Monday, 14 October 2024
پاکستان کا زمینی رقبہ Land Area کتنا ہے ؟ کیا کوئی ایک بھی حکومتی محکمہ میرے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ ▫️پاکستان کا ایک لاکھ گیارہ ہزار کلو میٹر زمینی رقبہ (land area) کہاں گیا ؟▫️کیا یہ رقبہ ہم نے کسی جنگ میں گنوا دیا ؟ یا یہ رقبہ سمندر بُرد ہو گیا یا ہمارے دریا یہ زمین کھا گئے ؟ حقائق کیا ہیں ؟ ▫️حکومت اعداد و شمار جاری کرے کہ 1947 میں پاکستان کا لینڈ ایریا کیا تھا اور آج 2023 میں کیا ہے؟ اور ہمارے مُلک کی انٹرنیشنل باؤنڈریز کی لمبائی اور پوزیشن کیا ہے نیز ہماری کوسٹ لائن کی لمبائی کتنی ہے ؟ ▫️سروے آف پاکستان کا محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی سے منسٹری آف ڈیفنس کے حوالے کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ (سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ)[اس مضمون کے مصنّف سید شایان ، رئیل اسٹیٹ اینالسٹ اور پریکٹیشنر ہونے کے ساتھ اپنے نام سے منسوب اسلام آباد میں حال ہی میں قائم ہونے والے پاکستان کے پہلے پراپرٹی ریسرچ کے ادارے -SIRER- Syed Shayan Institute for Real Estate Research کے سربراہ اور .Real Estate Syndicate Inc کے فاؤنڈر اور سی ای او ہیں۔ یہ مضمون انہوں نے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی سے متعلق معلومات اور خبروں کے پورٹل ‘جائیداد آن لائن’ www.JaidadOnline.co کے لئیے تحریر کیا ہے ]وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33واں بڑا ملک ہے اور جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔لیکن مئی 2023 میں عالمی بینک (WORLD BANK) ، نے جو دنیا کے تمام ممالک کے developments Indicators کا مجموعہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ ذرائع سے مرتب کیا ہے ۔ اس میں پاکستان کا کل رقبہ 770,880 مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے ( یاد رہے کہ ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کو دنیا بھر کے ممالک کے ڈیٹا کے بارے میں سب سے authentic document تسلیم کیا جاتا ہے) اس حساب سے ہمارا 111,033 یعنی ایک لاکھ گیارہ ہزار اعشاریہ تینتس کلو میٹر رقبہ حکومت کے اپنے ہی پہلے اعداد و شمار سے کم ظاہر ہو رہا ہے؟ اور میرے لئیے یہ بہت تشویش کی بات تھی کہ کیا واقعی ہمارے ملک کا یہ رقبہ کم ہو گیا ہے یا حکومتی سطح پر کہیں اعداد و شمار کی غلطی ہوئی ہے؟ ہر دو صورتوں میں پاکستان کا اصل لینڈ ایریا ہے کتنا ؟ میں نے کئی روز گُوگل کے علاوہ دوسرے پروفیشنل search engines پر بھی جا کر اپنے سوال کا جواب تلاش کیا لیکن وہاں بھی مجھے کوئی خاص کامیابی نہ ملی چنانچہ میں نے سروے آف پاکستان کے ہیڈ آفس واقع فیض آباد راولپنڈی کے جیوگرافکل انفارمیشن سنٹر کے سربراہ محمد قاسم سے رابطہ کیا اور مُلک پاکستان کے کُل زمینی رقبہ کے بارے میں اُن سے اصل حقائق دریافت کیے کیونکہ میری دانست میں یہی وہ محکمہ ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں کا وقتا فوقتا سروے کر کے نقشے تیار کرتا اور چھاپتا ہے اور پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہے میرا یہ خیال تھا کہ اس محکمے سے زیادہ authentic معلومات اور درست جواب مجھے کہیں اور سے نہیں مل سکتا لیکن یہاں مجھے کہا گیا کہ آپ کو پاکستان کے کُل زمینی رقبے کا نہیں بتایا جا سکتا البتہ ہم آپ کو چاروں صوبوں اور اسلام آباد کا زمینی رقبہ بتا دیتے ہیں اور انہوں نے مجھے اسلام آباد اور باقی چاروں صوبوں کا زمینی رقبہ الگ الگ لکھوا دیا جو یہ ہےبلوچستان= 347,138 سکوائر کلو میٹرپنجاب= 205,030 سکوائر کلو میٹرسندھ= 140,928 سکوائر کلو میٹرکے پی کے= 101,758 سکوائر کلو میٹراسلام آباد= 901 سکوائر کلو میٹرجب میں نے ان تمام figures کو جمع کیا تو جواب آیا 795,755 سکوائر کلو میٹر ۔ یعنی سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا آفیشل زمینی رقبہ 7لاکھ 95 ہزار 7 سو 55 اسکوائر میٹر ہے۔ چونکہ حکومتی سطح پر ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان کے نقشے اور لینڈ ایریا میں شامل کر سکے تو میں نے خُود اپنے پڑھنے والوں کی معلومات اور دلچسپی کے لئیے گلگت و بلتستان کے زمینی رقبے 69107 اسکوائر میٹر اور کشمیر کے زمینی رقبے 11717 اسکوئر کلو میٹر کو سروے آف پاکستان کی طرف سے دیئے گئے آفیشل اعداو شمار 795,755 میں جمع کر لیا تو جواب آیا 876,579 اسکوئر کلو میٹر ، یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستان کا نان آفیشل لینڈ ایریا پاکستان کے آفیشل لینڈ ایریا سے 80824 سکوائر کلو میٹر زیادہ ہے میں حیران ہوں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا لینڈ ایریا 881,913 مربع کلو میٹر کیوں دکھایا جا رہا ہے اور ہماری انفارمیشن منسٹری اس پر خاموش کیوں ہے جبکہ یہ رقبہ آفیشلی 795,755 مربع اسکوائر میٹر ہے اور کشمیر گلگت بلتستان کو ڈال لینے سے نان آفیشلی 876,579 مربع اسکوائر میٹر ہے۔(لیکن ہماری واٹر باڈیز کا ایریا مائنس کرنے سے ہمارا لینڈ ایریا کافی کم ہو جاتا ہے) یہ سوال میں نے لاہور میں واقع سروے آف پاکستان کے پنجاب آفس میں تعینات ٹیکنیکل شعبہ کے انچارج سجاد سیال سے پوچھا تو انہوں نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوۓ مجھے وہ بنیادی اصول سمجھایا کہ جس کو بنیاد بنا کر کسی بھی مُلک کا لینڈ ایریا calculate کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر میں آئندہ اپنے کسی آرٹیکل میں کرونگا لیکن یہاں مجھے یہ احساس ہُوا کہ شاید اس محکمے میں کسی کو بھی یہ پتہ نہیں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا رقبہ کیا شو ہو رہا ہے اور کس نے یہ اعداد حکومت کی طرف سے وکی پیڈیا کے ڈیٹا میں درج کرواۓ ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا سروے آف پاکستان جیسے بڑے ادارے میں کوئی پبلک ریلیشنز آفیسر نہیں ہے جو انٹرنیٹ پر محکمے کے ڈیجیٹل ڈیٹا کی درستگی کا خیال رکھے تو مجھے معلوم ہُوا کہ ایسی کوئی اسامی یہاں نہیں ہےیاد رہے کہ سروے آف پاکستان عرصہ دراز سے منسٹری آف ڈیفنس کے زیر انتظام کام کر رہا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ محکمہ منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تابع تھا اور اس سے بھی پہلے منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگریکلچرل یہ محکمہ چلا رہی تھی منسٹری آف ڈیفنس نے یہ محکمہ کیوں اپنے انتظام میں لیا ؟ میرے اس سوال کا کوئی افسر logical جواب نہ دے سکا البتہ مجھے یہ معلوم ہُوا کہ چونکہ سروے آف پاکستان کا اصل کام نقشے تیار کرنا اور انہیں publish کرنا ہے اور چونکہ پاک فوج ان نقشوں کی سب سے بڑی خریدار ہے اس لئیے منسٹری آف ڈیفنس کی خواہش پر ضیأالحق کے دور میں یہ محکمہ فوج کے حوالے کر دیا گیا میری راۓ یہ ہے کہ پاک فوج ہمارے ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اگر وہ ایسے اہم محکمے کو خود چلانا شروع کر دے گی اور زمین اور سرحدی باؤنڈریز کی پیمائش اور ان کا ریکارڈ بھی خود رکھنا شروع کرے گی تو اس پر چیکنگ اور بیلنس کا نظام کون رکھے گا اسلئیے میری تجویز ہے کہ سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ بات ہو رہی تھی پاکستان کے actual land area کی جس میں محکمے نے واٹر باڈیز کے ایریا کو بھی لینڈ ایریا میں ڈال رکھا ہے اپنے پڑھنے والوں کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان میں کل 24 دریا بہتے ہیں جن میں سے 8 دریا خیبرپختونخواہ ، 7 بلوچستان، 5 پنجاب اور 4 سندھ میں بہتے ہیں۔ پاکستان کا بڑا دریائی نظام ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے سے نکلتا ہے ایسے ہی ہمارے ملک میں تقریباً 60 کے قریب جھیلیں ہیں مثال کے طور پر منچر جھیل جو پاکستان کی سب سے بڑی جھیل ہے اور 260 کلو میٹر کے علاقے پر پھیلی ہے اس کو اور اس طرح کی تمام جھیلوں اور واٹر باڈیز کو ہم ہرگز ہرگز لینڈ ایریا میں شامل نہیں کر سکتے واٹر باڈیز کی calculation دُنیا بھر میں الگ سے کی جاتی ہے اور ان کا مُلک کے لینڈ ایریا سے تعلق نہیں ہوتا لیکن سروے آف پاکستان کے ایک اعلی افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ہم نے اپنے لینڈ ایریا میں واٹر باڈیز کا ایریا بھی شامل کیا ہوا ہے اور چونک ہمارے ہیڈ آفس نے واٹر باڈیز کو لینڈ ایریا میں ڈالا ہُوا ہے تو اس پر ہم بحیثیت ملازم محکمہ اپنی کوئی راۓ نہیں دے سکتے یہ انکشاف میرے لئیے بہت حیران کن اور تکلیف دہ تھاایک اور حکومتی ادارے پاکستان کوسٹل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بحیرہ عرب کے ساتھ 1001 کلو میٹر میل لمبی ساحلی پٹی (coastline)ہے جو بحر ہند ، بحیرہ عرب اور عظیم دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہے تو جب تک ان تمام واٹر باڈیز کے تمام رقبوں کو سروے آف ہاکستان کے دئیے گئے لینڈ ایریا سے مائنس نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک پاکستان کا ایکچوئل لینڈ ایریا ہمارے سامنے نہیں آ سکتا میں آج دو ہفتوں کی تمام محنت اور کوشش کے باوجود بھی پاکستان کے لینڈ ایریا کی درست figure حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں اور کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ پاکستان کی اِن لینڈ واٹر باڈیز کی کُل تعداد کیا ہے اور کتنا زمینی رقبہ ان کے زیر ِاثر ہے یہی سوال اگر انڈیا کے حوالے سے پوچھا جاتا تو آپ کو ترنت جواب ملتا کہ پورے انڈیا میں واٹر باڈیز کی کل تعداد 24,24,540 ہے یعنی 24 لاکھ 24 ہزار 540۔ تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب تک ہمیں اپنی واٹر باڈیز کی کُل تعداد کا پتہ نہیں چل جاتا ہم پاکستان کے زمینی رقبے کے بارے میں کوئی حتمی راۓ نہیں دے سکتے چنانچہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے درست اعداد و شَمار حاصل ہو جائیں اور جونہی مجھے اس میں کامیابی ملتی ہے میں اسی وقت دوبارہ آپ کی خدمت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا اسوقت تو میں اس کوشش میں ہوں کہ میں پاکستان کے لینڈ ایریا کے موجودہ ایشو کو قومی اسمبلی کی کسی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کر سکوں ۔نوٹ:- سروے آف پاکستان کا شائع کردہ ایک نقشہ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئیے میں پہلی مرتبہ شائع کر رہا ہوں جسے محکمے نے administrative pakistan کا نام دیا ہے اور جسے سروے آف پاکستان کے لاہور آفس سے میں نے نقد خرید کر اس مضمون کا حصہ بنایا ہے اس نقشے میں سروے آف پاکستان نے کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو پاکستان کے نقشے میں شامل نہیں کیا لیکن حیران کُن طور پر ہماری انٹرنیشنل باؤنڈری جمّوں تک جاتی دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ اس نقشے میں جو آبادی (population) پاکستان کے مختلف شہروں کی بتائی گئی ہے وہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہے جبکہ ہمارے ملک میں ساتویں مردم شماری 2023 میں ہو چکی ہے اس سے محکمے کی کارگزاری کا ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment