Monday, 11 July 2022
آپ نے یقیناً کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ قربانی کے گوشت کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا، اس میں سے ایک ناگوار سی مہک یا بو آتی ہے اور یہ جلدی گلتا یعنی پکتا بھی نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ سب کچھ آپ نے بھی محسوس کیا ہو۔ اگر ہاں تو کیا کبھی سوچا کہ ایسا کیوں یے؟ اگر غور کرنے کا وقت نہیں ملا تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے بڑا مہنگا جانور خرید رکھا ہو، لاریب کہ آپ کا جانور خوبصورتی میں بھی بے مثال ہو، لیکن معذرت کے ساتھ آپ کو جانور ذبح کرنا یا کروانا نہیں آتا۔ ذرا ٹھہریں، غصہ تھوک دیں، لیکن حقیقت یہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ اگر یقین نہیں آرہا تو پھر یہ باتیں غور سے سنیں، سمجھیں اور اس عید قربان پر ان پر عمل کریں۔ آپ خود ہی کہیں گے کہ قربانی کا گوشت تو ہم آج پہلی دفعہ کھا رہے ہیں، کیونکہ ایسا مزیدار، صحت بخش اور خوشبودار جنتی گوشت آپ نے پہلے کبھی نہیں کھایا ہوگا۔آپ کو کرنا کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ بس ساون کے مینڈکوں کی طرح نکلنے والے نسلی یا فصلی قصائیوں کی باتوں پر یقین نہیں کرنا بلکہ دین کی روشنی اور ذبیحے کی سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے میرٹ پر جانور ذبح کروانا اور گوشت بنوانا ہے۔ اگر وہ آگے سے جز بز ہوں تو آپ چیں بچیں ہو جائیں۔ آخر آپ ان کو پیسے کس بات کے ادا کر رہے ہیں؟ اگرچہ سچے آپ بھی ہیں کہ پاکستان اور میرٹ!!! جی ہاں! کہیں اور ہو یا نہ ہو، لیکن اس بار چھری تلے میرٹ ضرور ہونا چاہیے، بس یہی آپ نے کرنا ہے۔اگر آپ پاکیزہ، خوشبودار اور ذائقہ دار گوشت کھانے کے واقعی خواہشمند ہیں تو پھر سنیے۔ ذبح کرنے کی چھری آپ کی نیتوں کی مثل اچھی طرح تیز ہونی چاہیے، ذبح کرنے سے قبل جانور کو خوب کھلا پلا لیں اور جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کرکے خوف کا شکار مت کریں۔ ان تمام صورتوں میں جسم میں ایک کیمیکل 'ہسٹامین' خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے، جو خون کی نالیوں کو پھیلا دیتا ہے، جس سے خون سست رفتار ہوکر مکمل طور پر جسم سے خارج نہیں ہو پاتا۔ اور یوں گوشت کی کوالٹی متاثر ہو جاتی ہے۔اور سب سے اہم بات جو آپ نے دھیان میں رکھنی ہے وہ یہ کہ ذبح کرنے والے کو کبھی مذبوح کے حرام مغز کو نہیں کاٹنے دینا۔ اگرچہ وہ سو بہانے بنائے گا اور جانور کو جلدی ٹھنڈا کرکے اذیت سے نجات دلانے کے دعوے کرے گا، لیکن آپ نے سنی ان سنی کردینی ہے۔ اسے نہ آپ کے جذبہ قربانی کی فکر اور نہ بسمل کی تکلیف کا خیال۔ وہ تو بس اگلے گاہک اور اپنی ففٹی سنچری کے تصور میں ہوگا۔ اور شرعی طور پر بھی چھری ریڑھ کی ہڈی کے مہروں تک لیجانا جانور کو بلاوجہ اذیت دینا اور مکروہ ہے۔ ذبح کی شرائط میں اول سانس کی نالی، دوم خوراک کی نالی، سوم دو جگلر آرٹریز اور چہارم دو کیروٹڈ آرٹریز میں سے کسی تین کا مکمل یا جزوی کٹ جانا اور خون کا بہہ جانا شامل ہے۔ چلیں آپ ساری نالیاں اور رگیں کاٹ دیں مگر مہروں تک چھری پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی دادوں پردادوں کے فن دکھانے کی کوشش میں حرام مغز کو کاٹ دیتا ہے تو جسم کا تڑپنا یکدم رک جائے گا اور یوں گوشت میں موجود باریک رگوں سے خون خارج نہیں ہوپائے گا۔ جس کا نتیجہ گوشت کی خرابی کی اور ذائقے کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔اور آخری بات، جانور کے تڑپنے کے ساتھ اس کی تکلیف کا کوئی تعلق نہیں۔ پہلے دو تین سیکنڈ میں ہی جب سانس اور خون کی نالیاں کٹ جاتیں ہیں، تو اس کا دماغ بے حس ہوکر تکلیف محسوس کرنا بند کردیتا ہے۔ تڑپنا اس کے پٹھوں کی غیر ارادی حرکات کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس کے حرام مغز کے تحت ہوتی ہیں۔ نیچے کچھ تصاویر میں مذبوح کے گلے میں موجود نالیوں اور خون کی رگوں کے مقام کو واضح کیا گیا ہے۔ دیکھ کر ذبح کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔جزاک اللہ
#سیاحوں سے آپیل کرتے ہیںہم #زیارت آنے والے #معزز #سیاحوں کو #خوش_آمدید کہتے ہیں اور ساتھ ہی ایک درخواست بھی کرتے ہیں کے علاقے کے لوگوں سے #بدتمیزی نہ کرے #بزرگوں #خواتین کی عزت کرے #میوزک سلو لگائیں اور #آذان اور #نماز کی وقت پر شور شرابہ نہ کرے #گاؤں اور #گلی_محلے میں #موبائل سے #ویڈیو اور #تصویر نہ بنائیں اور گلی معلوم #ڈرون_کیمرے کی استعمال نہ کرے#درختوں کو آگ نہ لگائیں اور توڑ پھوڑ نہ کریں. #شکریہ
#سیاحوں سے آپیل کرتے ہیںہم #زیارت آنے والے #معزز #سیاحوں کو #خوش_آمدید کہتے ہیں اور ساتھ ہی ایک درخواست بھی کرتے ہیں کے علاقے کے لوگوں سے #بدتمیزی نہ کرے #بزرگوں #خواتین کی عزت کرے #میوزک سلو لگائیں اور #آذان اور #نماز کی وقت پر شور شرابہ نہ کرے #گاؤں اور #گلی_محلے میں #موبائل سے #ویڈیو اور #تصویر نہ بنائیں اور گلی معلوم #ڈرون_کیمرے کی استعمال نہ کرے#درختوں کو آگ نہ لگائیں اور توڑ پھوڑ نہ کریں. #شکریہ
💕ہارمونز_میں_عدم_توازن_کی_وجوہات_علامات_اور_احتیاط#ہارمونز_میں_عدم_توازن_کی_وجوہات :ہارمونزمیں عدم توازن کی سب سے اہم وجہ مستقل تناؤ اور پر سکون لائف اسٹائل کا نہ ہونا ہے ۔وہ خواتین جو گھریلو نا چاقیوں میں الھجی رہتی ہیں یا پھر بھر پور غذا اور نیند نہیں لیتیں ان کے ہارمونز میں عدم توازن پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ خواتین جو تمباکو کا زیادہ استعمال کرتی ہیں ان خواتین کے ہارمونز بھی ڈسٹرب ہو جاتے ہیں ۔#ہارمونز_میں_عدم_توازن_ہونے_کی_واضح_علامات:1۔حیض کی کمی یا زیادتی2۔ وزن کا تیزی سے بڑھنا یا گرنا3۔ بھوک کی زیادتی یا کمی4۔افسردگی ،ڈپریشن5۔ بالوں کا گرنا اور روکھا ہونا6۔تکان ،بے چینی اور گھبراہٹ7۔چہرے پر زائد بالوں کا اگنا8۔(sexual feelings)کا بہت زیادہ یا کم ہو جانا#ہارمونل_بیلنس_کے_لئے_چند_اہم_احتیاطیں :۱۔ہارمونل بیلنس کے لئے ورزش کرنا مفید ہوتا ہے لیکن پیچیدہ اور تھکا دینے والی سخت ورزش کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔۲۔ مصنوعی فلیوراور رنگوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۳۔باقاعدگی سے صبح کی دھوپ لینی چاہئے۴۔ تیز مرچ مصالحے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۵۔ مصنوعی طریقے سے اگنے والی سبزیاں اور پھل استعمال نہیں کرنا چاہئے۶۔ جسم میں وٹامن ڈی اور پروٹین کی کمی بھی ہارمونز میں عدم توازن پیدا کرتی ہے ،وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لئے دوائیں اور انجیکشن بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔۷،بادی ،خشک اور قبض پیدا کرنے والی اور وزن بڑھانے والی غذاؤں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ،#ہارمونز_بیلنس_کرنے_میں_مفید_غذائیں: ۱۔ پالک ان غذاؤں میں سر فہرست ہے جن میں میگنیشیم کی وافر مقدار پائی جاتی ہے ۔پالک کو زیادہ پکانے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔۲۔ وٹامن ڈی کے حصول کے لئے مچھلی کا استعمال کرنا چاہئے اس کے علاوہ مچھلی کا تیل اور مچھلی کے تیل سے بننے والے کیپسول بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔۳۔مشرومز میں بھی وٹامن ڈی کی کافی مقدار پائی جاتی ہے اور خاص طور پر ایسے مشرومز جو سورج کی روشنی میں اگائے جاتے ہیں ۔۴۔ کدو کے بیج خواتین کے پوشیدہ امراض میں مفید ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہارمونز کو بیلنس کرتے ہیں کدو کے بیج دھوپ میں خشک کر کے توے پر سینک کر استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔۵۔سرکہ نہ صرف قوت مدافعت بڑھاتا ہے بلکہ ہر پہلو سے صحت بخش ہے ۔ سرکہ کو سلادد میں روزانہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔۶۔شکر قندی میں پوٹاشیم ، کیرو ٹینایڈز اور اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں جس سے بھوک کنٹرول میں رہتی ہے اور وزن نہیں بڑھتا ،نتیجے میں ہارمونز بیلنس ہوتے ہیں ۔۷۔انار کے رس میں اینٹی انفلیمیٹری اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بریسٹ اور اسکن کینسر سے بچاتا ہے اور ہارمونز بیلنس کرتا ہے۸۔آددھا کپ تازہ دہی کا استعمال قوت مدافعت بڑھاتا ہے اسمیں موجود پروبائیوٹکس صحت بڑھاتے ہیں ۔۹۔کھانوں میں نمک کی زیادتی ہارمونز میں عدم توازن پیدا کرتا ہے ،ہمالیہ نمک کا استعمال قدرتی معدنیات اور وٹامن کے حصولکا ذریعہ ہوتا ہے۰۱۔بروکلی اینٹی آکسیڈنٹ سبزی ہے ۔جس سے جسم سے ٹوکسنز کی مقدار کم ہوتی ہے ہارمونز بیلنس ہوتے ہیں ۔۱۱۔چند مصالحوں کا مستقل استعمال ہارمونز کو بیلنس کرتا ہے ۔ان مصالحوں میں(دارچینی ،روز میری ،زیرہ ،ہلدی اور اجوائن )شامل ہیں ۔۱۲۔ادرک اپنے اندر کئی بیماریوں کا علاج رکھتا ہے ۔ یہ ان خواتین کے لئے انتہائی مفید ہے جو حیض کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے چڑچڑاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں ۔۱۳۔ السی کے بیج میں اومیگا ۳ پایا جاتا ہے جو ہارمونزبیلنس کرتا ہے اور وزن کم کرنے میں بھی مفید ہوتا ہے۱۴۔ روزانہ سبز چائے کا استعمال بھی ہارمونز بیلنس کرتا ہے۱۵۔ کھانوں میں گھی کی جگہ زیتون اور ناریل کے تیل کا استعمال بھی ہارمونز کو بیلنس کرنے میں مدد کرتا ہے#ڈاکٹر زارون آفریدی✍️🥀
سیّد اور میاں میں فرق؟تحریر:سیّد عاقب شاہ ترمذیبحث چلتی ہے کہ سیّد اور میاں میں کیا فرق ہے،دونوں ایک ہیں یا الگ الگ؟اگر ایک ہیں یعنی الفاظ مترادفہ ہیں تو کس بنیاد پر اور الگ الگ ہیں تو وہ بھی کس بنیاد پر؟سیّد وہ لوگ ہیں جنکا شجرہ نسب امام حسن اور امام حسین سلام اللّٰہ علیھما سے ہوتے ہوئے حضرت فاطمہ سلام اللّٰہ اور حضرت علی کرّم اللّٰہ وجہہ سے جا ملتا ہو،لغت کی کتاب فیروز الغات کے مطابق لغوی معنی کے اعتبار سے لفظِ میاں،آقا،سردار،مالک،حضور، سرکار،خاوند،شہزادہ،استاد، جناب،دوست عالم،نیک،شریف عزت دار اور بزرگ،مذہبی سربراہ کو جبکہ میاں گان انکی اولاد کو کہا جاتا ہے۔ایک انگریز مؤرخ مک میہن اُوریمزی اپنی کتاب"دا خاورہ او دا خلک" میں لکھتے ہیں میاں گان یہ ان بزرگان اور مذہبی پیشواؤں کی اولاد ہیں جنہوں نے شہرت صرف مقامی سطح پر نہیں دور دراز تک مختلف قبیلوں میں پائی بھی ہو،میاں گان ان بزرگوں کی پشت کو کہا جاتا ہے جو زمانہ قدیم میں گزرے ہو،جدید بزرگوں کی اولاد کو میاں نہیں کہا جا سکتا،آگے لکھتے ہیں کہ اخون سوات کی اولاد اس طبقے میں شامل نہیں،ان کی اولاد کو میاں گلان محض احترام کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے،اصل میں یہ اخونزادگان ہیں،مزید لکھا ہے اگر یہ خاندان اپنا روحانی ریکارڈ برقرار رکھے تو امکان ہے کہ آنے والے زمانے میں ان کی اولاد میاں گان ہو۔بالائی سوات تاریخ کے تناظر میں میاں کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہےمیاں وہ لوگ ہیں جو اصلاً سیّد نہیں ہیں،تاہم انہوں نے کسی زمانے میں سیّدوں کی خدمت کی ہو یا انکے اپنے آبا و اجداد پیر،بزرگ رہ چکے ہیں۔البتہ ایک بات ہے کہ تمام بزرگوں،پیروں اور سیّدوں کی اولاد کو عموماً احتراماً میاں اور پاچا کہا جاتا ہے،میاں بمعنیٰ جناب ہے۔آگے بحوالہ ایک افغان محقق لکھتے ہیں میاں پشتو میں عزت اور احترام کا لقب ہے جو کسی بھی شخص کو دیا جاسکتا ہے(کتاب بالائی سوات تاریخ کے تناظر میں،ص ۱۲۵)کتاب تاریخ ریاست سوات میں صفحہ نمبر/۵۱/ پر لکھا ہے وہ لوگ جنکے آباء،اجداد اپنے زمانے کے بڑی ولی تھے ان کی اولاد کو میاں کہا جاتا ہے۔اسی طرح اخوند لفظ بھی اس وقت کے بڑے عالم سکالر اور روحانی شخصیت کو کہا جاتا تھا جو آگے چل کر ان کی اولاد کو اخوند خیل کہا جاتا ہے،جن کے بڑے اپنے زمانے کے اولیاء اللّٰہ تھے اور ان کے باقاعدہ آستانے ہوا کرتے تھے تو انہیں آستانہ دار کہا جاتا تھاچونکہ یہ لفظِ میاں ایک ادب اور احترام کا لفظ ہے تو سوات،بونیر،شانگلہ،دیر اور ملاکنڈ کے بعض علاقوں میں دوسرے قبیلے کے لوگ بطور ادب و احترام سادات کو بھی میاں صاحب سے پکارتے ہیں،جس سے ہم نے یہ سمجھا جو میاں ہوگا وہ سیّد ہوگا یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ میاں کوئی خاص نسب،قبیلہ نہیں اگر کوئی خاص نسب،قبیلہ ہوتا تو نسابہ اور محققین اسے ضرور لکھتے لیکن ایسا کہیں سے ثابت نہیں بالکہ ایک ادب کا لفظ ہے جو بزرگوں کی اولاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،اس لحاظ سے جن علاقوں میں سادات کو بطور احترام میاں صاحب کہا جاتا ہے تو وہاں ہر سیّد میاں ہے لیکن ہر میاں سیّد نہیں۔اگر اسے صرف سادات ہی کے لئے خاص مانا جائے یعنی جس کے نام میں میاں ہو وہ ضرور سیّد ہوگا تو پھر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے ناموں میں لفظ میاں ہے جبکہ حال یہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی اسے سیّد نہیں کہا ہے اور خود بھی اپنے کو سیّد نہیں کہتےیہ لفظ صرف پشتون معاشرے میں احترام کے لئے خاص نہیں بالکہ اردو ادب میں بھی جا بجا ادب،احترام کے لئے استعمال کرتے ہیں،شوہر کو بھی میاں کہتے ہیں،بطورِ ادب،احترام اور تعظیماً ہندوستانی مفسرین و دیگر علماء وہ اس لفظ کو کچھ یوں ذکر کرتے ہیں "میاں اللّٰہ،اللّٰہ میاں" یعنی لفظِ اللّٰہ کے بعد یا اس سے پہلے جا بجا اپنے کلام میں لاتے ہیںپنجابی زبان بولنے والے جب آپ کی بات کاٹتے ہیں تو کہتے ہیں "ارے میاں" یہ بات اس طرح ہے،خلاصہ کلام یہ نکلا کہ لفظِ میاں کسی خاص نسب کے لئے خاص نہیں جیسے کوئی میاں صاحب بولے اور ہم کوئی نسب،قبیلہ ہی سمجھے بالکہ یہ ایک عام لفظ جو کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں ہر میاں کو سیّد نہیں سمجھنا چاہئیے،اگر کوئی آپ کے سامنے کسی کے لئے میاں صاحب استعمال کریں تو آپ کو خود تحقیق کرنی ہے کہ اس علاقے میں سادات کو کس ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے پختونخواہ کے اکثر علاقوں میں باچا صاحب،شاہ جی،باجی اگر اس علاقے میں رہنے والے صرف سادات ہو لفظ میاں صرف سادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہو تو جسکا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ سیّد ہوگا،اگر دوسرے بزرگان دین کی اولاد بھی اسی علاقے میں رہتے ہو تو پھر تحقیق کی ضرورت ہوگی کہ یہ میاں صاحب کس بزرگ کی اولاد سے ہے یعنی کس قبیلے کے سے تعلق رکھتا ہے۔سید عاقب شاہ ترمذی
Tuesday, 31 May 2022
کوئٹہ زلزلہ 1935: جب 45 سیکنڈ میں پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیایہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اُردو پر 31 مئی 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے 87 سال قبل آج ہی کے روز آنے والے زلزلے کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔اگرچہ سال کا یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کے بیشتر باسی بند کمروں کے بجائے کھلے آسمان تلے سونے کو ترجیح دیتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ رات عام راتوں کے مقابلے میں قدرے سرد تھی اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر آبادی گھروں کے اندر چار دیواریوں میں سو رہی تھی۔آج سے ٹھیک 87 برس قبل یعنی 30 اور 31 مئی 1935 کی درمیانی شب گھروں کے اندر سونے والے کوئٹہ کے ان باسیوں کو سنبھلنے کی مہلت نہ بھی مل سکی، ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنائی دی اور اس سے قبل کہ نیند سے ہربڑا کر اٹھنے والوں کو اپنے نیچے موجود زمین کی تھرتھرا اٹھنے کی کچھ وجہ سمجھ میں آتی، سب ملیا میٹ ہو چکا تھا۔زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شہر کی بچی کھچی انتظامیہ اور فوج نے عمارتوں اور گھروں سے لاشیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا مگر چار جون تک ملبے تلے دبی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ میڈیکل افسران کے مشورے کے بعد تباہ شدہ شہر کو آئندہ 40 دن کے لیے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ گلی سڑی لاشوں کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ کم سے کم کیا جا سکے۔اوپر بیان کی گئی تفصیلات سنہ 1935 میں کوئٹہ کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی اُس رپورٹ (دی کوئٹہ ارتھ کوئیک آف 31 مئی 1935) سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اعلیٰ حکام کو ارسال کی تھی۔اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ملبے کے ڈھیر تلے تلاش اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام اتنا مشکل تھا کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ نے اس حوالے سے ایک مکمل باب لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یکم جون 1935 کی صبح سے لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور تین جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں جنھیں لاریوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میتوں کی شہر کے جنوب میں واقع قبرستانوں میں تدفین ہوئی جبکہ ہندؤ شہریوں کی میتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میتوں کو جلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے لکڑیوں کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔’چار جون کو لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اس حد تک ناقابل برداشت ہو چکا تھا کہ کوئٹہ شہر کو مکمل سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملبے تک موجود مزید میتوں کی تلاش کے کام کو 20 جولائی تک روکنا پڑا۔‘’چار جون سے پہلے تک سڑک کنارے یا ملبے کے اوپر موجود بیشتر لاشوں کو اٹھا کر ٹھکانے لگایا جا چکا تھا۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا مگر اندازہ ہے کہ اس زلزلے میں 25 سے 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘سنہ 2005 میں بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین ساٹھ ہزار کے لگ بھگ کیا ہے۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کی تحقیق کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور زیر زمین گہرائی فقط 30 کلومیٹر تھی۔خاموش گھڑیالاگرچہ اس زلزلے کے آنے کے صحیح وقت کے حوالے سے متضاد آرا ہیں مگر محکمہ موسمیات کوئٹہ کے دفتر میں موجود ایک گھڑیال اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ گھڑیال گذشتہ 86 برس سے خاموش ہے کیونکہ یہ اس المناک واقعے کا اہم گواہ ہے۔ 31 مئی 1935 کو صبح تین بج کر چار منٹ پر یہ گھڑیال اس وقت خاموش ہو گیا تھا جب زلزلے کے باعث اسے نقصان پہنچا۔ بعدازاں اسے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ کر لیا گیا کیونکہ اس پر وہ وقت محفوظ ہے جب کوئٹہ شہر پر قیامت ٹوٹی۔یاد رہے کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں زلزلے کا وقت تین بج کر تین منٹ بتایا گیا ہے۔زلزلے سے قبل ’پرندوں اور جانوروں میں بےچینی‘ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے سے قبل کسی بڑے تنبیہی جھٹکے (Warning Shocks ) کے حوالے سے کوئی مخصوص اطلاع نہیں تھی مگر بعدازاں زندہ بچ جانے والے کئی لوگوں نے میڈیا اور دوسرے جگہوں پر جو بیانات دیے ان کے مطابق انھوں نے بڑے جھٹکے سے پہلے مختلف تاریخوں میں زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے محسوس کیے تھے۔رپورٹ کے مطابق چونکہ کوئٹہ میں سال بھر معمولی جھٹکے محسوس کیے جاتے رہتے ہیں اس لیے ان چھوٹے جھٹکوں کا خاص نوٹس نہیں لیا گیا۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ رات کو آنے والے بڑے جھٹکے کے بعد بہت سے آفٹر شاکس آئے مگر ان میں نقصان نہیں ہوا کیونکہ شہر میں کوئی عمارت مکمل حالت میں موجود ہی نہ تھی جو ان آفٹر شاکس کے نتیجے میں متاثر ہوتی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دو افراد نے حکام کو یہ بھی بتایا کہ زلزلے کے دن انھوں نے گھروں میں پرندوں اور دیگر جانوروں کو عام دنوں کی بانسبت بے چینی کا اظہار کرتے دیکھا اور اسی لیے انھوں نے جانوروں کے کمروں کے دروازے کھول دیے تاکہ وہ باہر نکل سکیں۔اس زلزلے کے حوالے سے تحقیق کرنے والے سعید کرد نے اپنے ایک مضمون میں کوئٹہ کے ایک قصائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قصائی رات کو عموماً دیر سے گوشت کی مارکیٹ جاتے تھے۔ 31 مئی کی شب وہ جب کوئٹہ کے سنسان گلیوں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے یہ محسوس کیا عام دنوں کے برعکس کتے بہت زیادہ بھونک رہے تھے۔اس قصائی نے یہ رپورٹ دی تھی کہ رات تین بجے کے قریب انھوں نے ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنی اور اس کے ساتھ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھا۔زلزلے کے بعد برطانوی فوجی کمانڈر کا کنٹرول روم سے پہلا رابطہاس وقت کوئٹہ گیریزن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) جنرل کارسلیک تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے زلزلے کے فوراً بعد کنڑول روم سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ شہر گردوغبار سے اٹا ہوا ہے، ہرطرف چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی ہیں اور خیال یہ ہے کہ شہر تباہ ہو چکا ہے۔جنرل کارسلیک نے فوری طور پر ایمرجنسی کا اعلان کیا اور فوج کو سٹینڈ بائی رکھنے کا حکم جاری کیا تاہم ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق فوج نے آدھے گھنٹے میں شہر کی جانب موو کرنا شروع کیا۔محقق اور سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ حکومت بلوچستان نورخان محمد حسنی کے مطابق زلزلے کی اطلاع 31 مئی کی شب ہی شملہ پہنچا دی گئی تھی۔ اس اطلاع کے بعد حکومت کی جانب سے اگلے روز پریس کو ایک مختصر بیان جاری کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا ہے اور چند ہزار نفوس زندہ بچ گئے ہیں۔‘محمد حسنی کے مطابق یکم جون 1935 کو زلزلے کے حوالے سے مقررکردہ رابطہ افسر و افسر اطلاعات این سی او مورجی نے بذریعہ ٹیلی فون دہلی میں محکمہ انفارمیشن کے ذریعے یہ بیان جاری کرایا کہ کوئٹہ شہر کے علاوہ ایک بڑے علاقے میں زلزلہ آیا ہے یعنی دیگر شہر بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔فوجی چھاؤنی کیسے بچ گئی؟بلوچستان کے جو علاقے انگریزوں کے کنٹرول میں تھے ان کو برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا۔انھی علاقوں بالخصوص افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ انگریزوں نے سابق نازی جرمنی اور سابق سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی چھاﺅنیاں بنائی تھیں جن میں سے سب سے بڑی چھاﺅنی کوئٹہ کی تھی۔اگرچہ یہ چھاﺅنی شہر سے قریب ہی واقع ہے لیکن اس تباہ کن زلزلے میں یہ محفوظ رہی۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ سنہ 1935 کے زلزلے کی فالٹ لائن شہر کے مغرب میں بروری کے علاقے میں تھی، جس علاقے میں یہ فالٹ لائن تھی وہاں زمین میں گہڑی دراڑ پڑی جس کے آثار اب بھی ہیں اور یہ کوئٹہ سے چالیس سے پچاس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے میں زیادہ واضح ہیں۔انھوں نے بتایا فوجی چھاﺅنی فالٹ لائن سے کچھ فاصلے پر تھی اور یہ چھاﺅنی جس علاقے میں قائم کی گئی تھی وہ پہاڑ کے قریب تھا جہاں زمین سخت تھی جبکہ چھاﺅنی اور شہر کے درمیان حبیب نالے سمیت ایک، دو نالے اور تھے۔ 'چونکہ حبیب نالے اور دوسرے نالوں کی وجہ سے ان میں بریک آیا اسی لیے چھاﺅنی سے پہلے زلزلے کی شدت کم ہو چکی تھی۔کیا تھا"۔انھوں نے بتایا کہ چھاﺅنی میں جو تعمیرات کی گئی تھیں ان کی چھتیں چادر کی تھیں اور وہاں اس وقت کوئی پختہ بلڈنگ نہیں تھی جس کی وجہ سے نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ایئرفورس کے ’نصف اہلکار ہلاک اور زخمی‘اگرچہ فوجی چھاﺅنی تو زلزلے سے بچ گئی لیکن رائل ایئرفورس کے حوالے سے صورتحال مختلف تھی۔چھاﺅنی کے برعکس ایئرفورس کی تنصیبات شہر کے شمال مغرب میں تھیں جو کہ فالٹ لائن کے قریب ہونے وجہ سے بری طرح سے تباہ ہوئیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں تعینات ایئرفورس اہلکاروں میں نصف ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں ایئرفورس میں ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی تاہم یہ ضرور لکھا گیا کہ اینکرز میں موجود 27 طیاروں میں سے صرف تین قابل استعمال رہے تھے۔گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ہیڈ لائٹس میں خوفناک منظر کا نظارہایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق چونکہ شدید زلزلے کی وجہ سے شہر کا واحد بجلی گھر تباہ ہوا تھا اس لیے زلزلے کے بعد شہر مکمل تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔فوجی چھاﺅنی سے نکلنے والے اہلکار جب اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر چھاﺅنی سے متصل بروس روڈ (موجودہ جناح روڈ ) کے کونے پر پہنچے تو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ہیڈ لائٹس وہ واحد ذریعہ تھیں جن کی مدد سے انھوں نے شہر کی تباہی کا پہلا نظارہ کیا۔زلزلے سے شہر کی پولیس فورس اور سویلین انتظامیہ مکمل ختم ہوگئی تھیںایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق شہر کی پولیس اور سویلین انتظامیہ کا صفایا ہو گیا تھا۔ جی او سی نے تمام دستیاب وسائل برٹش بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن کے ڈسپوزل پر چھوڑ دیے تھے۔جن فوجی اہلکاروں کی شہر میں ریسکیو آپریشن میں ضرورت نہیں تھی ان کو شہر میں گشت پر لگا دیا گیا تاکہ پولیس اور سویلین انتظامیہ کی عدم موجودگی میں شہر میں کوئی ناخوشگوار پیش نہیں آئے ۔ایک لحاظ سے ایک عارضی پولیس فورس قائم کی گئی جس کی ذمہ داری ان شہریوں کی مدد کرنا تھا جو اس زلزلے میں زندہ بچ گئے تھے مگر جنھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مشکل وقت میں کیا کریں۔اس عارضی پولیس فورس کو چلانے کی ذمہ داری ان فوجی سٹوڈنٹ افسروں کوسونپی گئی جو کہ کورس کے لیے سٹاف کالج آئے ہوئے تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن نے یہ محسوس کیا کہ افسروں اور اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے سویلین انتظامیہ شہر کے انتظام کو نہیں چلا سکتی اس لیے انھوں نے 31 مئی کو ہی شہر کا کنٹرول جنرل کلارسک کے حوالے کیا جنھوں نے کوئٹہ میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔برطانوی اہلکاروں نے مسلمان متاثرین سے قرآن پر حلف لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں کوئٹہ کے علاوہ ریاست قلات میں مستونگ اور قلات کے علاقوں میں بھی ریلیف اور نقصانات کے ازالے کا ذکر کیا گیا ہے۔اس وقت لوگوں کے گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ کھیتی باڑی تھی اور اس میں بڑا کردار بیلوں کا تھا۔رپورٹ کے مطابق بیلوں کے نقصانات کے ازالے کے حوالے سے متاثرین کی جانب سے جو دعوے سامنے آئے وہ مشکوک اور زیادہ لگ رہے تھے جس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں سے قرآن پر حلف لیا اور جس نے بھی حلف اٹھایا کہ زلزلے میں اُن کے بیل مرگئے ہیں تو ان کو دعوے کے مطابق بیل دیا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا جب معاملہ قرآن پر حلف کا آیا تو اس کے بعد لوگوں کی دعوؤں میں حیران کن حد تک کمی آئی۔1935 کا زلزلہ اور کوئٹہ کے لیے بلڈنگ کوڈ اور موجودہ صورتحالماہر ارضیات پروفیسر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ 1934 میں کوئٹہ کے قریب ہرنائی کے علاقے میں ایک زلزلہ آیا تھا جس کے بعد انگریزوں نے ریلوے سٹیشنوں اور بعض دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے تاہم کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔
Friday, 13 May 2022
#قیام_وتحام_زیارت#ماشاءاللہ_ہوٹل_زیارت#سیاحوں کے لیے #خوشخبری #وادی_زیارت میں اب #وی_آئی_پی #ہوٹل اور #ریسٹ_ہاوس #دستیاب ہےوی آئی پی #ائیرکنڈیشن روم ٹی وی اور سب سہولت موجود ہے 24 کنٹھے #رابطہ کرسکتے ہے #ماشاءاللہ_ہوٹل #چوبیس #گنٹھے #گرم #پانی #گیس اور #بجلی کے ساتھ۔#زیارت میں گھومنے کے لیے گاڑی کی سہولت بھی موجود ہےPlease contact and WhatsApp. us#Noorzaman_taranMore guest Houses. and Hotels.More details about.0334320400503328098193.03032971601.#قیام_وتحامپاکستانی کھانے ۔روپےمھٹن کڑائی۔ (فل).2500ہاف1300مھٹن لاہوری۔ (فل).3500ہاف1300چکن لاہوری کڑائی (فل).1600ہاف800چکن بریانی۔ (فل)۔350ہاف180فل 1kg۔900شنواری کھانےمھٹن شنواری کڑائی (فل)2500 ہاف 1300)مھٹن نمکین کڑائی۔ (فل)2500ہاف 1300)مھٹن سلیمانی کڑائی (فل)2400ہاف2300)چکین شنواری کڑائی (فل)1300ہاف830)چکین نمکین کڑاہی۔ (فل)1300ہاف 800)چکن سلیمانی کڑائی (فل)1250ہاف 750)کابلی پلاؤ (400 بیف دم پوخ 400)چکن بادامی (1kg۔1550) ناشتہ روپےتندوری پراٹھ۔ ۔50انڈہ فراھی۔ ۔50انڈھ املیٹ۔ ۔50 چاے۔ روپےدودھ پتی چاے ۔60سلیمانی کہوہ ۔40گرین ٹی ۔40مستونگ کیک فیس ۔40 فاسٹ فوڈ۔ روپےکلب سانڈویچ ۔300چکن سانڈویچ ۔250ایگ سانڈویچ ۔180ویجیٹبل سانڈویچ ۔180 سلات۔۔ روپے فریش سلا ت ۔80 رایتہ ۔80 منرل واٹر بڑا ۔80منرل واٹر چھو ٹا ۔40 کولڈرنک۔ روپے1.5 بوتل ۔120ٹین ۔70https://www.facebook.com/118676422101025/posts/972472496721409/https://www.facebook.com/118676422101025/posts/972472496721409/https://www.facebook.com/1005908686104879/posts/5759792037383163/
Sunday, 3 April 2022
*دیسی گھی میڈیکل سائنس کی نظر میں!*🔸خالص دیسی گھی کسی بھی جانور کے دودھ سے بنایا جا سکتا ہے لیکن وہ دیسی گھی جو گائے کے دودھ سے بنایا جاتا ہے اسے سب سے بہترین مانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے کا جو دودھ ہوتا ہے اس میں ان تمام پیڑ پودوں کا اثر ہوتا ہے جو اس مخصوص علاقے میں ہوتے ہیں جہاں وہ گائے چرتی ہے کیونکہ گائے تقریباً وہ تمام پیڑ پودے کھاتی ہے جو اس مخصوص علاقے میں اگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گائے کے دودھ میں اور اس دودھ سے بنائے ہوئے گھی میں وہ تمام پیڑ پودوں کا اثر موجود ہوتا ہے ۔#حکیم_سیف_اللہ_ہزاروی 🔸 *سائنسی پہلو*🔸اب دیسی گھی کے سائنسی پہلو کی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ چیز سمجھ لیں کہ خالص دیسی گھی میں ہوتا کیا کیا ہے ۔ دیسی گھی اپنے s.c.f.a )short chain fatty acids ) کی وجہ سے جانا جاتا ہے کیونکہ دیسی گھی اس کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے اس کے علاوہ دیسی گھی canjogated linoleic acid Butyric acid Omega 3Omega 6Omega 9 کا بہت ہی اچھا سورس مانا جاتا ہے اس کے علاوہ دیسی گھی Vitamin A Vitamin DVitamin EVitamin Kکا بھی بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے ۔چلئے یہ بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کام کیسے کرتا ہے شروعات دماغ سے کرتے ہیں ۔ 🔸 *دماغ۔*🔸دیکھئے انسان کا 60٪ دماغ فیٹس سے مل کے بنتا ہے اور جس طرح کے فیٹس سے انسانی دماغ بنتا ہے وہ فیٹس انسانی جسم خود سے نہیں بنا سکتا بلکہ انسان خوراک سے حاصل کرتا ہے ۔اس بات کو بھی سمجھ لیں کے جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے دماغ کے فیٹ سیلز بھی کم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اب کیونکہ دیسی گھی اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ، ایس سی اف اے اور بیوٹیرک ایسڈ کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے اس لئے دیسی گھی انسان کے دماغ کے لئے بہت ہی زیادہ فائدے مند رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیسی گھی آپ کے دماغ کو آپ کے نروز کو اور آپ کے نیوروٹرانسمیٹرز کو اچھے سے کام کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا ماحول فراہم کرتا ہے ۔اس لئے آپ نے اپنی نانی یا دادی کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ دیسی گھی کھایا کرو دماغ میں تراوٹ آئے گی ۔ 🔸 *آنکھیں۔*🔸اب بات کرتے ہیں آنکھوں کی ۔ دیسی گھی vitamin A کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ آپ کی آنکھوں کے لئے بہت ہی زیادہ فائدے مند رہتا ہے ۔اس چیز کو ذرا سا سمجھ بھی لیجئے کہ لمبے عرصے تک موبائل سکرین دیکھتے رہنے کی وجہ سے یا کمپیوٹر سکرین دیکھتے رہنے کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ ہمارے لیکریمل گلینڈز جہاں آنسو بنتے ہیں وہ صحیح طرح سے کام کرنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں میں روکھا پن سوکھا پن اور جلن اور دیکھنے جیسی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔ اب اگر آپ ان چار میں سے کوئی بیماری ہے یا آپ اپنا زیادہ تر وقت موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر بیتاتے ہیں تو آپ کو اپنی ڈائٹ میں دیسی گھی کو ضرور شامل کرنا چاہیے ۔ اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ جب وٹامن اے کی بات کی جاتی ہے تو جو وٹامن اے دیسی گھی سے حاصل ہوتا ہے وہ گاجر سے نہ صرف زیادہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ اثر دار بھی ہوتا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ دیسی گھی میں جو وٹامن ہوتا ہے یہ دو فارم میں ہوتا ہے جس میں سے ایک Ester ہے جبکہ دوسری catroten ۔ اس لئے جب آپ دیسی گھی کھاتے ہو تو یہ نا صرف آپ کے جسم کو بہت زیادہ مقدار میں وٹامن اے دیتا ہے بلکہ یہ اسے اچھی طرح سے جذب بھی کرواتا ہے ۔ 🔸 *وٹامن D*🔸تو دیسی گھی میں جو دوسرا وٹامن ہوتا ہے وہ وٹامن ڈی ہوتا ہے اور وٹامن ڈی کی سب سے بڑی حثیت یہ ہوتی ہے کہ یہ آپ کے جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کو جذب کرواتا ہے ۔ اس لئے دیسی گھی بڑھتے بچوں ، حاملہ عورتوں اور کثرت کرنے والے افراد کے لئے بہت زیادہ مفید چیز ہوتی ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا جسم خوبخود وٹامن ڈی پیدا کر لے تو آپ کو چاہیے کہ صبح صبح باریک کپڑے پہن کے کچھ دیر دھوپ میں ٹہلیں ۔ 🔸 *وٹامن E*🔸وٹامن ای کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی بہترین آنٹی آکسیڈنٹ ہوتا ہے یہ نا صرف آپ کی قوت مدافعت بڑھا دیتا ہے بلکہ آپ کے جسم میں جو ٹاکسنز پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی نکال کر باہر پھینکتا ہے لیکن یہ وٹامن ای کا اصلی فائدہ نہیں ہے وٹامن ای کا اصلی فایدہ یہ ہے کہ وٹامن ای کو مناسب مقدار میں لینے سے آپ کی جلد چکنی لچکیلی اور چمکدار ہوتی چلی جاتی ہے اس لئے اگر آپ کی عمر تیس سال سے زیادہ ہے تو آپ کو دیسی گھی کھانا بھی چاہیے اور لگانا بھی چاہیے ۔ کچھ مرد جو 6 پیک بنانے کے چکر میں اور کچھ خواتین سلم ٹریم رہنے کے چکر میں دیسی گھی کا استعمال نہیں کرتیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ دیسی گھی کھانے سے ان کے جسم کی ساخت خراب کو جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنے سے ان کی بیماروں کے خلاف قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور آپ نے کئی ایسے 6 پیک والے لڑکے اور سلم سمارٹ لڑکیاں دیکھیں ہوں گی جن کا حال موسم بدلتے ہیں بے حال ہو جاتا ہے اور نزلہ زکام ،کانسی بخار انھیں آ گھیرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا تو آپ ان سے یہ پوچھ کے دیکھ لیجئے گا سال بھر ان کے جسم میں کہیں نہ کہیں درد ضرور ہو رہا ہوتا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ایسے مسائل نہ ہوں تو آپ کو دیسی گھی ضرور استعمال کرنا چاہیے 🔸 *وٹامن کے* :🔸وٹامن کے ناصرف ہڈیوں کے لئے بہت فائدے مند ہوتا ہے بلکہ یہ کسی بھی قسم کی چوٹ کو ٹھیک کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے ۔اس لئے کٹنے پر جلنے پر اور چھپنے پر سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہاں پر دیسی گھی لگا دیا جائے 🔸 *کارڈیو ویسکولر سسٹم* :🔸 دیسی گھی میں ایس -سی -ایف -اے اور بیوٹیرک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے اگر آپ دیسی گھی لیتے ہیں تو دیسی گھی آپ کے جسم اور خون کی نالیوں میں جمی چربی کو باہر نکال دیتا ہے اس لئے اگر آپ اچھی مقدار میں دیسی گھی لیتے ہیں تو آپ موٹاپے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور یہی the ketogenic diet کا بنیادی اصول ہوتا ہے ۔ اب اس کا کیا مطلب ہوا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ موٹاپے کا شکار ہیں تو آپ کو دیسی گھی ضرور کھانا چاہیے ۔دیسی گھی لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کی وینز اور آرٹریز کی الاسٹیسٹی یا لچک بڑھا دیتا ہے اس لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہے جن کی فیملی ہسٹری دل کی بیماریوں کی ہے یا جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں اور جو لوگ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں بہت زیادہ پلیویشن ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ کیونکہ دیسی گھی میں بہت ہی اچھی مقدار میں انٹی آکسیڈنٹ کانجوگیٹڈ لینولیک ایسڈ اور فیٹ سالوبل وٹامنز ہوتے ہیں اس لئے یہ قد بڑھانے کے لئے ایک بہت ہی مفید غذا سمجھی جاتی ہے ۔🔸 *ڈئجسٹو سسٹم* :🔸اگر آپ کو کچھ تلا ہوا کھانے کو دل کر رہا ہے تو آپ ایسے دیسی گھی میں ہلکی آنچ پر تلیے اور کھائے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ایسا کیسے ہوتا ہے ؟ دیسی گھی کا سموک پوائنٹ کسی بھی طرح کے گھی سے اور کسی بھی طرح کے تیل سے زیادہ ہوتا ہے 🔸 *سموک پوائنٹ کیا ہوتا ہے* ؟🔸 سموک پوائنٹ smoke point کسی خاص چیز کے لئے اس خاص ٹمپریچر کو کہا جاتا ہے جس پوائنٹ پر وہ چیز گرم ہونے پر فری ریڈیکلز چھوڑنا شروع ہو جاتی ہے یعنی ایکسیڈائز ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ فری ریڈیکلز سے کیا نقصان ہوتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر جسم میں فری ریڈیکلز تھوڑے زیادہ بڑھ جائیں تو طرح طرح کی کارڈیو ویسکولر ڈیزز ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اگر زیادہ بڑھ جائیں تو کینسر تک ہو سکتا ہے ۔ لیکن دیسی گھی میں جو بیوٹیرک ایسڈ ہوتا ہے یہ ہماری انٹیسٹائینز میں جا کر کیلرلٹی سیلز کی پیداوار بڑھا دیتا ہے اور یہ جو کیلرٹی سیلز ہوتے ہیں وہ ہمارے جسم میں باہر سے آنے والے تمام ہر طرح کے الرجنس اور ٹاکسنز کو ختم کر دیتے ہیں کیونکہ دیسی گھی میں بہت اچھی مقدار میں کانجوگیٹڈ لینولیک ایسڈ ہوتا ہے جو کہ بہت ہی بہترین anticarcinogen مانا جاتا ہے اس لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت مفید ہے جن کی فیملی ہسٹری کینسر کی ہے یا وہ لوگ جو کینسر سے متاثر چکے ہیں ۔ڈائجسٹو سسٹم میں دیسی گھی کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کھانے کے کسی بھی ایٹم کا glycemic index کم کر دیتا ہے 🔸 *گلاسیمک انڈیکس کیا ہوتا ہے* ؟ 🔸گلاسیمک انڈیکس کسی بھی فوڈ ایٹم کی اس ویلیو کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ یہ خوراک ہمارے خون میں کتنی تیزی کے ساتھ بلڈ شوگر لیول کو بڑھا دے گا ۔اور اسی لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت فایدہ مند ہے جنھیں شوگر کی بیماری ہے ۔ویسے تو شوگر کے مریض کو ایسا کھانا نہیں کھانا چاہیے جس کا گلائسیمک انڈیکس زیادہ ہو لیکن اگر کھانا ہی پڑے تو اسے چاہیے کہ اس میں دیسی گھی ڈال لے ۔تیسری چیز دیسی گھی ایسینشل فیٹی ایسڈز کا بہت اچھا سورس ہوتا ہے اس لئے دیسی گھی ناصرف آپ کی intestinal walls کو پروٹیکٹ کرتا ہے بلکہ یہ السریٹو کولایٹس ،منہ کے چھالے اور پیٹ کے السر سے بھی آپ کو بچاتا ہے اور اگر یہ بیماریاں آپ کو پہلے سے ہی ہیں تو یہ ان کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے کارآمد اور قدرتی طریقہ ہے ۔🔸 *ایک دن میں کتنا دیسی گھی کھانا چاہیے* 🔸فوڈ اینڈ نیوٹریشن بورڈ آف دی نیشنل ریسرچ کے مطابق ایک صحت مند جوان کی کل خوراک کا 20 ٪ حصہ فیٹس سے لیا جانا چاہیے اس سے آپ ایک دن میں بڑے آرام سے 20 سے 30 گرام دیسی گھی کھا سکتے ہیں ۔یہاں اس بات کو بھی سمجھ لیں کیونکہ فیٹ انٹیک یعنی چکنائی لینے کی اپر لیمٹ 35٪ ہے اس لئے ہم زیادہ دیسی گھی بھی کھا سکتے ہیں لیکن ہم دن بھر میں جو خوراک لیتے ہیں اس میں بھی کہیں نہ کہیں چکنائی ضرور ہوتی ہے اس لئے 30 گرام سے زیادہ دیسی گھی نہیں کھانا چاہیے ۔اگر آپ چاہیے ہیں کہ آپ جو دیسی گھی کھا رہے ہیں اس کا آپ کو پورا پورا فایدہ ملے تو آپ روزانہ پیدل چلنے کا معمول بنا لیجئے ۔اور یہاں سب سے ضروری بات کرنا چاہوں گا کہ جو بچپن کے دن ہوتے ہیں یا جوانی کے دن یہ گروتھ ایئرز کہلاتے ہیں اور ان سالوں میں دیسی گھی بنا موٹاپے اور پیٹ بڑھنے کی پروا کیے ضرور لینا چاہے اور ضروری ہے کہ جب بچے بڑھ رہے ہوں ان کی خوراک میں دیسی گھی کو ضرور شامل کیا جائے جس سے نہ صرف وہ لمبے بلکہ چوڑی جسامت بھی حاصل کرتے ہیںخادم طب
Wednesday, 30 March 2022
*ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات* *1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83*2 غصے کو قابو میں رکھو*سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134*3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*سورۃ القصص، آیت نمبر 77*4 تکبر نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 23 *5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 22*6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11*9 والدین کی خدمت کیا کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*10 والدین سے اف تک نہ کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 58*12 لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282*13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،* سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36*14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280*15 سود نہ کھاؤ،* سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278*16 رشوت نہ لو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42*17 وعدہ نہ توڑو،* سورۃ الرعد، آیت نمبر 20*18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42*20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،* سورۃ ص، آیت نمبر 26*21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 8*23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* سورۃ النساء، آیت نمبر 7*24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 2*25 یتیموں کی حفاظت کرو،*سورۃ النساء، آیت نمبر 127 *26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 6*27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10*28 بدگمانی سے بچو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*29 غیبت نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*30 جاسوسی نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*31 خیرات کیا کرو،* سورۃ البقرة، آیت نمبر 271*32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو*سورة المدثر، آیت نمبر 44*33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* سورة البقرۃ، آیت نمبر 273*34 فضول خرچی نہ کیا کرو،*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67*35 خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*سورة البقرۃ، آیت 262*36 مہمانوں کی عزت کیا کرو،*سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27*37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44*38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36*39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* سورة البقرة، آیت نمبر 114*40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* سورة الأنفال، آیت نمبر 15*43 مذہب میں کوئی سختی نہیں،*سورة البقرة، آیت نمبر 256*44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 150*45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* سورة البقرة، آیت نمبر، 222*46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* سورة البقرة، آیت نمبر، 233*47 جنسی بدکاری سے بچو،*سورة الأسراء، آیت نمبر 32*48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247*49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* سورة البقرة، آیت نمبر 286*50 منافقت سے بچو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16*51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* سورة آل عمران، آیت نمبر 190*52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* سورة آل عمران، آیت نمبر 195*53 بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 23*54 مرد خاندان کا سربراہ ہے،*سورۃ النساء، آیت نمبر 34*55 بخیل نہ بنو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 37*56 حسد نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 54*57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 29*58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*59 گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100*62 صحیح راستے پر رہو،* سورۃ الانعام، آیت نمبر 153*63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38*64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* سورۃ الانفال، آیت نمبر 39*65 مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3*66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*67 جوا نہ کھیلو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*68 ہیرا پھیری نہ کرو،* سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70*69 چغلی نہ کھاؤ،* سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1*70 کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6*73 طہارت قائم رکھو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108*74 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ الحجر، آیت نمبر 56*75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 17*76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* سورۃ النحل، آیت نمبر 125*77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*سورۃ فاطر، آیت نمبر 18*78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 31*79 جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*سورۃ النحل، آیت نمبر 36*80 کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* سورۃ النور، آیت نمبر 27*82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* سورۃ یونس، آیت نمبر 103*83 زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63*84 اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* سورة توبہ، آیت نمبر 105*85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* سورۃ الکہف، آیت نمبر 110 *86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* سورۃ النمل، آیت نمبر 55*87 حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* سورۃ توبہ، آیت نمبر 119*88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37*89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* سورۃ النور، آیت نمبر 31*90 اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 48*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ زمر، آیت نمبر 53*92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34*93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* سورۃ الشوری، آیت نمبر 38*94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* سورۃ الحدید، آیت نمبر 27*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 32*99 اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* سورۃ الضحی، آیت نمبر 10*اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ایک ڈائری بنا لیں تو ذیادہ اچھا ہے۔*
Subscribe to:
Posts (Atom)