Thursday, 31 October 2024

احتیاطی تدابیر:🚫 1/ اپنے محلے میں رہنے والے ہمسائے کو اپنی ذاتی معلومات نہ دیں اور اس سے تعلقات میں احتیاط رکھیں۔🚫 2/ ڈاکٹر کے پاس تنہا نہ جائیں، کسی کو ساتھ لے جائیں؛ کیونکہ زمانہ خراب ہے اور شیطان چالاک ہے۔🚫 3/ بچوں کے اساتذہ سے حد میں رہ کر تعلق رکھیں۔ بچوں کے والد کو ہی ان سے بات چیت کرنے دیں۔🚫 4/ لباس خریدتے وقت دکان دار سے مختصر بات کریں۔ وہ لباس کے بارے میں تبصرہ نہ کرے اور آپ اپنی پسند کے مطابق خریداری کریں۔🚫 5/ کسی بھی دوست کے شوہر کے ساتھ قریب تعلق نہ رکھیں؛ یہ فتنے کا دروازہ کھول سکتا ہے۔🚫 6/ وہ سرکاری یا غیر سرکاری ملازم جس نے آپ کا کوئی کام کیا ہو، بار بار رابطہ نہ کرے۔ شکریہ ادا کریں اور بات ختم کریں۔🚫 7/ کسی دکاندار یا سبزی والے سے ہنسی مذاق نہ کریں۔ خریداری کریں اور چلی جائیں۔🚫 8/ جِم میں مرد کوچ سے دور رہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص جِم میں جائیں تاکہ احتیاط رہے۔🚫 9/ بیٹے کے کوچ سے رابطہ والد یا بھائی کے ذریعے رکھیں؛ آپ براہ راست تعلق نہ بنائیں۔🚫 10/ اگر کوئی دوست آپ کو غلط باتوں میں ملوث کرنے کی کوشش کرے تو دوری اختیار کریں؛ ایسی دوستی سے نجات بہتر ہے۔🚫 11/ ایسا شوہر یا بیوی منتخب کریں جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، اپنی عزت کا محافظ ہو اور حدودِ شریعت میں رہ کر زندگی گزارے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: "جب تمہارے پاس ایسا شخص رشتہ لے کر آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کا نکاح کرو"۔اور آپ نے فرمایا: "عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسن، حسب و نسب اور دین۔ تو دین دار کو ترجیح دو۔"

یہودیوں کے بارے میں مکمل تفصیل فراہم کرنے کے لئے ہم ان کی تاریخ کے اہم ادوار اور مقامات کا احاطہ کریں گے جہاں انہوں نے قیام کیا۔1. ابتدائی اصلآغاز: یہودیوں کا اصل مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے، خاص طور پر میسوپوٹامیہ (موجودہ عراق) سے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم یہودی، عیسائی اور اسلامی مذاہب کے روحانی پیشوا تھے۔کنعان کی طرف ہجرت: تورات کے مطابق، یہودی کنعان (موجودہ فلسطین) کی طرف منتقل ہوئے اور وہاں قیام پذیر ہوئے۔2. فلسطین میں بستی اور بادشاہت کا قیامیہودی بادشاہت: انہوں نے فلسطین میں مملکت اسرائیل اور یہوداہ کی بنیاد رکھی، جو تقریباً دسویں صدی قبل مسیح میں قائم ہوئیں۔ بعد میں یہ سلطنت تقسیم ہوگئی، اور اسرائیل کی مملکت آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور یہوداہ بابل کے ہاتھوں (586 قبل مسیح) تباہ ہوگئی۔پہلی جلاوطنی: پہلے ہیکل کی تباہی کے بعد یہودیوں کو بابل (موجودہ عراق) میں جلاوطن کر دیا گیا۔1. اسرائیلآبادی: اسرائیل میں یہودیوں کی آبادی تقریباً 7 ملین کے قریب ہے، جو یہودیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔ یہاں یہودی اکثریت میں ہیں اور ملک کو یہودی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔رہائشی صورتحال: اسرائیل میں رہائش پذیر یہودی اسرائیلی معاشرے میں ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے متنوع ہیں، جن میں اشکنازی، سفاردی اور مزراحی یہودی شامل ہیں۔2. ریاستہائے متحدہ امریکہآبادی: امریکہ میں تقریباً 5.7 ملین یہودی رہتے ہیں، جو اسرائیل کے بعد سب سے بڑی یہودی کمیونٹی ہے۔رہائشی صورتحال: امریکی یہودی آزاد ماحول میں مختلف گروپوں میں منقسم ہیں، جیسے آرتھوڈوکس، کنزرویٹو، اور رفارم یہودی۔ امریکہ میں یہودی کمیونٹی مستحکم ہے اور وہاں نئے گروہ بنتے رہتے ہیں۔3. فرانسآبادی: فرانس میں تقریباً 4.5 لاکھ یہودی آباد ہیں، جو یورپ میں سب سے بڑی یہودی برادری ہے۔رہائشی صورتحال: فرانس میں یہودی کمیونٹی کو بعض اوقات اینٹی سیمٹزم کا سامنا رہتا ہے، جس کے باعث کچھ یہودی اسرائیل یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔4. کینیڈاآبادی: کینیڈا میں تقریباً 3 لاکھ یہودی ہیں، جو زیادہ تر ٹورنٹو اور مونٹریال میں آباد ہیں۔رہائشی صورتحال: کینیڈا میں یہودی ایک محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں اور وہاں ان کی آبادی میں استحکام ہے۔5. برطانیہآبادی: برطانیہ میں تقریباً 2.9 لاکھ یہودی آباد ہیں، جو زیادہ تر لندن میں رہتے ہیں۔رہائشی صورتحال: برطانیہ میں یہودی کمیونٹی نے مستحکم معاشرتی حیثیت حاصل کر لی ہے، مگر کچھ افراد نے اینٹی سیمٹزم کی وجہ سے ہجرت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔6. ارجنٹیناآبادی: ارجنٹینا میں تقریباً 2 لاکھ یہودی ہیں، جو لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی یہودی برادری ہے۔رہائشی صورتحال: ارجنٹینا میں یہودی معاشرتی اور اقتصادی طور پر خوشحال ہیں، مگر سیاسی عدم استحکام کے باعث بعض نے اسرائیل یا دیگر ممالک کا رخ کیا۔7. جرمنیآبادی: جرمنی میں تقریباً 1 لاکھ 20 ہزار یہودی ہیں۔رہائشی صورتحال: جرمنی کی یہودی کمیونٹی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دوبارہ قدم جمانا شروع کیا اور حالیہ برسوں میں روسی یہودی پناہ گزینوں کی آمد سے کمیونٹی میں اضافہ ہوا ہے۔8. برازیلآبادی: برازیل میں تقریباً 90 ہزار یہودی ہیں، جو زیادہ تر ریو ڈی جنیرو اور ساؤ پالو میں رہتے ہیں۔رہائشی صورتحال: برازیل میں یہودی مجموعی طور پر محفوظ ہیں، مگر کچھ اقتصادی وجوہات کی بنا پر اسرائیل یا امریکہ کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔9. جنوبی افریقہآبادی: جنوبی افریقہ میں تقریباً 70 ہزار یہودی ہیں۔رہائشی صورتحال: یہاں کی یہودی کمیونٹی ماضی میں بڑی تھی مگر بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم استحکام کے باعث کافی افراد نے ہجرت کی۔10. دیگر ممالکروس: 1 لاکھ یہودی، اکثر ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں رہائش پذیر ہیں۔ روس میں ہجرت کا رجحان زیادہ ہے۔آسٹریلیا: تقریباً 1 لاکھ یہودی، جن میں سے زیادہ تر سڈنی اور میلبرن میں رہتے ہیں۔دیگر: دنیا بھر میں اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ بھی چھوٹی یہودی کمیونٹیز ہیں، مگر وہ بنیادی طور پر انہی دو ممالک میں مرکوز ہیں۔ہجرت اور مستقبل کی سمتیںحالیہ برسوں میں یہودیوں کا رجحان اسرائیل اور امریکہ کی طرف بڑھا ہے۔ اسرائیل میں اکثر یہودی واپس آکر بستی ہیں (جسے علیاہ کہا جاتا ہے)، جبکہ امریکہ میں تعلیم، روزگار اور سماجی استحکام کے باعث یہودی رہائش اختیار کرتے ہیں۔ بہت سی کمیونٹیز اپنے ممالک میں استحکام کو ترجیح دیتی ہیں، جبکہ کچھ خاص حالات یا اینٹی سیمٹزم کے پیش نظر ہجرت کا فیصلہ کرتی ہیں۔اب میں ایک تصویر بناتا ہوں جس میں یہودی مختلف ممالک میں اپنی بستیوں کے مقامات اور ہجرت کے راستے دکھائے جائیں ۔

Tuesday, 15 October 2024

بنی نوع انسان میں بچوں کی پیدائش کا عمل اور مختلف خصوصیات رکھنے والے بچوں کی اقسام 👈 پیدائش ایک میل کے اندر جتنے X سپرمز /کرو موسومز ہوتے ہیں اتنے ہی Y سپرمز بھی ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک صحت مند میل میں چالیس ملین سے لیکر سو ملین تک سپرمز پیدا ہوتے ہیں۔ اور جب یہ سپرمز فی میل کی اندام نہانی ( vagina ) میں داخل ہوتے ہیں تو ان سپرمز کے درمیان دوڑ شروع ہو جاتی ہے کہ پہلے انڈے تک کون پہنچے گا۔ کچھ بچارے کمزور سپرمز تو رستے میں ہی مر جاتے ہیں اور جو صحت مند سپرمز ہوتے ہیں ان کے درمیان دوڑ لگی رہتی ہے۔ اور جو سپرم پہلے انڈے تک پہنچتا ہے وہ جیت جاتا ہے اور انڈا فرٹیلائزر ہو جاتا ہے۔اور حمل کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔👈ایکس،وائی X,Y کروموسومز انسان میں 23 کروموسومز کے جوڑے پائے جاتے ہیں اور ہر جوڑا دو کرومیٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 46 کرومیٹین پائے جاتے ہیں۔ کرومیٹین کی شکل کو دیکھا جائے تو یہ انگریزی زبان کے حروف X اور Y سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لئے ان کو XاورYکرومیٹین کہا جاتا ہے۔مرد کے جسم میں XY کروموسومز پائے جاتے ہیں۔ جبکہ عورت کے جسم میں صرف XXکروموسوم پائے جاتے ہیں۔👈 جنس کا تعین اگر میل کی طرف سے سپرم کا ایکس فی میل کے ایکس سپرم سے ملاپ کرتا ہے۔تو لڑکی پیدا ہوتی ہے۔مطلبXXایسی طرح اگر مرد کا وائی سپرم عورت کے ایکس سپرم سے ملتا ہے۔تو لڑکا پیدا ہوگا۔یعنی XY.👈 ہیجڑے / کھدڑے یا Transgender بعض اوقات مردوں میں ایک زائد کرومیٹین Xپیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس انسانی جسم میں 46کی بجائے 47 کرومیٹین پائے جاتے ہیں اور نتیجتاً 23واں بننے والا جوڑا XXYکی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے ایک ابنارمیلٹی پیدا ہوتی ہے جس کو سائنسی زبان میں 47، XXYاور انگریزی میں Transgender کہتے ہیں۔👈ڈاؤن سنڈروم یا منگول بچے زائیگوٹ میں 46 کروموسوم ہونا نارمل ہے۔ مگر ڈاؤن سنڈروم میں کروموسوم نمبر 21 جب اپنے مخالف سمت سے آنے والے دوست نمبر 21 سے ملتا ہے۔ تو جنیٹک میوٹیشن (تنوع) کی وجہ سے یہ دو کی بجائے 3 کروموسوم بن جاتے ہیں۔ اسے ٹرائی سومی یا T21 بھی کہتے ہیں۔ اب زندگی کے ابتدائی واحد سیل یا خلیے میں 46 کی بجائے 47 کروموسوم ہو گئے۔ یہ سیل سٹیم سیل یا بنیادی خلیہ ہوتا ہے۔ جو آگے تقسیم در تقسیم ہو کر دیگر سیل بناتا ہے۔ ہر بننے والے سیل میں یہ کروموسوم 47 ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ کچھ مختلف جسمانی شکل و ساخت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔جسکو ڈاؤن سنڈروم کہتے ہیں۔👈جڑواں بچے عالمی سطح پر جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح تقریباً 12 فی ہزار پیدائش ہے لیکن سائنسی مطالعات اور ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق افریقہ میں یہ شرح 50 فی ہزار پیدائش کے قریب ہے۔جڑواں بچوں کی اس کثرت کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ بہت سے مقامی لوگ اسے غذا سے منسوب کرتے ہیں، خاص طور پر بھنڈی کے پتوں یا شکرقندی اور آملہ (کیساوا کے آٹے) سے تیار کردہ الیسا سوپ کو وجہ قرار دیتے ہیں۔لیکن بچوں کی پیدائش کے ماہرین اور دیگر رہائشی اس نظریہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ خوراک اور جڑواں بچوں کی زیادہ شرح کے درمیان کوئی ثابت شدہ تعلق کیوں کرہوسکتا ہے۔کچھ سائنس دان جینیاتی عوامل کا مطالعہ کر رہے ہیں، ایک سے زائد سپرم کی موجودگی اور سپرم سے ملاپ ہونا۔ عام طور پر عورت کی ایک ماہواری کے بعد ایک ہی انڈا پیدا ہوتا ہے، مگر کبھی کبھی ایک ساتھ ایک سے زائد انڈے خارج ہوجاتے ہیں، اور پھر جب یہ ایک سے زائد انڈے علیحدہ علیحدہ سپرم سے ملاپ کرتے ہیں تو ایک سے زائد بچے وجود میں اتے ہیں۔ ایسے بچوں کو faternal twins کہا جاتا ہے۔یہ بچے اگر چہ جوڑواں ہونگے مگر ہمشکل نہیں۔👈ہمشکل بچے ایک بیضہ سپرم سے ملاپ کرتا ہے، جس سے زائیگوٹ بنتا ہے اور پھر اس زائیگوٹ میں تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ تقسیم کےدوران زائیگوٹ دو یا دو سے زیادہ حصوں میں ٹوٹ جاتا ہے اور ہر حصے سے ایک بچے کا وجود بنتا ہے، ایسے جڑواں بچوں کو monozygotic twins کہا جاتا ہے, اور یہ ہم شکل ہوتے ہیں۔۔۔۔ نوٹ۔ اس تحریر کے کچھ حصے ماخوذ شدہ ہیں ۔ تحریر و ترتیب ذی شان اسلم

Monday, 14 October 2024

پاکستان کا زمینی رقبہ Land Area کتنا ہے ؟ کیا کوئی ایک بھی حکومتی محکمہ میرے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ ▫️پاکستان کا ایک لاکھ گیارہ ہزار کلو میٹر زمینی رقبہ (land area) کہاں گیا ؟▫️کیا یہ رقبہ ہم نے کسی جنگ میں گنوا دیا ؟ یا یہ رقبہ سمندر بُرد ہو گیا یا ہمارے دریا یہ زمین کھا گئے ؟ حقائق کیا ہیں ؟ ▫️حکومت اعداد و شمار جاری کرے کہ 1947 میں پاکستان کا لینڈ ایریا کیا تھا اور آج 2023 میں کیا ہے؟ اور ہمارے مُلک کی انٹرنیشنل باؤنڈریز کی لمبائی اور پوزیشن کیا ہے نیز ہماری کوسٹ لائن کی لمبائی کتنی ہے ؟ ▫️سروے آف پاکستان کا محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی سے منسٹری آف ڈیفنس کے حوالے کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ (سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ)[اس مضمون کے مصنّف سید شایان ، رئیل اسٹیٹ اینالسٹ اور پریکٹیشنر ہونے کے ساتھ اپنے نام سے منسوب اسلام آباد میں حال ہی میں قائم ہونے والے پاکستان کے پہلے پراپرٹی ریسرچ کے ادارے -SIRER- ‏Syed Shayan Institute for Real Estate Research کے سربراہ اور .Real Estate Syndicate Inc کے فاؤنڈر اور سی ای او ہیں۔ یہ مضمون انہوں نے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی سے متعلق معلومات اور خبروں کے پورٹل ‘جائیداد آن لائن’ www.JaidadOnline.co کے لئیے تحریر کیا ہے ]وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33واں بڑا ملک ہے اور جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔لیکن مئی 2023 میں عالمی بینک (WORLD BANK) ، نے جو دنیا کے تمام ممالک کے developments Indicators کا مجموعہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ ذرائع سے مرتب کیا ہے ۔ اس میں پاکستان کا کل رقبہ 770,880 مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے ( یاد رہے کہ ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کو دنیا بھر کے ممالک کے ڈیٹا کے بارے میں سب سے authentic document تسلیم کیا جاتا ہے) اس حساب سے ہمارا 111,033 یعنی ایک لاکھ گیارہ ہزار اعشاریہ تینتس کلو میٹر رقبہ حکومت کے اپنے ہی پہلے اعداد و شمار سے کم ظاہر ہو رہا ہے؟ اور میرے لئیے یہ بہت تشویش کی بات تھی کہ کیا واقعی ہمارے ملک کا یہ رقبہ کم ہو گیا ہے یا حکومتی سطح پر کہیں اعداد و شمار کی غلطی ہوئی ہے؟ ہر دو صورتوں میں پاکستان کا اصل لینڈ ایریا ہے کتنا ؟ میں نے کئی روز گُوگل کے علاوہ دوسرے پروفیشنل search engines پر بھی جا کر اپنے سوال کا جواب تلاش کیا لیکن وہاں بھی مجھے کوئی خاص کامیابی نہ ملی چنانچہ میں نے سروے آف پاکستان کے ہیڈ آفس واقع فیض آباد راولپنڈی کے جیوگرافکل انفارمیشن سنٹر کے سربراہ محمد قاسم سے رابطہ کیا اور مُلک پاکستان کے کُل زمینی رقبہ کے بارے میں اُن سے اصل حقائق دریافت کیے کیونکہ میری دانست میں یہی وہ محکمہ ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں کا وقتا فوقتا سروے کر کے نقشے تیار کرتا اور چھاپتا ہے اور پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہے میرا یہ خیال تھا کہ اس محکمے سے زیادہ authentic معلومات اور درست جواب مجھے کہیں اور سے نہیں مل سکتا لیکن یہاں مجھے کہا گیا کہ آپ کو پاکستان کے کُل زمینی رقبے کا نہیں بتایا جا سکتا البتہ ہم آپ کو چاروں صوبوں اور اسلام آباد کا زمینی رقبہ بتا دیتے ہیں اور انہوں نے مجھے اسلام آباد اور باقی چاروں صوبوں کا زمینی رقبہ الگ الگ لکھوا دیا جو یہ ہےبلوچستان= 347,138 سکوائر کلو میٹرپنجاب= 205,030 سکوائر کلو میٹرسندھ= 140,928 سکوائر کلو میٹرکے پی کے= 101,758 سکوائر کلو میٹراسلام آباد= 901 سکوائر کلو میٹرجب میں نے ان تمام figures کو جمع کیا تو جواب آیا 795,755 سکوائر کلو میٹر ۔ یعنی سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا آفیشل زمینی رقبہ 7لاکھ 95 ہزار 7 سو 55 اسکوائر میٹر ہے۔ چونکہ حکومتی سطح پر ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے کو پاکستان کے نقشے اور لینڈ ایریا میں شامل کر سکے تو میں نے خُود اپنے پڑھنے والوں کی معلومات اور دلچسپی کے لئیے گلگت و بلتستان کے زمینی رقبے 69107 اسکوائر میٹر اور کشمیر کے زمینی رقبے 11717 اسکوئر کلو میٹر کو سروے آف پاکستان کی طرف سے دیئے گئے آفیشل اعداو شمار 795,755 میں جمع کر لیا تو جواب آیا 876,579 اسکوئر کلو میٹر ، یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستان کا نان آفیشل لینڈ ایریا پاکستان کے آفیشل لینڈ ایریا سے 80824 سکوائر کلو میٹر زیادہ ہے میں حیران ہوں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا لینڈ ایریا 881,913 مربع کلو میٹر کیوں دکھایا جا رہا ہے اور ہماری انفارمیشن منسٹری اس پر خاموش کیوں ہے جبکہ یہ رقبہ آفیشلی 795,755 مربع اسکوائر میٹر ہے اور کشمیر گلگت بلتستان کو ڈال لینے سے نان آفیشلی 876,579 مربع اسکوائر میٹر ہے۔(لیکن ہماری واٹر باڈیز کا ایریا مائنس کرنے سے ہمارا لینڈ ایریا کافی کم ہو جاتا ہے) یہ سوال میں نے لاہور میں واقع سروے آف پاکستان کے پنجاب آفس میں تعینات ٹیکنیکل شعبہ کے انچارج سجاد سیال سے پوچھا تو انہوں نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوۓ مجھے وہ بنیادی اصول سمجھایا کہ جس کو بنیاد بنا کر کسی بھی مُلک کا لینڈ ایریا calculate کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر میں آئندہ اپنے کسی آرٹیکل میں کرونگا لیکن یہاں مجھے یہ احساس ہُوا کہ شاید اس محکمے میں کسی کو بھی یہ پتہ نہیں کہ وکی پیڈیا پر پاکستان کا رقبہ کیا شو ہو رہا ہے اور کس نے یہ اعداد حکومت کی طرف سے وکی پیڈیا کے ڈیٹا میں درج کرواۓ ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا سروے آف پاکستان جیسے بڑے ادارے میں کوئی پبلک ریلیشنز آفیسر نہیں ہے جو انٹرنیٹ پر محکمے کے ڈیجیٹل ڈیٹا کی درستگی کا خیال رکھے تو مجھے معلوم ہُوا کہ ایسی کوئی اسامی یہاں نہیں ہےیاد رہے کہ سروے آف پاکستان عرصہ دراز سے منسٹری آف ڈیفنس کے زیر انتظام کام کر رہا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ محکمہ منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تابع تھا اور اس سے بھی پہلے منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگریکلچرل یہ محکمہ چلا رہی تھی منسٹری آف ڈیفنس نے یہ محکمہ کیوں اپنے انتظام میں لیا ؟ میرے اس سوال کا کوئی افسر logical جواب نہ دے سکا البتہ مجھے یہ معلوم ہُوا کہ چونکہ سروے آف پاکستان کا اصل کام نقشے تیار کرنا اور انہیں publish کرنا ہے اور چونکہ پاک فوج ان نقشوں کی سب سے بڑی خریدار ہے اس لئیے منسٹری آف ڈیفنس کی خواہش پر ضیأالحق کے دور میں یہ محکمہ فوج کے حوالے کر دیا گیا میری راۓ یہ ہے کہ پاک فوج ہمارے ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اگر وہ ایسے اہم محکمے کو خود چلانا شروع کر دے گی اور زمین اور سرحدی باؤنڈریز کی پیمائش اور ان کا ریکارڈ بھی خود رکھنا شروع کرے گی تو اس پر چیکنگ اور بیلنس کا نظام کون رکھے گا اسلئیے میری تجویز ہے کہ سروے آف پاکستان کا محکمہ منسٹری آف ڈیفنس سے لیکر فوری طور پر محکمہ داخلہ کے انتظام میں دیا جاۓ بات ہو رہی تھی پاکستان کے actual land area کی جس میں محکمے نے واٹر باڈیز کے ایریا کو بھی لینڈ ایریا میں ڈال رکھا ہے اپنے پڑھنے والوں کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان میں کل 24 دریا بہتے ہیں جن میں سے 8 دریا خیبرپختونخواہ ، 7 بلوچستان، 5 پنجاب اور 4 سندھ میں بہتے ہیں۔ پاکستان کا بڑا دریائی نظام ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے سے نکلتا ہے ایسے ہی ہمارے ملک میں تقریباً 60 کے قریب جھیلیں ہیں مثال کے طور پر منچر جھیل جو پاکستان کی سب سے بڑی جھیل ہے اور 260 کلو میٹر کے علاقے پر پھیلی ہے اس کو اور اس طرح کی تمام جھیلوں اور واٹر باڈیز کو ہم ہرگز ہرگز لینڈ ایریا میں شامل نہیں کر سکتے واٹر باڈیز کی calculation دُنیا بھر میں الگ سے کی جاتی ہے اور ان کا مُلک کے لینڈ ایریا سے تعلق نہیں ہوتا لیکن سروے آف پاکستان کے ایک اعلی افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ہم نے اپنے لینڈ ایریا میں واٹر باڈیز کا ایریا بھی شامل کیا ہوا ہے اور چونک ہمارے ہیڈ آفس نے واٹر باڈیز کو لینڈ ایریا میں ڈالا ہُوا ہے تو اس پر ہم بحیثیت ملازم محکمہ اپنی کوئی راۓ نہیں دے سکتے یہ انکشاف میرے لئیے بہت حیران کن اور تکلیف دہ تھاایک اور حکومتی ادارے پاکستان کوسٹل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بحیرہ عرب کے ساتھ 1001 کلو میٹر میل لمبی ساحلی پٹی (coastline)ہے جو بحر ہند ، بحیرہ عرب اور عظیم دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہے تو جب تک ان تمام واٹر باڈیز کے تمام رقبوں کو سروے آف ہاکستان کے دئیے گئے لینڈ ایریا سے مائنس نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک پاکستان کا ایکچوئل لینڈ ایریا ہمارے سامنے نہیں آ سکتا میں آج دو ہفتوں کی تمام محنت اور کوشش کے باوجود بھی پاکستان کے لینڈ ایریا کی درست figure حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں اور کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ پاکستان کی اِن لینڈ واٹر باڈیز کی کُل تعداد کیا ہے اور کتنا زمینی رقبہ ان کے زیر ِاثر ہے یہی سوال اگر انڈیا کے حوالے سے پوچھا جاتا تو آپ کو ترنت جواب ملتا کہ پورے انڈیا میں واٹر باڈیز کی کل تعداد 24,24,540 ہے یعنی 24 لاکھ 24 ہزار 540۔ تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب تک ہمیں اپنی واٹر باڈیز کی کُل تعداد کا پتہ نہیں چل جاتا ہم پاکستان کے زمینی رقبے کے بارے میں کوئی حتمی راۓ نہیں دے سکتے چنانچہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے درست اعداد و شَمار حاصل ہو جائیں اور جونہی مجھے اس میں کامیابی ملتی ہے میں اسی وقت دوبارہ آپ کی خدمت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا اسوقت تو میں اس کوشش میں ہوں کہ میں پاکستان کے لینڈ ایریا کے موجودہ ایشو کو قومی اسمبلی کی کسی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کر سکوں ۔نوٹ:- سروے آف پاکستان کا شائع کردہ ایک نقشہ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئیے میں پہلی مرتبہ شائع کر رہا ہوں جسے محکمے نے administrative pakistan کا نام دیا ہے اور جسے سروے آف پاکستان کے لاہور آفس سے میں نے نقد خرید کر اس مضمون کا حصہ بنایا ہے اس نقشے میں سروے آف پاکستان نے کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو پاکستان کے نقشے میں شامل نہیں کیا لیکن حیران کُن طور پر ہماری انٹرنیشنل باؤنڈری جمّوں تک جاتی دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ اس نقشے میں جو آبادی (population) پاکستان کے مختلف شہروں کی بتائی گئی ہے وہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہے جبکہ ہمارے ملک میں ساتویں مردم شماری 2023 میں ہو چکی ہے اس سے محکمے کی کارگزاری کا ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے

Thursday, 10 October 2024

اُردو نام طبی نامباؤ گولہ اختناق الرحمباؤگولہڈاکٹری نامہسٹریا Hysteriaتعریف مرض یہ ایک عصبی مرض ہے جو نظام عصبی کے افعال کے فتور سےواقع ہوتا ہے۔ اس سے جسمانی و روحانی افعال میں کم و بیش فرق آجاتا ہے ۔ درحقیقت یہ ایک مرض عقلی ہے .نوٹ : 1 لفظ ہسیٹر یا ایک یونانی لغت ہے جس کے معنی ہیں رحم ۔ چونکہ قدیم اطیائےیونان کا یہ خیال تھا کہ یہ مرض رحم کی خرابی رحیم کاٹل جانا یا حیض کا بند ہو جانا وغیرہ اسے ہوتاہے۔ اس لئے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے(۲) لفظ اختناق کے لغوی منی ہی گلا گھونٹا یا گھٹتا چونکہ اس مرض میں بھی مریضہ کا دم گھٹتا ہے اور یہ مرض رحم کی مشارکت سے بھی ہوتا ہے اس لئے اس مرض کو اس نام سے موسومکیا گیا۔ جاہل لوگ اس مرض کو آسیب خیال کرتے ہیں "(۳۱) اس مرض کی نوبت کے وقت یعنی شروع دورہ مرض میں چونکہ مریضہ کو ایسا معلوم ہوتاہے ۔ کہ اس کے پیٹ میں سے ایک گولہ سا اٹھ کر اوپر کو جا کر گلے میں اٹک گیا۔ جسسب سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ اس لئے اُردو میں اسمرض کو باؤ گولہ کہتے ہیں ۔اسباب مرض۔ یہ مرض عموماً عورتوں کو ہوا کرتا ہے اگرچہ شاذونا در مرد بھی اسمیں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اور زیادہ تر ۱۲ سے چالیس سال تک کی عمر کی عورتیں اور خصوصاً وہ عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ کہ جنکے والدین کو صرع مرگی با مراق وغیرہ کی ہیماریہو یا والدہ کو بالخصوص ہی مرض باؤ گولہ ہو یعنی یہ مرض موردثی ہے۔ خصوصاً والدہ کی طرفسے کبھی شرابی۔ آتشکی اور خنازیری والدین کی اولاد بھی اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔عورتوں میں فتور حیض مثلاً حیض کا تکلیف سے آنا یا بند ہو جانا عیش و عشرتکی زندگی بسر کرنا اور ریاضت یا کام کاج نہ کرنا خواہشات نفسانی - شہوانی کاغالب ہونا دائمی قبض - نفخ شکم رنج و غم فکروترد عشقیہ فسانوں یا ناولوں کا پڑھنا - تزد در غصہ و خوف اور مایوسی مثلاً امتحان کا خوف یا اس کی ناکامی یا نقصان مال و جان کا صدمہ یا محبت و عشق کی ناکامی و بدنامی وغیرہ اور مردوں میں بالخصوص حلقمشت زنی اور کثرت محنت داخلی و بیخوابی وغیرہ اس مرض کے اسباب ہوتے ہیں ؟نوٹ: زیادہ ترامیر و نازک مزاج اور شہری عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوا کرتی ہیں ۔علامات کی خفت اور شدت کے لحاظ سے یہ مرض دو قسم کا ہوتا ہے :-1 خفیف باؤ گولہ جسے ڈاکٹری میں ہسٹریا مائیز کہتے ہیں اور شدید باؤگولہ جسے ڈاکٹری یں بسٹریا میجر کہتے ہیں چنانچہ ان دونوں کی علامات کا علیحدہ علیحدہبیان کیا جاتا ہے :( خفیف باؤ گولہ کی علامات - مریضہ کو بائیں کو لھے میں کچھ تکلیف ہوہوتی ہے جس کے تھوڑی دیر بعد ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ پیٹ میں سے ایک گولا سا اٹھےکر اوپر کو جاتا ہوا گلے میں اک گیا ہے جس کو دُور کرنے کی غرض سے وہ بار بار نگلنےکی کوشش کرتی ہے ۔ اور اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ پھر ان تکالیف میں افاقہ ہو جاتا ہےلیکن مریضہ کو تکان سرمیں درد اور گردن میں سختی محسوس ہوتی ہے۔ نفخ شکم ہوتا۔ڈکار آتے ہیں ۔ ہول دل کی شکایت ہوتی ہے۔ یعنی دل دھڑکتا ہےپیشاب پتلا اور بکثرت خارج ہوتا ہے ۔ وہ غمناک اور آزردہ رہتیہے ؟(۲) شدید باؤ گولہ کی علامات - مرید یکایک چیخ مارکر رونے لگتی با قہقہہ مارکر ہنسنے لگتی ہے۔ اور اس کو ایک گواہ سا پیٹ میں سے اُٹھ کر کھلے تک جاتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ اور جو نہی کہ وہ گولا گلے تک پہنچتا معلوم ہوتا ہے۔ وہ بظا ہر بیہوشہو کہ آہستہ سے زمین پر گر پڑتی ہے چھاتی کوٹتی ہے۔ سر کو پیچھے کی طرف جھکا دیتیہے۔ اور گلے کو آگے کی طرف اونچا کرتی ہے ۔ تاکہ گلے میں جو گولا سال کا ہوا محسوسہوتا ہے ۔ وہ نکل جائے ۔ ہاتھ پاؤں میں تشنج ہوتا ہے جسم میں بل کھاتی ہے بھیکبھی ہاتھ پاؤں مارتیہے ناک کے نتھنےپھول جاتے ہیں۔ رخسارے اندر کو بھیج جاتے ہیں لیکن چہرہ یہ وضع نہیں ہوتا۔ البتہچیخنے پکارنے سے تھوڑی دیر کے لئے بیڈ دل ہو بھی جاتا ہے بعض اوقات مرداپنے سر کے بال نوچنتی ہے ۔ بدن کے کپڑے پھاڑتی ہے ۔ اور دیوارٹکراتی ہے اور آس پاس کے آدمیوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے تینہاور غیر منظم ہو جاتا ہے۔ دل دھڑکتا ہے۔ پیٹ میں نفع ہوتا ہے اور بار بار گلے کی طرفانگلی لیجاتی ہے۔ گویا گلے میں کسی شئے کے اٹکنے کا اشارہ کرتی ہے۔ مریضہ کا چہر؟سُرخ ہوتا ہے ۔ اور اس کے گلے کی وریدیں خون سے پُر ہوتی ہیں۔ ہاتھ پاؤں سرد ہوںہیں لیکن تھوڑی دبیری معمولی طور پر گرم ہو جاتے ہیں۔ جب مرض کا زور کم ہو جاتا ہے۔تو مریضہ ہانپنے اور کانپنے لگتی ہے۔ چھونے سے چونکتی اور کبھی چُپ چاپ پڑی رہتی ہے۔پھر یکا یک علامات مذکورہ کا زور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح مریضیہ کئی مرتبہ زور کرتی اور چُپ ہو جاتی ہے۔ آخر کو کھل کھل کر ہنہس دیتی یارو دیتی ہے۔ اور کبھی قے ہونے کےبعد سو جاتی ہے۔ اور مرض کا دورہ رفع ہو جاتا ہے۔ اور پیشاب بکثرت آتا ہےاگر دورہ مرض میں مثل صرع مرگی کے تشنج ہو تو مریضہ بیہوش ہو جاتی ہے بعضہذیان ہو جاتا ہے۔ جس سبب سے مریضہ بہکتی اور بکواس کرتی اور کبھی کتے کی طرحبھونکنے یا کو کنے لگتی ہے :مدت دوره مرض ۔ مرض کا دورہ چند منٹ سے لیکردو چار گھنٹے تک اوربھی تین چار روز تک رہتا ہے۔ ایسی صورت میں مرض کا ایک دور ختم نہیں ہونےپاتا۔ کہ دوسرا دورہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی ایک دورہ ختم ہونے نہیں پاتا کہ دوسرادورہ آجاتا ہے ۔ دورہ اس مرض کا اکثر ما ہواری ایام میں یعنی حیض کے دنوں میںہوا کرتا ہے ۔ اور نیند کی حالت میں نہیں ہوتا ؟مدت وقفہ - مدت وقفہ مختلف مریضوں میں مختلف ہوتی ہے۔ اور حالتوقفہ میں اکثر مرضی مختلف امراض نقلی کی تقلیدی علامات کا اظہار کرتی ہیں یعنی در حقیقتوہ بیمار نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ وہمی طور پراپنے آپ کو مختلف امراض میں مبتلاخیال کرتی ہیں۔ ایسے مریضوں کی عقل میں فتور آ جاتا ہے ۔ وہ ضدی ہو جاتیہیں اور اپنے مرض کی کیفیت کو مبالغے سے بیان کرتی ہیں۔ اور اسکو بہت شدیدسمجھا کرتی ہیں مثلاً کوئی اپنے آپ کو مفلوج بیان کرتی ہے۔ کسی میں استرخائے عامہ (جنرلپیر یلے سں ، کی نا کامل علامات پائی جاتی ہیں۔ لیکن حس قائم ہوتی ہے ۔ اور عضلاتتحلیل نہیں ہوتے کسی کو فالج نصف جسم طولانی کی شکایت ہوتی ہے لیکن اس کاچہرہ اور زبان مفلوج نہیں ہوتی ۔ مرضیہ پاؤں گھسیٹ کر چلنے لگتی ہے ۔ مرضباؤ گولہ سے نوجوان عورتوں میں ایسی شکایت یکا یک ہو جاتی ہے ۔ لیکن اُسے جلدآرام بھی ہو جاتا ہے ۔ استرخائے جسم مفضل اگر سے نیچے دھڑ کا فالج میں دونوں پاؤںاکثر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ مریضہ سے چلا نہیں جاتا لیکن مثانہ اور رودہ مستقیم کافالج نہیں ہوتا۔ اس لئے بول و براز بے خبر خطا نہیں ہو جاتے۔ اگر مریضہ کو کھڑا کر دیںتو بلا سہارے کھڑی رہ سکتی ہے ۔ اور کبھی آنکھ بچا کر چلنے بھی لگتی ہے (کیونکہ درحقیقت وہ وہی طور پر بیمار ہوتی ہے ، حواس خمسہ کی حس بڑھ جاتی ہے۔ مثلاًآنکھوں میں روشنی کی ۔ کان میں آواز کی ۔ ناک میں بو کی اور جسم پر باریک کپڑے کیبرداشرت نہیں ہوتی جسم کے مختلف مقامات پر درد کی شکایت ہوتی ہے۔ مثالاًسر میں کیل ٹھوکنے یا برے سے سوراخ کرنے کی مانند درد محسوس ہوتا ہے نیز بستانکے نیچے ریڑھ ستون - کولھے اور گھٹنے میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ چنانچہ مریضیہکبھی ریڑھ میں اس قدر درد بتاتی ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے بوسیدہ ہونے کا شکہوتا ہے۔ سرین کو چھوتے ہی اس میں شدت کا درد محسوس ہوتا ہے لیکن عضلاتتحلیل شدہ نہیں ہوتے کبھی ٹانگ میں درد کی شکایت ہو جاتی ہے جس سبب سےچلنے پھرنے سے معذور ہو جاتی ہے ۔ لیکن اگر اس کو ڈرایا جائے کہ گھر مں آگلگ گئی ہے۔ تو وہ ڈر کر چلنے یا کبھی دوڑنے لگتی ہے۔ بعض کو درد شکم کی شکایتہوتی ہے۔ پیٹ کو ہر جگہ دبانے سے کم و بیش درد محسوس ہوتا ہے بعض کو جسمکے دیگر حصض اور گردن میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ کسی کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔اور اس سے بولا نہیں جاتا۔ لیکن ایک دو گھنٹے بعد اس کی آواز کھل جاتیہے ۔ بعض کا جی متلاتا ہے ۔ ڈکار یا ہچکی آتی ہے ۔ پیٹ پھول جاتا ہے.دل دھڑکتا ہے۔ غشی ہو جاتی ہے۔ کسی کا پیشاب بند ہو جاتا ہے۔ کسی کے سینےمیں درد ہوتا ہے وغیرہ ۔ غرضیکہ طرح طرح کی شکایات ہوتی ہیں.تشخیص مرض ۔ اس مرض کو صرع یعنی مرگی سے تشخیص کرنا ضروری ہے۔

Tuesday, 8 October 2024

شادی آپ کی شخصیت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے—اور وہ بھی صرف 2 سال میں.کیا آپ جانتے ہیں کہ شادی کے بعد آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آتی ہیں؟ اور یہ سب کچھ دو سال سے بھی کم وقت میں ہو سکتا ہے! جی ہاں، ایک دلچسپ تحقیق نے اس راز کو فاش کیا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کس طرح وقت کے ساتھ اپنی شخصیت میں تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں۔شادی کے بعد آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟ایک تحقیق میں 169 نئے شادی شدہ جوڑوں پر 18 ماہ تک نظر رکھی گئی، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ شادی کے بعد ان کی شخصیت کیسے تبدیل ہوتی ہے۔ اس تحقیق نے پانچ اہم شخصی خصوصیات میں تبدیلیوں کا انکشاف کیا:نئے تجربات قبول کرنے کی صلاحیتزیادہ منظم اور محتاط ہونے کی خصوصیتسماجی میل جول کی طرف جھکاؤدوسروں کی بات ماننے اور موافقت کرنے کی صلاحیتجذباتی استحکام اور ذہنی دباؤ کی حالتشادی کے بعد کیا تبدیل ہوتا ہے؟تحقیق سے پتہ چلا کہ شادی کے بعد خواتین زیادہ جذباتی استحکام حاصل کرتی ہیں۔ وہ کم فکر مند، افسردہ اور غصے میں نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف، مردوں میں ذمہ داری کا احساس بڑھ جاتا ہے، یعنی وہ زیادہ بھروسے کے قابل اور ذمہ دار بن جاتے ہیں۔لیکن! یہ تصویر صرف خوشگوار پہلوؤں تک محدود نہیں ہے۔ دونوں شراکت دار وقت کے ساتھ کم "اوپن" ہو جاتے ہیں، یعنی وہ نئی چیزوں کو آزمانے کے بجائے شادی کی روٹین میں ڈھل جاتے ہیں۔سماجی دائرہ کیوں محدود ہوتا ہے؟تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ شادی کے بعد جوڑے عموماً کم سماجی ہوتے ہیں اور اپنے دوستوں کی فہرست کو محدود کر لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروعات میں خواتین زیادہ "اتفاق پسند" ہوتی ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، دونوں شراکت دار ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ اختلاف کرنے لگتے ہیں۔کیا عادات واپس آتی ہیں؟یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ محققین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی رومانس کا ابتدائی دور ختم ہوتا ہے، پرانی عادات واپس آ جاتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں پر عمر، شادی سے پہلے کا رشتہ یا بچوں کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تبدیلیاں کسی حد تک "یونیورسل" ہیں اور ان سے بچنا شاید ممکن نہیں!کامیاب شادی کے دو اہم رازماہرین نفسیات کے مطابق کامیاب شادی کے لیے دو انتہائی اہم مہارتیں درکار ہیں: خود پر قابو اور معافی۔تو، کیا آپ ان تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں؟ شادی نہ صرف محبت کا سفر ہے بلکہ شخصیت کی ایک نئی تشکیل بھی ہے۔ترجمہ و تلخیص: حمزہ زاہد۔ماخذ: ہاشم الغیلی، فیس بک پیج.مزید پڑھیں: https://rb.gy/f5f4wrنوٹ: اس طرح کی مزید معلوماتی پوسٹس کیلئے مجھے فالو کریں۔ براہِ مہربانی اگر اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں تو اصل لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔

Sunday, 6 October 2024

وٹامن ای۔ Vitamin E ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻻﺋﻒ ﻣﯿﮟﺍﯾﮉ ﻻﺯﻣﯽ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩُﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . :) ﺟﯿﺴﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﯿﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟﺍﺏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ :( ﻣﺮﺩﻭﮞﮐﻮ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﺷﻮﮔﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﺎﭘﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﺒﯿﺚ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞﻧﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﯿﻨﻮﭘﺎﺯ جسے سن یاس بھی کہتے ہیں، ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ، ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﺰ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ، PCOS ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ۔ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺟﻮ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﻨﺎﺅ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺩﻭﮌ ﺑﮭﺎﮒ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮐﺮﺩﯼ ﮨﮯ۔ﺁﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﭨﭗ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﺟﮭﺮﯾﺎﮞ، ﺍﯾﮑﻨﯽ ﭘﻤﭙﻠﺰ، ﺩﺍﻍ ﺩﮬﺒﮯ، ﻓﺮﯾﮑﻠﺰ، ﺳﺎﻧﻮﻻ ﭘﻦ، ﮔﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﯿﺎﭘﺎ، ﺍﻧﺮﺟﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ، ﮨﺮﻭﻗﺖ ﺗﮭﮑﻦ ﺭﮨﻨﺎ، ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﭼﮍﭼﮍﺍﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻣﺮﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻣﺴﺌﻠﮧ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﯽ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺣﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭨﻮﭨﮑﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ EVION 400 MG ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﻧﯿﻠﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ ﻣﯿﮟﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﻣﭙﻮﺭﭨﮉ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮔﺮﯾﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻟﯿﮟ . خوراک استعمال ﮐﺮﻧﺎ ﺻﺮﻑ 400 ملی گرام ﻭﺍﻻ ﮨﯽ ﮨﮯ، 600 ﺍﻭﺭ 200 ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟﮐﺮﻧﺎ . ﻧﮑﺘﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻨﮕﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ . ﻭﯾﺴﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟﮨﺮ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﭩﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﭨﺎﻣﻦ ﺍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ .ﻭﭨﺎﻣﻦ E ﮐﮯ ﺟﺎﺩﻭﺋﯽ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﻭﺍﻻ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮨﺮ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﭩﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﺎﺁﺳﺎﻧﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ہفتہ دو ہفتہ بھر استعمال کریں'پھر دو دن وقفہ کریںﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﮯ ﮐﻨﻔﺮﻡ ﮐﺮﯾﮟ، ﻻﻧﮓ ﭨﺮﻡ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺍﯾﻔﯿﮑﭧ سے اجتناب کریں۔چﺣﺎﻣﻠﮧ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﻼ ﺧﻮﻑ ﻭ ﺧﻄﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ۔ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﺘﻨﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺣﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺍﺛﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺳﮑﻦ ﭘﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﺎﮈﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺮﺟﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺍﻍ ﺩﮬﺒﮯ ﺩﺍﻧﮯ ﺍﯾﮑﻨﯽ ﭘﻤﭙﻠﺰ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺳﮑﻦ ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻟﮧ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮈﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺻﺎﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺪﯼ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮧ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﮭﺮﯾﺎﮞ ﭘﮍﯾﮟ۔ ﺳﮑﻦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭨﺎﺋﭧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﯾﮧ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﮯ۔ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮐﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﻭﺗﮫ ﮨﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺮﺩ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺳﺎﭨﮫ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺟﻮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﭩﻮ ﮨﯿﮟ۔ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻓﯽ ﻣﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻞ ﻣﺎﮈﻟﺰ ﺍﯾﮑﭩﺮﺯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻔﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﻧﻮﺧﺸﮑﯽ، ﻧﻮ ﮨﺌﯿﺮ ﻓﺎﻝ ﻧﻮ ﺑﺎﻟﭽﺮ ﻧﻮ ﮔﻨﺞ ﭘﻦ۔ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﭙﺴﻮﻝ ﺗﯿﺮﺑﮩﺪﻑ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ۔ﺗﯿﺴﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﭩﻮﻧﺲ ﮨﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺑﻨﺪﮦ ﮈﭘﺮﯾﺲ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻟﻮ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺰ ﻻﺋﻒ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮏ، ﺳﮑﻦ ﭨﺎﺋﭧ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻠﻘﮯ ﻏﺎﺋﺐ، ﺑﺎﻝ ﮔﮭﻨﮯ ﺳﯿﺎﮦ، ﭼﮩﺮﮦ ﻓﺮﯾﺶ، ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ؟؟؟۔ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﻭﮞﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎتا ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺮﯾﮉﺯ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ . ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﺑﺎﺅ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﺴﭧ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ. ﺟﻦ ﮐﻮ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ، ﺍﯾﻨﯿﻤﯿﺎ ﻭﺍﻻ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﺍُﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﮧ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ. ﮨﺎﺭﻣﻮﻧﺰ ﮐﻮ ﺑﯿﻠﻨﺲ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، . ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ .مردانہ طاقت کیلئے بڑھاپے میں بھی کارآمد وٹامن ای۔۔۔یہ وٹامن ای ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان جنسی عمل ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف انسانی بڑھوتری کا سبب ہے بلکہ اس سے زیادہ انسان کی جذباتی تسکین کا ذریعہ بھی ہے ۔ اس فعل کو بڑھانے اور زیادہ دیر تک لطف اندوز ہونے کے لئے۔اس کی کمی سے جنسی ہارمون اور غدود نخامیہ کا ہارمون دونوں کم ہوجاتے ہیں۔ یہ وٹامن بانجھ پن کو دور کرنے اوراسقاط حمل کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﮯ . ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﻮﭨﺎﭘﺎ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 15 ﻣﻨﭧ ﻭﺍﮎ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺭﺯﻟﭧ ﻣﻠﯿﮟ گے۔وٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہونے والی علامات🎗️ وٹامن ای کی کمی کی علاماتعصبی پٹھوں کی کمزوریوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہمیں پٹھوں کی کمزوری ہوتی ہے ہمارے اعصابی نظام کے لئے وٹامن ای بہت ضروری ہے یہ اہم آکسیڈنٹ میں شامل ہے۔اس کی کمی کی وجہ سے پٹھوں میں تناؤ پیدا ہوتا ہے جو پٹھوں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔چلنے میں دشواریوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے پیدل چلنے میں دشواری ہوتی ہے اور جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے جس وجہ سے انسان پیدل چلنے سے تھک جاتا ہےاور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔نظامِ انہظام کے مسائلوٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہمارا نظامِ انہظام ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتا۔وٹامن ای کی کمی ہمارے مدافعتی خلیوں کو روکتی ہے اس لئے بڑی عمر کے لوگوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔برائے مہربانی پوسٹ کو شیئر کریں اور ایسی مزید معلومات کے لیے مجھے فالو ضرور کریں شکریہ#foryouシ #everyone #followers #TopFans #highlights #facebookpost #Pakistan #viralposts #public #fb #world

(Message for Adults) مردوں کے عام جنسی سوال ؟۔۔۔👈#سوال 1: کیا مشتزنی کرنے سے واقعی نامردی، مردانہ بانجھ پن اور عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے؟👈#سوال 2: کیا عضو تناسل کے سائز میں اضافہ کرنے والا کوئی طلاء کریم مالش یا کوئی میڈیسن دستیاب ہوتی ہے؟👈#سوال 3:عضو تناسل کی معمول کی لمبائی کتنی ہوتی ہے، اور اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو تناسل کا نارمل سائز کتنا ہونا چاہیے؟👈#سوال 4: نارمل ٹائمنگ کتنی ہے اور کیا ٹائمنگ کی کمی اور پتلی سیمن مردانہ بانجھ پن کی وجہ بن سکتی ہے؟👈#سوال 5: میڈیکل سائنس میں کس کس مردانہ جنسی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے؟ 👈#جواب 1: درحقیقت مشتزنی سے نامردی ، بانجھ پن ،اور کوئی جسمانی بیماری یا نفس کا اصل میں پتلا ہونا چھوٹا ہونا یا ٹیڑھا ہونا ، یہ سب بلکل نہیں ہوتا۔ باقی کچھ لوگوں میں مشتزنی کی وجہ سے پیدا ہونے والی guilt سے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے سٹریس، ڈیپریشن ہو سکتا ہے ، اور ڈیپریشن ،سٹریس کی وجہ سے مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہوتی ہے اور اس سے عضو تناسل میں اچھی طرح تنائو یا اریکشن نہیں ہو پاتی اور اچھی طرح سے اریکشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو عضو تناسل کا سائز چھوٹا نظر آتا ہے، اور میڈیکل سائنس میں ڈیپریشن ،لو لیبیڈو اور مردانہ جنسی ہارمون کی کمی کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔باقی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عضو ٹیڑھا نہیں ہونا چاہیے ایک دلچسپ اور مزے کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد مردوں کے عضو لیفٹ سائیڈ کی طرف مڑے ہوتے ہیں چاہے انھوں نے مشت ذنی کی ہو یا نہیں اصل میں سب نارمل ہے کیونکہ عضو کسی ہڈی یا سخت چیز کا نہیں بنتا اگر عضو کی رگیں ابھری ہوئی ہوں تو عضو میں خون بھرے گا اور تناو ذیادہ ہوگا یہی حقیقی لذت ہے۔ لہذا مشتزنی کو ٹیڑھا پن اور ابھری ہوئی رگوں کا زمیندار نہ ٹھہراؤ۔👈#جواب 2: فلحال ابھی تک مارکیٹ میں کوئی ایسی میڈیسن ، سانڈھے اور سانپ غیرہ کا طلہ اور پھکی ایسی نہیں آئی جو عضو تناسل کو واقعی میں بڑا کر سکے ، جیسے 5 انچ کو 6 یا 7 انچ کر سکے، لہذا عضو تناسل کو بڑا کرنے کی بے وقوفی کرنا چھوڑ دو، اور اپنے پیسے بھی اس کام میں ضائع نہ کرو، میں نے فیس بک پہ بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو عضو تناسل کو موٹا لمبا کرنے کے چکر میں ہزاروں خرچ کر چکے ہیں اور انکو فائدا آدھے انچ کا بھی نہیں ہوا، پاکستان قوم ویسے تو بہت غریب ہے لیکن اس کام کے لے بغیر سوچے ہزاروں لگا دیتے ہیں۔👈#جواب 3:یوں تو ہر انسان کا انفرادی نوعیت سے عضو تناسل کی موٹائی اور لمبائ میں فرق ہوتا ہے عام طور پر عضو تناسل کی لمبائی میں اضافہ اس کے تناو کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی اولاد پیدا کرنے کے لئے عضو کا سائز 3 انچ کا بھی کافی ہے اور عضو تناسل کا اریکشن یا سختی میں ایوریج سائز تقریباً 5 انچ ہوتا ہے۔ اور مطمئن سیکس کیلیے کے لیے 3 سے 4 تک کا سائز بلکل کافی ہے، اور سائز قدرتی طور پر بڑھتا ہے اور کسی دوا سے نہیں بڑھایا جاتا۔باقی نارمل حالت جیسے آرام اور سکون کی حالت میں لمبائی اور موٹائی کے سائز میں فرق آجاتا ہے اسی طرح سڑیسئ، ڈیپریشن ، دماغی تناو یا پھر ٹھنڈی ہوا سے بھی عضو تناسل کا سائز عارضی طور پر سکڑ جاتا ہے۔ جیسے 2 سے 3 انچ تک ہو جاتا ہے، باقی موٹاپا سے عضو تناسل کا سائز کم ہوتا ہے, پھر وزن کم کرنے سے عضو تناسل کا نارمل سائز دوبارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔(لہذا اپنے عضو تناسل کے سائز کو چھوتے بچوں والا سائز نہ کہیں، نارمل حالت میں سب کا ایسا ہوتا ہے)👈#جواب 4:نارمل ٹائمنگ 3 سے 5 منٹ ہے۔ شادی کے آغاز میں یہ 1 منٹ سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ باقی ٹائمنگ کی کمی کو نامردی نہیں کہا جا سکتا چاہے ٹائمنگ کچھ سیکنڈ ہی کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی پتلی سیمن اور ٹائمنگ کی کمی سے مردانہ بانجھ پن ہوتا ہے، البتہ یہ دونوں صورتیں کسی اور وجہ سے کچھ لوگوں میں ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں زیادہ تر سرعت انزال یا ٹائمنگ کی کمی کی وجہ معمولی ہوتی ہے ، جیسے عضو تناسل کا زیادہ احساس ہونا (Hypersensitivity) ,سٹرس ، ڈیپریشن، گیس اور سوچ وغیرہ ہی ہے، باقی مردانہ بانجھ پن کسی وجہ سے سپرمز کی کم مقدار اور سپرمز کی کم موٹیلیٹی سے ہوتی ہے ، مردانہ بانجھ پن کی درجنوں وجوہات ہ ہوتی ہیں،اگر کسی کو شادی کے ایک سال بعد بھی حمل نہ ہو رہا ہو تو پھر مردانہ بانجھ پن کی تشخیص اور علاج کےلئے کسی ڈاکٹر (یورولوجسٹ) سے رجوع کریں۔👈#جواب 5: میڈیکل سائنس میں عضو تناسل کے ٹیڑھے پن کو سیدھا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عضو تناسل کو کسی میڈیسن کے زریعے سے لمبا موٹا کیا جا سکتا ہے ، جیسے سختی کے حالت والے 4 انچ کے عضو تناسل کو کسی میڈیسن سے 5 یا 6 انچ بلکل نہیں کیا جا سکتا، باقی میڈیکل میں درست تشخیص کے بعد سرعت انزال یعنی ٹائمنگ کی کمی اور زکاوت حس کا علاج کا کچھ حد تک علاج کیا جا سکتا ہے، اور جنسی خواہش کی کمی یا لو لیبیڈو کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے ، اور جس کو مردانہ جنسی ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون کی کمی ہو اس کا بھی علاج کیا جا سکتا اور مزید جس کو ED یعنی عضو تناسل کے تنائو اور اریکشن کا مسلئہ ہو اور بانجھ پن کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے.( باقی لاکھوں روپیے کی سرجری سے سائز کچھ زیادہ ہو سکتا ہے)آخری ہدایت یہ ہے کہ جنسیات سے متعلق کسی بھی مسلے کی صورت میں خود سے کوئی دوائی استعمال نہ کریں، کیونکہ سیلف میڈیکیشن کرنے کے فائدے کی بجائے بہت سے سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔ شکریہ Regards Dr Akhtar MalikFollow me Malik DrAkhtar WhatsApp for consultation 03041574655

Saturday, 5 October 2024

تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ میں ایک نئی قسم کا انسان نما جاندار (ہومونن) نمودار ہوا تھاکسی کو یہ صحیح سے نہیں معلوم کہ اُس نئی قسم کا انسان کہاں سے آیا یا اس کے والدین کون تھےلیکن ہم اس قسم کو جسمانی طور پر معاصر انسان یا ہومو سیپئنس کہتے ہیںان انسان نما جانداروں کے گول سر اور نوکیلی ٹھوڑی اُن کی شناخت ہوتی تھیوہ اس وقت کے ملتے جلتے جانداروں سے کم وزن تھے اور ان کے دانت چھوٹے تھےجسمانی طور پر وہ کافی دلکش نہیں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ انتہائی ہوشیار تھےانہوں نے پہلے تو بنیادی نوعیت کے اوزار بنائے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے گئےوہ اگلے ادوار تک اپنی بات پہنچانا جانتے تھےوہ مختلف موسموں میں رہ سکتے تھے اور شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات مختلف اقسام کی خوراک کے ساتھ گزارا کر سکتے تھےجہاں جانوروں کی بہتات ہوتی تھی وہ ان کا شکار کرتے تھے جہاں شیل مچھلی موجود ہوتی تھی اور وہ اسے کھاتے تھےیہ بار بار برف جم جانے والا دور یعنی پلیسٹوسین کا زمانہ تھاجب دنیا کا بڑا حصہ بڑی برف کی سخت چادروں سے ڈھکا ہوا تھاتقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے انسان کی وہ نئی قسم شمال کی طرف بڑھنے لگی تھی۔اُن انسانوں نے ایک لاکھ سال پہلے مشرق وسطیٰتقریباً 60 ہزار سال پہلے آسٹریلیا40 ہزار سال پہلے یورپ اور 20 ہزار سال پہلے امریکا (شمالی اور جنوبی امریکا) تک پہنچنے کی کوشش کیراستے میں کہیں شاید درمیان کے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کی اس نئی قسم ہومو سیپئنس کا اپنی جیسی مگر مضبوط مخلوق سے سامنا ہواجو نیانڈرتھل کے نام سے بھی جانے جاتے ہیںپھر انسانوں (ہومونن) اور نیا نڈرتھل کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوئےاور ان کی اولاد اپنی نسلیں پیدا کرنے تک باقی رہیںتاہم آج کل دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے پاس نیانڈرتھل کے بارے میں بہت کم معلومات ہیںپھر کچھ ایسا ہوا کہ نیانڈرتھل نامی انسان کی قسم دنیا سے غائب ہو گئیشاید ہومو سیپئنس انسانوں نے ان کو اپنی مستعدی سے ختم کیا یا شاید ان سے مقابلہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیاحال ہی میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کے ایک گروپ کا یہ بھی خیال ہے کہ ہومو سیپئنس انسان اپنے ساتھ گرم خطوں کی بیماریاں لے کر وہاں گئےجہاں سردی میں رہنے کی عادی اُن سے ملتی جلتی مخلوق بیماریوں کو برداشت نہیں کر پائیوجہ خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ نیانڈرتھل نامی قدیمی انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی وجہ ہومو سیپئنس یعنی انسان ہی تھےجیسا کہ ایک سوئیڈش تحقیق کار سوانٹے پابو نے نیانڈرتھل جینوم کے آثار کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی سربراہی کی تھی کے مطابق ان کی بدقسمتی ہم (یعنی انسان) تھےنیانڈرتھلز کا تجربہ کوئی خاص توجہ کے قابل ثابت نہیں ہواجب انسانوں کی آسٹریلیا آمد ہوئی تو وہ خطہ انتہائی بڑے جانوروں کی آماجگاہ تھاان میں مارسوپیل لائنز شامل تھے جو اپنے وزن سے بالاتر اپنے دانتوں سے کسی بھی ممالیہ جانور سے زیادہ طاقتور گرفت رکھتے تھےاس کے علاوہ میگالینیا یعنی دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں اور ڈپروٹوڈونز جو گینڈے نما ریچھ کہلاتے ہیں وہ بھی وہاں پائے جاتے تھےاگلے کئی ہزار سالوں کے دوران تمام بڑے جانور وہاں سے غائب ہو گئےجب انسانوں نے شمالی امریکا میں قدم رکھا تو وہاں پر ان کے پاس اپنے خود سے بڑے جانوروں کا گروپ تھاجس میں مستوڈونز، میموتھز اور بیورز شامل تھےجو 8 فٹ لمبے اور 200 پاؤنڈ وزن رکھتے تھےوہ بھی ختم ہو گئےجنوبی امریکا میں بھی بڑے ممالیہ جانور، قوی الجثہ آرمڈیلو جیسے جانور اور ٹوکسوڈون کے نام سے معروف ایک قسم کے گینڈے کے سائز کے سبزی خور جانوروں کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہوا اور وہ ختم ہو گئےارضیاتی اعتبار سے اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ اقسام کے ختم ہونے کا منظر بہت ہی ڈرامائی تھاکہ چارلز ڈارون کے دور میں یہ کہا گیا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت بڑے عجیب و غریب اور خوفناک شکلوں والے جانور حال ہی میں غائب ہو گئے ہیںیہ تبصرہ ڈارون کے مخالف الفریڈ رسل والیس نے 1876 میں کیا تھاسائنسدان اس وقت سے بڑے جانوروں کے خاتمے پر بحث کرتے آ رہے ہیںاب یہ جانا جاتا ہے کہ خاتمہ مختلف براعظموں میں مختلف وقتوں میں ہوااور جانوروں کا خاتمہ انسانوں کی آمد کے ساتھ ہی ہوا ہےدوسرے الفاظ میں ان کی بدقسمتی ہم یعنی انسان تھےانسان اور بڑے جانوروں کی مڈبھیڑ پر تحقیق کرنے والوں نے پتا کیا کہ اگر شکاریوں کے گروپ ایک سال کے دوران صرف ایک بہت بڑے جانور کا شکار کرتے ہوں گےتو آہستہ آہستہ نسل بڑھانے والے اُن جانوروں کا کئی صدیوں تک تھوڑا تھوڑا شکار کرناانہیں خاتمے کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہو گاآسٹریلیا کی مکوئیری یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر جان الروائے نے اس دور میں بڑے جانوروں کے خاتمے کو ارضیاتی طور پر ایک ماحولیاتی تباہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا خاتمہ اتنا آہستہ آہستہ ہوا کہ ایسا کرنے والوں کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھاجب یورپ میں 15ویں صدی کے آخر میں لوگ دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی کالونیاں بنانے لگے تو جانوروں کے خاتمے کی رفتار بڑھ گئیموریشس کے جزیرے کے مقامی پرندے ڈوڈو کو 1598ء میں ڈچ فوجی ملاحوں نے پہلی بار دیکھااور پھر 1670ء کے دوران یہ غائب ہو گیااس کی تباہی کی وجہ شاید انہیں خوراک کے لیے ذبح کرنا اور شاید دیگر پرندوں کو وہاں متعارف کروانا بھی تھاجہاں بھی یورپی لوگ گئے وہ اپنے ساتھ چوہے لےکر گئے جو ان کے ساتھ بحری جہازوں میں ہوا کرتے تھےیورپی لوگ جہاں کہیں بھی قدم رکھتے تھے تو دیگر جانوروں کا شکار کرنے والے جانوروں کو بھی ان علاقوں میں متعارف کرواتے تھےجیسے بلیاں اور لومڑیاں جو چوہے تو کیا دیگر کئی جانداروں کا بھی شکار کرتے ہیں1788ء میں جب اولین یورپی کالونیاں بنانے والوں نے آسٹریلیا میں آنا شروع کیا تو اُن کے ساتھ لائے ہوئے جانوروں نے وہاں کے درجن بھر مقامی جانوروں کی اقسام کو ختم کر دیاجن میں بڑے کانوں والے ہاپنگ ماؤس شامل ہیں اور مشرق کا خرگوش نما جانور بھی شامل تھا جنہیں بلیوں نے کھا کر ختم کر دیا تھاجب انگریزوں نے نیوزی لینڈ میں نوآبادی قائم کرنا شروع کی تو تقریباً سال 1800ء کے آس پاس 20 اقسام کے پرندوں کا خاتمہ کر دیا گیاجن میں چتھم آئلینڈز پینگوئن، ڈیفنباک کی ریل اور لائل کی رین شامل ہیںکرنٹ بائیولوجی نامی جریدے میں حال ہی میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق نیوزی لینڈ میں معدوم ہونے والے پرندوں کی اقسام کو وہاں انسانوں سے بسنے سے پہلے والی تعداد پر لانے کے لیے پانچ کروڑ سال درکار ہوں گےیہ تمام نقصانات سادہ ہتھیاروں اور طریقوں سے کیے گئے تھےڈنڈوں، قدیم بندوقوں، چلتی کشتیوں کے علاوہ کچھ کمزور متعارف کردہ جانداروں کے ذریعے مقامی پرندوں کو ختم کیا گیا اور پھر مارنے کا میکانکی طریقہ استعمال کیا گیانویں صدی کے آخر میں شکاریوں نے چھروں والی بندوقوں کا استعمال کیا جو ایک فائر میں کئی چھروں سے بہت سے پرندے مار سکتی تھیںجس سے کبوتر کی قسم کا شمالی امریکا کا ایک پرندہ جس کی تعداد پہلے اربوں میں تھی وہ معدوم ہو گیاٹرین میں بیٹھے بیٹھے پرندوں کا شکار کرنے والے شکاریوں نے ایک ایسے امریکی پرندے کی قسم کو ختم کر دیا جو اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے تھے کہ اُن کا آسمان پر جھنڈ ستاروں سے بھرا ہوتا تھااب دنیا میں جانداروں کی جو اقسام موجود ہیں یہ وہ ہیں جنہوں نے برفانی ادوار میں بھی اپنا وجود قائم رکھا تھا یعنی وہ سخت سردی برداشت کرنا جانتے ہیںلیکن کیا اب وہ گرمی بھی برداشت کر پائیں گے یہ واضح نہیں ہےدنیا جتنی گرم اب ہے دسیوں لاکھوں سال میں وہ اتنی گرم کبھی نہیں رہیپلیسٹوسین (برفانی) دور کے دوران بھنورے جیسے چھوٹے جانور صدیوں میں ہجرت کرتے تھے تاکہ موافق موسم میں رہ سکیںآج کل ان کی بے شمار اقسام دوبارہ ہجرت کے لیے تیار ہیں لیکن برفانی ادوار کی طرح ان کا راستہ عموماً شہروں، شاہراہوں اور کھیتوں سے گزرتا ہےجسے عبور کرنا اُن کے لیے آسان نہیں ہےماضی کی ماحولیاتی تبدیلیوں میں اُن کے ردعمل کی روشنی میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کی موسمیاتی تبدیلی میں اُن کا ردعمل کیسا ہو گاکیونکہ اب ہم نے جانداروں کی نقل مکانی کی راہ میں بے شمار مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیںاس کہانی کا انجام قطعی نامعلوم ہےگزشتہ نصف ارب سالوں کے دوران دنیا کا پانچ بار خاتمہ ہو چکا ہےجس میں دنیا کے ایک تہائی جانداروں کی اقسام کا خاتمہ ہو چکا ہےسائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب ہم چھٹے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیںلیکن اس کی وجہ پہلی دفعہ ایک حیاتیاتی ایجنٹ یعنی ہم انسان ہیںکیا ہم اس تباہی کو روکنے کے لیے بروقت کچھ کر پائیں گے؟دی کلائمیٹ بُکمصنف: گریٹا تھیونبرگ