Tuesday, 22 August 2023

بلوچستان کے ایک پشتون مجاہد پالے شاہ خوستی کے سوا بلوچستان کے تقریباً تمام پشتون مشران انگریز کے وفادار رہے ماسوائے چند ایک کہ جن میں قابل ذکر نام عبدالصمد خان اچکزئی، ملک عبدالعلی کاکڑ اور ان کے چند رفقا کا تھا جو ایک آزادی پسند سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ تھے اور ماسوائے کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار میں آباد بازئی نوجوان انگریز راج کے ِخلاف چند کاروائیوں کے بعد زیر حراست آگئے اور کچھ شہید ہوگئے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچ اکثریتی بیلٹ میں خونریز مزاحمت اپنے عروج پر رہی بلوچستان کے تخت نشین والئیے ریاستِ قلات خان محراب خان انگریز فوج کو للکارنے والے اور 400 ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرنے والے پہلے بلوچ قبائلی رہنما تھے۔ پورے کالونیل دور میں انگریز کو بلوچستان کے بلوچ قبائلی علاقے میں چھاپہ مار کاروائیوں سے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ باجوڑ سے ٹرانسفر ہونے والا برطانوی جنرل ڈیوس جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور تھا کوہلو میں بلوچ آزادی پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کے نتیجے میں قلات، کوہلو بارکھان اور وڈھ میں برطانوی راج کی جانب سے بلوچ حریت پسندوں کے خلاف بڑے حملے کئیے گئے۔ ان حملوں میں میروانی اور ساسولی قبیلے کے نامور بلوچ سردار بھی شہید ہوئے اور خان آف قلات کے قریبی عزیز میر شکر خان بھی داد شجاعت وصول کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ قلات آپریشن کے بعد رابرٹ سنڈیمن نے باوجہِ خوف کوئٹہ سے بھاگ کر پشین جانے کو ترجیح دی اور وہیں سکونت اختیار کی۔ فرنگی خود کو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ مری کے علاقے میں حق نواز مری اور شاہ نواز مری جو حقو اور شاہو کے نام سے مشہور تھے انہوں نے برٹش انڈین آرمی کا جینا حرام کر رکھا تھا اور بارکھان میں فقیر کالے خان بجرانی مری نے انگریز کے پاوں جمنے نہیں دئیے، کالے خان کی سر کی قیمت تاجِ برطانیہ کی طرف سے تمام برضغیر کے مطلوب ترین باغیوں میں سب زیادہ مقرر کی گئی تھی۔ نورا مینگل اور میر شہباز گرگناڑی نے جھالاوان کے قبائلی علاقے میں گوریلا کمانڈ سنبھال رکھی تھی جبکہ گوریلا قائد شاہداد بنگلزئی "دینار زئی" اور ولی محمد شاہوانی "سوری زئی" جیسے کئی ایک حریت پسندوں نے سراوان کے قبائلی علاقے اور چلتن کے پہاڑی سلسلے سے لے کر کوئٹہ شہر کے گردونواح میں برطانوی فوج کا جینا محال کر رکھا تھا جبکہ خاران میں چھاپہ مار سجاول محمد حسنی انگریز کے دانت کھٹے کر رہا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے دشت و جبل میں فرنگی کے خلاف میدانِ رزم کی گرم بازاریاں کم و بیش یا زیادہ تر غیور بلوچ قبائل کے حصے میں ہی آئیں۔ درگئی اور شمالی وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ مزاحمت اور حزیمت کا سامنا برطانوی راج کو بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کرنا پڑا۔*کلیم امام کی کتاب ”بلوچستان ماضی حال اور متقبل“ سے اقتباس*

No comments:

Post a Comment