Sunday, 19 May 2024

#قربانی کے مسائل حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق سیکھئے*۔ *حرف الف* 🍀 *آنکھ*۔❗️جو جانور اندھا ہو یا کانا ہو، یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی بینائی یا اس سے زیادہ چلی گئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۰جو جانور ترچھی نظروں سے دیکھتا ہو اس کی قربانی درست ہے،🍀 *اجازت*۔❗️اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کی واجب قربانی کرنا چاہے تو اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ورنہ اجازت کے بغیر قربانی کرنے کی صورت میں دوسرے کی واجب قربانی ادا نہیں ہو گی۔ ہاں اگر کسی جگہ یہ رواج ہو کہ شوہر اپنی بیوی یا باپ اپنی بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کر دیا کرتا ہے تو اور بیوی اور اولاد کو بھی یہ بات معلوم ہو تو اس میں عرف رواج کی وجہ سے ان کی قربانی درست ہو جائے گی،صریح اجازت لینا ضروری نہیں ہو گی بلکہ عرف رواج کافی ہو گا۔اور جہاں پر یہ عرف رواج نہ ہو تو وہاں واجب قربانی کے لئے صریح واضح اجازت لینا ضروری ہے ورنہ واجب قربانی ادا نہیں ہو گی۔پھر اجازت لینے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ قربانی جس پر واجب ہو اس سے اُسکی واجب قربانی کی رقم بھی لے لی جائے بلکہ اگر کوئی اپنی طرف سے اُسکے واجب قربانی کی رقم دینا چاہے تو دے سکتا ہے منع نہیں۔🍀 *اجتماعی قربانی*۔❗️موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رواج عام ہو رہا ہے، اور بہت سارےادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں یہ جائز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اگر کسی شخص یا ادارے کو کھال نہ دینے کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اجتماعی قربانی میں حصے لینے کو ترجیح دینا بہتر ہے تاکہ قربانی بھی ہو جائے اور پریشانی بھی نہ ہو، اور کھال بھی مستحق لوگوں کو مل جائے۔❗️اجتماعی قربانی میں ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر حرام آمدنی والے افراد کے ساتھ شرکت نہ ہو ورنہ قربانی صحیح نہیں ہو گی، اس لئے اجتماعی قربانی کا کام کرنے والے اداروں پر یا عام شرکاء پر ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں ، اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ جہاں حصوں کی بُکنگ ہوتی ہے۔ وہاں بڑے حروف میں یہ اعلان لکھ کر آویزاں کر دیں کہ حرام آمدنی والے مثلا سود، جواء، سودی بینک، بیمہ پالیسی انشورنس ، ڈاکہ اور چوری کی رقم والے اجتماعی قربانی میں شرکت نہ کریں ورنہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ ❗️اجتماعی قربانی میں مشترکہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے جن سات شریکوں کی طرف سے قربانی ہے اس کا تعین اور ذبح کرتے وقت ان کی طرف سے قربانی کی نیت کرنا ضروری ہے اور تعین نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں ہوگی ۔🍀 *اجتماعی قربانی میں رقم بچ جائے*۔❗️اگر اجتماعی قربانی میں قربانی کرنے کے بعد رقم بچ جائے تو بقیہ رقم واپس کرنالازم ہو گا ، رقم جمع کرنے والوں کی اجازت کے بغیر بھی بچی ہوئی زائد رقم اجتماعی قربانی کرنے والوں کے لئے رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ہاں اجتماعی قربانی کرنے والا اجرت کے طور پر کچھ رقم لینا چاہیں تو ابتدا ہی سےمتعین کر کے لے سکتے ہیں بعد میں نہیں ۔