Monday, 11 July 2022

آپ نے یقیناً کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ قربانی کے گوشت کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا، اس میں سے ایک ناگوار سی مہک یا بو آتی ہے اور یہ جلدی گلتا یعنی پکتا بھی نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ سب کچھ آپ نے بھی محسوس کیا ہو۔ اگر ہاں تو کیا کبھی سوچا کہ ایسا کیوں یے؟ اگر غور کرنے کا وقت نہیں ملا تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے بڑا مہنگا جانور خرید رکھا ہو، لاریب کہ آپ کا جانور خوبصورتی میں بھی بے مثال ہو، لیکن معذرت کے ساتھ آپ کو جانور ذبح کرنا یا کروانا نہیں آتا۔ ذرا ٹھہریں، غصہ تھوک دیں، لیکن حقیقت یہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ اگر یقین نہیں آرہا تو پھر یہ باتیں غور سے سنیں، سمجھیں اور اس عید قربان پر ان پر عمل کریں۔ آپ خود ہی کہیں گے کہ قربانی کا گوشت تو ہم آج پہلی دفعہ کھا رہے ہیں، کیونکہ ایسا مزیدار، صحت بخش اور خوشبودار جنتی گوشت آپ نے پہلے کبھی نہیں کھایا ہوگا۔آپ کو کرنا کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ بس ساون کے مینڈکوں کی طرح نکلنے والے نسلی یا فصلی قصائیوں کی باتوں پر یقین نہیں کرنا بلکہ دین کی روشنی اور ذبیحے کی سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے میرٹ پر جانور ذبح کروانا اور گوشت بنوانا ہے۔ اگر وہ آگے سے جز بز ہوں تو آپ چیں بچیں ہو جائیں۔ آخر آپ ان کو پیسے کس بات کے ادا کر رہے ہیں؟ اگرچہ سچے آپ بھی ہیں کہ پاکستان اور میرٹ!!! جی ہاں! کہیں اور ہو یا نہ ہو، لیکن اس بار چھری تلے میرٹ ضرور ہونا چاہیے، بس یہی آپ نے کرنا ہے۔اگر آپ پاکیزہ، خوشبودار اور ذائقہ دار گوشت کھانے کے واقعی خواہشمند ہیں تو پھر سنیے۔ ذبح کرنے کی چھری آپ کی نیتوں کی مثل اچھی طرح تیز ہونی چاہیے، ذبح کرنے سے قبل جانور کو خوب کھلا پلا لیں اور جانوروں کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح کرکے خوف کا شکار مت کریں۔ ان تمام صورتوں میں جسم میں ایک کیمیکل 'ہسٹامین' خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے، جو خون کی نالیوں کو پھیلا دیتا ہے، جس سے خون سست رفتار ہوکر مکمل طور پر جسم سے خارج نہیں ہو پاتا۔ اور یوں گوشت کی کوالٹی متاثر ہو جاتی ہے۔اور سب سے اہم بات جو آپ نے دھیان میں رکھنی ہے وہ یہ کہ ذبح کرنے والے کو کبھی مذبوح کے حرام مغز کو نہیں کاٹنے دینا۔ اگرچہ وہ سو بہانے بنائے گا اور جانور کو جلدی ٹھنڈا کرکے اذیت سے نجات دلانے کے دعوے کرے گا، لیکن آپ نے سنی ان سنی کردینی ہے۔ اسے نہ آپ کے جذبہ قربانی کی فکر اور نہ بسمل کی تکلیف کا خیال۔ وہ تو بس اگلے گاہک اور اپنی ففٹی سنچری کے تصور میں ہوگا۔ اور شرعی طور پر بھی چھری ریڑھ کی ہڈی کے مہروں تک لیجانا جانور کو بلاوجہ اذیت دینا اور مکروہ ہے۔ ذبح کی شرائط میں اول سانس کی نالی، دوم خوراک کی نالی، سوم دو جگلر آرٹریز اور چہارم دو کیروٹڈ آرٹریز میں سے کسی تین کا مکمل یا جزوی کٹ جانا اور خون کا بہہ جانا شامل ہے۔ چلیں آپ ساری نالیاں اور رگیں کاٹ دیں مگر مہروں تک چھری پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی دادوں پردادوں کے فن دکھانے کی کوشش میں حرام مغز کو کاٹ دیتا ہے تو جسم کا تڑپنا یکدم رک جائے گا اور یوں گوشت میں موجود باریک رگوں سے خون خارج نہیں ہوپائے گا۔ جس کا نتیجہ گوشت کی خرابی کی اور ذائقے کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔اور آخری بات، جانور کے تڑپنے کے ساتھ اس کی تکلیف کا کوئی تعلق نہیں۔ پہلے دو تین سیکنڈ میں ہی جب سانس اور خون کی نالیاں کٹ جاتیں ہیں، تو اس کا دماغ بے حس ہوکر تکلیف محسوس کرنا بند کردیتا ہے۔ تڑپنا اس کے پٹھوں کی غیر ارادی حرکات کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس کے حرام مغز کے تحت ہوتی ہیں۔ نیچے کچھ تصاویر میں مذبوح کے گلے میں موجود نالیوں اور خون کی رگوں کے مقام کو واضح کیا گیا ہے۔ دیکھ کر ذبح کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔جزاک اللہ

No comments:

Post a Comment