Monday, 1 April 2024

*** روزہ اور ہمبستری*** *شریعت نے روزے کی حالت میں بیوی سے مرد کو کس حد تک فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے * رمضان المبارک میں تقریباً ہر دوسرے شخص کو یہ سوال کرتے دیکھا جاتا ہے۔سوال پوچھتے لوگ شرم بھی محسوس کرتے ہیں چونکہ شریعت اسلامیہ میں دین سیکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔۔ شرم محسوس کرنے سے کہی دین کا علم حاصل نہ کرے اور ساری زندگی جہالت میں ہی گزار دے اس سے بہتر ہے کہ دین کا علم حاصل کر لینا چاہیے۔ ابواسحاق، براء روایت کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں جب کوئی روزہ دار ہوتا اور افطار کا وقت آتا اور افطار سے پہلے سو جاتا تو نہ اس رات کو کھاتا اور نہ دن کو یہاں تک کہ شام ہوجاتی، قیس بن صرمہ انصاری ایک بار روزے سے تھے جب افطار کا وقت آیا تو اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ بیوی نے جواب دیا نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور تمہارے لیے ڈھونڈ کر لاتی ہوں اس زمانہ میں یہ مزدوری کرتے تھے چنانچہ ان کی آنکھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور سو گئے جب بیوی نے ان کو دیکھا تو کہا تجھ پر افسوس ہے، جب دوسرے دن دوپہر کا وقت آیا تو بیہوش ہوگئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا گیا تو یہ آیت اتری کہ روزوں کی رات میں تمہارے لیے اپنی بیویوں سے صحبت کرنا حلال کردیا گیا، صحابہ اس سے بہت خوش ہوئے اور یہ آیت اتری کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے تم پر کھل نہ جائے۔صحیح بخاریجلد اول حدیث 1841 سیقول : سورۃ البقرة : آیت 187اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ وَ عَفَا عَنۡکُمۡ ۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ۪ وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾ تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے مباثرت کرنا حلال کیا گیا ہے وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اور تم ان کے لیے پردہ ہو اللہ کو معلوم ہے تم اپنے نفسوں سے خیانت کرتے تھے پس تمہاری توبہ قبول کرلی اور تمہیں معاف کردیا سو اب ان سے مباثرت کرو اور طلب کرو وہ چیز جو اللہ نے تمہارے لیے لکھدی ہے اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیادہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہوجاوے پھر روزوں کو رات پورا کرو اور ان سے مباثرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان کے قریب نہ جاؤ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار ہو جائیں روزے کی حالت میں اگر کوئی میاں بیوی ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں یا جسم کے کسی حصے کو چھو لیتے ہیں یا اکٹھے ایک ساتھ لیٹ بھی جاتے ہو یا سو بھی جاتے ہیں تو اس میں ان شاء اللہ روزے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن شرط یہ ہے کہ دونوں کو اپنی اپنی شہوات پہ پورا کنٹول ہو ۔ ہمبستری کا یا جماع ہونے کا یا دونوں میاں بیوی میں سے کسی ایک کی منی کے انزال ہونے کا خطرہ نہ ہو پھر یہ اجازت ہے۔۔اگر مرد نے عورت کے اندر دخول کر دیا یا دونوں میں سے کسی کی بھی منی کا انزال ہو گیا تو دونوں کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔غسل جنابت فرض ہو جائے گا اور اس کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اور کفارہ ادا کرنا فرض یے ۔۔۔حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ بتاؤ ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کرلو تو کیا ہوگا ؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا ؟ مسند احمدجلد اول حدیث 132 حضرت ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نوجوان آیا اور کہنے لگایا رسول اللہ ! روزے کی حالت میں میں اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہوں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں تھوڑی دیر بعد ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور اس نے بھی وہی سوال پوچھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی اس پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم ایک دوسرے کو کیوں دیکھ رہے ہو ؟ دراصل عمر رسیدہ آدمی اپنے اوپر ( یعنی اپنی شہوت پر ) قابو رکھ سکتا ہے۔ مسند احمدجلد سوم حدیث 2236 ایک انصاری صحابی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے عہد نبوت میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دیا پھر خیال آنے پر اپنی بیوی سے کہا چنانچہ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق پوچھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی بھی ایسا کرلیتے ہیں اس عورت نے اپنے شوہر کو بتایا انھوں نے کہا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو بہت سے کاموں کی اجازت حاصل ہے تم واپس جا کر ان سے یہ بات کہو چنانچہ اس نے واپس جا کر عرض کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو بہت سے کاموں کی اجازت حاصل ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کو جاننے والا ہوں ( مطلب جب اللہ نے مجھے اجازت دی یے تو تم بھی میری سنت پہ عمل کر لیا کرو )مسند احمدجلد نہم حدیث 3644 حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں بھی بوسہ دیدیا کرتے تھے اور اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے۔ مسند احمدجلد نہم حدیث 4139اگر کوئی روزے کے حالت میں ہمبستری کر لے تو اس کے لیےفرض کفارہ ہے کہ لگاتار بنا ناغا کیے دو ماہ کے چاند کی تاریخ کے مطابق روزے رکھے اگے روزے نہیں رکھ سکتا تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔تب جا کہ بیوی دوبارہ آپ کے اوپر حلال ہو گی۔۔حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ نے دریافت کیا بات ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے روزہ کی حالت میں جماع ( یہاں جماع سے مراد مکمل ہمبستری دخول کرنا مراد ہے ) کرلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتے ہو اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کہ کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر خاموش رہے ہم اس حال میں تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں اور عرق سے مراد مکتل ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں ہوں، آپ نے فرمایا اسے لے جا اور خیرات کردے۔ اس شخص نے پوچھا کیا اس کو دوں، جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے، یا رسول اللہ ! مدینہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی ایسا گھر نہیں، جو میرے گھر والوں سے زیادہ محتاج ہو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے اگلے دانت کھل اٹھے، پھر آپ نے فرمایا اپنے گھر والوں کو کھلا۔صحیح بخاریجلد اول حدیث 1860

No comments:

Post a Comment