Tuesday, 31 May 2022
کوئٹہ زلزلہ 1935: جب 45 سیکنڈ میں پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیایہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اُردو پر 31 مئی 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے 87 سال قبل آج ہی کے روز آنے والے زلزلے کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔اگرچہ سال کا یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کے بیشتر باسی بند کمروں کے بجائے کھلے آسمان تلے سونے کو ترجیح دیتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ رات عام راتوں کے مقابلے میں قدرے سرد تھی اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر آبادی گھروں کے اندر چار دیواریوں میں سو رہی تھی۔آج سے ٹھیک 87 برس قبل یعنی 30 اور 31 مئی 1935 کی درمیانی شب گھروں کے اندر سونے والے کوئٹہ کے ان باسیوں کو سنبھلنے کی مہلت نہ بھی مل سکی، ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنائی دی اور اس سے قبل کہ نیند سے ہربڑا کر اٹھنے والوں کو اپنے نیچے موجود زمین کی تھرتھرا اٹھنے کی کچھ وجہ سمجھ میں آتی، سب ملیا میٹ ہو چکا تھا۔زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شہر کی بچی کھچی انتظامیہ اور فوج نے عمارتوں اور گھروں سے لاشیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا مگر چار جون تک ملبے تلے دبی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ میڈیکل افسران کے مشورے کے بعد تباہ شدہ شہر کو آئندہ 40 دن کے لیے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ گلی سڑی لاشوں کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ کم سے کم کیا جا سکے۔اوپر بیان کی گئی تفصیلات سنہ 1935 میں کوئٹہ کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی اُس رپورٹ (دی کوئٹہ ارتھ کوئیک آف 31 مئی 1935) سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اعلیٰ حکام کو ارسال کی تھی۔اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ملبے کے ڈھیر تلے تلاش اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام اتنا مشکل تھا کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ نے اس حوالے سے ایک مکمل باب لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یکم جون 1935 کی صبح سے لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور تین جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں جنھیں لاریوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میتوں کی شہر کے جنوب میں واقع قبرستانوں میں تدفین ہوئی جبکہ ہندؤ شہریوں کی میتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میتوں کو جلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے لکڑیوں کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔’چار جون کو لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اس حد تک ناقابل برداشت ہو چکا تھا کہ کوئٹہ شہر کو مکمل سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملبے تک موجود مزید میتوں کی تلاش کے کام کو 20 جولائی تک روکنا پڑا۔‘’چار جون سے پہلے تک سڑک کنارے یا ملبے کے اوپر موجود بیشتر لاشوں کو اٹھا کر ٹھکانے لگایا جا چکا تھا۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا مگر اندازہ ہے کہ اس زلزلے میں 25 سے 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘سنہ 2005 میں بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین ساٹھ ہزار کے لگ بھگ کیا ہے۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کی تحقیق کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور زیر زمین گہرائی فقط 30 کلومیٹر تھی۔خاموش گھڑیالاگرچہ اس زلزلے کے آنے کے صحیح وقت کے حوالے سے متضاد آرا ہیں مگر محکمہ موسمیات کوئٹہ کے دفتر میں موجود ایک گھڑیال اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ گھڑیال گذشتہ 86 برس سے خاموش ہے کیونکہ یہ اس المناک واقعے کا اہم گواہ ہے۔ 31 مئی 1935 کو صبح تین بج کر چار منٹ پر یہ گھڑیال اس وقت خاموش ہو گیا تھا جب زلزلے کے باعث اسے نقصان پہنچا۔ بعدازاں اسے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ کر لیا گیا کیونکہ اس پر وہ وقت محفوظ ہے جب کوئٹہ شہر پر قیامت ٹوٹی۔یاد رہے کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں زلزلے کا وقت تین بج کر تین منٹ بتایا گیا ہے۔زلزلے سے قبل ’پرندوں اور جانوروں میں بےچینی‘ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے سے قبل کسی بڑے تنبیہی جھٹکے (Warning Shocks ) کے حوالے سے کوئی مخصوص اطلاع نہیں تھی مگر بعدازاں زندہ بچ جانے والے کئی لوگوں نے میڈیا اور دوسرے جگہوں پر جو بیانات دیے ان کے مطابق انھوں نے بڑے جھٹکے سے پہلے مختلف تاریخوں میں زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے محسوس کیے تھے۔رپورٹ کے مطابق چونکہ کوئٹہ میں سال بھر معمولی جھٹکے محسوس کیے جاتے رہتے ہیں اس لیے ان چھوٹے جھٹکوں کا خاص نوٹس نہیں لیا گیا۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ رات کو آنے والے بڑے جھٹکے کے بعد بہت سے آفٹر شاکس آئے مگر ان میں نقصان نہیں ہوا کیونکہ شہر میں کوئی عمارت مکمل حالت میں موجود ہی نہ تھی جو ان آفٹر شاکس کے نتیجے میں متاثر ہوتی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دو افراد نے حکام کو یہ بھی بتایا کہ زلزلے کے دن انھوں نے گھروں میں پرندوں اور دیگر جانوروں کو عام دنوں کی بانسبت بے چینی کا اظہار کرتے دیکھا اور اسی لیے انھوں نے جانوروں کے کمروں کے دروازے کھول دیے تاکہ وہ باہر نکل سکیں۔اس زلزلے کے حوالے سے تحقیق کرنے والے سعید کرد نے اپنے ایک مضمون میں کوئٹہ کے ایک قصائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قصائی رات کو عموماً دیر سے گوشت کی مارکیٹ جاتے تھے۔ 31 مئی کی شب وہ جب کوئٹہ کے سنسان گلیوں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے یہ محسوس کیا عام دنوں کے برعکس کتے بہت زیادہ بھونک رہے تھے۔اس قصائی نے یہ رپورٹ دی تھی کہ رات تین بجے کے قریب انھوں نے ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنی اور اس کے ساتھ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھا۔زلزلے کے بعد برطانوی فوجی کمانڈر کا کنٹرول روم سے پہلا رابطہاس وقت کوئٹہ گیریزن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) جنرل کارسلیک تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے زلزلے کے فوراً بعد کنڑول روم سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ شہر گردوغبار سے اٹا ہوا ہے، ہرطرف چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی ہیں اور خیال یہ ہے کہ شہر تباہ ہو چکا ہے۔جنرل کارسلیک نے فوری طور پر ایمرجنسی کا اعلان کیا اور فوج کو سٹینڈ بائی رکھنے کا حکم جاری کیا تاہم ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق فوج نے آدھے گھنٹے میں شہر کی جانب موو کرنا شروع کیا۔محقق اور سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ حکومت بلوچستان نورخان محمد حسنی کے مطابق زلزلے کی اطلاع 31 مئی کی شب ہی شملہ پہنچا دی گئی تھی۔ اس اطلاع کے بعد حکومت کی جانب سے اگلے روز پریس کو ایک مختصر بیان جاری کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا ہے اور چند ہزار نفوس زندہ بچ گئے ہیں۔‘محمد حسنی کے مطابق یکم جون 1935 کو زلزلے کے حوالے سے مقررکردہ رابطہ افسر و افسر اطلاعات این سی او مورجی نے بذریعہ ٹیلی فون دہلی میں محکمہ انفارمیشن کے ذریعے یہ بیان جاری کرایا کہ کوئٹہ شہر کے علاوہ ایک بڑے علاقے میں زلزلہ آیا ہے یعنی دیگر شہر بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔فوجی چھاؤنی کیسے بچ گئی؟بلوچستان کے جو علاقے انگریزوں کے کنٹرول میں تھے ان کو برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا۔انھی علاقوں بالخصوص افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ انگریزوں نے سابق نازی جرمنی اور سابق سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی چھاﺅنیاں بنائی تھیں جن میں سے سب سے بڑی چھاﺅنی کوئٹہ کی تھی۔اگرچہ یہ چھاﺅنی شہر سے قریب ہی واقع ہے لیکن اس تباہ کن زلزلے میں یہ محفوظ رہی۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ سنہ 1935 کے زلزلے کی فالٹ لائن شہر کے مغرب میں بروری کے علاقے میں تھی، جس علاقے میں یہ فالٹ لائن تھی وہاں زمین میں گہڑی دراڑ پڑی جس کے آثار اب بھی ہیں اور یہ کوئٹہ سے چالیس سے پچاس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے میں زیادہ واضح ہیں۔انھوں نے بتایا فوجی چھاﺅنی فالٹ لائن سے کچھ فاصلے پر تھی اور یہ چھاﺅنی جس علاقے میں قائم کی گئی تھی وہ پہاڑ کے قریب تھا جہاں زمین سخت تھی جبکہ چھاﺅنی اور شہر کے درمیان حبیب نالے سمیت ایک، دو نالے اور تھے۔ 