Saturday, 5 October 2024

تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ میں ایک نئی قسم کا انسان نما جاندار (ہومونن) نمودار ہوا تھاکسی کو یہ صحیح سے نہیں معلوم کہ اُس نئی قسم کا انسان کہاں سے آیا یا اس کے والدین کون تھےلیکن ہم اس قسم کو جسمانی طور پر معاصر انسان یا ہومو سیپئنس کہتے ہیںان انسان نما جانداروں کے گول سر اور نوکیلی ٹھوڑی اُن کی شناخت ہوتی تھیوہ اس وقت کے ملتے جلتے جانداروں سے کم وزن تھے اور ان کے دانت چھوٹے تھےجسمانی طور پر وہ کافی دلکش نہیں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار تھےانہوں نے پہلے تو بنیادی نوعیت کے اوزار بنائے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے گئےوہ اگلے ادوار تک اپنی بات پہنچانا جانتے تھےوہ مختلف موسموں میں رہ سکتے تھے اور شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات مختلف اقسام کی خوراک کے ساتھ گزارا کر سکتے تھےجہاں جانوروں کی بہتات ہوتی تھی وہ ان کا شکار کرتے تھے جہاں شیل مچھلی موجود ہوتی تھی اور وہ اسے کھاتے تھےیہ بار بار برف جم جانے والا دور یعنی پلیسٹوسین کا زمانہ تھاجب دنیا کا بڑا حصہ بڑی برف کی سخت چادروں سے ڈھکا ہوا تھاتقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے انسان کی وہ نئی قسم شمال کی طرف بڑھنے لگی تھی۔اُن انسانوں نے ایک لاکھ سال پہلے مشرق وسطیٰتقریباً 60 ہزار سال پہلے آسٹریلیا40 ہزار سال پہلے یورپ اور 20 ہزار سال پہلے امریکا (شمالی اور جنوبی امریکا) تک پہنچنے کی کوشش کیراستے میں کہیں شاید درمیان کے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کی اس نئی قسم ہومو سیپئنس کا اپنی جیسی مگر مضبوط مخلوق سے سامنا ہواجو نیانڈرتھل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیںپھر انسانوں (ہومونن) اور نیا نڈرتھل کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوئےاور ان کی اولاد اپنی نسلیں پیدا کرنے تک باقی رہیںتاہم آج کل دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے پاس نیانڈرتھل کے بارے میں بہت کم معلومات ہیںپھر کچھ ایسا ہوا کہ نیانڈرتھل نامی انسان کی قسم دنیا سے غائب ہو گئیشاید ہومو سیپئنس انسانوں نے ان کو اپنی مستعدی سے ختم کیا یا شاید ان سے مقابلہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیاحال ہی میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کے ایک گروپ کا یہ بھی خیال ہے کہ ہومو سیپئنس انسان اپنے ساتھ گرم خطوں کی بیماریاں لے کر وہاں گئےجہاں سردی میں رہنے کی عادی اُن سے ملتی جلتی مخلوق بیماریوں کو برداشت نہیں کر پائیوجہ خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ نیانڈرتھل نامی قدیمی انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی وجہ ہومو سیپئنس یعنی انسان ہی تھےجیسا کہ ایک سوئیڈش تحقیق کار سوانٹے پابو نے نیانڈرتھل جینوم کے آثار کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی سربراہی کی تھی کے مطابق ان کی بدقسمتی ہم (یعنی انسان) تھےنیانڈرتھلز کا تجربہ کوئی خاص توجہ کے قابل ثابت نہیں ہواجب انسانوں کی آسٹریلیا آمد ہوئی تو وہ خطہ انتہائی بڑے جانوروں کی آماجگاہ تھاان میں مارسوپیل لائنز شامل تھے جو اپنے وزن سے بالاتر اپنے دانتوں سے کسی بھی ممالیہ جانور سے زیادہ طاقتور گرفت رکھتے تھےاس کے علاوہ میگالینیا یعنی دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں اور ڈپروٹوڈونز جو گینڈے نما ریچھ کہلاتے ہیں وہ بھی وہاں پائے جاتے تھےاگلے کئی ہزار سالوں کے دوران تمام بڑے جانور وہاں سے غائب ہو گئےجب انسانوں نے شمالی امریکا میں قدم رکھا تو وہاں پر ان کے پاس اپنے خود سے بڑے جانوروں کا گروپ تھاجس میں مستوڈونز، میموتھز اور بیورز شامل تھےجو 8 فٹ لمبے اور 200 پاؤنڈ وزن رکھتے تھےوہ بھی ختم ہو گئےجنوبی امریکا میں بھی بڑے ممالیہ جانور، قوی الجثہ آرمڈیلو جیسے جانور اور ٹوکسوڈون کے نام سے معروف ایک قسم کے گینڈے کے سائز کے سبزی خور جانوروں کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہوا اور وہ ختم ہو گئےارضیاتی اعتبار سے اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ اقسام کے ختم ہونے کا منظر بہت ہی ڈرامائی تھاکہ چارلز ڈارون کے دور میں یہ کہا گیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت بڑے عجیب و غریب اور خوفناک شکلوں والے جانور حال ہی میں غائب ہو گئے ہیںیہ تبصرہ ڈارون کے مخالف الفریڈ رسل والیس نے 1876 میں کیا تھاسائنسدان اس وقت سے بڑے جانوروں کے خاتمے پر بحث کرتے آ رہے ہیںاب یہ جانا جاتا ہے کہ خاتمہ مختلف براعظموں میں مختلف وقتوں میں ہوااور جانوروں کا خاتمہ انسانوں کی آمد کے ساتھ ہی ہوا ہےدوسرے الفاظ میں ان کی بدقسمتی ہم یعنی انسان تھےانسان اور بڑے جانوروں کی مڈبھیڑ پر تحقیق کرنے والوں نے پتا کیا کہ اگر شکاریوں کے گروپ ایک سال کے دوران صرف ایک بہت بڑے جانور کا شکار کرتے ہوں گےتو آہستہ آہستہ نسل بڑھانے والے اُن جانوروں کا کئی صدیوں تک تھوڑا تھوڑا شکار کرناانہیں خاتمے کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہو گاآسٹریلیا کی مکوئیری یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر جان الروائے نے اس دور میں بڑے جانوروں کے خاتمے کو ارضیاتی طور پر ایک ماحولیاتی تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا خاتمہ اتنا آہستہ آہستہ ہوا کہ ایسا کرنے والوں کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھاجب یورپ میں 15ویں صدی کے آخر میں لوگ دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی کالونیاں بنانے لگے تو جانوروں کے خاتمے کی رفتار بڑھ گئیموریشس کے جزیرے کے مقامی پرندے ڈوڈو کو 1598ء میں ڈچ فوجی ملاحوں نے پہلی بار دیکھااور پھر 1670ء کے دوران یہ غائب ہو گیااس کی تباہی کی وجہ شاید انہیں خوراک کے لیے ذبح کرنا اور شاید دیگر پرندوں کو وہاں متعارف کروانا بھی تھاجہاں بھی یورپی لوگ گئے وہ اپنے ساتھ چوہے لےکر گئے جو ان کے ساتھ بحری جہازوں میں ہوا کرتے تھےیورپی لوگ جہاں کہیں بھی قدم رکھتے تھے تو دیگر جانوروں کا شکار کرنے والے جانوروں کو بھی ان علاقوں میں متعارف کرواتے تھےجیسے بلیاں اور لومڑیاں جو چوہے تو کیا دیگر کئی جانداروں کا بھی شکار کرتے ہیں1788ء میں جب اولین یورپی کالونیاں بنانے والوں نے آسٹریلیا میں آنا شروع کیا تو اُن کے ساتھ لائے ہوئے جانوروں نے وہاں کے درجن بھر مقامی جانوروں کی اقسام کو ختم کر دیاجن میں بڑے کانوں والے ہاپنگ ماؤس شامل ہیں اور مشرق کا خرگوش نما جانور بھی شامل تھا جنہیں بلیوں نے کھا کر ختم کر دیا تھاجب انگریزوں نے نیوزی لینڈ میں نوآبادی قائم کرنا شروع کی تو تقریباً سال 1800ء کے آس پاس 20 اقسام کے پرندوں کا خاتمہ کر دیا گیاجن میں چتھم آئلینڈز پینگوئن، ڈیفنباک کی ریل اور لائل کی رین شامل ہیںکرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں حال ہی میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق نیوزی لینڈ میں معدوم ہونے والے پرندوں کی اقسام کو وہاں انسانوں سے بسنے سے پہلے والی تعداد پر لانے کے لیے پانچ کروڑ سال درکار ہوں گےیہ تمام نقصانات سادہ ہتھیاروں اور طریقوں سے کیے گئے تھےڈنڈوں، قدیم بندوقوں، چلتی کشتیوں کے علاوہ کچھ کمزور متعارف کردہ جانداروں کے ذریعے مقامی پرندوں کو ختم کیا گیا اور پھر مارنے کا میکانکی طریقہ استعمال کیا گیانویں صدی کے آخر میں شکاریوں نے چھروں والی بندوقوں کا استعمال کیا جو ایک فائر میں کئی چھروں سے بہت سے پرندے مار سکتی تھیںجس سے کبوتر کی قسم کا شمالی امریکا کا ایک پرندہ جس کی تعداد پہلے اربوں میں تھی وہ معدوم ہو گیاٹرین میں بیٹھے بیٹھے پرندوں کا شکار کرنے والے شکاریوں نے ایک ایسے امریکی پرندے کی قسم کو ختم کر دیا جو اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے تھے کہ اُن کا آسمان پر جھنڈ ستاروں سے بھرا ہوتا تھااب دنیا میں جانداروں کی جو اقسام موجود ہیں یہ وہ ہیں جنہوں نے برفانی ادوار میں بھی اپنا وجود قائم رکھا تھا یعنی وہ سخت سردی برداشت کرنا جانتے ہیںلیکن کیا اب وہ گرمی بھی برداشت کر پائیں گے یہ واضح نہیں ہےدنیا جتنی گرم اب ہے دسیوں لاکھوں سال میں وہ اتنی گرم کبھی نہیں رہیپلیسٹوسین (برفانی) دور کے دوران بھنورے جیسے چھوٹے جانور صدیوں میں ہجرت کرتے تھے تاکہ موافق موسم میں رہ سکیںآج کل ان کی بے شمار اقسام دوبارہ ہجرت کے لیے تیار ہیں لیکن برفانی ادوار کی طرح ان کا راستہ عموماً شہروں، شاہراہوں اور کھیتوں سے گزرتا ہےجسے عبور کرنا اُن کے لیے آسان نہیں ہےماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں اُن کے ردعمل کی روشنی میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کی موسمیاتی تبدیلی میں اُن کا ردعمل کیسا ہو گاکیونکہ اب ہم نے جانداروں کی نقل مکانی کی راہ میں بے شمار مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیںاس کہانی کا انجام قطعی نامعلوم ہےگزشتہ نصف ارب سالوں کے دوران دنیا کا پانچ بار خاتمہ ہو چکا ہےجس میں دنیا کے ایک تہائی جانداروں کی اقسام کا خاتمہ ہو چکا ہےسائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب ہم چھٹے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیںلیکن اس کی وجہ پہلی دفعہ ایک حیاتیاتی ایجنٹ یعنی ہم انسان ہیںکیا ہم اس تباہی کو روکنے کے لیے بروقت کچھ کر پائیں گے؟دی کلائمیٹ بُکمصنف: گریٹا تھیونبرگ

No comments:

Post a Comment