Saturday, 19 June 2021

سانحہ زیارت حقائق کی روشنی میںزیارت جس کا تاریخی نام خراسان ہے، اس وقت بلوچستان کاایک ضلع ہے۔ اس کے دو تحصیل، تحصیل زیارت اور تحصیل سنجاوی ہیں۔ 1489 کلو میٹر رکھنے ولا تحصیل زیارت کی ٹوٹل آبادی 67598 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں پر مختلف قبائل جس میں سارنگزئی، پانیزئی، دومڑ، دوتانی، ترین، تارن، عیسی خیل، رئیسانی، بابر وغیرہ سینکڑوں سال سے اپنے آبائی زمینوں پر آباد ہیں۔ سارنگزئی قبیلے کے چار زیلی شاخ ابراھیم زئی، سیدزئی (جس کا شارٹ فارم سیزئی ہے) تیمورزئی اور ادین زئی زیارت میں آباد ہیں۔ ان میں سیدزئی قبیلہ زیارت شہر اور اردگرد کے قریبی علاقوں بسترگی، نورنگ، وچہ غوسکی، سپلی، باباخرواری، سڑہ خیزی، زیزری، کوشکی اور گڈھ چشمہ وغیرہ میں آباد ہیں۔ گمشدہ تاریخ تو ہزاروں سال کا ہوگا۔ معلوم تاریخ میں اس علاقے کے سردار لطیف سارنگزئی (ملا طاہر بابا خرواری کے بھتیجے) کی سربراہی میں سارنگزئی قبیلے نے پانی پت کی دوسری لڑائی 1761 میں احمدشاہ ابدالی کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ انگریز کا اس خطے میں آنے پر سارنگزئی قبیلے نے کئی محازوں پر ان کی مظبوط مزاحمت کی۔ آخرکار انگریزوں نے مسلسل کوششوں سے جھنگوں اور معائدوں کے زریعے افغان ریاست کے کچھ حصے کاٹ کر اور کچھ ریاست قلات سے اجارے پر لیکر 1877 میں برٹش بلوچستان ایجنسی بنائی۔ کوئٹہ کو اس کا دارلحکومت بنا کر متحدہ ہندوستان کا حصہ بنایا گیا۔ انگریز ایک قابض قوت تھا۔ لیکن تھا بہت منظم۔ باقی برصغیر کی طرح یہاں بھی ریاستی ادارے بنائے، انفراسٹرکچر بنایا، قبائل کا ریکارڈ بنایا، زمینوں کے نقشے اور ریکارڈ بنائے۔ ریاستی مشینری کے لئے قبائل سے زمین خریدی گئی۔ اسی سلسلے کی کڑی کی طور پر سارنگزئی قبیلے کے زیلی شاخ سیدزئی سے زمین خریدی گئی جس پر آج کل قائد اعظم ریزیڈینسی موجود ہے۔ 1903 میں جب انگریز سرکار نے سبی کو ضلع تھل چھوٹیالی سے علیحدہ کر کے ضلع بنایا اور زیارت کو اس کے تحصیل شارگ کا سب تحصیل بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد 1986 میں زیارت کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اوپر جن قبیلوں کا ذکر ہوا ہے، تاریخ کے کتابوں اور انگریز کے سرکاری تاریخ گزہیٹیر کے مطابق وہ تب سے آج تک انھیں آبائی زمینوں پر آباد ہیں۔ کوئٹہ 1935 کے تباہ کن زلزلے کے بعد سنرزئی کے نام سے ایک گھرانے ( بعض غیر تصدیق شدہ روایات کے مطابق برٹش بلوچستان ایجنسی کی بنیاد رکھنے والے سر رابرٹ سنڈیمن کے اولاد میں سے ہیں) نے زیارت جا کر سیدزئی قبیلے پر "ھڈ مات" کیا۔ ( ھڈ مات مواخات، بھائی چارہ یا اس کے قریب قریب معنی رکھتا ہے)۔ سنرزئی نے سارنگزئی کا نام اپنایا۔ اور سیدزئی نے زیارت کے قریب لورلائی روڈ پر اکرم سخوبی کا زمین بھائی چارے کے طور پر بطور چادر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد 1966 میں ایک جھگڑے کی بنا پر جس میں پانچ سے دس لوگ زخمی ہوئے تھے، سیدزئی قبیلے نے بطور دلجوئی اور جرمانہ موجودہ سنڈیمن اور چاوترے کا زمین دیا۔ جس کا تحریری فیصلہ موجود اور کئی گوہ زندہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ سنرزئی قبیلہ مظبوط ہوتا گیا اور خود کو ھڈمات سارنگزئی کاکڑ کے بجائے عیسی خیل کاکڑ بتانے لگا ( عیسی خیل کاکڑ کے شجرہ نسب میں سنرزئی قبیلے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے). زیارت کے سارے قبائل شرافت کے مثال ہیں۔ کسی بھی قبیلے کا دوسرے قبیلے کے ساتھ زمین کا کوئی تنازع نہیں ہے۔ اگر چند تنازعات ہیں بھی تو وہ قریبی لوگوں کے اپسی تنازعات ہیں۔ سارے تحصیل میں دوسرے پشتون علاقوں کی نسبت قتل کے گنتی کے چند واقعات ہوئے ہیں۔ جن میں اکثر کے تانے بانے اقلیتی قبیلے سنرزئی کے ساتھ ملتے ہیں۔ سارنگزئی کا زیلی قبیلہ باقی شریف قبائل سے بھی کچھ زیادہ ہی شریف ہے۔ اس اکثریتی غریب قبیلے میں شرح تعلیم کم، پشتون ولی زیادہ اور شرافت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے۔ اس کی چند مثالیں ہم اس طرح دیں سکتے ہیں۔ سنرزئی قبیلے کو 1966 کی ایک جھگڑے میں جس میں پانچ، دس افراد زخمی ہوئے تھے کے بدلے میں سنڈیمن چوترے میں زمین کا جو ٹکڑا بطور جرمانہ دیا تھا وہ بھڑتے بھڑتے سینکڑوں پھر ہزاروں ایکڑ تک پہنچ گیا. اور اب تک دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ زیارت کے اکثر سیاحتی مقامات پیچی ڈیم سے لیکر بازر، پراسپیکٹ پوائنٹ، زیزری، بابا خرواری، دوزخ تنگی ،ڈومیارہ غنڈی تک سیدزئی کے علاقے میں واقع ہیں۔ سارے پاکستان سے سیاح ان خوبصورت مقامات کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس شریف قبیلے نے سب کو خوش آمدید کہا، ہر سیاح کو مہمان سمجھا، کبھی کسی سیاح کو ازار نہیں پہنچایا۔ اگر کھبی کسی کو تکلیف ہوئی بھی ہو تو چند افراد کے زاتی عمل یا کچھ کاروباری لوگوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔ مشکل ہے کسی کو تکلیف پہنچائی ہو۔سیدزئی نے زیارت کے کسی بھی قبیلے کا نہ ایک انچ زمین قبضہ کیا ہے نہ ہی ان پر قبضے کا کوئی الزام یے۔ سیدزئی نے ریزیڈینشل کالج کے نام سینکڑوں ایکڑ کی زمین وقف کر دی جس پر الھجرہ ٹرسٹ قائم ہے۔ پیچی ڈیم کے قریب ٹرانسپورٹ اڈہ اور مارکیٹ کی زمین، پراسپیکٹ پوائنٹ اوبشت ریسٹ ہاوس، زیزری ٹورسٹ ھٹس، وغیرہ خدمت خلق کے لئے وقف کی ہے۔ ناصر قبیلے کے نعمت خیل شاخ کا گھرانہ دسیوں سالوں سے ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہ رہا ہے۔ ہمارے افغان جھنگ زدہ خلجی قبائل سیدزئی کی زمین پر سیدزئی کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ زیارت کے سارے قبائل سگے بھائیوں کی طرح امن سے زندگی گزار رہیں ہیں۔ زیارت میں پانی کم ہے لیکن چیری اور سیب کا بڑا اچھا فصل ہوتا ہے۔ اس کے لئے سارے قبائل اپنے آبائی زمینوں پر نئے نئے باغات لگانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ سیدزئی بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔ سید زئی قبیلے کے مشران پچھلے چند سالوں سے اس کوشش میں تھے کہ 1966 کی جھگڑے کے عیوض سنرزئی کو دی گئی اصل زمین اور بیس گنا قبضہ کی گئی زمین کے علاوہ باقی زمین تقسیم کی جائے۔ تاکہ سنرزئی کے دن بدن قبضے سے کل خدانخواستہ کوئی مسلہ نہ بن جائے۔ اور زمین بھی آباد ہوجائے۔ اس سلسلے میں سیدزئی کے چند مشران اور مدد کے لئے کچھ جوان زمین تقسیم کرنے گئے۔ نہتے سیدزئی پیمائش میں لگے تھے کہ سنرزئی قبیلے کے سو سے زیادہ لوگ ملکان اور قاضی صاحبان سے لیکر جوانوں تک جدید اسلحے سے لیس (جوانوں میں زیادہ تر لیویز ملازمین سرکاری اسلحہ ہاتوں میں) اور ایک دم اندھا دھند سٹیٹ فائر شروع کیا۔ اور ساتھ سیدزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سارنگزئی کے سردار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا۔ سید زئی کا ایک شخص موقع پر شہید اور آٹھ افراد زخمی ہوئے۔ (جن میں ایک جوان زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے) شہید اور زخمی ڈی۔ایچ۔کیوں ہسپتال زیارت لائے گئے اور وہاں سے کوئٹہ ریفر کر دیئے گئے۔ سنرزئی نے تو حملہ منصوبے کے تحت کیا تھا اس لئے بازار پہلے سے ہی خالی کیا جا چکا تھا۔ سیدزئی کے جوان عین فطرت اشتعال میں آئے۔ کسی کے گھر پر حملہ کرنا تو پشتون روایات کے خلاف ہے۔ اشتعال زدہ نوجوانوں کو جب کچھ اور نہ سوجھا تو سنرزئی کے پانچ دس دکانوں اور یک ریسٹ ہاوس کو آگ لگا دی۔ سنرزئی کے زیارت شہر میں پچاس سے زیادہ دکانیں اور اتنے ہی ریسٹ ہاؤسز، بنگلے وغیرہ ہیں۔ زیارت شہر کا ایک فیصد اور سنرزئی قبیلے کے املاک کا دو سے تین فیصد تک جل گیا۔ آفرین ہو سیدزئی کے مشران اور دوسرے قبائل پر جنہوں نے اس خون زدہ ماحول میں بھی جوانوں کو کنٹرول کیا۔ سنرزئی موروثی طور پر تیز اور چاپلوس لوگ ہیں۔ اور سیدزئی اکثریتی غریب، پروقار اور بے زبان قبیلہ ہے۔ سنرزئی نے اپنے اسی چرب زبانی کی وجہ سے سوشل میڈیا میں ایک تاثر بنایا کہ زیارت شہر مکمل جل گیا، اس میں کوئی تیسرا قوت ملوث ہے، اسٹبلشمنٹ کی سازش ہے، انتظامیہ ساتھ ملی ہوئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ منصوبے کے تحت سیدزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک غریب بے گناہ انسان کو شہید کیا گیا۔ اٹھ اور کو موت کے گھاٹ اترنا چاہا وہ تو خدا نے زندگی دی، ایک شدید زخمی ابھی تک موت اور زندگی کی کشمکش میں ہے۔ سارنگزئی جیسے شریف اور معزز قبیلے کے سردار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا۔ اور پڑی ہے تو جائداد کی۔ کوئی بھی گن لیں سنرزئی کے شہر میں املاک کتنے ہیں اور جلے کتنے سچ اور جھوٹ کا صاف صاف پتہ چل جائے گا۔ ہمیں نہیں پتہ کہ تیسرا قوت کیا ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کون ہے، انتظامیہ کی جانبداری اور غیر جانب داری بھی ہوتی ہے۔ خفیہ قوتیں کس طرح منصوبے بناتے ہیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو اس کا الہ کار تو تم ہو۔ ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ تو تم نے کیا ہے۔ ہماری باری تو ابھی تک نہیں آئی ہے۔ سنرزئی نے تو بے شرمی کے سارے حدود کراس کر دئیے۔ اسلامی، پشتون، قبائلی اور علاقائی روایات روندھ ڈالے۔ تم نے تو امن کو پوجھنے والوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا(شیر کرے تاکہ لوگوں کوسچ کا پتہ چلے کہ حقیقیت کیا ہے)

No comments:

Post a Comment