Thursday, 22 April 2021

زکوٰۃ کسے دینا جائز ہے اور کسے دینا جائز نہیں؟ بقلم: مولانا ندیم احمد انصاریزکوٰۃ کا نظام دراصل غریب مسلمان کی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اسے اس کے صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مستحقین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم جاکر مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرو، بلکہ ہر مقام پر مال داروں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحق تک زکوٰۃ کے مال کا پہنچانا خود زکوٰۃ ادا کرنے والے پر لازم و ضروری ہے۔ اس کے باوجود آج بعض لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے اور بعض صحیح حساب سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور بعض حساب تو صحیح رکھتے ہیں لیکن مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ افسوس کہ ہمارے آس پاس ایسے ہی لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔زکوٰۃ کے مصارف:شریعت نے جس طرح زکوٰۃ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے اسی طرح مستحق کو زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہے۔ فقہاے اسلام کی صراحت کے مطابق درجِ تمام لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؛(۱) فقیر: یعنی جو اتنے مال کا مالک نہ ہو جس پر خود زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، خواہ وہ کمانے کی اہلیت رکھتا ہو۔(۲)مسکین: یعنی وہ جس کے پاس کسی قسم کا کچھ بھی مال نہ ہو۔(۳) مُکاتب: یعنی وہ غلام جس نے اپنے آقا سے طے کرلیا ہو کہ مخصوص ومتعین رقم ادا کردینے پر وہ آزاد ہوجائے گا۔(۴) مقروض: یعنی ایسا قرض دار جس کے پاس قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اتنا مال نہ بچے، جس کی قیمت بقدرِنصاب ہو۔(۵) فی سبیل اللہ:یعنی ایسا شخص جو غازیوں یا حاجیوں سے بچھڑ گیا ہو، مثلاً کوئی لشکر یا حاجیوں کا کوئی قافلہ جارہا تھا،یہ شخص کسی ضرورت سے قافلے سے جدا ہوا اور پھر راستہ بھول گیا یا کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ وہ قافلے تک نہ پہنچ سکا۔(۶) ابن السبیل: یعنی وہ مسافر جو سفر کے دوران ضرورت مند ہوگیا۔(۷) عاملِ زکوٰۃ: یعنی وہ شخص جو اسلامی حکومت کی جانب سے عشرو زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر ہو، اس کو اتنا مال دیا جائے گا جو اس کے اور اس کے مدد گاروں یعنی کارندوں اور سپاہیوں کے لئے کافی ہوجائے۔ (مراقی الفلاح،ہندیہ)زکوٰۃ کی ادایگی کے مراتب:ذی رحم رشتےداروں کو زکوٰۃ دینا سب سے بہتر ہے، پھر اپنے پڑوسیوں کو، پھر اپنے محلّے والوں کو، پھر اپنے پیشے والوں کو، پھر اپنے شہر والوں کو۔ المختصر! جو جتنا مستحق جتنا زیادہ قریب ہو اس کا اتنا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ وہ اہلِ علم اور طالبِ علم جو کہ فقیر اور زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو زکوٰۃ دینے میں انشاء اللہ دو اجر ملیں گے؛ (۱) زکوٰۃ کا اور (۲) علم کی اشاعت اور خدمت ِدین کا۔بس یہ خیال رہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے، اس کا شمار اس فہرست میں نہ ہو جنھیں زکوٰۃ دینا جائز ہی نہیں۔ (نورالایضاح)جنھیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں:بعض افراد ایسے بھی ہیں جنھیں زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، من جملہ ان کے درجِ ذیل حضرات کو زکاہ کی رقم نہیں دی جا سکتی لیکن نفلی صدقات انھیں بھی دیے جا سکتے ہیں:(۱) زکوٰۃ دینے والے کے اصول یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، اور نانا، نانی وغیرہ۔(۲) زکوٰۃ دینے والے کے فروع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی اور نواسا، نواسی وغیرہ۔(۳) زکوٰۃ دینے والے کی بیوی یا زکوٰۃ دینے والی کا شوہر۔(۴) اپنا مملوک غلام یا مُکاتب۔(۵) ایسا مال دار، جو کسی بھی ایسی چیز کا مالک ہو جو نصاب کی قیمت کے برابر ہو۔(۶) سادات اور بنو ہاشم کی آل و اولاد۔(۷) کافر۔ (مراقی الفلاح، ہندیہ) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

No comments:

Post a Comment