Saturday, 16 December 2023

اتنا خوبصورت اتفاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!"چاند ہم سے 3 لاکھ اور 84 ہزار کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے،، کوٸی بھی اسپیس گاڑی چاند تک پہنچنے کے لٸے تقریبا تین دن کا وقت لیتی ہے۔۔ ہم چاند کا صرف ایک side دیکھ سکتے ہیں۔چاند کا دوسرا side ہم نہیں دیکھ سکتے کیونکہ چاند زمین کے ساتھ ٹاٸیڈلی لاکڈ ہے اس کے علاوہ "چاند" پر باقاعدہ دن اور رات بھی ہوا کرتے ہیں۔۔۔ چاند پر ایک دن 14 زمینی دنوں کے برابر ہوتا ہے۔اسطرح چاند پر رات بھی تقریبا 14 زمینی دنوں کے برابر ہوتی ہے۔چاند کا قطر 3475 کلو میٹر ہے،جبکہ گولاٸی تقریبا 10921 کلو میٹر ہے، اس کے علاوہ سب سے اہم بات چاند سے متعلق یہ ہے کہ وہاں "گریوٹی" زمین کی نسبت بہت کم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا وزن "زمین" پر 80 کلو گرام ہے۔ اُس چیز کا وزن چاند پر تقریبا پانچ یا چھ کلو گرام کے برابر ہوگا،اس طرح زمین پر جس چیز کا وزن ہزار کلو گرام ہے، تو اُس کا وزن چاند پر 60 کلو گرام سے زیادہ نہیں ہوگا، مطلب یہ کہ ہم چاند پر 1000 کلو گرام وزنی چیز بھی بہت آسانی کے ساتھ اٹھاسکتے ہیں۔ چونکہ وہاں کشش ثقل بہت ہی کم فورس اپلائی ہورہی ہے،،،، لہٰذا وہاں آپ زمین کے حساب سے زیادہ وزنی شے بھی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ وہاں پر کوئی چیز اگر اوپر کی طرف پھینکی جاٸے،، وہ بہت دور تک جاۓ گی، کم گریوٹی فورس کی وجہ سے۔چنانچہ جو دوست کرکٹ کھیلنے کے تو شوقین ہیں،، مگر بالکل بھی چھکا نہیں لگاسکتے،، تو ان کی اطلاع کیلٸے عرض ہے کہ ایسے حضرات وہاں بڑی آسانی سے دو سو میٹر لمبا "چھکا" بھی مار سکتے ہیں۔ساٸنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاند ہر سال زمین سے تقریبا 1.5 انچ دور جا رہا ہے۔ ایک دن چاند ہم سے اتنا دور ہوگا جتنا آج کل پلوٹو ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ چاند کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چاند زمین کے سمندروں میں موجود tides پر باقاعدہ اثر انداز بھی ہوتا ہے۔۔ چاند کے بغیر اونچی مدوجزر ختم ہوجاٸیں گے،،،،،،،، اور کم مدوجزر پیدا ہوں گے۔ اس سے متعدد اقسام کے جانور جو tidal زون میں رہتے ہیں،، جیسے کہ کیکڑے، سمندری snails وغیرہ کی زندگیاں خطرے میں پڑجاٸیں گی اور سمندر کے بڑے جانوروں جو ان جانوروں پر سارا دار ومدار رکھتے ہیں، کی غذا میں زبردست خلل آجاٸے گا،،، جس کی وجہ سے پورے آبی ماحولیاتی نظام میں بگاڑ آجاٸے گا۔ایسا ہوجانے سے سمندری مخلوقات کی life cycle پر اثر پڑے گا،،،،،،،، اور ان آبی مخلوقات کے مرنے سے خشکی والے جانداروں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہونگی۔۔ یعنی زمین کا life cycle مکمل طور پر متاثر ہوجائے گا۔اسٹرولوجیسٹ کا ماننا ہے کہ ہماری زمین کا چار 4 ارب سال پہلے کسی سیارے سے ٹکراؤ ہوا تھا،جس کی وجہ سے زمین آج بھی 23.5 ڈگری جھکی ہوئی ہے اور اسی ٹکراؤ کے باعث چاند وجود میں آیا، یعنی چاند پہلے ہماری زمین کا ہی حصہ تھا ،،،،،،،اگر چاند نہ بنتا تو ہماری زمین جھکی ہوئی شاید نہ ہوتی،،،، اور اگر زمین جھکی نہ ہوتی تو زمین پہ "موسم" نہ ہوتے جسکا براہ راست اثر ہماری زندگی پر پڑتا یعنی مختلف موسموں کا آنا چاند ہی کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ ابھی زمین زیادہ تر چاند کی کشش ثقل کی وجہ سے 23.5º پر اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے۔ اگر چاند غائب ہو گیا، تو زمین کا محور 10 سے 45º تک کہیں بھی ڈگمگاتا رہے۔ناسا "اسٹرولوجیسٹ" کہتے ہیں کہ "کشش ثقل" کسی بھی سیارے کے گھومنے کی رفتار کو کم کرنے کا باعث ہے۔۔۔۔۔۔ اگر چاند نہ ہوتا تو ہماری زمین بہت تیزی سے گھومتی،، اور اس کا نتيجہ یہ نکلتا کہ دن بہت چھوٹے ہوتے،، جسکی وجہ سے زمین گرم نہ ہو پاتی اور انسان نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ انسان زیادہ ٹھنڈ برداشت نہیں کرسکتے،،، گویا ہماری بقا میں چاند کا کلیدی کردار ہے،، بعض لوگ ان کو ایک "خوبصورت" اتفاق کہتے ہیں لیکن اتفاق اتنا خوبصورت نہیں

Thursday, 14 December 2023

وراثت کی تقسیم کا قانونی طریقہ کار آسان اردو زبان میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس پوسٹ کو ذیادہ سے ذیادہ شیئر کریں۔وراثت کی تقسیم کا مکمل اور جامع قانونی طریقہ کار:(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی.(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے.(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی.جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار:(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں.(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی. (٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے گا.X(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ:(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے.(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا.(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی.(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا.(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا.(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا.(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ: (١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے. (٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے.(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا.(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا. (٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا. (3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا.(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے. (٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا.(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گ(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے.(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی.(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی.(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی.(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے. (٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا.(7): کلالہ: کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو.(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں: (١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے. (٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے.(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ اسکا جوکہ عورت کیلئے ہے.الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک الله ہر شے پر گواہ ہے. (4:33)مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)الله تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی (2/3) ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف (1/2) ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد اداۓ قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ الله کی طرف سے فریضہ ہے بیشک الله جاننے والا صاحب حکمت ہے. (4:11)اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف (1/2) حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی (1/4) حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی (1/3) میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب الله ہے اور الله جاننے والا بردبار ہے. (4:12)تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ الله تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجاۓ جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف (1/2) حصہ ہے. (اگر عورت ہلاک ہوجاۓ) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی (2/3) ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عورت کیلے ہے الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.

Wednesday, 13 December 2023

۔" فانی دنیا سے بچو " کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے دنیاوی شہوات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں خیال کرنا کہیں تمہیں دنیا داری اطاعتِ باری تعالی ، اور اتباع ِرسول سے غافل نہ کرد ے ، جس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو آخرت بھلا دینے والے گناہوں اور نافرمانیوں سے دور رہنے کا بھی کہا ۔پہلا خطبہ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے زندگی میں شرعی پابندیاں لگائی اور اسے فانی بھی بنایا، جبکہ آخرت کی زندگی اسکے بدلے میں دی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنی بندگی کرنے والوں کو مکمل بدلہ دینے کا وعدہ بھی کیا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے متقی پرہیز گار صحابہ کرام پردرود ، سلام بھیجے۔حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی دنیا آخرت میں خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ کے بندو!ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں ذاتی مفاد دینی اقدار پر غالب ہے، جہاں شخصی مفاد کو تمام اخلاقیات پر برتری حاصل ہے۔انسان پر دنیاوی محبت کا کنٹرول ہے، یہ انسان اس دنیا کی چمک دمک میں ڈوبا ہوا ہے، جسکی بنا پر لوگوں کی محبت کا معیار دنیا ہی ہے؛ دنیا ہو تو محبت ؛ نہ ہو تو دشمنی روا رکھی جاتی ہے، اسی کی بنا پر لوگوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، اسی کو پانے کیلئے مقابلہ بازی کا سما ہے، اور اسی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔مسلم اقوام!اس فانی دنیا کے پیچھےشرعی قواعد و ضوابط کے بغیر پڑ جانا دین کیلئے انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ہی مسلمانوں کیلئے سنگین بحران ہے کہ مسلمان اس فانی دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں، اور اسی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، جس کو پانے کیلئے کسی اسلامی قانون و ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔جی ہاں! مسلمانو!ایک مسلمان کیلئے یہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے کہ دنیا اسکا ہدف بن جائے، علم حاصل کرے تو صرف اسی کے لئے، کوشش کرے تو اسی کیلئے، اور اپنے وجود میں آنے کا مقصد ہی اس کو بنا لے،اللہ تعالی نے اس قسم کے لوگوں کو دھمکی دیتے ہوئے فرمایا: وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے[2] جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں [إبراهيم: 2، 3]، اسی طرح فرمایا: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔ [التغابن: 15]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خستہ حالی سے پناہ مانگی ہے، فرمایا: «اللهم لا تجعل مُصيبتَنا في ديننا، ولا تجعل الدنيا أكبر همِّنا، ولا مبلغَ علمِنا» یا اللہ دینی معاملات میں ہمارا امتحان مت لینا، یا اللہ دنیا ہمارا مقصد مت بنانا، اور نہ ہی ہمارے علم کا مقصد دنیا داری ہو۔مسلمانو!جس شخص نے دین کے مقابلے میں دنیا کی محبت کو غالب کیا، شہوت ِ نفس کو اپنے مولا کی اطاعت پرمقدم جانا، یقینا ایسا شخص شیطان کے پھندے میں پھنس چکا ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس سے دور رکھنے کیلئے فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں دھوکہ دینے پائے۔ [فاطر: 5]صحیح بخاری میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (درہم و دینار اور زرق برق لباس کا غلام تباہ و برباد ہو گیا، اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے)اللہ کے بندو!مادہ پرستی کے دور میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی کتنی ضرورت ہے!!، جہاں درہم ، و دینار کی پرستش کی جارہی ہے، جہاں کرسی، اور چودھراہٹ کا لوگوں پر کنٹرول ہے، ان تمام برائیوں نے شرعی طرزِ زندگی اور انصاف سے دور کردیا ہے۔اصلاح ِنفس کی کتنی ضرورت ہے!! خطرناک روحانی امراض کے علاج کیلئے قرآن و سنت سے راہنمائی لینا بہت ضروری ہو چکا ہے، اور علاج صِرف اور صِرف قرآن و سنت کی بیان کردہ اقدار پر عمل ، اور باری تعالی کی رضا سنتِ نبوی کے مطابق تلاش کرنے سے ہوگا۔مسلمان بھائیو!یہ آیت ذرہ غور سے سننا، اطاعت اور فرماں برادری کیلئے سننا، اللہ تعالی فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانویں سے غافل ہیں،[7] ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے [يونس: 7، 8]اب اس حدیث مبارکہ کو بھی سننا -اللہ آپ پر رحم کرے- ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، ہم دنیا داری کا ذکر کرتے ہوئے فقر و فاقہ کا اندیشہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تمہیں فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہیں دنیا چھپر پھاڑ کر دی جائے گی، اور اتنی دی جائے گی کہ تمہاری گمراہی کا سبب یہ ہی ہوگی) اور فرمایا: (اللہ کی قسم! میں تمہیں روزِ روشن کی مانند واضح شریعت پر چھوڑے جا رہا ہوں ، -جسکے - دن اور رات -واضح ہونے کے اعتبارسے- بالکل برابر ہیں)یہ عظیم حدیث ہے، دلائلِ نبوت میں سے ہے، جس میں ہماری موجودہ زبوں حالی کا درست انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے، اس حدیث میں حق سے دوری کے اسباب بیان کئے گئے ہیں، اور بتلایا گیا ہے کہ صراطِ مستقیم سے دور ہونے کا بنیادی سبب، اور فتنوں کا سب سے بڑا ذریعہ: دلوں پر دنیا کا غلبہ، اور اسکی فانی شہوات میں ڈوب جانا ہے۔اگر انسانی دل ایمانی حقائق اور اسلامی اخلاق سے عاری ہو کر اس دنیا کی لذت میں گرفتار ہوجائے؛ تو یہ انسان کو ہر بُری سے بُری عادت اور کام پر آمادہ کر دیتی ہے، ذرا غور کریں! جو شخص زکاۃ نہیں دیتا اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا مال و دولت کی حرص نہیں!؟جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا ہے؛ کیا وجہ؟ کیا فانی دنیا کی محبت نہیں!؟ جھوٹ، دھوکہ ، فراڈ، اور حسد کی کیا وجہ ہے؟ کیااس فانی دنیا کاتسلط نہیں!؟چنانچہ ان باتوں سے پتا چلتا ہےکہ ، دنیا سے محبت کرناہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، دنیا سے محبت اسلامی احکامات کی پابندی کے بغیر کرنا تمام گناہوں کا بنیادی سبب ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے جس کا تم پر زیادہ اندیشہ ہے وہ اللہ کی جانب سے تمہارے لئے نکلنے والی زمین کی برکت ہے) کہا گیا: زمین کی برکت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (دنیاوی آسائش)مسلمانو!کیا اب بھی ہم نہیں سمجھیں گے؟ کیا اب بھی ہم اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر نہیں کرینگے!؟ کہ یہ تکالیف سے گھِرا ہوا ٹھکانہ نہیں ہے!؟ جہاں برائیوں کی بھرمار ہے، اور خوف و خطر سے بھر پور ہے، کوئی عقل مند ہے !! جو اس فانی دنیا میں مشغول ہو کر ہمیشہ کی زندگی سے غافل ہوجائے!؟کیا یہ بات مُمَس نہیں کہ ہر مخلوق نے لازمی طور پر فنا ہونا ہے!؟ کبھی سوچا نہیں کہ دنیا تو بالکل سائے کی طرح ہے، ایک لمحہ کیلئے سایہ آتا ہے اور پھر اسکا زوال بھی شروع ہو جاتاہے۔ اللہ تعالی نے اسی لئے فرمایا: وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے [آل عمران: 185]اللہ کی قسم! جو بھی اللہ کے احکامات سے روگردانی کرے، اور ممنوعہ کاموں میں ڈوب جائے، یا امتِ اسلامیہ دینی منہج سے دور ہو جائے، اسکا نتیجہ بہت ہی بھیانک اور ندامت خیز ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ نے بہت دنیا جمع کی، اس دوران حلال و حرام کی بالکل تمیز نہ کی جو دل چاہتا کر گزرتا، چنانچہ جب موت کا وقت قریب آیا تو یاد کرنے لگا کہ دنیا میں کس انداز سے زندگی گزاری، اور اب آخرت میں اسکا کیا بنے گا!؟ اور کہا: کاش کہ میں بادشاہ نہ ہوتا؛ میں مزدور ہوتا، یا بکریوں کا چرواہا ہوتا۔امت مسلمہ! اپنے دین کا سودا دنیا سے مت کرنا چاہے کتنا ہی زیادہ ظاہری منافع کیوں نہ ہو، اگر اس پر کار بند ہو جاؤ گے تو ترقی، عزت، امن و سلامتی ہوگی۔جس کو دنیا نے اندھا کردیا دنیا ہی اسکے لئے پہلی ترجیح بن گئی، پھر اس کیلئے معصوم لوگوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا، عزتیں لوٹ لیں، مال و دولت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا، سن لے!!! تم نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، جبارِ اکبر کی نافرمانی کی، اپنے رب کو نگہبان مان لے، سیدھے راستے پر آجا اور اپنا انجام سوچ کر نصیحت حاصل کرلے۔جس کو دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے، جس کی بنا پر حلال و حرام میں تمیز کیلئے بغیر اسے جمع کرنے پر تُلا ہوا ہے، سن لے!!! وقت ختم ہونے سے پہلے اللہ سے ڈر جا، ایک دن اہل و عیال ، مال و متاع اور اس سر زمین کو چھوڑ جانا ہے۔سودی کاروبار کرنے والو! مسلمانوں میں سود پھیلانے والو! اللہ کا خوف دل میں بیٹھاؤ، اللہ کی ناراضگی مول مت لو، اسکی پکڑ بڑی سخت ہے۔مسلم معاشرے میں بے حیائی اور گندگی پھیلانے والےمسلمان نوجوانو! اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگ لو، اللہ کے اس فرمان کو ذہن نشین کرلو: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ [النور: 19]حیا باختہ چینلز چلانے والو! کیا ابھی تک تمہاری توبہ کا وقت نہیں آیا ، جبکہ ہر طرف سے مسلمانوں کو فتنوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، کیا تمہیں اللہ کی فوراً پکڑ سے ڈر نہیں لگتا!؟ یا آخرت میں بھیانک نتائج کا خوف نہیں ہے!؟ قیامت کے دن ندامت کا وقت نہیں ہوگا۔جبکہ اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، اور فساد پھیلایا، کہا: فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا یا [13] بلاشبہ آپ کا پروردگار توگھات میں ہے [الفجر: 13، 14]جو نفسِ امارہ کے پیچھے لگ کر؛ اپنی نوکری کو کمائی کا ذریعہ بنا کر رشوت خوری کر رہا ہے، سن لے!! ان مجرمانہ کاموں پر اللہ کی لعنت ہے، یہ بھی سن لے!! رشوت خوری رسوائی اور بدنامی کے ساتھ جہنم میں لے جانے والی ہے ۔مفادِ عامہ کے پراجیکٹس پر کام کرنے والو، سن لو!! اگر دھوکہ دہی اور کرپشن کے ذریعہ دنیا جہان کی دولت بھی اکٹھی کر لو، تمہارے حصے میں وہی آئے گا جو تم کھا ، پی لو، اور پہن لو، یہ بھی سن لو!! اللہ تعالی تمہارے خلاف موقعہ کی تلاش میں ہے، عین ممکن ہے کہ تمہیں جلد سزا دے دی جائے، اور آخرت میں تو ان کیلئے سنگین قسم کے عذاب تو ہیں ہی، جبکہ تمام مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی تو بہت ہی بڑا اور سنگین جرم ہے، جیسے کہ قرآن و سنت کے بہت سے دلائل اس بارے میں موجود ہیں، کچھ لوگ اسکو معمولی سمجھتے ہیں؛ کہ میرے اوپر تو کوئی نگران نہیں ہے میں جیسے چاہوں کروں ، ایسا شخص مخلوق کی نگرانی کو اہمیت دیتے ہوئے، خالق کو بھول جاتا ہے، کہ وہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔مسلمانوں کے قومی خزانے کولوٹنے والو!!آخرت کو بھی یاد کرو، سن لو!! اس فانی دنیا کو ایک دن چھوڑ جانا ہے، ہمیشہ کی زندگی کیلئے یہاں سے جانا ہے، ذرا سوچو!! الملک الجبار کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ذہن میں لاؤ، جب تم سے قبر میں سوالات کئے جائیں گے، ذرا تصور کرو!! جب اگلی پچھلی تمام نسلیں قیامت کے دن تیرے خلاف دعویدار ہونگی، کیا کرو گے اس وقت؟؟ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسم کا کوئی بھی حصہ حرام کمائی سے پرورش پائے تووہ آگ کا زیادہ حقدار ہے، جو لوگ اللہ کے مال کو ناحق کھاتے ہیں قیامت کے دن ان کیلئے آگ ہی ہوگی)سرکاری ملازمت کے گھمنڈ میں آکر ظلم کرنے والو! اپنی کرسی محفوظ بنانے کیلئے ظلم کرنے والو! اپنے مخالف کو سزائیں دینے والو! اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنے منصب کی بنا پر فائدہ پہنچانے والو!سن لو!!! یہ منصب عارضی ہے باقی نہیں رہتا کسی نے اسی کے بارے میں کہا:"إن الوظائف لا تدوم لواحد إن كنت تنكر ذا, فأين الأول؟"یہ مناصب کسی ایک کے پاس نہیں رہتے میری بات پر یقین نہیں تو بتاؤ تم سے پہلے جو اس منصب پر تھا وہ کہاں گیا؟وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، عہدوں پر براجمان لوگو! خیانت مت کرنا، امانت کی مکمل پاسداری کرنا، قومی ملازمتیں مسلمانوں کے مفادِ عامہ کیلئے بنائی جاتی ہیں، تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، خیال کرنا کہیں کسی کو دوسرے پر ترجیح مت دینا، یا اپنے مقام اور منصب کو ذاتی مفاد یا اقرباء پروری میں استعمال نہ کرنا۔نہایت امانت داری سے اپنی ذمہ داری نبھانا، کسی بھی کام یا قرار دادکو عادلانہ انداز میں پاس کرنا، یاد رکھنا!! باضابطہ طور پر تمہاری نگرانی اگرچہ کمزور انداز سے کی جائے ، لیکن اللہ تعالی کو تمہاری آنکھوں سے ہونے والی خیانت کے ساتھ ساتھ دلوں میں چھپی باتوں کا بھی علم ہے۔ بدترین شخص وہ ہے جو کسی کی دنیا بناتے ہوئے اپنا دین برباد کر دے، اور اللہ کے ہاں وہی تباہ و برباد ہو گا جو خو د اپنے آپ کو ہلاک کرے،فرمانِ نبوی -صلی اللہ علیہ وسلم-ہے: (سبھی لوگ صبح کو نکلتے ہیں ؛ کچھ اپنے آپ کو بیچ ڈالنے کے بعد آزاد کروا لیتے ہیں اور کچھ ہلاک کر دیتے ہیں) مسلماسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔دوسرا خطبہاحسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، ان پر درود و سلام ہوں ۔حمد و صلاۃ کے بعد!اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو یہ ہی اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو وصیت کی ہے۔مسلمانو!ابدی کامیابی کا معیار : دینی احکامات کی پاسداری ، اور شرعی قواعد و ضوابط اور سنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ہے، جو شخص بھی اس راستے سے ہٹ گیا ؛ اسکے لئے قیامت کے دن عذاب ہی ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے: فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى سو جس نے سرکشی کی[37] اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی[38] تو جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہوگا[39] لیکن جو اپنے پروردگار کے حضور (جوابدہی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے آپ کو خواہش نفس سے روکے رکھا[40] تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگا [النازعات: 37- 41]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ پر ، اورتمام صحابہ کرام پر ۔(دعا)یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا للہ تمام مسلمانوں کی تکالیف کو دور فرما۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ اکرم المکرمین! ان علاقوں کو امن وسلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما، یا اللہ ! ہمارا ہدف دنیا نہ بنا، یا اللہ ہمارے علم کامقصد دنیا نہ ہو، یا اللہ دینداری میں ہماری آزمائش مت کرنا۔یا اللہ ! ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! انکے لئے امن و امان قائم فرما۔یا اللہ! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما۔یا اللہ! ہمارے خادم الحرمین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اُنکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے۔یا اللہ ہمارے ملک اور تمام مسلمانوں کے علاقوں کو امن و سلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ !ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ !ہمیں پانی پلا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہمیں پانی پلا۔اللہ کے بندو!اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔

Monday, 11 December 2023

آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔سپرمز مرد کی منی میں پائے جانے والے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں جو مباشرت کے دوران عورت کی اندام نہانی میں داخل ہو کر افزائشِ نسل کا باعث بنتے ہیں۔ ایک دفعہ کی اخراجِ منی میں کروڑوں کی تعداد میں سپرمز پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک یا دو ہی عورت کی بچہ دانی میں داخل ہو پاتے ہیں۔ افزائشِ نسل کے ساتھ ساتھ سپرمز کے اور بھی کئی کام ہیں۔ آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔1- خوراک اور سپرمزآپ جو خوراک کھاتے ہیں اس کا آپ کے سپرمز سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اچھی اور متوازن غذا صحت مند سپرمز بناتی ہے، اور باقص اور نقصان دہ غذائیں جیسا کہ چیز، الکوحل، چکنائی اور سگریٹ وغیرہ کمزور اور بیمار سپرمز پیدا کرتی ہیں۔2- موٹاپا اور سپرمزموٹاپا آپ کے سپرمز کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ موٹے ہیں اور آپ کے جسم پہ ضرورت سے زائد چربی ہے تو آپ کے سپرمز کی تعداد کم اور ان کی صحت خراب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا اپنا وزن کم کریں اور اپنا بی-ایم-آئی 25 سے بڑھنے نہ دیں۔3- سپرمز کی زندگیمباشرت کے بعد عورت کی اندام نہانی میں جانے والے سپرمز 5 دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس دوران اگر عورت کی بچہ دانی سے نکلنے والا انڈہ ان سپرمز سے مل جائے تو عورت حاملہ ہو جاتی ہے، ورنہ اس کے بعد سپرمز مر جاتے ہیں اور اندام نہانی سے خارج ہو جاتے ہیں۔4- سپرمز کی تعدادایک دفعہ کی اخراجِ منی میں تقریبا 20 کروڑ سپرمز ہوتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف دوربین سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سپرمز کی تعداد مختلف مردوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ اس میں عمر اور خوارک کا بڑا کردار ہے۔5- سپرمز کی جنسسپرمز کی بھی جنس ہوتی ہے۔ سپرمز دو اجناس کے ہوتے ہیں، ایکس اور وائے۔ عورت کے اندر صرف ایکس سپرمز پائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں ایکس اور وائے دونوں ہوتے ہیں۔ ایک مرد کا ایکس عورت کے اندر جائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے اور اگر وائے جائے تو لڑکا۔جس سے یہ بات میڈیکلی بھی پروف ہوتی ہے کہ لڑکی یا لڑکا پیدا ہونے کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے۔

جنات کا خوفقرآن کریم میں ایک پوری سورت ”سورہ جن“ جنات کے متعلق انفارمیشن کے لئے موجود ہے، جس کو پڑھنا، سمجھنا و سمجھانا ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔ دوسرا اسی قرآن کے فرمان میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت جنوں پر تھی اور جنوں سے ہی انہوں نے عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں جیسا کہ صحیح بخاری 3423 Q میں بھی ذکر ہے۔جن کا لغوی معنی "چھپی ہوئی مخلوق"۔ اسلامی عقیدے کے مطابق جن کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔سورہ الذاریات 56: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔الانعام 130: اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے۔الاعراف 27: بے شک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔الرحمن 14 - 15: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔صَلْصَالٍ‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ”ٹھیکری“ کہتے ہیں۔ مَّارِجٍ سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے آدم کو ابوالآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ”مارج“ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔“ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر)الحجر 26 - 27: اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔ اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔الحجر 65: اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا۔الرحمن 15: اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔جنوں کی طاقت: ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل 39 - 40)صحیح مسلم 2294: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے۔صحیح مسلم 2814: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔صحیح بخاری 3431: ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔“ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔مختلف شکلیں: بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہو گا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (ابی داؤد: 5256) (ابی داؤد: 5257)صحیح بخاری 3316: پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔جنوں کی خوراک: علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا: ”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے“، پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: ”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں“۔(سنن ترمذی کتاب: تفسیر قرآن کریم باب 46: سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔)صحیح بخاری 3860: سیدنا ابوہریرہ نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا، تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ ﷺ کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے لیے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لیے ہے ۔جنوں کے جانور: ‏‏‏‏ عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا لیلۃ الجن کو سیدنا ابن مسعود، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (یعنی جس رات آپ ﷺ نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا: نہیں لیکن ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ گم ہو گئے۔ ہم نے آپ ﷺ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت بُرے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ ﷺ حرا (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے بیچ میں ہے) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! رات کو آپ ہم کو نہ ملے۔ ہم نے تلاش کیا جب بھی نہ پایا۔ آخر ہم نے بُرے طور سے رات کاٹی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جنوں کی طرف سے ایک ہلانے والا آیا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔“ پھر ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے، جنوں نے آپ ﷺ سے توشہ چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ (مسلم 1007)جنات کے رہنے کی جگہیں: اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ اسی لیے نبی ﷺ نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں۔صحیح بخاری 142: نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے”اللهم اٍني اعوذ بک من الخبث والخبائث‎" ترجمہ: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ابو داود 29: رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔ترمذی 606: جب انسان بیت الخلا جاتا ہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا۔سورہ الانعام رَبَّنَا اسْتَمْعَعَ بَعضُنَا بِبَعْضِ’’جن کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جنوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر جن کو کنٹرول میں کرنے کا ذکر نہیں ہے۔حدیث کی روشنی میں ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو تو انسان جنات پر قابو پا سکتا ہے۔صحیح بخاری 3423: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔جنات سے تکالیف: انسانوں کو جنوں اور شیاطین جو کہ جنات کی ہی ایک قسم ہیں کا اذیت پہنچانا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الناس میں خود ہمیں جنات سے پناہ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنات بیرونی سازشیں کر کے ہی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں یا اندرانی طور پر بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل ہے:سورہ بقرہ 275: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔امام قرطبی فرماتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے، نہ لگ سکتاہے۔ (تفسیر قرطبی 3/255)صحیح مسلم 7108: تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔"ابن ماجہ 3548: سیدنا عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔ابو داود 3592: سیدنا معاذ بن جبل کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے“۔نسائی 5535: ابوالاسود سلمی (ابوالیسر) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الهدم وأعوذ بك من التردي وأعوذ بك من الغرق والحريق وأعوذ بك أن يتخبطني الشيطان عند الموت وأعوذ بك أن أموت في سبيلك مدبرا وأعوذ بك أن أموت لديغا‏» ”اے اللہ! میں (دیوار کے نیچے) دب جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اونچائی سے گر پڑنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ڈوب جانے اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان موت کے وقت مجھے بہکا دے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت تیرے راستہ میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے آئے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈس لینے سے میری موت ہو“۔صحیح مسلم 7491:‏‏‏‏ جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“ (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔جنات و جادو کا علاجصحیح بخاری 5737: چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔صحیح بخاری 5763: نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادو کیا۔ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریم ﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا۔2۔ ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ " تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ (مسند احمد 15035)صحیح بخاری 5445 نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا۔صحیح بخاری 2311: سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔اس کے علاوہ یہی حدیث اس بات پر دلالت بھی کرتی ہے جن و شیاطین انسانی شکل میں ظاہر ہونے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل حدیث جادو کا توڑ اور علاج کرنے پر دلالت کرتی ہے۔صحیح بخاری 5765: قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔آخری بات: بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ (النخل 99 - 100)سب سے سخت ترین جادو تھا جو نبی کریم ﷺ پر کیا گیا۔ کالے جادو کی خطرناک ترین قسم ، اس کو بارہ گرہی جادو کہتے ہیں۔ اس نے گیارہ یا بارہ گرہیں لگائی ہوئی تھیں جادو کرکرکے۔ تو یہی دو سورتیں نبی کریم ﷺ نے پڑھیں اور جادو کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ جادو ختم ہوگیا۔ جس پر جادو ہوجائے وہ سورۃ بقرہ کی گھر میں تلاوت کرے۔ روزانہ ایک مرتبہ پوری سورہ بقرہ پڑھے۔ گھر میں سے ہر قسم کی جاندار کی تصویر کو ختم کردے۔ میوزک کی آواز نہ آئے گھر میں، گانے بجانے کی۔ گھر میں نمازوں کا اہتمام ہو، خواتین پردہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار ہوجائیں۔ اور جو طریقہ کار نبی کریم ﷺ نے دیا ہے وہ اپنا لیں۔ جادو ختم ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے وقت تھوڑا سا طویل ہوجائے۔ مہینہ، دو مہینے، چھ مہینے ، سال تک چلتا رہے۔ ممکن ہے لیکن جوایک بہت بڑا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا لیکن یہ آزمائش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے۔