🍀 *ادھار لئیے ہوئے جانور*۔ ❗️ادھار یعنی عاریتاً عارضی طور پر لئیے ہوئے جانور سے قربانی کرنا درست نہ ہو گا۔کیونکہ وہ غیر کی ملک میں ہے۔🍀 *افضل جانور*۔❗️اگر فقراء اور نادار، ضرورت مند لوگ زیادہ ہوں تو زیادہ گوشت والا جانور افضل ہے اور اگر ضرورتمند لوگ کم ہوں تو پھر جس جانور کی قیمت زیادہ ہو اور گوشت عمدہ ہو وہ افضل ہے۔بہت زیادہ فربہ اور موٹا تازہ جانور کی قربانی مستحب ہے، چنانچہ ایک فربہ موٹے تازے بکرے کی قربانی دو کمزور بکروں کی قربانی سے افضل ہے، بشرطیکہ گوشت خراب نہ ھو۔ اگر بڑے جانور گائے وغیرہ کے ساتویں حصہ کی قیمت اور بکری کیقمت برابر اور گوشت بھی برابر ہے تو بکری خریدنا افضل ہے۔ بھیڑ سے بکری افضل ہے۔مادہ کی قربانی نر سے افضل ہے بشرطیکہ مادہ کا گوشت بھی نر سے بہتر ہو۔جس قربانی کی قیمت زیادہ ہو وہ بہتر ہے، اور اگر دو جانوروں کی قیمت برابر ہو لیکن ایک کا گوشت زیادہ ہے تو وہی بہتر اور افضل ہے۔ 🍀 *الٹا کھنچنا*۔❗️جانور کو ذبح کرنے کی جگہ تک پکڑ کے پیچھے کی ٹانگوں کو آگے کی طرف سے کھینچنا مکروہ تحریمی ہے منع ہے۔ 🍀 *اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرنا*۔ ❗️اللہ اکبر کہہ کر جانور ذبح کرنے سے جانور حلال ہو گا اور گوشت کھانا جائز پو گا البتہ سنت کے خلاف ہے بہتر نہیں ہے، اس لئے " بسم اللهِ اللهُ اکبر“ کہہ کر جانورکو ذبح کرے۔🍀 *اللہ اکبر کہنا ضروری نہیں*۔❗️ذبح کے وقت صرف بسم الله ‘ کہنا بھی کافی ہے " الله اکبر کہنا ضرورینہیں البتہ "بسم الله الله اكبر دونوں کہنا سنت کے مطابق ہے۔ 🍀 *امانت کی رقم*۔❗️امانت کی رقم سے اجازت کے بغیر قربانی کا جانور خرید کر قربانی کرنا جائز نہیں،ہاں اگر رقم کے مالک سے اجازت مل جائے تو اس سے جانور خرید کر قربانی کرنا جائز ہو گا، اور قربانی کرنے والے پر لازم ہو گا کہ رقم مالک کو واپس کر دے۔ 🍀 *امت محمدیہ پر خاص انعام*۔❗️حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک قربانی کا گوشت کھانےکی اجازت نہیں تھی بلکہ آسمان سے ایک آگ آتی اور مقبول قربانی کو جلا دی، امت محمدیہ پر اللہ تعالی کا خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت ان کیلئے حلال کر دیا گیا۔ 🍀 *اندازہ سے گوشت تقسیم کرنا*۔❗️فتاوی قاسمیہ جلد 22 میں لکھا ہے کہ بڑے جانور میں اگر سارے حصے دار یہ چاہتے ہیں کہ اپنا اپنا حصہ الگ الگ طور پر وصول کرکے قبضہ کریں گے تو ایسی صورت میں تول کر سب کا حصہ متعین کر لینا ضروری ہے اور اگر کوئی اپنا حصہ کم کرکے سر، پایہ وغیرہ لینا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن اگر سب شرکاء اپنا اپنا حصہ مکمل طور پر وصول کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں کچھ لیں، کچھ دیدیں ، یا سب دیدیں ، یا شرکاء میں سے کسی کو اپنے حصہ کے بارے میں اختیار دیدیں یا سب شرکاء کسی اور کو اختیار دیدیں تو ایسے حالات میں بڑے جانور کا گوشت تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں جیسا کہ مدارس میں جو قربانیاں ہوتی ہیں تو ان میں شرکاء کی طرف سے عام طور پر اپنا اپنا حصہ مکمل طور پر وصول کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا اس لیے جن مدارس میں گوشت تول کر تقسیم نہیں کرتے ان پر کوئی اعتراض کی بات نہیں ، وہ اسی کی گنجائش کے تحت کرتے ہیں ، ہاں البتہ اگر کوئی شریک اپنا حصہ متعین کرکے وصول کرنا چاہتا ہے تو اس کا ساتواں حصہ تول کر اسے دیدینا چاہئے.🍀 *اندھا جانور*۔❗️اندھے جانور کی قربانی درست نہیں۔🍀 *انشورنس کمپنی کے ملازم کی قربانی کا حکم*۔❗️انشورنس بیمہ پالیسی کا دارومدار سود یا جوئے پر ہے، اور سود اور جوئے کی آمدنی حرام ہے، اور حرام آمدنی سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے لہذا مشترکہ یا اجتماعی قربانی میں ایسےآدمی کو شریک کرنا درست نہیں جس کی آمدنی صرف ياغالب آمدنی انشورنس کمپنی کی ہے۔ ہاں اگر ایسے لوگوں کے پاس حلال آمدنی بھی ہے اور وہ حرام آمدنی کے ساتھ مخلوط نہیں بلکہ الگ ہے تو ایسی حلال آمدنی سے یا کسی سے حلال رقم قرض لیکر قربانی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو اجتماعی اور مشترکہ قربانی میں شامل کرنا جائز ہو گا۔ 🍀 *اوجھڑی*۔❗️اوجھڑی پاک صاف کر کے کھانا جائز ہے۔ 🍀 *اولاد صاحب نصاب ہو اور بالغ بھی ہو*۔❗️اگر بالغ اولاد خود صاحب نصاب ہو تو خود ان پر قربانی کرنا واجب ہو گی، اور اگر وہ صاحب نصاب نہ ہو تو والد پر ان کی طرف سے قربانی کرنا ضروری نہیں البتہ اگر والد اپنی فرض قربانی کے ساتھ ساتھ بالغ اولاد کی طرف سے بھی قربانی کا حصہ ڈالے تو یہ بھی جائز ہے۔اسی طرح والد نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے کر سکتا ہے ثواب ملے گا۔ 🍀 *اولاد کی طرف سے قربانی کرنا* ❗️ماں باپ کیلئے اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے مثلاً کسی کے گھر میں دس افراد ہیں اور سب ایک ساتھ رہتے ہیں یعنی جوائنٹ فیملی ہے، تو باپ کی زندگی میں صرف باپ پر قربانی واجب ہو گی یعنی اپنے نام سے قربانی کرے گا اولاد کے نام سے نہیں۔ ❗️اگر اولاد بالغ ہے اور سب مالدار صاحب نصاب ہیں تو اس صورت میں ہر ایک پر ضروری ہو گا کہ ایک ایک حصہ قربانی کرے، اگر باپ اولاد کی طرف سے اولاد کی اجازت سے ان کی قربانی کرے گا تو ان کی قربانی بھی ادا ہو جائیگی اور والد کو ثواب ملے گا البتہ اگر باپ نہیں کرے گا تو ہر ایک پر لازم ہو گا کہ ایک ایک حصہ قربانی کرے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔اگر اولاد نابالغ ہے تو ان پر قربانی واجب نہیں ہے۔🍀 *اونٹ*۔❗️اونٹ میں بھی سات ہی افراد شریک ہو کر قربانی کر سکتے ہیں۔ اُونٹ میں سات سے زیادہ افراد کی شرکت سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔🍀 *ایام نحر یعنی بقر عید کے آخری دن میں شک ھو گیا*۔❗️اگر ایام نحر یعنی قربانی کے ایام میں شک ہو گیا کہ بارہویں ذی الحجہ ہے یا تیرہویں(یعنی عید کا تیسرا اور اخری دن ہے یا چوتھا دن) تو قربانی کرنے میں تیسرے روز تک تاخیر نہ کرے، تاخیر ہو جانے کی صورت میں قربانی کر کے سب گوشت کا صدقہ کر دینا مستحب ہے۔🍀 *ایصال ثواب کے لئے قربانی کرنا*۔❗️مُردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے قربانی کرنا جائز ہے اس سے مردوں کو فائدہ ہو گا، اور ایصال ثواب کے لئے ایک حصہ قربانی کر کے اس کا ثواب بہت سارے مردوں کو بلکہ تمام امت مسلمہ کو بھی پہچانا درست ہے، اس قسم کی نیت کرنے کی صورت میں تمام امت مسلمہ کو ثواب ملے گا، کیونکہ ایصال ثواب کرنے والا قربانی کے جانور یا حصے کا مالک ہے صرف میتوں کو یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچاتا ہے اس لئے ایک حصے کا ثواب ایک سے زائد لوگوں کو پہنچانا درست ہے۔البتہ اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت کی تو اس صورت میں ایک حصہ ایک آدمی یعنی اسی فوت شدہ شخص کی طرف سے ہو گا اسی ایک حصے میں ایک سے زیادہ مُردوں کی نیت کرنا جائز نہیں ۔🍀 *ایک حصہ دار مر گیا*۔❗️سات افراد نے شریک ہو کر ایک بڑا جانور قربانی کیلئے خریدا اور قربانی کرنےسے پہلے ان میں سے ایک شخص مر گیا مگر مردہ کے ورثاء نے ان شرکاء کو اجازت دے دی کہ آپ لوگ میت کی اور اپنی طرف سے قربانی کریں، اگر یہ لوگ ان کی اجازت سے میت اور اپنی طرف سے قربانی کریں گے تو جائز ہو گا اور سب کی قربانی ادا ہو جائے گی۔اور اگر میت کے وارثوں کی اجازت کے بغیر قربانی کریں گے تو درست نہیں ہو گی اورکسی بھی شریک کی قربانی ادا نہیں ہو گی ۔ 🍀 *ایک کے بجائے سات بکرے ذبح کرے* ۔ایک شخص پر قربانی واجب ہے اور وہ ایک بکرے کے بجائے سات بکرے ذبح کرے تو واجب قربانی ایک بکرے سے ادا ہو جائے گی اور باقی چھ بکروں کی قربانی نفل شمار ہو گی لیکن بڑے جانور کے ساتویں حصے کی بجائے پورے جانور کی قربانی کرے گا تو پورے جانور سے واجب قربانی ادا ہو گی۔*🌹 حرف باء🌹*🍀 *بال*۔❗️قربانی کرنے والے کیلئے مستحب یعنی بہتر یہ ہے کہ یکم ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی ناخن کاٹنا چھوڑ دے اور زیر ناف بالوں کی صفائی نہ کرے،،سر کے بال وغیرہ بھی فی الحال نہ کاٹے، البتہ عید الاضحی کے دن جیسے ہی قربانی کرے تو اپنے ناخن کاٹے اور اگر زیر ناف بالوں کی صفائی کی ضرورت ہو تو بال کتروائے ، قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کریں گے تو ثواب سے محروم نہیں ہوں گے۔*البتہ یہ حکم فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب یعنی ثواب کا عمل ہے*۔❗️جس جانور کے بال کاٹ لئے گئے ہوں، اس کی قربانی درست ہے۔ ❗️قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کے بعد اس کے بال کاٹنا جائز نہیں۔ ❗️تاہم اگر کسی نے ایسا کر لیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔ 🍀 *بال جلا کر پکانا*۔❗️سری اور پائے کے بال جلا کر کھال کے ساتھ کھانا جائز ہے۔ 🍀 *بالغ ہوا*۔ ❗️اگر نابالغ دس گیارہ یا بارہ ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے بالغ ہوا اور وہ مالدار ہے تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ *🍀 بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا*۔❗️بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا باپ کے ذمہ ضروری نہیں، اگر بالغ اولاد خود مالدار ہے تو وہ خود قربانی کرے یا باپ کو اجازت دیدے، بالغ اولاد کی اجازت سے باپ ان کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے۔ 🍀 *بانجھ*۔بانجھ جانور کی قربانی درست ہے، کیونکہ اس پر ممانعت کا علم نہیں آیا اور بانجھ ہونا قربانی کیلئے عیب نہیں ہے، جس طرح جانور کا خصی ہونا اور جفتی سے عاجز ہونا قربانیکیلئے عیب نہیں ہے، اسی طرح بانجھ ہونا بھی عیب نہیں کیونکہ بانجھ جانور اکثرو بیشتر خوب موٹا تازہ ہوتا ہے، اور گوشت بھی عمدہ ہوتا ہے، اس لئے قربانی جائز ہے۔🍀 *باؤلا جانور*۔باولے جانور کی قربانی درست ہے لیکن اگر باؤلے پن کی وجہ سے کھاپی نہ سکتا ھو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔(📚مستفاد از قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا:تالیف:-مفتی انعام الحق صاحب قاسمی)

*#کھانا کھانے کے آداب* سوالسوال: یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے منہ سے کھانا کھاتے ہوئے چبانے کی آوازآتی ہے؟جوابکھانا کھانے کے من جملہ آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ کھانا آہستہ اور چبا کر کھانا چاہیے۔ نیز طبی اعتبار سے بھی آہستہ اور چباکر کھاناپیٹ بھرنے اور وزن کم کرنے میں مدد فر اہم کرتا ہے۔ کھانا کھاتے وقت بتکلف اختیاری طور پر چبانے کی آواز نکالنا مناسب نہیں ہے، اس سے دوسرے افراد کو تکلیف ہوتی ہے اور بعض برادریوں میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر نکل جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلمفتوی نمبر : 144404101317دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

*بیوہ کے دودھ پلانے سے حرمت متوفی سے ثابت ہوگی یا نہیں؟* سوال۱) اگر بیوہ عورت کسی بچے کو دودھ پلائے تو اس بچے کی رضاعت بیوہ کے فوت شدہ شوہر سے ثابت ہوگی یا نہیں ؟۲) مذکورہ مسئلہ میں شوہر کے وفات کے بعد کم عرصہ گزرا ہو یا زیادہ اس میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنے عرصہ تک بیوہ کے دودھ شوہر کی طرف منسوب کریں گے؟جواب۱،۲) واضح رہے کہ فقہی جزئیات سے یہ مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:الف) مرضعہ کا دودھ جس مرد کے سبب ہوگا ، اس مرد سے رضیع کی حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ب) طلاق یا وفات کے بعد بھی اگر مرضعہ دودھ پلائے گی اور وہ دودھ طلاق دینے والے مرد یا وفات پانے والے مرد کے سبب ہوگا تب بھی اس مرد سے حرمت ثابت ہوگی۔ج) دودھ والی عورت اگر طلاق اور عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کر لیتی ہے اور اسی حال میں حاملہ بھی ہوجاتی ہے تب بھی اگر کسی بچہ کو دودھ پلائے گہ تو حرمت پہلے شوہر سے ہی ثابت ہوگی کیونکہ دودھ کا پہلے شوہرسے ہونا یقینی ہے اور دوسرے شوہر سے ہونا یقینی نہیں ہے، ہاں جب دوسرے سے بچہ پیدا ہوجائے تو پھر حرمت دوسرے شوہر سے ثابت ہوگی۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہے۔د) کسی شخص کے نکاح میں عورت کو بچہ ہوا اور پھر دودھ آیا اور پھر دودھ ختم ہوگیا، اس کے بعد بغیر کسی حمل کے دودھ آیا (یعنی اس دودھ کا سبب شوہر نہیں تھا ) تو پھر اب دودھ پلانے کی صورت میں شوہر سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ہ) غیر شادی شدہ بالغہ عورت کو دودھ آیا تو اس صورت میں صرف عورت سے حرمت ثابت ہوگی، کسی مرد سے ثابت نہیں ہوگی۔اسی طرح شادی شدہ عورت کو دودھ آئے لیکن اس عورت کا اپنےشوہر سے کوئی بچہ نہ ہو اور اس عورت کو دودھ آجائے تو حرمت شوہر سے ثابت نہیں ہوگی، بلکہ یہ دودھ گویا کہ باکرہ کا دودھ کے حکم میں ہوگا۔ان تمام متعلقہ جزئیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد سے حرمت ثابت ہونے کا اصل مدار اس بات پر ہے کہ دودھ کا سبب مرد ہے یا نہیں ہے؟ لہذا صورت مسئولہ میں بیوہ عورت عدت کے دوران یا عدت کے بعد اگر کسی کو دودھ پلائے گی اور یہ دودھ فوت شدہ شوہر کے سبب ہے تو پھر فوت ہونے والے شوہر سے حرمت ثابت ہوگی چاہے وفات کو کتنا ہی عرصہ گزرجائے۔ اگر دودھ فوت ہونے والے شوہر سے نہیں ہے بلکہ کسی اور وجہ سے ہے تو پھر حرمت شوہر سے ثابت نہ ہوگی چاہے شوہر کی وفات کو کتنا ہی قلیل عرصہ گزرا ہو۔ فتاوی شامی میں ہے:"(طلق ذات لبن فاعتدت وتزوجت) بآخر (فحبلت وأرضعت) (فحكمه من الأول) لأنه منه بيقين فلا يزول بالشك (حتى تلد) فيكون اللبن من الثاني، والوطء بشبهة كالحلال، قيل: وكذا الزنا والأوجه لا فتح(قوله طلق ذات لبن) أي منه، بأن ولدت منه؛ لأنه لو تزوج امرأة ولم تلد منه قط ونزل لها لبن وأرضعت ولدا لا يكون الزوج أبا للولد لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه، وإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن البكر،ولهذا لو ولدت للزوج فنزل لها لبن فأرضعت به ثم جف لبنها ثم در فأرضعته صبية فإن لابن زوج المرضعة التزوج بهذه الصبية، ولو كان صبيا كان له التزوج بأولاد هذا الرجل من غير المرضعة بحر عن الخانية."(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۲۲۱، ایچ ایم سعید)فتاوی ہندیہ میں ہے:"إذا طلق الرجل امرأته ولها لبن فتزوجت بزوج آخر بعد ما انقضت عدتها ووطئها الثاني أجمعوا أنها إذا ولدت من الثاني فاللبن من الثاني وينقطع من الأول وأجمعوا على أنها إذا لم تحبل من الثاني فاللبن من الأول وإذا حبلت من الثاني ولكن لم تلد منه، قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: اللبن يكون من الأول حتى تلد من الثاني كذا في المحيط.رجل تزوج امرأة ولم تلد منه قط ثم نزل لها لبن فأرضعت صبيا كان الرضاع من المرأة دون زوجها حتى لا يحرم على الصبي أولاد هذا الرجل من غير هذه المرأة."(کتاب الرضاع، ج نمبر ۱،ص نمبر ۳۴۳، دار الفکر)فتاوی ہندیہ میں ہے:"رجل تزوج امرأة فولدت منه ولدا فأرضعت ولدها ثم يبس لبنها ثم در لها لبن بعد ذلك فأرضعت صبيا كان لهذا الصبي أن يتزوج أولاد هذا الرجل من غير المرضعة كذا في فتاوى قاضي خان."(کتاب الرضاع، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۴۴، دار الفکر)المبسوط للسرخسی میں ہے:"(قال:) وإذا كان للمرأة لبن وطلقها زوجها وتزوجت آخر فحبلت من الآخر ونزل لها اللبن فاللبن من الأول حتى تلد في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، فإذا ولدت فاللبن بعد ذلك يكون من الثاني.... وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقول:كون اللبن من الأول ثابت بيقين، واللبن يزداد تارة وينقص أخرى باعتبار الغذاء، فهذه الزيادة تحتمل أن تكون من قوة الغذاء لا من الحبل الثاني، فلا ينتسخ به حكم اللبن من الأول حتى يتعرض مثل ذلك السبب من الثاني، وذلك يكون بالولادة. (قال:) ولا يجتمع حكم الرضاع لرجلين على امرأة واحدة في حالة واحدة؛ لأن سببهما لا يجتمع حلالا شرعا فكذلك ما ينبني على ذلك السبب، ولكن ما بقي الأول لا يثبت الثاني وإذا ثبت الثاني انتفى الأول" (کتابالنکاح ، باب الرضاع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۳۳،دار المعرفۃ)المبسوط للسرخسی میں ہے:"(قال:) وإذا ولدت المرأة من الرجل ثم طلقها وتزوجت بزوج آخر وأرضعت بلبن الأول ولدا وهي تحت الزوج الثاني فالرضاع من الزوج الأول دون الثاني؛ لأن المعتبر من كان نزول اللبن منه لا من هي تحته، ونزول هذا اللبن كان من الأول." (کتابالنکاح ، باب الرضاع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۳۷،دار المعرفۃ)بدائع الصنائع میں ہے:"وأما قولهم: إن الله تعالى بين الحرمة في جانب المرضعة لا في جانب زوجها فنقول: إن لم يبينها نصا فقد بينها دلالة؛ وهذا لأن البيان من الله تعالى بطريقين: بيان