مغل سلطنت کی بنیاد 1526ء میں بابر نے رکھی ۔ اس کے بعد 1707ء تک یہ حکومت اپنے عروج تک رہی۔ پھر اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد یہ زوال پذیر ہونی شروع ہوگئی۔ آپ کو مغلیہ سلطنت کے بارے میں تاریخ میں بے شمار مواد مل جائے گا۔ بابر 'ہمایوں ( بیچ میں شیر شاہ سوری کادور) پھر اکبر ' جہانگیر' شاہ جہاں اور اورنگ زیب تک آپ کو مغلیہ تاریخ کے اس سنہری دور کے تمام بادشاہوں کے نام اور ان کے کارنامے تک شاید یاد ہوں۔ اورنگ زیب کے زمانے تک تو مضبوط حکومت قائم تھی مگر 1707 کے بعد حالات نے اس تیزی سے پلٹا کھایا کہ ان کو جاننے سے ہی ہمیں اصل تصویر نظر آنے لگے گی۔ یہ بات پہلے سے بتا دیں کہ 18ویں صدی یعنی 1701 سے 1799 تک صرف جنوبی ایشیا اور مغل دربار ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بڑی بادشاہتوں کے ٹوٹنے اور جغرافیائی بنیادوں پر چھوٹی بادشاہتوں یا قومی ریاستوں کے بننے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ خود سلطنت برطانیہ یعنی Great Britainبھی انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے اشتراک سے1707 میں بنی تھی۔تقریباً 50 برس حکومت کرنے کے بعد مارچ 1707 میں اورنگ زیب کا عہد اس کی موت پر ختم ہوا تو اس کا فرزند محمد اعظم تخت نشین ہوا جو محض تین ماہ برسراقتدار رہا کہ اس کے بھائی معظم نے اسے ایک جنگ میں قتل کر ڈالا۔ 63 سالہ معظم بہادر شاہ اول کہلایا اور 1712 میں لاہور میں اس کا انتقال ہو گیا۔ لاہور ہی میں تاج شاہی پر بیٹھنے والا معظم کا فرزندجہاندار شاہ محض ایک سال حکومت کر سکا اور 1713 میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سید برادران کی مدد سے ’’فرخ سیار (سیر)‘‘ نے مغل دربار سنبھالا مگر انہی کے ہاتھوں وہ اندھا ہو کر 1719 میں راہی ملک عدم ہوا۔ یہ معظم کا پوتا اور ’’عظیم الشان‘‘ کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد معظم ہی کے دوسرے بیٹے ’’رفیع الشان‘‘ کا بیٹا ’’رفیع الدرجات‘‘ اقتدار میں آیا اور محض چار ماہ گذار سکا۔ اس کے بعد اس کا رشتے کا بھائی رفیع الدولہ بھی تین ماہ کے لیے تاج شاہی پر براجمان ہوا۔ ان کے بعد نصیرالدین محمد شاہ نے تخت سنبھالا جو 1748 تک ٹوٹتے ہوئے مغل دربار کو کبھی تخت پر بیٹھ کر اور کبھی خیمہ میں نظربند ہو کر گھسیٹتا رہا۔ ا1739 میں نادر شاہ افشار قندھار، غزنی، کابل، لاہور میں لشکرکشیاں کرتا ہوا تخت دلی پر جا بیٹھا، اپنا خطبہ بھی پڑھوایا اور مغل شہنشاہ کو خیمہ میں مقید کر دیا۔ پھر اس سے من مرضی کے فیصلے کروا کر محمد شاہ کو دوبارہ اقتدار بخشا اور واپس چلا آیا۔ 1747 میں جب وہ خراسان میں قتل کردیا گیا تو احمد شاہ ابدالی کی لشکری مہمیں شروع ہو گئیں جو 1765 تک جاری رہیں۔ اس دوران 1748 سے 1754 کے دوران مغل تخت پر احمد شاہ بہادر تخت نشین رہا تو 1754 سے 1759 تک عزیزالدین عالمگیر جبکہ 1759 سے 1806 تک بظاہر مغل تخت پر علی گوہر شاہ عالم دوئم برسراقتدار رہا۔ مگر اس دوران بنگال سے پنجاب تک کہیں مرہٹے تو کہیں پنجابی مضبوط ہو رہے تھے تو کہیں احمد شاہ ابدالی، فرانسیسی اور انگریز لشکرکشیاں کر رہے تھے۔ یہ سب ٹوٹتی ہوئی بادشاہت کا زمانہ تھا کہ جسے عدم مرکزیت کی عینک سے دیکھیں تو بات زیادہ سمجھ آنے لگتی ہے۔ اس دوران پلاسی (1757)، پانی پت (1761) اور بکسر (1764) کی جنگیں ہو چکی تھیں جس میں مغل تخت لاچار اور صوبائی سرکاریں ہوشیار نظر آتی ہیں۔ جب 1761 میں احمدشاہ اور مرہٹوں نے پنجاب (پانی پت) میں لڑائی لڑی تو مغل بادشاہ دلی میں بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ وہ نہ تین میں تھا نہ تیرہ میں۔ بکسر کی جنگ کے بعد تو لارڈ کلائیو نے بنگال، بہار، اڑیسہ کی دیوانی اپنے نام شاہ عالم ثانی سے لکھوا لی تھی۔ حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے تھے کہ 1773 میں تو کمپنی کے لامحدود اختیارات کو تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے کر عملاً کمپنی کو ’’محدود‘‘ کر دیا تھا۔ یوں برطانوی حکومت نے کمپنی کی بادشاہی کا اسی وقت خاتمہ کر ڈالا تھا۔ تاہم پنجاب پر 1767 سے 1797تک سہہ حاکمان لاہور نے 30 سال تسلسل سے حکومت کر کے اس کی حیثیت کو مضبوط کیا۔ 1803 میں تو انگریزوں نے شاہ عالم ثانی (دوئم) یعنی بہادر شاہ ظفر کے دادا کی پنشن بھی مقرر کر ڈالی تھی۔ لارڈ لیک اور لارڈ ولزلی نے جس طرح یہ سب کیا یہ تمام کتب میں محفوظ ہے۔ ’’لارڈ ایلن برا‘‘ نے تو انہی دنوں بادشاہ کو دئیے جانے والے نذرانے بھی بند کروا دیئے۔ یہ ٹوٹ چکا مغل دربار تھا کہ جس میں خود شاہ عالم دلی کے ریذیڈنٹ چارلس مٹکاف کو فرزند ارجمند لکھتا تھا۔ مگر پھر ہاروے جیسے افسروں نے فرزند ارجمند لکھنے پر بھی اعتراض لگا دیاتو بادشاہ کو اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ اس زمانے میں یہ محاورے عام تھے جیسے حکومت بادشاہ کی اور حکم انگریز (کمپنی) کا یا پھرحکومت شاہ عالم: ازدلی تا پالم۔ (پالم پایہ تخت سے چند میل کے فاصلہ پر تھا۔) محاوروں میں جو تاریخ رقم ہے اسے تاریخ دان کہاں لے جائیں گے کہ عوامی تاریخ کا ایک بنیادی ماخذ تو محاوروں،لوک داستانوں اور شاعری میں محفوظ ہے۔ 1806 کے بعد مرزا اکبر کو اس مغل تخت پر بٹھایا گیا اور اس کے بعد 1837 میں بہادرشاہ ظفر کی باری بھی آ ہی گئی۔ 1837 سے 1857 کے دوران تمام تر فیصلے کون کر رہا تھا؟ 1835 میں میکالے نے تقریر کی اور 1837 میں ماسوائے پنجاب، ہر جگہ سے انگریزوں نے فارسی بھی ختم کر ڈالی۔پنجاب بشمول کشمیر، سرحد، فاٹا میں تو ’’لہور دربارــ‘‘ کی حکومت تھی۔ تمام تر اہم فیصلوں میں مغل دربار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ انگریزوں نے تو فرانسیسیوں کو 1799 ہی میں شکست دے ڈالی تھی اور ٹیپو سلطان بھی حیدرعلی کی میراث بچا نہ سکے تھے البتہ پنجاب میں ’’لہور دربار‘‘ نے 1799 سے 1849 تک انگریزوں کی حکومت نہ بننے دی۔ ’’لہور دربار‘‘ کا مغل دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب آپ ہی بتائیں آپ کو 1707 کے بعد برسراقتدار آنے والے مغل حکمرانوں کے نام یاد بھی رہے ہیں یا نہیں؟ اکبر، اورنگ زیب کا ’’مغل دربار‘‘ تو کب کا ختم ہو چکا تھا۔ پوری 18ویں صدی اور 19ویں صدی کے پہلے نصف کی تاریخ گواہ ہے تو پھر بیچارے بہادر شاہ ظفر کو اب معاف کر دینا چاہیے۔ محض 1857 کے واقعات کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لیے آپ اس بیچارے کو کیوں رگڑ رہے ہیں۔ مغلوں کی شان و شوکت تو 1707 میں ختم ہو گئی تھی جو باقی بچی تھی اسے نادرشاہ، احمد شاہ اور مرہٹوں نے اور بعد میں انگریزوں نے 1764 تک پارہ پارہ کر دیا تھا۔ اب اسے مزید کھینچنے کی کیا ضرورت تھی۔ 1857 کے واقعات کو کسی اور طرح بھی لکھا جا سکتا تھا۔ مگر جب پہلے سے نظریہ بنا لیا جائے تو تاریخ کے ساتھ یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر ہی آخری مغل بادشاہ تھا اور اس کے بعد مغل بادشاہت میں سے جغرافیائی بادشاہتیں برآمد ہوئیں۔ اگر انگریز نہ آتے تو امریکہ کی طرح یہاں بھی یہ جغرافیائی وحدتیں مضبوط ہو کر مشترکہ وفاق بنا سکتی تھیں۔ یہ ہے وہ تاریخ جسے جنوبی ایشیا کی نصابی کتابوں میں بوجوہ جگہ نہیں مل سکی۔

قدیم جدید رسم الخط کے بانی فینقی ۔۔۔۔انسان نے جب غاروں سے نکل کر میدانوں میں زندگی گزارنا چاہا تو اسے ایک دوسرے کیساتھ رابطہ کرنے کے لیے ذرائع چاہیے تھے ۔۔ ان میں سے ایک تصویر کشی بھی ہے رسم الخط ایجاد ہونے سے قبل کسی چیز کی ضرورت اور اظہار رائے تصویر کشی کی صورت میں کرتے ۔۔ قدیم مصر میں تصویر کشی کے ذریعے قصے کہانیوں کو بیان کیا جاتا لیکن ان سے بعض آنے والی نسلوں کو فائدہ نہیں ہوتا نہ ہی سمجھ پاتے ۔۔۔ اسکے بعد آرامی جنہیں نبطی ، کلدانی بھی کہتے تھے نے مصر پر حملہ کردیا جو تاریخ میں" عمالیق" کے نام سے مشہور تھے ۔۔ انکو یونانی" فینقی " کہتے تھے ۔۔ فینقیوں نے مصر میں خط غلیقی کی بنیاد رکھی۔۔۔ فینقی اس لیے کیوں کہ یہ سفر کرتے تھے تجارتی مراکز ساحل سمندر پر لگاتے تھے جن میں قبرص یونانی ساحل سمندر رومی اور تیونس کا کارتھیج مشہور ہے ۔۔۔ مصر میں آرامی ہیکسوس کے نام سے جانے جاتے تھے ۔۔ جرمن مؤرخ نودلکی لکھتے ہیں۔۔۔" قدیم عربوں نے بابل ، یونان ، روم، مصر اور کارتھیج میں تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی یہ جزیرہ نما عرب سے غول کے غول نکلتے گئے اور آس پاس کے علاقوں کو سیراب کرتے رہے عربوں کے ایک ہاتھ میں تلوار تو دوسرے ہاتھ میں تمدن ہوتا تھا ۔۔ ۔۔۔ مصر میں خط "غلیقی" کی بنیاد نبطیوں نے رکھی ، رومی و یونانی رسم الخط کے بانی بھی یہی فینقی نبطی تھے ۔۔۔ یونانی انہیں اہل "احمر" یعنی سرخ رنگت کے لوگ کہتے تھے کیونکہ یہ ریشمی کپڑوں کا بازار لگاتے جو سرخ رنگ ہوتے تھے مزید یہ کہ انکا ایک جھنڈا ہوتا تھا جس پر عقاب بنا ہوتا تھا جسے یونانی فینکس ، طیر الفینیق " کہتے تھے ۔۔۔ اس سے قبل انکا نام یا تو کنعانی ہوتا یا نبطی ۔۔۔ آرامی رسم الخط سے مختلف خطوط نکلے جن میں خط فینقی ، مسند ، خط غلیقی ، خط ثمودی، خط کندی اور نبطی ، خط حمیری اور انباری ، خط حجازی اور آخر میں خط کوفی ۔۔۔۔خط مسند سب سے قدیم خط ہے جو یمن میں مستعمل تھا ، غلیقی سینا میں ، خط نبطی آرامی جزیرہ نما عرب اردن میں مستعمل تھا ۔۔۔ یہودی اور عیسائی خط آرامی استعمال کرتے تھے ۔۔خط مسند چونکہ قدیم رسم الخط تھا عربوں نے اسکی جگہ خط آرامی نبطی کو استعمال کرکے مسند کو ختم کردیا ۔۔کہا جاتا ہے کہ خط حجازی جس سے خط کوفی نکلا ہے کو مرامر بن مرہ نے ایجاد کیا تھا بعض نے سلم بن سدرہ اور بعض نے عامر بن جدہ کا نام لکھا ہے ۔۔۔خط ثمودی سے خط لحیانی خط نکلا ہے ۔۔۔ تمام عرب راویوں کا اتفاق ہے کہ عربی رسم الخط کو خط حیری اور انباری سے نکالا گیا ان دونوں خطوط کو کندی اور نبطیوں نے خط مسند سے نکالا ۔۔خط کوفی کو الگ سمجھتے ہیں حقیقت میں یہ خط حجازی سے نکلا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ خط حجازی سادہ طرزِ تحریر ہے جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط میں دیکھا جاسکتا ہے اور کوفی میں جیومیٹری کے اصولوں کے مطابق آرائش و زیبائش پیدا کردی گئی ہیں ۔۔ خط کوفی سے ہی مزید خطوط پیدا ہوئے جسے خط ثلث " نسخ ، رقع ، تعلیق کہتے ہیں ۔۔۔۔ محمد رفیق مینگل ۔۔۔

حیرت انگیز دریافت ۔ کیا قوم سو رہی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: وہارا امباکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہم اعلان:سائنسدانوں نے ایک انقلابی شے دریافت کر لی ہے۔ اس سے آپ کی زندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے آپ کی یادداشت تیز ہو جائے گی اور تخلیقی صلاحیت بھی بہتر ہو گی۔ اس سے آپ کا زیادہ پرکشش لگیں گے۔ آپ کو موٹاپے سے بچا سکتی ہے، بے وقت بھوک نہیں لگے گی۔ کینسر کے خلاف دفاع کرنے میں مدد کرے گی۔ بھلکڑ پن سے حفاظت کرے گی۔ زکام اور فلو کو مار بھگائے گی اور اس سے جلد ریکوری میں مدد دے گی۔ دل کا دورہ پڑنے کے اور سٹروک کے امکان میں کمی کرے گی اور ذیابیطس کے بھی۔ آپ زیادہ خوش محسوس کریں گے، بے چینی میں اور ڈیپریشن میں کمی ہو گی۔ کیا آپ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ ایسا اشتہار دیکھیں تو کیا ردِعمل ہو گا؟ اگر یہ کسی نئی دوا کا اشتہار ہو تو کم ہی کوئی اس پر یقین کرے گا۔ اور اگر کوئی اس پر قائل ہو جائے گا وہ اس کے لئے بڑی قیمت دینے کو تیار ہو گا۔ اگر اس کو کلینیکل ٹرائل سے ثابت کیا جا سکے تو اس کو دریافت کرنے والی فارماسیوٹیکل کمپنی کے شئیر آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔اس اعلان میں کئے گئے دعوے بلند و بانگ ہیں لیکن غلط نہیں۔ ان دعووں کی بنیاد سترہ ہزار احتیاط سے پرکھی گئی سائنسی تحقیقات پر ہے۔ اور سب سے زبردست؟ اس کی قیمت۔ بالکل مفت۔یہ دریافت روز کی مکمل نیند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اس بارے میں آگاہی کی یہ ناکامی ہے کہ ہم میں سے اکثر اس کا احساس نہیں کرتے کہ نیند اکسیرِ اعظم ہے۔ دنیا کے ہر شخص کے لئے ہیلتھ کئیر فراہم کرتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں یہ سب سے اہم علاج ہے۔ اکیسویں صدی میں اس پر ہونے والی تحقیق کا خلاصہ شیکسپئیر کے لکھے مک بیتھ کے باب میں ایک فقرے میں ہے، “اس زندگی کی ضیافت کی سب سے غذائیت والی شے نیند ہے”۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی آپ کو کچھ ایسا ہی بتایا ہو۔ سائنس کو شکسپئیر کے اس فقرے اور آپ کی والدہ سے مکمل اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت شہروں کی دو تہائی آبادی نیند کی قلت کا شکار ہے۔ نیند کی اہمیت کے بارے معاشرے میں اس قدر لاعلمی اس وجہ سے پائی جاتی ہے کہ تاریخی طور پر سائنس یہ بتانے میں ناکام رہی کہ نیند کیوں؟ یہ ایک بائیولوجیکل اسرار رہی۔ سائنس کے کمالات ۔۔۔ جینیات، مالیکیولر بائیولوجی، ہائی پاور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ۔۔۔ نیند کی تجوری کے قفل کھولنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس لاعلمی کو بیان کرنے کے لئے ہم تصور کرتے ہیں کہ آپ کے گھر پہلی اولاد ہوئی ہے اور ڈاکٹر آ کر آپ کو بتاتی ہے،“مبارک ہو! صحت مند لڑکا ہے۔ اس کے سارے ٹیسٹ ٹھیک ہیں۔ سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ اب سے لے کر اور اپنی تمام زندگی میں یہ بچہ بار بار بے ہوشی کی سی کیفیت میں چلا جایا کرے گا۔ اور اس دوران یہ کئی بار عجیب عجیب چیزیں بھی دیکھا کرے گا۔ یہ کیفیت اس کی زندگی کا ایک تہائی وقت اس پر طاری رہے گی اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ یہ ایسا کیوں کرے گا اور ایسا ہوتا کیوں ہے”۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہی حقیقت تھی۔ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے پاس اس کا کوئی اچھا جواب نہیں تھا کہ ہم سوتے کیوں ہیں۔ زندگی کی دوسری بنیادی جبلتوں ۔۔ کھانا، پینا اور نسل آگے بڑھانا ۔۔۔ کے برعکس ہزاروں سال سے ہمیں اس جبلت کی وجہ معلوم نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سوتے کیوں ہیں؟ یہ سوال بہت عرصہ معمہ رہا۔ یہ غلط سوال تھا کیونکہ اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ نیند کا کوئی ایک فنکشن ہے۔ اس کے غلط یا نامکمل جواب بے بہا رہے ہیں۔ منطقی (توانائی محفوظ رکھنے کا وقت)، عجیب (آنکھ کی آکسیجینیشن کا موقع)، نفسیاتی (لاشعور میں اپنے نامکمل خواہشات کے اظہار کی حالت)، لیکن پچھلے بیس سال میں اس میں ہونے والی دریافتوں کی تیز پیشرفت نے اس بارے میں ہماری سوچ الٹا دی ہے۔ نیند سے جسم اور دماغ کیلئے ہونے والے فوائد کی ایک کہکشاں ہے۔ جسم کا کوئی ایک بھی ایسا عضو نہیں جو اس سے مستفید نہ ہوتا ہو اور نیند پوری نہ ہونے سے اس کو ضرر نہ پہنچتا ہو۔ یہ فطرت کا وہ نسخہ ہے جو آپ کے لئے لکھ دیا گیا ہے اور چوبیس گھنٹے کے سائیکل پر آپ نے اس پر عمل کرنا ہے۔ (کئی لوگ ایسا نہیں کرتے)۔دماغ میں سیکھنے کی صلاحیت، یادداشت، منطقی فیصلے لینے اور ٹھیک انتخاب کرنے، گہری فکر، نفسیاتی استحکام میں نیند مددگار ہے ہے۔ ہم خوابوں کے فوائد بھی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے ایک پرسکون نیوروکیمیکل شاور تکلیف دہ تجربات سے مرہم کا کام کرتا ہے۔ اس دوران ایک ورچوئل حقیقت کی جگہ بنا دیتا ہے جہاں ہمارا ماضی اور حال کا نالج مل کر نئے تجربات جوڑتا ہے، تخلیقی صلاحیت کو جلا ملتی ہے۔جسم میں امیون سسٹم کے ہتھیاروں کا سٹاک بنتا ہے، انفیکشن سے بچاوٴ میں مدد ملتی ہے۔ کئی بیماریاں اس حالت میں دور بھگائی جاتی ہیں۔ جسم کا میٹابولزم ایڈجسٹ ہوتا ہے۔ انسولین اور گلوکوز کی حالت ٹیون ہوتی ہے۔ آنتوں میں جراثیم کا صحت مند ماحول پنپتا ہے۔ دورانِ خون کے نظام میں فٹنس آتی ہے۔ بلڈ پریشر کم ہوتا ہے۔ دل کی حالت بہتر ہوتی ہے۔ صحت مند زندگی کے لئے متوازن غذا اور ورزش بہت ضروری ہیں لیکن اس مثلث میں نیند زیادہ ضروری فورس ہے۔ ایک رات کی خراب نیند ایک روز کی ورزش اور خوراک کی خرابی سے زیادہ مضر اثرات ڈالتی ہے۔ نیند کے بارے میں سائنس کی نئی سمجھ سے ہم اب یہ سوال نہیں کرتے کہ نیند کس کام کیلئے اچھی ہے بلکہ یہ کہ کیا کوئی بھی جسمانی نظام ایسا ہے جو ایک اچھی رات کی نیند سے فائدہ نہیں اٹھاتا؟ ہزاروں سٹڈیز سے ابھی تک جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ شاید اس کا جواب نفی میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا دوسرا اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نیند پر تحقیق سے معلوم ہونے والے فوائد پبلک ہیلتھ پر ہونے والی بحث اور عام لوگوں تک پہنچنے والی آگاہی کا حصہ نہیں۔اس حد تک کہ کلچر میں سونے کو سستی اور کاہلی سمجھا جاتا ہے۔ رات کو کم سونے کو اور دیر تک کام کرنے کے بارے میں فخریہ بتایا جاتا ہے۔ جس طرح تمباکونوشی کرنے یا کھانے میں الم غلم کھانا شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اس کو چھپایا جاتا ہے۔ کم نیند بھی اپنے اوپر کیا گیا ویسا ہی ظلم ہے جس کو معاشرے میں ویسی ہی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگر آپ اپنی زندگی اور لائف سٹائل میں ایک تبدیلی کرنا چاہتے ہیں تو وہ روزانہ کے آٹھ گھنٹے کی نیند ہے۔ کیا کہا؟ آپ چھ گھنٹے کی نیند کے ساتھ بھی چاق و چوبند رہ سکتے ہیں اور بالکل ٹھیک کام کر سکتے ہیں؟ بہت سے لوگوں کا ایسا خیال ضرور ہوتا ہے لیکن سات گھٹنے سے کم نیند کے ساتھ ایسا کر سکنے والوں کی تعداد دنیا میں صفر ہے۔کیا کہا؟ آپ نیند ویک اینڈ پر پوری کر لیتے ہیں؟ آپ کے ساتھ بھی معذرت۔ نیند روز عمل کرنے والا نسخہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا قوم سو رہی ہے؟ اگر نہیں، تو یہ تشویش کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیند پر اکیسویں صدی کی تحقیق پر پڑھنے کے لئے عام فہم کتابWhy We Sleep: Matthew Walker

Tuesday, 26 March 2024

نوفیپ کیا ہے؟ "نوفیپ" کا مطلب ہے "نو ماسٹربیشن"(مشت+زنی)۔ مغربی دنیا میں جب لوگوں پر پو+رن اور مشت-زنی کے خطرناک اثرات واضح ہوئے تو انہوں نے اس سے پچنے کے لئے اقدامات کرنے شروع کر کیے۔عالمی سطح پر ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے پو+رن اور مشت+زنی کی لت سے جان چھڑائی ہے۔ نو فیپ کمیونٹی اس پو+رن کی لت کو PMO کا نام دیتی ہے۔ جس سے مراد درج ذیل اصطلاحات ہیں۔P = Pørn M=MasturbationO = Orgasm ( sexual climax from other sources) کافی عرصہ سے ہم یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کر رہے تھے کہ پاکستان میں بھی لوگ پو+رن اڈکشن ، مشت+زنی اور اس کے برے اثرات سے سائنسی بنیادوں پر آگہی حاصل کریں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ تو ایسے نام نہاد لوگوں کا ہے جو پو+رن اڈکشن کو سرے سے غلط ہی نہیں سمجھتا،جبکہ دوسری طرف وہ نیم حکیم ہیں جو اسے غلط تو سمجھتے ہیں لیکن سائنسی لحاظ سے اس کی تحقیقات بہت کم ہیں اور وہ اس کا حقیقی سد باب کی بجائے، صرف اس سے ہونے والی کمزوریوں کے علاج کے لئے مختلف قسم کے معجون، تیل،اور جڑی بوٹیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ (پی ایم او) ایک نشہ ہے اور ایک بار اگر کوئی شخص اس مہلک نشے کا شکار ہوجاتا ہے، تو اس کے لئے اس اذیت سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ ہزاروں کی تعداد میں شادی شدہ افراد بھی اس لت کا شکار ہیں اور ان کی ازدواجی زندگی شدید متاثر ہے۔ دوائیوں کے زریعے وقتی کمزوری تو دور ہو سکتی ہے لیکن یہ لت نہیں چھڑوائ جاسکتی۔ ایسے شخص کو فوری گائیڈنس اور کونسنلگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے کے کئی افراد پو+رن اڈکشن کا شکار ہو کر بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں اس ٹاپک پر بات بہت کم کی جاتی ہے لہٰذا وہ اپنے مسائل والدین یا دوستوں سے شیئر نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں پہلی بار نوفیپ پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ اگر آپ بھی ایڈی صورتحال سے دوچار ہیں تو فوراً ہمارا گروپ جوائن کر لیجیے۔ نوفیپ کے فوائد نوفیپ کے ہزاروں ممبرز جو ایک خاص وقت تک پو+رن اور مشت+زنی سے دور رہے، ان کا دعویٰ ہے کہ تقریباً نوے دن تک پو+رن اور مشت+زنی سے دور رہ کر نہ صرف۔ اس لت پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ زندگی میں انقلاب برپا کر دینے والے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلا • ڈپریشن اور انزائٹی میں کمی • خود اعتمادی بڑھ جاتی ہے۔ منقول👈آج سے ہم آغاز کر رہے ہیں نوفیپ ریکوری گائڈ کی اقساط کا۔آپکا خادم: محمد احمد قصوریhttps://chat.whatsapp.com/HinmyaBE5Wv6atHQFl1WeX

Monday, 25 March 2024

ایک دفعہ ضرور پڑھ کر غور کیجئے گا ۔آپ نے کبھی سوچا کہ امام حسن ع اور امام حسین ع کی پانچ چھ سال کی عمر تک تو واقعات ملتے ہیں مگر اس کے بعد تاریخ میں ان کا ذکر صرف تب ہوا جب ان کی شہادت ہوئی۔کئی نامور اصحاب حضرت سلمان فارسی کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو اہل فارس وہاں پہنچ جائیں۔حضرت ابوذر غفاری کہ جنہیں زمین پر سب سے سچا انسان قرار دیا۔حضرت مقداد بن اسود جن کی جنت مشتاق ہے۔حضرت ایوب انصاری جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے مدینہ میں میزبان تھے۔حضرت جابر بن عبداللہ انصاری جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم سے لے کر ان کی پانچویں نسل تک حیات رہے۔حضرت عمار بن یاسر جن کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔حضرت بلال حبشی جو موذنِ رسول صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم تھے۔تاریخ ان کے بارے میں مکمل خاموش نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے وفات نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے بعد وہ اس دنیا سے غائب رہے اور بس شہادت یا وفات کے وقت دنیا میں کچھ دیر کے لئے آئے۔آخر کہیں تو کچھ غلط ہوا ہے کہ ان شخصیات کا ذکر کرنا عیب سمجھا گیا۔دوسری طرف جو افراد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی وفات سے سال دو سال قبل مسلمان ہوئے,ان کی سوانح عمری سے تاریخ بھری نظر آتی ہے۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ان کی آل اور بہت سے اصحاب کو تاریخ نے مکمل نظرانداز کر دیا۔کہاں کچھ غلط ہوا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی آل کے کسی بھی فرد کی طبعی وفات نہ ہوئی۔تمام قتل ہوئے اور قاتل بھی وہ جو ان کے جد کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔آج چودہ صدیاں بعد بھی ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسین ع جنت کے سردار ہیں۔ایسا کیا ہوا کہ جنت کے طلب گاروں نے سرداروں کو انتہائی اذیت کے ساتھ قتل کر دیا۔مورخ نے آخر ان تمام ہستیوں کو اتنا غیر اہم کیسے سمجھا کہ تاریخِ اسلام میں ان کا حصہ ایک صحابی جتنا بھی نہیں رکھا۔کربلا اچانک نہیں ہوئی۔ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا گیا,نفرت بڑھتی رہی اور ہر ہستی کے بعد دوسری ہستی پر پہلے سے زیادہ ظلم ہوتا نظر آیا۔اتنی نفرت کہ اس مقدس گھرانے کی مطہرات پر ظلم کرنے سے بھی نہ چوکے۔چھ ماہ کے بچے کا سر کاٹنا بھی ثواب سمجھا گیا حالانکہ بدترین دشمن کے چھ ماہ کے بچے سے بھی کوئی دشمنی کا بدلہ لینے کا نہیں سوچتا۔امت نے تو آل رسول صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم پر ظلم کیا ہی تھا مگر مورخین نے ان سے کہیں زیادہ ظلم کیا کہ جن کے فضائل تھے,انہیں چھپایا جبکہ ان کے دشمنوں کے فضائل سے کتابیں سیاہ کیں۔ابھی چند دن پہلے واقعہ مباہلہ کی یاد مناٸی گٸی ۔ اس واقعہ میں بنص قران پانچ ذواتِ مقدسہ میدان میں توحید کے گواہ بن کر پیش ہوٸےاور قران مجید نےانہیں صداقت کی سند عطا کی ۔واقعہ مباہلہ کے کچھ مدت بعد ان پانچ ہستیوں میں بزرگ ترین ہیستی کا وصال ہوا جنازے میں کتنے کلمہ گو تھے ؟؟پھر 75 یا 95 دن بعد اس گھر کا دوسرا جنازہ رات کی تاریکی میں اُٹھا اور چند مخلصین کی موجودگی میں بڑی خاموشی اور مظلومیت سے دفن کردیا گیا اور نشانِ قبر تک مٹا دیا گیا جو آج تک نہ مل سکا ۔پھر اسی گھرانے کا تیسرا جنازہ 40 ہجری میں کوفہ سے آدھی رات کےوقت اٹھا اور پشتِ کوفہ ریت کے ٹیلوں کے درمیان خاموشی سے دفن کردیا گیااور مدتوں قبر کا نشان نمعلوم رہا ۔پھراسی جماعت کے چوتھے فرد کا جنازہ 50 ہجری میں شہر مدینہ سےاُٹھا اور نانے کی مزار کی طرف چلا مگر کچھ لوگ تیروں سے مسلحہ راستے میں حاٸل ہوٸے کہ نواسے کو نانے کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیں گے آخر وہ جنازہ بقیع کے عوامی قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔پھر 61 ہجری میں اصحاب مباہلہ کی آخری فرد کا جنازہ اٹھایا بھی نہ جاسکا بلکہ جنازہ گھوڑوں کی ٹاپوں سےپامال کردیا گیا ۔بحثیت مسلمان کیا ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کم از کم ہم مورخ اسلام سے یہ تو پوچھیں کہ جنکی صداقت کا گواہ خود اللہ ہے اور وہ توحیدِ خدا کے گواہ ہیں امت رسول نے انکے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک دن 24 گھنٹوں پر مشتعمل کیوں ہوتا ہے ؟قدیم زمانے میں ایک قوم تھی جس کو Sumerian کہتے ہیں۔ ان کے یہاں حساب کتاب کے لیے مختلف طریقے استعمال ہوتے تھے، جن میں ایک ہاتھ کے چار انگیلیوں کی تین تین جوڑوں کو انگوٹھے کی مدد سے گنا جاتا تھا، جبکہ دوسرے ہاتھ کو چاروں انگلیوں کے جوڑوں کے ایک سیٹ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک سیٹ بارہ کے برابر تھا، کیونکہ چاروں انگلیوں کے جوڑوں کی تعداد 12 بنتی ہے۔ جب ایک سیٹ مکمل ہوتا تو وہ دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی اٹھاتے تھے۔ اسی طرح جتنے سیٹ مکمل ہوتے وہ دوسرے ہاتھ کے اتنے انگلیاں اٹھاتے تھے، اور جب دوسرے ہاتھ کے پانچوں انگلیاں مکمل ہوجاتی تو وہ سیٹ 60 کے برابر ہوجاتا تھا۔ لہذا اسی طریقے کو بعد میں استعمال کرتے ہوئے انہوں نے گنتی کا ایک طریقہ کار بنایا جسے اساس 60 کا نظام کہتے ہیں۔ اسی سے ہی دن اور رات کو 12 گھنٹے میں تقسیم کیا گیا، اور 1 گھنٹے کو 60 منٹ پر مشتعمل کیا گیا۔ ان کی تاریخ ہمیں Babylonian اور Egyptian میں ملتی ہے۔ ان سے متاثر ہوکر درجن جو 12 کے برابر ہے،12 برج کے نشانات ، ایک foot جو 12 انچ پر مشتعمل ہے ، سال کے 12 مہینے ،وغیرہ وغیرہ جیسے تصورات آج بھی قائم ہیں۔نوٹ : مزید مختلف روایات موجود ہیں(ازقلم غلام مصطفٰی جی۔ایم)#مصطفٰیgm #gmsciencediary

دیسی مہینےان کا تعارف اور وجہ تسمیہبرِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا آغاز 100 سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا) 3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ) 4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز) 5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون) 6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں) 7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل) 8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی) 9۔ مگھر/منگر (سرد) 10۔ پوہ (سخت سردی) 11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند) 12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں9 : 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہبکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.ان پہروں کے نام یہ ہیں۔۔۔1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت3۔ پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت5۔ نماشاں/شاماں ویلا:شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت6۔ کفتاں ویلا:رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت7۔ ادھ رات ویلا:رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت8۔ سرگی/اسور ویلا:صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقتلفظ "ویلا” وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے۔ گجر ۔راجپوت۔ جاٹ ۔اور اراٸیں لوگوں کے ہاں خاص کر یہی زبان بولی جاتی تھی۔ریپیٹ پوسٹ کی جا رہی ہے

بدن (16) ۔ حالدماغ کو بہت طویل عرصے سے اور بہت تفصیل سے پڑھا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ ہم اس کی بنیادی چیزوں کا بھی علم نہیں رکھتے یا ان پر متفق نہیں۔ مثلاً، شعور کیا ہے؟ سوچ کیا ہے؟ یہ ایسی چیز نہیں جسے کسی مرتبان میں بند کر لیا جائے یا مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھ لیا جائے لیکن سوچ ایک اصل اور غیرمبہم چیز ہے۔ سوچنا ہماری سب سے کلیدی اور معجزاتی صلاحیت ہے۔ لیکن فزیولوجیکل لحاظ سے ہمیں یہ معلوم نہیں کہ سوچ کیا ہے۔یہی چیز یادداشت کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے کہ یادداشت کیسے اسمبل ہوتی ہے اور کہاں پر ذخیرہ ہوتی ہے لیکن یہ تو بالکل نہیں کہ کچھ چیزیں کیوں یاد رہ جاتی ہیں اور کچھ نہیں۔ اس کا تعلق کسی چیز کے مفید ہونے یا اس کی قدر سے نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1984 کے اولمپکس کے ہاکی فائنل میں جب پاکستان نے جرمنی کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا تھا تو پاکستان کے ٹیم میں کونسے کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ میری اس یاد کا کوئی بھی خاص عملی فائدہ نہیں۔ جبکہ میں خود اپنا موبائل فون نمبر یاد نہیں رکھ پاتا یا جب بہتر نصف نے مجھے بازار سے تین چیزیں لانے کا کہا ہوتا ہے تو یاد نہیں رہتا کہ تیسری چیز کونسی والی تھی۔ کھلاڑیوں کی فہرست سے کہیں زیادہ اہم چیزیں میری یادداشت کا حصہ کیوں نہیں بنتیں؟ یہ معلوم نہیں ہے۔ہمارے پاس جاننے کو ابھی بہت کچھ ہے اور بہت کچھ شاید ایسا بھی ہے جو کبھی نہیں جان پائیں گے۔ لیکن جتنا ہم جانتے ہیں، وہ بھی حیران کن ہے۔ اس کے لئے ہم اس کی مثال دیکھتے ہیں کہ ہم دیکھتے کیسے ہیں؟ بلکہ درست بات یہ ہو گی کہ دماغ ہمیں کیسے بتاتا ہے کہ ہم دیکھ کیا رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں۔ آنکھیں دماغ کو ہر سیکنڈ میں ایک کھرب سگنل بھیج رہی ہیں۔ لیکن یہ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ جب آپ کچھ “دیکھتے” ہین تو اس کی صرف دس فیصد انفارمیشن آنکھ سے آتی ہے۔ دماغ کے دوسرے حصوں کو اس کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ چہرے پہچاننے ہیں، کسی حرکت کو مطلب نکالنا ہے۔ خطرے کی نشاندہی کرنی ہے۔ دوسری الفاظ میں، دیکھنے کے عمل کا بڑا حصہ بصری سگنل موصول کرنا نہیں ہے بلکہ ان سے معنی اخذ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر بصری اِن پُٹ کو تھوڑا سا وقت لگتا ہے ۔۔ تقریباً دو سو ملی سیکنڈ ۔۔ تا کہ انفارمیشن بصری اعصاب سے دماگ میں جائے اور پھر دماغ میں پراسس ہو اور اس کی تشریح ہو۔ جب ہمیں فوری ردِ عمل دکھانا ہو ۔۔۔ کسی آنے والی گاڑی سے بچنا ہے یا سر پر کسی چیز لگنے سے محفوظ رہنا ہو ۔۔۔ تو دو سو ملی سیکنڈ کم وقت نہیں۔ اور اس کے لئے دماغ ایک غیرمعمولی کام کرتا ہے۔ یہ مسلسل اس کی پیشگوئی کرتا ہے کہ دنیا دو سو ملی سیکنڈ بعد کیسی لگے گی اور یہ انفارمیشن ہمیں “حال” کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی ایسی دنیا دیکھتے رہتے ہیں جو ابھی اصل میں موجود نہیں۔دماغ کئی اور چیزوں میں ہمیں ہمارے اپنے بھلے کے لئے دھوکا دیتا رہتا ہے۔ آواز اور روشنی کی رفتار ایک نہیں۔ بجلی کی کڑک اور چمک ہمیں الگ وقت میں موصول ہوتے ہیں لیکن روزمرہ کی زندگی میں دماغ ہمیں جو تجربہ پیش کرتا ہے، اس میں ایسے فرق ختم کر دیتا ہے۔ ہماری حسیاتی اِن پُت کو ہم آہنگ کر دیتا ہے۔اسی طرح دماغ ہمارے لئے دنیا کی یہ فلم پیش کر رہا ہے۔ عجیب چیز یہ ہے کہ روشنی کے فوٹون کا کوئی رنگ نہیں۔ آواز کی لہروں میں کوئی آواز نہیں۔ بو کے مالیکیول کوئی بو نہیں رکھتے۔جیمز لی فانو کے الفاظ میں، “یہ ہمارا گہرا تاثر ہے کہ ایک کھلی کھڑکی سے نظر آنے والے درختوں کا سبزہ اور آسمان کی نیلاہٹ آنکھیں محسوس کر رہی ہیں۔ لیکن اس پر پڑنے والے روشنی کے پارٹیکل بے رنگ ہیں۔ ویسے ہی جیسے کان کے پردے پر پڑنے والی آواز کی لہریں خاموش ہیں اور خوشبو کے مالیکیول کوئی بو نہیں رکھتے۔ یہ بے وزن، پوشیدہ سفر کرتے ذرات ہیں”۔ زندگی کے اس سب تجربے کی سر میں تخلیق ہوتی ہے۔ جو آپ دیکھ رہے ہیں، صرف وہ ہی ہے جو دماغ دکھا رہا ہے۔ کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ صابن کو رنگ جو بھی ہو، اس کا جھاگ ہمیشہ سفید ہوتا ہے؟ اس لئے نہیں کہ جب صابن کو گیلا کیا جاتا ہے تو یہ رنگ بدل لیتا ہے۔ اس کے مالیکیول بالکل وہی ہیں۔ صرف یہ کہ روشنی کے انعکاس کا فرق ہے۔ رنگ جامد حقیقت نہیں، ایک احساس ہیں۔آپ نے نظر کے دھوکے دیکھے ہوں گے جو اس نکتے کی کچھ وضاحت کرتے ہوں گے۔ دماغ پیٹرن ڈھونڈنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ساتھ لگی تصویر میں کانیزسا مثلث (Kanizsa triangle) ہے۔ اس تصویر میں مثلث نہیں لیکن دماغ مثلث یہاں پر رکھ دیتا ہے اور آپ اسے جھٹک نہیں سکتے۔دماغ یہ سب اس لئے کرتا ہے کہ اس کا ڈیزائن آپ کی مدد کرنے کے لئے ہے۔ اور تضاد یہ کہ عین اسی وجہ سے یہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ دوسروں کی دی گئی تجویز کو قبول کر کے ہم “حقیقت” بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جھوٹی یادداشت بنا لینا بھی مشکل نہیں۔ آپ کے لئے جو اصل ہے، لازمی نہیں کہ وہ اصل ہو۔ یادداشت کا ذخیرہ عجیب اور ٹکڑوں کی صورت میں سٹور ہوتا ہے۔ ذہن یادداشت کو چہروں، تناظر، جگہوں وغیرہ میں تقسیم کرتا ہے اور اس کو الگ الگ جگہوں میں بھیج دیتا ہے۔ اور یادداشت دہرانے پر یہ سب اکٹھا ہو کر کُل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ ایک پرانی آوارہ سوچ دماغ میں بکھرے کئی ملین نیورون متحرک کر سکتی ہے۔ اور یہ خود ایک جگہ پر یکساں نہیں رہتے۔ جگہ تبدیل کرتے ہیں۔ ایک کورٹیکس سے دوسرے میں چلے جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا کچھ معلوم نہیں۔ لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم اپنی یادداشتوں کو کچھ دھندلا پاتے ہیں۔اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ یادداشت جامد اور مستقل ریکارڈ نہیں۔ یہ ایک الماری میں لگی فائل کی مانند نہیں۔ یہ ایک وکی پیڈیا پیج کی طرح ہے۔ اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آپ خود بھی اور دوسرے بھی اس پر اپنی ایڈٹنگ کر لیتے ہیں۔(جاری ہے)تحریر: وہارا امباکر

کہانی 21 گرام کی- (انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی خاطر کیا جانے والا دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد تجربہ-)قدیم مصر کے لوگوں کا خیال تھا کہ موت کے بعد انسان ایک لمبے سفر پر نکل جاتا ہے۔ انکا خیال تھا کہ یہ سفر بہت کٹھن ہوتا ہے جس میں وہ سورج کے دیوتا (جسے مصری را کہتے تھے) کی کشتی پر سوار ہو کر "ہال آف ڈبل ٹروتھ" تک پہنچتا ہے۔ ان کے مطابق سچائی کا پتا لگانے والے اس ہال میں روح کے اعمال کو جانچا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور وہاں حق اور انصاف کا موازنہ انسان کے دل کے وزن سے کیا جاتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ انسان کے سارے اچھے اور برے اعمال اس کے دل پر لکھے ہوتے ہیں۔ اگر انسان نے ایمانداری سے زندگی گزاری ہے تو اس کی روح کا وزن پنکھ کی طرح ہلکا ہوگا اور اسے مصری خدا اوسائرس کی جنت میں سدا کے لیے جگہ مل جائے گی۔اسی طرح جدید سائنسی دور کے ڈاکٹروں کے خیال میں روح کا بھی ایک خاص وزن ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑا نام ڈاکٹر ڈنکن کا ھے- ڈاکٹر ڈنکن جہاں کام کرتے تھے وہاں آئے دن لوگوں کی موت واقع ہوتی اور ہسپتال میں وزن کرنے والی مشین دیکھ کر ان کے ذہن میں انسانی روح کا وزن کرنے کا خیال ابھرا- انکی چھ سالہ تحقیق کے مطابق "انسان کی موت کے بعد جب اس کی روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم میں بدلاؤ آتا ہے-" اور وہی بدلاؤ روح کا اصل وزن ھے- ان کی تحقیق کا مقصد قدیم مصریوں کے اعتقاد کو ثابت کرنا یا مصر کے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے نہیں تھا لیکن تحقیق کا موضوع اس قدیم عقیدے سے مطابقت رکھتا تھا- انھوں نے اپنی تحقیق کی ابتدا ہی اس بات سے کی کہ مرنے کے بعد روح انسانی جسم سے جدا ہو جاتی ہے یعنی وہ روح کے ہونے یا نہ ہونے پر سوال نہیں کر رہے تھے لیکن ان کی تحقیق کے نتیجے میں سائنسی سطح پر اس چیز کو تسلیم کرنے کا امکان موجود تھا- ڈاکٹر ڈنکن میک ڈوگل نے ایک خاص طرح کا بستر بنایا جس کا وزن بہت ہلکا تھا اور اسے ہسپتال میں موجود بڑے ترازو پر فٹ کیا- انھوں نے ترازو کا توازن اس طرح بنایا کہ اس میں ایک اونس سے بھی کم (ایک اونس تقریبا 28 گرام) وزن کیا جاسکتا تھا- جو لوگ شدید بیمار ہوتے یا جن کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی انھیں اس مخصوص بستر پر لیٹا دیا جاتا اور ان کے موت کے عمل کو باریک بینی کے ساتھ دیکھا جاتا- جسم کے وزن میں کسی قسم کی تبدیلی کو وہ اپنے نوٹ بک میں لکھتے رہتے۔ اس دوران وہ یہ فرض کرتے ہوئے وزن کا حساب بھی لگاتے کہ جسم میں پانی، خون، پسینے، پاخانے، پیشاب یا آکسیجن، نائٹروجن کی سطح میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ان کی تحقیق میں مزید چار ڈاکٹرز ان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور سبھی الگ الگ اعداد و شمار رکھتے تھے۔اپنی تحقیق سے ڈاکٹر ڈنکن نے دعوی کیا کہ "جب کوئی شخص اپنی آخری سانس لیتا ہے تو اس کے جسم میں آدھا یا سوا اونس وزن میں کمی ہو جاتی ہے۔" ڈاکٹر ڈنکن کا کہنا تھا کہ "جس وقت جسم غیر فعال ہو جاتا ہے، اسی لمحے ترازو کا پلڑا تیزی سے نیچے آجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جسم سے اچانک کوئی چیز نکل گئی ہے۔"ڈاکٹر ڈنکن کے مطابق انھوں نے یہ تجربہ 15 کتوں کے ساتھ بھی کیا اور ان میں نتائج منفی تھے۔ انھوں نے کہا کہ کتوں کی موت کے وقت اس کے جسمانی وزن میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی- انھوں نے اس تجربے کے نتائج کو اس طرح بیان کیا کہ موت کے وقت انسان کے جسمانی وزن میں تبدیلی آتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں روح ہوتی ہے لیکن کتوں کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے۔اس تحقیقی نتیجے کے مرحلے کے مطابق انسانی جسم کا وزن پہلے اچانک کم ہوا اور پھر کچھ وقت کے بعد اس میں اضافہ ہوا۔ ایک اور صورت میں پہلے جسم کا وزن اچانک کم ہوا پھر بڑھ گیا اور ایک بار پھر اس میں کمی واقع ہوئی۔اس تحقیق پر لوگ دو خیموں میں بٹے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ مذہب میں یقین رکھنے والے امریکہ کے کچھ اخبارات نے کہا ہے کہ تحقیق کے ان نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ روح و اعمال کا وجود ہے- تاہم خود ڈاکٹر ڈنکن نے کہا کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ان کی تحقیق نے کچھ بھی ثابت کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق صرف ابتدائی تفتیش ہے اور اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ سائنسی طبقہ نے نہ صرف ان کی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کے تجربے کی صداقت کو قبول کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا لیکن ڈاکٹر ڈنکن نے جن چھ افراد پر تحقیق کی تھی ان میں سے پہلے جسم میں آنے والی تبدیلی آج بھی بحث کا موضوع ہے اور اس تحقیق کی بنیاد پر بہت سارے لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ ایک انسانی روح کا وزن تین چوتھائی اونس یا 21 گرام ہے- یہ ڈاکٹر ڈنکن کے مریضوں کی اموات پر جسم میں آنے والی وہ تبدیلی تھی جسے 21 گرام کا نام دیا گیا-Edited by Muhammad Nadeem Saleem.

