Friday, 28 April 2023
دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اور ملک کی کم و بیش %60 معیشت میں حصہ دار ہے، ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو غلط کام کرتا ہے اس کو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس سلطنت کے 4 حصے ہیں:01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ02۔ فوجی فائونڈیشن03۔ شاہین فائونڈیشن04۔ بحریہ فائونڈیشنفوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.نیشنل لاجسٹک سیل NLC ٹرانسپورٹیہ ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1،698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7،279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2،549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (FWO):ملک کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم Constructional Tenders جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔ایس سی او SCO:اس ادارے کو پاکستان کے جموں کشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔مشرف سرکار نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1،600 کارپوریشنز میں ہیں۔پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علائقے کی 1،800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائ ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔15 فروری 2005 میں سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ مندرجہ زیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ02۔ آرمی ويلفيئر فارماسيوٹيکل03۔ عسکری سيمينٹ لمٹيڈ04۔ عسکری کمرشل بينک05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹيڈ06۔ عسکری ليزنگ لميٹيڈ07۔ عسکری لبريکينٹس لميٹڈ08۔ آرمی شوگر ملز بدين09۔ آرمی ويلفيئر شو پروجيکٹ10۔ آرمی ويلفيئر وولن ملز لاهور11۔ آرمی ويلفيئر هوزری پروجيکٹ12۔ آرمی ويلفيئير رائس لاهور13۔ آرمی اسٹينڈ فارم پروبائباد14۔ آرمی اسٹينڈ فارم بائل گنج15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ16۔ آرمی فارم کھوسکی بدين17۔ رئيل اسٹيٹ لاهور18۔ رئيل اسٹيٹ روالپنڈی19۔ رئيل اسٹيٹ کراچی20۔ رئيل اسٹيٹ پشاور21۔ آرمی ويلفير ٹرسٹ پلازه راولپنڈی22۔ الغازی ٹريولز23۔ سروسز ٹريولز راولپنڈی24۔ ليزن آفس کراچی25۔ ليزن آفس لاهور26۔ آرمی ويلفيئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجيکٹ27۔ عسکری انفارميشن سروسفوجی فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان02۔ فوجی شوگر ملز بدين03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل04۔ فوجی شوگر ملز کين اينڈيس فارم05۔ فوجی سيريلز06۔ فوجی کارن فليکس07۔ فوجی پولی پروپائلين پروڈکٹس08۔ فائونڈيشن گیس کمپنی09۔ فوجی فرٹیلائيزر کمپنی صادق آباد ڈهرکی10۔ فوجی فرٹیلائيزر انسٹیٹیوٹ11۔ نيشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجيکٹ12۔ فائونڈيشن ميڈيک کالج13۔ فوجی کبير والا پاور کمپنی14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائيزر گھگھر پھاٹک کراچی15۔ فوجی سيکيورٹی کمپنی لميٹڈشاہين فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ شاہين انٹرنيشنل02۔ شاہين کارگو03۔ شاہين ايئرپورٹ سروسز04۔ شاہين ايئرویز05۔ شاہين کامپليکس06۔ شاہين پی ٹی وی07۔ شاہين انفارميشن اور ٹيکنالوجی سسٹمبحريه فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ بحريه يونيورسٹی02۔ فلاحی ٹريڈنگ ايجنسی03۔ بحريه ٹريول ايجنسی04۔ بحريه کنسٹرکشن05۔ بحريه پينٹس06۔ بحريه ڈيپ سی فشنگ07۔ بحريه کامپليکس08۔ بحريه ہاوسنگ09۔ بحريه ڈريجنگ10۔ بحريه بيکری11۔ بحريه شپنگ12۔ بحريه کوسٹل سروس13۔ بحريه کيٹرنگ اينڈ ڈيکوريشن سروس14۔ بحريه فارمنگ15۔ بحريه هولڈنگ16۔ بحريه شپ بريکنگ17۔ بحريه هاربر سروسز18۔ بحريه ڈائيونگ اينڈ سالويج انٹرنيشنل19۔ بحريه فائونڈيشن کالج بہاولپورملک کے تمام بڑے شہروں میں موجود کینٹونمنٹ ایریاز, ڈیفینس ہاوسنگ سوسائیٹیز, عسکری ہاوسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔ہم میں سے یہ حقیقت کسی کو معلُوم نہیں کہ فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے خسارے, کرپشن اور بدانتظامی میں سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں۔اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلینس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکِن ہر گورنمنٹ خُود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور پاتی ہے اور جو دینے میں تامل کرے تو حکُومت گرنے کے اسباب ایسے پیدا ہوتے ہیں، جیسے بارش سے پہلے بادل آتے ہیں۔سول حکُومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش %40 بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا گول چکر ہے جِس میں قوم آہستہ آہستہ ایسے پھنستی چلی جا رہی ہے کہ ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہا ہے۔جنرل نالج ؟وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ،سیکریٹری داخلہ۔۔۔ میجر سلیمان اعظماٹارنی جنرل۔۔۔ کیپٹن انور منصورآئی جی پنجاب۔۔۔ کیپٹن عارف نواز۔۔چیئرمین سی پیک اتھارٹی ۔۔۔ جنرل عاصم باجوہچیئرمین پی آئی اے۔۔۔ایئرمارشل ارشد محمودچیئرمین واپڈا ۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین۔مینیجنگ ڈائیریکٹر ہی ٹی وی۔۔۔ میجر جنرل آصف غفورڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی۔۔سکوڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت۔ڈائیریکٹر جنرل۔۔ اینٹی نارکوٹکس فورس۔۔ میجر جنرل عارف ملک۔ڈائیریکٹر ۔۔ ایرپورٹ سیکیورٹی فورس۔ میجر جنرل ظفر الحق۔ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن ۔۔ میجر جنرل عظیمنیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ لیفٹینٹ جنرل عمر محمودوزیر اعظم ھاؤسنگ اتھارٹی۔۔ لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر ۔۔ڈائیریکٹر سپارکو : میجر جنرل قیصر انیسڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیاتڈائریکٹرجنرل نیب لاھور۔۔۔ میجر شہزاد سلیملیفٹیننٹ جنرل (رٹائیرڈ) انورعلی حیدر کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا چیرمین تعینات کر دیا گیا1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی 4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے 1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ6:میجرعامر۔۔243ایکڑ7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ8:صبح صادق۔۔400ایکڑصبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے 1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپےایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:ملک خدا بخش بچہ وزیر زراعت۔۔158ایکڑ2:خان غلام سرور خان، وزیرمال۔۔240ایکڑ3:جنرل حبیب اللّہ وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ4:این-ایم-عقیلی وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ6:اخترحسینگورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ8:سیدحسن ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ10:این-اے-قریشی چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ11:امیرمحمد خان سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑجن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑگوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئ:1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑجسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑنجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔ 1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھایکڑزمین خریدی۔1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔اسوقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔ اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:لاھور۔۔12ہزارایکڑکراچی۔۔12ہزارایکڑاٹک۔۔3000ایکڑٹیکسلا۔۔2500ایکڑپشاور۔۔4000ایکڑکوئٹہ۔۔2500ایکڑاسکی قیمت 300بلین روپےہے۔2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔چندنام یہ ہیں:پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے ۔
Labels:
دنیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment