Saturday, 14 December 2024
بواسیر مردوں میں زیادہ عام ہیں اور کچھ خطرے والے عوامل انہیں ٹھیک کرنا مشکل بنا سکتے ہیں۔ اس تھریڈ میں بواسیر کے علاج کا صحیح طریقہ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے موجود ہے...1.بواسیرملاشی یامقعد(Anus or Rectum) میں سوجی ہوئی رگیں ہیں جو اکثر درد، خون بہنا اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ویریکوز رگوں کی طرح ہے، لیکن ایسی جگہ پر کوئی بھی اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا ہے ۔🚨مردوں میں بواسیر زیادہ کیوں ہوتی ہے؟ مردوں کو بھاری لفٹنگ میں مشغول ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جس سے پیٹ کا دباؤ بڑھتا ہے۔ طرز زندگی کے عوامل جیسے طویل بیٹھنا، تمباکو نوشی، اور کم فائبر والی خوراک خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔ 2.کچھ چیزیں اس کے علاج کو مشکل بناتی ہے؟ ✍️دائمی قبض: آنتوں کی حرکت کے دوران تناؤ اس جگہ کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ ✍️خون کا خراب بہاؤ: سوجی ہوئی رگوں کو ٹھیک ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ ✍️غلط عادات: ناقص خوراک، زیادہ دیر بیٹھنا اور ورزش کی کمی علامات کو مزید خراب کر دیتی ہے۔3. کیا بواسیر کا کوئی گھریلو علاج ہے؟ جی ہاں! اجزاء: - نیم کے تازہ یا خشک پتے (ایک مٹھی) - ہلدی پاؤڈر (1 چائے کا چمچ) - پانی (2 کپ)4. اس کو تیار کرنے کا طریقہ 1. نیم کے پتوں کو 2 کپ پانی میں 10 منٹ کے لیے ابالیں تاکہ ایک مرتکز ( concentrated)نیم چائے بنائیں۔ 2. مائع کو چھان لیں اور اسے ٹھنڈا ہونے دیں۔ 3. نیم چائے میں 1 چائے کا چمچ ہلدی پاؤڈر ڈالیں اور اچھی طرح مکس کریں۔5. اسے استعمال کرنے کا طریقہ: اسے پئیں: اس مکسچر کا 1 کپ روزانہ لیں تاکہ اندر سے سوزش کم ہو جائے۔ - اسے لگائیں: ایک صاف کپڑے یا روئی کی گیند کو مکسچر میں ڈبو کر متاثرہ جگہ پر لگائیں تاکہ آرام دہ ہو۔ 🚨یہ اپنے علاج کے دوران 1-2 ہفتوں تک روزانہ کریں اور جادو ہوتے دیکھیں۔ 6. بواسیر کے علاج اور روک تھام کے لیے طرز زندگی میں درج ذیل تبدیلیاں لازمی کریں ✍️زیادہ فائبر والی غذائیں جیسے پھل، سبزیاں اور سارا اناج کھائیں۔ ✍️پاخانہ کو نرم رکھنے کے لیے وافر مقدار میں پانی پئیں. ✍️زیادہ دیر تک بیٹھنے سے گریز کریں، خاص طور پر سخت جگہوں پر۔ ✍️آنتوں کی حرکت کے دوران تناؤ بند کریں۔ ✍️بھاری اٹھانے سے گریز کریں یا اگر آپ کو اٹھانا ضروری ہے تو مناسب تکنیک استعمال کریں۔ ✍️ خون کے بہاؤ اور ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدگی سے ورزش کریں۔ ✍️ٹوائلٹ استعمال کرنے کی خواہش کو نظر انداز نہ کریں - فوری طور پر جائیں۔ لیکن یہ سب مردوں کے لیے نہیں ہے👇🧵
Wednesday, 11 December 2024
عورت کے مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات: نصیحت کے لیے براء کرم شیئر کریں..غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.بس یہ بات کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی.اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا تھا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا تھا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا، غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا، پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ غسال عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائےاور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو غسال عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت دفنا دی جائے، مگر بے سود. اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں.اس دور میں امام مالک قاضی تھے. بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورت حال بھانپ کر غسال عورت سے سوال کیا "اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کہی؟"غسال عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کےلیے گواہ موجود ہیں" عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں. امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا؟" جواب آیا "نہیں"امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس غسال عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا.آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے. استغفراللہمہربانی کرکے شئر کریں ۔۔۔۔۔۔ 👌👍🤔🤔🤔🤔اللہ پاک سب مسلم پر اپنی رحمت فرمائے آمینخدا کا واسطہ نصیحت سمجھ کر أگے کم از کم 10 گروپوں میں شیئر کریں۔۔۔اے اللّه ہمارے والدین محترم کے پسینے کا ہر قطرہ جو مجھے پالنے میں گرا دعا ہے کہ وہ جنت 🏞️ میں ان کیلئے ندی بن جائے۔آمین❗ *اگر ہم سوشل میڈیا پر کوئی اسلامی پوسٹ شئیر کرتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم بہت نیک اور کامل ہونے کا دکھاوا کر رہے۔*بلکہ یہ ایک یاد دہانی ہوتی ہے جو ہم خود کو اور خود سے جڑے ایمانی ساتھیوں کو کراتے ہیں کیونکہ قرآن کہتا ہے فذکّر فأن الذّكري تنفع المؤمنين آپ نصیحت کرتے رہیں یقینًا یہ* *نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی (سورة الذاریات:55)🌼اس پیج پے پہلے اسلامی پوسٹ نہیں ہوئی اگر کی ہے تو کسی بھی دوست نے کوئی لائک کمنٹ نہیں کیا ایسا کیوں کوئی پتا نہیں دین کی پوسٹ کو لائک کمنٹ کے ساتھ شیر بھی کر دیا کرو یہی صدقہ جاریہ ہے جزاك اللّٰه خيرًافیشن زدہ حجاب https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331477502963208&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozخواتین کی انڈر گارمنٹس https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331474729630152&id=100083028834066&mibextid=Nif5oozایسا جزیرہ جہاں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331590726285219&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozشادی کی اقسام https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=327259703384988&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozخواجہ سرا کی زندگی https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=327828626661429&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozکہتے ہیں شادی کے بعد عورت کا چہرہ https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=230685819709044&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozعورت سانپ سے زیادہ خطرناک https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=230945399683086&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozدنیا کے مشہور ترین فیشن ڈیزائنر https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=217557114355248&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozعورت برائے فروخت https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=236291232481836&id=100083028834066&mibextid=Nif5oozآج کی تلخ حقیقت https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=229111393199820&id=100083028834066&mibextid=Nif5oozبیوی کی بہن https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331472599630365&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozیورپ میں چار مہینے پہلے https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331474212963537&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozاپریل فول کی دردناک حقیقت https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331473806296911&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozاتوار کا دن کی مصروفیات https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=327497340027891&id=100083028834066&mibextid=Nif5ozکم عمری میں شادی 👫https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=331477876296504&id=100083028834066&mibextid=Nif5oz14 اگست https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=255918483852444&id=100083028834066&mibextid=Nif5oz
Sunday, 1 December 2024
عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے کا کیا حکم ہے، تو یہ کبیرہ گناہ ہے، چاہے حیض کے دنوں میں ہو یا عام دنوں میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کرنے والے پر لعنت کی ہے، اور فرمایا: "ایسا شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے" امام احمد 2/479 نے اسے روایت کیااور یہ حدیث صحيح الجامع 5865 میں بھی ہے۔بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا: (جس نے حائضہ سے جماع کیا یا بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کیا یا کسی کاہن کے پاس آیا تو اس محمد پر نازل شدہ -قرآن- سے کفر کیا) ترمذی نے اسے 1(/243) روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحيح الجامع 5918 میں بھی موجود ہے۔بہت سی فطرتِ سلیمہ کی مالک بیویاں اس بات کا انکار کرتی ہیں، لیکن کچھ شوہر اسے طلاق سے ڈرا دھمکا کر منوا لیتے ہیں، اور کچھ اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہیں، بیوی شرم وحیا کی وجہ سے اہل علم سے پوچھ نہیں پاتی اور وہ اُسے کہہ دیتا ہے کہ یہ حلال ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کو اپنی بیوی کے ساتھ ہر طرح سے جماع کی اجازت ہے، آگے سے پیچھے سے بشرطیکہ اولاد کی جگہ جماع کیا جائے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پچھلی شرمگاہ پاخانے کی جگہ ہے اولاد کی جگہ نہیں ہے۔اس جرم کا کچھ لوگوں میں سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے پاک بندھن میں جاہلی اور غیر فطری طریقوں کو داخل کر دیتے ہیں، یا اسکی وجہ ذہن میں گندی فلموں کے مناظر ہوتے ہیں، حالانکہ انہیں ان سب گناہوں سے توبہ کی ضرورت ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کام سراسر حرام ہے، چاہے میاں بیوی دونوں یہ کام کرنے راضی بھی ہوں، اس لئے کہ ان دونوں کی رضا مندی حرام کام کو حلال نہیں بنا سکتی۔علامہ شمس الدین ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے اس فعل کی حرمت کے بارے میں کچھ حکمتیں اپنی کتاب زاد المعاد میں ذکر کی ہیں، آپ کہتےہیں:"دُبر میں جماع کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں ہوا۔۔۔- اور اگر اللہ تعالی نے فرج –آگے والی شرمگاہ- میں حیض کی حالت میں جماع صرف اس لئے حرام کیا ہے کہ عارضی طور پر اس گندگی ہوتی ہے، تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہمیشہ ہی گندگی کی جگہ ہے؟ بلکہ اس میں نقصان بھی ہے کہ اس فعل سے نئی نسل پیدا نہیں ہوگی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ خواتین کی دُبر سے آگے چلتے ہوئے بچوں کے ساتھ بھی غیر فطری کام شروع کردیں۔- عورت کا بھی اپنے خاوند پر حق ہوتا ہے ، اور دبر میں جماع سے اسکی حق تلفی ہوتی ہے، جس سے عورت کی شہوت پوری نہیں ہوتی، اور اسکا مقصود بھی حاصل نہیں ہوتا۔- دبر کو اللہ تعالی نےجماع کیلئے نہیں بنایا، اور نہ ہی اسے اس کام کیلئے تیار کیا ہے، فرج ہی جماع کیلئے پیدا کی گئی ہے،چنانچہ فرج چھوڑ کر دبر میں جماع کرنے والے اللہ کی حکمت اور شریعت دونوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔- اس کام سے مرد کو نقصان ہوتا ہے، اسی لئے طبیب حضرات بھی اس سے منع کرتے ہیں، کیونکہ فرج میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اسی سے مرد کو سکون ملتا ہے، جبکہ دبر میں مکمل پانی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور نہ ہی مکمل طور پر پانی دبر میں نکل پاتا ہے، کیونکہ یہ ہے ہی فطرت کے خلاف۔- مرد کا ایک اور اعتبار سے بھی نقصان ہوتا ہے، کہ اسے اس کام کیلئے عجیب غریب قسم کی حرکتیں کرنی پڑتی ہیں، کیونکہ یہ کام ہے ہی فطرت کے خلاف۔- یہ جگہ گندگی اور پاخانے کی ہے ، اور انسان اس جگہ کو اپنے سامنے رکھتا ہے اور گندگی اسکے جسم کو بھی لگ جاتی ہے۔- عورت کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ فطرتِ سلیم کے بالکل منافی ہے۔- یہ کام کرنے والے اور کروانے والے کے مزاج میں ایسی تبدیلی آتی ہے جسکی اصلاح ممکن نہیں، اگر توبہ کرلے تو شاید اللہ اسکی اصلاح فرمادے۔- یہ کام لعنت کا موجب ، اور اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے جس سے اللہ کی نعمتیں زائل اور بندہ عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے، اللہ تعالی ایسا کام کرنے والے سے اعراض فرما لے گا ، اور اسکی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ذرا سوچیں! اس کے بعد اسے کس خیر کی امید ہوسکتی ہے، اور کس طرح تکالیف سے بچ سکتا ہے، انسان کی زندگی کیسی ہوگی جبکہ اللہ کی لعنت اس پر برستی ہو، اور اللہ اسکی طرف رحمت کی نگاہ سے نہ دیکھے؟!- اس کام سے حیاء کلی طور پر رخصت ہوجاتا ہے، حالانکہ دل کی زندگی حیاء سے ہی ہے، اگر دل سے حیاء ہی مٹ جائے تو گناہوں کو بھی انسان اچھا سمجھنے لگتا ہے، اور اچھی چیزوں کو بُرا جاننے لگتا ہے۔یہاں آکر برائی اس پر مکمل حاوی ہوجاتی ہے۔- اس کام سے انسان اس فطرت سے نکل جاتا ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا فرمایا، اور اس میں حیوانیت آجاتی ہے، بلکہ حیوانیت سے بڑھ کر اپنی فطرت کو اُلٹ کر بیٹھتا ہے، اور جب فطرت ہی الٹ جائے تو دل، اُس کے کام ، اور چال چلن سب اُلٹا ہوجاتا ہے، اسی لئے بری چیزیں اسے اچھی لگنے لگتی ہیں ۔۔۔- اس سے انسان میں مذموم قسم کی جرأَت پیدا ہوجاتی ہے، جو کسی اور گناہ سے پیدا نہیں ہوتی۔اللہ کی طرف سے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جسکی اتباع اور ہدایت میں کامیابی ہے، اور اس کی مخالفت میں ہلاکت اور تباہی و بربادی ہے"مختصراً ماخوذ از کتاب: روضة المحبين 4/257 – 264مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر 6792 ملاحظہ کریں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے دین کی سمجھ عطا فرمائے، اور اسکی حرام کردہ اشیاء کی حدود پر رک جانے کی توفیق دے، وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے.
Friday, 1 November 2024
کیا بہت زیادہ سیکس سے سپرمز ختم یا مردہ ہوجاتے ہیں؟Can too much sex cause sperm death?اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو بہت زیادہ یا بہت کم سیکس کی کوئی تعریف یا پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ سیکس کی خواہش ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے اور لوگ روزانہ سے لیکر ہفتے یا مہینے میں چند دفعہ تک ہمبستری کر سکتے ہیں۔ البتہ سپرمز کی پیدائش اور پختگی کا ایک سائیکل جو 70 سے 80 دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص لمبے عرصے تک روزانہ یا زیادہ بار ہمبستری کرے تو امکان ہے کہ اس میں سپرمز نا پختہ حالت میں ہی آنا شروع ہو جائیں۔ اس سے کچھ اور فرق تو نہیں پڑتا البتہ شادی شدہ اور اولاد کے خواہش مند افراد کے لیے حمل ٹھہرنے کے امکانات کچھ کم ہو سکتے ہیں ۔باقی یاد رکھیں بہت زیادہ سیکس یا مشتزنی سے سپرمز مردہ بالکل نہیں ہوتے،اور نہ ہی کوئی جسمانی یا جنسی بیماری ہوتی ہے ، لیکن سیمن ٹیسٹ میں sperm count کم ہو سکتا ہے، اس لیے سیمن ٹیسٹ کے لیے ڈاکٹر 3 سے 5 دن سیکس گیپ کا کہتے ہیں۔باقی سپرمز مردہ ہونے کی درجنوں وجوہات اور بیماریاں ہوتی ہیں، جو مردانہ بانجھ پن کا سبب بنتی ہیں ، اگر کسی کو شادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ہو رہا ہو تو پھر مردانہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کےلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ۔مردانہ بانجھ پن کی وجوہات: جیسے کہ کروموسوم کی خرابی کا ہونا, وراثتی بانجھ پن کا مسلئہ ہونا، ہارمونز کا مسلئہ ہونا ، کن پیڑے , سوزاک,ذیابیطس, آتشک , شنگرف ,سینکھیا اور تانبہ کا استعمال کرنا , گردوں میں سوزش کا ہونا, varicocele کا ہونا ، ہائی پوٹینسی ادویات کا غلط استعمال کرنا ، مزید سگریٹ نوشی اور شراب بھی وجہ بن سکتی ہے اور تھرائڈ کا مسلئہ بھی اسکا سب بن سکتا ہے۔سپرمز کی نشو ونما کی بے قاعدگیاں:(Sperm abnormalities)1:اولیگو سپرمیا: (Oligospermia)اس میں سپرمز کاؤنٹ 20 ملین سے بھی کم ہو جاتے ہیں ، جو نارمل 40 ملین سے زیادہ ہوتے ہیں، اولیگو سپرمیا کا علاج آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔2:۔Pyospermia or leucocytospermiaاس کا مطلب سیمن ٹیسٹ میں پس ( pus cell) زیادہ ہوتی ہے، اسکی عموماً وجہ کوئی انفیکشنز ہو سکتا ہے۔نارمل پس سیلز عموماً 2 سے 4 تک ہو سکتے ہیں۔ اس کا بھی میڈیکل علاج کیا جا سکتا ہے۔ ( اگر کسی مریض کے پس سیلز زیادہ ہوں جیسے 20 اور میڈیسن سے فائدا نہ ہو رہا ہو تو پھر semen culture and sensitivity test کیا جا سکتا ہے، کچھ مریضوں میں پس سیلز کا علاج مشکل بھی ہو سکتا ہے)۔3:Asthenospermia یعنی سپرمز کی حرکت کرنے کی صلاحیت (motility) کم ہونا۔ نارمل سپرم موٹیلیٹی تقریباً 60 پرسنٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔اس کا بھی علاج ممکن ہے۔اس میں مریض کو سپرمز کو تقویت پہنچانے والی ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں۔وٹامنز سپلیمنٹ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔۔Teratozoospermia:4 ایک ایسی حالت ہے جس کی خصوصیت غیر معمولی سپرم مورفولوجی سے ہوتی ہے۔ جیسے بہت زیادہ سپرم کا سائز، شکل یا ساخت غلط ہو سکتی ہے۔ سپرم سیل کے سر، مڈ پیس، یا دم میں خرابی شامل ہوسکتی ہے۔ اس کی نارمل تعداد 4 پرسنٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسکا علاج بھی مشکل ہو سکتا ہے۔5:ایزو سپرمیا: (Azospermia)اس میں سپرمز بالکل نہیں بنتے۔ علاج بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر محض چانس لے کر علاج شروع کراتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے Azospermia کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے۔ایسے مریضوں کے لیے زیادہ تر ڈاکٹرز IVF یعنی In vitro fertilization جیسے پروسیجر کے ذریعے حمل ہونے کا کہتے ہیں.آخری ہدایت یہ ہے کہ جنسیات سے متعلق کسی بھی مسلے کی صورت میں خود سے کوئی دوائی استعمال نہ کریں، کیونکہ سیلف میڈیکیشن کرنے کے فائدے کی بجائے بہت سے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔ بلکہ تشخیص اور علاج کےلئے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ لہذا ٹوٹکوں اور سیلف میڈیکیشن سے پرہیز کریں۔کیونکہ میڈیکل علاج ہر مریض کے مسلئے کی نوعیت کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔Regards Dr Akhtar MalikFollow me DrAkhtar Malik
Thursday, 31 October 2024
احتیاطی تدابیر:🚫 1/ اپنے محلے میں رہنے والے ہمسائے کو اپنی ذاتی معلومات نہ دیں اور اس سے تعلقات میں احتیاط رکھیں۔🚫 2/ ڈاکٹر کے پاس تنہا نہ جائیں، کسی کو ساتھ لے جائیں؛ کیونکہ زمانہ خراب ہے اور شیطان چالاک ہے۔🚫 3/ بچوں کے اساتذہ سے حد میں رہ کر تعلق رکھیں۔ بچوں کے والد کو ہی ان سے بات چیت کرنے دیں۔🚫 4/ لباس خریدتے وقت دکان دار سے مختصر بات کریں۔ وہ لباس کے بارے میں تبصرہ نہ کرے اور آپ اپنی پسند کے مطابق خریداری کریں۔🚫 5/ کسی بھی دوست کے شوہر کے ساتھ قریب تعلق نہ رکھیں؛ یہ فتنے کا دروازہ کھول سکتا ہے۔🚫 6/ وہ سرکاری یا غیر سرکاری ملازم جس نے آپ کا کوئی کام کیا ہو، بار بار رابطہ نہ کرے۔ شکریہ ادا کریں اور بات ختم کریں۔🚫 7/ کسی دکاندار یا سبزی والے سے ہنسی مذاق نہ کریں۔ خریداری کریں اور چلی جائیں۔🚫 8/ جِم میں مرد کوچ سے دور رہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص جِم میں جائیں تاکہ احتیاط رہے۔🚫 9/ بیٹے کے کوچ سے رابطہ والد یا بھائی کے ذریعے رکھیں؛ آپ براہ راست تعلق نہ بنائیں۔🚫 10/ اگر کوئی دوست آپ کو غلط باتوں میں ملوث کرنے کی کوشش کرے تو دوری اختیار کریں؛ ایسی دوستی سے نجات بہتر ہے۔🚫 11/ ایسا شوہر یا بیوی منتخب کریں جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، اپنی عزت کا محافظ ہو اور حدودِ شریعت میں رہ کر زندگی گزارے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: "جب تمہارے پاس ایسا شخص رشتہ لے کر آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کا نکاح کرو"۔اور آپ نے فرمایا: "عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسن، حسب و نسب اور دین۔ تو دین دار کو ترجیح دو۔"
یہودیوں کے بارے میں مکمل تفصیل فراہم کرنے کے لئے ہم ان کی تاریخ کے اہم ادوار اور مقامات کا احاطہ کریں گے جہاں انہوں نے قیام کیا۔1. ابتدائی اصلآغاز: یہودیوں کا اصل مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے، خاص طور پر میسوپوٹامیہ (موجودہ عراق) سے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم یہودی، عیسائی اور اسلامی مذاہب کے روحانی پیشوا تھے۔کنعان کی طرف ہجرت: تورات کے مطابق، یہودی کنعان (موجودہ فلسطین) کی طرف منتقل ہوئے اور وہاں قیام پذیر ہوئے۔2. فلسطین میں بستی اور بادشاہت کا قیامیہودی بادشاہت: انہوں نے فلسطین میں مملکت اسرائیل اور یہوداہ کی بنیاد رکھی، جو تقریباً دسویں صدی قبل مسیح میں قائم ہوئیں۔ بعد میں یہ سلطنت تقسیم ہوگئی، اور اسرائیل کی مملکت آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور یہوداہ بابل کے ہاتھوں (586 قبل مسیح) تباہ ہوگئی۔پہلی جلاوطنی: پہلے ہیکل کی تباہی کے بعد یہودیوں کو بابل (موجودہ عراق) میں جلاوطن کر دیا گیا۔1. اسرائیلآبادی: اسرائیل میں یہودیوں کی آبادی تقریباً 7 ملین کے قریب ہے، جو یہودیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔ یہاں یہودی اکثریت میں ہیں اور ملک کو یہودی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔رہائشی صورتحال: اسرائیل میں رہائش پذیر یہودی اسرائیلی معاشرے میں ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے متنوع ہیں، جن میں اشکنازی، سفاردی اور مزراحی یہودی شامل ہیں۔2. ریاستہائے متحدہ امریکہآبادی: امریکہ میں تقریباً 5.7 ملین یہودی رہتے ہیں، جو اسرائیل کے بعد سب سے بڑی یہودی کمیونٹی ہے۔رہائشی صورتحال: امریکی یہودی آزاد ماحول میں مختلف گروپوں میں منقسم ہیں، جیسے آرتھوڈوکس، کنزرویٹو، اور رفارم یہودی۔ امریکہ میں یہودی کمیونٹی مستحکم ہے اور وہاں نئے گروہ بنتے رہتے ہیں۔3. فرانسآبادی: فرانس میں تقریباً 4.5 لاکھ یہودی آباد ہیں، جو یورپ میں سب سے بڑی یہودی برادری ہے۔رہائشی صورتحال: فرانس میں یہودی کمیونٹی کو بعض اوقات اینٹی سیمٹزم کا سامنا رہتا ہے، جس کے باعث کچھ یہودی اسرائیل یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔4. کینیڈاآبادی: کینیڈا میں تقریباً 3 لاکھ یہودی ہیں، جو زیادہ تر ٹورنٹو اور مونٹریال میں آباد ہیں۔رہائشی صورتحال: کینیڈا میں یہودی ایک محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں اور وہاں ان کی آبادی میں استحکام ہے۔5. برطانیہآبادی: برطانیہ میں تقریباً 2.9 لاکھ یہودی آباد ہیں، جو زیادہ تر لندن میں رہتے ہیں۔رہائشی صورتحال: برطانیہ میں یہودی کمیونٹی نے مستحکم معاشرتی حیثیت حاصل کر لی ہے، مگر کچھ افراد نے اینٹی سیمٹزم کی وجہ سے ہجرت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔6. ارجنٹیناآبادی: ارجنٹینا میں تقریباً 2 لاکھ یہودی ہیں، جو لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی یہودی برادری ہے۔رہائشی صورتحال: ارجنٹینا میں یہودی معاشرتی اور اقتصادی طور پر خوشحال ہیں، مگر سیاسی عدم استحکام کے باعث بعض نے اسرائیل یا دیگر ممالک کا رخ کیا۔7. جرمنیآبادی: جرمنی میں تقریباً 1 لاکھ 20 ہزار یہودی ہیں۔رہائشی صورتحال: جرمنی کی یہودی کمیونٹی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دوبارہ قدم جمانا شروع کیا اور حالیہ برسوں میں روسی یہودی پناہ گزینوں کی آمد سے کمیونٹی میں اضافہ ہوا ہے۔8. برازیلآبادی: برازیل میں تقریباً 90 ہزار یہودی ہیں، جو زیادہ تر ریو ڈی جنیرو اور ساؤ پالو میں رہتے ہیں۔رہائشی صورتحال: برازیل میں یہودی مجموعی طور پر محفوظ ہیں، مگر کچھ اقتصادی وجوہات کی بنا پر اسرائیل یا امریکہ کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔9. جنوبی افریقہآبادی: جنوبی افریقہ میں تقریباً 70 ہزار یہودی ہیں۔رہائشی صورتحال: یہاں کی یہودی کمیونٹی ماضی میں بڑی تھی مگر بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم استحکام کے باعث کافی افراد نے ہجرت کی۔10. دیگر ممالکروس: 1 لاکھ یہودی، اکثر ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں رہائش پذیر ہیں۔ روس میں ہجرت کا رجحان زیادہ ہے۔آسٹریلیا: تقریباً 1 لاکھ یہودی، جن میں سے زیادہ تر سڈنی اور میلبرن میں رہتے ہیں۔دیگر: دنیا بھر میں اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ بھی چھوٹی یہودی کمیونٹیز ہیں، مگر وہ بنیادی طور پر انہی دو ممالک میں مرکوز ہیں۔ہجرت اور مستقبل کی سمتیںحالیہ برسوں میں یہودیوں کا رجحان اسرائیل اور امریکہ کی طرف بڑھا ہے۔ اسرائیل میں اکثر یہودی واپس آکر بستی ہیں (جسے علیاہ کہا جاتا ہے)، جبکہ امریکہ میں تعلیم، روزگار اور سماجی استحکام کے باعث یہودی رہائش اختیار کرتے ہیں۔ بہت سی کمیونٹیز اپنے ممالک میں استحکام کو ترجیح دیتی ہیں، جبکہ کچھ خاص حالات یا اینٹی سیمٹزم کے پیش نظر ہجرت کا فیصلہ کرتی ہیں۔اب میں ایک تصویر بناتا ہوں جس میں یہودی مختلف ممالک میں اپنی بستیوں کے مقامات اور ہجرت کے راستے دکھائے جائیں ۔
Tuesday, 15 October 2024
بنی نوع انسان میں بچوں کی پیدائش کا عمل اور مختلف خصوصیات رکھنے والے بچوں کی اقسام 👈 پیدائش ایک میل کے اندر جتنے X سپرمز /کرو موسومز ہوتے ہیں اتنے ہی Y سپرمز بھی ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک صحت مند میل میں چالیس ملین سے لیکر سو ملین تک سپرمز پیدا ہوتے ہیں۔ اور جب یہ سپرمز فی میل کی اندام نہانی ( vagina ) میں داخل ہوتے ہیں تو ان سپرمز کے درمیان دوڑ شروع ہو جاتی ہے کہ پہلے انڈے تک کون پہنچے گا۔ کچھ بچارے کمزور سپرمز تو رستے میں ہی مر جاتے ہیں اور جو صحت مند سپرمز ہوتے ہیں ان کے درمیان دوڑ لگی رہتی ہے۔ اور جو سپرم پہلے انڈے تک پہنچتا ہے وہ جیت جاتا ہے اور انڈا فرٹیلائزر ہو جاتا ہے۔اور حمل کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔👈ایکس،وائی X,Y کروموسومز انسان میں 23 کروموسومز کے جوڑے پائے جاتے ہیں اور ہر جوڑا دو کرومیٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 46 کرومیٹین پائے جاتے ہیں۔ کرومیٹین کی شکل کو دیکھا جائے تو یہ انگریزی زبان کے حروف X اور Y سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لئے ان کو XاورYکرومیٹین کہا جاتا ہے۔مرد کے جسم میں XY کروموسومز پائے جاتے ہیں۔ جبکہ عورت کے جسم میں صرف XXکروموسوم پائے جاتے ہیں۔👈 جنس کا تعین اگر میل کی طرف سے سپرم کا ایکس فی میل کے ایکس سپرم سے ملاپ کرتا ہے۔تو لڑکی پیدا ہوتی ہے۔مطلبXXایسی طرح اگر مرد کا وائی سپرم عورت کے ایکس سپرم سے ملتا ہے۔تو لڑکا پیدا ہوگا۔یعنی XY.👈 ہیجڑے / کھدڑے یا Transgender بعض اوقات مردوں میں ایک زائد کرومیٹین Xپیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس انسانی جسم میں 46کی بجائے 47 کرومیٹین پائے جاتے ہیں اور نتیجتاً 23واں بننے والا جوڑا XXYکی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے ایک ابنارمیلٹی پیدا ہوتی ہے جس کو سائنسی زبان میں 47، XXYاور انگریزی میں Transgender کہتے ہیں۔👈ڈاؤن سنڈروم یا منگول بچے زائیگوٹ میں 46 کروموسوم ہونا نارمل ہے۔ مگر ڈاؤن سنڈروم میں کروموسوم نمبر 21 جب اپنے مخالف سمت سے آنے والے دوست نمبر 21 سے ملتا ہے۔ تو جنیٹک میوٹیشن (تنوع) کی وجہ سے یہ دو کی بجائے 3 کروموسوم بن جاتے ہیں۔ اسے ٹرائی سومی یا T21 بھی کہتے ہیں۔ اب زندگی کے ابتدائی واحد سیل یا خلیے میں 46 کی بجائے 47 کروموسوم ہو گئے۔ یہ سیل سٹیم سیل یا بنیادی خلیہ ہوتا ہے۔ جو آگے تقسیم در تقسیم ہو کر دیگر سیل بناتا ہے۔ ہر بننے والے سیل میں یہ کروموسوم 47 ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ کچھ مختلف جسمانی شکل و ساخت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔جسکو ڈاؤن سنڈروم کہتے ہیں۔👈جڑواں بچے عالمی سطح پر جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح تقریباً 12 فی ہزار پیدائش ہے لیکن سائنسی مطالعات اور ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق افریقہ میں یہ شرح 50 فی ہزار پیدائش کے قریب ہے۔جڑواں بچوں کی اس کثرت کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ بہت سے مقامی لوگ اسے غذا سے منسوب کرتے ہیں، خاص طور پر بھنڈی کے پتوں یا شکرقندی اور آملہ (کیساوا کے آٹے) سے تیار کردہ الیسا سوپ کو وجہ قرار دیتے ہیں۔لیکن بچوں کی پیدائش کے ماہرین اور دیگر رہائشی اس نظریہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ خوراک اور جڑواں بچوں کی زیادہ شرح کے درمیان کوئی ثابت شدہ تعلق کیوں کرہوسکتا ہے۔کچھ سائنس دان جینیاتی عوامل کا مطالعہ کر رہے ہیں، ایک سے زائد سپرم کی موجودگی اور سپرم سے ملاپ ہونا۔ عام طور پر عورت کی ایک ماہواری کے بعد ایک ہی انڈا پیدا ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی ایک ساتھ ایک سے زائد انڈے خارج ہوجاتے ہیں، اور پھر جب یہ ایک سے زائد انڈے علیحدہ علیحدہ سپرم سے ملاپ کرتے ہیں تو ایک سے زائد بچے وجود میں اتے ہیں۔ ایسے بچوں کو faternal twins کہا جاتا ہے۔یہ بچے اگر چہ جوڑواں ہونگے مگر ہمشکل نہیں۔👈ہمشکل بچے ایک بیضہ سپرم سے ملاپ کرتا ہے، جس سے زائیگوٹ بنتا ہے اور پھر اس زائیگوٹ میں تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ تقسیم کےدوران زائیگوٹ دو یا دو سے زیادہ حصوں میں ٹوٹ جاتا ہے اور ہر حصے سے ایک بچے کا وجود بنتا ہے، ایسے جڑواں بچوں کو monozygotic twins کہا جاتا ہے, اور یہ ہم شکل ہوتے ہیں۔۔۔۔ نوٹ۔ اس تحریر کے کچھ حصے ماخوذ شدہ ہیں ۔ تحریر و ترتیب ذی شان اسلم
Monday, 14 October 2024
پاکستان کا زمینی رقبہ Land Area کتنا ہے ؟ کیا کوئی ایک بھی حکومتی محکمہ میرے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ ▫️پاکستان کا ایک لاکھ گیارہ ہزار کلو میٹر زمینی رقبہ (land area) کہاں گیا ؟▫️کیا یہ رقبہ ہم نے کسی جنگ میں گنوا دیا ؟ یا یہ رقبہ سمندر بُرد ہو گیا یا ہمارے دریا یہ زمین کھا گئے ؟ حقائق کیا ہیں ؟ ▫️حکومت اعداد و شمار جاری کرے کہ 1947 میں پاکستان کا لینڈ ایریا کیا تھا اور آج 2023 میں کیا ہے؟ اور ہمارے مُلک کی انٹرنیشنل باؤنڈریز کی لمبائی اور پوزیشن کیا ہے نیز ہماری کوسٹ لائن کی لمبائی کتنی ہے ؟ ▫️سروے آف پاکستان کا محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی سے منسٹری آف ڈیفنس کے حوالے کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ (سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ)[اس مضمون کے مصنّف سید شایان ، رئیل اسٹیٹ اینالسٹ اور پریکٹیشنر ہونے کے ساتھ اپنے نام سے منسوب اسلام آباد میں حال ہی میں قائم ہونے والے پاکستان کے پہلے پراپرٹی ریسرچ کے ادارے -SIRER- Syed Shayan Institute for Real Estate Research کے سربراہ اور .Real Estate Syndicate Inc کے فاؤنڈر اور سی ای او ہیں۔ یہ مضمون انہوں نے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی سے متعلق معلومات اور خبروں کے پورٹل ‘جائیداد آن لائن’ www.JaidadOnline.co کے لئیے تحریر کیا ہے ]وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33واں بڑا ملک ہے اور جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔لیکن مئی 2023 میں عالمی بینک (WORLD BANK) ، نے جو دنیا کے تمام ممالک کے developments Indicators کا مجموعہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ ذرائع سے مرتب کیا ہے ۔ اس میں پاکستان کا کل رقبہ 770,880 مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے ( یاد رہے کہ ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کو دنیا بھر کے ممالک کے ڈیٹا کے بارے میں سب سے authentic document تسلیم کیا جاتا ہے) اس حساب سے ہمارا 111,033 یعنی ایک لاکھ گیارہ ہزار اعشاریہ تینتس کلو میٹر رقبہ حکومت کے اپنے ہی پہلے اعداد و شمار سے کم ظاہر ہو رہا ہے؟ اور میرے لئیے یہ بہت تشویش کی بات تھی کہ کیا واقعی ہمارے ملک کا یہ رقبہ کم ہو گیا ہے یا حکومتی سطح پر کہیں اعداد و شمار کی غلطی ہوئی ہے؟ ہر دو صورتوں میں پاکستان کا اصل لینڈ ایریا ہے کتنا ؟ میں نے کئی روز گُوگل کے علاوہ دوسرے پروفیشنل search engines پر بھی جا کر اپنے سوال کا جواب تلاش کیا لیکن وہاں بھی مجھے کوئی خاص کامیابی نہ ملی چنانچہ میں نے سروے آف پاکستان کے ہیڈ آفس واقع فیض آباد راولپنڈی کے جیوگرافکل انفارمیشن سنٹر کے سربراہ محمد قاسم سے رابطہ کیا اور مُلک پاکستان کے کُل زمینی رقبہ کے بارے میں اُن سے اصل حقائق دریافت کیے کیونکہ میری دانست میں یہی وہ محکمہ ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں کا وقتا فوقتا سروے کر کے نقشے تیار کرتا اور چھاپتا ہے اور پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہے میرا یہ خیال تھا کہ اس محکمے سے زیادہ authentic معلومات اور درست جواب مجھے کہیں اور سے نہیں مل سکتا لیکن یہاں مجھے کہا گیا کہ آپ کو پاکستان کے کُل زمینی رقبے کا نہیں بتایا جا سکتا البتہ ہم آپ کو چاروں صوبوں اور اسلام آباد کا زمینی رقبہ بتا دیتے ہیں اور انہوں نے مجھے اسلام آباد اور باقی چاروں صوبوں کا زمینی رقبہ الگ الگ لکھوا دیا جو یہ ہےبلوچستان= 347,138 سکوائر کلو میٹرپنجاب= 205,030 سکوائر کلو میٹرسندھ= 140,928 سکوائر کلو میٹرکے پی کے= 101,758 سکوائر کلو میٹراسلام آباد= 901 سکوائر کلو میٹرجب میں نے ان تمام figures کو جمع کیا تو جواب آیا 795,755 سکوائر کلو میٹر ۔ یعنی سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا آفیشل زمینی رقبہ 7لاکھ 95 ہزار 7 سو 55 اسکوائر میٹر ہے۔ چونکہ حکومتی سطح پر ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان کے نقشے اور لینڈ ایریا میں شامل کر سکے تو میں نے خُود اپنے پڑھنے والوں کی معلومات اور دلچسپی کے لئیے گلگت و بلتستان کے زمینی رقبے 69107 اسکوائر میٹر اور کشمیر کے زمینی رقبے 11717 اسکوئر کلو میٹر کو سروے آف پاکستان کی طرف سے دیئے گئے آفیشل اعداو شمار 795,755 میں جمع کر لیا تو جواب آیا 876,579 اسکوئر کلو میٹر ، یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستان کا نان آفیشل لینڈ ایریا پاکستان کے آفیشل لینڈ ایریا سے 80824 سکوائر کلو میٹر زیادہ ہے میں حیران ہوں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا لینڈ ایریا 881,913 مربع کلو میٹر کیوں دکھایا جا رہا ہے اور ہماری انفارمیشن منسٹری اس پر خاموش کیوں ہے جبکہ یہ رقبہ آفیشلی 795,755 مربع اسکوائر میٹر ہے اور کشمیر گلگت بلتستان کو ڈال لینے سے نان آفیشلی 876,579 مربع اسکوائر میٹر ہے۔(لیکن ہماری واٹر باڈیز کا ایریا مائنس کرنے سے ہمارا لینڈ ایریا کافی کم ہو جاتا ہے) یہ سوال میں نے لاہور میں واقع سروے آف پاکستان کے پنجاب آفس میں تعینات ٹیکنیکل شعبہ کے انچارج سجاد سیال سے پوچھا تو انہوں نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوۓ مجھے وہ بنیادی اصول سمجھایا کہ جس کو بنیاد بنا کر کسی بھی مُلک کا لینڈ ایریا calculate کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر میں آئندہ اپنے کسی آرٹیکل میں کرونگا لیکن یہاں مجھے یہ احساس ہُوا کہ شاید اس محکمے میں کسی کو بھی یہ پتہ نہیں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا رقبہ کیا شو ہو رہا ہے اور کس نے یہ اعداد حکومت کی طرف سے وکی پیڈیا کے ڈیٹا میں درج کرواۓ ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا سروے آف پاکستان جیسے بڑے ادارے میں کوئی پبلک ریلیشنز آفیسر نہیں ہے جو انٹرنیٹ پر محکمے کے ڈیجیٹل ڈیٹا کی درستگی کا خیال رکھے تو مجھے معلوم ہُوا کہ ایسی کوئی اسامی یہاں نہیں ہےیاد رہے کہ سروے آف پاکستان عرصہ دراز سے منسٹری آف ڈیفنس کے زیر انتظام کام کر رہا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ محکمہ منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تابع تھا اور اس سے بھی پہلے منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگریکلچرل یہ محکمہ چلا رہی تھی منسٹری آف ڈیفنس نے یہ محکمہ کیوں اپنے انتظام میں لیا ؟ میرے اس سوال کا کوئی افسر logical جواب نہ دے سکا البتہ مجھے یہ معلوم ہُوا کہ چونکہ سروے آف پاکستان کا اصل کام نقشے تیار کرنا اور انہیں publish کرنا ہے اور چونکہ پاک فوج ان نقشوں کی سب سے بڑی خریدار ہے اس لئیے منسٹری آف ڈیفنس کی خواہش پر ضیأالحق کے دور میں یہ محکمہ فوج کے حوالے کر دیا گیا میری راۓ یہ ہے کہ پاک فوج ہمارے ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اگر وہ ایسے اہم محکمے کو خود چلانا شروع کر دے گی اور زمین اور سرحدی باؤنڈریز کی پیمائش اور ان کا ریکارڈ بھی خود رکھنا شروع کرے گی تو اس پر چیکنگ اور بیلنس کا نظام کون رکھے گا اسلئیے میری تجویز ہے کہ سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ بات ہو رہی تھی پاکستان کے actual land area کی جس میں محکمے نے واٹر باڈیز کے ایریا کو بھی لینڈ ایریا میں ڈال رکھا ہے اپنے پڑھنے والوں کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان میں کل 24 دریا بہتے ہیں جن میں سے 8 دریا خیبرپختونخواہ ، 7 بلوچستان، 5 پنجاب اور 4 سندھ میں بہتے ہیں۔ پاکستان کا بڑا دریائی نظام ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے سے نکلتا ہے ایسے ہی ہمارے ملک میں تقریباً 60 کے قریب جھیلیں ہیں مثال کے طور پر منچر جھیل جو پاکستان کی سب سے بڑی جھیل ہے اور 260 کلو میٹر کے علاقے پر پھیلی ہے اس کو اور اس طرح کی تمام جھیلوں اور واٹر باڈیز کو ہم ہرگز ہرگز لینڈ ایریا میں شامل نہیں کر سکتے واٹر باڈیز کی calculation دُنیا بھر میں الگ سے کی جاتی ہے اور ان کا مُلک کے لینڈ ایریا سے تعلق نہیں ہوتا لیکن سروے آف پاکستان کے ایک اعلی افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ہم نے اپنے لینڈ ایریا میں واٹر باڈیز کا ایریا بھی شامل کیا ہوا ہے اور چونک ہمارے ہیڈ آفس نے واٹر باڈیز کو لینڈ ایریا میں ڈالا ہُوا ہے تو اس پر ہم بحیثیت ملازم محکمہ اپنی کوئی راۓ نہیں دے سکتے یہ انکشاف میرے لئیے بہت حیران کن اور تکلیف دہ تھاایک اور حکومتی ادارے پاکستان کوسٹل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بحیرہ عرب کے ساتھ 1001 کلو میٹر میل لمبی ساحلی پٹی (coastline)ہے جو بحر ہند ، بحیرہ عرب اور عظیم دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہے تو جب تک ان تمام واٹر باڈیز کے تمام رقبوں کو سروے آف ہاکستان کے دئیے گئے لینڈ ایریا سے مائنس نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک پاکستان کا ایکچوئل لینڈ ایریا ہمارے سامنے نہیں آ سکتا میں آج دو ہفتوں کی تمام محنت اور کوشش کے باوجود بھی پاکستان کے لینڈ ایریا کی درست figure حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں اور کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ پاکستان کی اِن لینڈ واٹر باڈیز کی کُل تعداد کیا ہے اور کتنا زمینی رقبہ ان کے زیر ِاثر ہے یہی سوال اگر انڈیا کے حوالے سے پوچھا جاتا تو آپ کو ترنت جواب ملتا کہ پورے انڈیا میں واٹر باڈیز کی کل تعداد 24,24,540 ہے یعنی 24 لاکھ 24 ہزار 540۔ تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب تک ہمیں اپنی واٹر باڈیز کی کُل تعداد کا پتہ نہیں چل جاتا ہم پاکستان کے زمینی رقبے کے بارے میں کوئی حتمی راۓ نہیں دے سکتے چنانچہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے درست اعداد و شَمار حاصل ہو جائیں اور جونہی مجھے اس میں کامیابی ملتی ہے میں اسی وقت دوبارہ آپ کی خدمت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا اسوقت تو میں اس کوشش میں ہوں کہ میں پاکستان کے لینڈ ایریا کے موجودہ ایشو کو قومی اسمبلی کی کسی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کر سکوں ۔نوٹ:- سروے آف پاکستان کا شائع کردہ ایک نقشہ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئیے میں پہلی مرتبہ شائع کر رہا ہوں جسے محکمے نے administrative pakistan کا نام دیا ہے اور جسے سروے آف پاکستان کے لاہور آفس سے میں نے نقد خرید کر اس مضمون کا حصہ بنایا ہے اس نقشے میں سروے آف پاکستان نے کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو پاکستان کے نقشے میں شامل نہیں کیا لیکن حیران کُن طور پر ہماری انٹرنیشنل باؤنڈری جمّوں تک جاتی دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ اس نقشے میں جو آبادی (population) پاکستان کے مختلف شہروں کی بتائی گئی ہے وہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہے جبکہ ہمارے ملک میں ساتویں مردم شماری 2023 میں ہو چکی ہے اس سے محکمے کی کارگزاری کا ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے
Thursday, 10 October 2024
اُردو نام طبی نامباؤ گولہ اختناق الرحمباؤگولہڈاکٹری نامہسٹریا Hysteriaتعریف مرض یہ ایک عصبی مرض ہے جو نظام عصبی کے افعال کے فتور سےواقع ہوتا ہے۔ اس سے جسمانی و روحانی افعال میں کم و بیش فرق آجاتا ہے ۔ درحقیقت یہ ایک مرض عقلی ہے .نوٹ : 1 لفظ ہسیٹر یا ایک یونانی لغت ہے جس کے معنی ہیں رحم ۔ چونکہ قدیم اطیائےیونان کا یہ خیال تھا کہ یہ مرض رحم کی خرابی رحیم کاٹل جانا یا حیض کا بند ہو جانا وغیرہ اسے ہوتاہے۔ اس لئے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے(۲) لفظ اختناق کے لغوی منی ہی گلا گھونٹا یا گھٹتا چونکہ اس مرض میں بھی مریضہ کا دم گھٹتا ہے اور یہ مرض رحم کی مشارکت سے بھی ہوتا ہے اس لئے اس مرض کو اس نام سے موسومکیا گیا۔ جاہل لوگ اس مرض کو آسیب خیال کرتے ہیں "(۳۱) اس مرض کی نوبت کے وقت یعنی شروع دورہ مرض میں چونکہ مریضہ کو ایسا معلوم ہوتاہے ۔ کہ اس کے پیٹ میں سے ایک گولہ سا اٹھ کر اوپر کو جا کر گلے میں اٹک گیا۔ جسسب سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ اس لئے اُردو میں اسمرض کو باؤ گولہ کہتے ہیں ۔اسباب مرض۔ یہ مرض عموماً عورتوں کو ہوا کرتا ہے اگرچہ شاذونا در مرد بھی اسمیں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اور زیادہ تر ۱۲ سے چالیس سال تک کی عمر کی عورتیں اور خصوصاً وہ عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ کہ جنکے والدین کو صرع مرگی با مراق وغیرہ کی ہیماریہو یا والدہ کو بالخصوص ہی مرض باؤ گولہ ہو یعنی یہ مرض موردثی ہے۔ خصوصاً والدہ کی طرفسے کبھی شرابی۔ آتشکی اور خنازیری والدین کی اولاد بھی اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔عورتوں میں فتور حیض مثلاً حیض کا تکلیف سے آنا یا بند ہو جانا عیش و عشرتکی زندگی بسر کرنا اور ریاضت یا کام کاج نہ کرنا خواہشات نفسانی - شہوانی کاغالب ہونا دائمی قبض - نفخ شکم رنج و غم فکروترد عشقیہ فسانوں یا ناولوں کا پڑھنا - تزد در غصہ و خوف اور مایوسی مثلاً امتحان کا خوف یا اس کی ناکامی یا نقصان مال و جان کا صدمہ یا محبت و عشق کی ناکامی و بدنامی وغیرہ اور مردوں میں بالخصوص حلقمشت زنی اور کثرت محنت داخلی و بیخوابی وغیرہ اس مرض کے اسباب ہوتے ہیں ؟نوٹ: زیادہ ترامیر و نازک مزاج اور شہری عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوا کرتی ہیں ۔علامات کی خفت اور شدت کے لحاظ سے یہ مرض دو قسم کا ہوتا ہے :-1 خفیف باؤ گولہ جسے ڈاکٹری میں ہسٹریا مائیز کہتے ہیں اور شدید باؤگولہ جسے ڈاکٹری یں بسٹریا میجر کہتے ہیں چنانچہ ان دونوں کی علامات کا علیحدہ علیحدہبیان کیا جاتا ہے :( خفیف باؤ گولہ کی علامات - مریضہ کو بائیں کو لھے میں کچھ تکلیف ہوہوتی ہے جس کے تھوڑی دیر بعد ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ پیٹ میں سے ایک گولا سا اٹھےکر اوپر کو جاتا ہوا گلے میں اک گیا ہے جس کو دُور کرنے کی غرض سے وہ بار بار نگلنےکی کوشش کرتی ہے ۔ اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ پھر ان تکالیف میں افاقہ ہو جاتا ہےلیکن مریضہ کو تکان سرمیں درد اور گردن میں سختی محسوس ہوتی ہے۔ نفخ شکم ہوتا۔ڈکار آتے ہیں ۔ ہول دل کی شکایت ہوتی ہے۔ یعنی دل دھڑکتا ہےپیشاب پتلا اور بکثرت خارج ہوتا ہے ۔ وہ غمناک اور آزردہ رہتیہے ؟(۲) شدید باؤ گولہ کی علامات - مرید یکایک چیخ مارکر رونے لگتی با قہقہہ مارکر ہنسنے لگتی ہے۔ اور اس کو ایک گواہ سا پیٹ میں سے اُٹھ کر کھلے تک جاتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ اور جو نہی کہ وہ گولا گلے تک پہنچتا معلوم ہوتا ہے۔ وہ بظا ہر بیہوشہو کہ آہستہ سے زمین پر گر پڑتی ہے چھاتی کوٹتی ہے۔ سر کو پیچھے کی طرف جھکا دیتیہے۔ اور گلے کو آگے کی طرف اونچا کرتی ہے ۔ تاکہ گلے میں جو گولا سال کا ہوا محسوسہوتا ہے ۔ وہ نکل جائے ۔ ہاتھ پاؤں میں تشنج ہوتا ہے جسم میں بل کھاتی ہے بھیکبھی ہاتھ پاؤں مارتیہے ناک کے نتھنےپھول جاتے ہیں۔ رخسارے اندر کو بھیج جاتے ہیں لیکن چہرہ یہ وضع نہیں ہوتا۔ البتہچیخنے پکارنے سے تھوڑی دیر کے لئے بیڈ دل ہو بھی جاتا ہے بعض اوقات مرداپنے سر کے بال نوچنتی ہے ۔ بدن کے کپڑے پھاڑتی ہے ۔ اور دیوارٹکراتی ہے اور آس پاس کے آدمیوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے تینہاور غیر منظم ہو جاتا ہے۔ دل دھڑکتا ہے۔ پیٹ میں نفع ہوتا ہے اور بار بار گلے کی طرفانگلی لیجاتی ہے۔ گویا گلے میں کسی شئے کے اٹکنے کا اشارہ کرتی ہے۔ مریضہ کا چہر؟سُرخ ہوتا ہے ۔ اور اس کے گلے کی وریدیں خون سے پُر ہوتی ہیں۔ ہاتھ پاؤں سرد ہوںہیں لیکن تھوڑی دبیری معمولی طور پر گرم ہو جاتے ہیں۔ جب مرض کا زور کم ہو جاتا ہے۔تو مریضہ ہانپنے اور کانپنے لگتی ہے۔ چھونے سے چونکتی اور کبھی چُپ چاپ پڑی رہتی ہے۔پھر یکا یک علامات مذکورہ کا زور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح مریضیہ کئی مرتبہ زور کرتی اور چُپ ہو جاتی ہے۔ آخر کو کھل کھل کر ہنہس دیتی یارو دیتی ہے۔ اور کبھی قے ہونے کےبعد سو جاتی ہے۔ اور مرض کا دورہ رفع ہو جاتا ہے۔ اور پیشاب بکثرت آتا ہےاگر دورہ مرض میں مثل صرع مرگی کے تشنج ہو تو مریضہ بیہوش ہو جاتی ہے بعضہذیان ہو جاتا ہے۔ جس سبب سے مریضہ بہکتی اور بکواس کرتی اور کبھی کتے کی طرحبھونکنے یا کو کنے لگتی ہے :مدت دوره مرض ۔ مرض کا دورہ چند منٹ سے لیکردو چار گھنٹے تک اوربھی تین چار روز تک رہتا ہے۔ ایسی صورت میں مرض کا ایک دور ختم نہیں ہونےپاتا۔ کہ دوسرا دورہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی ایک دورہ ختم ہونے نہیں پاتا کہ دوسرادورہ آجاتا ہے ۔ دورہ اس مرض کا اکثر ما ہواری ایام میں یعنی حیض کے دنوں میںہوا کرتا ہے ۔ اور نیند کی حالت میں نہیں ہوتا ؟مدت وقفہ - مدت وقفہ مختلف مریضوں میں مختلف ہوتی ہے۔ اور حالتوقفہ میں اکثر مرضی مختلف امراض نقلی کی تقلیدی علامات کا اظہار کرتی ہیں یعنی در حقیقتوہ بیمار نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ وہمی طور پراپنے آپ کو مختلف امراض میں مبتلاخیال کرتی ہیں۔ ایسے مریضوں کی عقل میں فتور آ جاتا ہے ۔ وہ ضدی ہو جاتیہیں اور اپنے مرض کی کیفیت کو مبالغے سے بیان کرتی ہیں۔ اور اسکو بہت شدیدسمجھا کرتی ہیں مثلاً کوئی اپنے آپ کو مفلوج بیان کرتی ہے۔ کسی میں استرخائے عامہ (جنرلپیر یلے سں ، کی نا کامل علامات پائی جاتی ہیں۔ لیکن حس قائم ہوتی ہے ۔ اور عضلاتتحلیل نہیں ہوتے کسی کو فالج نصف جسم طولانی کی شکایت ہوتی ہے لیکن اس کاچہرہ اور زبان مفلوج نہیں ہوتی ۔ مرضیہ پاؤں گھسیٹ کر چلنے لگتی ہے ۔ مرضباؤ گولہ سے نوجوان عورتوں میں ایسی شکایت یکا یک ہو جاتی ہے ۔ لیکن اُسے جلدآرام بھی ہو جاتا ہے ۔ استرخائے جسم مفضل اگر سے نیچے دھڑ کا فالج میں دونوں پاؤںاکثر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ مریضہ سے چلا نہیں جاتا لیکن مثانہ اور رودہ مستقیم کافالج نہیں ہوتا۔ اس لئے بول و براز بے خبر خطا نہیں ہو جاتے۔ اگر مریضہ کو کھڑا کر دیںتو بلا سہارے کھڑی رہ سکتی ہے ۔ اور کبھی آنکھ بچا کر چلنے بھی لگتی ہے (کیونکہ درحقیقت وہ وہی طور پر بیمار ہوتی ہے ، حواس خمسہ کی حس بڑھ جاتی ہے۔ مثلاًآنکھوں میں روشنی کی ۔ کان میں آواز کی ۔ ناک میں بو کی اور جسم پر باریک کپڑے کیبرداشرت نہیں ہوتی جسم کے مختلف مقامات پر درد کی شکایت ہوتی ہے۔ مثالاًسر میں کیل ٹھوکنے یا برے سے سوراخ کرنے کی مانند درد محسوس ہوتا ہے نیز بستانکے نیچے ریڑھ ستون - کولھے اور گھٹنے میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ چنانچہ مریضیہکبھی ریڑھ میں اس قدر درد بتاتی ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے بوسیدہ ہونے کا شکہوتا ہے۔ سرین کو چھوتے ہی اس میں شدت کا درد محسوس ہوتا ہے لیکن عضلاتتحلیل شدہ نہیں ہوتے کبھی ٹانگ میں درد کی شکایت ہو جاتی ہے جس سبب سےچلنے پھرنے سے معذور ہو جاتی ہے ۔ لیکن اگر اس کو ڈرایا جائے کہ گھر مں آگلگ گئی ہے۔ تو وہ ڈر کر چلنے یا کبھی دوڑنے لگتی ہے۔ بعض کو درد شکم کی شکایتہوتی ہے۔ پیٹ کو ہر جگہ دبانے سے کم و بیش درد محسوس ہوتا ہے بعض کو جسمکے دیگر حصض اور گردن میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ کسی کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔اور اس سے بولا نہیں جاتا۔ لیکن ایک دو گھنٹے بعد اس کی آواز کھل جاتیہے ۔ بعض کا جی متلاتا ہے ۔ ڈکار یا ہچکی آتی ہے ۔ پیٹ پھول جاتا ہے.دل دھڑکتا ہے۔ غشی ہو جاتی ہے۔ کسی کا پیشاب بند ہو جاتا ہے۔ کسی کے سینےمیں درد ہوتا ہے وغیرہ ۔ غرضیکہ طرح طرح کی شکایات ہوتی ہیں.تشخیص مرض ۔ اس مرض کو صرع یعنی مرگی سے تشخیص کرنا ضروری ہے۔
Tuesday, 8 October 2024
شادی آپ کی شخصیت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے—اور وہ بھی صرف 2 سال میں.کیا آپ جانتے ہیں کہ شادی کے بعد آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آتی ہیں؟ اور یہ سب کچھ دو سال سے بھی کم وقت میں ہو سکتا ہے! جی ہاں، ایک دلچسپ تحقیق نے اس راز کو فاش کیا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کس طرح وقت کے ساتھ اپنی شخصیت میں تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں۔شادی کے بعد آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟ایک تحقیق میں 169 نئے شادی شدہ جوڑوں پر 18 ماہ تک نظر رکھی گئی، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ شادی کے بعد ان کی شخصیت کیسے تبدیل ہوتی ہے۔ اس تحقیق نے پانچ اہم شخصی خصوصیات میں تبدیلیوں کا انکشاف کیا:نئے تجربات قبول کرنے کی صلاحیتزیادہ منظم اور محتاط ہونے کی خصوصیتسماجی میل جول کی طرف جھکاؤدوسروں کی بات ماننے اور موافقت کرنے کی صلاحیتجذباتی استحکام اور ذہنی دباؤ کی حالتشادی کے بعد کیا تبدیل ہوتا ہے؟تحقیق سے پتہ چلا کہ شادی کے بعد خواتین زیادہ جذباتی استحکام حاصل کرتی ہیں۔ وہ کم فکر مند، افسردہ اور غصے میں نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف، مردوں میں ذمہ داری کا احساس بڑھ جاتا ہے، یعنی وہ زیادہ بھروسے کے قابل اور ذمہ دار بن جاتے ہیں۔لیکن! یہ تصویر صرف خوشگوار پہلوؤں تک محدود نہیں ہے۔ دونوں شراکت دار وقت کے ساتھ کم "اوپن" ہو جاتے ہیں، یعنی وہ نئی چیزوں کو آزمانے کے بجائے شادی کی روٹین میں ڈھل جاتے ہیں۔سماجی دائرہ کیوں محدود ہوتا ہے؟تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ شادی کے بعد جوڑے عموماً کم سماجی ہوتے ہیں اور اپنے دوستوں کی فہرست کو محدود کر لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروعات میں خواتین زیادہ "اتفاق پسند" ہوتی ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، دونوں شراکت دار ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ اختلاف کرنے لگتے ہیں۔کیا عادات واپس آتی ہیں؟یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ محققین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی رومانس کا ابتدائی دور ختم ہوتا ہے، پرانی عادات واپس آ جاتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں پر عمر، شادی سے پہلے کا رشتہ یا بچوں کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تبدیلیاں کسی حد تک "یونیورسل" ہیں اور ان سے بچنا شاید ممکن نہیں!کامیاب شادی کے دو اہم رازماہرین نفسیات کے مطابق کامیاب شادی کے لیے دو انتہائی اہم مہارتیں درکار ہیں: خود پر قابو اور معافی۔تو، کیا آپ ان تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں؟ شادی نہ صرف محبت کا سفر ہے بلکہ شخصیت کی ایک نئی تشکیل بھی ہے۔ترجمہ و تلخیص: حمزہ زاہد۔ماخذ: ہاشم الغیلی، فیس بک پیج.مزید پڑھیں: https://rb.gy/f5f4wrنوٹ: اس طرح کی مزید معلوماتی پوسٹس کیلئے مجھے فالو کریں۔ براہِ مہربانی اگر اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں تو اصل لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔
Sunday, 6 October 2024
وٹامن ای۔ Vitamin E ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻻﺋﻒ ﻣﯿﮟﺍﯾﮉ ﻻﺯﻣﯽ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩُﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . :) ﺟﯿﺴﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﯿﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟﺍﺏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ :( ﻣﺮﺩﻭﮞﮐﻮ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﺷﻮﮔﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﺎﭘﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﺒﯿﺚ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞﻧﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﯿﻨﻮﭘﺎﺯ جسے سن یاس بھی کہتے ہیں، ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ، ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﺰ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ، PCOS ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ۔ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺟﻮ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﻨﺎﺅ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺩﻭﮌ ﺑﮭﺎﮒ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ۔ﺁﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﭨﭗ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﺟﮭﺮﯾﺎﮞ، ﺍﯾﮑﻨﯽ ﭘﻤﭙﻠﺰ، ﺩﺍﻍ ﺩﮬﺒﮯ، ﻓﺮﯾﮑﻠﺰ، ﺳﺎﻧﻮﻻ ﭘﻦ، ﮔﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﯿﺎﭘﺎ، ﺍﻧﺮﺟﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ، ﮨﺮﻭﻗﺖ ﺗﮭﮑﻦ ﺭﮨﻨﺎ، ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﭼﮍﭼﮍﺍﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻣﺮﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﯽ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺣﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭨﻮﭨﮑﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ EVION 400 MG ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﻧﯿﻠﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ ﻣﯿﮟﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﻣﭙﻮﺭﭨﮉ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮔﺮﯾﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻟﯿﮟ . خوراک استعمال ﮐﺮﻧﺎ ﺻﺮﻑ 400 ملی گرام ﻭﺍﻻ ﮨﯽ ﮨﮯ، 600 ﺍﻭﺭ 200 ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟﮐﺮﻧﺎ . ﻧﮑﺘﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻨﮕﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ . ﻭﯾﺴﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟﮨﺮ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﭩﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﭨﺎﻣﻦ ﺍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ .ﻭﭨﺎﻣﻦ E ﮐﮯ ﺟﺎﺩﻭﺋﯽ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﻭﺍﻻ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮨﺮ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﭩﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﺎﺁﺳﺎﻧﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ہفتہ دو ہفتہ بھر استعمال کریں'پھر دو دن وقفہ کریںﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﮯ ﮐﻨﻔﺮﻡ ﮐﺮﯾﮟ، ﻻﻧﮓ ﭨﺮﻡ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺍﯾﻔﯿﮑﭧ سے اجتناب کریں۔چﺣﺎﻣﻠﮧ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﻼ ﺧﻮﻑ ﻭ ﺧﻄﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ۔ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﺘﻨﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺣﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺍﺛﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺳﮑﻦ ﭘﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﺎﮈﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺮﺟﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺍﻍ ﺩﮬﺒﮯ ﺩﺍﻧﮯ ﺍﯾﮑﻨﯽ ﭘﻤﭙﻠﺰ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺳﮑﻦ ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻟﮧ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮈﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺪﯼ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮧ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﮭﺮﯾﺎﮞ ﭘﮍﯾﮟ۔ ﺳﮑﻦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭨﺎﺋﭧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﯾﮧ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﮯ۔ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮐﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﻭﺗﮫ ﮨﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺮﺩ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺳﺎﭨﮫ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺟﻮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﭩﻮ ﮨﯿﮟ۔ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻓﯽ ﻣﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻞ ﻣﺎﮈﻟﺰ ﺍﯾﮑﭩﺮﺯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻔﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﻧﻮﺧﺸﮑﯽ، ﻧﻮ ﮨﺌﯿﺮ ﻓﺎﻝ ﻧﻮ ﺑﺎﻟﭽﺮ ﻧﻮ ﮔﻨﺞ ﭘﻦ۔ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺗﯿﺮﺑﮩﺪﻑ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ۔ﺗﯿﺴﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﭩﻮﻧﺲ ﮨﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺑﻨﺪﮦ ﮈﭘﺮﯾﺲ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻟﻮ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺰ ﻻﺋﻒ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮏ، ﺳﮑﻦ ﭨﺎﺋﭧ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻠﻘﮯ ﻏﺎﺋﺐ، ﺑﺎﻝ ﮔﮭﻨﮯ ﺳﯿﺎﮦ، ﭼﮩﺮﮦ ﻓﺮﯾﺶ، ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ؟؟؟۔ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﻭﮞﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎتا ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺮﯾﮉﺯ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ . ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﺑﺎﺅ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﺴﭧ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ. ﺟﻦ ﮐﻮ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ، ﺍﯾﻨﯿﻤﯿﺎ ﻭﺍﻻ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﺍُﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ. ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﺰ ﮐﻮ ﺑﯿﻠﻨﺲ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، . ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ .مردانہ طاقت کیلئے بڑھاپے میں بھی کارآمد وٹامن ای۔۔۔یہ وٹامن ای ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان جنسی عمل ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف انسانی بڑھوتری کا سبب ہے بلکہ اس سے زیادہ انسان کی جذباتی تسکین کا ذریعہ بھی ہے ۔ اس فعل کو بڑھانے اور زیادہ دیر تک لطف اندوز ہونے کے لئے۔اس کی کمی سے جنسی ہارمون اور غدود نخامیہ کا ہارمون دونوں کم ہوجاتے ہیں۔ یہ وٹامن بانجھ پن کو دور کرنے اوراسقاط حمل کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﮯ . ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﻮﭨﺎﭘﺎ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 15 ﻣﻨﭧ ﻭﺍﮎ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺭﺯﻟﭧ ﻣﻠﯿﮟ گے۔وٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہونے والی علامات🎗️ وٹامن ای کی کمی کی علاماتعصبی پٹھوں کی کمزوریوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہمیں پٹھوں کی کمزوری ہوتی ہے ہمارے اعصابی نظام کے لئے وٹامن ای بہت ضروری ہے یہ اہم آکسیڈنٹ میں شامل ہے۔اس کی کمی کی وجہ سے پٹھوں میں تناؤ پیدا ہوتا ہے جو پٹھوں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔چلنے میں دشواریوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے پیدل چلنے میں دشواری ہوتی ہے اور جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے جس وجہ سے انسان پیدل چلنے سے تھک جاتا ہےاور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔نظامِ انہظام کے مسائلوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہمارا نظامِ انہظام ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتا۔وٹامن ای کی کمی ہمارے مدافعتی خلیوں کو روکتی ہے اس لئے بڑی عمر کے لوگوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔برائے مہربانی پوسٹ کو شیئر کریں اور ایسی مزید معلومات کے لیے مجھے فالو ضرور کریں شکریہ#foryouシ #everyone #followers #TopFans #highlights #facebookpost #Pakistan #viralposts #public #fb #world
(Message for Adults) مردوں کے عام جنسی سوال ؟۔۔۔👈#سوال 1: کیا مشتزنی کرنے سے واقعی نامردی، مردانہ بانجھ پن اور عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے؟👈#سوال 2: کیا عضو تناسل کے سائز میں اضافہ کرنے والا کوئی طلاء کریم مالش یا کوئی میڈیسن دستیاب ہوتی ہے؟👈#سوال 3:عضو تناسل کی معمول کی لمبائی کتنی ہوتی ہے، اور اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو تناسل کا نارمل سائز کتنا ہونا چاہیے؟👈#سوال 4: نارمل ٹائمنگ کتنی ہے اور کیا ٹائمنگ کی کمی اور پتلی سیمن مردانہ بانجھ پن کی وجہ بن سکتی ہے؟👈#سوال 5: میڈیکل سائنس میں کس کس مردانہ جنسی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے؟ 👈#جواب 1: درحقیقت مشتزنی سے نامردی ، بانجھ پن ،اور کوئی جسمانی بیماری یا نفس کا اصل میں پتلا ہونا چھوٹا ہونا یا ٹیڑھا ہونا ، یہ سب بلکل نہیں ہوتا۔ باقی کچھ لوگوں میں مشتزنی کی وجہ سے پیدا ہونے والی guilt سے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے سٹریس، ڈیپریشن ہو سکتا ہے ، اور ڈیپریشن ،سٹریس کی وجہ سے مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہوتی ہے اور اس سے عضو تناسل میں اچھی طرح تنائو یا اریکشن نہیں ہو پاتی اور اچھی طرح سے اریکشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو عضو تناسل کا سائز چھوٹا نظر آتا ہے، اور میڈیکل سائنس میں ڈیپریشن ،لو لیبیڈو اور مردانہ جنسی ہارمون کی کمی کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔باقی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عضو ٹیڑھا نہیں ہونا چاہیے ایک دلچسپ اور مزے کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد مردوں کے عضو لیفٹ سائیڈ کی طرف مڑے ہوتے ہیں چاہے انھوں نے مشت ذنی کی ہو یا نہیں اصل میں سب نارمل ہے کیونکہ عضو کسی ہڈی یا سخت چیز کا نہیں بنتا اگر عضو کی رگیں ابھری ہوئی ہوں تو عضو میں خون بھرے گا اور تناو ذیادہ ہوگا یہی حقیقی لذت ہے۔ لہذا مشتزنی کو ٹیڑھا پن اور ابھری ہوئی رگوں کا زمیندار نہ ٹھہراؤ۔👈#جواب 2: فلحال ابھی تک مارکیٹ میں کوئی ایسی میڈیسن ، سانڈھے اور سانپ غیرہ کا طلہ اور پھکی ایسی نہیں آئی جو عضو تناسل کو واقعی میں بڑا کر سکے ، جیسے 5 انچ کو 6 یا 7 انچ کر سکے، لہذا عضو تناسل کو بڑا کرنے کی بے وقوفی کرنا چھوڑ دو، اور اپنے پیسے بھی اس کام میں ضائع نہ کرو، میں نے فیس بک پہ بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو عضو تناسل کو موٹا لمبا کرنے کے چکر میں ہزاروں خرچ کر چکے ہیں اور انکو فائدا آدھے انچ کا بھی نہیں ہوا، پاکستان قوم ویسے تو بہت غریب ہے لیکن اس کام کے لے بغیر سوچے ہزاروں لگا دیتے ہیں۔👈#جواب 3:یوں تو ہر انسان کا انفرادی نوعیت سے عضو تناسل کی موٹائی اور لمبائ میں فرق ہوتا ہے عام طور پر عضو تناسل کی لمبائی میں اضافہ اس کے تناو کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو کا سائز 3 انچ کا بھی کافی ہے اور عضو تناسل کا اریکشن یا سختی میں ایوریج سائز تقریباً 5 انچ ہوتا ہے۔ اور مطمئن سیکس کیلیے کے لیے 3 سے 4 تک کا سائز بلکل کافی ہے، اور سائز قدرتی طور پر بڑھتا ہے اور کسی دوا سے نہیں بڑھایا جاتا۔باقی نارمل حالت جیسے آرام اور سکون کی حالت میں لمبائی اور موٹائی کے سائز میں فرق آجاتا ہے اسی طرح سڑیسئ، ڈیپریشن ، دماغی تناو یا پھر ٹھنڈی ہوا سے بھی عضو تناسل کا سائز عارضی طور پر سکڑ جاتا ہے۔ جیسے 2 سے 3 انچ تک ہو جاتا ہے، باقی موٹاپا سے عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے, پھر وزن کم کرنے سے عضو تناسل کا نارمل سائز دوبارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔(لہذا اپنے عضو تناسل کے سائز کو چھوتے بچوں والا سائز نہ کہیں، نارمل حالت میں سب کا ایسا ہوتا ہے)👈#جواب 4:نارمل ٹائمنگ 3 سے 5 منٹ ہے۔ شادی کے آغاز میں یہ 1 منٹ سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ باقی ٹائمنگ کی کمی کو نامردی نہیں کہا جا سکتا چاہے ٹائمنگ کچھ سیکنڈ ہی کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی پتلی سیمن اور ٹائمنگ کی کمی سے مردانہ بانجھ پن ہوتا ہے، البتہ یہ دونوں صورتیں کسی اور وجہ سے کچھ لوگوں میں ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں زیادہ تر سرعت انزال یا ٹائمنگ کی کمی کی وجہ معمولی ہوتی ہے ، جیسے عضو تناسل کا زیادہ احساس ہونا (Hypersensitivity) ,سٹرس ، ڈیپریشن، گیس اور سوچ وغیرہ ہی ہے، باقی مردانہ بانجھ پن کسی وجہ سے سپرمز کی کم مقدار اور سپرمز کی کم موٹیلیٹی سے ہوتی ہے ، مردانہ بانجھ پن کی درجنوں وجوہات ہ ہوتی ہیں،اگر کسی کو شادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ہو رہا ہو تو پھر مردانہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کےلئے کسی ڈاکٹر (یورولوجسٹ) سے رجوع کریں۔👈#جواب 5: میڈیکل سائنس میں عضو تناسل کے ٹیڑھے پن کو سیدھا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عضو تناسل کو کسی میڈیسن کے زریعے سے لمبا موٹا کیا جا سکتا ہے ، جیسے سختی کے حالت والے 4 انچ کے عضو تناسل کو کسی میڈیسن سے 5 یا 6 انچ بلکل نہیں کیا جا سکتا، باقی میڈیکل میں درست تشخیص کے بعد سرعت انزال یعنی ٹائمنگ کی کمی اور زکاوت حس کا علاج کا کچھ حد تک علاج کیا جا سکتا ہے، اور جنسی خواہش کی کمی یا لو لیبیڈو کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے ، اور جس کو مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہو اس کا بھی علاج کیا جا سکتا اور مزید جس کو ED یعنی عضو تناسل کے تنائو اور اریکشن کا مسلئہ ہو اور بانجھ پن کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے.( باقی لاکھوں روپیے کی سرجری سے سائز کچھ زیادہ ہو سکتا ہے)آخری ہدایت یہ ہے کہ جنسیات سے متعلق کسی بھی مسلے کی صورت میں خود سے کوئی دوائی استعمال نہ کریں، کیونکہ سیلف میڈیکیشن کرنے کے فائدے کی بجائے بہت سے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔ شکریہ Regards Dr Akhtar MalikFollow me Malik DrAkhtar WhatsApp for consultation 03041574655
Saturday, 5 October 2024
تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ میں ایک نئی قسم کا انسان نما جاندار (ہومونن) نمودار ہوا تھاکسی کو یہ صحیح سے نہیں معلوم کہ اُس نئی قسم کا انسان کہاں سے آیا یا اس کے والدین کون تھےلیکن ہم اس قسم کو جسمانی طور پر معاصر انسان یا ہومو سیپئنس کہتے ہیںان انسان نما جانداروں کے گول سر اور نوکیلی ٹھوڑی اُن کی شناخت ہوتی تھیوہ اس وقت کے ملتے جلتے جانداروں سے کم وزن تھے اور ان کے دانت چھوٹے تھےجسمانی طور پر وہ کافی دلکش نہیں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار تھےانہوں نے پہلے تو بنیادی نوعیت کے اوزار بنائے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے گئےوہ اگلے ادوار تک اپنی بات پہنچانا جانتے تھےوہ مختلف موسموں میں رہ سکتے تھے اور شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات مختلف اقسام کی خوراک کے ساتھ گزارا کر سکتے تھےجہاں جانوروں کی بہتات ہوتی تھی وہ ان کا شکار کرتے تھے جہاں شیل مچھلی موجود ہوتی تھی اور وہ اسے کھاتے تھےیہ بار بار برف جم جانے والا دور یعنی پلیسٹوسین کا زمانہ تھاجب دنیا کا بڑا حصہ بڑی برف کی سخت چادروں سے ڈھکا ہوا تھاتقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے انسان کی وہ نئی قسم شمال کی طرف بڑھنے لگی تھی۔اُن انسانوں نے ایک لاکھ سال پہلے مشرق وسطیٰتقریباً 60 ہزار سال پہلے آسٹریلیا40 ہزار سال پہلے یورپ اور 20 ہزار سال پہلے امریکا (شمالی اور جنوبی امریکا) تک پہنچنے کی کوشش کیراستے میں کہیں شاید درمیان کے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کی اس نئی قسم ہومو سیپئنس کا اپنی جیسی مگر مضبوط مخلوق سے سامنا ہواجو نیانڈرتھل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیںپھر انسانوں (ہومونن) اور نیا نڈرتھل کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوئےاور ان کی اولاد اپنی نسلیں پیدا کرنے تک باقی رہیںتاہم آج کل دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے پاس نیانڈرتھل کے بارے میں بہت کم معلومات ہیںپھر کچھ ایسا ہوا کہ نیانڈرتھل نامی انسان کی قسم دنیا سے غائب ہو گئیشاید ہومو سیپئنس انسانوں نے ان کو اپنی مستعدی سے ختم کیا یا شاید ان سے مقابلہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیاحال ہی میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کے ایک گروپ کا یہ بھی خیال ہے کہ ہومو سیپئنس انسان اپنے ساتھ گرم خطوں کی بیماریاں لے کر وہاں گئےجہاں سردی میں رہنے کی عادی اُن سے ملتی جلتی مخلوق بیماریوں کو برداشت نہیں کر پائیوجہ خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ نیانڈرتھل نامی قدیمی انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی وجہ ہومو سیپئنس یعنی انسان ہی تھےجیسا کہ ایک سوئیڈش تحقیق کار سوانٹے پابو نے نیانڈرتھل جینوم کے آثار کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی سربراہی کی تھی کے مطابق ان کی بدقسمتی ہم (یعنی انسان) تھےنیانڈرتھلز کا تجربہ کوئی خاص توجہ کے قابل ثابت نہیں ہواجب انسانوں کی آسٹریلیا آمد ہوئی تو وہ خطہ انتہائی بڑے جانوروں کی آماجگاہ تھاان میں مارسوپیل لائنز شامل تھے جو اپنے وزن سے بالاتر اپنے دانتوں سے کسی بھی ممالیہ جانور سے زیادہ طاقتور گرفت رکھتے تھےاس کے علاوہ میگالینیا یعنی دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں اور ڈپروٹوڈونز جو گینڈے نما ریچھ کہلاتے ہیں وہ بھی وہاں پائے جاتے تھےاگلے کئی ہزار سالوں کے دوران تمام بڑے جانور وہاں سے غائب ہو گئےجب انسانوں نے شمالی امریکا میں قدم رکھا تو وہاں پر ان کے پاس اپنے خود سے بڑے جانوروں کا گروپ تھاجس میں مستوڈونز، میموتھز اور بیورز شامل تھےجو 8 فٹ لمبے اور 200 پاؤنڈ وزن رکھتے تھےوہ بھی ختم ہو گئےجنوبی امریکا میں بھی بڑے ممالیہ جانور، قوی الجثہ آرمڈیلو جیسے جانور اور ٹوکسوڈون کے نام سے معروف ایک قسم کے گینڈے کے سائز کے سبزی خور جانوروں کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہوا اور وہ ختم ہو گئےارضیاتی اعتبار سے اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ اقسام کے ختم ہونے کا منظر بہت ہی ڈرامائی تھاکہ چارلز ڈارون کے دور میں یہ کہا گیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت بڑے عجیب و غریب اور خوفناک شکلوں والے جانور حال ہی میں غائب ہو گئے ہیںیہ تبصرہ ڈارون کے مخالف الفریڈ رسل والیس نے 1876 میں کیا تھاسائنسدان اس وقت سے بڑے جانوروں کے خاتمے پر بحث کرتے آ رہے ہیںاب یہ جانا جاتا ہے کہ خاتمہ مختلف براعظموں میں مختلف وقتوں میں ہوااور جانوروں کا خاتمہ انسانوں کی آمد کے ساتھ ہی ہوا ہےدوسرے الفاظ میں ان کی بدقسمتی ہم یعنی انسان تھےانسان اور بڑے جانوروں کی مڈبھیڑ پر تحقیق کرنے والوں نے پتا کیا کہ اگر شکاریوں کے گروپ ایک سال کے دوران صرف ایک بہت بڑے جانور کا شکار کرتے ہوں گےتو آہستہ آہستہ نسل بڑھانے والے اُن جانوروں کا کئی صدیوں تک تھوڑا تھوڑا شکار کرناانہیں خاتمے کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہو گاآسٹریلیا کی مکوئیری یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر جان الروائے نے اس دور میں بڑے جانوروں کے خاتمے کو ارضیاتی طور پر ایک ماحولیاتی تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا خاتمہ اتنا آہستہ آہستہ ہوا کہ ایسا کرنے والوں کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھاجب یورپ میں 15ویں صدی کے آخر میں لوگ دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی کالونیاں بنانے لگے تو جانوروں کے خاتمے کی رفتار بڑھ گئیموریشس کے جزیرے کے مقامی پرندے ڈوڈو کو 1598ء میں ڈچ فوجی ملاحوں نے پہلی بار دیکھااور پھر 1670ء کے دوران یہ غائب ہو گیااس کی تباہی کی وجہ شاید انہیں خوراک کے لیے ذبح کرنا اور شاید دیگر پرندوں کو وہاں متعارف کروانا بھی تھاجہاں بھی یورپی لوگ گئے وہ اپنے ساتھ چوہے لےکر گئے جو ان کے ساتھ بحری جہازوں میں ہوا کرتے تھےیورپی لوگ جہاں کہیں بھی قدم رکھتے تھے تو دیگر جانوروں کا شکار کرنے والے جانوروں کو بھی ان علاقوں میں متعارف کرواتے تھےجیسے بلیاں اور لومڑیاں جو چوہے تو کیا دیگر کئی جانداروں کا بھی شکار کرتے ہیں1788ء میں جب اولین یورپی کالونیاں بنانے والوں نے آسٹریلیا میں آنا شروع کیا تو اُن کے ساتھ لائے ہوئے جانوروں نے وہاں کے درجن بھر مقامی جانوروں کی اقسام کو ختم کر دیاجن میں بڑے کانوں والے ہاپنگ ماؤس شامل ہیں اور مشرق کا خرگوش نما جانور بھی شامل تھا جنہیں بلیوں نے کھا کر ختم کر دیا تھاجب انگریزوں نے نیوزی لینڈ میں نوآبادی قائم کرنا شروع کی تو تقریباً سال 1800ء کے آس پاس 20 اقسام کے پرندوں کا خاتمہ کر دیا گیاجن میں چتھم آئلینڈز پینگوئن، ڈیفنباک کی ریل اور لائل کی رین شامل ہیںکرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں حال ہی میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق نیوزی لینڈ میں معدوم ہونے والے پرندوں کی اقسام کو وہاں انسانوں سے بسنے سے پہلے والی تعداد پر لانے کے لیے پانچ کروڑ سال درکار ہوں گےیہ تمام نقصانات سادہ ہتھیاروں اور طریقوں سے کیے گئے تھےڈنڈوں، قدیم بندوقوں، چلتی کشتیوں کے علاوہ کچھ کمزور متعارف کردہ جانداروں کے ذریعے مقامی پرندوں کو ختم کیا گیا اور پھر مارنے کا میکانکی طریقہ استعمال کیا گیانویں صدی کے آخر میں شکاریوں نے چھروں والی بندوقوں کا استعمال کیا جو ایک فائر میں کئی چھروں سے بہت سے پرندے مار سکتی تھیںجس سے کبوتر کی قسم کا شمالی امریکا کا ایک پرندہ جس کی تعداد پہلے اربوں میں تھی وہ معدوم ہو گیاٹرین میں بیٹھے بیٹھے پرندوں کا شکار کرنے والے شکاریوں نے ایک ایسے امریکی پرندے کی قسم کو ختم کر دیا جو اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے تھے کہ اُن کا آسمان پر جھنڈ ستاروں سے بھرا ہوتا تھااب دنیا میں جانداروں کی جو اقسام موجود ہیں یہ وہ ہیں جنہوں نے برفانی ادوار میں بھی اپنا وجود قائم رکھا تھا یعنی وہ سخت سردی برداشت کرنا جانتے ہیںلیکن کیا اب وہ گرمی بھی برداشت کر پائیں گے یہ واضح نہیں ہےدنیا جتنی گرم اب ہے دسیوں لاکھوں سال میں وہ اتنی گرم کبھی نہیں رہیپلیسٹوسین (برفانی) دور کے دوران بھنورے جیسے چھوٹے جانور صدیوں میں ہجرت کرتے تھے تاکہ موافق موسم میں رہ سکیںآج کل ان کی بے شمار اقسام دوبارہ ہجرت کے لیے تیار ہیں لیکن برفانی ادوار کی طرح ان کا راستہ عموماً شہروں، شاہراہوں اور کھیتوں سے گزرتا ہےجسے عبور کرنا اُن کے لیے آسان نہیں ہےماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں اُن کے ردعمل کی روشنی میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کی موسمیاتی تبدیلی میں اُن کا ردعمل کیسا ہو گاکیونکہ اب ہم نے جانداروں کی نقل مکانی کی راہ میں بے شمار مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیںاس کہانی کا انجام قطعی نامعلوم ہےگزشتہ نصف ارب سالوں کے دوران دنیا کا پانچ بار خاتمہ ہو چکا ہےجس میں دنیا کے ایک تہائی جانداروں کی اقسام کا خاتمہ ہو چکا ہےسائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب ہم چھٹے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیںلیکن اس کی وجہ پہلی دفعہ ایک حیاتیاتی ایجنٹ یعنی ہم انسان ہیںکیا ہم اس تباہی کو روکنے کے لیے بروقت کچھ کر پائیں گے؟دی کلائمیٹ بُکمصنف: گریٹا تھیونبرگ
Sunday, 22 September 2024
افغانیوں کو پاکستان سے نفرت کیوں؟پی ٹی ایم افغانیوں کی پاکستان سے نفرت کا جواز یہ پیش کرتی ہیں کہ "پاکستان نے بھی کچھ کیا ہوگا نا، تو اصل قصور پاکستان کا ہے۔"میرے اس پر کچھ سوالات ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جب ساری دنیا نے پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا تب افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ تب پاکستان نے کیا کیا تھا؟قیام پاکستان کے ایک سال بعد فقیر ایپی کو افغانستان نے پاکستان کے خلاف لانچ کیا۔ اسکی خود ساختہ آزاد ریاست کو فوراً تسلیم کر لیا۔ اس کو ہر قسم کی فنڈنگ، وسائل اور افرادی قوت بھی دی۔ تب پاکستان نے افغانستان کا کیا بگاڑا تھا؟اسی سال افغانستان نے پرنس کریم کے دہشتگردی کے کیمپ بنائے اور بلوچوں کو پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ کی تربیت دی جانے لگی۔ ابھی پاکستان کو بنے دو سال ہوئے تھے۔ پاکستان نے اس وقت کیا گناہ کیا تھا؟سن 50 میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔ کس جرم میں آخر کیوں؟ اسی سال افغانستان نے پاکستان پر باقاعدہ حملہ بھی کیا جس کو ناکام بنا دیا گیا۔ سال 1951 میں ایک افغان قوم پرست سرخے "سعد اکبر ببرج" نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کردیا۔ کیونکہ لیاقت علی خان نے وزیرستان کا دورہ کر کے فقیر ایپی کی پاکستان کے خلاف جاری شورش کو نقصان پہنچایا تھا۔ سال 1953 میں افغانستان کے کےسفیر غلام یحیی خان طرزی نے ماسکو روس کا دورہ کرکے روس سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ کیا کیا تھا پاکستان نے تب؟سال 1955 میں افغانستان نے بلوچستان کی سرحد پر دوبارہ حملہ کیا جو ناکام بنا دیا گیا۔ تب پاکستان نے کونسا ظلم کیا تھا؟سال 1960 میں افغان فورسز نے باجوڑ پر قبضہ کرنے کے لیے دو حملے کیے جو ناکام بنا دئیے گئے۔ کیا بگاڑا تھا ہم نے افغانستان کا تب؟اسی سال افغانستان نے پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشتگردی کے ٹریننگ کیمپ بنائے۔ تب پاکستان نے کونسی مداخلت کی تھی افغانستان میں؟1965 کی جنگ میں مشرق سے انڈیا نے حملہ کیا تو موقع پاکر مغرب سے افغانستان نے مہمند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کی پشت پر افغانستان نے یہ وار کیوں کیا تھا؟سقوط ڈھاکہ میں حصہ لینے والے روسی ایجنٹ افغانستان سے بیٹھ کر آپریٹ کر رہے تھے انکے انٹرویوز موجود ہیں۔ پاکستان کے ٹوٹنے پر پوری دنیا میں سب سے زیادہ افغانستان خوش تھا۔ آخر یہ دشمنی کیوں کی پاکستان کے ساتھ؟ آخر کار 1974 میں تنگ آکر بھٹو نے افغانستان کو اسی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کیا جو کچھ وہ پاکستان میں کر رہا تھا تو افغانیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ پھر روس نے افغانستان کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو چڑھ دوڑا۔ آج افغانستان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ہم نے دو سپرپاورز کو شکست دی۔ ساتھ ہی گلہ کرتا ہے کہ ان سپر پاورز کو شکست دینے والے مجاہدین کی پشت پناہی پاکستان نے کی یہ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت ہے۔ مطلب افغانستان نے پاکستان میں جب بھی مداخلت کی تو پاکستان دشمنوں کی مدد کی تاکہ پاکستان کو نقصان پہنچائے۔ پاکستان میں جواب میں یہ مداخلت کی کہ افغانستان پر حملہ کرنے والے کے خلاف افغانیوں کی مدد کی؟اس وقت پاکستان میں بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کی وجہ سے جو تباہ پھیلی ہوئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان ہے۔ افغانستان کی پاکستان سےنفرت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کو روسیوں نے سبق پڑھا دیا تھا کہ بلوچستان اور کے پی تمہارا ہے جو انگریزوں کے جانے کے بعد تمہیں ملنا چاہئے تھا۔ اس کے لیے جھوٹی تاریخ ان کو گھول کر پلائی گئی۔ جس کے بعد افغانستان نے پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک مانتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہر طرح کا دھوکہ اور دشمنی کی۔ کھانا، دوائی، کپڑا، پناہ اور ہر طرح کی مدد پاکستان سے لے کر پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور یہ ہمیشہ یہ کرتے رہیں گے۔ جو سیاسی جماعتیں اقتدار کی لالچ میں پاگل ہوکر ان افغانیوں کو ہلہ شیری دے رہی ہیں اور انکی ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف کسی قسم کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں وہ پاکستان کی ویسی ہی دشمن ہیں جیسے افغانی!#afghan #PakistanArmy
Monday, 9 September 2024
شوہر برائے فروختبازار میں اک نئی دکان کھلی جہاں شوہر فروخت کیے جاتے تھے۔ اس دکان کے کھلتے ہی لڑکیوں اور عورتوں کا اژدہام بازار کی طرف چل پڑا ۔ سبھی دکان میں داخل ہونے کے لیے بے چین تھیں۔ دکان کے داخلہ پر ایک بورڈ رکھا تھا جس پر لکھا تھا ۔“اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک وقت ہی داخل ہو سکتی ہے “پھر نیچے ھدایات دی گئی تھیں ۔۔۔” اس دکان کی چھ منزلیں ہیں ہر منزل پر اس منزل کے شوہروں کے بارے میں لکھا ہو گا ، جیسے جیسے منزل بڑھتی جائے گی شوہر کے اوصاف میں اضافہ ہوتا جائے گا خریدار لڑکی یا عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے اور اگر اسمنزل پر کوئی پسند نہ آے تو اوپر کی منزل کو جا سکتی ہے ۔مگر ایک بار اوپر جانےکے بعد پھر سے نیچے نہیں آ سکتی سواے باھر نکل جانے کے “ایک خوبصورت لڑکی کو سب سے پہلے دکان میں داخل ہونے کا موقع ملا، پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا ۔” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں اور الله والے ہیں”لڑکی آگے بڑھ گئی۔دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا۔” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ‘ الله والے ہیں اور بچوں کو پسند کرتے ہیں “لڑکی پھر آگے بڑھ گئی۔تیسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا ۔” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ‘ الله والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں اور خوبصورت بھی ہیں “یہ پڑھ کر لڑکی کچھ دیر کے لئے رک گئی ‘ مگر پھریہ سونچ کر کہ چلو ایک منزل اور جا کر دیکھتے ہیںوہ اوپر چلی گئی۔چوتھی منزل کے دروازہ پر لکھا تھا -” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ‘ الله والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں ‘ خوبصورت ہیں اور گھر کےکاموں میں مدد بھی کرتے ہیں “یہ پڑھ کر اس کو غش سا آنے لگا ‘ کیا ایسے بھی مردہیں دنیا میں ؟ وہ سونچنے لگی کہ شوہرخرید لے اورگھر چلی جائے ، مگر دل نہ مانا وہ ایک منزل اوراوپر چلی دی۔وہاں دروازہ پر لکھا تھا ۔” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ‘ الله والے ہیں بچوں کو پسند کرتے ہیں ‘ بیحد خوبصورت ہیں ‘ گھر کےکاموں میں مدد کرتے ہیں اور رومانٹک بھی ہیں “اب اس عورت کے اوسان جواب دینے لگے – وہ خیال کرنے لگی کہ ایسے مرد سے بہتر بھلا اور کیا ہو سکتاہے مگر اس کا دل پھر بھی نہ مانا وہ اگلی منزل پر چلی آئی۔یہاں بورڈ پر لکھا تھا” آپ اس منزل پر آنے والی ٣٤٤٨ ویں خاتوں ہیں – اس منزل پر کوئی بھی شوہر نہیں ہے – یہ منزل صرف اس لئے بنائی گئی ہے تا کہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ”عورت کو مطمئن کرنا نا ممکن ہے”ہمارے سٹور پر آنے کا شکریہ، سیڑھیاں باھر کی طرف جاتی ہیں۔@ervreyone
Wednesday, 4 September 2024
#Easypaisa*#ایزی_پیسہ کے ذریعے رقم نکلوانے پر اضافی رقم لینے کا حکم* سوال ایزی پیسہ کے ذریعے پیسے نکلوانے پر بیس روپے لیے جاتےہیں، یہ بیس روپے سود کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟جوابواضح رہے کہ ایزی پیسہ کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے معاوضہ کمیشن کی صورت میں دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ کے ذریعے رقم نکالنے کی صورت میں متعلقہ کمپنی جتنی رقم کاٹتی ہے٬دکاندار کے لیے گاہک سے اُتنی رقم لینا شرعاً جائز ہے، اس پر اضافی رقم وصول کرنا شرعا درست نہیں ہے۔ اب اگر مخصوص رقم نکلوانے پر کمپنی کے ضوابط کے مطابق بیس (20 ) روپے لیے جاتے ہیں تو یہ لینا جائز ہے، کمپنی کی طرف سے سروس چارجز ہے، سود کے زمرے میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کمپنی کے ضوابط کے خلاف یہ رقم لی جاتی ہے تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔فتاوی شامی میں ہے:"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط: سعيد)فقط واللہ أعلم
Tuesday, 13 August 2024
ڈاکٹر حاملہ خواتین کو بہت زیادہ کشتے کھلارہے ہيں ۔ ca اور آئرن کے suppliments کو حکمت میں کشتہ کہتے ھیں ان سے بچیں...جس نے بھی یہ تحریر لکھی ھے اس نے حقائق لکھے ہیں اکثر حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کو شدید مسائل کا شکار ہوتے دیکھا ھے اس تحریر میں اس کی وجوہات واضح تور پر بیان کر دی گئی ہیں*_عورت بچاؤ مہم_* ایک دوست کا سوالآج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ھوتی ہیں ۔ حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال طبی ، سہولیات میسر ہیں ۔۔۔جب کسی خاتون کو امید ھوتی ھے تو وہ فورا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ھے🧬 نو ماہ اس کے زیر نگرانی باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیںاس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں ۔۔۔مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ھے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ھوتا ۔۔؟؟نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے ۔۔۔اورvenofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجود ۔۔۔۔ڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ھو جاتی ھے۔۔۔؟؟میرے عزیزو !اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ھے کہ ۔۔ڈیلیوری نارمل نہ ھونے کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔ مسکولر ٹشوز کا سخت ھوناھےاور رطوبت تلیہ۔Lyphatic liquids کا کم ھونا ھےیاد رکھیںعورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ھو گی بچہ کے اتنے ہی چانسز نارمل کے ھوں گےاور جتنے سخت ھوں گے اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ھو گامندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت تلیہlympatic liquids بھی کم ھو جاتی ھیںجو لبریکیشن کا کام کرتی ھیں فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلے گٸے تو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سےہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ھے ۔۔قطع نظر اس کے کہبہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں ،ہسپتال ہیں ۔۔۔مہنگے ڈاکٹرز ہیں ۔۔مہنگی ادویات اور مہنگے انجکشنز۔۔۔اٸیر کنڈیشنڈ کمرے۔۔۔یاد رکھیںیہ سب کچھ کبھی بھی فطرت کا متبادل نہیں ھو سکتے۔۔۔ پیسے کا لالچ اور ہوس اور انسانیت سے دوری۔۔۔۔مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ھونا دوسری بڑی وجہ ھے۔۔۔ عورتوں کا سہل پسند ھونا اور یہ تصور کہ حمل ھو جانے کے بعد کام نہیں کرناسارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا آخری مہینوں میں کی جاٸےیا گھر کے کام کاج کیے جاٸیں ۔۔جیسے جھاڑو دینا ۔۔۔ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گیجس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔🧬خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گےتو یہ لوہا ھونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت کرے گا کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ھے جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ھو گا ۔۔۔اس کی جگہ اگر کالے چنےمربہ ھڑڑمربہ املہمربہ بہی سیب پالکساگ کلیجیدودھ انڈا شھد گھیمنقیآڑو لونگدارچینیبادامزعفران کا استعال کیا جاٸے تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگااور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ھونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ھو ں گے خوبصورت بچے پیدا ھوں گے ۔۔اور گارنٹی سے کہتا ھوں لکھ کر دینے کو تیار ھوں بچہ بھی خوبصوت پیدا ھو گا ۔ دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں ۔۔ نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت۔۔۔۔۔تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت ۔۔ہڈیاں بھی سخت ۔۔اسی لیے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ھے کہبچے کا سر بڑھا ھوا ھےماں کی ہڈی بڑھی ھوٸی ھے اپریشن ہی ھو گا۔۔۔بھاٸی نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ھے کیونکہ اس سے کماٸی زیادہ ھے آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں نارمل سے کیا ملنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔اگر قدرتی کیلشیمدودھدھی انڈےگھیکھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ھوں کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتیں مگر۔۔بڑھتی نہ۔۔سخت نہ ھوتیںہاں !!! دکان کی سیل کم ضرور ھو جاتی کمیشن ضرور کم ھو جاتا۔۔۔سٹور کی سیل کم ھو جاتیآپس میں لڑاٸی پڑ جاتی بنک بیلنس کم ھو جاتا ۔آمدنی کم ھونے کی وجہ سے۔۔۔کیونکہ عملی طور پر ہمارا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ھےتقریروں اور گفتگو میں 1000 فی صد ھے۔۔۔ڈیلوری نارمل نہ ھونے کی ایک بڑی وجہ ۔۔۔جیسا کہ میں نے بتایا ھے ہڈیوں کا سخت ھونا ۔۔مسکولر ٹشوز کا سخت ھو کر ان میں لچک کا کم ھونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ھونا ھےجو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں ۔۔۔ان سب کے لیے آخری ماہ۔۔ صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری ماٸیں استعمال کرتی آ رہی تھیںایک تو جسمانی مشقت اور ورزش تھیںپاؤں کے بل۔۔۔۔تو دوسری اھم چیز دیسی گھی ۔چھواروں زعفران کا استعمال تھا ۔۔دودھ میں ڈال کر۔۔۔جس میں فولادکیلشیمگندھکیعنی حرارتوافر مقدار میں موجود ھوتی ہیں ۔۔اس کا چھوڑ دینا ۔۔۔اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رھنا اور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانا اور venifer کے انجکشن لگوانا ھے۔۔۔ پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ھوتا ھے ۔۔اللہ کی پناہایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔۔جسم دکھایا جاتا ھے ۔۔چوڑے چمار تک جملے کستے ہیں ۔۔ ۔۔سلفی بناٸی جارہی ھوتی ہیں..*استغفراللہ۔۔۔۔۔۔۔*پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ ۔۔نارمل کیسز کو کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ھے۔۔۔ ایک اور ظلم جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ھوں ۔۔۔کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ھوتا ھے تو اسکا درجہ حرارت ٧٠ سے ٩٠ تک ھوتا ھے ۔۔۔لیبر روم میں اٸیر کنڈیشن ھونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں ۔۔۔یہ ساٸنس کا اصول ھےکہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرار ت سے پھیلتی ہیں۔۔۔۔کمرے میں ١٦ درجہ کا ٹمپریچر ھونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا ؟؟یقینا سکڑے گا تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ھو گی یا رکاوٹ؟؟یقینی جواب ھے رکاوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی ۔۔۔۔لہذا مریض جاٸے بھاڑ میں یا موت کے منہ ۔آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتیڈاکٹر ھو کر اس کی ناک پر پسینہ آجائے ۔۔اتنا بڑا ظلم ۔۔۔حد تو یہ ھے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہیںلیبر روم کا صفاٸی والا عملہ اس کا نخرہاور اس کا رعباللہ کی پناہ ۔۔۔وہ آسمان پہ ھوتا ھے۔۔۔مگر سلام ھے ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینوں پیسنی ھو کر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں گھر میں ہی۔۔۔۔ اسی سلسلے میں ایک اور مسٸلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور incobeter میں ڈالنا۔۔۔۔۔پیارے بھاٸی !جب بچہ یک دم تقریبا ٨٠ ۔۔٩٠ کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پے آئے گا تو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ھو گا۔۔؟ پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی کے باوجود لگاٸے جاتے ہیں ۔۔ جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت بھگتنا پڑتی ھے وہ ایک الگ کہانی ھے۔۔۔ پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جاٸے ۔۔۔ظلم پہ ظلم ۔۔۔ڈاکے پہ ڈاکہ ۔۔۔اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروںکہ پھل جب پکتا ھے تو خود بخود نیچے گرتا ھے۔۔دردیں قدرتی اور فطری ھونی چاہیے ۔یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ھے دشمن نہیںمصنوعی دردیں کہ ۔۔گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جاٸے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گےتو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ھے پھر نتاٸج تو بھگتنا پڑیں گے ۔۔۔۔۔سزا تو ضرور ملے گی فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔۔۔ پھر یاد رکھ لیںبچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں ۔۔۔وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیںکیو نکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ھوتا ھے جس سے وہ انیمیا کا شکار ھو جاتے ہیں ۔ ۔۔ *المختصر* ۔۔۔۔فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزا زیادہ ملے گیاس موضوع پر بہت کچھ ھے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ھو دکانداروں کو۔۔۔لیکن میرے پیارے بھاٸیو!یہ ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کی زندگیوں کا مسٸلہ ھےاس کو اتنا like .اور share کیجیے comment کیجیے کہ یہ*عورت بچاو مہم* بن جاٸے ۔۔۔اور حکمران scandanaviyan belt کی طرح سخت قوانین بنانے پر مجبور ھو جاٸیںسوشل میڈیا کی طاقت سے جہاں پر خاوند لیبر روم میں موجود ھوتا ھے۔۔۔ہمارے ہاں تو اس کی زیادہ ضرورت ھے ۔۔حتی المقدور نارمل کیس کی کوشش کی جاتی ھے آخری حد تک۔۔ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتامصنوعی دردوں کے انجکشن نہیں لگواٸے جاتے ۔۔بلکہ قدرتی دردوں کو برداشت کرنے کا کہا جاتا ھے ۔۔۔ھمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ۔۔*فرانس میں ھر حاملہ خاتون اور بچوں کو قانونا چنے روزانہ کھلاٸے جاتے ہیں* *فولاد کی کمی پوری کرنے کیلیے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ؟؟
Saturday, 10 August 2024
اسلام اور لونڈیاں ۔ ابویحییٰمجھ سے مختلف حوالوں سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں لونڈیوں کا کیا تصور ہے۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اگر ان کا ذکر آگیا ہے تو قرآن مجید کے احکام کی ابدی نوعیت کے پیش نظر ان سے تمتع کرنا (جنسی تعلق قائم کرنا) ابھی بھی جائز ہونا چاہیے۔ بلکہ عملی طور پر بہت سے لوگ آج بھی گھریلو خادماؤں سے یا بے سہارا لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ کر اسی بنیاد پر ان سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ لونڈیاں بھی منکوحہ بیویاں ہی ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ قران مجید کے کئی بیانات اس بات کی باصراحت نفی کرتے ہیں اس لیے یہ استدلال بالکلیہ رد کر دیا جاتا ہے۔ آج انشاء اللہ میں اسی نوعیت کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔دو قسم کے احکاماس معاملے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس حوالے سے بیان ہونے والے احکامات کی نوعیت کو درست طور پر سمجھا جاتا ہے نہ بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید میں مرد و زن کے تعلق کے حوالے سے دو طرح کے احکام پائے جاتے ہیں۔ ایک احکام وہ ہیں جو نزول قرآن کے وقت رائج حالات کے پس منظر میں ہیں۔ دوسرے احکام وہ ہیں جو بطور ابدی شریعت کے دیئے گئے ہیں۔پہلی قسم کے احکام وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں لونڈیوں کی موجودگی کے باوجود ان سے تمتع کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ نزول قرآن کے وقت گھر گھر لونڈیاں موجود تھیں۔ مگر اس کے باوجود قرآن مجید جب نازل ہوا تو اس نے لوگوں کو میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے سے نہیں روکا اور اس حوالے سے کوئی قانونی ممانعت ہمیں نظر نہیں آتی۔ ان قرآنی بیانات کی مثالیں درج ذیل ہیں۔مکی دور کی دو سورتوں (معارج ۳۰:۷۰، مومنون۶:۲۳) میں ارشاد ہوتا ہے۔’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں۔‘‘یہ اس ضمن کی صریح ترین آیت ہے کہ بیویوں کے علاوہ لونڈیوں سے تعلق قائم رکھنے کو قرآن نے اپنے نزول کے وقت ہرگز نہیں روکا تھا۔ یہی صورتحال ہجرت مدینہ کے بعد رہی۔ جنگ احد میں جب بہت سے مسلمانوں کی شہادت ہوگئی اور ہر دوسرے گھر میں بیواؤں اور یتیموں کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرآن مجید نے اس موقع پر عرب کے ایک اور رواج یعنی دوسری شادی کو بطور حل پیش کیا۔ مگر ایک سے زیادہ شادیوں میں یہ شرط لگا دی کہ چار سے زیادہ شادیاں نہ ہوں۔ ساتھ ہی تعدد ازواج کو عدل سے مشروط کر دیا۔ پھر فرمایا کہ اگر بیویوں میں عدل نہ کرسکو تو پھر ایک سے زیادہ بیوی نہیں کرسکتے، ہاں لونڈیوں سے تمتع البتہ جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر ڈر ہو کہ ان (بیویوں) کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو، یا پھر لونڈیاں جو تمھاری ملک میں ہوں‘‘،(النساء ۳:۴)پچھلی آیات کی طرح یہاں بھی بیوی کے ساتھ علیحدہ سے لونڈی کا ذکر یہ واضح کرتا ہے کہ جو لونڈیاں اس وقت موجود تھیں قرآن نے ان سے مقاربت کو جائز قرار دیا تھا اور بیویوں کی طرح اس کے لیے نکاح کے کسی تعلق کو لازم قرار نہیں دیا تھا۔اس ضمن میں قرآن مجید میں آخری آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہے جس میں آپ کو تعداد ازواج اور عدل کی مذکورہ بالا شرائط سے آزاد قرار دیا گیا ہے جن کی پابندی عام مسلمانوں کے لیے ضروری تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے پیغمبر ہم نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیے ہیں حلال کر دی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو اللہ نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لیے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں فرض کیا ہے۔ (یہ) اس لیے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(اور تم کو یہ بھی اختیار ہے کہ) جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جس کو تم نے علیحدہ کر دیا ہو اگر اس کو پھر اپنے پاس طلب کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ (اجازت) اس لیے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمناک نہ ہوں اور جو کچھ تم ان کو دو اسے لے کر سب خوش رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔ اور اللہ جاننے والا اور بردبار ہے۔(اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہاری مملوکہ ہوں۔ اور اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے ۔‘‘، (الاحزاب ۵۲۔۵۰: ۳۳)اس آخری آیت میں جو پابندی لگائی ہے کہ اس متعین دائرے سے باہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی عورت حلال نہیں، اس میں بھی استثنا صرف لونڈیوں کا ہے کہ نکاح کے بغیر بھی آپ ان کو رکھ سکتے تھے۔ان احکام و بیانات میں یہ بات واضح ہے کہ لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت علی الاطلاق بغیر کسی نکاح کے معاہدے کے صرف اس دور کے رواج کی بنا پر دی گئی ہے جس کے تحت ایک مرد کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ محض حق ملکیت کی بنا پر لونڈی سے تعلق قائم کرے، جس طرح وہ نکاح کر کے ایک آزاد عورت سے تعلق قائم کرسکتا تھا۔ابدی احکاممرد و زن کے تعلق کے حوالے سے دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جو قرآن مجید کی ابدی شریعت کا حصہ ہیں۔ ان احکام میں قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ مرد و زن کس بنیاد پر باہمی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مقامات پر صرف نکاح کے رشتے کا ذکر کرکے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ صرف یہی وہ تعلق ہے جس کی بنیاد پر ایک مرد و عورت مقاربت کرسکتے ہیں۔ ان مقامات پر لونڈیوں کا ذکر کیا ہی نہیں گیا اور جہاں کیا گیا ہے وہاں یہ ذکر نکاح کے حوالے سے ہے۔ یہ احکام درج ذیل ہیں۔’’اور مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا۔ ایک مومن لونڈی ایک (آزاد) مشرکہ سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بھلی لگے۔ اور مشرکوں کو جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اپنی عورتیں) نکاح میں نہ دو۔ ایک مومن غلام ایک مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ تمھیں بھلا لگے‘‘،(بقرہ ۲:۲۲۱)یہ نکاح کے حوالے سے قرآن کا ایک اہم حکم ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی مشرک مرد یا عورت سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ نکاح کے لیے ایک آزاد مشرک عورت سے مومن لونڈی بہتر ہے۔ یہی معاملہ مومن غلام کا ہے کہ آزاد مشرک مرد سے بہتر ہے کہ ایک مومن غلام سے نکاح کا تعلق قائم ہو۔سورہ مائدہ میں جب دین کا اتمام ہو رہا تھا اور شریعت کے آخری اور فیصلہ کن احکام دیے جارہے تھے تو وہاں اس حکم میں ایک رعایت یہ دی گئی کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ دیکھیے اس موقع پر لونڈیوں کا ذکر بالکل حذف کر دیا گیا ہے۔’’آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں۔ ۔ ۔ اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔‘‘،(مائدہ ۵: ۵)مرد و زن کے تعلق کے ضمن میں بنیادی آیت سورہ نساء کی درج ذیل آیات ہیں۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا (ایک رشتہ نکاح میں) اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہوچکا (سو ہوچکا) بے شک اللہ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔اور شوہر والی عورتیں بھی ( تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو۔ ۔ ۔اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو۔‘‘،(نساء ۲۵۔۲۳: ۴)اس آیت میں دو جگہ لونڈیوں کا ذکر ہے اور دونوں جگہ نکاح کے حوالے سے۔ یعنی اگر کوئی آزاد شادی شدہ عورت بطور لونڈی جنگ میں ہاتھ آجائے تو پھر اسے نئے نکاح کے لیے پچھلے شوہر سے طلاق کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا سابقہ نکاح کالعدم تصور ہوگا۔ اسی طرح آگے وضاحت کی گئی ہے کہ ایک لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔قرآن مجید کے یہی وہ مقامات ہیں جن میں مرد و زن کے تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کے سرسری مطالعے سے بھی یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت جس کے احکام قیامت تک کے لیے ہیں جب مرد و زن کے تعلق کو موضوع بناتی ہے تو صرف اور صرف نکاح کو اس کی بنیاد ٹھہراتی ہے۔ لونڈی کی ملکیت یا کسی اور بنیاد پر مرد و زن کے تعلق کی کوئی مثال اسلام کے ابدی احکام میں نہیں۔قرآن اور غلامیاسلامی شریعت کے اس مدعا کی وضاحت کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا سبب ہے کہ قرآن مجید نے اپنے نزول کے وقت لونڈیوں کے ساتھ مقاربت کو جائز قرار دیا۔ کیوں نہ ایسا ہوا کہ ایک حکم کے ذریعے سے لونڈی غلاموں کا رکھنا ہی حرام قرار دے دیا جاتا۔ اس کے برعکس نہ صرف پہلی قسم کے احکام قرآن میں پائے جاتے ہیں جن میں لونڈیوں سے مقاربت کی اجازت ہے بلکہ متعدد مقامات پر لونڈی غلاموں کا ذکرخادموں کی حیثیت سے بھی ہے۔ کیا واقعی ان احکام وبیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید غلامی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ کیا یہ واقعی اس کی منشا تھی کہ مسلمان جنگیں کرکے دوسرے لوگوں کو لونڈی غلام بنائیں۔ دنیا بھر سے معصوم بچے، بچیوں اور بڑوں کو حضرت یوسف کی طرح اغوا کیا جائے اور مسلمانوں کے بازاروں میں ان کی نیلامی ہو۔ مسلمانوں کے غلام ان کے کھیت اور کارخانوں کو چلا رہے ہوں اور لاتعداد لونڈیاں ان کے حرم میں سامان عیش کے طور پر موجود ہوں۔ہم پورے اطمینان اور اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہرگز ہرگز یہ منشا نہیں تھی۔ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ ہم پھر اس بات کو دہرانا چاہیں گے کہ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ غلامی کی لعنت ہزاروں برس سے انسانی معاشروں میں موجود تھی۔ قرآن مجید قطعی طور پر اس لعنت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس مقصد کے لیے اسلام نے انقلابی طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ایک حکم سے ساری لونڈی غلاموں کو آزاد قرار دے دیا جائے۔انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دس نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم انقلاب (Revolution) کی بجائے تدریجی اصلاح (Evolution) کا طریقہ اختیار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہو گا۔ خیال رہے کہ ہم اس مثال میں ملازمت کو غلامی جیسی برائی قرار نہیں دے رہے، بلکہ حکمت عملی کے پہلو سے ایک ایسی مثال پیش کر رہے ہیں جسے آج کا انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ملازمت کی مثالموجودہ دور میں بہت سے مالک (Employers) اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل ہو جائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں، بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لیے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے؟ اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے۔ یہ بے روزگار یقیناً روٹی، کپڑے اور مکان کے حصول کے لیے چوری، ڈاکہ زنی، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے، جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تلپٹ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا کہ وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔ انہیں کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ جو لوگ اس میں آگے بڑھیں، انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں گے اور تدریجاً تمام لوگوں کو ملازمت کی غلامی سے نجات دلا کر مکمل آزاد کیا جائے گا۔عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے فوری طور پر ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لیے تدریج کا فطری طریقہ اختیار کیا تھا۔ اور ایسا نہ کیا جاتا تو معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا۔اب اسی مثال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر منطبق کیجیے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا، بلکہ وہ اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں لونڈی غلام موجود تھے۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں کام کر رہے تھے۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ ہزاروں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور، بھکاری وجود میں آتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔ چنانچہ اسلام نے ایک تدریجی طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا۔ اس ضمن میں جو اقدامات کیے گئے ان میں سے کچھ اہم یہ ہیں:غلامی ختم کرنے کے اقداماترسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو غلاموں کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی تربیت دی۔ انہیں یہ حکم دیا کہ جو تم خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی انہیں پہناؤ اور ان کے کام میں ان کی مدد کرو۔ غلاموں کو اپنا بھائی سمجھو، ان کا خیال رکھو اور ان پر ظلم نہ کرو۔ اسی تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ اپنے غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنے لگے اور ان کا معیار زندگی بلند ہوگیا۔ سیرت و روایات کے ذخیرہ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام کو دیکھ کر یہ پہچاننا مشکل تھا کہ آقا کون ہے اور غلام کون ہے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے غلاموں سے بیٹوں کا سا سلوک کرتیں وغیرہ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اعلیٰ اخلاقی تربیت دیں اور انہیں آزاد کر دیں۔ لونڈیوں کو آزاد کرنے کے بعد ان سے شادی کرنے کو ایسا کام قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کے حضور دوہرے اجر کی نوید ہے۔ بعد کے دور میں ہمیں ایسے بہت سے غلاموں یا آزاد کردہ غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو علمی اعتبار سے جلیل القدر علما صحابہ کے ہم پلہ تھے۔ ایک مثال سیدنا سالم رضی اللہ عنہ تھے جن کا شمار ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔مثال قائم کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلام آزاد کیے یہاں تک کہ اپنی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔ آپ کے جلیل القدر صحابہ کا بھی یہی عمل تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت سے ایسے غلام خرید کر آزاد کیے جن پر ان کے مالک اسلام لانے کے باعث ظلم کرتے تھے۔ صحابہ کی تاریخ میں ایسے بہت سے غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو آزاد کیے گئے تھے۔ ان کے حالات پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں جو کتب الموالی کہلاتی ہیں۔دور جاہلیت میں آزاد کردہ غلاموں کو بھی کوئی معاشرتی مقام حاصل نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ان کے سابقہ مالکوں کا ہم پلہ قرار دیا۔ایسے غلام جو آزادی کے طالب تھے، ان کی آزادی کے لیے قرآن نے "مکاتبت” کا دروازہ کھولا۔ اس کے مطابق جو غلام آزادی کا طالب تھا، وہ اپنے مالک کو اپنی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قسطوں میں رقم ادا کر کے آزاد ہوسکتا تھا۔ صحابہ کرام ایسے غلاموں کی مالی مدد کرتے جو مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک کو رقم ادا کر کے انہیں آزاد کروایا تھا۔ قرآن نے حکومتی خزانے میں سے ایسے غلاموں کی مالی امداد کا حکم دیا ہے۔ یہ وہ حکم تھا جس نے تدریجی اور قانون طریقے سے غلامی کی لعنت کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔غلامی کی سب سے بڑی جڑ جنگی قیدی تھے جن کو غلام بنایا جاتا تھا۔ قرآن نے جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ حکم دیا کہ یا تو انہیں بلامعاوضہ آزاد کر دیا جائے یا پھر ان سے جنگی تاوان وصول کر کے آزاد کیا جائے۔ اس طرح نئے غلام اور کنیزیں بننے کا سلسلہ رک گیا۔قرآن مجید میں غلامی کی ممانعت کا حکمغلامی کے خاتمے کے حوالے سے دین اسلام کی اس تمام تر تعلیمات کے باوجود بہت سے لوگ چھوٹے ہی یہ سوال کر دیتے ہیں کہ قرآن میں غلامی کی ممانعت کا حکم کہاں ہے۔ یہ حکم جب نہیں ہے تو ہم آزاد خواتین کو پکڑ کر لونڈیاں بنانے میں حق بجانب ہیں۔ اس کا سادہ ترین جواب تو میں یہ دیا کرتا ہوں کہ یہ استدلال پیش کرنے والے یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ کوئی طاقتور شخص یا کوئی دشمن ملک بالجبر ان کی اپنی خواتین کے ساتھ یہ سب کچھ کرے تو وہ حق بجانب ہوگا۔ کیا وہ اس ظلم کو ایک لمحے کے لیے بھی جائز تسلیم کریں گے؟اس بات کا علمی جواب یہ ہے کہ قرآن مجید چیزوں کو حرام قرار دینے کے لیے دو طریقے اختیار کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی چیزکا نام لے کر ممنوع قرار دے دیا جائے۔ جیسے قرآن مجید تجسس کی ممانعت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ولاتجسسوا(الحجرات12:49)۔ یعنی تم تجسس نہ کرو۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ گناہوں کی عمومی کیٹیگری کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اس کیٹیگری کے ذیل میں آنے ولی تمام چیزیں خود ہی ممنوع ہوجاتی ہیں اور قرآن کریم میں ان کی ممانعت کا حکم تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مثلاً ایک شخص یہ کہے کہ قرآن پاک میں سور کھانے کی تو ممانعت ہے البتہ سانپ کھانے کی نہیں ہے اس لیے سانپ کھانا جائز ہوگیا۔ یہی معاملہ تمام درندوں اور بول و براز وغیرہ کا ہے۔ آپ کو ان کی ممانعت کا براہ راست حکم قرآن مجید میں نہیں ملے گا۔ایسی چیزوں کی حرمت میں جیسا کہ بیان ہوا کہ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ عمومی کیٹیگری بیان ہوجاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اسی اصول پر خبائث کو حرام قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کے لیے صرف طیبات ہی حلال قرار دیے ہیں،(المائدہ 5:5)۔ چنانچہ سانپ، شیر، چیتے اور بول و براز وغیرہ اس وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں کہ انسان ان کو فطری طور پر خبیث چیزوں کے طور پر جانتا ہے۔ خیال رہے کہ استثنائی طور پر اگر کوئی واقعہ اس نوعیت کا ہوجائے کہ ایک شخص یا گروہ یہ خبیث چیزیں کھانے لگے تو اس سے ان کی فطری حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔حرمت کی ایسی ہی ایک کیٹیگری وہ ہے جس میں قران بغی یا زیادتی کو ممنوع قرار دیتا ہے،(اعراف33:7)۔ اب اس کے بعد ضروری نہیں رہتا کہ قرآن مجید ظلم کی ہر قسم کا نام لے کر یہ بیان کرے کہ فلاں زیادتی ناجائز ہے اور فلاں ظلم حرام ہے۔ بلکہ انسانی فطرت اور معاشرے جس جس چیز پر ظلم کا اطلاق کرتے ہیں وہ خود بخود اسی اصول پر حرام ہوجائے گا۔ کسی انسان کی آزادی کو سلب کرکے اسے غلام بنا لینا اسی نوعیت کی چیز ہے۔ چنانچہ غلامی اسی اصول پر حرام ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی آزادی پر حملہ کرکے اور ان کی عزت اور آزادی پامال کرکے انھیں غلام بنایا جاتا ہے، بالجبر ان سے مشقت لی جاتی ہے اور دیگر طریقوں سے انھیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ غلامی ہر حال میں ایک برائی تھی اور اسے گوارا کرنا اسلام کے لیے کسی طور ممکن نہ تھا۔ مگر جیسا کہ بار بار بیان ہوتا ہے کہ یہ برائی اتنی زیادہ پھیل چکی تھی کہ نہ صرف اس کی برائی کا تاثر ختم ہوچکا تھا بلکہ پورا معاشرتی نظام اسی پر منحصر ہوچکا تھا اس لیے دین اسلام نے اس برائی کے خاتمے میں تدریج کا طریقہ اختیار کیا۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ برائی کو بھی غیر فطری طریقے پر ختم نہیں کرتا۔چنانچہ جو لوگ آج غلامی اور خاص کر خواتین کو لونڈی بنا کر ان سے استفادہ کے قائل ہیں اور اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں غلامی کے خاتمے کا کوئی حکم نہیں وہ سرتاسر غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید ظلم و زیادتی کی ہر قسم کو حرام کرتا ہے۔ غلامی اس ظلم کی بدترین شکل ہے اور اس کا دوبارہ شروع کرنا ایک بدترین جرم ہے۔ مزید یہ بھی واضح رہے کہ قدیم دور میں غلامی کا جو سب سے بڑا ذریعہ تھا یعنی جنگی قیدیوں کو غلام بنانا، ان کے متعلق قرآن مجید نے تصریح کر دی ہے کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا ورنہ بلامعاوضہ آزاد کر دیا جائے گا،(محمد4:41)۔ غلام کسی صورت میں نہیں بنایا جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال جنگ بدر کے غریب قیدی ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے عوض آزاد کر دیا تھا۔ایک آخری سوال: غلامی ختم کیوں نہ ہوسکیاس ضمن کا ایک آخری اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ ان تمام اقدامات کے بعد بھی مسلم معاشرے میں غلامی ختم کیوں نہ ہوسکی۔ کیوں ایسا ہوا کہ بیسویں صدی تک عرب کے معاشرے میں لونڈی غلام بازاروں میں بکتے رہے؟ہمارے نزدیک اس معاملے میں اصل سانحہ یہ ہوا کہ خلافت راشدہ میں جب عرب مسلمانوں نے عالم عجم کو فتح کیا، ان فتوحات کے نتیجے میں لاکھوں مربع میل پر پھیلی قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتوں میں پائے جانے والے لاکھوں بلکہ کروڑں غلام اسلامی معاشرے میں ایک دم داخل ہوگئے۔ یہ واضح ہے کہ عرب معاشرے میں موجود ہزاروں غلاموں کو بیک جنبش قلم ختم نہیں کیا گیا تو یہ کام عجم کے لاکھوں غلاموں کے معاملے میں بھی ممکن نہ تھا۔ صحابہ کرام نے اپنی حد تک یہ کام جاری رکھا مگر اول ان کی اصل توجہ جہاد کی طرف رہی اور پھر خلافت راشدہ کے نصف آخر میں مسلمانوں کا باہمی خلفشار شروع ہوگیا۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ قرآن مجید کا فہم رکھنے والے اور اسلامی روح کو سمجھنے والے صحابہ کرام کی تعداد تیزی سے کم ہوتی گئی۔یہاں تک کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں جب باہمی جنگوں کا یہ سلسلہ تھما تو مسلم معاشرہ ملوکیت کی اجتماعی غلامی کا شکار ہوچکا تھا۔ جو معاشرہ اجتماعی غلامی کا شکار ہو وہ انفرادی غلامی کے لیے کیا کرسکتا تھا۔ چنانچہ سب نے غلامی کو ایک ناقابل تبدیل حقیقت کے طور پر قبول کرلیا اور رفتہ رفتہ غلامی کی لعنت کو مذہبی جواز بھی ملتا چلا گیا۔
Saturday, 3 August 2024
*آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیا ہے – Artificial*“#Artificial_Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر یا کمپیوٹر بیسڈ روبوٹس کو انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے یعنی یہ انسانوں کی طرح سن سکتے ہیں بول سکتے ہیں اور ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ Artificial Intelligence میں آئے دن تجربات کیے جا رہے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے روبوٹس یا بوٹس بہت تیزی سے انسانوں کی طرح سیکھنے، سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو Self Learning کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہاہت کے ذریعہ سے مشین کو جذبات سمجنے اور جذبات کی عکاسی کرنے کے قابل بھی بنایا جا چکا ہے۔“Artificial Intelligence In Urduالسلام علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ Artificial Intelligence In Urdu کے عنوان سے ایک اور تحریر لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ایک سوال #AI یعنی Artificial Intelligence کیا ہے اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس دور جدید اور آنے والے دور میں AI یعنی Artificial Intelligence جیسی ٹیکنالوجی یقیناً انسانیت کے لیے فائدہ اور نقصانات دونوں اپنے ساتھ لا رہی ہے۔زیر نظر تحریر جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے طالب علموں کے لیے ایک Artificial Intelligence Article for Students بھی ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے سے آپ کو اس انوکھی تخلیق کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوں گی اور آپ کو یہ بھی تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی کہ آپ کی زندگی میں ہی یہ انوکھی ایجاد آپ کو روزانہ کی بنیادوں پر سہولیات فراہم کر رہی ہے جس کے بارے میں شاید آپ کو علم بھی نہیں۔Artificial Intelligence Meaning In UrduArtificial Intelligence کو اردو زبان میں مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مراد ایسی ذہانت ہے جو کمپیوٹر مشین میں استعمال کی جا سکتی ہو۔ آج سے کچھ سال پہلے یعنی تقریباً 1950 سے لے کر 1956 تک یہ چند سال مصنوعی ذہانت کے دور کی شرعات تصور کیا جاتے ہیں۔ ان چند سالوں میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ کمپیوٹر جیسی مشین بھی انسانوں کی طرح ذہانت استعمال کر سکتی ہے۔Artificial Intelligence in 1956John McCarthy نے 1956 میں کہا تھا کہ مستقبل میں کچھ مشینیں ایسی بھی ہوں گی جو کہ انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔ اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔Artificial Intelligence in 19501950 میں ایک بہت بڑے سائنسدان گزرے جن کا نام Alan Turing تھا انہوں نے ایک کتاب لکھیں جس میں انہوں سے ایک AI Test متعارف کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے سامنے موجود مشین یا کمپیوٹر ذہانت کا استعمال کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ہم مشین اور انسان کو ایک مقام پر جمع کر کے ان سے سوالات کر سکتے ہیں مشین اور انسان سے سوالات پوچھنے والے انسان کو اس بات کی خبر نہیں ہو گی کہ مشین کس کمرے میں ہے اور انسان کس کمرے میں۔Alan Turing Test کے مطابق ٹیسٹ کے لیے سوالات کرنے والا انسان ایک الگ کمرے میں ہو گا اور میشن اور دوسرا انسان دو الگ کمروں میں۔ سوالات کرنے ولا دونوں سے سوالات کرے گا اور دونوں اپنی ذہانت کا استعمال کر کے جواب دیں گے۔ ان جوابات کی مدد تے سوالات پوچھنے والا اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ کس کمرے میں مصنوعی ذہانت والا کمپیوٹر ہے اور کس میں انسان۔Alan Turing کے اس ٹسٹ کی مدد سے معلوم کیا جائے گا کہ انسان کون ہے اور مشین کون ہے اور اس ٹیسٹ کے دوران مشین یعنی مصنوعی ذہانت اپنی پوری طاقت استعمال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ مشین نہیں انسان ہے۔ یہ ٹسٹ انتہائی کامیاب رہا اور اس کے نتائج کی مدد سے مشین کو مزید ٹرین کرنے کے لیے نئی سمت ملی۔Artificial Intelligence in 19641964 سے 1966 کے عرصہ میں Eliza نام کا ایک پورگرام بنایا گیا جو Artificial Intelligence کی ایک مثال تھا۔ یہ پروگرام سائیکولوجسٹ پروگرام تھا جو انسانوں سے ان کے ذہنی مسائل کے بارے میں سوالات کر کے انہیں مسائل کے حل تجویز کرتا تھا۔ لیکن اگر اس پروگرام سے یہ پوچھا جائے کہ میں گاجر کا جوس کس طرح بنا سکتا ہوں تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یعنی اس سوال پر یہ پروگرام ٹیورنگ ٹسٹ پاس نہیں کر سکا۔1980 کے قریب IBM نے ایک ایسا سافٹ ویئر متعارف کروایا جو شطرج کا ماہر تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں Garry Kasparov جو کہ دنیا بھر میں شطرنج کے بہت بڑے کھلاڑی مانےجاتے تھے کو اس پروگرام نے جیتنے نہیں دیا۔ اس پروگرام کا نام Deep Blue تھا۔ لیکن ہم پہلے والا سوال ہی اگر اس پروگرام سے کریں کہ گاجر کا جوس کیسے بناتے ہیں تو اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔اسی دور میں اس بات کا اندازہ ہوا کہ جو مصنوعی ذہانت کے پروگرام بنائے جا رہے تھے وہ تمام کے تمام Rule Based پروگرام تھے یعنی ان کو پہلے سے بتا دیا جاتا تھا کہ کس عمل پر کیا ردعمل اختیار کرنا ہے۔Artificial Intelligence کی Definition کیا ہےArtificial Intelligence کو اگر سمجھنا ہو یا اس کی Definition جاننی ہو تو سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ “Artificial Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جو کمپیوٹر یا کمپیوٹر ہی کی جدید شکل روبوٹس کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سے کام کرنے لگ جائیں۔یعنی ذہانت کا استعمال کریں اور اسی ذہانت کی بنیاد پر انسانوں کی طرح فیصلے کرنے کی صلاحت رکھتے ہوں۔ اگر یہ ربوٹ یعنی ہاتھ پاؤں رکھنے والی مشین ہو تو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بر وقت اور ضرورت کے مطابق درست طریق سے استعمال کر سکتا ہو”ہماری زندگیوں میں سائنس نے جتنی ترقی کر لی ہے ہمارے بعد والی نسلوں کی زندگی میں اس ترقی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اہل دنیا ان تمام حوالوں سے پریشان بھی ہیں اور فوائد کے حصول کو ممکن بنانے پر خوش بھی ہیں۔ Artificial Intelligence بہت خاموشی سے آہستہ آہستہ ہم سب کی زندگی میں مستقل طور پر شامل ہوتی جا رہی ہےArtificial Intelligence کس طرح کام کرتی ہے؟کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو باقاعدہ نام سے پکارا جانے لگا غالباً یہ 1956 کے عرصہ کی بات ہو گی۔ اس زمانہ میں کمپیوٹر اور سائنس نے اس قدر ترقی تو ضرور کر رکھی تھی کہ ایک مشین کی مدد سے کسی پزل گیم کو ہل کروایا جاتا رہا ہے۔اس زمانہ میں کمپیوٹر سے گفتگو کرنے کے لیے صرف کمپیوٹر کے لیے مخصوص زبانوں کو استعمال کیا جاتا تھا جن میں مشین لینگویج اور پروگرام لینگویج عام تھیں۔ سی لینگویج بھی انہی کہ ایک مثال ہے ۔ یعنی کپیوٹر صرف ان ہی چند زبانوں کو سمجھتا تھا۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ کمپیوٹر کو انسانی زبان سمجھنے کے قابل بنایا جا سکے یعنی نیچرل لینگویج یعنی کمپیوٹر میں Natural language processing (NLP) کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب کوشش تھی اس کی مدد سے کمپیوٹر اس قابل ہوا کہ وہ انسانوں کی زبان کو یعنی جو انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لیے زبان استعمال کرتی ہے سمجھنے لگا۔سٹرکچر کیوری لینگویج یعنی SQL زبان بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں کوئی بھی پروگرام کمپیوٹر کو بتانے کے لیے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے جاتے ہیں اور کمپیوٹر انہیں سمجھ کر جواب دیتا ہے۔ AI اسی کی ایک جدید شکل ہے جو کہ مستقبل میں جدید سے جدید تر اور پھر جدید ترین ہو جائے گی۔کیا یہ درست ہے کہ ” AI Will Completely Change the Way We Live”اس دنیا میں موجود وہ لوگ جن کا تعلق کسی نا کسی طرح سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس سے ہے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں اور اکثر سوچتے ہیں کہ کیا مصنوعی ذہانت ہماری زندگی میں اس قدر حصہ لے سکتی ہے کہ ہماری نیچرل یعنی قدرتی زندگی اور رہن سہن یکسر بدل دے۔AI Expert جناب کائی فو لی صاحب جو کہ CEO of Sinovation Ventures بھی ہیں میڈیم ڈاٹ کام پر اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ میں نے دنیا بھر میں سفر کیا ہے اور میں اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سے بہت سی جگہوں پر ایک سوال کر چکا ہوں کہ “انسان اور مصنوعی ذہانت کا مستقبل کیا ہے؟” یہ ایک بنیادی سوال ہے جس کا موجودہ دور میں رقم ہونے والی تاریخ سے بہت گہرا تعلق ہے۔کائی فو لی کے مطابق اس سوال کے جواب میں کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہم اس وقت Artificial Intelligence نام کے ایک بلبلے میں قید ہیں اور اس کے درمیاں میں بیٹھے ہیں اور نجانے یہ ہمیں کس سمت میں کتنی بلندی تک لے جائے اور پھر کیا ہو۔ ان لوگوں کے مطابق مصنوعی ذہانت ہم انسانوں کے ذہن کو اپنے اختیار میں لینے کے قابل ہو جائے گی اور انسان کو اپنا غلام بنا کر ان پر حکمرانی کرنے لگے گی۔میرے خیال کے مطابق ایسا ممکن ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم سب کے ہاتھوں میں موجود سمارٹ فون اپنے سمارٹ ہونے کا ثبوت دینے لگا ہے۔ گوگل، بنگ ، آئی او ایس، اینڈرائڈ جیسے جدید سافٹ ویئر ہمارے مبائل فون کے ذریعہ سے ہماری معلومات کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں سوشل میڈیا پر ہونے والی تمام گفتگو اور ہماری حرکات و سکنات کو بھی محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔AI یعنی Artificial Intelligence اور موجودہ دورموجودہ دور میں Artificial Intelligence خاصی ترقی کر چکی ہے ۔ جدید دور میں تقریباً ہر بڑی انڈسٹری میں اس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر میں موجود پروگرامز بھی اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر بھی کمپیوٹر کو استعمال کر رہا ہے اور اپنے آپ کو مزید پاور فل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔Artificial Intelligence in Urdu کے عنوان سے اس تحریر کو شائع کرنے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان میں اس جدید ٹیکنالوجی کو سمجھ سکیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کے کون کون سے موڈیول کام کر رہے ہیں اور اس میں کیا کیا ٹیکنالوجیز استعمال کی جا چکی ہیں یعنی ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ AI نام کی ٹیکنالوجی اپنے اندر کتنی جدت لا چکی ہے اور کون کون سے معاملات پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ذیل میں AI کی کچھ Technologies کا ذکر کیا جا رہا ہے۔Natural Language Generationمشین اور انسان دونوں مختلف انداز میں سوالات جوابات کرتے ہیں یعنی ایک دوسرے سے ان کی کمپیونیکیشن دونوں اطراف سے مختلف ہوتی ہے انسانی دماغ اور مشین دونوں مختلف انداز میں سوچتے اور سمجھتے ہیں۔Natural Language Generation ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت کافی مشہور ہے اور یہ AI کا ایک حصہ ہے ۔ اس کی مدد سے مشین اور انسانوں کے مابین گفتگو کو انسانی انداز اور مزاج میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ نیچرل لینگویج جنریشن مصنوعی ذہانت کا ایک حصہ ہے جس کی مدد سے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والی مشینیں خودکار انداز میں انسانوں کی ضرورت کے مطابق جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرتی ہیں۔Speech recognitionSpeech Recognition ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے مشینوں کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آوازوں کو سن کر ان کو سمجھ کر ان کے مطابق جواب دیے سکیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی آواز کو سن کر سمجھ کر کمپیوٹر ہدایات وصول کرنے کی صلاحت رکھتا ہے۔اس کی مدد سے انسانی گفتگو کو کمپیوٹر مخلتف زبانوں میں بدل سکتا ہے۔ ان کی بہتریں مثال Siri نام کی ربوٹک اسسٹنٹ ہے جو آواز کو سن کے اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔Virtual AgentsVirtual Agents اس وقت دنیا میں Artificial Intelligence کی ایک بہتریں مثال ہے اس ٹیکالوجی کو دنیا میں بہت سارے کاروبار استعمال کر رہے ہیں۔ ورچول اسسٹنٹ دراصل AI کی ہی ایک Application ہے جو اپنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسانوں سے گفتگو کرتی ہے۔اس ایپلیکیشن میں Chatbots فراہم کیا جاتا ہے جو کہ انسانوں کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آپ کی کوئی کمپنی ہے اور اس میں چند بنیادی معلومات ایسی ہیں جس کے کمپنی سے خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے اہم ہیں ان معلومات کو ورچول اسسٹنٹ کی مدد سے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے اور ان سے متعلقہ تقریباً تمام متوقع سوالات کے جوابات کے لیے تمام انفارمیشن Database میں محفوظ کر لی جاتی ہے۔ اس ڈہٹابیس کی مدد سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات خودکار انداز میں یہ نظام اپنے Clients کو دیتا ہے۔ Virtual Assistant کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ زبان دانی سے واقف ہوتا ہے۔اس کی ایک اہم مثال IBM Watson ہے جو کہ Customer Service پر پوچھے جانے والے سوالات کو سمجھ بھی سکتا ہے اور ان کے جواب بھی دیتا ہے۔Decision ManagementDecision Management ایک ایسا کمپیوٹر بیسڈ نظام ہے جو کہ AI یعنی Artificial Intelligence کا معاون ہے اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مسائل کے حل کے لیے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ جدید ترین کاروبار اور ادارے اس کو استعمال کر رہے ہیں ان کی مدد سے تازہ ترین معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور ان معلومات کو پروسس کروایا جاتا ہے۔ یہ تمام معلومات کسی بھی ادارے کے ساتھ روابطہ رکھنے والے اداروں یا انسانوں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔Decision Management System انسانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اکٹھا کیا جانے والا سارا ڈیٹا پروسس کروا کر اس بات کا اندازہ کر سکیں کے مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو بہت سے سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ترین ادارے اس کو روز استعمال کر رہے ہیں۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ہمارے مبائل فون پر ہم سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کرتے ہیں یعنی فیس بک، انسٹا گرام، گوگل سرچ یا یوٹیوب وغیرہ اس کے علاوہ ہمارے فون سے ہمارے علاقے اور ہمارے سفر کی معلومات بھی ہمارا فون سیو کرتا رہتا ہے اس کے بعد کچھ ہی دن میں ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں وہی ہمیں ہمارے مبائل پر خودکار انداز میں بتایا جا رہا ہے۔یہی وہ نظام ہے جسے ہم AI اور اس کی ٹیکنالوجیز کہہ سکتے ہیں۔ ہمارا مبائل خودکار انداز میں ہمارے ڈیٹا کو سمجھتا رہتا ہے اور ہمیں اس کے مطابق فیصلہ کر کے مزید ڈیٹا دکھاتا ہے۔خواتین جو اپنے مبائل پر زیادہ تر شاپنگ وغیرہ کے سلسلہ میں سرچ کرتی ہیں انہیں اسی طرح کا ڈیٹا دکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ ڈرامے اور میک اپ وغیرہ کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔اسی طرح ہمارے مبائل فون ہمیں ہمارے علاوقے کا درجہ حرارت بتاتے ہیں۔ موسم کا حال بتاتے ہیں اور سیٹلائٹ کے ذریعہ اکٹھا ہونے والے ڈیٹا کو پروسس کر کے سمجھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ بارش کس وقت ہونی ہے۔ یہ سب AI اور اس کے چیلوں کا کمال ہے۔Biometrics & Deep Learningڈیپ لرننگ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم حصہ ہے جس کی مزید لیئرز ہیں Deep Learing کی 150 سے زیادہ لیئرز ہیں جن کی مدد سے یہ نظام ڈیٹا کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کی طرح مثالوں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ڈیپ لرننگ کی مدد سے بہت بڑی سطح پر ڈیٹا پر کام کیا جاتا ہے اور زیادہ وقت صرف کر کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں ۔ DEEP Learning میں تصاویر پر منحصر ڈیٹا کو بھی سمجھا جاتا ہے اور پہچاننے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ Biometrics بھی ایسا ہی عمل ہے اس کی مدد سے انگلیوں کے نشانات لیے جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کو پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی علم فلکیات میں بھی استعمال کی جاتی ہے اس کے علاوہ افواج اسے استعمال کر کے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس کو انسانوں کی صحت یعنی ہلتھ کے محکموں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ تمام انفارمیشن کو محفوظ کر کے اس پر پروگرام چلایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اصل میں بیماری کیا ہے اور موجودہ بیماری کی مستقبل میں کیا صورت ہو سکتی ہے اس کے بعد نتائج کے مطابق ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔اگلے دس سال اور مصنوعی ذہانت – Artificial Intelligence in 10 yearsArtificial Intelligence موجودہ دور میں بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے مگر آنے والے چند سالوں میں یہ مزید ترقی کر کے ہر شعبہ زندگی میں شامل ہونے والی ہے۔ انسانوں کے زیر استعمال مبائل فون سے لیے کر جدید ترین جہازوں اور سیٹلائٹس میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔مصنوعی ذہانت نے جب سے یہ سیکھا ہے کہ سیکھنا کس طرح سے ہے اس وقت سے یہ بہت تیزی سے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں اس کا استعمال کروبار میں صحت کے محکموں میں سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔Text based مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ ChatGPT-3 اس کی ایک اہم مثال ہے اس کے علاوہ Google Ai, Dalle-3 اور ChatGPT-4 وغیرہ ہیں ان جدید سافٹویئرز کے متعلق آپ ہماری ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں ان کے ربط یہ ہیں:-How to use ChatGPT in Pakistanاس کے علاوہ آپ اسی حوالے سے What is ChatGPT in Urdu یہ تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مزید معلومات کیلئے فالو کریں 👉
Sunday, 28 July 2024
Piles/ Hemorrhoid. بواسیر کیا ہے اور اسکا حل ؟ بواسیر ایک ایسی حالت ہے جس میں کسی وجہ سے مریض کے مقعد یا ملاشی کے نچلے حصے کی رگیں ویریکوز رگوں کی طرح سوج جاتی ہیں۔ یہ ایک عام مسلئہ ہے، بواسیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں میں پایا جاتا ہے۔زیادہ تر دو قسم کے بواسیر ہوتے ہیں۔ اندرونی بواسیر وہ ہیں جو ملاشی کے اندر بنتی ہیں۔ جبکہ بیرونی بواسیر وہ ہیں جو مقعد سے باہر پہنچتی ہیں۔بواسیر کی علاماتبواسیر کی علامات ان کی اقسام میں مختلف ہوتی ہیں۔بیرونی بواسیر وہ وہ ہیں جو مقعد کے باہر تیار ہوتے ہیں۔ ان کی علامات یہ ہیں؛ جیسا کہ 1:مقعد کے ارد گرد خارش کا ہونا 2: مقعد کے علاقے میں جلن کا ہونا 3: درد یا تکلیف کا ہونا 5: اور مقعد کے ارد گرد سوجن کا ہونا6: خون کا بہنا7. کمزوری محسوس ہونا وغیرہ وغیرہ اندرونی بواسیر یہ وہی ہیں جو ملاشی کے اندر تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ تر وہ علامات کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ تاہم، جب آپ آنتوں کی حرکت کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں یا پاخانہ کرتے ہیں تو یہ درج ذیل علامات کا سبب بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ 1:پاخانہ کے ساتھ خون آنا۔ 2:خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔3:درد اور جلن بھی ہو سکتی ہے ۔ تھرومبوزڈ بواسیرایک تھرومبوزڈ بواسیر خون کے نیچے آنے کی وجہ سے مقعد کے باہر تھرومبس بناتا ہے۔ عام طور پر، بیرونی بواسیر تھرومبوزڈ بواسیر میں بدل جاتی ہے۔ اور یہ علامات کو ظاہر کرتا ہے؛ جیسا کہ 1:مقعد کے علاقے میں شدید درد کا ہونا2:مقعد کے علاقے میں سوجن کا ہونا 3: مقعد کے قریب سخت گانٹھ کا ہونا وغیرہ اسکی عام علامتیں ہیں ۔بواسیر کے ساتھ منسلک علامتیںکچھ مریضوں کو بخار بھی ہو سکتا ہے اور کچھ مریضوں کو بدہضمی ،گیس، پیٹ یا معدے میں درد، مڑور ، اور وزن میں کمی ، کمزوری ڈیپریشن وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔بواسیر کی وجوہات / رسک فیکٹر 1:دائمی قبض ہونا، یہ ایک بڑی وجہ ہے بواسیر کی۔۔2: کم فائبر والی غذا کھانا3: زیادہ دیر تک بھاری وزن اٹھانا۔4: دائمی اسہال ہونا5: مقعد کا جماع کرنا 6: موٹاپا ہونا7: حاملہ خواتین اور زیادہ عمر والے افراد میں بھی بواسیر کے زیادہ امکان ہوتے ہیں ۔بواسیر کی پیچیدگیاںاگر بواسیر کا بروقت علاج نہ کیا جائے ،تو درج ذیل مریض کو پیچیدگیاں لاحق ہو سکتی ہیں جیساکہ 1: خون کی کمی- مقعد کے ذریعے طویل مدتی خون کا بہنا خون کی کمی کا باعث بن سکتی ہے-2:گلا گھونٹنے والا بواسیر- جب کسی اندرونی بواسیر کو خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے، تو یہ انتہائی درد اور تکلیف کا باعث بنتا ہے- اس حالت کو بواسیر کا گلا گھونٹنا کہتے ہیں۔3:خون کا جمنا- یہ بہت کم ہوتا ہے کہ بواسیر تھرومبس بنا سکتا ہے۔ یہ جان لیوا نہیں ہے۔ لیکن یہ انتہائی تکلیف دہ ہے. روک تھامبواسیر سے بچنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر ضرور عمل کریں ۔ اپنے پاخانے کو نرم رکھنے کے لیے وافر مقدار میں پانی پئیں، کھیرے، خربوزے اور بلک پر مشتمل پھل کھائیں۔ فائبر سے بھرپور غذا ضرور کھانی چاہیے کیونکہ یہ قبض کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔ کیونکہ 80 پرسنٹ سے زیادہ دائمی قبض ہی بواسیر کا سبب بنتی ہے۔ علاج علاج اور تشخیص کےلئے ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔ کیونکہ پاخانے کے راستے خون نکلنے کی اور درد سوجن کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں باقی بواسیر کا علاج بواسیر کی سٹیج کے حساب سے ہوتا ہے ۔ ٹوٹل چار سٹیج ہوتی ہیں اور آخری دو سٹیج میں زیادہ تر سرجری کی جاتی ہے, باقی پہلی دو سٹیج کی بواسیر کو غذائی پرہیز اور مختلف میڈیسن سے کنٹرول یا علاج کیا جاتا ہے۔
Friday, 26 July 2024
عورت کیلئے ایک شادی کا حکم کیوں دیا گیا؟عورت کیلئے ایک شادی کا حکم کیوں دیا گیا؟ سائنس بھی اسلام کے احکامات کی تائید پر مجبور ہو گئی..ایک ماہرِ جنین یہودی(جو دینی عالم بھی تھا) کھلے طور پر کہتا ہے کہ روئے زمین پر مسلم خاتون سے زیادہ پاک باز اور صاف ستھری کسی بھی مذھب کی خاتون نہیں ہےپورا واقعہ یوں ہے کہ البرٹ آئینسٹاین انسٹی ٹیوٹ سے منسلکایک ماہرِ جنین یہودی پیشوارابرٹ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا جس کا واحد سبب بنا قرآن میں مذکور مطلقہ کی عدت کے حکم سے واقفیت اور عدت کیلئے تین مہینے کی تحدید کے پیچھے کارفرما حکمت سے شناسائی اللہ کا فرمان ہے’’والمطلقات یتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء[البقرة:228]”م’’طلقات اپنے آپکو تین حیض تک روکے رکھیں”‘‘اس آیت نے ایک حیرت انگیز جدید علم ڈی این اے کے انکشاف کی راہ ہموار کی اور یہ پتا چلا کہ مرد کی منی میں پروٹین دوسرے مرد کے بالمقابل 62 فیصد مختلف ہوا کرتی ہےاور عورت کا جسم ایک کمپیوٹر کی مانند ہے جب کوئی مرد ہم بستری کرتا ہے تو عورت کا جسم مرد کے تمام بیکٹریاز جذب ومحفوظ کر لیتا ہے۔اس لئے طلاق کے فوراً بعد اگر عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے یا پھر بیک وقت کئی لوگوں سے جسمانی تعلقات استوار کرلے تو اس کے بدن میں کئی ڈی این اے جمع ہو جاتے ہیں جو خطرناک وائرس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور جسم کے اندر جان لیوا امراض پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔سائنس نے تحقیق کی کہ طلاق کے بعد ایک حیض گزرنے سے 32سے35 فیصد تک پروٹین ختم ہو جاتی ہےاور دوسرا حیض آنے سے 67 سے 72 تک آدمی کا ڈی این اے زائل ہو جاتا ہےاور تیسرے حیض میں 99.9%کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور پھر رحم سابقہ ڈی این اے سے پاک ہو جاتا ہے۔اور بغیر کسی سائڈ افیکٹ و نقصان کے نیا ڈی این اے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ایک طوائف کئی لوگوں سے تعلقات بناتی ہے جس کے سبب اس کے رحم میں مختلف مردوں کے بیکٹریاز چلے جاتے ہیں اور جسم میں مختلف ڈی این اے جمع ہو جاتے ہٰیں۔اور اسکے نتیجے میں وہ مہلک امراض کا شکار بن جاتی ہےاور رہی بات متوفی عنہا کی عدت تو اس کی عدت طلاق شدہ عورت سے زیادہ ہے کیونکہ غم و حزن کی بناء پر سابقہ ڈی این اے جلدی ختم نہیں ہوتا اور اسے ختم ہونے کے لئے پہلے سے زیادہ وقت درکار ہے اور اسی کی رعایت کرتے ہوئے۔ ایسی عورتوں کےلئے چار مہینے اور دس دن کی عدت رکھی گئی ہے۔۔فر مان الہی ہے’’والذين يتوفون منكم و يذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر و عشرا[البقرة:٢٣٤]‘‘”اور تم میں سے جس کی وفات ہو جائے اور اپنی بیویاں چھوڑے تو چاہیے کہ وہ چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں“اس حقیقت سے راہ پاکر ایک ماہر ڈاکٹر نے امریکہ کے دو مختلف محلوں میں تحقیق کی۔۔ایک محلہ جہاں افریقن نژاد مسلم رھتے ہیں وہاں کی تمام عورتوں کے جنین میں صرف ایک ہی شوہر کا ڈی این اے پایا گیاجبکہ دوسرا محلہ جہاں اصل امریکن آزاد عورتیں رھتی ہیں ان کے جنین میں ایک سے زائد دو تین لوگوں تک کے ڈی این اے پائے گئے۔۔جب ڈاکٹر نے خود اپنی بیوی کا خون ٹیسٹ کیا تو چونکا دینے والی حقیقت سامنے آئی کہ اس کی بیوی میں تین الگ الگ لوگوں کے ڈی ان اے پائے گئے.جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی بیوی اسے دھوکہ دے رہی تھی اور یہ کہ اس کے تین بچوں میں سے صرف ایک اس کا اپنا بچہ ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر پوری طرح قائل ہوگیا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو عورتوں کی حفاظت اور سماج کی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی بھی کہ مسلم عورتیں دنیا کی سب سے صاف ستھری پاک دامن وپاک باز ہوتی ہیں۔
Tuesday, 16 July 2024
ابلیس کی نسل کی ابتدا جس جن سے ہوئی اس کا نام "طارانوس” کہا جاتا ہے۔ طارانوس ابلیس سے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال قبل دنیا پہ موجود تھا۔ طارانوس کی نسل تیزی سے بڑھی کیونکہ ان پہ موت طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ بیماری لگتی تھی البتہ یہ چونکہ آتشی مخلوق تھی تو سرکشی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس جنوں کی نسل کو پہلی موت فرشتوں کے ہاتھوں پیدائش کے 36000 سال بعد آئی جس کی وجہ سرکشی تھی یہاں پہلی بار موت کی ابتدا ہوئی اس سے پہلے موت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں "چلپانیس” نامی ایک نیک جن کو جنات کی ہدایت کا ذمہ سونپا گیا اور وہ ہی شاہ جنات قرار پائے اس کے بعد "ہاموس” کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ ہاموس کے دور میں ہی "چلیپا” اور "تبلیث” کی پیدائش ہوئی۔ یہ دونوں اپنے وقت کے بے حد بہادر جنات تھے اور ان کی قوم نے چلیپا کو شاشین کا لقب اس کے شیر کے جیسے سر کی وجہ سے دیا۔ ان دونوں جنات کی وجہ سے ساری قوم کہنے لگ گئی کہ ہمیں اس وقت تک کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک شاشین اور تبلیث ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان دونوں کی وجہ سے قوم کے جنات آسمان تک رسائی کرنے لگے اور تیسرے آسمان پر جا کر شرارت کر آتے تھے۔ ایسے میں حکم الٰہی سے فرشتوں نے ان پر حملہ کیا اور عبرتناک شکست دی۔ اسی دوران جب "عزرائیل علیہ السلام” کو ابلیس نے دیکھا تو سجدہ میں گر گیا۔ابلیس شروع سے ہی ایک نڈراورذہین بچہ تھا اس میں باپ کی بہادری اور ماں کی مکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس نے ملائکہ کے ساتھ جا کر توبہ کا باقاعدہ اعلان کیا اور پھر فرشتوں سے فیض علم حاصل کرنے لگا۔ علم حاصل کرنے اور ریاضت کا یہ عالم تھا کہ پہلے آسمان پہ "عابد”، پھر دوسرے آسمان پر "زاہد”، تیسرے آسمان پر "بلال”، چوتھے آسمان پر "والی”، پانچویں آسمان پر "تقی” اور چھٹے آسمان پر "کبازان” کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ فرشتوں کو سکھاتا تھا۔ ساتویں آسمان پہ ابلیس بقع نور میں رہا۔ ہفت افلاک کے سب ملائکہ کا معلم قرار دیا گیا یہاں تک پہنچ کر ابلیس نے اپنی عاجزی اور ریاضت کی انتہا کردی۔کم و بیش ابلیس نے چودہ ہزار سال عرش کا طواف کیا یہاں اس نے فرشتوں میں استاد/سرادر "عزازیل” کے نام سے شہرت پائی کم و بیش تیس ہزار سال مقربین فرشتوں کا استاد رہا۔ ابلیس کے درس و وعظ کی میعاد کم و بیش بیس ہزار سال ہے۔ فرشتوں کے ساتھ قیام کی مدت کم و بیش اسی ہزار سال ہے۔ابلیس کو حکم ہوا کہ داروغہ جنت "رضوان” کی معاونت کرو اور اہل جنت فرشتوں کو اپنے علم و فضل سے بہرہ ور کرو یوں ابلیس کو جنت میں داخلے کا پروانہ مل گیا اور جنت میں بھی اپنے علم سے داروغہ جنت رضوان کو سیراب کیا اور یوں جنت رضوان کی کنجیاں ابلیس کے پاس رہیں۔ روایات کے مطابق ابلیس 40 ہزار سال تک یہ فرض خزانچی انجام دیتا رہا۔ یہی وہ مقام اعلیٰ ترین جنت رضوان ہی تھا جہاں ابلیس نے پہلی بار بادشاہت کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ اس وقت ابلیس کے پاس ہفت اقلیم، افلاک، جنت و دوزخ سب کا اختیار تھا اور اس نے چپے چپے پہ سجدے کیے تھے۔ مگر یہاں پہ ابلیس عاجزی سے پہلی بار بھٹکا اور خود کو بادشاہ بنانے اور رب بن جانے کے خواب دیکھنا شروع کیے۔ کئی ملائکہ کے سامنے ربوبیت کی بابت بات بھی کی مگر ملائکہ کے انکار کے سبب چپ ہو گیا اور یوں نظام چلتا رہا مگر اس سب سے اللہ تعالیٰ کی ذات بے خبر نہ تھی۔پھر آدم علیہ السلام کی تخلیق کا مرحلہ آیا جیسے قرآن مجید میں واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ابلیس آدم علیہ السلام کو جزو جزو مرحلہ وار مختلف اقسام کی مٹی سے تخلیق ہوتا دیکھتا رہا اور چپ رہا مگر جیسے ہی اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا نائب ہے تو اس نے واویلا کیا عبادات اور اطاعت کا واسطہ دیا پھر طنز کیا کہ مجھ جتنی عبادت کس نے کی ہے اور آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوا۔تب اللہ تعالیٰ نے کہا نکل جا شیطان مردود۔لعنتی قرار پانے کے بعد ابلیس نے اپنی عبادات اور ریاضت کا رب کریم سے عوض مانگا جس پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ایک وقت معلوم تک مہلت فراہم کی۔ جس پر ابلیس نے اولادِ آدم کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اپنا پیروکار بنانے کا دعویٰ کیا جس پر رب کریم نے فرمایا کہ جو متقی اور پرہیزگار ہوں گے تو ان کو گمراہ نہیں کر پائے گا۔ابلیس کے اس لعنتی کام میں اس کے پانچ ساتھی ہیں۔1۔ ثبر » اس کے اختیار میں مصیبتوں کا کاروبار ہے جس میں لوگ ہائے واویلا کرتے ہیں گریبان پھاڑتے ہیں منہ پہ طمانچے مارتے ہیں اور جاہلیت کے نعرے لگاتے ہیں۔2۔ اعور » یہ لوگوں کو بدی کا مرتکب کرتا ہے اور بدی کو لوگوں پہ اچھا اور پسندیدہ کر کے دکھاتا ہے۔3۔ مسوّط » یہ کزب، جھوٹ اور دروغ پہ مامور ہے جسے لوگ کان لگا کر سنیں۔ یہ انسانوں کی شکل اپنا کر ان سے ملتا ہے اور انھیں فساد برپا کرنے کی جھوٹی خبریں سناتا ہے۔4۔ داسم » یہ آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر والوں کے عیب دکھاتا ہے اور آدمی کو گھر والوں پہ غضبناک کرتا ہے۔5۔ زکنیور » یہ بازاروں کا مختار ہے بازاروں میں آ کر یہ بددیانتی کے جھنڈے گاڑتا ہے۔ بازاروں میں برائیوں اور فحاشی پہ ورغلاتا ہے۔ابلیس کا آدم علیہ السلام کو سجدے سے انکار کا جزبہ حسد تھا کہ جس نے اسے مجبور کیا کہ میری جگہ آدم (خاک) کو کیوں ملی۔ یہ اس کا جزبہ تکبر اور غرور تھا کہ میں اعلیٰ ہوں اور اس ایک سجدے کے انکار کی بات نہیں تھی بات اطاعت سے سرکشی کی تھی، شرک کی تھی۔ ابلیس نے دل میں خود کو "رب” مان لیا تھا۔ اسی شرک عظیم کی بدولت ابلیس تا قیامت رسوا و لعنتی ٹھہرا اور اولادِ آدم کو بھٹکانے کیلئے آزاد قرار پایا۔حاصل نتیجہ یہ ٹھہرہ کہ رب کریم کو انسان کی عبادات عاجزی علم و دانش سے کچھ غرص نہ ہے۔ رب کریم صرف دیکھتا ہے کہ دل میں اطاعت و فرمانبرداری کتنی ہے۔ اسی بنیاد پہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے درجے قرار پاتے ہیں۔منابع و ماخذ: صحیح بخاری باب الفتن و اشراط، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد،کتاب شرح سیوطی، تفسیر کبیر امام رازی، مستدرک حاکم، کتاب حکم، نہج البلاغہ سید رضی، شرح نہج البلاغہ ابن حدید، کتاب غرر الحکم ابن ہشام، کتاب توحید شیخ صدوق
Thursday, 4 July 2024
بواسیر۔۔۔Hemorrhoids / Piles...بڑی آنت کے آخری حصے یعنی مقعد (anus) کے اندر خون کی چھوٹی چھوٹی نالیاں ہوتی ہیں۔ یہ نالیاں اردگرد کے پٹھوں اور خلیوں کو پاخانے کے دباؤ کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ان نالیوں کو ریشوں نے گھیرا ہوتا ہے جو ڈھیلے پڑ جائیں تو نالیاں پھول جاتی ہیں اور ان کی اوپری جلد پتلی ہو جاتی ہے۔ سائز بڑھنے اور پھولنے کی وجہ سے انہیں بواسیر (piles) کہتے ہیں۔بواسیر کی وجوہات...Causes Of Hemorrhoids...یہ مسئلہ مردوں اور خواتین دونوں میں پایا جاتا ہے تاہم مردوں میں اس کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ مرد حضرات میں یہ مسئلہ 25 سے 40 سال کی عمر میں جبکہ خواتین میں بالعموم حمل کے دوران ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:٭ موروثیت٭ موٹاپا٭ بہت زیادہ دیر کھڑے رہنا٭ بھاری کام کرنا٭ سگریٹ نوشی٭ کیفین کے حامل مشروبات کا زیادہ استعمال٭ پروسٹیٹ کےمسائل٭ دائمی قبض یا کوئی ایسی بیماری جس سے بڑی آنت پر دباؤ پڑےمرض کی علامات...Signs and Symptoms...بواسیر کے چار درجا ت ہوتے ہیں اور علامات کا انحصار بھی انہی درجوں پر ہوتا ہے۔ مرض کے آغاز میں پاخانے میں خون آتا ہے، موہکے باہر آتے ہیں مگر خود ہی اندر چلے جاتے ہیں اور اس جگہ خارش اور سوجن ہوتی ہے۔ آخری درجے میں یہ باہر ہی رہتے ہیں جس کے نتیجے میں غیر معمولی درد ہو سکتا ہے اور سرجری کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔تشخیص اور علاج.....Diagnosis and Treatment....اس کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے مریض کی ہسٹری لی جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر پروکٹوسکوپی (proctoscopy) کے ذریعے بڑے پیشاب کی نالی کا معائنہ کیا جاتا ہے۔بعض مریض سرجری کے ڈر سے ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں جاتے حالانکہ ہر بواسیر کا علاج آپریشن نہیں ہے۔ ابتدائی مرحلے میں 60 سے 70 فی صد افراد میں یہ ادویات، انجیکشن یا ربر بینڈ سے ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ ربر بینڈ سے خون کا بہاؤ کم ہوتا ہے اور بواسیر سکڑ کر گر جاتی ہے۔ آخری درجے میں میں سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے۔بچاؤ کی تدابیر...Precautions....٭ متوازن غذا ء کھائیں جس میں پھل، سبزیاں، دالیں اور گوشت شامل ہوں۔٭ آٹا چوکر سمیت استعمال کریں۔ اس کے علاوہ برآن بریڈ، براؤن چاول اور ایسے پھل اور سبزیاں کھائیں جن سے فائبر حاصل ہو سکے۔ مثلاً سیب، کیلا، گرما، کینو اور مسمی وغیرہ۔٭ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔٭ بازار کے کھانے، چٹ پٹی اور مصالحہ دار اشیاء، میدے سے بنی چیزیں، پیزا اور برگر وغیرہ کم کھائیں۔٭ دائمی قبض کا علاج کروائیں۔ اس سے بچاؤ کے لیے زیادہ پانی، سبزیوں اور سلاد کا استعمال کریں۔٭ کھانے اور سونے کے درمیان ایک گھنٹے کا وقفہ لازماً رکھیں۔ کھانا کھا کر فوراً لیٹنے سے گریز کریں۔٭ رفع حاجت کے بعد پانی استعمال کریں اور مقعد کو نم ٹشو سے صاف کر لیں تاکہ انفیکشن نہ ہو۔٭ اگر درد ہو تو اسے کم کرنے کے لیے 15 منٹ نیم گرم پانی میں بیٹھیں۔شکریہ والسلام ڈاکٹر شاہد عرفان...
Wednesday, 26 June 2024
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب ”کالکی اوتار“ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں يہ بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس "کالکی اوتار" کا تذکرہ ملتا ہے، وہ آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا، تو وہ اب تک جیل میں ہوتا اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی، مگر اس کے مصنف "پنڈت وید پرکاش" برہمن ہندو ہیں۔ اور وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ سنسکرت زبان کے ماھر اور معروف محقق اسکالر ہیں۔ڈاکٹر وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور ومعروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا تھا، جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں۔برھمن پنڈت وید پرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں دراصل ايک عظیم رہنما کا ذکر ملتا ہے۔ جسے ”کالکی اوتار“ کا نام دیا جاتا ہے، سو ڈاکٹر وید پرکاش گہری تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ھے کہ اس کالکی اوتار سے مراد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں، ان کو اب کسی اور کالکی اوتار کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کیلئے انہیں محض اسلام قبول کرنا ہے، اور آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے، جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔اپنے اس دعوے کی دليل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب”وید“ سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کیئے ہیں۔1۔ ”وید" کتاب میں لکھا ہے کہ(( کالکی اوتار بھگوان کاآخری اوتار ہوگا، جو پوری دنیا کو راستہ دکھائے گا۔ ))ان کلمات کا حوالہ دينے کے بعد پنڈت وید پرکاش لکھتے ہیں کہ اس پیش گوئی کا اطلاق صرف حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔2۔”ویدوں“ کی پیش گوئی کے مطابق (( کالکی اوتار ايک جزیرے میں پیدا ہوں گے))اور يہ عرب علاقہ ھی ہے، جسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔3۔ مقدس کتاب وید میں لکھا ہے کہ (( ”کالکی اوتار“ کے والد کا نام ’‘وشنو بھگت“ اور والدہ کا نام ”سومانب“ ہوگا۔))جبکہ سنسکرت زبان میں ”وشنو“ ﷲ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” بھگت“ کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں ”وشنو بھگت“ کا مطلب ﷲ کا بندہ یعنی ”عبد ﷲ“ ہوا۔اور سنسکرت میں ”سومانب“ کا مطلب "امن" ہے, جو کہ عربی زبان میں ”آمنہ“ ہو گا، اور آخری رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے والد کا نام عبد ﷲ اور والدہ کا نام آمنہ ہی ہے۔4۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ((”کالکی اوتار“ زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ اور وہ اپنے قول وقرار میں سچا اور دیانتدار ہو گا۔ ))اور يہ دونوں پھل حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کو مرغوب تھے۔ جبکہ آپ سچائی اور دیانتداری میں تو اس حد تک معروف تھے کہ مکہ میں محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کے لقب استعمال کيے جاتے تھے۔5۔ ”وید “ کے مطابق ((”کالکی اوتار“ اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہوگا)) اور يہ بھی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی پورے عرب میں عزت اور شام وعراق میں پہچان تھی۔6۔ہماری کتاب کہتی ہے کہ ((بھگوان ”کالکی اوتار“ کو اپنے خصوصی قاصد کے ذريعے ايک غار میں پڑھائے گا۔)) اس معاملے میں يہ بھی درست ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں ﷲ تعالی نے غار حراء میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذريعے تعلیم دی۔7۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق ((بھگوان ”کالکی اوتار“ کو ايک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔))اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ”براق پر معراج کا سفر“ اس پیش گوئی کا مصداق بن کر اسے آپ کی بابت ھی درست ثابت کرتا ہے؟8۔ نیز لکھا ھے کہ ((ہمیں یقین ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار“ کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔))اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں ﷲ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔9۔ ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق یہ پیش گوئی ملتی ھے کہ((” کالکی اوتار“ گھڑ سواری، تیز اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہوگا۔))پنڈت وید پرکاش نے اس پیش گوئی پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ جو بڑا اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "گھوڑوں،تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکاہے۔اب تو ٹینک، توپ اور میزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا يہ عقل مندی نہیں ہے کہ ہم اس دور جدید میں تلواروں، نیروں اور برچھیوں سے مسلح”کالکی اوتار“ کا انتظار کرتے رہ جائیں۔ حالانکہ حقیقت يہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ”کالکی اوتار“ کے واضح اشارے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک، توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیر انداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے ۔منقول
Tuesday, 25 June 2024
زیتون کی کاشت .زیتون کا باغ لگائیں .ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ایک مرتبہ زیتون کا باغ #olivegarden لگا لیں تو وہ کم از کم ایک ہزار سال تک پھل دیتا رہے گا. زیتون کن کن اضلاع میں لگایا جاسکتا ہے؟ زیتون کے باغات پنجاب سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں. خیبر پختونخوا سے گلگت بلتستان سے لیکر سندھ ۔ سندھ سے لیکر بلوچستان حتی کہ چولستان میں بھی زیتون کی کاشت ہو سکتی ہے.. نوٹ جن علاقوں میں جنگلی زیتون۔ کہو۔ سینزلہ۔ عتمہ۔ تنگ برگہ۔ گونیر۔ خونہ۔ کاؤ ۔ خت ۔خن۔ سرسینگ۔ شیجور۔ سینجور۔ شون ۔۔ پایا جاتا ہے اس سے آٹھ سے دس پرسنٹ تیل نکالا جا سکتا ہے جو کھانے پینے میں قابل استعمال ہے پاکستان میں نو کڑوڑ جنگلی زیتون کے درخت پائے جاتے ہیں نوٹ گندم کی کاشت کے علاقوں میں کھیتوں کی بجائے کھیتوں کے کناروں رکھوں ڈیروں سکول کالجز مسجد مدرسوں پارکوں میں زیتون کے پودے لگائیں زیتون کس طرح کی زمین میں لگایا جاسکتا ہے؟ زیتون کا پودا ہر طرح کی زمینوں مثلاََ ریتلی، کچی، پکی، پتھریلی، صحرائی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے. صرف کلر والی زمین یا ایسی زمینیں جہاں پانی کھڑا رہے، زیتون کے لئے موزوں نہیں ہیں. زیتون کو کتنے پانی کی ضرورت ہے؟ زیتون کے پودے کو شروع شروع میں تقریبا دس دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. یا بلحاظ موسم پانی کی ترتیب اپ بڑھا گھٹا سکتے ہیں یعنی جبھ پودے کو پانی کی ضرورت ہو تبھ لگائیں تاکہ پھل اچھا آئے جیسے جیسے پودا بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی جاتی ہے. دو سال کے بعد زیتون کے پودے کو 20 سے 25 دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. زیتون کے پودے کب لگائے جا سکتے ہیں؟ زیتون کے پودے موسمِ بہار یعنی فروری، مارچ , اپریل یا پھر مون سون کے موسم یعنی اگست، ستمبر ، اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں. زیتون کے پودے لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ زیتون کا باغ لگاتے ہوئے پودوں کا درمیانی فاصلہ کم از کم 18*18 فٹ ہونا ضروری ہے. اس طرح ایک ایکڑ میں تقریبا 150 پودے لگائے جا سکتے ہیں. یہ بھی دھیان رہے کہ زیتون کے پودے باغ کی بیرونی حدود سے تقریباََ 8 تا 10 فٹ کھیت کے اندر ہونے چاہیئں.پودے کیسے لگانے چاہئیں؟؟ پودے لگانے کے لئے دو فٹ گہرا اور دو فٹ ہی چوڑا گڑھا کھودیں. تین لئرز میں گڑھے کے چاروں کونوں پر فینائل کی گولیاں رکھیں تاکہ پودے دیمک سے محفوظ رہیں یا بائر جرمنی کی دیمک کش دوائ استعمال کریں اس کے بعد زرخیز مٹی اور بھل سے گڑھوں کی بھرائی کر دیں. پہلے مرحلے میں اپکے گھڑے میں پانی اچھی طرح ہونا چاہئے تاکہ پودے کی نمی ارد گرد کی مٹی چوس نا لے یا پودا لگانے سے ایک ہفتہ پہلے تیار شدہ گھڑوں کو اچھی طرح پانی لگائیں اب زیتون کا پودا لگانے کے لئے آپ کی زمین تیار ہے. پودے کو احتیاط سے شاپر سے نکالیں یا صرف شاپر کا نچلا حصہ کاٹ کر گاچی کو مٹی میں دبائیں تاکہ گاچی ٹوٹ کر جڑوں کو ہوا نا لگے . گڑھے کی مٹی کھود کر پودا لگائیں اور اس کے بعد پودے کے چاروں طرف مٹی کو پاؤں کی مدد سے دبا دیں تاکہ پودا مستحکم ہو جائے. چھوٹے پودے کا تنا ذرا نازک ہوتا ہے اس لئے پودے کو پلاسٹک کے پائپ سے سہارا دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے. سہارے کے لئے لکڑی کا استعمال نہ کریں کیونکہ لکڑی کو دیمک لگ سکتی ہے جو بعد میں پودے پر بھی حملہ آور ہو سکتی ہے. زیتون کی کون کون سی اقسام کاشت کی جا سکتی ہیں؟ نمبر 1. لسینو نمبر 2. گیملک نمبر 3. پینڈولینو نمبر 4. نبالی نمبر 5. آربو سانا نمبر 6. کورونیکی نمبر 7. آربیقوینہ پنجاب اور سندھ کے گرم علاقوں سمیت دیگر گرم علاقوں کے لئے درج ذیل اقسام کاشت کرنی چاہئیں. نمبر 1. آربو سانا نمبر 2. کورونیکی نمبر 3. آربیقوینہ بلوچستان کے لیے منظور شدہ اقسام 1.,Frantouo2.Arbiquina3.Arbasona4.,Koronoki5.Leceno6.Hamdi7.Ojabalanka8.,Otobartica9.Coratina10.Jerboi.یاد رکھیں زیتون کا باغ لگاتے وقت کم از کم دو یا دو سے زائد اقسام لگانی چاہئیں اس طرح بہتر بارآوری کی بدولت پیداوار اچھی ہوتی ہے. زیتون کے باغ کو کھادیں کتنی اور کون کونسی ڈالنی چاہئیں؟ کھاد دوسرے سال کے پودے کو ڈالیں. دوسرے سال کے پودے کے لئے: گوبر کی کھاد . . . . 5 کلوگرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 5 کلو گرام کا اضافہ کریں نائٹروجن کھاد . . . . 200 گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 100 گرام کا اضافہ کریں فاسفورس کھاد . . . . 100گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں پوٹاش کھاد . . . . . . 50 گرام فی پودا ڈالیں . . . . .. اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں زیتون کے پودے کو پھل کتنے سال بعد لگتا ہے؟ عام طور پر 3 سال میں زیتون کے پودے پر پھل آنا شروع ہو جاتا ہے. زیتون کے پودے پر پھل پہلے سبز اور پھر جامنی ہو جاتا ہے۔ سبز پھل اچار اور جامنی تیل نکالنے کے لئے استعمال ہوتا ہے زیتون کے باغ سے فی ایکڑ کتنی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے؟ زیتون کے ایک پودے سے پیداوار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ نے پودے کی دیکھ بھال کس طرح سے کی ہے. اچھی دیکھ بھال کی بدولت ایک پودے سے 60 کلوگرام یا اس سے بھی زیادہ زیتون کا پھل با آسانی حاصل ہو سکتا ہے. لیکن اگردیکھ بھال درمیانی سی کی گئی تو 40 کلوگرام فی پودا پھل حاصل ہو سکتا ہے. انتہائی کم دیکھ بھال سے پودے کی پیداوار 25 سے 30 کلوگرام فی پودا تک بھی گر سکتی ہے. لہذا ماہرین زیتون کے باغات کی فی ایکڑ پیداوار کا حساب لگانے کے لئے بھرپور 50 کلو گرام فی پودا پیداوار کو سامنے رکھتے ہیں. اس طرح ایک ایکڑ سے 7500 کلوگرام زیتون کا پھل حاصل ہو سکتا ہے. ایک ایکڑ کے پھل سے کتنا تیل نکل آتا ہے؟ بہتر یہ ہے کہ زیتون کے کاشتکار پھل کو بیچنے کی بجائے اس کا تیل نکلوائیں اور پھر اس تیل کو مارکیٹ میں فروخت کریں. زیتون کے پھل سے 20 سے 30 فی صد کے حساب سے تیل نکل آتا ہے. 20 سے تیس فیصد کے حساب سے ایک ایکڑ زیتون کے پھل 7500 کلوگرام ) سے تقریبا 1500 کلو گرام تیل نکل آتا ہے۔۔(پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے شکریہ ) ....نوٹ ۔۔صرف منظور شدہ نرسریوں سے منطور شدہ اقسام کے پودے لگائیں۔۔لوکل پودوں پر پھل نہی لگے گا ۔ ۔۔شکریہ۔۔۔میاں احمد علی۔ گرین فاونڈیشن پاکستان ننکانہ صاحب۔..03008836857 whatsapp. مزید معلومات کے لیے ہمارے اس پیج کو جوائن فالو لائک کیجے,,,,,,,,,, ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,,, ,,,,,,,,,,, /////////////////////////////////////جنت کا مبارک درخت ( مکمل مضمون) پاکستان میں زیتون ”شجرة مبارکہ“ کی کاشت ۔السلام علیکم دوستو۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ زیتون کا تیل سالن کے طور پر استعمال کرو اور اسے ( سر اور بدن میں ) لگاؤ ۔ یہ مبارک درخت سے حاصل ہوتا ہے ۔ صحیح ابن ماجہ پاکستان اپنی ضرورت کا صرف تیس سے پینتیس فیصد کھانے کا تیل پیدا کرتا ہے باقی تمام تیل باہر سے منگواتا ہے۔۔ اور ہر پاکستانی سالانہ اوسط چوبیس لٹیر تیل استعمال کرتا ہے جو عالمی معیار کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان میں یہ شرع انیس لیٹر ہے۔پاکستان ہر سال تین سے چار سو ارب روبے کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے بدقسمتی یہ ہے یہ تمام کھایا جانے والا تیل غیر معیاری اور نچلے درجے کا ہے۔کیا زیتون کا تیل کھانا پکانے میں تلنے میں استعمال ہو سکتا ہے؟ یہ فیصلہ کرنے میں کہ کون سا تیل کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنا ہے یا نہی ، تیل کا استحکام۔۔ "سموک" یعنی جلنے کے نقطہ سے زیادہ اہم ہے۔ زیتون کا تیل اولیک ایسڈ اور دوسرے مرکبات سے بھرپور ہوتا ہے جو انہیں بہت مستحکم بناتا ہے۔ ایکسٹرا ورجن زیتون کے تیل میں پولیفینول اور اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو تیل کے ٹوٹنے اور فری ریڈیکلز کی تشکیل سے لڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، اضافی ورجن زیتون کا تیل سب سے زیادہ مستحکم کھانا پکانے کا تیل پایا گیا ہے۔ اسکا سموک لیول مختلف ھالتوں میں 370 f سے 410 فارن ھائیٹ تک ہے۔۔۔ جو کہ بہت بلند ہے۔۔۔۔۔زیتون کا زکر قرآن مجید میں چھے جگہ آیا ہے اللہ رب کعبہ نے قران عزیز میں اسے "مبارک درخت" قرار دیا ہے۔ اور اسکے تیل کے نور کو اپنے نور سے تتشبیح دیا ہے بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِاللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[35][ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہو جائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ [35]اور قرآن عظیم میں دوسری جگہ اسکی قسم بھی کھائ ہےبِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ. وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ (1) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور تیسری جگہ فرمایا ِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِوَشَجَرَةً تَخۡرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَيۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّهۡنِ وَصِبۡغٍ لِّلۡاٰكِلِيۡنَ"اور (اسی پانی سے) طور سینا سے ایک درخت(زیتون ) اُگتا ہے جو روغن لئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کو سالن کا اسکے بارے میں جناب رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کی تعداد چالیس سے اوپر بتائ جاتی ہے(سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیتون کا تیل لگاو اور اس کا سالن بناو، کیونکہ وہ بابرکت ہے۔“ قال الشيخ الالباني: صحيح) دنیا میں زیتون کا نوے فیصد استعمال تیل کے لیے کیا جاتا باقی دس فیصد مربے اچار بنانے کے کام آتا ہے ویسے تو زیتون کے تیل کے بے شمار فائدے ہیں لیکن کچھ درج زیل ہیں بیڈ کولیسٹرول سے نجاتبلڈ پریشر سے نجات پیٹ کی چربی سے نجاتکینسر کے خلاف زبردست قوت مدافعت اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپورآنتوں کی صحت میں بہتریسوزش کو کم کرنے والی خصوصیاتاسٹروک کے خطرات میں کمیدل کی بیماریوں سے بچاؤہڈیوں کی صحت میں بہتریدماغی امراض کے خطرات میں کمیزیتون کے درخت پر خزاں نہی آتی یہ سدا بہار ہے۔ انتہائ گرم و سرد موسم کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے دنیا میں سپین اور اٹلی اسکے سب سے بڑے سپلائر ہیں۔ غیر ملکی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس اس کی کاشت کا رقبہ سپین اور اٹلی کے مقابل ڈبل سے بھی کافی زیادہ ہےشجر کاری کی اہمیت دین اسلام میں مسلمہ ہے اپ اس کی اہمیت کا اندازہ اس قول رسول کریم ﷺ سے بخوبی لگا سکتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں سبز ٹہنی ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے ۔ (مسند احمد)ارشادِ نبویؐ ہے :’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد ) ہماری تحریک کے اولین مقاصد میں ہے کہ ہم عوام کو موٹیویٹ کریں کہ وہ پاکستان کے طول و عرض کو زیتون کے پودوں سے بھر دیں جس سے پاکستان کا امپورٹ بل برائے خوردنی تیل صفر ہو جائے اور پاکستان کی عوام کو دنیا کا سب سے اعلی معیاری پراڈکٹ استعمال کو ملے۔۔۔دوستو۔۔۔غذائ بحران کے اس دور میں ہمیں نمائشی پودوں کی بجائے ذیادہ سے ذیادہ پھل دار پودے لگانے کی ضرورت ہے۔۔دوستو پھل دار درخت لگانے کی اہمیت کا اندازہ اپ رسول اقدس ﷺ کے اس مبارک قول سے لگا سکتے ہیں عطاء نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کوئی بھی مسلمان ( جو ) درخت لگاتا ہے ، اس میں سے جو بھی کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ، اور اس میں سے جو چوری کیا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جنگلی جانور اس میں سے جو کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی اس میں ( کسی طرح کی ) کمی نہیں کرتا مگر وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح مسلم۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ہے۔“(صحیح بخاری)۔ اپنی زمینوں رقبوں گھروں پارکوں گلی محلوں سکولوں کالجوں وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ زیتون کے پھل دار درخت لگائیں تاکہ اپکو سایہ بھی ملے اور پھل بھی اور ملک کو کثیر زرمبادلہ تمام دوست ایک اہم بات زہن میں رکھیں منظور شدہ نرسریوں سے زیتون کی منظور شدہ اقسام کے پودے خریدیں ورنہ لوکل پودوں پر پھل نہی لگے گا ۔ آئیے مل کر پاکستان کی جنگ لڑیں پاکستان کو سر سبز شاداب اور مضبوط بنائیں شکریہ۔۔
Monday, 24 June 2024
معذرت کے ساتھ۔۔ سب سے زیادہ بےحیا قوم لوط علیہ سلام کی قوم تھی یہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں میں دلچسپی رکھتے تھے خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط نے کہا تم یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ وہ بدنصیب بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔ اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، اور جبرائل علیہ السلام تھے پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔ حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔ تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔ کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں،؟ حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔ قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فعل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔ اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔ جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے اور بصارت ظاہر ہوگئی یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔ صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی۔۔۔کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔ صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار اور سیاہ جیل میں تبدیل کردیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحرے مردار کہا جاتا ہے جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے اور اس فحش عمل کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے!اور مجھے شرم آتی ھے یہ کہتے ھوئے کہآج ھمارے معاشرے میں یہی سب چل رہا ہے بلکہ اس قبیح کام کو قانون کی سر پرستی حاصل ہے ۔۔۔اللہ ھماری دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنانے کی عقل و عمل عطاء فرمائے ۔۔۔(واللہ اعلم)
Subscribe to:
Posts (Atom)