السلام علیکم نیو کاروباری حضرات کیلئے 28 لاکھ کا پوسٹمیں عرصہ دس سال سے تجارت میں ہوں اس جیسی دوسرے کاروباری گروپوں میں اپنے تجربہ کے بنیاد پر آپ کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوںاپنی اصل آئی ڈی سے پوسٹ کرتا تو شاید بہت سے افراد جان لیتےمیری چند غلطیوں کی وجہ سے مجھے اب تک 28 لاکھ کا نقصان ہوچکا ہے اب میں ان پیسوں کا مقروض ہوں اور قرضوں تلے زندگی گزارنے سے تو بہت سے افراد خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے ضرورت محسوس کی اس پر کچھ لکھوں1= قرض لیکر کبھی بھی نیو کاروبار شروع نہ کریں انتہائی مجبوری ہو تو دس فیصد سے سٹارٹنگ لیں یک دم پورہ سرمایہ نہ لگائیں2= ایسا کاروبار جس میں حساب کتاب کا پتہ آسانی سے نہ چلیں اسمیں دوسروں کے پیسے انوسٹ نہ کریں3=توکل اور اچھی امید سے کاروبار نہ کریں بلکہ پورا حساب کتاب رکھیں4= کاروبار سے منافع اتنا ہی لیں جتنی اسکی آمدن ہو5= اپنا ادھار شروع کے دو مہینوں میں لازمی وصول کریں6= بڑا کاروبار دیہاتوں میں شروع کرنے کی غلطی نہ کریں7=اپنے پاس دوسروں کے پیسے زیادہ وقت کیلئے ہرگز نہ رکھیں چاہے وہ بیسی ہی کیوں نہ ہو8= اپنا سارا پیسہ سیزنی تجارت میں انوسٹ نہ کریں خاص کر جب نقصان کا اندیشہ ہومجھے ان کاروباروں پر مکمل عبور حاصل ہےشوز پی یو ، پی سی یو اور لیدرکنفنکشری ایٹمز جمع سویٹسسرف فارمولے فیکٹری اور مارکیٹنگلانڈری سوپ بنانے سے مارکیٹنگ تکسورج مکھی پہچان بھنائی اور پیکنگنمک پرچیزنگ سے مارکیٹنگ تک مونگ پھلی پہچان اور خریدوفروختیہ سب کاروبار میں نے کئے ہیں اس لئے جو بھائی اچھی تنخواہ یا پارٹنرشپ پر مجھے لینا چاہیں تو مشکور رہونگا کمنٹ میں نمبر چھوڑیں میں رابطہ کرونگا

Friday, 22 March 2024

دنیا کے چند جانوروں کی کھال کے بارے میں دلچسپ معلومات:1. Crocodileمگرمچھ کی کھال کا شمار سخت ترین جانوروں کی کھال میں ہوتا ہے لیکن اس کھال کی ایک خاص بات اس کے جسم پر موجود چھوٹے چھوٹے ابھار Bumps کا انتہائی حساس ہونا ہے۔ ان کے منہ کے اردگرد اور منہ کے اندر کا حصہ بھی انتہائی حساس ہوتا ہے یہ پانی میں ہلکی سے ہلکی ترین لہر کو بھی محسوس کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے شکار پر انتہائی کمال سے جھپٹتے ہیں۔2. Sperm Whale سپرم وہیل کی کھال تقریباً 14 انچ تک موٹی ہوتی ہے جو کہ ایک فٹ سے بھی زیادہ ہے اسی لئیے یہ ایسے جانوروں ( مثلاً giant Squid جو آکٹوپس کی طرح کا جانور ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے منہ بہت تیز ہوتے ہیں) کا شکار کرتی ہے جن کے کاٹنے کا اسکی کھال پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔3. African Spiny Mouseقدرت نے اس چوہے کی کھال میں بڑی زبردست خاصیت رکھی ہے وہ یہ کہ اس کی کھال ایک تو کافی باریک ہے دوسرا اس کے ٹشوز ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے نہیں ہوتے اور جیسے ہی اس پر کوئی جانور حملہ کرکے اسے دبوچنے کی کوشش کرتا ہے یہ جھٹ سے قمیض اتارنے کی طرح اپنی کھال کا اتنا حصہ اتار دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ قدرت نے اسے ایک زبردست قوت مدافعت سے مالامال کر رکھا ہے ۔ کھال اترتے ساتھ ہی دوبارہ اگنا شروع ہوجاتی ہے اسکے اوپر بال اور پسینے کے گلین ڈز بھی بن جاتے ہیں اور بعض اوقات ایک ہی دن میں چوہا اپنی اصلی حالت میں آجاتا ہے۔ 4. Octopus آکٹوپس اپنی جلد کا رنگ اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں اسکی وجہ شکار کرنا اور شکار ہونے سے بچنا ہے۔ ہماری اور دوسرے جانوروں کی آنکھوں کے ریٹینا میں ایک خاص قسم کا پروٹین Opsin ہوتا ہے جو دیکھنے کے لئیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آکٹوپس کے پورے جسم کے سیلز میں یہ پروٹین موجود ہوتا ہے یعنی آکٹوپس اپنے پورے جسم سے اردگرد کے ماحول کو دیکھ سکتا ہے اسکے ساتھ ہی اس کا پورا جسم ایسے سیلز سے بنا ہوتا ہے جو ضرورت کے مطابق پھیلتے سکڑتے اور رنگ بدلنے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔5. Thorny Devilآسٹریلیا کے صحرا میں پائی جانے والی ایک کانٹےدار لیکن بےضرر چھپکلی ہے جو کہ چیونٹیاں کھاتی ہے اس چھپکلی کی کھال انتہائی عجیب قسم کی ہے۔ صحرا میں چونکہ پانی نہ ہونے کے برابر ہے تو قدرت نے اس کی کھال میں بالکل چھوٹے چھوٹے پائپ فٹ کر رکھے ہیں جو ریت میں موجود کسی بھی قسم کی نمی کو فلٹر کرکے اس کی کھال میں جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر سارا پانی اس کے منہ تک پہنچا دیتے ہیں۔6. Giraffe افریقہ کے تپتے ہوئے جنگلوں میں جہاں شیر چھائوں میں سوتا ہے، ہاتھی اپنے جسم پر کیچڑ مل کر اسے ٹھنڈا رکھتا ہے اور Hippo سارا دن پانی میں بیٹھا رہتا ہے وہاں زرافہ جو لمبا چوڑا جانور ہے اسکے لئیے یہ تمام کام کرنا مشکل ہیں۔ تو یہ اپنے جسم کو کیسے ٹھنڈا رکھے؟ اسکے لئیے قدرت نے اسکے جسم میں چھوٹے چھوٹے exaust فٹ کردئیے ہیں۔ اس کے جسم پر موجود ڈبہ نمہ بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے دھبے ہیں ان کے اردگرد خون کی بڑی رگیں گردش کر رہی ہوتی ہیں چونکہ یہ دھبے گاڑے رنگ کے ہیں اور گاڑھا رنگ زیادہ گرمی جذب کرتا ہے تو یہ لگاتار خون کی شریانو ں سے گرمی نکال نکال کر باہر کرتے ہیں اور اس کا جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔7. Zebra زیبرا کے جسم پر دھاریاں صرف خوبصورتی کے لئیے نہیں بلکہ یہ ایک مکمل دفاعی نظام ہے جو زیبرے کو حادثات سے بچاتا ہے۔ جب بہت سارے زیبرے اکھٹے ہوتے ہیں تو Colorblind جانور جیسے شیر مختلف رنگوں میں ٹھیک طرح پہچان نہیں کرپاتے اور ڈھیر سارے زیبروں کو گھاس کا Pattern سمجھ لیتے ہیں۔ سفید اورکالی دھاریوں کا یہ امتزاج کیڑوں کا بھی دماغ پھیر دیتا ہے ۔ بہت سارے کیڑے مکھیاں اور ہارس فلائی زیبرے کو کاٹ کر جراثیم نہیں پھیلا پاتے اور زیبرے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر زیبرے کے جسم کی دھاریاں دوسرے زیبرے سے مختلف ہوتی ہیں۔8. Bornean Flat Headed Frogمین ڈک کی ایک قسم جس کے جسم میں نہ تو پھیپھڑے ہیں نہ ہی مچھلیوں کی طرح گلپھڑے بلکہ ان کی جلد ہی گیسوں کے تبادلہ کا زریعہ ہے اور اسکے جسم کو آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ یہ ٹھنڈے پانی میں رہتے ہیں اور جسامت کے لحاظ سے سیدھے Flat ہوتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی بھی آکسیجن سے بھرپور ہوتا ہے اور Flat جسم ان کا ایریا بڑھا دیتا ہے جس سے اسے آکسیجن حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔9. Chameleon گرگٹ کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں یہ رنگ بدلتا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جیسا شکاری ہوگا گرگٹ ویسا ہی رنگ بدلے گا یعنی اگر کوئی پرندہ حملہ کرنے آئے تو گرگٹ مکمل اپنے پیچھے بیک گرائون ڈ جیسا رنگ کرلے گا لیکن سانپ کے ساتھ ٹاکرا ہو تو ہلکا سا اپنے آپ کو چھپائے گا کیونکہ سانپ کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ حیرت انگیز ہے کہ گرگٹ یہ سب باتیں کیسے جانتا ہے۔10. Green Sea Slugشمالی و جنوبی امریکہ کی سمندری مخلوق ہے جو ایلجی کھاتا ہے لیکن ایک خاص مقدار کھانے کے بعد یہ مکمل رک جاتا ہے۔ اب اسی ایلجی کا کلوروپلاسٹ نکال کر اپنی کھال میں ڈال لیتا ہے اور فوٹو سینتھیسز خود کرتا رہتا ہے اور اپنی انرجی بحال رکھتا ہے۔ اب اسے زندگی بھر کچھ بھی کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔11. Addax Antelopeیہ جنگلی بکرے گرمیوں میں اپنے جسم کی رنگت سفید رکھتے ہیں تاکہ سورج کی روشنی منعکس ہوتی رہے اور گرمی سے بچے رہیں لیکن سردیوں می یہ اپنی رنگت برائون کرلیتے ہیں تاکہ سورج کی روشنی جذب ہو اور سردی سے بچے رہیں۔12. Hippo اس جانور کا جسم ایک خاص قسم کا پسینہ خارج کرتا ہے جس میں کیمیکل مواد ہوتا ہے یہ کیمیکل گرمیوں میں Hippo کے جسم کے لئیے سن سکرین لوشن کا کام کرتا ہے اور جسم پہ نمی برقرار رکھتا ہے۔13. Opposumخطرے کی صورت میں موت کی ایکٹنگ کرنے والے اس جانور کی کھال میں Peptide ایک مادہ پایا جاتا ہے جو سانپ کے زہر کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ سانپوں کا گوشت بڑے مزے سے کھاتے ہیں۔

ایک انسان کے اندر کھربوں خلیے ہیں اور ہر خلیہ میں 46 کروموسومز ہیں ۔ اسی کروموسوم میں انسان کا سب سے قیمتی خزانہ (Data) ڈی این اے کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔ اگر ایک ڈی این اے کو دیکھا جائے تو یہ بہت ہی پیچیدہ ساخت رکھتا ہے ، یہ کل چار بیسز A, G, T, Cسے مل کر بنا ہوتا ہے۔ یہی بیسز آگے پیچھے مل ایک دھاگہ نما ساخت بناتے ہیں ۔اگر ہم ڈی این اے کی ساخت دیکھے تو یہ سیڑھیاں نما سی ہوتی ہے، یعنی ہمارا پورا ڈی این اے دو دھاگہ نما بیسز سے بنا ہوتا ہے ۔اگر ایک دھاگہ کا کوڈ ACTG ہے تو دوسرا اس کے بلکل برعکس TGAC ہوگا ۔میڈیکل سائنس میں اسی کو جین کوڈنگ کہتے ہیں اور اسی سے ہمیں ایک انسان کی خصوصیات معلوم ہوتی ہے ۔ اگر ایک انسان کی رنگت سفید ہے تو اس کا الگ کوڈ اور کالے رنگ والے کا الگ کوڈ ہوگا ۔ڈی این اے کو انسان کی لائبریری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی تمام معلومات اِن کوڈز کی شکل میں محفوظ رہتی ہے ۔ اسی کو استعمال کرتے ہوئے سائنسدان کئی صدیوں پرانے ڈھانچے سے ڈی این اے نکال کر اس کا سارا قصہ کھول دیتے ہیں ۔ڈی این اے مالیکیول جتنا اہم ہے اتنا ہی مستحکم یہ بنا ہوا ہے ۔ کیسے صدیوں پرانے ڈھانچے میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے لیکن ڈی این اے محفوظ رہتا ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ ڈی این اے پر منفی چارج ہوتا ہے اسی وجہ کوئی بھی دوسرا منفی چارج اس پر حملہ آور نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ ایک لمبے عرصے تک محفوظ رہتا ہے ۔ محمد زبیر راجپوت

آج #سورج ☀ اکویٹر کے عین اوپر سے💁🏻‍♂️ گزر رہا ہے🤷🏻‍♂️ جسکے نتیجے میں دن🌅 اور رات🌃 برابر ہوں گئے۔🙆🏻‍♂️دنیا بھر میں 💁🏻‍♂️آج 21 #مارچ کو🤔 دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو جائے گا۔🤷🏻‍♂️آج دن اور رات کا 💁🏻‍♂️دورانیہ بارہ⏱️ بارہ گھنٹوں پر محیط ہوگا،🙆🏻‍♂️ اس کے بعد دنیا کے 🌎شمالی حصوں میں 🤔راتوں کا🌃 دورانیہ کم🤏🏻 اور دن کا💁🏻‍♂️ دورانیہ بڑھنے لگے گا۔🙃ماہرین کے👨🏻‍🏫 مطابق آج کے دن سورج🌞 اپنا سفر طے💁🏻‍♂️ کرتے ہوئے🤷🏻‍♂️ اس نقطۂ آغاز پر پہنچے گا 🙆🏻‍♂️جہاں اس نے پہلے روز 💁🏻‍♂️اپنے سفر کا🌞 آغاز کیا تھا۔🙆🏻‍♂️21مارچ نئے شمسی ✍🏻سال کا آغاز ہے🤷🏻‍♂️ بعض ممالک میں 💁🏻‍♂️نئے شمسی سال کے🤔 پہلے دن کو🌅 عید کے 🥳طور پر بھی منایا جاتا ہے۔🤷🏻‍♂️پاکستان میں 🇵🇰اب دن بہ دن 🙅🏻‍♂️دھوپ کی🌞 شدت تیز💁🏻‍♂️ جبکہ آسٹریلیا 🇦🇺جنوبی افریقہ🇿🇦 جنوبی امریکہ میں 🇦🇸دن کم🤏🏻 راتیں لمبی🤷🏻‍♂️ اور سردیاں 🥶شروع ہونگی🙆🏻‍♂️🙃سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم🌸♥️

Wednesday, 20 March 2024

بہادر خواتین اسلام (صحابیات) ۔۔۔۔عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات عورت اس ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کا مرد بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔ غزوہِ حنین 8ھ 629ء میں لڑئی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد جب مکہ سے کوچ کررہے تھے تو خبر دینے والوں نے آپ تک یہ خبر پہنچائی کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف آپ پر حملہ کرنے کے لیے چکے ہیں ۔۔ قبیلہ ہوازن کی سرداری ایک نوجوان شخص جس کا نام مالک بن عوف نصری کررہے تھے نے بنو ثقیف کو جنگ کے لیے یہ کہہ کر ابھارا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم پر حملہ آور ہونے والے ہیں ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کردیں ہم پہلے حملہ کریں گے۔۔۔ اسکے بعد بنو ثقیف کے دو سردار قارب بن اسود اور احمر بن حارث مالک بن عوف کیساتھ مل گئے ۔۔۔ مالک بن عوف بڑے غرور سے کہہ رہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب تک جن لوگوں سے لڑ رہے تھے ان کو لڑنے کا ہنر اور ان میں شجاعت کی کمی تھی ہم جیسے جنگجووں سے انکا واسطہ نہیں پڑا ۔۔۔۔۔۔۔ حنین کے مقام پر جمع ہوئے تو ایک معمر شخص جنکا نام درید بن صمہ تھا جو اس وقت 150 سال سے زائد کے تھے اور آنکھوں کی بینائی بھی نہیں تھی جو انتہائی تجربہ کار اور جنگجو شخص گزرے تھے۔۔ انہیں جب وہاں لایا گیا تو انہوں نے زمین کے متعلق پوچھا یہ کون سی جگہ ہے تو انہیں بتاتا گیا کہ یہ اوطاس کا میدان ہے زمین دیکھنے کے بعد درید بن صمہ نے کہا یہ زمین نہ بہت سخت پتھریلی چٹانوں والی ہے نہ اس قدر نرم کے سواری دھنس جائے ۔۔۔ اسکے بعد دریافت کیا کہ بنو کعب اور کلاب کہاں ہیں انہوں نے کہا وہ ساتھ نہیں آئے ۔۔۔ بوڑھے شیخ درید نے کہا تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمھارا مقابلہ ایک معزز شخص سے ہے تمھیں شکست ہوگی بہتر یہی ہے کہ واپس چلے جاو۔۔۔ مالک بن عوف نے کہا ! یہ بوڑھا ہوچکا ہے اسے کیا معلوم اسے لے جاؤ ۔۔۔ ہوازن اور بنو ثقیف کے لوگوں نے اپنے دفاع کے لیے خواتین بچوں اور مال متاع کیساتھ میدان جنگ میں پڑاؤ ڈالا تھا تاکہ وقت ضرورت جنگ میں کام آسکے۔۔۔۔ بنو کلاب اور کعب اس جنگ میں اس لیے شریک نہیں ہوئے کیوں کہ انہیں ابن ابی براء نے منع کیا تھا ۔۔ بقول براء کہ اگر اہل مشرق اور اہل مغرب جمع ہوجائیں تب بھی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شکست نہیں دے سکتے یہی وجہ تھی کہ کعب اور کلاب باز رہے جنگ سے ۔۔۔ غزوہِ حنین کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر ترتیب دی انکی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں دس ہزار مہاجرین اور انصار تھے باقی نوجوان وہ تھے جو فتح مکہ کے وقت اسلام لائے ۔۔۔ جب تیاری شروع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے زرہیں اور ہتھیار ادھار مانگ لیے تو صفوان بن امیہ نے دے دیے اور کہا کہ وہ بھی اس جنگ کو دیکھنے آئیں گے ۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو اہل مکہ جو اب تک غیر مسلم تھے وہ ساتھ چلنے لگے جن میں صفوان بن امیہ ، حکیم بن حزام ، حویطب بن عبد العزی ، سھیل بن عمرو ، ابو سفیان بن حرب ، عبداللہ بن ربیعہ تھے ۔۔ یہ لوگ اس لیے چل رہے تھے کہ فتح کس ہوگی ان میں سب سے زیادہ بے چین صفوان بن امیہ تھے کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی تھے لیکن اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکر اسلام جب وادی میں اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں پہن رکھے تھے اور لشکر کو ترتیب دے رہے تھے ۔ اور جہاد کی ترغیب دے رہے تھے ۔۔۔ بنو سلیم بھی مکہ سے روانہ ہوکر وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان پر عامل مقرر فرمایا۔۔۔ اچانک حملہ حضرت انس کی زبانی ۔۔۔۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔ جب ہم وادی میں پہنچے یہ تہامہ کی وادیوں میں سے ایک تھی اس میں گھاٹیاں اور تنگ درے تھے ۔ ہوازن ہمارے سامنے تھے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس زمانے میں کبھی اتنی سیاہی یعنی جم غفیر اور کثرت نہیں دیکھی ۔۔ وہ لوگ اپنی عورتوں ، اموال ، اور آل اولاد کو بھی لائے تھے، پھر انہوں نے صف بندی کی ۔ عورتوں کو مردوں کے پچھلے صفوں میں اونٹوں پر بٹھا دیا۔ پھر وہ اونٹوں، گایوں اور بکریوں کو لائے اور انہیں پیچھے رکھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں ۔۔۔ صبح کی روشنی ہلکی پڑ رہی تھی پہلے پہل ہم انہیں مرد خیال کررہے تھے ۔۔ جب ہم میدان میں اترے تو صبح کی روشنی پڑتے ہی وہ ہم پر اچانک حملہ آور ہوئے جس سے بنو سلیم کے گھڑ سوار جو سب سے آگے تھے بھاگ نکلے ۔۔۔۔انکو دیکھ کر مکہ والے بھی بھاگ گئے ۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا حوصلہ اور شجاعت ۔۔۔۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دائیں بائیں دیکھ ریے تھے اور لوگ بھاگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ۔۔ اے اللہ کے مدد گارو ! اور اسکے رسول کے مدد گارو! میں اللہ کا بندہ اور اسکا صبر کرنے والا رسول ہوں ۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹا نیزہ لیے لوگوں کے آگے بڑھتے جارہے تھے ۔۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ! ہم نے جو تلوار چلائی اور نیزہ گھمایا تو اللہ نے انہیں شکست دی ۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لشکر کی طرف لوٹ آئے ۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ جو ثابت قدم رہے ان میں کل سو لوگ تھے ۔۔۔ جن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، عباس رضی اللہ عنہ علی المرتضی رضی اللہ عنہ ، فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ شامل تھے ۔۔۔۔ خواتین اسلام کی بہادری ۔۔۔۔۔اس جنگ میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھی وہ فرماتی ہیں۔۔۔جو ہوازن کی جانب سے حملہ تو شکست خوردہ بھاگ رہے تھے اور میں چار عورتوں کے ساتھ تھی میرے میری تلوار تھی اور ام سلیم کے پاس خنجر تھا۔ ام سلیم ان دنوں حاملہ تھی انکی کوکھ میں عبداللہ بن ابی طلحہ تھے ۔۔۔ اسکے علاؤہ ام حارث اور ام سلیط بھی تھیں ۔۔یہ خواتین تلوار لیے انصار کو چیخ چیخ کر پکار رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ یہ تمھاری عادت نہیں کہ تم میدان جنگ سے بھاگ جاؤ ۔۔۔مزید فرماتی ہیں۔۔ میں قبیلہ ہوازن کے ایک شخص کو دیکھ رہی تھی جو خاکی رنگ کے اونٹ پر سوار تھا اسکے پاس جھنڈا تھا ۔۔ وہ اپنے اونٹ کو مسلمانوں کو پچھے بھگا رہا تھا ۔۔ میں اسکے سامنے آگئی اور اونٹ پر وار کیا وہ اونٹ پشت کے بل گر گیا میں فوراً اس شخص پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اسکی تلوار لے لی اور اونٹ جو دھاڑتے ہوئے یونہی چھوڑ دیا ۔۔۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو پکارا تو واپس آگئے اسکے بعد ہوازن کو شکست ہوئی ۔۔۔۔ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو آپ پر ایمان لائے، پھر آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور آپ کو رسوا کردیا۔۔۔ آپ ان کو ہر گز معاف نہ کیجیے گا۔۔ جب اللہ نے آپ کو ان پر قدرت دے تو انکو بھی مشرکوں کی طرح قتل کر دیجیے گا۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! اللہ کافی ہے اور اللہ کی عافیت وسیع ہے۔۔ ام سلیم کیساتھ اس دن ابو طلحہ کا اونٹ تھا اس ڈر تھا کہ وہ اونٹ غالب کر بھاگ جائے گا۔۔ انہوں نے حاملہ ہونے کے باوجود ام سلیم نے اونٹ کو اپنے سر کے قریب کیا اور اپنا ہاتھ لگام کے ساتھ اسکے حلقے میں ڈالا اور اسکے درمیان میں اپنی چادر باندھ رہی تھیں ان سلیم کے ہاتھ میں خنجر بھی تھا۔۔۔ ابو طلحہ نے پوچھا : اے ام سلیم! یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ انہوں کہا خنجر ہے اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اسکا پیٹ پھاڑ دوں گی۔۔ حضرت ابو طلحہ مسکرائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سن رہے ہیں ام سلیم کیا کہہ رہی ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا دیا ۔۔ ام حارث انصاریہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابو حارث کے اونٹ کی لگام پکڑی ہوئی تھی انکے اونٹ کا نام مجسار تھا ۔۔ انہوں کہا اے ابو حارث تم اللہ کے رسول کو چھوڑتے ہو ؟ میں نے اونٹ کی لگام پکڑ رکھی ۔۔ وہاں باقی اونٹوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر ابو حارث کا اونٹ کا بھی کوشش کررہا تھا ان کیساتھ جاکر مل جائے لیکن ام حارث نے اسے مظبوطی سے پکڑی ہوئی تھی۔۔ وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب آ رہے تھے ان سے ام حارث نے ان لوگوں کے متعلق پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ یعنی یہ کہاں بھاگ رہے ہیں؟ تو حضرت عمر فاروق رضی عنہ نے فرمایا : یہ امر الٰہی ہے ۔۔۔ اس پر ام حارث نے غصے میں آکر کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو میرے اونٹ سے گزرے گا یعنی آگے نکل جائے گا میں اسے قتل کر دوں گی ۔۔۔ اللہ کی قسم آج کے دن کی طرح میں نے نہیں دیکھا ۔ یہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔۔ ام حارث بنو سلیم اور اہل مکہ کے بارے میں کہہ رہی تھی جو شکست کھا کر بھاگ رہے تھے۔۔۔ محمد رفیق مینگل ۔۔۔۔

Tuesday, 19 March 2024

– نظریہ ارتقاء (Evolution) کے حوالے سے آٹھ (08) بنیادی سوالات/غلط فہمیاں اور ان کے جوابات سوال نمبر 01: نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان بندروں سے ارتقا پذیر ہوا ہے اور یہ کہ انسان بندر کی اولاد ہے ؟جواب:ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان بندر کی اولاد نہیں اور نہ ہی یہ کہ انسان بندر سے ارتقاء پذیر ہوا ہے بلکہ نظریہ ارتقاء ہمیں یہ وضاحت فراہم کرتی ہے کہ کس طرح سے قدرتی انتخاب یعنی (natural selection) کے ذریعے وقت کے ساتھ ساتھ انواع (species) میں تبدیلی آتی ہیں اور نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان اور بندر ایک ہی آبا و آجداد سے ہیں۔ یعنی تمام جاندار بشمول انسان اور بندر ایک مشترکہ نسب رکھتے ہیں اور قدرتی انتخاب کے عمل کے ذریعے وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔سوال نمبر 02:قدرتی انتخاب (natural selection) کا مطلب کیا ہیں؟ جواب: قدرتی انتخاب ایک ایسا عمل ہے جو جانداروں کی ان خصلتوں کو پسند کرتے ہوئے اپنے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرتا ہے جو ان کے زندہ رہنے اور تولید (reproduction) کے امکانات کو بڑھاتی ہیں۔مثال کے طور پر آپ تصور کریں کہ ایک جنگل میں خرگوشوں کا ایک گروہ رہتا ہیں۔ کچھ خرگوش دوسروں کے مقابلے میں تیز ہو سکتے ہیں اور کچھ کی کھال ہو سکتی ہے جو درختوں اور جھاڑیوں کے ساتھ اچھی طرح مل جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے وحشی جانوروں جیسے بھیڑے سے بچنے کے امکانات تیز رفتار خرگوش اور بہتر چھلاورن کے ساتھ بھیڑے سے بچنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔یعنی سست خرگوش اور کم موثر چھلاورن والوں میں پکڑے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تیز رفتار اور بہتر چھلاوے والے خرگوشوں کے زندہ رہنے اور بچے پیدا کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، وہ اپنے جینز (genes) کو رفتار اور اچھی چھلاورن کے لئے اپنی اولاد میں منتقل کریں گے اور یہی نیچرل سیلکشن ہے۔یا ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے زرافے کی مثال لیتے ہے، وقت گزرنے کے ساتھ، لمبی گردن والے زرافے درختوں میں خوراک کے ذرائع تک پہنچنے میں بہتر طور پر کامیاب ہوگئے تھے، جس سے انہیں اپنی چھوٹی گردن والے ہم جنسوں پر ایک اضافی فائدہ ملتا تھا۔ نتیجے کے طور پر، ان کے زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا ہونے کا زیادہ امکان تھا، ان کے لمبی گردن والے جین (genes) اگلی نسل میں منتقل ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ صورتحال زرافے کی لمبی گردن کے ارتقاء کا باعث بنی، جو کہ اب مخصوص نوع کی ایک مشہور خصوصیت ہیں۔سوال نمبر 03:کیا قدرتی انتخاب کا تصور یہ ظاہر نہیں کرتا ہے کہ زندگی کی کچھ شکلیں یا کچھ انواع (species) فطری طور پر دوسروں سے برتر ہیں یعنی ایک دوسرے پر فوقیت رکھتی ہیں ؟جواب: جی نہیں، ضروری نہیں ہے۔ قدرتی انتخاب ان خصلتوں کی حمایت کرتا ہے جو کسی حیاتیات کو ایک خاص ماحول میں زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک زندگی کی شکل فطری طور پر دوسری سے بہتر ہے۔ زندگی کی ہر شکل کی اپنی منفرد طاقتیں اور کمزوریاں ہوتی ہیں اور ہر ایک قدرتی دنیا کے تنوع میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔سوال نمبر 04: قدرتی انتخاب (natural selection) کا یہ تصور زمین پر زندگی کی شکلوں کی پیچیدگی (Complexities) اور تنوع (Diversity) کی وضاحت کیسے کرتا ہے ؟جواب: اصل میں، قدرتی انتخاب کا تصور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ زمین پر زندگی کی شکلوں کی پیچیدگی اور تنوع وقت کے ساتھ کس طرح تیار ہوئے ہیں۔ قدرتی انتخاب ایک ایسا عمل ہے جو ان خصلتوں کی حمایت کرتا ہے جو حیاتیات کو کسی خاص ماحول میں زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ فائدہ مند خصلتیں آبادی میں زیادہ عام ہو جاتی ہیں، جس سے نئی نسلوں کی نشوونما اور زندگی کی شکلوں میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جزیرے پر رہنے والے پرندوں کے گروپ کو تصور کریں۔ کچھ پرندوں کی چونچ لمبی ہوتی ہیں، جبکہ کچھ کی چونچ چھوٹی ہوتی ہیں۔ اگر اس جزیرے پر پرندے زمین میں گہرائی میں دبے ہوئے بیجوں کو کھاتے ہیں تو لمبی چونچ والے پرندے کے زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیج تک پہنچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، اس جزیرے پر پرندوں کی آبادی میں لمبی چونچوں والے پرندوں کا غلبہ ہو جاتاہے۔ کئی نسلوں کے دوران، ان پرندوں کی چونچیں تیار ہوتی رہتی ہیں اور اس سے بھی لمبی ہو سکتی ہیں، بالکل اس ماحول کے مطابق جس میں وہ رہتے ہیں ۔سوال نمبر 05: کیا ڈارون کا نظریہ ارتقاء محض ایک تھیری (Theory) کی حیثیت نہیں رکھتی ؟ اور تھیری کسی مسلَّم قانون کی حیثیت نہیں رکھتی۔ جواب:اگرچہ قدرتی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کو ایک تھیری کی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ قیمتی یا مفید نہیں ہے۔ سائنس کی دنیا میں تھیری مشاہدہ شدہ حقائق کے مجموعے کے لئے ایک وضاحت ہے جس کا بار بار تجربہ کیا گیا ہیں اور ثبوت کے ذریعے اس کی تائید کی گئی ہے۔ ارتقاء کی تھیری کا وسیع پیمانے پر تجربہ کیا گیا ہے اور مطالعہ کے بہت سے مختلف شعبوں کے شواہد سے اس کی تائید کی گئی ہیں، جیسے جینیات (genetics) اور (paleontology) کے شعبوں میں باقاعدہ ارتقاء ثابت ہوئی ہے۔ ڈارون کے قدرتی انتخاب کے ذریعے کا مقصد کسی کے عقائد کو بدلنا یا اس سے تصادم پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ یہ ایک سائنسی وضاحت ہے کہ زمین پر زندگی کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح پروان چڑھی اور متنوع ہوئیں۔ یہ اس فطری عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جو سائنسی تحقیقات کے ذریعے جمع کیا گیا ہے۔ایک سائنسدان کا کام یہ ہوتا ہے کہ قدرتی دنیا کو ایسے سمجھے جیسے کہ وہ ہیںہیں اور ایک مستند سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ شواہد اور بار بار تجربات کی بنیاد پر وضاحتیں فراہم کریں۔ ارتقاء کا ارتقاء کسی خدائی خالق کے وجود یا فطرت کی وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے امکان کی نفی کرتا ہے۔ یہ ایک سائنسی نظریہ ہے جو ہمیں ان فطری اعمال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے جنہوں نے زمین پر زندگی کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سوال نمبر 06:ڈارون کا نظریہ ارتقاء کا فائدہ کیا ہیں اور یہ عملی زندگی میں ہماری کیا مدد کرسکتا ہے ؟جواب: ارتقاء کی بابت کام کے بہت سے عملی اطلاقات ہیں جنہوں نے متعدد طریقوں سے زندگی کو سمجھنے اور بہتر بنانے میں ہماری مدد کی ہیں جیسے؛ 1) ادویات (medicines):ارتقاء کی صحیح سمجھ بیماریوں کے لئے نئی دوائیں اور علاج تیار کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ یہ سمجھنے سے کہ بیکٹیریا اور وائرس کیسے تیار ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم بنتے ہیں، ہم نئے علاج تیار کر سکتے ہیں جو ان پیتھوجینز کا مقابلہ کرنے میں زیادہ موثر ہیں۔2) زراعت (Agriculture) ارتقاء کے کام نے فصلوں کی نئی اقسام تیار کرنے میں ہماری مدد کی ہے جو کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحم ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ پودوں کی انواع کس طرح تیار ہوتی ہیں اور اپنے ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں، ہم فصل کی نئی قسمیں تیار کر سکتے ہیں جو کہ مخصوص بڑھتے ہوئے حالات کے لیے بہتر طور پر موزوں ہیں۔3) تحفظ (Conservation):نظریہ ارتقاء نے ہمیں حیاتیاتی تنوع کی اہمیت اور ماحولیاتی نظام میں مختلف انواع کے باہمی ربط کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔ اس بات کا مطالعہ کرنے سے کہ مختلف انواع و جاندار کی نشوونما کیسے ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ کیسے تعامل کرتے ہیں، ہم تحفظ کی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں جو خطرے سے دوچار انواع اور جانداروں کے تحفظ اور قدرتی رہائش گاہوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔4) فرانزک سائنس (Forensic science):اور سب سے ضروری یہ کہ نظریہ ارتقاء نے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے اور ان کے جینیاتی مواد سے افراد کی شناخت کے لئے نئے طریقے تیار کرنے میں ہماری مدد کی ہے۔ یہ سمجھنے سے کہ ڈی این اے کس طرح تیار ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے، ہم فرانزک تجزیہ کے لئے زیادہ درست اور قابل اعتماد طریقے تیار کر سکتے ہیں۔لہذا زمین پر زندگی کے تنوع کو تشکیل دینے والے قدرتی عمل کو سمجھ کر، ہم نئی ٹیکنالوجیز اور حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں جو صحت منداور زیادہ پائیدار زندگی گزارنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔سوال نمبر 07: نظریہ ارتقاء زندگی کی ابتدا کی وضاحت کیسے کرتا ہے؟ڈارون کا نظریہ ارتقاء کا کام زندگی کی ابتداء کی وضاحت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ قدرتی انتخاب یعنی (natural selection) کے ذریعے جانداروں کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح تبدیل ہوئیں۔سوال نمبر 08: کیا نظریہ ارتقاء نے انسان کو ایک جانور کی حیثیت نہیں دی اور اور یہ کہ انسانوں کو اب آخلاقیات کی کیا ضرورت اگر انسانوں کی حقیقت یہ ہے؟جواب: یہ واقعی ایک غلط فہمی ہے لیکن ڈارون نے خود انسانی معاشروں میں اخلاقیات اور اخلاقیات کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور انہوں نے اپنی بعد کی تصانیف میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہیں۔ ڈارون نے درحقیقت یہ دلیل دی ہے کہ انسانوں نے اخلاقی اور اخلاقی رویے کی صلاحیت کو تیار کیا ہیں اور یہ کہ ان خصلتوں نے ایک نسل کے طور پر ہماری کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ نظریہ ارتقاء کی یہ تشریح کر سکتے ہیں کہ انسان دوسرے جانور ہی کی طرح ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں اپنے اخلاقی اصولوں کو ترک کر دینا چاہئیے۔ بلکہ ہمیں قدرتی دنیا میں اپنے مقام کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے جو ہم نے بہت مشقت کی بعد حاصل کیا ہیں اور ہمیں انسانوں اور غیر انسانی جانوروں سمیت تمام جانداروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا چاہیئے۔تحریر: میثم عباس علیزی

سائنس اور ارتقا یہ نہیں کہتے کہ انسان بندر سے بنا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔سائنس اور ارتقاء /ایولیوشن یہ بلکل بھی نہیں کہتی کہ انسان پہلے بندر تھا، یا انسان بندر سے بنا ہے، یا کچھ بندروں میں ارتقاء ہوا اور وہ انسان بن گئے۔ یہ باتیں ارتقاء سے نابلد لوگ کرتے ہیں۔ اگلی بات کرنے سے پہلے آپ بندروں اور ایپس (apes) میں تھوڑا فرق جان لین، جب ہم لفظ "بندر" کہتے ہیں تو اس سے مراد monkeys ہیں، جبکہ apes سے مراد بندروں سے ملتے جلتے کچھ اور جانور ہیں جیسے چیمپینزی، گوریلا وغیرہ۔ ان دونوں میں ایک عام فرق یہ پے کہ apes کی دم نہیں ہوتی، جبکہ تقریباً سب بندوں کی دم ہوتی ہے۔ تو ہمیں apes اور بندروں کا فرق پتہ لگ گیا۔ ارتقائی طور پر ہمارے زیادہ قریبی رشتہ دار آج کے افریکی apes ہیں، نہ کہ بندر۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم apes سے ارتقا ہوئے ہیں یعنی انسان apes سے بنے ہیں۔ بلکہ اج سے 50 لاکھ سے ایک کروڈ سال پہلے انسانوں اور آج کے افریکی apes کا ایک مشترکہ جد تھا، جس کی نسل کے ارتقا سے افریکی apes بھی نکلے اور کچھ ایسے جانور بھی جو انسان نما تھے، جن سے پھر موجودہ انسان آیا۔ تو اس سے ہمیں پتہ لگا کہ انسان بندر یا apes سے نہیں بنے بلکہ ان میں اور انسانوں میں ایک مشترکہ جد پے۔جہاں تک بندروں کا تعلق ہے، تو ارتقائی لحاظ سے انسان ان کے ساتھ بھی ایک مشترکہ جد رکھتے ہیں، لیکن انسانوں کا ارتقائی رشتہ apes سے زیادہ قریبی ہے۔ اسی طرح سب جاندار بھی کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے مشترکہ جد رکھتے ہیں، کیونکہ سب کا ارتقا ایک ہی جاندار سے ہوا ہے تو کہیں نہ کہیں سب میں ارتقائی رشتہ ملتا ہے۔ دوسری بات، سائنسی موضوعات میں سائنسی دلائل ہی دئیے جاسکتے ہیں۔ جو شاید ایک سائنسی سمجھ نہ رکھنے والے آدمی کو غیر منتقی لگیں۔ جیسے taxonomy کے اعتبار سے آج کی گائے، وہیل کے زیادہ قریبی ہے، بانسبت ایک گھوڑے کے۔ وہیل اور گائے دونوں کا ایک ہی order جبکہ گھوڑے کا order مختلف ہے۔ حالانکہ عام آنکھ سے دیکھنے والے کو ایک گھوڑا اور گائے ایک دوسرے سے زیادہ ملتے جلتے لگیں گے، بانسبت ایک وہیل کے۔ سو سادہ زبان میں زمین پر موجود زندگی کروڑوں سالوں کے ارتقا کے بعد آئی ہے، اور اس راستے میں کہیں نہ کہیں ہر جاندار دوسرے جاندار سے ارتقائی رشتہ رکھتا ہے، لیکن اس سفر کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے background knowledge ہونا ضروری ہے۔ ارتقاء کو اچھے سے سمجھنے کے لیے بنیادی سائنس اور بیالوجی کی سمجھ ہونا ضروری ہے۔۔۔نوٹ: یہ تحریر وارث علی کی ہے جو انہوں نے سائنس کی دنیا کے لیے لکھی تھی۔#وارث_علی

*🌍اردو ادب - جنرل نالج سوالات ...!!!*1- اردو زبان کےتقریبا 54009 الفاظ ہیں۔2- ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے بادشاہ اکبر اعظم کےعہد میں استعمال ہوا۔3- ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔4- افسانہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کےادب سے آیا ہے۔5- کہہ مکرنی اردو نثر میں سب سے قدیم صنف ہے۔6- ترقی پسند تحریک کےحوالے سے افسانوی کے پہلے مجموعے کا نام انگارے ہے۔ 7- اردو ڈرامے کاآغاز لکھنؤ سے انیسویں صدی میں ہوا۔8- جدید اردو نظم کا آغاز انجمن پنجاب لاہور سے ہوا۔9- علامہ اقبال کا سب سے پہلا شعری مجموعہ اسرارخودی ہے۔10- علامہ راشدالخیری کو طبقہ نسواں کا محسن قرار دیا گیا۔11- جس شاعری میں نقطہ نہ آئے اسے بے نقط شاعری کہتے ہیں۔ 12- فارسی ایران کی زبان ہے۔ 13- مغلوں کے زمانے میں عربی اور فارسی سرکاری زبانیں تھیں۔ 14- اردو کو 1832 میں برصغیر میں سرکاری زبان کا درجہ ملا۔ 15- اردو کی پہلی منظوم کتاب کدم راو پدم راو ہے۔16- مولانا حالی نے ""مسدس حالی"" سر سید کےکہنے پر لکھی۔ 17- الطاف حسین حالی مرزا غالب کے شاگرد ہے۔18- مخزن رسالہ شیخ عبدالقادر نے اپریل 1901ء میں شائع کیا۔ 19- اردو کا پہلا سفر نامہ عجائبات فرہنگ یوسف خان کمبل پوس ہے۔20- اسماعیل میرٹھی بچوں کے شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ 21- دارالمصفین اعظم گڑھ کے بانی مولانا شبلی نعمانی تھے۔22- فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔23- علامہ اقبال کی پہلی نثری کتاب ""علم الاقتصاد ""اقتصادیات کے موضوع پر ہے۔24- فیض احمد فیض واحد پاکستانی شاعر ہیں جہنیں روسی ایوارڈ لنین پرائز ملا۔25- پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی کتاب چراغ سحر میں ہے۔26- شکوہ جواب شکوہ علامہ اقبال کی کتاب بانگ دار میں ہے۔27- مسدسِ حالی کا دوسرا نام مدوجزر اسلام ہے۔ 28- زمیندار اخبار مولانا ظفر علی خان نےجاری کیا۔29- اردوکا ہمدرد اور انگریزی کا ""کا مریڈ""مولانا محمد علی جوہر نےجاری کیا۔30- اردو کا پہلا ڈرامہ اندر سبھا امانت لکھنوی کا ہے۔31- آغاحشر کاشمیری کو اردو ڈرامے کا شیکسپیر کہاجاتا ہے۔ 32- غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع کہلاتا ہے۔33- علامہ اقبال کے خطوط ""اقبال نامہ""" کےنام سے شائع ہوئے۔34- قراۃالعین حیدر اردو کے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی تھی۔ 35- تہزیب الاخلاق رسالہ سر سید احمد خاں نے 1871ً میں شائع کیا۔36- اردو کا پہلا اخبار ""جام جہاں"" کلکتہ سے 1822ء میں شائع ہوا۔37- اردوکی نظم ""آدمی نامہ"" نظیر آکبر آبادی کی ہے۔38- بابائے اردو، مولوی عبدالحق کو کہا جاتا ہے۔39- اردو غزل کا باقاعدہ آغاز ولی دکنی نے کیا تھا۔40- غزل کے لغوی معنی ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔41- اکیلے شعر کو فرد کہاجاتا ہے۔42- شعر کےآخر میں تکرار لفظی کو ردیف کہتے ہیں۔ 43- پیام مشرق علامہ اقبال کی فارسی کتاب ہے جس کا دیپاچہ اردو میں ہے۔44- ایم اے او کالج علی گڑھ 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔45- اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدہ النساء بیگم ہیں۔46- ترقی پسد تحریک کے پہلے صدر منشی پریم چند ہیں۔ 47- اردو کےپہلے ناول نگار ڈپٹی نزیر احمد ہیں۔48- چوھدری فضل الحق نےاپنی کتاب ""زندگی"" گورکھپوری جیل میں لکھی۔ 49- علامہ اقبال کی پہلی نظم ہمالہ ہے۔50- اردو ہندی تنازعہ 1967ء کو بنارس سے شروع ہوا۔51- ریختہ کے لفظی معنی ایجاد کرنا ہے۔52- رابندر ناتھ ٹیگور پہلے ایشائی ہیں جن کو 1913ء میں نوبل انعام ملا۔53- یادوں کی بارات جوش میلح آبادی کی آپ بیتی ہے۔54- آواز دوست کے مصنف مختار مسعود ہیں۔ 55- جہان دانش احسان دانش کی آپ بیتی ہے۔56- اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر ہیں۔ 57- اپنا گریبان چاک ڈاکٹر جاوید اقبال کی آپ بیتی ہے۔ج58- کاغزی گھاٹ خالدہ حسین کا ناول ہے۔59- آب حیات کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد ہیں۔60- راجہ گدھ ناول بانو قدسیہ کا ہے۔61- اردو شعر اء کا پہلا تذکرہ نکات الشعراء میر تقی میر ہے۔ 62- اردو کی پہلی تنقیدی کتاب مقدمہ شعروشاعری مولاناحالی نے لکھی۔63- یادگار غالب اور حیات جاوید کے مصنف مولاناحالی ہیں۔64- سحرالبیان کےخالق میر حسن ہیں۔ 65- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ابن انشاء کا سفر نامہ ہے۔66- تذکرہ اور غبارِ خاطر مولانا ابوالکلام کی تصانیف ہیں۔67- رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کے مصنف سرسید احمد خان ہیں۔ 68- بلھے شاہ کا اصل نام سید عبدللہ ہے۔69- اردو کےپہلے مورخ کا نام رام بابو سکسینہ ہے۔70- اردو کی پہلی گرائمر انشاءاللہ خان نے لکھی۔ 71- خطوط نگاری کے بانی رجب علی بیگ ہیں۔ 72- اردو کی طویل ترین نظم مہا بھارت ہے۔73- آزاد نظم کے بانی ن-م راشد ہیں۔ 74- سید احرار لقب حسرت موہانی کو ملا۔ 75- حفیظ جالندھری کوشاعر اسلام کہا جاتا ہیے۔ 76- پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہے۔77- اہلِ لاہور کو زندہ دلان لاہور کا لقب سر سید احمد خان نے دیا۔78- علامہ اقبال اپنے آپ کو مولانا روم کاشاگرد کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ 79- سنسکرت اور فارسی ایشیاء براعظم کی زبانیں ہیں۔ 80- سنسکرت برصغیر میں مختلف وقتوں میں دو مرتبہ درباری زبان بنی۔ 81- اردو آج دو رسم الخطوط میں لکھی جاتی تھی۔82- برج بھاشا بین الصوبائی لہجہ تھا۔83- پنجابی، دکنی، سندھی، اور برج بھاشا کا اصل مخرج ہراکرت تھا۔84- جب سندھ کو اسلامی لشکر نے فتح کیا اس میں عربی اور فارسی زبان بولنے والے لوگ شامل تھے۔ 85- اردو کی پہلی تحریک حضرت گیسو دراز قرار دیا جاتا ہے۔86- سب سے پہلے غزل گو شاعر ولی دکنی ہے۔87- قران مجید کا اردو میں پہلا لفظی ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ( 1786ء)۔89- سر سید نے خطبات احمدیہ انگلستان میں کتاب لکھی تھی۔ 90- روسو کی اس آواز کو رومانوی تحریک کا مطلع کہا جاتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہو مگر جہان دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔ 91- دس کتابیں یہ مرکب عددی ہے۔ 92- فعل اور مصدر میں باہمی فرق فعل میں ہمیشہ زمانہ پایا جاتا ہے مصدر میں نہیں۔93- مہر نیمروز غالب کی تصنیف ہے۔94- شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کی تصنیف ہے۔95- مصحفی کے آٹھ دیوان ہے۔ 96- دہلی مرحوم حالی کا مرثیہ ہے۔97- جدید اردو بثر سب سے پہلے سرسید نے لکھی۔ 98- زندہ رود کے مصنف جاویداقبال ہیں۔ 99- اردو میں مثنوی نگاری فارسی کے توسط سے زیر اثر آئی۔ 100- قصیدے کے پانچ اجزائے ہیں نشیب، گریز، مدح، عرض مطلب، مدعا۔اک بستی آباد تھی اپنی، رہتے تھے اس کے دل میں آدھی رات کو یادیں اس کی اشکوں سے ہم دھوتے ہیں۔انتخاب و ترسیل: سلیم خان

Saturday, 16 March 2024

(نوٹ: صاحب تحریر کے متعلق معلومات نہیں ہیں کیونکہ یہ صرف ذاتی معلومات کے لیے محفوظ کی گئی تھیہیجڑے پیدا کیسے ہوتے ہیں ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان کی پیدائش ہوتی ہے۔جہاں تک بائیولوجیکل فارمیشن کا تعلق ہے تو عورت ایک ایکس اور مرد ایکس وائی کروموسومز پیدا کرتے ہیں۔ جب مرد کا X کروموسومز عورت کے X کروموسومز کے ساتھ مل جائے یعنی ڈبل x بن جائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے اور اگر مرد کا Y کروموسوم عورت کے ایکس کروموسومز کے ساتھ مل جائے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔اگر اس مرحلے میں کچھ عدم توازن ہوجائے تب ہیجڑا پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات جان لینا انتہائی ضروری ہے کہ نہ تو ہیجڑے کوئی الگ مخلوق ہے اور نہ ہی کوئی الگ قوم ہیں وہ انسان ہی ہیں۔ان میں سے بعض مردان اوصاف سے اور بعض زنانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں۔ انسان میں 23 کروموسومز کے جوڑے پائے جاتے ہیں اور ہر جوڑا دو کرومیٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 46 کرومیٹین پائے جاتے ہیں۔ کرومیٹین کی شکل کو دیکھا جائے تو یہ انگریزی زبان کے حروف X اور Y سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لئے ان کو XاورYکرومیٹین کہا جاتا ہے۔ عورت کے خلیے میں موجود ہر کروموسومز کے جوڑے میں دو کرومیٹین XXپائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں کے ہر کروموسومز کے جوڑے میں ایک Xاور Yکرومٹین پایا جاتا ہے۔ اس طرح مرد کے 23کروموسومز کے جوڑوں میں 23کرومیٹین Xاور 23کرومیٹینY پائے جاتے ہیں۔ انسان کے نئے پیدا ہونے والے بچے میں بھی کروموسومز کے 23جوڑے بنتے ہیں جو کہ ماں باپ کے کرومیٹینز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جن میں سے 22جوڑے رنگ، نسل، زبان اور دیگر خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ 23واں جوڑا پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا تعین کرتا ہے۔ اگر 23ویں جوڑے میں ماں کی طرف سے مہیاکیے گئے کرومیٹین Xکے ساتھ باپ کے کرومیٹین X کا ہی جوڑا بن جائے تو بچہ کی جنس لڑکی ہو گی اور اگر اسی 23ویں جوڑے میں ماں کے X کرومیٹین کے ساتھ باپ کا Yکرومیٹین جوڑا بنا لے تو بچہ کی جنس لڑکا ہوگی۔ اور اس طرح پیدا ہونے والے لڑکے میں بھی کروموسومز XYکے 23 جوڑے ہوں گے یا لڑکی کی صورت میں اس میں کروموسومز XXکے 23 جوڑے ہوں گے۔1942میں Klinefelter نے ایسی ہی ایک بیماری کی طرف نشاندہی کی تھی کہ کروموسومز کی تبدیلی کے وقت مرد وں میں بعض اوقات ایک زائد کرومیٹین Xپیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس انسانی جسم میں 46کی بجائے 47 کرومیٹین پائے جاتے ہیں اور نتیجتاً 23واں بننے والا جوڑا XXYکی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے ایک ابنارمیلٹی پیدا ہوتی ہے جس کو سائنسی زبان میں 47، XXYاور عام فہم زبان میں Klinefelter Syndromکہا جاتا ہے۔ غالباًاسی ایک زائد کروموسومز کی وجہ سے انگریزی میں اس صنف کو Transgender کہتے ہیں انگریزی کے لفظ Trans کے معنی زائد کے ہیں اور عربی میں ان کے لئے لفظ مخنث تجویز کیا گیا ہے جس کا مادہ لفظ خنث سے لیا گیا ہے جس کے معنی کسرکے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق مرد میں XXYکروموسومز کی ابنارملٹی ایک عام عنصر ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر 500افراد میں سے ایک فرد میں یہ ابنارملیٹی پائی جاتی ہے ویسے اس کی تو کوئی ظاہری علامت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر بچہ کی پیدائش کے وقت یہی ابنارمل جوڑا باپ کی طرف سے XX یا XYکی شکل میں ماں کے کرومیٹین Xسے جوڑا بنا لے تو بچہ پیدائشی طور پر اس دردناک بیماری 47، XXY یا 47، XXXکا شکار ہوکر ایک Mutational Disorder کی صورت میں جنم لے گا۔واضح رہے کہ ماں کی طرف سے ہر صورت ایک ہی کرومیٹین Xآتا ہے جبکہ باپ کی طرف سے X، Y دونوں میں سے کسی ایک کرومیٹین کے آنے کے مساوی امکانات ہوتے ہیں یعنی بچہ کی جنس کا تعین مکمل طور پر باپ کے کرومیٹین پر منحصر ہوتا ہے

‎*زکوٰۃ کے متعلق انتہائی اہم معلومات اور ہر طبقے مثلا عام لوگ، تاجر، زمیندار اور جانور پالنے والوں کے لئے*‎*خدارا خود بھی پڑھیں اور دوسروں تک پہنچانے کا فرض ادا کریں۔ جزاک الله۔*ایک لاکھ پر -/2500دو لاکھ پر -/5000تین لاکھ پر -/7500چار لاکھ پر -/10000پانچ لاکھ پر-/12500چھ لاکھ پر -/15000سات لاکھ پر-/17500آٹھ لاکھ پر-/20000نو لاکھ پر-/22500دس لاکھ پر-/25000بیس لاکھ پر-/50000تیس لاکھ پر-/75000چالیس لاکھ پر-/100000پچاس لاکھ پر-/125000ایک کروڑ پر-/250000دو کروڑ پر-/500000‎ہم زکوٰۃ کیسےادا کریں؟‎اکثرمسلمان رمضان المبارک میں زکاة ادا کرتے ہیں اس لیے‎الله کی توفیق سےیہ تحریر پڑھنےکےبعدآپ اس قابل ہوجائیں گےکہ آپ جان سکیں‎🔹سونا چاندی‎🔸زمین کی پیداوار‎🔹مال تجارت‎🔸جانور‎🔹پلاٹ‎🔸کرایہ پر دیےگئے مکان‎🔹گاڑیوں اوردکان وغیرہ کی زکاۃ کیسے اداکی جاتی ہے۔1۔زکوٰۃکا انکار کرنے والاکافر ہے۔(حم السجدۃآیت نمبر 6-7)‎2۔زکوٰۃادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائےگا۔(التوبہ34-35)3۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم قحط سالی کاشکار ہوجاتی ہیں۔(طبرانی)4۔زکوٰة كامنکر‎جوزکوٰةادانہیں کرتااسکی نماز،روزہ،حج سب بیکار ہیں۔‎5 ۔زکوٰۃاداکرنے والےقیامت کےدن ہر قسم کےغم اورخوف سےمحفوظ ہونگے(البقرہ 277)‎6۔زکوٰۃ کی ادائیگی گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا بہت بڑاذریعہ ہے(التوبہ103)‎🔴زکوٰۃکا حکم🔴‎🔹ہر مال دارمسلمان مرد ہو یاعورت پر زکوٰۃ واجب ہے۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ ،عاقل ہویا غیر عاقل بشرط یہ کہ وہ صاحب نصاب ہو۔‎🔘نوٹ۔سود،رشوت،چوری ڈکیتی،اور دیگرحرام ذرائع سےکمایا ہوا مال ان سےزکوٰۃ دینے کابالکل فائدہ نہیں ہوگا۔‎✔صرف حلال کمائی سے دی گئی زکوٰۃ قابل قبول ہے۔‎☑زکوٰۃ کتنی چیزوں پر ہے‎زکوٰۃ چار چیزوں پر فرض ہے ۔‎🔹1۔سونا چاندی‎🔸2۔زمین کی پیداوار‎🔹3۔مال تجارت‎🔸4۔جانور۔‎⬅سونے کی زکوٰۃ➡87گرام یعنی ساڑھےسات تولے سونا پر زکوٰۃ واجب ہے‎(ابن ماجہ1/1448)‎🔴نوٹ۔سونا محفوظ جگہ ہو یا استعمال میں ہر ایک پرزکوٰۃ واجب ہے۔(سنن ابودائود کتاب الزکوٰۃ اوردیکھئے حاکم جز اول صفحہ 390 ۔‎فتح الباری جز چار صفحہ 13‎⬅چاندی کی زکوٰۃ➡612گرام یعنی ساڑھےباون تولے چاندی پر زکوٰۃواجب ہے اس سے کم وزن پر نہیں۔(ابن ماجہ)‎✅زکوٰۃ کی شرح❗‎زکوٰۃ کی شرح بلحاظ قیمت یا بلحاظ وزن اڑھائی فیصد ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)‎✅زمین کی پیدا وار پر زکوٰۃ‎مصنوعی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیدا وارپر عشر بیسواں حصہ دینا ہوگا ورنہ ہے۔قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی پیداوار پر شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے دیکھئے(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)‎🔴نوٹ:زرعی زمین والےافراد گندم،مکی،چاول،باجرہ،آلو،سورجمکھی،کپاس،گنااوردیگر قسم کی پیداوار سے زکوٰۃ یعنی (عشر )بیسواں حصہ ہرپیداوار سےنکالیں۔‎(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)‎⬅اونٹوں کی زکوٰۃ➡‎💠پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ ایک بکری اور دس اونٹوں کی زکاۃ دو بکریاں ہیں۔پانچ سے کم اونٹوں پر زکوٰۃ واجب نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)‎⬅بھینسوں اورگائیوں کی زکوٰۃ➡💠30گائیوں پر ایک بکری زکوٰۃہے۔40گائیوں پردوسال سے بڑا بچھڑا زکوٰۃ دیں۔(ترمذی1/509)‎✅بھینسوں کی زکوٰۃکی شرح بھی گائیوں کی طرح ہے۔‎⬅بھیڑبکریوں کی زکوٰۃ➡40سے ایک سو بیس بھیڑ بکریوں پر ایک بکری زکوٰۃہے120سےلےکر200تک دو بکریاں زکوٰۃ۔‎(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)‎⛔چالیس بکریوں سے کم پرزکوٰۃ نہیں۔‎✅کرایہ پر دیئے گئےمکان پر زکوٰۃ❗‎💠کرایہ پردیئے گئے مکان پر زکوٰۃنہیں لیکن اگراسکاکرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے جو نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو پھر اس کرائے پر زکوٰۃ واجب ہے۔اگر کرایہ سال پورا ہونے سے پہلے خرچ ہو جائے توپھر زکوٰۃ نہیں۔شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد ہوگی۔‎✅گاڑیوں پر زکوٰۃ‎💠کرایہ پر چلنےوالی گاڑیوں پر زکوٰۃ نہیں بلکہ اسکے کرایہ پر ہےوہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے اور نصاب تک پہنچ جائے۔‎⛔نوٹ:‎گھریلو استعمال والی گاڑیوں، جانوروں،حفاظتی ہتھیار۔مکان وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں (صحیح بخاری)‎✅سامان تجارت پر زکوٰۃ‎💠دکان کسی بھی قسم کی ہو اسکےسامان تجارت پر زکوٰۃدینا واجب ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے اوراس پرایک سال گزر جائے۔‎⛔نوٹ:‎دکان کےتمام مال کا حساب کر کے اسکا چالیسواں حصہ زکوٰۃ دیں یعنی ۔دکان کی اس آمدنی پرزکوٰۃنہیں جوساتھ ساتھ خرچ ہوتی رہے صرف اس آمدنی پر زکوٰۃ دینا ہوگی جوبنک وغیرہ میں پورا سال پڑی رہے اور وہ پیسے اتنے ہوکہ ان سے ساڑھےباون تولےچاندی خریدی جاسکے‎✅پلاٹ یا زمین پر زکوٰۃ‎💠جو پلاٹ منافع حاصل کرنے کے لیئے خریدا ہو اس پر زکوٰۃ ہوگی ذاتی استعمال کے لیئے خریدا گیا پلاٹ پر زکوٰۃ نہیں۔😊‎(سنن ابی دائودکتاب الزکوٰۃ حدیث نمبر1562)‎✅کس کس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔‎ماں باپ اور اولاد کےسوا سب زکوٰۃکےمستحق مسلمانوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔والدین اوراولادپراصل مال خرچ کریں زکوٰۃ نہیں۔‎⛔نوٹ:‎(ماں باپ میں دادا دادی ، نانا نانی اوراولادمیں پوتے پوتیاں نواسیاں نواسے بھی شامل ہیں۔( ابن باز)‎✅زکوٰۃکےمستحق لوگ‎🔸1۔مساکین(حاجت مند)‎🔹2۔غریب ‎🔸3۔ زکاۃوصول کرنےوالے‎🔹4۔مقروض‎🔹5۔قیدی‎🔸6۔ *مجاھدین*‎🔹7.مسافر (سورۃالتوبہ60)Q.1 ‎ سوال: زکوة کے لغوی معنی بتائیے؟‎جواب: پاکی اور بڑھو تری کے ہیں۔Q2 ‎سوال: زکوة کی شرعی تعریف کیجئے؟‎جواب: مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ کسی مستحقِ زکوۃ کومالک بنانا۔Q 3 ‎سوال: کتناسونا ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟‎جواب: ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہوQ4 ‎سوال: کتنی چاندی ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟‎جواب: ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ ہو۔Q5 ‎سوال: کتنا روپیہ ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟‎جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔Q6 ‎سوال: کتنا مالِ تجارت ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟‎جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔Q7 ‎سوال: اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے، کچھ نقد روپیہ ہے، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مالِ تجارت ہے، ان کو ملاکر دیکھا جائےتو ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت بنتی ہےاس صورت میں زکوٰۃ فرض ہے یا نہیںجواب. فرض ہے‎سوال: چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں؟جواب. فرض ہے‎سوال: عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں ‎جواب: فرض*اس میسج کو اپنے گروپس میں اور دوستوں کے ساتھ ضرور شئر کیجئیے*

Friday, 15 March 2024

*بواسیر کی اقسام*بواسیر کی دو اقسام ہیں۔ 1- *بادی یا ریحی بواسیر*2- *خونی یا دموی بواسیر*پھر خونی کی بھی دو اقسام ہیں۔ 1- *دامیہ*جس میں مسوں کے ساتھ خون آتا ہو اس کو دامی یا دامیہ کہتے ہیں۔ 2- *عمیا*جس میں مسے تو ہوتے ہیں مگر خون نہیں آتا۔ اس کو عمیا کہتے ہیں۔ *نوٹ*ریحی بواسیر میں مسے نہیں ہوتے اگر ہوں بھی تو نمایاں نہیں ہوتے *مسوں کی اقسام*بواسیری مسے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ مختلف شکل و صورت کی وجہ سے ان کے نام بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چند اقسام درج ذیل ہیں۔ *عنبی* (انگوری شکل)۔ *تینی* (انجیرکی شکل)۔ *ثولولی* (دانہ مسور کی شکل)۔ *تمری* گٹھلی کھجور کی مانند سخت*توثی* (شہتوت کی طرح لمبے اور نرم)مقام کے لحاظ سے بواسیر کے مختلف نام ہیں مثلاً،*بواسیر الانف*ناک کے اندر بدگوشت پیدا ہو جاتا ہے۔ جو گلٹی کی طرح سخت اور سفید ہوتا ہے اس کے ساتھ درد کم ہوتا ہے۔ گاہے یہ بد گوشت سرخ اور نیلا ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ درد شدید ہوتا ہے۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ جب زرد اور بدبودار پانی بہہ رہا ہو۔ *بواسیر شفت*ہونٹ کی بواسیر س میں گاہے اوپر والے ہونٹ پر نیلے رنگ کا ابھار سا پیدا ہو جاتا ہے۔ ہونٹ باہر کی جانب لوٹ جاتا ہے۔ درمیان سے پھٹ جاتا ہے۔ اور گاہے نیچے والے ہونٹ پر سیاہ رنگ کا توت نما ابھار پیدا ہو جاتا ہے۔ *بواسیر الرحم*رحم کے اندر مسے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ مسے درد کی شدت کے وقت سرخ ورنہ زرد رہتے ہیں۔ ان سے میل کی مانند رطوبت خارج ہوتی ہے۔ جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ *بواسیر مقعد*اس کی دو اقسام ہیں 1- *بواسیر مقعد خارجی*مبرز کے باہر کی جانب ایک یا دو مسے بن جاتی ہیں۔ ان میں خارش جلن اور درد ہوا کرتا ہے۔ قبض ہونے سے یا سخت اور سرد جگہ بیٹھنے سے ان میں ورم ہو کر درد اور سوزش ہوتی ہے۔ 2- *بواسیر مقعد داخلی*مبرز سے لے کر دو انچ اوپر تک مسے بنتے ہیں۔ یا تو مقعد کے ارد گرد چاروں طرف میوکس ممبرین میں وریدیں پھول جاتی ہیں۔ *نوٹ* :-خارجی بواسیر در اصل اندرونی بواسیر کی علامت ہے۔ یعنی پہلے اندرونی بواسیر ہوتی ہے۔ اور اس کے کچھ عرصہ بعد خارجی بواسیر پیدا ہو جاتی ہے۔ *ضروری یاداشت*۱- بواسیر کیسی بھی ہو اس کا سبب واصلہ بواسیری زہر ہے جو جسم انسان کے اندر ہی تیار ہوتا ہے اور عموماً اس کی نوعیت موروثی ہوتی ہے۔ ۲- علاج کرتے ہوئے اگر بواسیر کی بجائے بواسیری زہر کو پیش نظر رکھا جائے تو ہر قسم کی بواسیری علامات کا کامیاب تدارک ہو سکتا ہےنسخہ ھوالشافیدھماسہ 100 گرامتخم سرس 100 گراممغز نیم 50 گرامرسونت اصلی 80 گرامھلدی 30 گرامتخم بکاین 50 گرامپوست ریٹھا 40 گرامان سب اشیاء کوئی گرائنڈر کرلیں حسب ضرورت250 ملی کیپسول یا نخودی گولی تیار کرلیں ایک گولی یا کیپسول ھمراہ تازہ پانی سے صبح بعد از ناشتہ اور ایک رات کو بعد از کھانا

Thursday, 14 March 2024

منافع بخش #کاروبار (کم سرمایہ سے شروع کیے جانے والے منافع بخش، اہم اور آسان کاروبار)☕ کافی سینٹر:🍵سیاحتی اور کاروباری مقام پرآپ اپنا ایک خوبصورت کافی سینٹر بناسکتے ہیں.جہاں پر آپ بہترین ذائقے کی چائے اور کافی ایک اچھے اور خوبصورت ماحول میں منفرد انداز میں پیش کریں.جو صفائی معیار اور آداب سے بھرپور ہو.🍲 بریانی سینٹر:🍝آپ اپنا ایک خوبصورت بریانی شاپ بناسکتے ہیں.بریانی بنانا اور بیچنا بہت آسان ہے اور اس کی مانگ بہت زیادہ ہے آپ کسی سیاحتی اور کاروباری جگہ پر مناسب ریٹ اور صاف ماحول میں اسے پیش کر سکتے ہیں.🍔 برگر و سوپ:🥣آپ ایک خوبصورت برگر و سوپ پوائنٹ بنا سکتے ہیں.اپنے قریب کے کسی اسکول،کالج،یونیورسٹی،ھسپتال وغیرہ کے پاس مناسب قیمت صاف ماحول منفرد آداب اور اخلاق سے پیش کر سکتے ہیں اس کی مانگ بہت ہے.✈ سیاحتی کمپنی:🚂آپ سیاحت کا خوبصورت سیٹ اپ بنا سکتے ہیں.جس میں آپ آن لائن بکنگ کر کے کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی طرف لوگوں کو سیاحتی پیکیج فراہم کر سکتے ہیں.🥦 کاشتکاری:🌽آپ چھوٹے رقبے پر سبزیاں اگا سکتے ہیں.جن میں آلو پیاز بھنڈی ٹماٹر کدو لہسن وغیرہ چھوٹے پیمانے پر اگا کر اسے بہترین پیکنگ اور صفائی کے ساتھ سستے ریٹ میں فروخت کر سکتے ہیں.📚 لائبریری:📖آپ کو مطالعے سے لگاؤ ہے اور ادبی حلقوں سے راہ رسم ہے تو آپ ایک خوبصورت چھوٹی لائبریری بنا سکتے ہیں.آپ مختلف تعارفی اور بیداری کے پروگرامز کر کے اس کی advertising کرسکتے ہیں.📱 موبائل شاپ: 📲موجودہ دور میں ہر شخص موبائل استعمال کرتا ہے اور نئے نئے برانڈز آ رہے ہیں تو آپ اپنا سستا موبائل ریپرنگ لیب بنا سکتے ہیں.جہاں پر آپ دیانت سے سستے داموں بہترین کوالٹی کی ریپرنگ فراہم کر سکتے ہیں.اس کے ساتھ آپ پرانے موبائل لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر فروخت کر سکتے ہیں.🦆 جانور پالنا:🐃آپ بکریاں، پرندے اور خرگوش وغیرہ پال سکتے ہیں.یہ بہت نفع جانور ہیں آپ اعلی نسل کے بچے پال کر سال میں دو بار اچھی قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں اور برائلر مرغی کے زہر کے متبادل کے طور پر آپ تھوڑی مہم چلا کر خرگوش سے سستے صاف اور بہترین گوشت کو فروخت کر سکتے ہیں.👚 گارمنٹس👗آپ بڑے شہروں سے سستے اور معیاری بچوں اور خواتین کے سوٹ خرید کر مناسب ریٹ خوبصورت منفرد انداز کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں🥟 سموسہ چاٹ سینٹر 🍜آپ اپنے گرد اسکول،کالج،یونیورسٹی،ھسپتال بس اسٹینڈ ہاسٹل وغیرہ کے قریب سموسہ و چاٹ سینٹر شروع کر سکتے ہیں جو معیاری نفیس اور بہترین ماحول و انداز سے پیش کیا جائے.🏘 ریئیل اسٹیٹ مارکیٹینگ 🏪بغیر کسی سرمائے کے شروع کیا جانیوالا یہ بزنس آجکل پاکستان سمیت پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔یہ منافع کمانے کا بہترین آن لائن ذریعہ ہے اور اپنے گھر بلکہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر با آسانی اس بزنس کو چلایا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ کار میں آپ کسی اور کمپنی کی پروڈکٹ یا سروسز کو انٹرنیٹ یا ایسے ہی کسی دوسرے میڈیم کے ذریعے پروموٹ کرتے ہیں اور اسے فروخت کر کے اپنا طے شدہ کمیشن وصول کرتے ہیں۔🖥 بلاگ رائٹنگ 📰بلاگ ایسی ویب سائیٹ یا ویب پیج ہوتا ہے جس پر ہر روز نئی نئی معلومات اور تبصرے لکھے جاتے ہیں۔ایک فرد یا افراد کا ایک گروپ مل کر اس کو پلان کرتا ہے۔بلاگ رایئٹینگ سوشل میڈیا کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔پاکستان میں اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں اس کی ڈیمانڈ ہے۔ آپ بنا کسی سرمائے کے مختلف ویب سائٹس کے لئے بلاگ رایئٹینگ کا کا م شروع کر کیایک معقول آمدنی کا ذریعہ پیدا کر سکتے ہیں۔👔 تاجر کاؤنسلِنگ🗣اگر آپ کے پاس بزنس فیلڈ کا کافی نالج،مہارت اور آئیڈیاز موجود ہیں اور آپ اس سلسلے میں بزنس کے میدان میں داخل ہونیوالے نئے افراد کی مدد کرنے کی سوچ بھی رکھتے ہیں تو آپ ایک بہت اچھے بزنس کاؤنسلر بن کر نہ صرف نئے بزنس کاروباری افراد کو ٹرینڈ کر سکتے ہیں بلکہ ایک اچھا منافع کما سکتے ہیں۔🎓 اسٹوڈنٹ کیریئر کاؤنسلِنگ 🤵اگر آپ کے پاس کیریئر کاؤنسلِنگ کی ڈگری یا اس فیلڈ کی کافی زیادہ معلومات موجود ہیں اور آپ کے اندرلوگوں کی چھپی صلاحیتوں کا کسی حد تک اندازہ لگانے کی صلاحیت بھی موجود ہے تو آپ اسٹوڈنٹس کے لئے ایک اچھے کر نہ صرف کمیونٹی کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ ایک باعزت روزگار بھی کما سکتے ہیں.⛑ کنسلٹنٹ کمپنی 💼اگر آپ کسی بھی فیلڈ میں بہترین معلومات اور مہارت رکھتے ہیں تو آپ اس فیلڈ میں پہلے سے موجود یا نئی آنیوالے لوگوں کی رہنمائی کے لئے ایک کنسلٹنگ کمپنی کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے فیلڈ کی وسیع معلومات و مہارت درکار ہے۔✍ کونٹینٹ رائٹنگ 📖تمام کمپنیوں اور اداروں کو پروموشن کے لئے تحریری شکل میں ایک قابلِ توجہ مواد کی ضرورت ہڑتی ہے جو زیادہ سے زیادہ کسٹمرز کی توجہ حاصل کر سکے۔اگر آپ کے اندر اردو یا انگلش زبان میں ایسا پرکشش کونٹینٹ تخلیق کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو آپ ایک نہایت کامیاب کونٹینٹ رائیٹنگ کا کاروبار شروع کر سکتے ہیں اور مختلف کمپنیوں اور اداروں کو کونٹینٹ فراہم کر سکتے ہیں۔🕶 لائف کنسلٹنگ🌏اگر آپ کا مطالعہ آپ کی معلومات آپ کا تجربہ اور آپ کی سنجیدگی اور ڈیلنگ اچھی ہے تو آپ پریشان ذدہ لوگوں کو زندگی جینے کے گر سکھا کر ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں.اس میں عزت ہے علم ہے اور بہترین کاروبار بھی ہے.💻 یوٹیوبر🎥اگر آپ میں کسی بھی طرح کی مہارت ھے، جسے آپ ویڈیوز کی صورت میں اس بہترین انداز میں پیش کرسکتے ھیں کہ جس میں دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کچھ سیکھنے یا تفریح کا موقع ھو تو فورا یوٹیوب پر اپنا چینل بناکر ڈھیروں کماسکتے ھیں.📡 آن لائن اسٹور💺انٹرنیٹ پر Olx کی طرح کئی ویب سائٹس ھیں جو آپ کو مفت اسپیس فراہم کرتی ھے جہاں آپ اپنی کوئی بھی پراڈکٹ آن لائن بیچنے کے لیے رکھ سکتے ھیں، جہاں گھر بیٹھے آپ کمائی کرسکتے ھیں.🏍 بائیک رائیڈر 🛵اگر آپ شہر کے شاھراہوں کا بخوبی علم رکھتے ھوں اور آپ کے پاس اپنی موٹر سائیکل ھوتو آپ کریم، اوبر اور فوڈپانڈہ جیسی کمپنیوں سے منسلک ھوکر اچھی خاصی کمائی کرسکتے ھیں.🤝 دراز دوست 🤝آن لائن شاپنگ ویب سائٹ "دراز" نے دراز دوست کے نام سے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ھے جس سے منسلک ھو کر آپ بہترین کمائی گھر بیٹھے کرسکتے ھیں.📱 ایپ ڈویلپرز 🖥موبائل کا دور چل رھا ھے، ایپ بنانے کا چھوٹا سا کورس کرکے آپ خود گھر بیٹھے مختلف ایپس بناکر اسے پلے اسٹور میں ڈال کر گھر بیٹھے زبردست کمائی کرسکتے ھیں.ایک دوست کا بھیجا ہوا پیغام باقی دوستوں کے نامپچھلے دنوں میں نے بریانی کی دیگ پکوا کر تقسیم کی تھی۔۔۔جس میں دس کلو چکن اور دس کلو چاول تھے۔۔کل خرچہ آیا تھا باون سو روپے۔۔ان باون سو روپے میں پکانے والے نے اپنی مزدروی بھی شامل کی۔۔چلیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہم خود پکائیں تب بھی باون سو روپے خرچہ۔۔اور دس کلو چاول دس کلو چکن۔۔۔ایک دیگ سے آسانی سے نوے سے سو پارسل بنائے جا سکتے ہیں۔۔میں نے دس کلو کی دیگ سے خود نوے کے قریب پارسل بنائے ہیں۔۔ایک کلو مرغی سے دس بوٹیاں نکل سکتی ہیں یعنی دس کلو مرغی سے سو بوٹیاں۔۔اب ایک دیگ بنائیں جس میں دس کلو چاول ہوں اور سو بوٹیاں (دس کلو چکن ہو)۔۔دیگ پر کل خرچہ باون سو آیا۔۔آپ نے نوے پارسل بنانے ہیں۔۔آسانی سے بن جائیں گے۔۔ میں نے خود بنا کر محلے میں تقسیم کیے تھے۔ ہر پارسل میں ایک ایک بوٹی ڈالیں۔۔ایک ریڑھی لگائیں۔۔یا ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لیں۔۔زیادہ نہیں صرف اسی روپے میں ایک پیکٹ بیچیں۔۔آپ چکن پیس والی بریانی بیچ رہے ہیں۔۔اسی میں لازمی بکے گی۔۔بازار میں گندی سے گندی چکن بریانی بھی نوے روپے میں بکتی ہے لیکن آپ اسی میں بیچو۔۔۔اس عوام کو بوٹیاں بہت بھاتی ہیں۔۔ہر پارسل سے بوٹی نکلے گی۔۔۔باون سو خرچہاسی کے حساب سے نوے پارسل۔۔بہتر سو روپےپورے دو ہزار کی بچت۔۔۔(اور سو میں سے دس بوٹیاں بھی آپ کی)روز کی دو ہزار۔۔مہینے کا ساٹھ ہزار منافعایک انجیئر دو سال کے تجربے کے بعد ساٹھ ہزار تک پہنچتا ہے وہ بھی سارے نہیں کچھ کچھ۔۔۔۔۔اب مجھے بتائیں یہ کتنا مشکل یا کتنا نان پریکٹیکل کام ہے۔۔آپ کو خود ریڑھی لگاتے شرم آتی ہے؟سارا کام خود کریں۔۔بس بیچنے کے لیے محلے کا کوئی ان پڑھ نوجوان آگے کر دیں۔۔۔اسے کہیں دو ہزار میں سے پانچ سو تیرا۔۔۔تو نے صرف بیچنا ہے۔۔۔اس کی مہینے کی آمدن پندرہ ہزار اور آپ کی صرف پکا کر اور انویسٹ کر کے مہینے کی پینتالیس ہزار۔۔اور جب آپ کا نام بن جائے گا یقین کریں کسی کاروباری ایریا میں آپ دوپہر دس بجے ریڑھی لگائیں گے اگلے چار گھنٹے میں سب بک چکا ہو گا۔۔سڑک پر صرف چار گھنٹے کی محنت اور منافع ہی منافع۔۔۔چلیں اب بتائیں۔۔کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان میں پیسہ کمانا ہرگز مشکل نہیں #Business

Wednesday, 13 March 2024

پختونخوہ وطن کے ذخائر1) کرک سے گزشتہ 11 ماہ میں 85 لاکھ 43 ہزار بیرل تیل برآمد کیا گیا ہے۔2) سوات میں بہترین زمرود کے 70 ملین قیراط ہیں اور مارکیٹ میں 220 قیراط کی قیمت 4000 سے 6000 ڈالر تک ہے۔3) اس سال خیبر سے 40 ٹن فلورائٹ برآمد کیا گیارہ۔4) 11 ماہ میں کرک سے 65000 ملین ایم سی ایف گیس برآمد کی گئی ہے۔ 5) مہمند میں اس سال 1935 ٹن نیفرائٹ نکالا گیا۔6) مالاکنڈ میں 200 ملین ٹن، صوابی بلاک میں 100 ملین ٹن ماربل ہے۔ 7) مہمند میں 1,360,000 ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے۔ 😎 چترال، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پختونخوا میں سالانہ 640,000 کلو چھلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی قیمت چین میں 18,000 روپے فی کلو ہے۔ 9) کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30,000 سے 35,000 گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا کرایہ 80 سے 450 روپے ہے اور اس کا کنٹرول فوجی کمپنی NLC کے پاس ہے۔10) جنوبی پختونخوا کے ڈھاکہ ضلع سے روزانہ 5000 ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔ 11) درہ آدم خیل سے ہر سال 350,000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔ اس وقت پختونحوہ بیلٹ میں 33,000 بارودی سرنگیں ہیں۔12) بونیر اور مردان میں 2 ارب ٹن ماربل موجود ہے۔ 13) چترال میں ایک ارب ٹن ماربل موجود ہے۔14) صرف کورما میں 20 لاکھ ٹن کوئلہ موجود ہے، اس کے ساتھ لوہے کی گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ 15) بالائی وزیرستان کے پیر گھر میں تانبے اور سونا کی بڑی مقدار موجود ہے۔ 16) گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔17) باجوڑ میں ہر سال 85000 ٹن ماربل، اور 1550 ٹن کرومائیٹ برآمد کیا جاتا ہے۔18) پختونحوہ اور بلوچستان میں 700 کروڑ کے جواہرات ہیں جو ہماری سوچ سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ 19) عرب ممالک میں تیل کا ہر دس میں سے ایک کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے۔میران شاہ میں اتنا تیل ہے جو پاکستان کی 40 سال کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔20) شمالی وزیرستان میں 36000 ملین ٹن تانبا موجود ہے ایک ٹن تانبے کی قیمت 7000 ڈالر ہے۔ 21) تربیلا ڈیم سے 4000 سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، اسے 250 بڑی فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تربیلا ڈیم سے پختونحوہ اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ 22) بٹنی کی ویلی آئل فیلڈ سے 1,000 سے 3,000 بیرل تیل اور 1 سے 5 ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔23) ملاکنڈ کے دریاؤں سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 1 سے 2 روپے فی یونٹ ہے۔24) وزیرستان میں شیوی سے ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کی گیس نکالی جاتی ہے جس کا کنٹرول فوجی کمپنی کے پاس ہے۔ سیاحت کے جنگلات اور بہت سی دوسری چیزیں اپنی جگہ اور بدقسمتی سے سب کچھ ہونے کے باوجود مظلوم بھی پختونخوہ اور بلوچستان ہیں تو یہ ناانصافی کہاں تک جائے گی۔ پختونخوہ وطن کے ذخائر1) کرک سے گزشتہ 11 ماہ میں 85 لاکھ 43 ہزار بیرل تیل برآمد کیا گیا ہے۔2) سوات میں بہترین زمرود کے 70 ملین قیراط ہیں اور مارکیٹ میں 220 قیراط کی قیمت 4000 سے 6000 ڈالر تک ہے۔3) اس سال خیبر سے 40 ٹن فلورائٹ برآمد کیا گیارہ۔4) 11 ماہ میں کرک سے 65000 ملین ایم سی ایف گیس برآمد کی گئی ہے۔ 5) مہمند میں اس سال 1935 ٹن نیفرائٹ نکالا گیا۔6) مالاکنڈ میں 200 ملین ٹن، صوابی بلاک میں 100 ملین ٹن ماربل ہے۔ 7) مہمند میں 1,360,000 ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے۔ 😎 چترال، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پختونخوا میں سالانہ 640,000 کلو چھلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی قیمت چین میں 18,000 روپے فی کلو ہے۔ 9) کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30,000 سے 35,000 گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا کرایہ 80 سے 450 روپے ہے اور اس کا کنٹرول فوجی کمپنی NLC کے پاس ہے۔10) جنوبی پختونخوا کے ڈھاکہ ضلع سے روزانہ 5000 ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔ 11) درہ آدم خیل سے ہر سال 350,000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔12) بونیر اور مردان میں 2 ارب ٹن ماربل موجود ہے۔ 13) چترال میں ایک ارب ٹن ماربل موجود ہے۔14) صرف کورما میں 20 لاکھ ٹن کوئلہ موجود ہے، اس کے ساتھ لوہے کی گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ 15) بالائی وزیرستان کے پیر گھر میں تانبے اور سونا کی بڑی مقدار موجود ہے۔ 16) گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔17) باجوڑ میں ہر سال 85000 ٹن ماربل، اور 1550 ٹن کرومائیٹ برآمد کیا جاتا ہے۔18) پختونحوہ اور بلوچستان میں 700 کروڑ کے جواہرات ہیں جو ہماری سوچ سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ 19) عرب ممالک میں تیل کا ہر دس میں سے ایک کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے۔میران شاہ میں اتنا تیل ہے جو پاکستان کی 40 سال کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔20) شمالی وزیرستان میں 36000 ملین ٹن تانبا موجود ہے ایک ٹن تانبے کی قیمت 7000 ڈالر ہے۔ 21) تربیلا ڈیم سے 4000 سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، اسے 250 بڑی فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تربیلا ڈیم سے پختونحوہ اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ 22) لکی مروت بٹنی کی ویلی آئل فیلڈ سے 1,000 سے 3,000 بیرل تیل اور 1 سے 5 ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔23) ملاکنڈ کے دریاؤں سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 1 سے 2 روپے فی یونٹ ہے۔Pashtunkhwa Watan Ke ZakhairIn the past 11 months, 8,543,000 barrels of oil have been imported from Qatar.There are 70 million carats of the finest emeralds in Swat, with prices ranging from $4000 to $6000 per carat in the market.This year, 40 tons of fluorite have been exported from Khyber.In the past 11 months, 65,000 million cubic meters of natural gas have been extracted from Qatar.This year, 1935 tons of nephrite have been extracted in Mohmand.There are 200 million tons of marble in Malakand and 100 million tons in Swabi District.Mohmand produces 1,360,000 tons of marble annually.In Chitral, South Waziristan, and South Pashtunkhwa, 640,000 kilograms of pine nuts are produced annually, valued at 18,000 rupees per kilogram in China.Between 30,000 and 35,000 vehicles pass through the Kohat Tunnel daily, with fares ranging from 80 to 450 rupees per vehicle, under the control of the military company NLC.Daily, 5000 tons of coal are extracted from the Dakha district of South Pashtunkhwa.Every year, 350,000 tons of coal are mined from the Adam Khel region.There are 2 billion tons of marble in Buner and Mardan.There is one billion ton of marble in Chitral.There are 200,000 tons of coal in Kurram, along with iron gas and good marble.There is a large quantity of copper and gold in Upper Waziristan.There is a large reserve of coal in the mountains of Gomal.In Bajaur, 85,000 tons of marble and 1550 tons of chromite are mined annually.There are 700 billion worth of precious stones in Pashtunkhwa and Balochistan, which are even more valuable than our imagination.One out of every ten oil wells in Arab countries is successful, and every third oil well in Waziristan is successful. There is so much oil in Miranshah that it fulfills Pakistan's 40-year needs.There are 36,000 million tons of copper in North Waziristan, with the price of one ton of copper being $7000.From Tarbela Dam, 4000 to 5000 megawatts of electricity are generated, which can be used in 250 large factories, and billions of dollars can be earned from Tarbela Dam to Pashtunkhwa.Lucky Murwat Bunair's Well Oil Field produces 1,000 to 3,000 barrels of oil and 1 to 5 million cubic feet of gas.30,000 megawatts of electricity can be generated from the rivers of Malakand, at a cost of 1 to 2 rupees per unit

Tuesday, 12 March 2024

۔Librax ٹیبلٹ کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟. (Librax)آجکل لیبریکس کا استعمال معدے اور پیٹ کے مسائل میں کافی کیا جاتا ہے ، اور کافی لوگ تو لیبریکس کی سیلف میڈیکیشن بھی کرتے ہیں, جو کہ سیلف میڈیکیشن کے فائدے کی بجائے بہت سارے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہو سکتے ہیں۔باقی لیبریکس ٹیبلٹ میں دو قسم کے سالٹ یا میڈیسن پائی جاتی ہیں۔ پہلا سالٹ chlordiazepoxide 5mg اور دوسرا سالٹ Clidinium bromide 2.5mg پایا جاتا ہے۔اور chlordiazepoxide میڈیسن Benzodiazepem کی کلاس کی ایک میڈیسن ہے اور chlordiazepoxide نامی میڈیسن ہمارے جسم میں GABA نامی Receptor کو بڑھاتی یا stimulate کرتی ہے اور یہ انزائٹی ، دماغی سکون اور نیند کے مسئلے میں استعمال کی جاتی ہے۔ اور دوسرا Clidinium bromide میڈیسن antispasmodic کی کلاس کی ایک میڈیسن ہے جو کہ معدے اور پیٹ کے درد مروڑ وغیرہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔لیبریکس ٹیبلٹ کے استمعال لیبریکس ٹیبلٹ دوسری میڈیسن کے ساتھ معدے یا پیٹ کے بہت سارے مسائل میں استمعال کی جاتی ہے۔ خصوصاً ان مسائل میں جن میں مریض کو معدے یا پیٹ کے مسائل کے ساتھ ساتھ انزائٹی، سٹریس وغیرہ کا بھی مسلئہ ہو ،1: یہ دوسری میڈیسن کے ساتھ معدے کے ورم یا السر اور پیپٹک السر میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔2: یہ ڈسپیپسیا یا فنکشنل ڈسپیپسیا کے مسلئے میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے، باقی فنکشنل ڈسپیپسیا کا مطلب ہے ،بغیر کسی خاص وجہ جیسے ایچ پیلوری، السر یا معدے کے زخم یا ورم کے بغیر بدہضمی کا مسلئہ ہونا ،اپھارہ یا گیس کا ہونا، کھٹے ڈکار کا ہونا, قے اور برپنگ کا ہونا ، منہ میں چھالے نکلنا, بھوک میں کمی ہونا وغیرہ اور فنکشنل ڈسپیپسیا کو non ulcer dyspepsia بھی کہتے ہیں۔3: لیبر یکس کو دوسری میڈیسن کے ساتھ آنتوں کے انفیکشنز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔4: لیبریکس کو آئی بی ایس یا سنگرہنی کے مریضوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، باقی آئی بی ایس یا سنگرہنی کی علاماتِ: جیسے پاخانہ کھل کر نہ آنا اور پاخانہ کرنے کے بعد بھی کافی دیر بیت الخلاء میں گزر جانا جیسے مزید حاجت باقی ہو۔ اس کے علاوہ کھانا کھاتے ہی پاخانہ آنا، کبھی موشن آنا تو کبھی قبض کا مسلئہ بن جانا، اور کھانا کھانے کے فوراً بعد پیٹ میں گیس بھر جانا، پیٹ میں درد ، مروڑ اور گڑ گڑ کی آوازیں آنا, مزید مریض کو بے چینی، گھبراہٹ، کمزوری، جنسی خواہش کی کمی چیچڑا پن اور تنائو کا مسلئہ بھی ہو سکتا ہے۔لیبریکس ٹیبلٹ کے کونسے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں؟1: قبض کا ہونا 2:دھندلی نظر کا ہونا 3:منہ جلد کا خشک ہونا اور پیشاپ کے ٹائم ہچکچاہٹ ہونا 4:موڈ میں شدید تبدیلی اور چڑچڑاپن کا ہونا 5:چکر کا آنا اور بھوک میں کمی کا ہونا 6:ٹانگوں، بازوؤں، ہاتھوں یا پیروں میں بے چینی محسوس ہونا اور بے سکونی محسوس کرنا اور جلد کی الرجی بھی ہو سکتی ہے۔اور مزید لیبریکس ٹیبلٹ کی عادت بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ یہ Benzodiazepem کی کلاس کی ایک میڈیسن ہے۔اور کچھ لوگوں میں لیبریکس سے چند سنجیدہ سائیڈ ایفیکٹ بھی ہو سکتے ہیں جیسے دل کی دھڑکن کا مسلئہ ہونا ،روشنی سے ڈر لگنا، اور آنکھوں کے مسلئے ہو سکتے ہیں۔لہذا لیبریکس ٹیبلٹ کو ڈاکٹر کے مشورے سے استمعال کرنا چاہیے اور اس کو کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد بھی استمعال کیا جاسکتا ہے،اور لیبریکس ٹیبلٹ کو مریض کے مسئلے کے مطابق دوسری ضروری میڈیسن کے ساتھ لیبریکس کو عموماً دن میں 2 دفعہ استعمال کیا جاتا ہے۔Regards Dr Akhtar MalikFollow me DrAkhtar Malik

_*ہیکلِ سلیمانی :*_۔"" "" "" "" "" ہیکلِ سلیمانی درحقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جنات سے تعمیر کروائی تھی تاکہ لوگ اس کی طرف منہ کر کے یا اس کے اندر عبادت کریں ۔ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر سے پہلے یہودیوں کے ہاں کسی بھی باقاعدہ ہیکل کا نہ کوئی وجود اور نہ اس کا کوئی تصور تھا۔ اس قوم کی بدوؤں والی خانہ بدوش زندگی تھی۔ان کا ہیکل یا معبد ایک خیمہ تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ رکھا ہوتا تھا۔ جس کی جانب یہ رخ کر کے عبادت کیا کرتے تھے ۔ روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے "شمشاد" کہتے ہیں۔ جسے جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا ۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیاء سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تھا، اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، من و سلویٰ، اور دیگر انبیاء کی یادگاریں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے لر مصیبت پریشانی کا حل لیا کرتے تھے۔ مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں کے دوران اس صندوق کو لشکر کے آگے رکھا کرتے، اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے۔ جب حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی تو آپ نے اپنے لئے ایک باقاعدہ محل تعمیر کروایا۔ ایک دن ان کے ذہن میں خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ہوں جبکہ میری قوم کا معبد آج بھی خیمے میں رکھا ہوتا ہے۔ یہ بائیبل کی روایات ہے۔ جیسے بائیبل میں ہے؛ " بادشاہ نے کہا: ’میں تو دیودار کی شان دار لکڑی سے بنے ہوئے ایک محل میں رہتا ہوں، مگر خدا وند کا تابوت ایک خیمے میں پڑا ہوا ہے۔ ( 2۔سموئیل 4؛2) چنانچہ آپ نے ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا گیا۔ ماہرین نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ناممکن ہے۔ آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دے دیجیئے۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے (٩۷٠ ق م تا ٩٣٠ ق م ) اپنے دورِ حکومت کے چوتھے سال میں اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ آج اس کی بناوٹ اور مضبوطی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعمیر انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ اتنے بھاری اور بڑے پتھروں کو ان جنات کی طاقت سے چنا گیا تھا، جن پر حضرت سلیمانؑ کی حکومت تھی ۔ہیکل کی پہلی تعمیر کے دوران ہی حضرت سلیمانؑ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن جنات کو پتہ نہ چل سکا اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر مکمل کر دی۔ یہ واقعہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہو گا کہ حضرت سلیمانؑ کی روح اللہ نے دورانِ عبادت ہی قبض کر لی، لیکن اس کی ترکیب اس طرح بنی کے آپ ایک لکڑی پر سر اور کمر رکھ کر عبادت میں مصروف ہو گئے اور اس لکڑی کے سہارے سے یوں لگتا تھا کہ آپ اب بھی عبادت ہی کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہرحال یہ ہیکل، معبد یا مسجد بہت عالیشان اور وسیع و عریض تعمیر کی گئی تھی ۔ حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد اس میں تین حصے کر دیئے گئے تھے ۔بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کیا کرتے۔ اس سے اگلے حصے میں علماء جو کہ انبیاء کی اولاد میں سے ہوتے، ان کی عبادت کی جگہ تھی۔ اس سے اگلے حصے میں جسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا تھا، اس میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا۔ اس حصے میں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، سوائے سب سے بڑے عالم پیش امام کے ۔ وقت گزرتا رہا، اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ہوتے رہے۔ یہ قوم بد سے بدتر ہوتی رہی۔ یہ کسی بھی طرح اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہونے یا ان کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہ ایک جانب عبادتیں کیا کرتے دوسری جانب اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔ ان کی اس دوغلی روش سے اللہ پاک ناراض ہو گیا۔ ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیاء بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی۔ حتیٰ کہ ان کی شکلیں تبدیل کر کے بندر اور سؤر تک بنائی گئیں۔ لیکن یہ گناہوں سے باز نہ آئے۔ تب اللہ نے ان پر لعنت کر دی ۔ ۵٨٦ ق۔ م میں بخت نصر نے ان کے ملک پر حملہ کیا، ان کا ہیکل مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ ہیکل میں سے تابوت سکینہ نکالا، چھ لاکھ کے قریب یہودیوں کو قتل کیا۔ تقریباً دو لاکھ یہودیوں کو قید کیا اور اپنے ساتھ بابل (عراق) لے گیا اور شہر سے باہر یہودی غلاموں کی ایک بستی تعمیر کی، جس کا نام تل ابیب رکھا گیا۔۷٠ سال تک ہیکل صفحۂِ ہستی سے مٹا رہا۔ دوسری طرف بخت نصر نے تابوتِ سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور اسی کہیں پھینک دیا۔ کہا جاتا ہے اس حرکت کا عذاب اسے اس کے ملک کو اس طرح ملا کہ سن ۵٣٩ ق۔ م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل ( عراق) پر حملہ کر دیا اور بابل کے ولی عہد کو شکست فاش دے کر بابلی سلطنت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔سائرس ایک نرم دل اور انصاف پسند حکمران تھا۔ اس نے تل ابیب کے تمام قیدیوں کو آزاد کر کے ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ میں ان کو ہیکل کی نئے سرے سے تعمیر کی بھی اجازت دے دی۔ ساتھ میں اس کی تعمیر کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ چنانچہ ہیکل کی (دوسری) تعمیر ۵٣۷ ق م میں شروع ہوئی۔ لیکن تعمیر کا کام سر انجام دینے والوں کو اپنے ہم وطن دشمنوں کی اتنی زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تعمیراتی کام جلد ہی عملی طور پر بند ہو گیا اور دارا (Darius) اوّل کے دورِ حکومت تک مداخلت ہی کا شکار رہا۔ اُس کی حکمرانی کے دوسرے سال میں حضرت ذکریا علیہ السلام نے وہاں کے گورنر زرو بابل اور سردار کاہن یوشواہ (یوشع) کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہیکل کی تعمیر ثانی کی دوبارہ کوشش کریں۔ انھوں نے مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا اور پوری قوم کی پر جوش تائید اور ایرانی حکام اور بذات خود بادشاہ کی آشیرباد سے ہیکلِ ثانی اپنی اضافی تعمیرات سمیت ساڑھے چار سال کے عرصے میں ۵٢٠ تا ۵١۵ ق م پایۂِ تکمیل کو پہنچا۔ لیکن اس بار اس میں تابوتِ سکینہ نہیں مل سکا ۔ اس کے بارے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ بخت نصر نے اس کا کیا کیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مقدس صندوق کی مزید توہین سے بچانے کے لئے اسے اللہ پاک کے حکم سے کسی محفوظ مقام پر معجزانہ طور پر چھپا دیا گیا۔ جس کا کسی انسان کو علم نہیں۔ لیکن یہودی اس کی تلاش میں پورے کرۂِ ارض کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات، عام طور پر تاریخ دان ہیکل کی دو دفعہ تعمیر اور دو دفعہ تباہی کا ذکر کرتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ ایسا نہیں، اس ہیکل کو تین بار تعمیر کیا گیا، لیکن اس کے ساتھ بھی ایک دلچسپ کہانی وجود میں آئی۔ ہیروڈس بادشاہ جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے چند سال پہلے کا بادشاہ ہے اس نے جب اس کی بہتر طریقے سے تعمیر کی نیت کی تو یہودیوں کے دل میں ایک خوف پیدا ہوا کہ اگر اسے نئے سرے سے تعمیر کے لئے گرایا گیا تو دوبارہ تعمیر نہیں ہو گا۔ ہیروڈس نے ان کو بہلانے کے لئے کہا کہ وہ صرف اس کی مرمت کرانا چاہتا ہے، اسے گرانا نہیں چاہتا۔ چنانچہ ١٩ ق م میں اس نے ہیکل کے ایک طرف کے حصے کو گرا کر اسے تبدیلی کے ساتھ اور کچھ وسیع کر کے تعمیر کروایا۔ یہ طریقہ کامیاب رہا اور یوں یہودیوں کی عبادت میں خلل ڈالے بغیر تھوڑا تھوڑا کر کے ہیکل گرایا جاتا اور اس کی جگہ نیا اور پہلے سے مختلف ہیکل وجود میں آتا رہا۔ یہ کام اٹھارہ ماہ میں مکمل ہوا اور یوں تیسری بار ہیروڈس کے ذریعے ایک نیا ہیکل وجود میں آ گیا۔کچھ عرصہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوا، اللہ کے اس رسول پر ایک بار پھر یہودیوں نے حسبِ معمول مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے۔ دراصل وہ اپنے مسیحا کے منتظر تھے جو دوبارہ آ کر ان کو پہلے جیسی شان و شوکت عطا کرتا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ آپ کے مصلوب ہونے کے ۷٠ سال بعد ایک بار پھر یہودیوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ اس بار اس عذاب کا نام ٹائٹس تھا۔ یہ رومی جرنیل، بابل کے بادشاہ بخت نصر سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوا۔ اس نے ایک دن میں لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس نے ہیروڈس کے بنائے ہوئے عظیم الشان ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور یہودیوں کو ہمیشہ کے لئے یروشلم سے نکال باہر کیا۔ یہودی پوری دنیا میں بکھر کر اور رسوا ہو کر رہ گئے۔ کم و بیش اٹھارہ انیس سو سال تک بھٹکنے کے بعد برطانیہ نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ساتھ ہی ایک ناجائز بچے اسرائیل کو فلسطین میں جنم دے دیا اور یوں صدیوں سے دھکے کھانے والی قوم کو ایک بار پھر اس ملک اسرائیل میں اکٹھے ہونے رہنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن یہ قوم اپنی ہزاروں سال پرانی گندی فطرت سے باز نہ آئی ۔ یہ برطانیہ کے جنم دیئے ہوئے اسرائیل تک محدود نہ رہے۔ ایک بار پھر ہمسایہ ممالک کے لئے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر مصیبت بننے لگے۔۵ جون ١٩٦۷ء کو اس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ ١٩٦٨ء میں اردن کے مغربی کنارے پر قابض ہو گئے۔ اسی سال مصر کے علاقے پر بھی کنٹرول کر لیا۔ آج اس قوم کی شرارتیں اور پھرتیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آج سے دو تین ہزار سال پہلے بھی کس قدر سازشی رہے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی تھی۔ مسلمان ممالک کی ناسمجھی اور بزدلی کی وجہ سے اب اس نے پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں آگ لگا کر رکھ دی ہے۔ اب ان کا اگلا مشن جلد از جلد اسی ہیکل کی تعمیر ہے اور اس ہیکل میں تخت داؤد اور تابوت سکینہ کو دوبارہ رکھنا ہے۔ تاکہ ایک بار پھر یہ اپنے مسایا (یہودی زبان کا لفظ ) مسیحا کے آنے پر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ وہ یہ کام انتہائی تیز رفتاری سے کر رہے ہیں۔ اس ہیکل کی تعمیر کے نتیجے میں یہ پوری دنیا جنگ کی آگ میں لپٹ جائے گی۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ کا اسرائیل کے دارالخلافہ کی تبدیلی کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن مسلمان اقوام کو کوئی پرواہ نہیں۔ اللہ ہم مسلمانوں میں اتحاد قائم کرے اور ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔“ آمین

Piles/ Hemorrhoid. بواسیر کیا ہے اور اسکا حل ؟ بواسیر ایک ایسی حالت ہے جس میں کسی وجہ سے مریض کے مقعد یا ملاشی کے نچلے حصے کی رگیں ویریکوز رگوں کی طرح سوج جاتی ہیں۔ یہ ایک عام مسلئہ ہے، بواسیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں میں پایا جاتا ہے۔زیادہ تر دو قسم کے بواسیر ہوتے ہیں۔ اندرونی بواسیر وہ ہیں جو ملاشی کے اندر بنتی ہیں۔ جبکہ بیرونی بواسیر وہ ہیں جو مقعد سے باہر پہنچتی ہیں۔بواسیر کی علاماتبواسیر کی علامات ان کی اقسام میں مختلف ہوتی ہیں۔بیرونی بواسیر وہ وہ ہیں جو مقعد کے باہر تیار ہوتے ہیں۔ ان کی علامات یہ ہیں؛ جیسا کہ 1:مقعد کے ارد گرد خارش کا ہونا 2: مقعد کے علاقے میں جلن کا ہونا 3: درد یا تکلیف کا ہونا 5: اور مقعد کے ارد گرد سوجن کا ہونا6: خون کا بہنا7. کمزوری محسوس ہونا وغیرہ وغیرہ اندرونی بواسیر یہ وہی ہیں جو ملاشی کے اندر تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ تر وہ علامات کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ تاہم، جب آپ آنتوں کی حرکت کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں یا پاخانہ کرتے ہیں تو یہ درج ذیل علامات کا سبب بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ 1:پاخانہ کے ساتھ خون آنا۔ 2:خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔3:درد اور جلن بھی ہو سکتی ہے ۔ تھرومبوزڈ بواسیرایک تھرومبوزڈ بواسیر خون کے نیچے آنے کی وجہ سے مقعد کے باہر تھرومبس بناتا ہے۔ عام طور پر، بیرونی بواسیر تھرومبوزڈ بواسیر میں بدل جاتی ہے۔ اور یہ علامات کو ظاہر کرتا ہے؛ جیسا کہ 1:مقعد کے علاقے میں شدید درد کا ہونا2:مقعد کے علاقے میں سوجن کا ہونا 3: مقعد کے قریب سخت گانٹھ کا ہونا وغیرہ اسکی عام علامتیں ہیں ۔بواسیر کے ساتھ منسلک علامتیںکچھ مریضوں کو بخار بھی ہو سکتا ہے اور کچھ مریضوں کو بدہضمی ،گیس، پیٹ یا معدے میں درد، مڑور ، اور وزن میں کمی ، کمزوری ڈیپریشن وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔بواسیر کی وجوہات / رسک فیکٹر 1:دائمی قبض ہونا، یہ ایک بڑی وجہ ہے بواسیر کی۔۔2: کم فائبر والی غذا کھانا3: زیادہ دیر تک بھاری وزن اٹھانا۔4: دائمی اسہال ہونا5: مقعد کا جماع کرنا 6: موٹاپا ہونا7: حاملہ خواتین اور زیادہ عمر والے افراد میں بھی بواسیر کے زیادہ امکان ہوتے ہیں ۔بواسیر کی پیچیدگیاںاگر بواسیر کا بروقت علاج نہ کیا جائے ،تو درج ذیل مریض کو پیچیدگیاں لاحق ہو سکتی ہیں جیساکہ 1: خون کی کمی- مقعد کے ذریعے طویل مدتی خون کا بہنا خون کی کمی کا باعث بن سکتی ہے-2:گلا گھونٹنے والا بواسیر- جب کسی اندرونی بواسیر کو خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے، تو یہ انتہائی درد اور تکلیف کا باعث بنتا ہے- اس حالت کو بواسیر کا گلا گھونٹنا کہتے ہیں۔3:خون کا جمنا- یہ بہت کم ہوتا ہے کہ بواسیر تھرومبس بنا سکتا ہے۔ یہ جان لیوا نہیں ہے۔ لیکن یہ انتہائی تکلیف دہ ہے. روک تھامبواسیر سے بچنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر ضرور عمل کریں ۔ اپنے پاخانے کو نرم رکھنے کے لیے وافر مقدار میں پانی پئیں، کھیرے، خربوزے اور بلک پر مشتمل پھل کھائیں۔ فائبر سے بھرپور غذا ضرور کھانی چاہیے کیونکہ یہ قبض کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔ کیونکہ 80 پرسنٹ سے زیادہ دائمی قبض ہی بواسیر کا سبب بنتی ہے۔ علاج علاج اور تشخیص کےلئے ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔ بواسیر کا علاج بواسیر کی سٹیج کے حساب سے ہوتا ہے ۔ ٹوٹل چار سٹیج ہوتی ہیں اور آخری دو سٹیج میں زیادہ تر سرجری کی جاتی ہے, باقی پہلی دو سٹیج کی بواسیر کو غذائی پرہیز اور میڈیسن سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ "The greatest wealth is health "Regards DrAkhtar Malik @highlight

پاکستان میں منشیات مقدمات میں سزائے موت ختم کر دیا گیا ہے۔اب منشیات مقدمات میں صرف اور صرف عمر قید سزا دی جائے گیپاکستان میں سزائے موت کا غلط استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ صرف غریب کرایہ کش پختونوں دی جاتی تھی ۔دنیا میں منشیات کے مقدمات میں سزائے موت کو غیر آئینی وقانونی وانسانی سزا تصور کی جاتی ہے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے انسداد نشہ آور اشیاء ترمیمی بل 2022 منظور کر لیابل کے ذریعے انسداد نشہ آور اشیاء ایکٹ 1997 میں ترامیم منظور،بل کے ذریعے سزائے موت کو عمر قید سے بدل دیا گیا🖐

Monday, 11 March 2024

بگ بینگ آغاز نہیں تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کائنات کو بنے1380کروڑ سال ہو رہے تھے توحضرتِ انسان کائنات کے اربوں ستاروں میں سے ایک ستارے سورج کے گرد گھومتے آٹھ سیاروں میں سے ایک سیارہ زمین پر نمودار ہوا۔۔۔۔۔کائناتی وقت کے اعتبار سے انسان کائنات میں انتہائی نووارد ہے۔۔۔کارل سیگن کہتے تھے:کائنات کی عمر ایک سال سمجھی جائے تو انسان اس سال کے آخری مہینے کے آخری دن کے انتہائی آخری لمحات میں آیامیں اپنے انداز میں کہوں توکائنات دیوتا جیسی ایک داستانِ دراز ہے اور انسان اس داستان کے آخری حصے کے آخری باب کے آخری صفحے کا ایک کم نمایاں سا کردار ہےحضرتِ انسان انتہائی کم عمر، کم نظر ۔ کم رساں اورکم نمایاں ہے لیکن۔۔۔۔۔۔یہ انتہائی جوشیلا ،لاابالی اور بے حد متجسس ہےجوشیلا اور جلد باز اسقدر کہ آن کی آن میں کائنات کو سر کرنے کی خواہش رکھتا ہے،متجسس اتنا کہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی عمر قلیل میں ازل و ابد کے سبھی راز جان لے۔۔۔انسان کو کمزوریوں کے ساتھ ساتھ فطرت نے ایک کرشمہ ساز ذہن بھی دے دیا۔۔۔جو اس کی کمزوریوں کو بہُت حد تک چھپا گیا۔۔۔۔اس کے ذہن کی وسعتیں اس لا محدود کائنات سے بھی زیادہ ہیںاس کے ذہن میں، وہموں وسوسوں، مفروضوں اور سوچوں کی تعداد کا شمار نہیں۔۔۔اپنی آمد سے لیکر آجتکچاند سے آگے نہ جا پانے والے انسان کا ذہن ایک کائنات تک محدود نہیں بلکہوہ کئی کائناتوں کے تصور پیش کرتا ہےاُسے لگتا ہے کہ بگ بینگ صرف ایک آغاز نہیں تھابلکہ بگ بینگ کا محرک سابقہ کوئی کائنات ہے جو بگ کرنچ یا بگ رپ کا شکار ہوئی تھی۔۔۔مادے کا ایک ایسا implosion جس نے نا معلوم کوانٹم ثقلی اثرات کے سبب بگ بینگ جیسے منفرد explosion کو جنم دیا...سائنسی تاریخ گواہ ہے کہ بہُت سے مفروضے بعد میں حقیقت بن گئے۔۔۔مثال کے طور پر صدیوں پہلے ایٹم کا مفروضہ پیش کیا گیا تو طویل عرصہ تک صرف ایک مفروضہ رہا اور بعض لوگ اس مفروضے کو سائنسی مذاق سمجھتے تھے یا اسکا مذاق بناتے تھے۔۔۔اور ماہرین بھی اس مفروضے کے شواھد تلاش کرنے میں ناکام ہوکر مایوس ہو رہے تھے کہ۔۔۔1905 میں البرٹ آئن سٹائن براونین موشن کے تجزیے کی روشنی میں ایک اہم مقام پر پہنچ گئے۔۔۔ اور ان کی رہنمائی میں ماہرین نے 20 سال بعد ایٹموں کی وضاحت کرنے والا نظریہ(کوانٹم میکانیکس) بھی تیار کر دیااب ایک مفروضہ نظریہ بن گیا تھا۔۔۔اور پھر 30 سال بعد ایرون مولر نے ایٹموں کی پہلی خوردبینی تصاویر بنا کر نظریے پر صداقت کی مہر لگا دی۔۔۔۔اسی طرح پھیلتی کائنات، بلیک ہولز، ثقلی لہریں بھی پہلے مفروضے ہی تھے اور اب حقیقت ہیں۔۔۔۔لہٰذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورم ہول اور وائٹ ہول بھی سچ ہو سکتے ہیںنو، گیارہ، چھبیس یا پھر بےشمارجہتیں بھی موجود ہو سکتی ہیں اور کئی کائناتوں کا وجود بھی ممکن ہے۔۔۔یہ بھی امکان کہبگ بینگ بھی کسی کائنات کا بگ کرنچ ہے سچ ہو سکتا ہےاور اس خیال کو بھی رد نہیں کر سکتےکہ ایک ہی وقت میں کئی بگ بینگ ہوئے ہوںاور ہو سکتا ہے اب بھی بگ بینگ اور بگ کرنچ کا سلسلہ جاری ہو؟اور ایک دن ہماری کائنات بھی اپنے اختتام کو پہنچ کر نئی کائنات کے آغاز کی داغ بیل ڈالے۔۔۔۔ان سبھی معروف مفروضوں میں مجھے وائٹ ہول اور ورم ہول والا مفروضہ سب سے زیادہ پسند ہےیہ میرے ذہن پر چھایا ہوا ہے اور یہ ایک اُمید کی کرن ہےورنہ میں تو نظامِ شمسی کے قید خانہ میں گھٹ کر جینے پر آمادہ ہو چکا تھا۔۔۔اور میرا ذہن بار بار مجھے یقین دلاتا ہے ہمارے قریب کوئی ایسا مختصر راستہ موجود ہے جس میں داخل ہوکر ہم کائنات میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔۔۔۔اور اگر وائٹ ہول اور ورم ہول جیسے مفروضے سچ ہوجائیں تو آپ کائنات میں سب سے پہلے کہاں جانا پسند کریں گے؟میں تو قابلِ مشاہدہ کائنات کے کناروں پر جاکر نا معلوم کائنات میں تانک جھانک کرنے کے ارادے رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصویر کی وضاحت:نوبل انعام یافتہ روجر پین روز پریقین ہیں کہ بگ بینگ ہماری کائنات کا آغاز نہیں تھا بلک یہ پچھلی کائنات کا اختتام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمدیاسين_خوجہ

Sunday, 10 March 2024

قائداعظموفات سے کچھ عرصے قبل قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ یہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ مقررہ وقت پر تقریب میں تشریف لائے ۔انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد میں آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی وزراء اور سرکاری افسر ان کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے ۔ 1920ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے غسل خانہ کی تعمیر میں اس وقت کے پچاس ہزار روپے خرچ کئے۔ مگر یہی جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو قائداعظم ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہیے۔ ایک مرتبہ برطانیہ کے سفیر نے آپ سے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آ رہا ہے آپ انہیں ایئرپورٹ لینے جائیں۔ قائد اعظم نے یہ شرط رکھی کہ میں تب ایئر پورٹ جاؤں گا اگر میرے بھائی کی برطانیہ آمد پر وہاں کا بادشاہ اسے لینے آئے۔ 1943ء کوالہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلباء کے درمیان اس بات پر تنازعہ ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرا یا جائے۔ مسلمان طلباء کا کہنا تھا کہ کا نگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی اس لیے یہ پر چم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا ابھی یہ تنازعہ جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلباء کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی یو نین کے طلباء کا ایک وفد قائداعظم کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کے پر چم لہرانے کی رسم ادا کریں قائداعظم نے طلباء کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نا زیبا حرکت ہے کوئی ایسی با ت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔ حضرت پیر سید جماعت علی شاہؒ اپنے دور کے بہت نیک سیرت اللہ کے بندوں میں شمار ہوتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو دیکھنے میں گورا یعنی انگریز نظر آتا ہے اور اس نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی۔تو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ ؒ نے فرمایا ’’ کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے‘‘۔پیر صاحب کے اس دور میں تقریبا 10 لاکھ مرید تھے۔آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر کسی نے مسلم لیگ اور قائداعظم کو ووٹ نہ دیا۔ وہ میرا مرید نہیں۔آخر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا ایک قول جو انہوں نے قائداعظم کے لئے فرمایا "محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے‘‘۔ ایک مرتبہ سرکاری استعمال کے لئے سینتیس (37)روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائداعظم نے لسٹ دیکھی توسات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہیں توکہا گیا کہ آپ کی بہن فاطمہ جناح کے لئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔ کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائے۔ 1933ء سے لے کر 1946ء تک قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک اندازے کے مطابق 17 قرار دادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کے لئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہواتھا۔اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایاتھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں اس کے آگے لائیٹ لگائی جائے۔ ایک مرتبہ قائداعظم کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائیٹ موجو د ہے۔ صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جائے گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ قائد اعظم جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہوگیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو۔ مگر ہمارے عظیم لیڈراور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔محمد علی جناح وہ لیڈر تھے جن کے بارے میں انگریزوں نے بھی کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا قائداعظم کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی پاکستان نہ بننے دیتے۔کیونکہ قائداعظم نے آخری وقت تک اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھاکہ اگر میری بیماری کا ہندوؤں اور انگریزوں کو پتہ چل گیا تو ہندوستان کی تقسیم کو انگریز مؤخر کردیں گے۔ مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا ’’ کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا ‘‘۔

Saturday, 9 March 2024

Use Full Links!8171 Web Portal:https://8171.bisp.gov.pk/PMT SCORE:https://usc.org.pk/pmt-scoreHealth card :https://www.pmhealthprogram.gov.pk/check-your-eligibility/

*السلام علیکم* *ملک ناصر عباس* اس امید کے ساتھ اپ لوگوں سے مخاطب ہے کہ اپ لوگ بالکل خیریت سے ہوں گے اج کل *95* فیصد لوگوں کا مردانہ کمزوری کے حوالے سے ایک مسئلہ ا رہا ہے نفس کی لمبائی موٹائی چوڑائی کے حوالے سے بہت فکر مند ہوتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے اسکی رزن میں بتاتا ہوں۔۔انسان کے نفس کی خون کی چھوٹی چھوٹی باریک نالیاں ہوتی ہیں جب وہاں پر بلڈ کی سرکولیشن نہیں پہنچتی تو جس کی وجہ سے مسئلہ یہاں سے شروع ہو جاتے ہیں یہ سب میں ایک ڈایا گرام کے ساتھ سمجھاتا ہوں لیکن یہاں شئر نہیں کرہا کسی گروپ کی پالیسی کی وجہ سے تو سوال یہ ہے کہ نفس والی سائیڈ پہ بلڈ کی سرکولیشن کیوں نہیں پہنچ رہی اس کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ ہےپہلی رزن لوگ بہت زیادہ ماسٹربیشن کرتے ہیں ماسٹربیشن سے چکنائی فیٹس بلڈ نفس کی خون کی نالیوں میں رک جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں پہ سپلائی نہیں پہنچ رہی جسکی وجہ سے وہ گرو کرنا بند کر دیتا ہے۔۔سیکنڈ ماسٹربیشن کرنے کی وجہ سے نفس کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں وہ نفس کو مینٹین نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے وہ جلدی بیٹھ جاتا ہےتھرڈ۔ بہت زیادہ جنک فوڈ یا اینٹی ہیلتھ چیزیں کھانے سے ناف کے نیچے پیٹ بڑھ جاتا ہے اور وہاں پہ چکنائی انی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بلڈ کی سرکولیشن نہیں ہو پاتی نفس کی لمبائی چوڑائی موٹائی رک جاتی ہےفورتھ۔ بہت زیادہ گرمی والی جگہ پہ کام کرنے سے بھی ایسا دیکھنے میں ایا ہے *علاج،* یہ بڑا ضروری مرحلہ ہے ہر علاج کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن میرے ذاتی تجربے کی بنیاد پہ میں یہ کہہ سکتا ہوں اس مسئلے کو اگر جڑ سے ختم کرنا ہے تو اس کے لیے نفس والی سائیڈ پہ خون کے بہاؤ کو بڑھانا پڑے گا وہ جو خون کی نالیاں بند ہے ان کو اوپن کرنا پڑے گا اس کے لیے جو میرے ذاتی تجربے میں چیزیں ہیں وہ بتاتا ہوںنمبر ون۔۔ زنک➕️ پربل پلس ارگینک سپلیمنٹ اس کے استعمال سے آپکے سپرم میں اضافہ ہوگا سادہ زبان میں منی گاڑھی ہوگی ٹائمنگ بڑھے گینمبر دو زیمولیٹک کیلشیم ود لیسیتھناس سے آپکے برین اور نفس کے مسلز سٹرونگ ہوں نفس کی سختی کو لمبے ٹائم کے لئے مین ٹین رکھیں گےنمبر 3 ۔ کیگل ایکسرسائز یہ صرف نفس کی بڑی خاص ایکسرسائز ہوتی ہے اس سے نفس والی سائیڈ پہ بلڈ کو فلو بڑھتا ہے کلینزنگ ہوتی ہے خون کی وینز اوپن ہوتی ہیں اور نفس کے حوالے سے مسلے ٹھیک ہو جاتے ہیں نوٹ۔۔۔ انکا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے انکا فارمولا نیچرل پلس ہربل ہے زنک 25 ڈالر اور کیلشیم 28 ڈالر تک مل جاتا ہے یہ دونوں پاکستانی پیسوں میں 10 سے 12 ہزار تک ڈسکاؤنٹ پرائس میں مل جاتے ہیں صرف یہی وہ راستہ ہے جس سے مردانہ کمزوری کے حوالے سے مسئلہ ٹھیک ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ باقی سارے جو بھی نسخے اپ استعمال کرتے ہیں وہ وقتی طور پہ اپ کو فائدہ دیتے ہیں یہ ایک پرماننٹ طریقہ کار ہے یہ صرف ایک سے دو ماہ کے اندر اندر بندہ ریکور ہو جاتا ہے پھر سوائے اچھی خوراک اور ورزش کے کچھ مزید چیزیں استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتیمیں مینٹل اور فزیکل کوچ ہوں فری سیشن بھی دیتا ہوں اس پہ *To b honest* میں یہ چیزیں ریکمنڈ کر کے رزلٹ لے آپ کو شئر کر رہا ہوں یہ سب میں نے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کے سلیبس سے اور چائنیز سلیبس سے سیکھا ہے اپنے اپنے شہر سے یہ چیزیں خریدیں مسلے ختم کریں اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھیں۔۔۔پھر ملیں گے کسی اور بیماری کو ٹھیک کرنے کے موضوع پہ۔۔۔۔ *ملک ناصر عباس* مینٹل اینڈ فزیکل ہیلتھ کوچ۔۔۔

Tuesday, 5 March 2024

یہ L,G,B,T,I,Q کیا ہے؟" روس نے قانونی طور پر LGBTIQ پر پابندی عائد کردی".مختلف قسم کے لوگوں کے ذھن میں اس ذھن گھمانے والے ںام کے بارے میں سوالات ہونگے کہ یہ کیا بلاء ہے تو چلو اسکو سمجھنے کی کقشش کرتے ہیں ہم بنیادی طور پر یہی سے سمجھنے میں غلطی کردیتے ہیں کہ جب ہم gender اور sexual feelings کو مکس کردیتے ہیں۔ یاد رکھیئے gender اور sexual feelings دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کی Attractions ایک جیسی ہوں۔ انسان ہی کی نہیں بلکہ تمام جانداروں کی ہارمونل تبدیلیاں اُسے مخالف جنس کی طرف بھی Attract کرسکتی ہے اور اپنی ہم جنس کی طرف بھی۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بچے کے genital part کو دیکھ کر ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ مرد ہے یا عورت96to 97 فیصد کیسسز میں ہوتا بھی یہی ہے کہ بچہ یا تو مرد ہوتا ہے یا پھر عورت لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بار یہی صورتحال ہو۔ کھبی کبھار (( 3 سے 4 فیصدی کیسسز میں )) ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وہی بچہ کچھ بڑا ہوتا ہے تو اُسے اپنے اندر hormonal changes محسوس ہوتی ہیں اور وہ اپنی اٹریکشن مخالف جنس کی بجائے اپنی ہم جنس یا پھر دونوں ( مرد و عورت) میں اٹریکشن محسوس کرنے لگتا ہے۔یہ کوئی غیر فطری عمل نہیں بلکہ nature نے ہی یہ فیلینگز اُس انسان یا کسی بھی جانور کو قدرتی طور پر دی ہوتی ہیں۔ بس ہم اُس سے use to نہیں ہوتے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ پرانے کم عقل معاشروں میں اِن جیسے لوگوں پر ظلم کا بازار گرم تھا بلکہ افسوس کے ساتھ آج 2022 جیسے ترقی یافتہ دور میں بھی بہت سے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے نہ صرف ایسے لوگوں کی فیلینگز کو معیوب گردانتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کو ذہنی اور جسمانی تکلیفیں بھی پہنچاتے ہیں اور وہ معاشرے کے ڈر اور والدین کی عزت کی خاطر عمر بھر گُھٹن زدہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں اور کچھ حالات کے مارے اپنی جان تک لے لیتے ہیں۔ اور یاد رکھیں یہ اگر کسی ایسے شخص سے شادی بھی کرلیں جو ان کی فیلینگز سے مماثلت نہیں رکھتے تو دونوں کی زندگی بعض اوقات جہنم بن جاتی ہے صرف اس معاشرے اور والدین کی کم علمی کی وجہ سے۔ لہذا پرانے گھٹن زدہ معاشرتی رسم و عقائد سے باہر نکلیں اور اپنے عقائد اور رسم و رواج کو اپنی زندگیوں تک رکھیں دوسروں پر نافذ نہ کریںآج ہم ایسے ہی لوگوں کی مختلف feelings کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ یہ فیلینگز وہ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ یہ جاننے سے پہلے ہمیں فیلینگز کی مختلف قسموں کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔وہ ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں اس پر کسی اور پوسٹ میں بات کریں گے۔ (L,G,B,T,I,Q)ہم ایک ایک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کریں گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((L))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایل یعنی (Lesbian) مطلب ہم جنس پرست فی میل ۔۔۔! جب ایک عورت کسی اپنی ہی جیسی جنس ( یعنی عورت میں Attraction محسوس کرے) تو اُسے Lesbian یعنی ہم جنس پرست بولتے ہیں۔( آسان لفظوں میں بولوں تو جب کوئی عورت اپنے جیسی کسی دوسری عورت سے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہتی ہو تو اُسے میڈیکل سائنس کی رو سے Lesbian بولا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((G))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی کی Full form ہے Gay جو بلکل ویسے ہی ہے جیسے Lesbian ۔۔ بس فرق اتنا سا ہے lesbian میں عورت ، عورت میں جنسی اٹریکشن محسوس کرتی ہے اور Gay میں ایک مرد دوسرے مرد میں اپنی جنسی اٹریکشن محسوس کرتا ہے۔ مطلب Attractive ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک مرد اپنے ہم جنس سے پیار اور محبت کریں اسے ہم میڈیکل سائنس کی روشنی میں Gay بولتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((B))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بی یعنی Bisexuals یہ ایسے لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو دونوں جنسوں میں Attraction محسوس کرتے ہو۔ یعنی اگر کوئی (مرد) عورتوں میں بھی دلچسپی ظاہر کرتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہم جنس یعنی مرد میں بھی دلچسپی ظاہر کرتا ہو۔ تو ایسے لوگوں کو ہم Bisexuals بولتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح اگر کوئی عورت مردوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہو اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں میں بھی دلچسپی ظاہر کرتی ہو تو اُسے بھی ہم Bisexuals بولیں گئے۔آسان لفظوں میں جو لوگ دونوں جنسوں (مرد و عورت) کی طرف Attract ہوتے ہو۔ وہ چاہے عورت ہو یا پھر مرد دونوں کو ہم Bisexual بولیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((T))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹی یعنی Trans genders جن کو 3rd جینڈر بھی بولتے ہیں۔ ایک ہوتا کہ ڈاکٹر حضرات بچے کے genital پارٹ کو دیکھ کر بتا دیں کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی جو 97to 96 فیصد کیسسز میں ہوتا بھی یہی ہے ( جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا تھا) کہ بچہ یا تو لڑکی ہوتا ہے یا پھر لڑکا لیکن اصل مسئلہ ہی یہی سے شروع ہوتا ہے۔Sexual orientation ka....! مان لیجیئے ! جب وہی بچہ کچھ بڑا ہوکر محسوس کرتا ہے کہ میرے اندر مردوں کا جسم رکھنے کے باوجود لڑکیوں والی feelings زیادہ ہیں یا کوئی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے کہ میرے اندر لڑکیوں والا جسم رکھنے کے باوجود لڑکوں والی feelings زیادہ ہیں۔ تو اسے ہم Trans genders بولے گئیں۔ اگر آپ کے لیے اور آسان لفظوں میں explain کرنے کی کوشش کروں تو لڑکا جب لڑکوں والا جسم رکھنے کے باوجود خود کو لڑکیوں جیسا محسوس کرے۔ کہ اُس کے اندر لڑکیوں والی فیلینگز زیادہ ہیں۔ same اسی طرح لڑکی جب لڑکیوں والا جسم رکھنے کے باوجود خود کو لڑکوں جیسا محسوس کریں کہ اُس کے اندر لڑکوں والی فیلینگز زیادہ ہیں۔ تو اُنھیں 3rd جینڈر بولا جائے گا۔ایسے لوگ کھبی کھبی اپنی فیلینگ کے مطابق کپڑے بھی پہننا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ جیسا اندر سے محسوس کررہے ہوتے ہیں ویسے ہی خود کو باہر سے بھی ظاہر کرسکیں۔ جنہیں cross dresser بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی فیلینگز کے مطابق اپنے جسم کو بھی ڈھالنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ مختلف تھراپی (Therapies) اور سرجریز کا سہارا لیتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے جسم میں اپنی Feelings کے مطابق تبدیلیاں لا سکے۔لیکن یہاں آپ کے من میں ایک اور #سوال جنم لے رہا ہوگا کہ ٹرانس جنڈر کی Attractions کیسے difine ہوتی ہے؟ مطلب کوئی اگر پیدائش کے وقت لڑکا مانا گیا اور بڑے ہوکر اُس نے لڑکی جیسا محسوس کیا تو اُسے میڈیکل سائنس کی روشنی میں کیا بولا جائیں گا؟#جواب___ تو اس کے لیے ماہرین نے مختلف terms difine کی ہیں یعنی پہچان کے لیے نام دیئے ہیں تاکہ اُسے اُس کی فیلینگز کے مطابق پہچانا جاسکے۔ایسے شخص جسے پیدائش کے وقت اُس کا جسم دیکھ کر لڑکا مانا گیا اور بڑے ہوکر اُس نے اپنی فیلینگز کو لڑکیوں جیسا محسوس کیا تو ایسے شخص کو جو لڑکوں جیسا جسم رکھتے ہوئے اپنی لڑکیوں والی فیلینگز کے ساتھ لڑکوں میں اٹریکشن کو ظاہر کریں گا۔تو اُسے میڈیکل سائنس کی روشنی میں Heterosexual trans gender بولا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنے لڑکوں والے جسم اور لڑکیوں والی فیلینگز کے ساتھ لڑکوں کی بجائے لڑکیوں میں اپنی فیلینگز کو ظاہر کرتا ہے تو اُسے Lesbian trans gender بولا جائے گا۔اور اسی طرح ۔۔۔۔! اگر وہ لڑکا اپنے لڑکوں والے جسم اور اپنی لڑکیوں والی فیلینگز کے ساتھ دونوں میں اٹریکشن محسوس کرے گا یعنی لڑکے میں بھی اور لڑکی میں بھی تو اسے Bisexuals Trans gender بولا جائیں گا۔لڑکی کے کیس میں بھی ایسا ہی ہے۔اگر کوئی لڑکی پیدا تو لڑکیوں والے جسم کے ساتھ ہوئی لیکن اُس نے بڑے ہوکر اپنی فیلینگز کو لڑکوں جیسا محسوس کیا۔ پھر اگر وہ اپنے لڑکیوں والے جسم اور اپنی لڑکوں والی فیلینگز کے ساتھ لڑکیوں میں اپنی Attraction کو ظاہر کرے گئی تو اُسے Heterosexuals trans gender بولا جائیں گا۔ اور اگر وہ اپنے لڑکیوں والے جسم اور لڑکوں والی فیلینگز کے ساتھ کسی لڑکے کی طرف اپنی فیلینگز محسوس کرے گئی یعنی Attract ہوگی۔ تو اسے Gay trans gender کہا جائے گا۔ اور جب لڑکی اپنے لڑکیوں والے جسم اور لڑکوں والی فیلینگز کے ساتھ دونوں جنسوں یعنی لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی اٹریکشن محسوس کرے گی تو اُسے بھی Bisexuals Trans gender کہا جائے گا۔امید ہے ۔۔۔! میں( شاید) آپ کو سمجھانے میں کامیاب رہی ہوں۔😅۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((I))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب بات i کی کرتے ہیں i کا مطلب ہوتا ہے inter_ sex یہ اُن لوگوں کو بولا جاتا ہے۔جنہیں ہم عام لفظوں میں ہیجڑے بولتے ہیں جو کہ ایک غیر اخلاقی لفظ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی دل آزاری کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہمیں ایسے لفظوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ کیونکہ کوئی بھی اپنی مرضی سے inter_sexual نہیں بنتا یہ بس نیچر کی سلیکشن کا نتیجہ ہے۔ اور وہ ہم سے الگ بھی نہیں بلکہ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے جتنے ہی قابل احترام ہیں۔ آج اگر ہم مرد یا عورت ہیں یا وہ inter sexual ہیں تو اُس میں ہمارا کوئی کمال نہیں یہ صرف نیچر کی سلیکشن کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ ایسے جسم اور ایسی فیلینگز کے ساتھ پیدا ہوئے لہذا ایسے لوگوں کا مذاق بنانے سے بہتر ہے کہ ہم پہلے اپنے اندر کی گندگی کو صاف کریں۔آئیے اب inter sexual کو میڈیکل سائنس کی روشنی میں سمجھتیں ہیںآسان لفظوں میں جب کسی بچے کی پیدائش کے وقت genital part اچھے سے develop نہیں ہو پاتے اور اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہو کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی تو ڈاکٹرز صورت حال کے مطابق بتا دیتے ہیں کہ وہ inter sexual لڑکی ہے یا لڑکا ۔ آسان لفظوں میں یہ اُس وقت Confusing Situation ہوتی ہے۔لیکن مسئلہ اُن کے ساتھ بھی تب شروع ہوتا ہے جب یہی inter sexual اگر لڑکا مانا گیا تھا اور بڑے ہو کر اُس نے خود کو لڑکیوں محسوس کیا یا وہ لڑکی مانی گئی تھی اور اُس نے بڑے ہوکر خود کو لڑکوں جیسا محسوس کیا۔ یا وہ خود کو بڑے ہوکر Bisexuals یا ٹرانس جنڈر محسوس کرنے لگا/ لگی۔ تو اوپر بیان کیا گیا trans gender اور Bisexual کی فیلینگز کا اصول same ان کے ساتھ بھی لاگو ہوگا۔ (نوٹ یہاں صرف فیلینگز کی بات ہورہی ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((Q))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیو یعنی Queer یعنی وہ لوگ جنھیں یہ clear نہیں ہے کہ اُن کی پہچان کیا ہے۔ وہ مرد ہیں یا عورت یا ٹرانس جنڈرز یعنی وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کس جینڈر سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی اٹریکشن کس جینڈر کی طرف ہونی چاہیے۔ مطلب وہ نورمل جسم رکھنے کے باوجود، اپنے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ مرد ہیں یا عورت اور نا ہی یہ جانتے ہیں کہ اُن کی دلچسپی (Attraction) کس صنف میں ہے اس لیے اُن کو Q یعنی Queer یا questioning پرسن بولا جاتا ہے۔( ایک بار پھر آپ سب کو بتاتی چلوں۔۔۔! کہ یہاں صرف فیلینگز کی بات ہورہی ہے جسمانی ساخت کی نہیں۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔((Asexual))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کچھ بات Asexual کی یہ LGBTIQ میں شامل تو نہیں لیکن میں نے ضروری سمجھا کہ اگر فیلینگز کی بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھ آپ کو اس فیلینگز کے بارے میں بھی بتا دیا جائے۔ غیر جنسیت (Asexual) یعنی اگر کوئی شخص وہ چاہے عورت ہو یا مرد اگر وہ کسی کی طرف بھی اپنے اندر اٹریکشن محسوس نا کریں نہ مرد کی طرف اور نہ ہی عورت کی طرف تو اُسے میڈیکل سائنس کی روشنی میں ہم Asexual بولتے ہیں۔ یہ ہوتے تو۔۔۔! عام لوگوں کی طرح ہی ہیں لیکن وہ جنسی تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتے مطلب اُن کو سکس کی فیلینگز محسوس نہیں ہوتی اور ساتھ ہی وہ کسی کا اپنی طرف sexually attract ہونا بھی پسند نہیں کرتے۔ ایسا کسی جنسی خرابی کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ hormonal changes کی وجہ سے اپنے اندر ایسی فیلینگز رکھتے ہیں جو کہ کوئی غلط بات نہیں۔ بلکہ یہ بھی ایک نیچرل فیلینگز ہی ہیں جو پیدائش کے ساتھ قدرت نے اُنہیں عطا کی ہوتی ہے۔تحریر:- بنت حق

Friday, 1 March 2024

(Message for Adults) مردوں کے عام جنسی سوال ؟۔۔۔👈#سوال 1: کیا مشتزنی کرنے سے واقعی نامردی، مردانہ بانجھ پن اور عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے؟👈#سوال 2: کیا عضو تناسل کے سائز میں اضافہ کرنے والا کوئی طلاء کریم مالش یا کوئی میڈیسن دستیاب ہوتی ہے؟👈#سوال 3:عضو تناسل کی معمول کی لمبائی کتنی ہوتی ہے، اور اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو تناسل کا نارمل سائز کتنا ہونا چاہیے؟👈#سوال 4: نارمل ٹائمنگ کتنی ہے اور کیا ٹائمنگ کی کمی اور پتلی سیمن مردانہ بانجھ پن کی وجہ بن سکتی ہے؟👈#سوال 5: میڈیکل سائنس میں کس کس مردانہ جنسی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے؟ 👈#جواب 1: درحقیقت مشتزنی سے نامردی ، بانجھ پن ،اور کوئی جسمانی بیماری یا نفس کا اصل میں پتلا ہونا چھوٹا ہونا یا ٹیڑھا ہونا ، یہ سب بلکل نہیں ہوتا۔ باقی کچھ لوگوں میں مشتزنی کی وجہ سے پیدا ہونے والی guilt سے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے سٹریس، ڈیپریشن ہو سکتا ہے ، اور ڈیپریشن ،سٹریس کی وجہ سے مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہوتی ہے اور اس سے عضو تناسل میں اچھی طرح تنائو یا اریکشن نہیں ہو پاتی اور اچھی طرح سے اریکشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو عضو تناسل کا سائز چھوٹا نظر آتا ہے، اور میڈیکل سائنس میں ڈیپریشن ،لو لیبیڈو اور مردانہ جنسی ہارمون کی کمی کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔باقی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عضو ٹیڑھا نہیں ہونا چاہیے ایک دلچسپ اور مزے کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد مردوں کے عضو لیفٹ سائیڈ کی طرف مڑے ہوتے ہیں چاہے انھوں نے مشت ذنی کی ہو یا نہیں اصل میں سب نارمل ہے کیونکہ عضو کسی ہڈی یا سخت چیز کا نہیں بنتا اگر عضو کی رگیں ابھری ہوئی ہوں تو عضو میں خون بھرے گا اور تناو ذیادہ ہوگا یہی حقیقی لذت ہے۔ لہذا مشتزنی کو ٹیڑھا پن اور ابھری ہوئی رگوں کا زمیندار نہ ٹھہراؤ۔👈#جواب 2: فلحال ابھی تک مارکیٹ میں کوئی ایسی میڈیسن ، سانڈھے اور سانپ غیرہ کا طلہ اور پھکی ایسی نہیں آئی جو عضو تناسل کو واقعی میں بڑا کر سکے ، جیسے 5 انچ کو 6 یا 7 انچ کر سکے، لہذا عضو تناسل کو بڑا کرنے کی بے وقوفی کرنا چھوڑ دو، اور اپنے پیسے بھی اس کام میں ضائع نہ کرو، میں نے فیس بک پہ بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو عضو تناسل کو موٹا لمبا کرنے کے چکر میں ہزاروں خرچ کر چکے ہیں اور انکو فائدا آدھے انچ کا بھی نہیں ہوا، پاکستان قوم ویسے تو بہت غریب ہے لیکن اس کام کے لے بغیر سوچے ہزاروں لگا دیتے ہیں۔👈#جواب 3:یوں تو ہر انسان کا انفرادی نوعیت سے عضو تناسل کی موٹائی اور لمبائ میں فرق ہوتا ہے عام طور پر عضو تناسل کی لمبائی میں اضافہ اس کے تناو کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو کا سائز 3 انچ کا بھی کافی ہے اور عضو تناسل کا اریکشن یا سختی میں ایوریج سائز تقریباً 5 انچ ہوتا ہے۔ اور مطمئن سیکس کیلیے کے لیے 3 سے 4 تک کا سائز بلکل کافی ہے، اور سائز قدرتی طور پر بڑھتا ہے اور کسی دوا سے نہیں بڑھایا جاتا۔باقی نارمل حالت جیسے آرام اور سکون کی حالت میں لمبائی اور موٹائی کے سائز میں فرق آجاتا ہے اسی طرح سڑیسئ، ڈیپریشن ، دماغی تناو یا پھر ٹھنڈی ہوا سے بھی عضو تناسل کا سائز عارضی طور پر سکڑ جاتا ہے۔ جیسے 2 سے 3 انچ تک ہو جاتا ہے، باقی موٹاپا سے عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے, پھر وزن کم کرنے سے عضو تناسل کا نارمل سائز دوبارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔(لہذا اپنے عضو تناسل کے سائز کو چھوتے بچوں والا سائز نہ کہیں، نارمل حالت میں سب کا ایسا ہوتا ہے)👈#جواب 4:نارمل ٹائمنگ 3 سے 5 منٹ ہے۔ شادی کے آغاز میں یہ 1 منٹ سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ باقی ٹائمنگ کی کمی کو نامردی نہیں کہا جا سکتا چاہے ٹائمنگ کچھ سیکنڈ ہی کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی پتلی سیمن اور ٹائمنگ کی کمی سے مردانہ بانجھ پن ہوتا ہے، البتہ یہ دونوں صورتیں کسی اور وجہ سے کچھ لوگوں میں ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں زیادہ تر سرعت انزال یا ٹائمنگ کی کمی کی وجہ معمولی ہوتی ہے ، جیسے عضو تناسل کا زیادہ احساس ہونا (Hypersensitivity) ,سٹرس ، ڈیپریشن، گیس اور سوچ وغیرہ ہی ہے، باقی مردانہ بانجھ پن کسی وجہ سے سپرمز کی کم مقدار اور سپرمز کی کم موٹیلیٹی سے ہوتی ہے ، مردانہ بانجھ پن کی درجنوں وجوہات ہ ہوتی ہیں،اگر کسی کو شادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ہو رہا ہو تو پھر مردانہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کےلئے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرے۔👈#جواب 5: میڈیکل سائنس میں عضو تناسل کے ٹیڑھے پن کو سیدھا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عضو تناسل کو کسی میڈیسن کے زریعے سے لمبا موٹا کیا جا سکتا ہے ، جیسے سختی کے حالت والے 4 انچ کے عضو تناسل کو کسی میڈیسن سے 5 یا 6 انچ بلکل نہیں کیا جا سکتا، باقی میڈیکل میں درست تشخیص کے بعد سرعت انزال یعنی ٹائمنگ کی کمی اور زکاوت حس کا علاج کا کچھ حد تک علاج کیا جا سکتا ہے، اور جنسی خواہش کی کمی یا لو لیبیڈو کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے ، اور جس کو مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہو اس کا بھی علاج کیا جا سکتا اور مزید جس کو ED یعنی عضو تناسل کے تنائو اور اریکشن کا مسلئہ ہو اس کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے ، اور مردانہ بانجھ پن کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے لیکن Azospermia کا علاج مشکل ہوتا ہے ، اس کیس میں ڈاکٹر عموماً IVF جیسے پروسیجر کا مشورہ دیتے ہیں۔(نوٹ: جس کو واقعی میں عضو تناسل کا سائز بڑا اور موٹا کرنے کا شوق ہو تو پھر سرجری سے کچھ حد تک یہ ممکن ہو سکتا ہے ، لیکن اس کے لیے لاکھوں لگتے ہیں اور سرجری کے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوتے ہیں)آخری ہدایت یہ ہے کہ جنسیات سے متعلق کسی بھی مسلے کی صورت میں خود سے کوئی دوائی استعمال نہ کریں، کیونکہ سیلف میڈیکیشن کرنے کے فائدے کی بجائے بہت سے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔ شکریہ Regards Dr Akhtar Malik