Tuesday, 2 January 2024

بلوچوں کہاں سے آئےبلوچ قوم کہاں سے آئے اور ان کی تاریخ کیا ہے اس میں بہت اختلاف موجود ہے۔1۔کچھ نے انہیں نمرور سے جوڑا ہے ۔ کہ اس کا لقب بلوص تھا جو بعد میں لسانی فرق کے باعث بلوچ بن گیا ہے۔2۔کچھ کے خیال میں یہ ایرانی نسل سے ہیں3۔کچھ کے خیال میں یہ نسلاً عرب ہیں۔4۔کچھ نے انہیں راجپوت بھی لکھا ہے ۔5۔کچھ نے کہا یہ تاجک نسل سے ہیں ۔6۔ کچھ نے کہا بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کے باقیات ہیں ۔7۔سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں ۔8۔خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں ۔اس نظم میں آیا ہےکہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے “بعل”، “بلوچ، بلوص، بلوس ، بلوش، بعوث، بیلوث، بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ہے اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، عہد قدیم میں لفظ بلو چ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے۔ اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لئے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا۔#سجاداحمدالماسلفظ بلوچ کی وجہ تسمیہ نسبی اور سکنی اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے نسبی اعتبار سے بلوص نمرود کا لقب ہے۔ نمرود بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا اور اسے احتراماً بلوص یعنی سورج کا دیوتا پکار ا جاتا تھا یہ وہی نمرود ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کا الاؤ تیار کرایا تھا۔سردار محمد خان گشکوری کی تحقیق کے مطابق بلوص نمرود کے بعد سلطنت بابل کا دوسرا بڑا شہنشاہ تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صیحح ہے کیونکہ بلوص یعنی سورج کا دیوتا بابل کا پہلا یا دوسرا دونوں بادشاہ ہوسکتے ہیں۔ رالنسن کی تحقیق کے مطابق بھی لفظ بلوچ کا مخرن بلو ص ہی ہے۔سکنی اعتبار سے بھی بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں۔ یہ وادی شام میں حلب کے قریب ایران کی سر حد کے ساتھ واقع ہے خاص بلوچوں کے نسب کے بارے میں بھی بڑا اختلاف ہے پوٹنگر اور خانیکوف کا خیال ہے کہ یہ ترکمان نسل سے ہیں۔برٹن ، لینس، اسپیگل اور ڈیمز کا خیال ہے کہ یہ ایرانی نسل سے ہیں سر ٹی۔ ہولڈ چ کا خیال ہے کہ یہ نسلاً عرب ہیں۔ ڈاکٹربیلونے انہیں راجپوت لکھا ہے پروفیسر کین کے خیال میں وہ تاجک نسل سے ہیں ۔ ما کلر نے ثابت کیا ہےکہ بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کے باقیات ہیں اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ رند بلوچ نہیں ہیں بلکہ نسلاً عرب ہیں اور االحارث العلافی کی اولاد ہیں سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں ۔#سجاداحمدالماسفردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا ذکر کیا ہےکیخسرو۔۔دوم : زرکس۔۔ اور نوشیروانعہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں بدؤوں کی طرح رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہوگئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کیلئے خطرہ بن گئے ۔ اس لئے انہوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں ، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے ۔ دوسری بار انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی ۔دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لئے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے”بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے۔ اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی ۔بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا ۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”۔1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لئے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔#سجاداحمدالماسسردار امیر جلال خان بلوچمحمد سردار خان بلوچ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بلوچ روایت کے مطابق سردار امیر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ سردار امیر جلال خان بلوچ کے چار بیٹے رند، کورائی، لاشار اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا۔ جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتے ہیں۔ #سجاداحمدالماسمیر چاکر خان رند بلوچسردار میر چاکر خان رند بن سردار امیر شہک رند بن سردار امیر اسحاق رند بن سردار امیر کا لو رند بن سردار امیر رند بن سردار امیر جلال خان رند بلوچ ۔ میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوۓرند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے انکی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ اوکاڑہ میں دفن ہوئے۔#سجاداحمدالماسرند و لاشار کا واقعہبلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے۔ پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں۔ کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ یہ مسلمہ ام رہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے ا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔( #سجاداحمدالماس )میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھے انھوں نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے) اس جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندہ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے اور بلوچ منتشر ہو گئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا۔بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لیے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔جنوبی پنجاب میں زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ پورے پاکستان میں آباد ہیں جن میں ساھیوال،اوکاڑہ،جھنگ، بھکر،میانوالی ،سرگودها ،خوشاب ،فیصل آباد، للہ، پنڈ دادنخان ،چکوال ،تلہ گنگ ،اٹک، فتح جنگ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بلوچ قوم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر قوم مانی جاتی ہے۔بلوچ ایک مارشل قوماور بہادر قوم کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے انکے پاس رقبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بلوچستان کا رقبہ اور آبادی دونوں بلوچ قوم کی بہادری کا واضح ثبوت ہے۔ چاہیے ایران کا بلوچستان ہو یا پاکستان کا یا افغانستان کا بلوچستان ۔ بلوچ قوم اس خطے میں سب سے زیادہ رقبے اور سمندر کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ مسقط،عمان،بحرین شام،عراق،کردستاناور سعودی عرب میں بلوچ ہزاروں سالوں سے آباد ہیں. اور بلوچ قوم نے اپنی زمین کی طرف کسی بھی قوت کو آگے نہیں بڑھنے دیا ہر قوت کو شکست دے کر بلوچ زمین کا دفاع کیا جو بے پناہ دولت سے مالا مال ہے جس پر پوری دنیا کی نظریں تھی آج سے نہیں صدیوں سے کبھی پرتگالیوں نے بلوچ بحیرہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کیے اور شکست سے دوچار ہوئے تو کبھی برطانیہ نے بلوچ دولت کو پانے کے لیے بلوچستان پر اپنا قبضہ جما کر دولت کو برطانیہ شفٹ کرنے کا سوچا لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔ اور اس وجہ سے بلوچستان آج بھی قدرتی دولت سے مالامال ہے اور پوری دنیا اس خطے پر نظر رکھ کے بیٹھی ہے۔ اور آج بلوچوں کی بہادری اور جنگجو صلاحیتوں کی وجہ سے تین ملک فیاض یاب ہورہے ہیں۔ بلوچ اپنی سلطنت جو کہ ایران افغانستان تک پھیلی ہوئی ہے کو نہیں محفوظ رکھتے تو بلوچ بحیرہ پر پرتگالی قابض ہوتے اور بلوچستان کی بہت زیادہ دولت ہندوستاں کے کوہ نور ہیرے کی طرح برطانیہ کی ملکیت ہوتی۔اس لئے ان ملکوں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چاہیے بلوچ قوم کے حقوق اور بلوچ قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں بلوچوں کو عزت دیں انگریزوں نے بھی بلوچ قوم کے بارے میں کہا تھا کہ بلوچ قوم صرف عزت کی بھوکی ہے عزت دو گے تو یہ تمہیں بدلے میں امن اور چین کی نیند دیں گے اگر انکو عزت نہیں دو گے تو اس خطے کا امن نہیں ہوگا اور آپ کی راتوں کی نیند حرام ہو گی۔آج بلوچ قوم کو جنگ کی نہیں قلم کی ضرورت ہے بلوچ قوم پاکستان کی شان ہے اتنی بڑی دولت کی مالک ہے اور پاکستان کی معیشت کا دارومدار بلوچستان ہے۔ صرف کشمیر نہیں پاکستان کی شہ رگ بلکہ بلوچ اور بلوچستان بھی ہے۔ کشمیر خوبصورتی ہے پاکستان کی لیکن بلوچستان طاقت ہے ریڑھ ہے پاکستان کی۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ بلوچی زبان میں جتنی بھی کہا نیاں ملتی ہیں وہ سب میر چاکر خان رند کے زمانے یا اس کے بعد کی ہیں ۔ اس سے قبل کے زمانے کی کوئی کہانی موجود بھی ہے یا نہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔#سجاداحمدالماس

No comments:

Post a Comment