Tuesday, 19 September 2023

اگر آپکو قانون کا پتہ ھے تو کوئی آپکو بلیک میل نہیں کر سکتااور اپنا حق اور انصاف لے سکتے ھیں کون سے جرم پر کون سا دفعہ لگتا ھے ملاحظ فرمائیں۔ *دفعہ 295-A* کسی مذہب کی توھین کرنا*دفعہ 295-B* قرآن پاک کی غلط تشریح کرنا*دفعہ 295-C* توھین رسالت *دفعہ 298-A* توھین صحابہ*دفعہ324* = قتل کی کوشش کی *دفعہ 302* = قتل کی سزا *دفعہ 376* = عصمت دری *دفعہ 395* = ڈکیتی *دفعہ 377* = غیر فطری حرکتیں *دفعہ 396* = ڈکیتی کے دوران قتل *دفعہ 120* = سازش *سیکشن 365* = اغوا *دفعہ 201* = ثبوت کا خاتمہ *دفعہ 34* = ارادہ نیت *دفعہ 412* = چوری کی چیز جرم کے ذریعے لینا *دفعہ 378* = چوری *دفعہ 141* = غیر قانونی جمع *دفعہ 191* = غلط ھدف بندی *دفعہ 300* = قتل *دفعہ325* = خودکش کوشش *دفعہ 420* = دھوکہ دہی *دفعہ 303* = اسقاط حمل *دفعہ 351* = حملہ کرنا *دفعہ 354* = خواتین کی شرمندگی *دفعہ 362* = اغوا*دفعہ 320* = بغیر لائسنس یا جعلی لائیسنس کے ساتھ ایکسڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا(ناقابلِ ضمانت)*دفعہ322* = ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا (قابلِ ضمانت) *دفعہ 415* = چال *دفعہ 445* = گھریلو امتیاز *دفعہ 494* = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا *دفعہ 499* = ہتک عزت *دفعہ 511* = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔ 4 ہمارے ملک میں، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔ تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں پانچ دلچسپ حقائق آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں، جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ *(1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا* - ضابطہ فوجداری کے تحت، دفعہ 46، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل، پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ (2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔(3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں - سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔ (4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا پی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو، اسے کم سے کم (6)ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ یہ دلچسپ حقائق ہیں، جو ہمارے ملک کے قانون کے تحت آتے ہیں، لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔ یہ پیغام اپنے پاس رکھیں، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

Sunday, 3 September 2023

جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، وہ آگ سے پیدا کیے گئے ، ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں ‏جو (electromagnetic spectrum) بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔ میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔ اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-visionجیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔ سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔ امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔ درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہیے۔ اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہ۔ اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی بیس ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے اور یہی وہ فریکوئینسی ہےجس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہےجس میں سو ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔ اس بات کے بعد سو سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔ پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ، صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔ ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ اگر آپ دوسری ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔تیسری ڈائیمینشن میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سےچوتھی ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ پانچویں ڈائیمینشن میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔چھٹی ڈائیمینشن میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔ساتویں ڈائیمینشن آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔آٹھویں ڈائیمینشن آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔نویں ڈائیمینشن ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں۔ اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہےجس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ، یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔ یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ، یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔ ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ،لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر میرے دل کو چھوا وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔الحمد للہ رب العالمین ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔۔

Tuesday, 22 August 2023

پشتون اپنے اوپر ظلم اور جبر کا زمہ دار خودتحریر: شہناز گُلدی بلوچستان پوسٹپاکستان کو بنگالیوں نے بنایا، 1905 کو بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام ہوا جو انگریز سرکار نے صرف ہندوستان کی قوم پرست جماعت کانگریس کے خلاف استمعال کرنا تھا تاکہ انگریزوں اپنے فارمولا ڈیوائیڈ اینڈ رول کے سہارے ہندوستان میں حکمرانی کر سکے۔ انگریزوں نے صرف کانگریسی لیڈروں اور ورکروں کو جیل میں سزائیں اور پھانسیاں دی ہیں جو ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ نکوبار آئیلنڈ میں سیلولر جیل(کالا پانی) میں قیدی صرف کانگریسی رہنما اور ورکر تھے نہ کہ مسلم لیگی۔ کیا انگریزوں نے کوئی پنجابی مسلمان کو پھانسی دی ہے کہ تم کیوں پاکستان کی مانگ رہے ہو؟ جی نہیں! کیا کوئی بلوچ اور سندھی کو پھانسی دی کہ کیوں ہندوستان کی آزادی یا پاکستان مانگ رہے ہو؟ جی نہیں۔ہم پشتون قوم پرست تو شروع ہی سے پاکستان کے بننے کے خلاف تھے، ہمارا اپنا آزاد پشتونستان کی سر زمین تھی جو افغانستان کا حصہ تھا۔ ہم اپنے وطن لوی افغانستان کے تھے، پشاور سے اٹک تک لوی افغانستان تھا انگریز سر ڈورینڈ نے ہمیں تقسیم کیا۔ ہمارا تو ایک آزاد وطن تھا تو ہمیں کیوں پاکستان چایے تھا؟ اور کیوں ہندوستان کی تقسیم چایتے جہاں وہیں کے مسلمانوں نے پہلے گیارہ سو سال بادشاہی جو کی تھی؟بلوچستان کو تو بعد میں 1948 میں زبردستی قبضہ کرکے شامل کیا گیا۔ آدھا پنجاب بھی ہندوستان میں رہ گیا۔ مطلب کہ آج کے پاکستان میں نہ بلوچ اور پشتون پاکستان کے بنانے میں شامل تھے اور نہ ہی سندھی اور پنجابی! بس انگریزوں نے کُچھ بُزدل لوگوں کے لئے پاکستان بنایا جو بعد میں بھاگ کر ادھر کراچی میں آئے اور بولتے ہیں کہ ہم نے قربانی دی، قربانی تو آزادی سے پہلے دی جاتی ہے۔ جب انگریزوں نے اپنے فائدے کیلئے پاکستان بنایا تو بعد میں بھاگنے کا نام کیسے قربانی؟اگر تاریخ کو پڑھا جائے تو پتا چلے گا کہ پاکستان کو بنگالیوں نے بنایا اور انہی بنگالیوں نے دیکھا کہ ہمارا ہی بنایا گیا مُلک ہمارے عورتوں کا ریپ، بچوں، طالب علموں اور رہنماوں کا قتل عام اور شہریں تباہ کر رہاہے تو بنگالیوں نے یک سال کے اندر اندر دل سے پاکستان کی محبت پھنک کر نفرت کو پالا اور اسی مُلک کو توڑ دیا۔ جب قوموں کو مشکل وقت آ جاتا ہے تو طالب علم، پروفیسر اور انقلابی لیڈر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، شھادت اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرتے بلکہ ان کو نفرت میں بدل دیتے ہیں اور اپنی قوم کو یک نظریہ اور سوچ کے مطابق آزادی کی منزل دیتے ہیں۔ تو بنگالی شیخ مجیب الرحمان جو ایک انتہائی پاکستان پرست تھا انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بنگالی قوم کو 1971 میں بنگلہ دیش کا تُخفہ دیا۔ مطلب وہی کیا جو ایک انقلابی لیڈر کرتا ہے۔یاد رہے اس وقت بھی بنگالی قوم میں جماعت اسلامی کے الشمس، البدر اور رضاکار جیسے غدار لوگ تھے جو اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو شھیدکر رہے تھے پر اُن گُل خانوں کو شکست ہوئی جو بعد میں انقلابیوں نے چُن چُن کر مارا۔اسی طرع 1947 والا انگریزوں کا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا اور دو قومی نظریہ گیا بھاڑ میں۔ اس پاکستان کی وجہ سے برصیغر کے مسلمان تقسم اور کمزور پڑ گئے۔ آج پاکستان کی اکونومی 210 بلین ڈالر ہے تو بنگلہ دیش کی 324 بلین۔ پاکستان کے فارن ریزرو 4 بلین ڈالر تو بنگلادیش کے فارن ریزرو 60 بلین ڈالر ہیں۔ پاکستان کی جی ڈی پی پر کیپیٹا 990 ہے تو بنگلہ دیش کا 2300 جی ڈی پی پر کپیٹا ہے مطلب آج بنگالی پاکستانیوں سے تین گُناہ خوشحال ہیں۔1973 میں جب بلوچ اور پشتون اپنے وطن کی آزادی کیلئے پنجابی کے خلاف لڑنے لگے تو مذہب کو استمعال کرکے پشتونوں کو گمراہ کیا گیا بعد میں 1980 کی دھائی میں جہاد کے نعرے لگے جس سے صرف ڈورائینڈ لائین کے دونوں طرف پشتون قوم تباہ ہوئی۔ چالیس سال سے پشتونوں کا قتل عام اور بربادی ہو رہی ہے اور جس بدنام جہاد کیلئے جو ڈالر اور سعودی ریال آئے وہ سارے پنجابی جنرل کھاگئے اور تباہی اور مرنے والے صرف پشتون۔ قدوس بزنجو اور بُہت سارے علاقائی سردار ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے بلوچوں کو گمراھی میں لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہاں خیر بخش مری، نواب بُگٹی، اللہ نظر، اسلم بلوچ، میر بنگُلزئی، بشیر زیب اور کافی نوجوان لیڈر ہیں جن لوگوں نے بلوچ قوم کو آزاد بلوچستان کی راہ دی ہے۔بلوچستان کے لوگ اپنے شھادت اور قربانیوں کو آزادی کی کِرن سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہاں پاکستان پشتون فوجیوں کو بلوچ آزادی پسند سرمچاروں کے خلاف استمعال کرتا ہے۔ اس پر ہمیں بے حد دُکھ ہے۔ دوسری طرف ہمارے محمود اچکزی، محسن داوڑ، ایمل ولی اور مذہبی پشتون لیڈر مُنافق اور بُزدل ہیں جو آزاد پشتونستان کی بات نہیں کرتے بس قوم کو مزید تباھی کی طرف لے جارہے ہیں۔

بلوچستان کے ایک پشتون مجاہد پالے شاہ خوستی کے سوا بلوچستان کے تقریباً تمام پشتون مشران انگریز کے وفادار رہے ماسوائے چند ایک کہ جن میں قابل ذکر نام عبدالصمد خان اچکزئی، ملک عبدالعلی کاکڑ اور ان کے چند رفقا کا تھا جو ایک آزادی پسند سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ تھے اور ماسوائے کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار میں آباد بازئی نوجوان انگریز راج کے ِخلاف چند کاروائیوں کے بعد زیر حراست آگئے اور کچھ شہید ہوگئے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچ اکثریتی بیلٹ میں خونریز مزاحمت اپنے عروج پر رہی بلوچستان کے تخت نشین والئیے ریاستِ قلات خان محراب خان انگریز فوج کو للکارنے والے اور 400 ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرنے والے پہلے بلوچ قبائلی رہنما تھے۔ پورے کالونیل دور میں انگریز کو بلوچستان کے بلوچ قبائلی علاقے میں چھاپہ مار کاروائیوں سے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ باجوڑ سے ٹرانسفر ہونے والا برطانوی جنرل ڈیوس جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور تھا کوہلو میں بلوچ آزادی پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کے نتیجے میں قلات، کوہلو بارکھان اور وڈھ میں برطانوی راج کی جانب سے بلوچ حریت پسندوں کے خلاف بڑے حملے کئیے گئے۔ ان حملوں میں میروانی اور ساسولی قبیلے کے نامور بلوچ سردار بھی شہید ہوئے اور خان آف قلات کے قریبی عزیز میر شکر خان بھی داد شجاعت وصول کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ قلات آپریشن کے بعد رابرٹ سنڈیمن نے باوجہِ خوف کوئٹہ سے بھاگ کر پشین جانے کو ترجیح دی اور وہیں سکونت اختیار کی۔ فرنگی خود کو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ مری کے علاقے میں حق نواز مری اور شاہ نواز مری جو حقو اور شاہو کے نام سے مشہور تھے انہوں نے برٹش انڈین آرمی کا جینا حرام کر رکھا تھا اور بارکھان میں فقیر کالے خان بجرانی مری نے انگریز کے پاوں جمنے نہیں دئیے، کالے خان کی سر کی قیمت تاجِ برطانیہ کی طرف سے تمام برضغیر کے مطلوب ترین باغیوں میں سب زیادہ مقرر کی گئی تھی۔ نورا مینگل اور میر شہباز گرگناڑی نے جھالاوان کے قبائلی علاقے میں گوریلا کمانڈ سنبھال رکھی تھی جبکہ گوریلا قائد شاہداد بنگلزئی "دینار زئی" اور ولی محمد شاہوانی "سوری زئی" جیسے کئی ایک حریت پسندوں نے سراوان کے قبائلی علاقے اور چلتن کے پہاڑی سلسلے سے لے کر کوئٹہ شہر کے گردونواح میں برطانوی فوج کا جینا محال کر رکھا تھا جبکہ خاران میں چھاپہ مار سجاول محمد حسنی انگریز کے دانت کھٹے کر رہا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے دشت و جبل میں فرنگی کے خلاف میدانِ رزم کی گرم بازاریاں کم و بیش یا زیادہ تر غیور بلوچ قبائل کے حصے میں ہی آئیں۔ درگئی اور شمالی وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ مزاحمت اور حزیمت کا سامنا برطانوی راج کو بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کرنا پڑا۔*کلیم امام کی کتاب ”بلوچستان ماضی حال اور متقبل“ سے اقتباس*

Saturday, 24 June 2023

Titanic. ٹائٹینک اور ٹائٹن آبدوز!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن 2009 میں امریکہ کے ایک ائیروسپیس انجنیئر سٹاکٹن رش(پہلی تصویرمیں) نے اوشین گیٹ (OceanGate Expedition) نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جسکا مقصد گہرے سمندروں میں 4 سے 6 کلومیٹر کی گہرائی کی آبدوزیں بنانا تھا جو ملٹری، تحقیق اور تفریح(ایڈونچر ٹورزم) کے لیے استعمال ہوسکتی ہوں۔ اس کمپنی کا ایک مقصد دنیا کے امیر ترین افراد کو گہرے سمندروں میں آبدوز کے ذریعے سیاحت پر لے جانا بھی تھا۔2009 سے اب تک اس کمپنی کی تین آبدوزیں 200 سے زائد مرتبہ گہرے سمندروں میں مختلف مقاصد کے لیے گئیں اور بحفاظت واپس لوٹیں۔ اس حوالے سے ایک اہم آبدوز جسکا چرچہ آجکل دنیا بھر میں ہو رہا ہے وہ ٹائٹن تھی جسے کمپنی کے مطابق زیرِ سمندر 4 کلومیٹر کی گہرائی تک جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ بُرج خلیفہ جو اس وقت دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے ایک کلومیٹر سے بھی کم اونچی ہے جبکہ نانگا پربت کے بیس کیمپ کی اونچائی سطح سمندر سے تقریبا 4 کلومیٹر (3850 میٹر) اوپر ہے۔ مگر سمندر کی اتنی گہرائی میں کون سیاحت کے کیے جائے گا اور وہاں کیا ہو گا؟ اسکا جواب ہے ٹائٹینک۔ جی ہاں وہی ٹائیٹنک جس پر مشہورِ زمانہ فلم بنی جسکی شہرت کی وجہ اس میں موجود ایک سین ہے جس میں لیونارڈر ڈی کیپری اور کیٹ ونسلٹ ٹائیٹینک کے عشرے پر ایک دوسرے سے جڑے سمندر کو بانہیں کھول کر دیکھ رہے ہیں. (آپ جس سین کا سوچ رہے تھے وہ بھی مشہور ہے)۔ ویسے بتاتا چلوں کہ اس فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون فلم کی تیاری کے سلسلے میں 33 مرتبہ سمندر سے نیچے جا کر اسکا ملبہ دیکھ بکے ہیں۔ٹائٹینک اپنے زمانے کا سب سے بڑا جہاز تھا اور یہ 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر پر سمندر میں تودے کے ٹکرانے سے ڈوب گیا۔ اس جہاز کا ملبہ کینیڈا کے علاقے نیوفاؤنڈ لینڈ کے ساحلوں سے 700 کلومیٹر دور آج بھی بین الاقوامی سمندروں میں غرق ہے۔ اس ملبے کو 1985 میں دریافت کیا گیا۔ یہ ملبہ سمندر میں تقریباً 4 کلومیٹر نیچے موجود ہے۔ اسی ملبے کو امیر سیاحوں کو دکھانے کے لیے اوشنگیٹ ایک آبدوز استعمال کرتی رہی جسکا نام ٹائٹن تھا۔ یہ آبدوز 2021 میں پہلی مرتبہ ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچی۔اس ٹرپ پر ایک آدمی کا ٹکٹ 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر تھا۔ ایک ڈالر آج کل 288 روپے پر پھر رہا یے۔ خیر دوسری مرتبہ یہ 2022 میں ٹائٹینک کے ملبے تک سیاحوں کو بحفاظت لے کر گئی۔ اور اب تیسری مرتبہ 18 جون بروز اتوار کو یہ پانچ سیاحوں کو سمندر میں غرق ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے لے جا رہی تھی کہ اسکا رابطہ سمندر کی سطح پر موجود اپنی معاون کشتیوں سے، سفر کے آغاز کے1 گھنٹہ اور 45 منٹ بعد منقطع ہو گیا۔ جسکے بعد پوری دنیا میں اسکی خبر پھیل گئی اور اسکی تلاش کے لیے کوششیں ہوںے لگیں ۔یاد رہے کہ اس آبدوز پر 96 گھنٹے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن موجود تھی لہذا یہ اُنہد تھی کہ اگر اس آبدوز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا اور اسکا محض رابطہ منقطع ہوا ہے تو اسے بچایا جا سکتا ہے۔ ٹائٹن ہر پہلی مرتبہ جانے والے ایک جرمن سیاح آرتھر لئوبل کہتے ہیں کہ یہ آبدوز مکمل طور پر محفوظ نہیں تھی۔ اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک ہزار میٹر کے بعد آبدوز کے بیٹری سسٹم (آبدوز بجلی سے چلتی تھی) میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تاہم بالاخر یہ آبدوز ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور انہوں نے وہاں تین گھنٹے اسکی واحد کھڑکی اور اس پر موجود کیمروں کی مدد سے ملبہ دیکھا اور پھر بحفاظت لوٹے۔ البتہ وہ یہ یاد کرتے ہیں کہ آبدوز میں درجہ حرارت کم و بیش 4 ڈگری سینٹی گریڈ تھا ،یہ چھوٹی سی آبدوز تھی جس میں چار سے پانچ افراد ایک دوسرے سے جڑ کر ہی بیٹھ سکتے تھے۔ ٹائٹن دراصل ایک مکمل آبدوز نہیں تھی بلکہ آبدوز جیسی تھی جسکے Submersible کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ محض چند گھنٹے تک سمندر کے نیچے رہ سکتی یے جبکہ ایک مکمل آبدوز کئی ماہ تک سمندر میں رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔گزشتہ ہفتے یعنی 18 جون 2023 کو ٹائٹن میں پانچ افراد سوار ہوئے جن میں اس آبدوز می کمپنی اوشین گیٹ کا مالک سٹاکٹن رش، برطانوی کاروباری شخصیت ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی پروفیشنل غوطہ خور پال ہنری اور پاکستان کے کمپنی اینگرو کے وائس پریزیڈنٹ شہزادہ داؤد اور اُنکے جواں سال بیٹے شامل تھے۔ٹائٹن نے تقریباً 4 کلومیٹر سمندر سے نیچے جانا تھا جہاں ٹائیٹینک کا ملبہ پڑا تھا۔اس تک پہنچنے میں اسے 2 گھنٹے اور 45 منٹ لگنے تھے۔ جسکے بعد اس نے تین سے چار گھنٹے تک ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنا تھا۔ اور پھر واپسی کا سفر کرنا تھا۔ اس پورے سفر کا کل دورانیہ کم و بیش دس سے گیارہ گھنٹے تک کا تھا۔ زمین کی سطح پر انسانوں پر کرہ ہوائی یعنی زمین کی فضا میں موجود گیسیوں کا دباؤ ہوتا ہے جو ہر وقت ہم پر رہتا ہے۔ یہ 1atm یعنی ایک ایٹموسفیرک پریشر کہلاتا ہے۔لیکن چونکہ انسان زمین پر ہی رہتے ہیں اور انکا ارتقاء زمین پر ہی ہوا ہے لہذا ہم اس دباؤ کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کوئی نارمل ہے۔ لیکن اگر آپ زمین کی سطح سے اوپر ہوا میں اڑیں تو یہ دباؤ کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ اوپر کی فضا کثیف ہے سو کم ہوا کے باعث آپ پر کم دباؤ پڑتا ہے۔ اور اگر آپ خلا میں نکل جائیں تو یہ دباؤ مکمل ختم ہو جائے گا۔تاہم اس سے اُلٹ اگر اپ سمندر میں جائیں تو دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ سمندر کا پانی فضا میں موجود گیسوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ لہذا سمندر میں ہر 10 میٹر کی گہرائی کے بعد آپکے جسم پر دباؤ 1 atm مزہد بڑھتا رہتا ہے۔سو اگر اپ سمندر میں محض 10 میٹر نیچے جائیں تو آ پر دباؤ یا پریشر 2 atm ہو جائے گا۔ یہ کم۔و بیش کھانا بناناے کے لہے استعمال ہونے والے کوکر کے اندر کا پریشر ہے۔اگر آپ نے کبھی پریشر کوکر کو پھٹتا دیکھا ہو تو آپکو اندازہ ہو گا کہ یہ کس قدر زیادہ پریشر ہوتا ہے۔ سو اگر اپ سمندر میں 4 کلومیٹر نیچے جائیں تو آپ پر دباؤ زمین پر دباؤ کے مقابلے میں تقریباً 400 گنا زیادہ ہو گا۔ یا پریشر کوکر کے دباؤ سے 200 گنا زیادہ۔ٹائٹن آبدوز کو ٹائٹنیم دھات اور کاربن فائیبر سے بنایاگیا تھا جو اتنا دباؤ برداشت کر سکتی تھی بشرطیکہ یہ مکمل طور پر سیل ہو اور اس میں کوئی فریکچر نہ ہو اور نہ ہی اسکی باڈی کہیں سے کمزور ہو۔ اگر ایسا ہو تو ایسی صورت میں نیچے جاتے ہوئے پانی کا دباؤ بڑھنے کے باعث اسکے کسی کمزور حصے پر پڑے گا اس مکمل طور پر پچکادے گا۔اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ پانچ روز تک اس آبدوز کو گہرے سمندروں میں کشتیوں اور روبوٹس اور سمندری ڈرونز کی مدد سے تلاش کیا جاتا رہا۔اور کل اسکے ملبے کا کچھ حصہ ٹائٹنک جہاز کے ملبے سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ملا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس آبدوز میں ممکنہ طور پر لیک یا فریکچر آیا جسکے باعث اس پر پانی کا دباؤ پڑا اور یہ باہر سے پڑنے والے اس شدید دباؤ سے چند ملی سیکنڈز میں ہی پچک گئی۔ یہ اتنا قلیل وقت ہے کہ اس میں آبدوز میں موجود انسانوں کا دماغ موت کو محسوس ہی نہ کر سکا ہو گا اور دیکھتے ہی دیکھتے انکا مکمل جسم پچک کر پاش پاش ہو گیا ہو گا۔اس آبدوز کے تلاش میں امریکہ، کینیڈا اور فرانس تینوں ممالک کی بحریہ اور سیکیو ٹیمیں شامل تھیں۔ اور پانچ روز تک اسکی تلاش پر تقریباً 65 لاکھ ڈالر سے زائد کا خرچ آیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں اور بحری سفر میں حفاظت کے لیے قائم ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کمرشل آبدوزوں کو محفوظ بنانے کے لیے مکمل ضابطہ کار، قوانین اور سرٹیفیکیشن وضع کی جائے تاکہ آئندہ ایسے ممکنا حادثات سے بچا جا سکے۔#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

Monday, 12 June 2023

#شجرہِ_نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟ محکمہ مال اس کا بہترین حل ہے ۔اگر آپ کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائے یہ آفس ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گائوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گائوں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گائوں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان ، لوہار ، جولاہا ، ملیار ، چمیار ، ترک ، ڈھونڈ ، سراڑہ ،ملیار، قریشی ، سید ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ،ٹوانہ، بلوچ، وٹو، کانجو، کھٹڑ، گجر ، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، جدون ، دلزاک ، ترین وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں اور اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گائوں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گائوں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گائوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گائوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گائوں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گائوں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گائوں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گائوں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا۔۔۔

Friday, 5 May 2023

كلمه اِستغفار اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.’’میں اپنے اللہ سے معافی مانگتا ھوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ھو کر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ھوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ھوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔ ( اے اللہ! ) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناھوں کا بخشنے والا ھے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ھے"۔

Friday, 28 April 2023

دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اور ملک کی کم و بیش %60 معیشت میں حصہ دار ہے، ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو غلط کام کرتا ہے اس کو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس سلطنت کے 4 حصے ہیں:01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ02۔ فوجی فائونڈیشن03۔ شاہین فائونڈیشن04۔ بحریہ فائونڈیشنفوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.نیشنل لاجسٹک سیل NLC ٹرانسپورٹیہ ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1،698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7،279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2،549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (FWO):ملک کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم Constructional Tenders جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔ایس سی او SCO:اس ادارے کو پاکستان کے جموں کشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔مشرف سرکار نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1،600 کارپوریشنز میں ہیں۔پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علائقے کی 1،800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائ ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔15 فروری 2005 میں سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ مندرجہ زیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ02۔ آرمی ويلفيئر فارماسيوٹيکل03۔ عسکری سيمينٹ لمٹيڈ04۔ عسکری کمرشل بينک05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹيڈ06۔ عسکری ليزنگ لميٹيڈ07۔ عسکری لبريکينٹس لميٹڈ08۔ آرمی شوگر ملز بدين09۔ آرمی ويلفيئر شو پروجيکٹ10۔ آرمی ويلفيئر وولن ملز لاهور11۔ آرمی ويلفيئر هوزری پروجيکٹ12۔ آرمی ويلفيئير رائس لاهور13۔ آرمی اسٹينڈ فارم پروبائباد14۔ آرمی اسٹينڈ فارم بائل گنج15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ16۔ آرمی فارم کھوسکی بدين17۔ رئيل اسٹيٹ لاهور18۔ رئيل اسٹيٹ روالپنڈی19۔ رئيل اسٹيٹ کراچی20۔ رئيل اسٹيٹ پشاور21۔ آرمی ويلفير ٹرسٹ پلازه راولپنڈی22۔ الغازی ٹريولز23۔ سروسز ٹريولز راولپنڈی24۔ ليزن آفس کراچی25۔ ليزن آفس لاهور26۔ آرمی ويلفيئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجيکٹ27۔ عسکری انفارميشن سروسفوجی فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان02۔ فوجی شوگر ملز بدين03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل04۔ فوجی شوگر ملز کين اينڈيس فارم05۔ فوجی سيريلز06۔ فوجی کارن فليکس07۔ فوجی پولی پروپائلين پروڈکٹس08۔ فائونڈيشن گیس کمپنی09۔ فوجی فرٹیلائيزر کمپنی صادق آباد ڈهرکی10۔ فوجی فرٹیلائيزر انسٹیٹیوٹ11۔ نيشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجيکٹ12۔ فائونڈيشن ميڈيک کالج13۔ فوجی کبير والا پاور کمپنی14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائيزر گھگھر پھاٹک کراچی15۔ فوجی سيکيورٹی کمپنی لميٹڈشاہين فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ شاہين انٹرنيشنل02۔ شاہين کارگو03۔ شاہين ايئرپورٹ سروسز04۔ شاہين ايئرویز05۔ شاہين کامپليکس06۔ شاہين پی ٹی وی07۔ شاہين انفارميشن اور ٹيکنالوجی سسٹمبحريه فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ بحريه يونيورسٹی02۔ فلاحی ٹريڈنگ ايجنسی03۔ بحريه ٹريول ايجنسی04۔ بحريه کنسٹرکشن05۔ بحريه پينٹس06۔ بحريه ڈيپ سی فشنگ07۔ بحريه کامپليکس08۔ بحريه ہاوسنگ09۔ بحريه ڈريجنگ10۔ بحريه بيکری11۔ بحريه شپنگ12۔ بحريه کوسٹل سروس13۔ بحريه کيٹرنگ اينڈ ڈيکوريشن سروس14۔ بحريه فارمنگ15۔ بحريه هولڈنگ16۔ بحريه شپ بريکنگ17۔ بحريه هاربر سروسز18۔ بحريه ڈائيونگ اينڈ سالويج انٹرنيشنل19۔ بحريه فائونڈيشن کالج بہاولپورملک کے تمام بڑے شہروں میں موجود کینٹونمنٹ ایریاز, ڈیفینس ہاوسنگ سوسائیٹیز, عسکری ہاوسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔ہم میں سے یہ حقیقت کسی کو معلُوم نہیں کہ فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے خسارے, کرپشن اور بدانتظامی میں سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں۔اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلینس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکِن ہر گورنمنٹ خُود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور پاتی ہے اور جو دینے میں تامل کرے تو حکُومت گرنے کے اسباب ایسے پیدا ہوتے ہیں، جیسے بارش سے پہلے بادل آتے ہیں۔سول حکُومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش %40 بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا گول چکر ہے جِس میں قوم آہستہ آہستہ ایسے پھنستی چلی جا رہی ہے کہ ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہا ہے۔جنرل نالج ؟‏وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ،سیکریٹری داخلہ۔۔۔ میجر سلیمان اعظماٹارنی جنرل۔۔۔ کیپٹن انور منصورآئی جی پنجاب۔۔۔ کیپٹن عارف نواز۔۔چیئرمین سی پیک اتھارٹی ۔۔۔ جنرل عاصم باجوہچیئرمین پی آئی اے۔۔۔ایئرمارشل ارشد محمودچیئرمین واپڈا ۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین۔‏مینیجنگ ڈائیریکٹر ہی ٹی وی۔۔۔ میجر جنرل آصف غفورڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی۔۔سکوڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت۔ڈائیریکٹر جنرل۔۔ اینٹی نارکوٹکس فورس۔۔ میجر جنرل عارف ملک۔ڈائیریکٹر ۔۔ ایرپورٹ سیکیورٹی فورس۔ میجر جنرل ظفر الحق۔ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن ۔۔ میجر جنرل عظیم‏نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ لیفٹینٹ جنرل عمر محمودوزیر اعظم ھاؤسنگ اتھارٹی۔۔ لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر ۔۔ڈائیریکٹر سپارکو : میجر جنرل قیصر انیسڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیاتڈائریکٹرجنرل نیب لاھور۔۔۔ میجر شہزاد سلیملیفٹیننٹ جنرل (رٹائیرڈ) انورعلی حیدر کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا چیرمین تعینات کر دیا گیا1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی 4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے 1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ6:میجرعامر۔۔243ایکڑ7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ8:صبح صادق۔۔400ایکڑصبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے 1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپےایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:ملک خدا بخش بچہ وزیر زراعت۔۔158ایکڑ2:خان غلام سرور خان، وزیرمال۔۔240ایکڑ3:جنرل حبیب اللّہ وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ4:این-ایم-عقیلی وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ6:اخترحسینگورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ8:سیدحسن ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ10:این-اے-قریشی چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ11:امیرمحمد خان سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑجن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑگوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئ:1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑجسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑنجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔ 1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھایکڑزمین خریدی۔1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔اسوقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔ اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:لاھور۔۔12ہزارایکڑکراچی۔۔12ہزارایکڑاٹک۔۔3000ایکڑٹیکسلا۔۔2500ایکڑپشاور۔۔4000ایکڑکوئٹہ۔۔2500ایکڑاسکی قیمت 300بلین روپےہے۔2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔چندنام یہ ہیں:پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے ۔

Wednesday, 15 March 2023

2022 S C M R 1428[Supreme Court of Pakistan]Present: Sajjad Ali Shah and Jamal Khan Mandokhail, JJGOVERNMENT OF KHYBER PAKHTUNKHWA through Secretary Home and TAs and others---AppellantsVersusNOORANI GUL through LRs---RespondentsCivil Appeal No. 190 of 2015, decided on 15th April, 2022. (On appeal from the judgment of the Peshawar High Court Mingora Bench (Dar-ul-Qaza) Swat dated 19.03.2012 passed in C.R. No. 425 of 2003)(a) Khyber Pakhtunkhwa Land Revenue Act (XVII of 1967)-------Ss. 40(1) & 116---Constitution of Pakistan, Arts. 23 & 24---Unsettled land---Possession and control of occupier over unsettled land sufficient proof of ownership---After settlement proceedings land in question, which was unsettled, was recorded in the name of Provincial Government---Plaintiff/respondent filed suit to claim that land in question belonged to him---Trial Court and High Court decreed the respondent's suit---Held, that before the settlement proceedings, the government was neither the owner nor in possession of the disputed land---Respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession over the land, and as the land had no revenue record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of the plaintiff producing documentary proof---As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land was sufficient proof of ownership---Respondent's claim over the land was superior than that of the government---Appeal was dismissed. Before the settlement proceedings, the property in question was unsettled, having no revenue record to document ownership of the land owners. The government started first settlement proceedings in the area, which were completed in the year 1986, wherein, the land in question was recorded in the name of the government. Perusal of the record would reveal that there is no evidence to prove that before the settlement proceedings, the government was either owner or in possession of the disputed land nor is there any reason in doing so. To the contrary, the respondent had claimed his ownership and possession over the suit property. The respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession, as the land had no record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of producing documentary proof. During the pendency of these proceedings, a local commissioner was appointed, who also confirmed the possession of the respondent. It is a fact that some of the adjacent properties belonging to several persons had been recorded in their names during the settlement proceedings, but the government did not dispute their ownership nor objected the settlement proceedings to their extent. Admittedly, the government did not acquire the property in question through sale, gift or exchange, nor had ever claimed its right of escheat. Simply because the land in question was unsettled, when the first settlement was started, cannot be used to term it as unclaimed or ownerless property. Since the respondent was claiming to be its rightful owner before the preparation of record during the settlement proceedings of the year 1986 and also proved his possession over the land in question, therefore, his claim was superior than that of the government. It was the government that neglected its duty to conduct settlement proceedings to incorporate title and ownership in the record of rights, therefore, the rightful owners could not be deprived of their fundamental right to acquire, hold and dispose of property in any part of the country, as enshrined in Articles 23 and 24 of the Constitution. The government was bound to prove its ownership with regard to the property in question, but it did not produce any evidence to establish its ownership before the first settlement proceedings. As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land was sufficient proof of ownership, but admittedly, the government was neither in possession of the property nor the same was under its control or supervision. Since the claim of the government was not supported by any evidence, therefore, its claim merely on the basis of the land being unsettled, was not a rightful claim. Appeal was dismissed.(b) Constitution of Pakistan-------Art. 172--- Ownerless property--- Transfer in the name of Government---"Escheat", right of--- Scope--- In case of claim of ownership of property, the government is equally responsible to show that the property has either been acquired through due process of law or it has become its owner, in respect of a property, which has no rightful owner as provided by Article 172 of the Constitution---Under the said provision of the Constitution, the government has the right to take ownership of an unclaimed or ownerless property---Such right occurs when an individual dies or disappears with no will and no heirs and his property remains unclaimed for a considerably prolonged period of time; it refers to a right of "escheat"---Before acquiring such unclaimed or ownerless property through the right of escheat, the government is required to follow the procedure provided by law and to invite objections from general public, through widely circulated notice through all mediums of communication. Mian Shafaqat Jan, Additional A.G. Khyber Pakhtunkhwa and Ali Rehman, SI (Legal) for Appellants. Muhammad Ajmal Khan, Advocate Supreme Court/Advocate-on-Record (through video link from Peshawar) for Respondents. Date of hearing: 15th April, 2022.JUDGMENT JAMAL KHAN MANDOKHAIL, J.---Facts in brief are that the land settlement proceedings were conducted in the year 1986, wherein, the unsettled property was recorded in the name of the Provincial Government. The respondent claiming to be its owner, challenged the entries through the instant suit. He claimed that the land described in the plaint belonged to him, which is in his cultivated possession. The trial court decreed the suit, whereas, the appellate court reversed the findings. The respondent filed a civil revision before the learned Peshawar High Court, Mingora Bench, which was allowed and the judgment and decree passed by the trial court was maintained. The appellants filed a civil petition for leave to appeal, wherein leave was granted by this Court on 17th March, 2015, in following terms:- "Heard the learned Additional Advocate General, KP as well as the learned ASC for the respondent and perused the record. There are conflicting judgments of the Courts below. 2. Learned Additional Advocate General contends that the impugned judgment is based on misreading and non-reading of evidence. 3. Leave to appeal is granted to examine inter alia the above contention. Till the hearing of the appeal, parties shall maintain status-quo in respect of disputed property."2. Heard the learned counsel for the parties and have perused the record. Admitted facts of the case are that the land in question was unsettled, having no revenue record. The government started first settlement proceedings in the area, which were completed in the year 1986, wherein, the land in question was recorded in the name of the government. Perusal of the record would reveal that there is no evidence to prove that before the settlement proceedings, the government was either owner or in possession of the disputed land nor is there any reason in doing so. To the contrary, the respondent has claimed his ownership and possession over the suit property. The respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession, as the land had no record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of producing documentary proof. During the pendency of these proceedings, a local commissioner was appointed, who also confirmed the possession of the respondent. It is a fact that some of the adjacent properties belonging to several persons have been recorded in their names during the settlement proceedings, but the government did not dispute their ownership nor objected the settlement proceedings to their extent.3. The land in question was recorded in the name of the government, merely on account of being an unsettled one. It is a settled principle of law that in case of claim of ownership of property, the government is equally responsible to show that the property has either been acquired through due process of law or it has become its owner, in respect of a property, which has no rightful owner as provided by Article 172 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, 1973. Under the said provision of the Constitution, the government has the right to take ownership of an unclaimed or ownerless property. It occurs when an individual dies or disappears with no will and no heirs and his property remains unclaimed for a considerably prolonged period of time. It refers to a right of "escheat". Before acquiring such unclaimed or ownerless property through the right of escheat, the government is required to follow the procedure provided by law and to invite objections from general public, through widely circulated notice through all mediums of communication.4. Admittedly, the government did not acquire the property in question through sale, gift or exchange, nor had ever claimed its right of escheat. Simply because the laud in question was unsettled, when the first settlement was started, cannot be termed it as unclaimed or ownerless property. Since the respondent is claiming to be its rightful owner before the preparation of record during the settlement proceedings of the year 1986 and also proved his possession over the land in question, therefore, his claim was superior than that of the government. As far as the contention of the learned Law Officer that the respondent has not produced any documentary proof with regard to ownership of the property in question is concerned, suffice it to observe here that admittedly before the settlement proceedings, the property in question was unsettled, having no record to document ownership of the land owners. According to the Land Revenue Act and the Settlement Manual, it is the responsibility of the Provincial Government to conduct periodical land settlement proceedings in respective Provinces, but unfortunately, the needful was not done. Under such circumstances, the land owners cannot be held responsible for having no documentary proof. It was the government that neglected its duty to conduct settlement proceedings to incorporate title and ownership in the record of rights, therefore, the rightful owners could not be deprived of their fundamental right to acquire, hold and dispose of property in any part of Pakistan, as enshrined in Articles 23 and 24 of the Constitution.5. It is a fact that after merger of the State of Swat into Pakistan, the properties which were in the ownership of Ruler of Swat, were recorded in the name of the government, whereas the properties of the individuals/private persons remained in their own names as is evident from the settlement proceedings of the year 1986, wherein, names of numerous owners of unsettled lands have been recorded in the revenue record, but the government did not question them. Admittedly, the land was unsettled, without any documentary proof and if documentary proof was to be considered as the only way to prove ownership of the land, then the principle applies to the government as well. The government was bound to prove its ownership with regard to the property in question, but it did not produce any evidence to establish its ownership before the first settlement proceedings. As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land is sufficient proof of ownership, but admittedly, the government was neither in possession of the property nor the same was under its control or supervision. The claim of the government is since not supported by any evidence, therefore, merely on the basis of the land being unsettled, is not a rightful claim. Learned Additional Advocate General appearing on behalf of appellant-government has not been able to substantiate the stance of the government nor has highlighted any point of law warranting interference in the findings of the learned High Court. These are the reasons for our short order dated 15.04.2022, which is reproduced herein below:- "For reasons to be recorded separately, this appeal is dismissed."MWA/G-12/SC Appeal dismissed.

Monday, 6 March 2023

*ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات* *1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83*2 غصے کو قابو میں رکھو*سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134*3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*سورۃ القصص، آیت نمبر 77*4 تکبر نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 23 *5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 22*6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11*9 والدین کی خدمت کیا کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*‏10 والدین سے اف تک نہ کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 58*12 لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282*13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،* سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36*14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280*15 سود نہ کھاؤ،* سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278*16 رشوت نہ لو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42*17 وعدہ نہ توڑو،* سورۃ الرعد، آیت نمبر 20*‏18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42*20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،* سورۃ ص، آیت نمبر 26*21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 8*23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* سورۃ النساء، آیت نمبر 7*24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 2*‏25 یتیموں کی حفاظت کرو،*سورۃ النساء، آیت نمبر 127 *26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 6*27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10*28 بدگمانی سے بچو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*29 غیبت نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*30 جاسوسی نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*31 خیرات کیا کرو،* سورۃ البقرة، آیت نمبر 271*32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو*سورة المدثر، آیت نمبر 44*33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* سورة البقرۃ، آیت نمبر 273*34 فضول خرچی نہ کیا کرو،*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67*‏35 خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*سورة البقرۃ، آیت 262*36 مہمانوں کی عزت کیا کرو،*سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27*37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44*38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36*39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* سورة البقرة، آیت نمبر 114*40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*‏42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* سورة الأنفال، آیت نمبر 15*43 مذہب میں کوئی سختی نہیں،*سورة البقرة، آیت نمبر 256*44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 150*45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* سورة البقرة، آیت نمبر، 222*46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* سورة البقرة، آیت نمبر، 233*47 جنسی بدکاری سے بچو،*سورة الأسراء، آیت نمبر 32*48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247*49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* سورة البقرة، آیت نمبر 286*50 منافقت سے بچو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16*‏51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* سورة آل عمران، آیت نمبر 190*52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* سورة آل عمران، آیت نمبر 195*53 بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 23*54 مرد خاندان کا سربراہ ہے،*سورۃ النساء، آیت نمبر 34*55 بخیل نہ بنو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 37*56 حسد نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 54*57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 29*58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*‏59 گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100*62 صحیح راستے پر رہو،* سورۃ الانعام، آیت نمبر 153*63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38*64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* سورۃ الانفال، آیت نمبر 39*65 مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3*‏66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*67 جوا نہ کھیلو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*68 ہیرا پھیری نہ کرو،* سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70*69 چغلی نہ کھاؤ،* سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1*70 کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6*73 طہارت قائم رکھو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108*74 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ الحجر، آیت نمبر 56*‏75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 17*76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* سورۃ النحل، آیت نمبر 125*77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*سورۃ فاطر، آیت نمبر 18*78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 31*79 جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*سورۃ النحل، آیت نمبر 36*‏80 کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* سورۃ النور، آیت نمبر 27*82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* سورۃ یونس، آیت نمبر 103*83 زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63*84 اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* سورة توبہ، آیت نمبر 105*85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* سورۃ الکہف، آیت نمبر 110 *‏86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* سورۃ النمل، آیت نمبر 55*‏87 حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* سورۃ توبہ، آیت نمبر 119*88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37*89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* سورۃ النور، آیت نمبر 31*90 اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 48*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ زمر، آیت نمبر 53*92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34*93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* سورۃ الشوری، آیت نمبر 38*‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* سورۃ الحدید، آیت نمبر 27*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 32*99 اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* سورۃ الضحی، آیت نمبر 10*اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ایک ڈائری بنا لیں تو ذیادہ اچھا ہے۔**جزاکم اللہ خیرا کثیرا*

Thursday, 2 February 2023

#تارن #قبیلہ:تاران کا اصلی نام سید طاہر تھا، لقب تارن تھا۔کاکڑ کے جداعلی نے اُنہیں اپنا بیٹا بنایا تھا اس لیے پشتون کاکڑ قبیلے میں شمار ہوتے ہیں، ورنہ اصلا" نسلا" پشتون نہیں ہے۔مشوانی کا والدہ بھی کاکڑ قبیلے سے تھا اور دونوں ایک دور کے بھی تھے اس لیے مشوانی اور تاران اکثر اکٹھے آباد ہیں ۔بلوچستان میں تارن، تارنڑ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تاران کے نام سے ان کی آولاد جانے جاتے ہیں (تاریخ صولت افغانی از زرداد خان) (2)شجرہ یہ ہے سید طاہر المقلب تاران بن سید ناصر بن سید علاء الدین بن سیدقطب الدین بن سیدداود بن سلطان کبیر بن سید شمس الدین بن سید احمد بن سید علی رفاعی بن سید حسن بن سید محمد بن سید جواد(حواد) بن سیدعلی رضا بن سید موسیٰ کاظم بن سید جعفر بن محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بن ابی طالب۔(3)سیدتاران کے بیٹے کا نام انجر (انجو) تھا۔ان کے بیٹے کا نام خواجہ کبیر تھا۔خواجہ کبیر کے پانچ بیٹے تھے۔مکانون، اذین، اسماعیل، نور اور ابراہیم ۔۔۔۔بعد میں تاران کا نسل اسی سے پھیلا ہے۔۔۔۔سید تاران اور سیدگیسودراز کا زمانہ ایک ہے۔اسی اعتبار سے تاران کا زمانہ 400ھ، 430ھ (1010ء تا 1038ء) بنتاہے۔(روحانی رابطہ، اثر، ص 405، 406).لیکن میدان(دیر) پڑیکس کے تاران کے ساتھ جو شجرہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔سیدتاران بن سیدناصر بن ابو یوسف بن سیدعلی بن سید قطب بن سید داء الدین بن سید شمس الدین بن سید حبیب بن سیدمعروف بن سیدعلی بن سید جنید بغدادی بن سیدحسن بن سیدابراہیم بن سید علی بن سید اصغر بن سید حیسن رض بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ۔۔۔۔۔۔پھر سید تاران کے بیٹے سید ملک داد اور ملک داد بیٹے ملا مذید(مجید) اور پھر ملامزید کے دو بیٹے ملاکریم اور شیخ بابا اور ملاکریم کے بیٹے کوکئ ملک لکھا ہے(انٹرویو از محمد بھادر خان، المعروف سکرٹری صاحب، جون 2002)......مزکورہ فرق ایک تو اس لحاظ سے ہے کہ اس شجرے میں کچھ نام، اصل نام کے بجائے القاب وغیرہ لکھے گئے ہیں مثلاً ابویوسف، جنید بغدادی وغیرہ اور کچھ نام ادھے لکھے گئے ہیں ۔(4)عام طور لوگ اور بعض مورخین نے تاران کو پشتون قبیلہ قراردیا ہے اور اُسے کاکڑ قبیلے کا ذیلی شاخ سمجھا ہے(تار پشاور، ص 342، 343)لیکن یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ کاکڑ کے جداعلی نے اُسے اپنا متبنی اور بیٹا بنایا تھا اور اُسے مال میں حصہ بھی دیا تھا اس وجہ سے اُنہیں پشتون قبیلہ سمجھا گیا۔تاریخ میں اُسے افاغنہ سادات کہاجاتاہے. نسلا" یہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ کی اولاد ہیں ۔(5)یہ خاندان اور قبیلہ اہل علم کا خاندان کہلاتاہے۔سید طاہر رح تاران، سید محمود رح، مولانا عبدالوہاب پنجوبابا، پانچ بھائی المعروف "پنزہ پیران "حضرت سید خواجہ جواد، حضرت سید وجود، حضرت سید احمد ،حضرت سید خواجہ محمد، اور حضرت سید خواجہ حسن جیسے اولیاء مشایخ اور علماء اسی خاندان سے تعلق رکتھے ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)#تارن #قبیلہ:تاران کا اصلی نام سید طاہر تھا، لقب تارن تھا۔کاکڑ کے جداعلی نے اُنہیں اپنا بیٹا بنایا تھا اس لیے پشتون کاکڑ قبیلے میں شمار ہوتے ہیں، ورنہ اصلا" نسلا" پشتون نہیں ہے۔مشوانی کا والدہ بھی کاکڑ قبیلے سے تھا اور دونوں ایک دور کے بھی تھے اس لیے مشوانی اور تاران اکثر اکٹھے آباد ہیں ۔بلوچستان میں تارن، تارنڑ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تاران کے نام سے ان کی آولاد جانے جاتے ہیں (تاریخ صولت افغانی از زرداد خان) (2)شجرہ یہ ہے سید طاہر المقلب تاران بن سید ناصر بن سید علاء الدین بن سیدقطب الدین بن سیدداود بن سلطان کبیر بن سید شمس الدین بن سید احمد بن سید علی رفاعی بن سید حسن بن سید محمد بن سید جواد(حواد) بن سیدعلی رضا بن سید موسیٰ کاظم بن سید جعفر بن محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بن ابی طالب۔(3)سیدتاران کے بیٹے کا نام انجر (انجو) تھا۔ان کے بیٹے کا نام خواجہ کبیر تھا۔خواجہ کبیر کے پانچ بیٹے تھے۔مکانون، اذین، اسماعیل، نور اور ابراہیم ۔۔۔۔بعد میں تاران کا نسل اسی سے پھیلا ہے۔۔۔۔سید تاران اور سیدگیسودراز کا زمانہ ایک ہے۔اسی اعتبار سے تاران کا زمانہ 400ھ، 430ھ (1010ء تا 1038ء) بنتاہے۔(روحانی رابطہ، اثر، ص 405، 406).لیکن میدان(دیر) پڑیکس کے تاران کے ساتھ جو شجرہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔سیدتاران بن سیدناصر بن ابو یوسف بن سیدعلی بن سید قطب بن سید داء الدین بن سید شمس الدین بن سید حبیب بن سیدمعروف بن سیدعلی بن سید جنید بغدادی بن سیدحسن بن سیدابراہیم بن سید علی بن سید اصغر بن سید حیسن رض بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ۔۔۔۔۔۔پھر سید تاران کے بیٹے سید ملک داد اور ملک داد بیٹے ملا مذید(مجید) اور پھر ملامزید کے دو بیٹے ملاکریم اور شیخ بابا اور ملاکریم کے بیٹے کوکئ ملک لکھا ہے(انٹرویو از محمد بھادر خان، المعروف سکرٹری صاحب، جون 2002)......مزکورہ فرق ایک تو اس لحاظ سے ہے کہ اس شجرے میں کچھ نام، اصل نام کے بجائے القاب وغیرہ لکھے گئے ہیں مثلاً ابویوسف، جنید بغدادی وغیرہ اور کچھ نام ادھے لکھے گئے ہیں ۔(4)عام طور لوگ اور بعض مورخین نے تاران کو پشتون قبیلہ قراردیا ہے اور اُسے کاکڑ قبیلے کا ذیلی شاخ سمجھا ہے(تار پشاور، ص 342، 343)لیکن یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ کاکڑ کے جداعلی نے اُسے اپنا متبنی اور بیٹا بنایا تھا اور اُسے مال میں حصہ بھی دیا تھا اس وجہ سے اُنہیں پشتون قبیلہ سمجھا گیا۔تاریخ میں اُسے افاغنہ سادات کہاجاتاہے. نسلا" یہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ کی اولاد ہیں ۔(5)یہ خاندان اور قبیلہ اہل علم کا خاندان کہلاتاہے۔سید طاہر رح تاران، سید محمود رح، مولانا عبدالوہاب پنجوبابا، پانچ بھائی المعروف "پنزہ پیران "حضرت سید خواجہ جواد، حضرت سید وجود، حضرت سید احمد ،حضرت سید خواجہ محمد، اور حضرت سید خواجہ حسن جیسے اولیاء مشایخ اور علماء اسی خاندان سے تعلق رکتھے ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)