إحاطة وبيان كفاية، فبين في النسب بيان إحاطة وبين في الرضاع بيان كفاية تسليطا للمجتهدين على الاجتهاد والاستدلال بالمنصوص عليه على غيره وهو أن الحرمة في جانب المرضعة لمكان اللبن وسبب حصول اللبن ونزوله هو ماؤهما جميعا؛ فكان الرضاع منهما جميعا وهذا؛ لأن اللبن إنما يوجب الحرمة لأجل الجزئية والبعضية؛ لأنه ينبت اللحم وينشر العظم على ما نطق به الحديث، ولما كان سبب حصول اللبن ونزوله ماءهما جميعا، وبارتضاع اللبن تثبت الجزئية بواسطة نبات اللحم؛ يقام سبب الجزئية مقام حقيقة الجزئية في باب الحرمات احتياطا والسبب يقام مقام المسبب خصوصا في باب الحرمات أيضا."(کتاب الرضاع، فصل فی المحرمات بالرضاع، ج نمبر ۴، ص نمبر ۳،دار الکتب العلمیۃ) بدائع الصنائع میں ہے:"ولو طلق الرجل امرأته ولها لبن من ولد كانت ولدته منه فانقضت عدتها وتزوجت بزوج آخر وهي كذلك فأرضعت صبيا عند الثاني ينظر إن أرضعت قبل أن تحمل من الثاني فالرضاع من الأول بالإجماع؛ لأن اللبن نزل من الأولفلا يرتفع حكمه بارتفاع النكاح كما لا يرتفع بالموت وكما لو حلب منها اللبن ثم ماتت لا يبطل حكم الرضاع من لبنها كذا هذا، وإن أرضعت بعدما وضعت من الثاني فالرضاع من الثاني بالإجماع؛ لأن اللبن منه ظاهرا، وإن أرضعت بعدما حملت من الثاني قبل أن تضع؛ فالرضاع من الأول إلى أن تضع، في قول أبي حنيفة .....ولأبي حنيفة أن نزول اللبن من الأول ثبت بيقين؛ لأن الولادة سبب لنزول اللبن بيقين عادة فكان حكم الأول ثابتا بيقين فلا يبطل حكمه ما لم يوجد سبب آخر مثله بيقين وهو ولادة أخرى لا الحمل؛ لأن الحامل قد ينزل لها لبن بسبب الحمل وقد لا ينزل حتى تضع والثابت بيقين لا يزول بالشك."(کتاب الرضاع، فصل فی صفۃ الرضاع المحرم، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۰،دار الکتب العلمیۃ) فتح القدیر میں ہے:"بخلاف ما لو ولدت للزوج فنزل لها لبن فأرضعت به ثم جف لبنها ثم در لها فأرضعت به صبية، فإن لولد زوج المرضعة من غيرها التزوج بهذه الصبية؛ لأن هذا ليس لبن الفحل ليكون هو أباها، كما لو لم تلد من الزوج أصلا ونزل لها لبن فإنه لا يثبت بإرضاعها تحريم بين ابن زوجها ومن أرضعته؛ لأنها ليست بنته؛ لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه،فإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن البكر."(کتاب الرضاع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۴۴۹، شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)فقط واللہ اعلمفتوی نمبر : 144507102074دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

*#خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم* سوالخود کشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھنا اور پڑھانا کیسا ہے؟جوابخودکشی گناہِ کبیرہ اور بڑا جرم ہے،خود کشی کرنے والا فاسق ہے، لیکن کافر نہیں، لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھنا فرض ہے، البتہ اس کی نمازِ جنازہ میں مقتدا سمجھنے جانے والے اور ممتاز لوگ شریک نہ ہوں، تاکہ دیگر لوگوں کے دلوں میں اس فعل سے نفرت پیدا ہو۔ صحیح مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک ایسے شخص کا جنازہ لایا گیا جس نے خودکشی کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔قال في الدر:"(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى، وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي بِمَا فِي مُسْلِمٍ: «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»".وفي الرد :"(قَوْلُهُ: بِهِ يُفْتَى)؛ لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ، وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ، زَيْلَعِيٌّ. (قَوْلُهُ: وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي إلَخْ) أَيْ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ: إنَّهُ يُغَسَّلُ، وَلَايُصَلَّى عَلَيْهِ، إسْمَاعِيلُ عَنْ خِزَانَةِ الْفَتَاوَى. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ وَالْكِفَايَةِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ الْإِمَامِ السَّعْدِيِّ: الْأَصَحُّ عِنْدِي أَنَّهُ لَايُصَلَّى عَلَيْهِ لِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: فَقَدْاخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ، لَكِنْ تَأَيَّدَ الثَّانِي بِالْحَدِيثِ. اهـ. أَقُولُ: قَدْ يُقَالُ: لَا دَلَالَةَ فِي الْحَدِيثِ عَلَى ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ سِوَى «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ امْتَنَعَ زَجْرًا لِغَيْرِهِ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ كَمَا امْتَنَعَ عَنْ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْيُونِ، وَلَايَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ عَدَمُ صَلَاةِ أَحَدٍ عَلَيْهِ مِنْ الصَّحَابَةِ؛ إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَ صَلَاتِهِ وَصَلَاةِ غَيْرِهِ. قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ} [التوبة: ١٠٣] ثُمَّ رَأَيْت فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ بَحْثًا كَذَلِكَ" . [الدر مع الرد : ٢/ ٢١١-٢١٢] فقط واللہ اعلمفتوی نمبر : 144012200727دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

*موبائل میں قرآن مجید ڈاؤنلوڈ کرنا، موبائل میں بغیر وضو قرآن مجید پڑھنا اور موبائل میں محفوظ قرآن مجید کے ساتھ بیت الخلاء جانے کا حکم* سوال السلام علیکم، حضرت ! سوال یہ پوچھنا تھا کہ موبائل میں قرآن شریف رکھنا کیسا ہے؟ اور اگر موبائل میں قرآن شریف ہو تو اسکو بغیر وضو چھو سکتے ہیں یا نہیں ؟ واش روم جاتے ہوئے موبائل جیب میں ہی ہوتا ہے، کیا اس موبائل کے ساتھ واش روم جا سکتے ہیں؟ رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہجواب 1) موبائل میں قرآن مجید ڈاؤن لوڈ کرنا اور موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا دونوں جائز ہے۔2) قرآنی آیات کو ہاتھ لگائے بغیر موبائل فون پر بلا وضو تلاوت کی جاسکتی ہے، البتہ اسکرین پر جہاں آیات مبارکہ نظر آرہی ہوں، اس جگہ کو بغیر وضو چھونا درست نہیں ہے۔3) اگر قرآن مجید موبائل کی اسکرین پر کھلا ہوا ہو تو بیت الخلاء لے کر درست نہیں ہے، لیکن اگر اسکرین پر قرآن مجید کھلا ہوا نہیں ہے تو جیب میں رکھ کر بیت الخلاء جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلائل:قال اللہ تعالیٰ:لَا یَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ.الواقعہ، الایۃ 79واللہ تعالٰی اعلم بالصوابدارالافتاء الاخلاص، کراچیماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچیفتوی نمبر :2259