'چونکہ حبیب نالے اور دوسرے نالوں کی وجہ سے ان میں بریک آیا اسی لیے چھاﺅنی سے پہلے زلزلے کی شدت کم ہو چکی تھی۔کیا تھا"۔انھوں نے بتایا کہ چھاﺅنی میں جو تعمیرات کی گئی تھیں ان کی چھتیں چادر کی تھیں اور وہاں اس وقت کوئی پختہ بلڈنگ نہیں تھی جس کی وجہ سے نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ایئرفورس کے ’نصف اہلکار ہلاک اور زخمی‘اگرچہ فوجی چھاﺅنی تو زلزلے سے بچ گئی لیکن رائل ایئرفورس کے حوالے سے صورتحال مختلف تھی۔چھاﺅنی کے برعکس ایئرفورس کی تنصیبات شہر کے شمال مغرب میں تھیں جو کہ فالٹ لائن کے قریب ہونے وجہ سے بری طرح سے تباہ ہوئیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں تعینات ایئرفورس اہلکاروں میں نصف ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں ایئرفورس میں ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی تاہم یہ ضرور لکھا گیا کہ اینکرز میں موجود 27 طیاروں میں سے صرف تین قابل استعمال رہے تھے۔گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ہیڈ لائٹس میں خوفناک منظر کا نظارہایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق چونکہ شدید زلزلے کی وجہ سے شہر کا واحد بجلی گھر تباہ ہوا تھا اس لیے زلزلے کے بعد شہر مکمل تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔فوجی چھاﺅنی سے نکلنے والے اہلکار جب اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر چھاﺅنی سے متصل بروس روڈ (موجودہ جناح روڈ ) کے کونے پر پہنچے تو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ہیڈ لائٹس وہ واحد ذریعہ تھیں جن کی مدد سے انھوں نے شہر کی تباہی کا پہلا نظارہ کیا۔زلزلے سے شہر کی پولیس فورس اور سویلین انتظامیہ مکمل ختم ہوگئی تھیںایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق شہر کی پولیس اور سویلین انتظامیہ کا صفایا ہو گیا تھا۔ جی او سی نے تمام دستیاب وسائل برٹش بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن کے ڈسپوزل پر چھوڑ دیے تھے۔جن فوجی اہلکاروں کی شہر میں ریسکیو آپریشن میں ضرورت نہیں تھی ان کو شہر میں گشت پر لگا دیا گیا تاکہ پولیس اور سویلین انتظامیہ کی عدم موجودگی میں شہر میں کوئی ناخوشگوار پیش نہیں آئے ۔ایک لحاظ سے ایک عارضی پولیس فورس قائم کی گئی جس کی ذمہ داری ان شہریوں کی مدد کرنا تھا جو اس زلزلے میں زندہ بچ گئے تھے مگر جنھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مشکل وقت میں کیا کریں۔اس عارضی پولیس فورس کو چلانے کی ذمہ داری ان فوجی سٹوڈنٹ افسروں کوسونپی گئی جو کہ کورس کے لیے سٹاف کالج آئے ہوئے تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن نے یہ محسوس کیا کہ افسروں اور اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے سویلین انتظامیہ شہر کے انتظام کو نہیں چلا سکتی اس لیے انھوں نے 31 مئی کو ہی شہر کا کنٹرول جنرل کلارسک کے حوالے کیا جنھوں نے کوئٹہ میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔برطانوی اہلکاروں نے مسلمان متاثرین سے قرآن پر حلف لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں کوئٹہ کے علاوہ ریاست قلات میں مستونگ اور قلات کے علاقوں میں بھی ریلیف اور نقصانات کے ازالے کا ذکر کیا گیا ہے۔اس وقت لوگوں کے گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ کھیتی باڑی تھی اور اس میں بڑا کردار بیلوں کا تھا۔رپورٹ کے مطابق بیلوں کے نقصانات کے ازالے کے حوالے سے متاثرین کی جانب سے جو دعوے سامنے آئے وہ مشکوک اور زیادہ لگ رہے تھے جس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں سے قرآن پر حلف لیا اور جس نے بھی حلف اٹھایا کہ زلزلے میں اُن کے بیل مرگئے ہیں تو ان کو دعوے کے مطابق بیل دیا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا جب معاملہ قرآن پر حلف کا آیا تو اس کے بعد لوگوں کی دعوؤں میں حیران کن حد تک کمی آئی۔1935 کا زلزلہ اور کوئٹہ کے لیے بلڈنگ کوڈ اور موجودہ صورتحالماہر ارضیات پروفیسر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ 1934 میں کوئٹہ کے قریب ہرنائی کے علاقے میں ایک زلزلہ آیا تھا جس کے بعد انگریزوں نے ریلوے سٹیشنوں اور بعض دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے تاہم کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment