Sunday, 18 February 2024
بلوچستان کی محرومی اور وسائل کی حقیقت کوئی شک نہیں کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں ضروریات زندگی کے کئی بنیادی مسائل ہیں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح۔ لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان کے وسائل پاکستان کھا گیا یا پاکستان نے دیگر صوبوں کی بہ نسبت بلوچستان کو محروم رکھا یا بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ پاکستان ہے بہت بڑا جھوٹ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جن علاقوں میں پانی نایاب ہو وہاں انسانی آبادیاں کم ہوتی ہیں اور وہ ہمیشہ نسبتاً پسماندہ رہتے ہیں۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ بلوچستان کی تمام معلوم تاریخ میں یہ سندھ، پنجاب اور کے پی کے کے مقابلے میں ہمیشہ پسماندہ ہی رہا۔ حتی کہ چودہ سو سال پہلے حضورﷺ کے ایک صحابی یہاں سے ہوکر گئے تو حضورﷺ کو اپنی جو کارگزاری سنائی اس میں بھی اس علاقے کی ویرانی کا خصوصاً ذکر کیا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہی حال تھا البتہ قیام پاکستان کے بعد ہزاروں سال کے ویران اس بلوچستان کو پاکستان نے وہ سب کچھ دیا جو ممکن تھا، سڑکیں، ڈیمز، کالجز، یونیورسٹیاں اور ان شاءاللہ عنقریب یہاں سے دنیا بھر کے لیے تجارت بھی ہوگی۔ بلوچستان میں پانی نہیں ہے نہ زرخیز زمینیں ہیں۔ آبادی بھی بہت تھوڑی ہے تقریباً 2 کروڑ کے قریب۔ اسی لیے یہ علاقے اپنی خوارک کے لیے ہمیشہ سے سندھ اور پنجاب پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ البتہ بلوچستان معدنیات سے مالامال ہے۔ بلوچستان میں گیس اور تیل کے ذخائر بھی ہیں۔ سب سے پہلے گیس کی بات کرتے ہیں کیونکہ اسی پر زیادہ پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار گیس بلوچستان میں ہی دریافت ہوئی تھی۔ 1995ء میں جب بلوچستان میں گیس کی پیدوار اپنے عروج پر تھی اس وقت بلوچستان پاکستان کی کل ضرورت کی 56٪ گیس پیدا کر رہا تھا۔ آج پاکستان کی روزانہ گیس کی ضرورت 4000 ملین کیوبک فٹ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں گیس کی کل پیدوار 3597 ملین کیوبک فیٹ روزانہ ہے۔ جس میں بلوچستان 359 ملین کیوبک فیٹ گیس پیدا کررہا ہے۔ یعنی بلوچستان اس وقت پاکستان کی کل ضرورت کا 9٪ گیس پیدا کررہا ہے۔ جس میں 6٪ خود بلوچستان میں استعمال ہوتی ہے اور 3٪ باقی پاکستان کو سپلائی کی جاتی ہے۔ پاکستان کی ضرورت کی 91٪ گیس باقی صوبے پیدا کررہے ہیں یا باہر سے منگوائی جاتی ہے جسکے لئے پنجاب کے ٹیکس کا پیسہ استعمال ہوتا ہے کیونکہ 60٪ آبادی پنجابی ہے۔ پاکستان میں تیل کی روزانہ ضرورت ساڑھے 5 لاکھ بیرل ہے۔ لیکن پاکستان میں تیل کی پیدوار 80 تا 90 ہزار بیرل روزانہ ہے۔ یہ 80 یا 90 ہزار بیرل تیل باقی تینوں صوبےپیدا کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تیل کی پیدوار فلحال زیرو ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کا باقی ساڑھے 4 لاکھ بیرل تیل باہر سے خریدتا ہے۔ اسی تیل سے بلوچستان کی ضرورت بھی پوری کی جاتی ہے جو اس گیس سے کہیں زیادہ ہے جو بلوچستان سے پاکستان کے باقی علاقوں کو دی جاتی ہے۔ یا پھر افغانی ایران سے تیل سمگل کر کے بلوچستان لاتے ہیں جس کا نقصان پاکستانی معیشت کو ہوتا ہے۔ پاکستان باہر سے جو تیل خریدتا ہے وہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے لیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کا بوجھ بلوچستان پر کتنا ہے اس پر آگے بات کرتے ہیں۔ تیل اور گیس کے بعد بلوچستان کی تیسری اہم ترین چیز کاپر (تانبے) اور سونے کے ذخائر ہیں۔ اس کے لیے سینڈک میں کام ہورہا ہے اور ریکوڈک میں جلد شروع ہوجائیگا ان شاءاللہ۔ ان ذخائر کے حوالے سے آپ نے شائد یہ سنا ہوگا کہ 500 ارب ڈالر یا 1000 ارب ڈالر کے ہیں، پاکستان کا قرضہ اتار سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ شائد آپ کو کسی نے نہیں بتایا ہوگا کہ ان کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی لاگت اتنی زیادہ ہےکہ یہاں سے نکالنے کی نسبت باہر سے امپورٹ کرنا سستا پڑتا ہے۔ یا پرانا استعمال شدہ کاپر دوبارہ پگھلا کر استعمال کرنا اس سے بھی سستا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1995ء میں بے نظیر نے سینڈک پراجیکٹ پر کام رکوا دیا تھا کہ مارکیٹ سے زیادہ مہنگا پڑ رہا تھا۔ البتہ آج دنیا میں کاپر کی طلب بڑھی ہے اور قیمتیں بڑھی ہیں تو امید ہے کہ اب وہاں سے کاپر مائننگ کا فائدہ ہوگا۔ سینڈک میں سونا نکالنے کا ضرور کچھ فائدہ ہورہا ہے۔ لیکن اس پر بھی بہت سی وجوہات کی بنا پر کام رکا رہا۔ لیکن اگر بھرپور کام کیا جائے تو سینڈک سے سالانہ 72000 اونس سونا نکالا جا سکتا ہے جس پر اخراجات نکال کر 10 سے 12 ارب روپے بچتے ہیں۔ جن میں سے آدھا نکالنے والی چینی کمپنی کا ہے یعنی 5 تا 6 ارب روپے۔ باقی جو 5 یا 6ٌ ارب روپے بچیں گے وہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت آپس میں تقسیم کرینگے۔ سب سے زیادہ ریکوڈک سے امیدیں ہیں کہ وہاں سے بلوچستان اور پاکستان دونوں کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے۔ ریکوڈک سے سالانہ ڈھائی لاکھ اونس سونا پیدا ہو سکتا ہے جس سے اخراجات نکال کر 50 تا 60 ارب روپے سالانہ بچ سکتے ہیں۔ اس میں کمپنی کا آدھا حصہ نکالیں تو سالانہ 25 تا 30 ارب روپے بلوچستان اور وفاقی حکومت کو بچیں گے جو طے کیے گئے فارمولے کے حساب سے آپس تقسیم کرینگے۔ ریکوڈک میں بڑی مقدار میں تانبا بھی نکالا جاسکتا ہے اور اس کا ابھی دیکھنا ہوگا کہ منافع بخش ثابت ہوگا یا نہیں۔ یعنی ریکوڈکٹ اور سینڈک وغیرہ کا کل ملا بھی سالانہ 40 ارب روپے سے اوپر نہیں جاسکتا۔ جس میں کچھ بلوچستان کو ملے اور کچھ مرکزی حکومت کو۔ دوسری جانب پنجاب کے صرف ایک چھوٹے سے شہر سیالکوٹ کی ہاتھوں سے بنائی جانی والی اشیاء کی سالانہ برآمدات 4 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ یعنی کم از کم بھی 1100 ارب روپے سالانہ پاکستان کو دے رہا ہے۔ شائد ریکوڈک اور سینڈک جیسے 20 پراجیکٹس کے برابر۔ ان کے علاوہ بلوچستان میں کوئلہ، بیرائٹ، کرومائٹ، جپسم اور ماربل بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز وفاقی حکومت نکال رہی ہے نہ ہی باہر کی کوئی کمپنی۔ سارا کچھ بلوچستان کے مقامی لوگ خود نکال رہے ہیں۔ بلکہ کرومائٹ اور کوئلے پر تو زیادہ تر افغانیوں کا قبضہ ہے جو پاکستان پناہ لینے آئے تھے۔ تو کوئی بتا سکتا ہے کہ بلوچستان کے وہ کون سے وسائل ہیں جو پاکستان کھا رہا ہے؟؟بلوچستان تقریباً 20 لاکھ ٹن گندم استعمال کرتا ہے جب کہ 12 لاکھ ٹن پیدا کرتا ہے۔ بلوچستان کی گندم کی آدھی ضرورت پنجاب اور سندھ پوری کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی چاؤل کی ضرورت 10 لاکھ ٹن سے اوپر ہے جس میں سے 4 لاکھ 98 ہزار ٹن پیدا کرتا ہے اور باقی ضرورت سندھ اور پنجاب سے پوری کرتا ہے۔ یہی حال باقی چیزوں کا بھی ہے۔ بلوچستان کی دودھ، چینی، دوائی اور کپڑے کی ضرورت بھی دوسرے صوبے پوری کرتے ہیں۔ اگر وسائل کی بات کی جائے پاکستان نے سال 2021ء میں 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم پیدا کی۔ اس میں 1 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم پنجاب نے پیدا کی یہ ملک کی کل پیدوار کا 62٪ بنتی ہے۔ یہ وہ روٹی ہے جو ہم سب کھاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب پورے پاکستان کا 55٪ چاول پیدا کرتا ہے۔ کپڑا، دودھ اور گوشت کا بھی سب سے بڑا حصہ پنجاب پیدا کرتا ہے۔ یہ ضروریات زندگی کی سب سے بنیادی چیزیں ہیں۔ بلوچستان میں قیام پاکستان سے پہلے بجلی بنانے کا کوئی نظام نہ تھا۔ پاکستان نے بلوچستان میں ڈھائی ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کے 5 یونٹس لگائے ہیں۔ جب کہ بلوچستان کی کل ضرورت اس وقت تقریباً 1400 میگاواٹ ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ بلوچستان میں باقی تمام صوبوں سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور اس کی ایک بہت ٹھوس وجہ ہے۔ پورے پاکستان میں بجلی کی سب سے زیادہ چوری بلوچستان میں ہوتی ہے۔ سول اور عسکری قیادت کو پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان کو فراہم کی گئی 132ارب روپے کی بجلی میں سے 97 ارب کی بجلی چوری کرلی گئی ہے۔ صرف کوئٹہ میں 14 ارب کی بجلی چوری ہوئی ہے۔ یعنی بلوچستان میں سالانہ کم و بیش 100 ارب روپے کی صرف بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہ رقم دیگر صوبوں سے پوری کی جاتی ہے۔ مکران، خضدار، آواران، ماشکیل، پنجگور کے علاقوں میں تو بل دینے کا رواج ہی نہیں ہے۔ کیسکو حکام کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی کی چوری زیادہ ہے وہیں لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں۔ جس کے بعد مقامی آکر سڑکیں بند کر دیتے ہیں تو بجلی دوبارہ آن کر دی جاتی ہے لیکن مجال ہے جو کوئی بل دینے کا سوچے بھی۔ مفت بجلی تو امریکہ اور چین بھی نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ شروع میں کہا کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ بلوچستان میں پورے پاکستان میں سب سے کم بارشیں ہوتی ہیں اور سطح مرتفع ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی بہت نیچے ہے۔ پانی کی فراہمی کا واحد طریقہ ڈیم اور نہریں ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں صرف ایک ڈیم تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں اب تک 66 مزید ڈیم بنائے جا چکے ہیں اور پاکستان 100 ڈیم بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی دو تین لاکھ ایکڑ زمین کاشت ہورہی تھی۔ پاکستان کے بنائے گئے آپباشی کے منصوبوں اور دھڑا دھڑ بنائے جانے والے ڈیموں کی بدولت یہ رقبہ 10 لاکھ ایکڑ سے تجاؤز کر چکا ہے۔ پاکستان نے بلوچستان کی پیاس بجھانے کے لیے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنایا تھا جو واحد منصوبہ تھا جس سے بلوچستان کی زمین سیراب ہوسکتی تھی۔ اس منصوبے سے بلوچستان کی 7 لاکھ ایکڑ پنجر زمین سیراب ہونی تھی جس کے بعد شائد اپنی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان خوراک میں خود کفیل ہوجاتا۔ لیکن اس منصوبے پر بلوچ سرخوں نے اعتراض کر دیا اور فرمایا کہ اس منصوبے سے بلوچستان کو تو کوئی نقصان نہیں لیکن ہم سندھ اور کے پی کے کے ساتھ اخلاقًا کھڑے ہیں۔ اس عظیم اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے بعد یہی سرخے گھڑے اٹھائے بلوچ خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہر جگہ روتے بھی ہیں کہ جی دیکھیں بلوچستان میں پینے کا پانی تک نہیں۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے بلوچستان کو کچی کنال کے ذریعے سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس میں پنجاب سے پانی بلوچستان تک پہنچانا تھا۔ یہ منصوبہ بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے اور اس سے بھی بلوچستان کی 5 تا 7 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی ان شاءاللہ۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچستان کا زیر کاشت رقبہ تین گنا کر دیا جائے تاکہ بلوچستان خوراک میں خود کفیل ہوسکے۔ بلوچستان میں آبادیاں کم اور دور افتادہ ہونے کے باؤجود پورے پاکستان میں سب سے اچھی سڑکیں بنائی گئی ہیں جس کے لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ کبھی بلوچستان میں سفر کر کے دیکھیں۔ صرف پچھلے تین سال میں بلوچستان میں 3732 کلومیٹر نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں تھی۔ پاکستان اب تک بلوچستان میں 24 یونیورسٹیاں بنا چکا ہے۔ جو بدقسمتی سے بی ایس او جیسی سرخوں کی دہشتگرد تنظیوں کا گڑھ بن گئی ہیں اور وہاں سے نوجوانوں کو ڈاکٹر انجنیر بنانے کے بجائے سرمچار بنا کر پاکستان کے ہی خلاف لڑنے کے لیے پہاڑوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں سکول اور کالجز بھی بنائے گئے ہیں۔ بلوچ جوانوں کو پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ پر مفت تعلیم دی جاتی ہے جہاں دیگر پاکستانیوں کو لاکھوں روپے فیس دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح پاک فوج میں بھی بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے پورے پاکستان میں سب سے نرم شرائط ہیں۔ بلوچستان میں قیام پاکستان کے وقت صرف کوئٹہ میں ایک سرکاری ہسپتال تھا۔ اس وقت بلوچستان میں 134 ہسپتال، 574 ڈسپنسریاں اور 95 زچگی کے مراکز بنائے جا چکے ہیں۔ بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی کے لیے 4015 ڈاکٹرز بشمول 1057 سرجن ہیں جو 3000 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔ یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے اپنے مقامی ڈاکٹر حکومت سے نتخواہ لے کر بھی ہسپتالوں میں نہیں بیٹھتے بلکہ بہت سے تو پاکستان سے باہر پریکٹس کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں چل رہی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی کاروائی کی جائے تو 'ڈاکٹروں کا احتجاج' شروع ہوجاتا ہے۔ باقی ڈاکٹرز سیاسی تحریکیں چلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔اس کے بعد بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ بلوچستان میں سکول، ہسپتال یا بجلی وغیرہ کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں تو اٹھاوریں آئینی ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی ذمہ داری بن گئی تھی۔ 14 سال میں بلوچستان کو کئی ہزار ارب روپے کا بجٹ ملا ہے جو ان کی ضرورت سے ہمیشہ زیادہ رہا ہے۔ وہ بجٹ کہاں صرف کیا گیا؟؟ کتنی سڑکیں، سکول اور ہسپتال بنائے گئے؟؟ بلوچستان کی عوام اپنے منتخب نمائندوں سے کرینگے سوال؟بلوچستان کی قسمت بدلنے کا سب سے بڑا منصوبہ گوادر پراجیکٹ ہے جس کو سی پیک کی مدد سے چین سے ملایا جارہا ہے۔ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یہ سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ یہ پاکستان نے عمان سے پیسوں کے عوض خریدا اور پھر 20 سال بعد بھٹو کے دور میں اس کو بلوچستان میں شامل کر دیا۔ جس کا فائدہ اب پورے بلوچستان کو ہوگا۔ باقی وسائل پر بات ہوگئی اب آخر میں ٹیکسز پر بات کرتے ہیں کیونکہ کوئی سرخا کہہ سکتا ہے کہ ٹیکسز کے پیسے اگر بلوچستان میں لگتے ہیں تو وہ ہمارے اپنے پیسے ہیں کوئی احسان نہیں۔ احسان تو واقعی نہیں کیونکہ پاکستان سب کا ہے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ بلوچوں کو اکساتے ہی انہی چیزوں پر ہیں تو آج ہر بات واضح ہوجائے۔ آئیں آپ کو ایک چھوٹا سا لم سم حساب بتاتے ہیں۔ پاکستان نے سال 2020/21 میں کل 4725 ارب روپے ٹیکس جمع کیا جس میں بلوچستان سے بمشکل 100 ارب روپے جمع ہوا۔ یہ پاکستان کے کل جمع کردہ ٹیکس کا محض 2٪ بنتا ہے۔ لیکن بلوچستان کو کل جمع کردہ ٹیکس میں سے 584 ارب روپے ملے اور کسی صوبے نے اعتراض نہیں کیا کہ کیوں؟ یہ کل بجٹ کا 8٪ بنتا ہے۔ ایک اور حساب بھی سن لیں۔ 584 ارب روپے اگر بلوچستان کی کل آبادی 2 کروڑ پر تقسیم کریں تو فی لاکھ آبادی 2 ارب 92 کروڑ بنتے ہیں۔ لیکن اگر پنجاب کا کل بجٹ 2653 ارب روپے پنجاب کی 13 کروڑ آبادی پر تقسیم کریں تو یہ فی لاکھ 2 ارب 4 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یعنی بلحاظ آبادی بلوچستان کو پنجاب سے دگنا بجٹ ملتا ہے۔ وہ بھی جب وہاں سے ٹیکس کلیکشن یا دیگر کوئی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے حتی کہ بجلی کے بل تک ادا نہیں ہوتے۔ اس مضمون میں پیش کیے گئے حقائق اور اعداوشمار کو کسی بھی طرح چیک کر لیں۔ پھر مجھے بتائیں کہ کیا واقعی پاکستان بلوچستان کے وسائل کھا رہا ہے یا پاکستان بلوچستان کو کھلا رہا ہے؟ اور کیا واقعی بلوچستان محروم ہے؟ جاری ہے ۔۔۔۔ تحریر شاہد خاننوٹ ۔۔۔ یہ سیریز دنیا نیوز پر بھی شائع کی گئی ہے۔#Balochistan #Pnf_Pashtoon_Area_Zone_Balochistan
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment