Wednesday, 28 April 2021
روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے کوویڈ 19 کے لاش کا پوسٹ مارٹم (پوسٹ مارٹم) کیا ہے۔ گہری تحقیقات کے بعد ، یہ پتہ چلا کہ کوویڈ ۔19 ایک وائرس کی حیثیت سے موجود نہیں ہے ، بلکہ ایک ایسا جراثیم ہے جو تابکاری کا شکار ہے اور خون میں جمنے سے انسانی موت کا سبب بنتا ہے۔ کوویڈ ۔19 بیماری خون کے جمنے کا سبب بنی ہے ، جس سے انسانوں میں خون جم جاتا ہے اور رگوں میں خون جم جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ دماغ ، دل اور پھیپھڑوں کو آکسیجن نہیں مل پاتا ہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ جلدی سے سانس کی توانائی کی کمی کی وجہ معلوم کرنے کے لئے ، روس میں ڈاکٹروں نے ڈبلیو ایچ او کے پروٹوکول کو نہیں سنا اور COVID-19 پر پوسٹ مارٹم کیا۔ ڈاکٹروں نے بازوؤں ، ٹانگوں اور جسم کے دیگر حصوں کو کھولنے اور ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد ، انھوں نے دیکھا کہ خون کی نالیوں کو خستہ کردیا گیا تھا اور وہ خون کے جمنے سے بھرا ہوا تھا ، جس سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور آکسیجن کے بہاؤ میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ جسم میں یہ مریض کی موت کا سبب بنتا ہے۔ اس تحقیق کے بارے میں جاننے کے بعد ، روسی وزارت صحت نے فوری طور پر کوویڈ 19 کے علاج معالجے میں تبدیلی کی اور اپنے مثبت مریضوں کو اسپرین دی۔ میں نے 100 ملی گرام اور امروومک لینا شروع کیا۔ نتیجے کے طور پر ، مریضوں نے صحت یاب ہونا شروع کیا اور ان کی صحت بہتر ہونا شروع ہوگئی۔ روسی وزارت صحت نے ایک دن میں 14،000 سے زیادہ مریضوں کو باہر نکالا اور انہیں گھر بھیج دیا۔ سائنسی دریافت کے ایک عرصے کے بعد ، روس میں ڈاکٹروں نے یہ کہتے ہوئے علاج کے طریقہ کار کی وضاحت کی کہ یہ بیماری عالمی چال ہے ، “یہ خون کی رگوں (خون کے جمنے) کے اندر جمنا اور علاج کے طریقہ کار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اینٹی بائیوٹک گولیاں سوزش اور اینٹیکوگولنٹ (اسپرین) لیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری کا علاج ممکن ہے۔ دوسرے روسی سائنس دانوں کے مطابق ، وینٹیلیٹروں اور انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) کی کبھی ضرورت نہیں تھی۔ اس اثر کے لئے پروٹوکول روس میں پہلے ہی شائع ہوچکے ہیں۔ چین پہلے ہی یہ جانتا ہے ، لیکن اس نے کبھی بھی اپنی رپورٹ جاری نہیں کی۔ اس معلومات کو اپنے اہل خانہ ، پڑوسیوں ، جاننے والوں ، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ وہ کوویڈ ۔19 کے خوف سے چھٹکارا پا سکیں اور یہ جان لیں کہ یہ کوئی وائرس نہیں ، بلکہ ایک ایسا جراثیم ہے جو صرف تابکاری کے سامنے آیا ہے۔ صرف انتہائی کم استثنیٰ والے لوگوں کو ہی محتاط رہنا چاہئے۔ یہ تابکاری سوجن اور ہائپوکسیا کا سبب بھی بنتی ہے۔ متاثرین کو Asprin-100mg اور Apronik یا Paracetamol 650mg لینا چاہئے۔ ماخذ: روسی وزارت صحت
چمن کوئٹہ کراچی شاہراہ796 کلومیٹر کو دوہرا کرنے کا کام اسی سال شروع ہوگا۔کوئٹہ///////وفاقی وزیر مواصلات و پوسٹل سروسز مراد سعید نے کہا ہے کہ چین۔پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک)کے مغربی روٹ کا آغاز موجودہ حکومت نے بلوچستان سے کیا اور اس کو حقیقت بنا دیا ہے،سی پیک کے مغربی روٹ کوموجودہ دور حکومت میں مکمل کیا جائے گا۔انہوں نے یہ بات آج کوئٹہ میں وزارت مواصلات،نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس کو دوہرا کرنے، ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس اورزیارت موڑ۔کچ۔ ہرنائی۔سنجاوی روڈ کی تعمیرکے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پراظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔مراد سعید نے کہا کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں 1100 طویل سڑکوں کی منصوبہ بندی کی گئی،جبکہ موجودہ حکومت کے اڑھائی سال کے دوران 3300 کلومیٹر طویل شاہراہوں کے منصوبوں کی نہ صرف منصوبہ بندی کی گئی بلکہ ان پر کام بھی شروع ہوا۔انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے سی پیک کے مغربی روٹ کو حقیقت بنا دیا ہے او راس روٹ کو موجودہ دور حکومت میں مکمل کریں گے۔انہو ں نے کہا کہ ژوب۔خضدارمنصوبے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان۔ژوب شاہراہ کے منصوبے کی منظوری ہوچکی ہے اوراس پر کام کاجلد آغاز کردیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ بسیمہ۔خضدار اور ہوشاب۔آواران منصوبے پر بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ 796 کلومیٹر چمن۔کوئٹہ۔کراچی شاہراہ کو دوہرا کرنے کا کام اسی سال شروع کردیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ شاہراہوں کی تعمیر و توسیع سے نہ صرف بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا بلکہ سی پیک کے ذریعے پورے خطے میں معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ اس موقع پر چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیپٹن(ر) محمد خرم آغا نے منصوبوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس کو دوہرا کرنے کا منصوبہ کوئٹہ شہر میں ٹر یفک نظام کو بہتر بنانے کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔اس کی لمبائی 22.7کلو میٹر ہے اور کنٹر یکٹ کی لاگت 3938 ملین روپے سے زائد ہے۔سال 2020-21میں اس منصوبے کے لئے 1500 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔دو لین(اضافی) پر مشتمل اس سڑک کی چوڑائی 7.3میٹر ہو گی۔ہموار علاقہ میں رفتار کی حد 100کلو میٹر فی گھنٹہ جبکہ پہاڑی علاقہ میں 80کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی۔اس منصوبے 2 سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس کو دوہرا کرنے سے کوئٹہ شہر کے اندر ٹریفک کے بہاؤ میں آسانی ہوگی اور بھاری ٹریفک شہر میں داخل ہوئے بغیر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگی۔اسی طرح ڈیرہ مراد جمالی کی تعمیر سے حادثات کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی اور شہر میں ٹریفک کے رش سے نجات ملے گی۔ مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔اسی طرح ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس کی لمبائی 11کلو میٹر سے ز ائد ہوگی۔سڑ ک کی چوڑائی7.3 میٹرجبکہ دونوں طرف 3 میٹر چوڑا شولڈر بھی ہوگا۔اس بائی پاس میں 31کلورٹس اور ایک پل تعمیر کیا جائے گا۔اس منصوبے پر1456 ملین روپے سے زائد لاگت کا تخمینہ ہے اور اسے18ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔اس وقت ڈیرہ مراد جمالی (N-65) کے مقام پر اوسطاً 6342 گاڑیاں روزانہ گزرتی ہیں اور بائی پاس کی تعمیر سے ٹریفک کے حجم میں اضافہ ہوگا۔ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیپٹن (ر) محمد خرم آغا نے بتایا کہ زیارت موڑ۔کچ۔ ہرنائی۔سنجاوی روڈ کی تعمیر کا منصوبہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔162 کلومیٹر سے زائد اس منصوبے کو دو پیکجز میں مکمل کیا جائے گا،جس میں موجودہ سڑک کی بحالی اور اس کوچوڑا کرنا شامل ہے۔اس منصوبے کے پی سی ون کی لاگت 8379 ملین روپے سے زائد ہے۔اس سڑک کی تعمیر کے دوران 12پل اور 415 کلورٹس بھی تعمیر کئے جائیں گے۔ اس سڑک کی تعمیر سے اس علاقے میں معاشی اور معاشرتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا،جبکہ 8611 کے قریب لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔اس منصوبے کو دوسال میں مکمل کیا جائے گا۔
Tuesday, 27 April 2021
#Ahmad_Shah_abdali#پانی_پت کی تیسری لڑائی #افغانستان کے بادشاہ #احمدشاہ_ابدالیؒ اور #مرہٹہ سلطنت کے سپہ سالار سداشو راؤ بھاؤ کے درمیان 14 جنوری 1761ء کو دہلی سے 60 میل دور شمال میں واقع پانی پت کے تاریخی مقام میں ہوئی۔احمد شاہ ابدالیؒ ایک سچا اور کھرا، نیک سیرت، صالح، دلیر، جراءت مند، حوصلہ مند اور مفاہمتی مسلمان حکمران اور تجربہ کار جنگجو اور سپہ سالار تھا۔ احمد شاہ ابدالی جدید افغانستان کے بانی تھے۔ افغانی آپ کو احمد شاہ بابا کے نام سے پکارتے ہیں۔ جبکہ مرہٹے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مرہٹے جنگجو اور بہادر لوگ تھے۔ مرہٹے، سکھ اور دیہاتی ہندو ساتھ مل گئے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا یعنی پہلے افغانوں کو پنجاب سے پھر مغلوں کو دہلی سے نکالنا۔ اس طرح وہ ہندوستان سے اسلامی سلطنت کی ہر علامت کو ختم کرکے مرہٹہ اور خالصہ راج قائم کرنا چاہتے تھے۔مرہٹوں نے درجنوں جنگوں میں مغلوں کو شکست دے دی۔ شہزادے جانشینی کی جنگیں لڑتے رہے اور مرہٹے اپنی فوجی طاقت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ 1755ء میں دہلی تک پہنچ گئے۔ مغل حکومت ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ 1760ء تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ 1758 میں پنجاب کے اہم شہر امرتسر، پھر اسی سال لاہور، پشاور اور اٹک تک کے علاقے فتح کرلئے۔ پنجاب سے افغانوں کے مکمل انخلاء اور پشاور پر قبضے کے بعد مرہٹوں کی ہمت بہت بڑھ گئی۔ مرہٹوں کے سربراہ بالاجی پیشوا نے اپنے مرکز "پونا"میں تمام مرہٹے سردار جمع کرکے اپنے (یعنی مرہٹے) اقتدار کو عروج تک لے جانے، زوال پذیر مغل سلطنت سے جلد ازجلد نجات حاصل کرنے اور احمد شاہ ابدالی کا زور ٹوٹنے کے حوالے سے ایک بہت بڑا مشاورتی اجلاس طلب کیا۔اجلاس کے دوران سپہ سالار بھاؤ نے پرجوش لہجے میں کہا: "محمود غزنوی کے حملوں سے ہمارے دلوں پر جو زخم لگے وہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اب تک مٹے نہیں۔ ہم سومنات کی مورتی کی بےعزتی نہیں بولے۔ آج ہمارے پاس اتنی قوت ہے کہ ہم مسلمانوں سے بدلہ لےسکے۔ سومنات کی مورتی ہم شاہجہان کی تعمیر کردہ جامع مسجد دہلی کے ممبر پر نصب کریں گے اور افغانستان میں گھس کر محمود غزنوی کا مقبرہ مسمار کر دیں گے۔"بالاجی پیشوا نے اس کے جذبات کو سراہتے ہوئے کہا: "میرا ارادہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں ہندوستان کو مسلمانوں سے صاف کر دینے کے بعد ایسا انتظام کر دینا چاہتا ہوں کہ آئندہ کوئی مسلمان ہمارے ملک پر حملے کا تصور بھی نہ کر سکے۔"مشاورت میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ پہلے دہلی پر حملہ کرکے مغل بادشاہ کی جگہ بالاجی پیشوا کے بیٹے بسواس راؤ کو تخت نشین کرایا جائے اور پھر فوج کی کمان بھاؤ کے ہاتھ میں دےکر وہ پنجاب کو روندتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوجائے۔اس تاریخی مشاورت کے فیصلے نے ہندوؤں میں جوش اور امنگوں کی ایک لہر دوڑا دی اور ہر طرف سے مرہٹے سردار اپنی اپنی فوج لےکر پونا جمع ہونے لگے۔ ہندوؤں کو یقین تھا کہ عنقریب پوری دنیا کے مالک وہی ہوں گے، ہر طرف ان کے بتوں کی خدائی تسلیم کی جائےگی اور مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ ہر نوجوان فوج میں بھرتی کےلئے بےچین تھا تاکہ کابل اور قندھار کی لوٹ مار میں اسے بھی حصہ مل سکے۔ان دنوں دہلی کے عظیم محدث حضرت شاہ ولی اللہ رح جنہوں نے برصغیر میں حدیث کی اشاعت میں سب سے بنیادی کردار ادا کیاتھا، مرہٹوں کے طوفان سے بڑا اندیشہ محسوس کررہےتھے اور چاہتےتھے کہ احمد شاہ ابدالی ایک بار پھر ہندوستان آکر یہاں کے مسلمانوں کا نجات دہندہ ثابت ہوں۔ ہندوستان کی سیاست کا اہم رکن نواب نجیب الدولہ بھی انکا ہم فکر تھا۔ یہ احمدشاہ ابدالیؒ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ اس سے قبل ابدالی یہاں چار بڑی مہمات کرچکاتھا۔ مگر اب حالات بتا رہےتھے کہ جب تک بت پرستوں کی سرزمین کے قلب میں گھس کر مرہٹوں کی کمر نہ توڑ دی جائے یہاں کے مسلمانوں کا مستقبل ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتا۔شاہ صاحب رح نے نواب نجیب الدولہ کی معرفت سے احمدشاہ ابدالیؒ کو ہندوستان کے مشرکین کے خلاف بھرپور حملے کی دعوت دی اور اپنے خط میں تحریر فرمایا:"ہم اللہ بزرگ وبرتر گھر کے نام پر آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس طرف توجہ فرما کر دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں آپ کے نامہ اعمال میں اجرِعظیم لکھا جائے اور آپ کا شمار اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں ہوجائے۔ آپ کو دنیا میں بے اندازہ غنیمتیں حاصل ہوں اور مسلمانوں کو کفار کے چنگل سے نجات حاصل ہو۔"احمدشاہ ابدالیؒ کو مرہٹوں کے اس سیلاب کا علم ہوچکا تھا جو پونا سے پنجاب کے طرف امڈرہاتھا۔ اب تک اسے اتنے بڑے لشکر سے مقابلے کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا، اس لیے اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور کمک کے بغیر ایک بہت بڑی اور غیر یقینی جنگ لڑنے کا تصور اس کےلیے پریشان کن تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اسے تحریر فرمایا: " مرہٹوں کو شکست دینا آسان کام ہے, شرط یہ ہے کہ مجاہدین اسلام کمر کس لیں۔۔۔ درحقیقت مرہٹے تعداد میں زیادہ نہیں مگر دوسرے بہت سے گروہ ان کے ساتھ شامل ہو چکےہیں۔ مرہٹہ قوم طاقتور نہیں ہے۔ ان کی توجہ بس اپنی افواج جمع کرنے پر ہے جو تعداد میں چیونٹیوں ٹڈیوں سے بھی زیادہ ہو۔ جہاں تک شجاعت اور عسکری سازوسامان کا تعلق ہے وہ ان کے پاس زیادہ نہیں ہے۔"حضرت شاہ صاحب کہ ان پرسوز، بصیرت افروز اور حوصلہ انگیز خطوط نے ابدالی کی ہمت کو مہمیز دی اور ملت اسلامیہ کا یہ شمشیر زن ہر خوف وخطر سے بے پرواہ ہوکر ہندوستان پر اس یادگار حملے کیلئے تیار ہوگیا جس نے تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کیلئے نقش کردیا۔احمدشاہ ابدالیؒ ستمبر 1759ء میں قندھار سے 15 ہزار سواروں کے ساتھ مرہٹوں اور سکھوں کی فتنے کو تہہ تیغ کرنے کی مہم پر ہندوستان روانہ ہوئے۔ راستے میں بلوچستان اور اردگرد سے اور تیمور شاہ (جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا) اور سابق حاکمِ لاہور جہان خان اپنی نفری کےساتھ اس سے آملے اور سپاہی 30 ہزار تک پہنچ گئے۔ پنجاب کے نئے مرہٹہ حاکم نے افغان لشکر کی آمد کا سن کر لاہور خالی کردیا اور اپنے جھتے سمیت سہارنپور میں سندھیا کے کیمپ میں پناہ لی۔ احمد شاہ کا لشکر پنجاب میں داخل ہوا تو سکھ اپنے گھروں میں دبک گئے۔احمد شاہ مرہٹوں سے فیصلہ کن جنگ میں تاخیر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے اسے دہلی پہنچ کر مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کے اس قدیم مرکز کو مرہٹوں کی لوٹ مار سے بچانا تھا۔ وہ شاہ عالمگیر ثانی کے اقتدار کو بھی مضبوط کرنا چاہتا تھا مگر راستے میں اسے اطلاع ملی کہ دہلی کی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوچکی ہے اور مغل بادشاہ، غازی الدین کی سازش کا شکار ہوکر مارا گیا ہے۔ یہ صورت حال ابدالی کےلیے غیر متوقع بھی تھی۔ اس وقت دشمن تین سمت سے ابدالی کی افواج کے گرد موجود تھا۔ دہلی میں غازی الدین اور مرہٹہ سردار جنکوراوجی ، دیتاجی سندھیا دہلی کے راستے اور ہولکر دریائے جمنا کے ساحل پر اپنی فوج لیے کھڑا تھا۔ ابدالی سہارنپور پہنچا تو نواب نجیب الدولہ، حافظ رحمت خان، سعداللہ خان، عنایت خان، قطب خان اور دیگر روہیلہ امراء نے دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ یہ چالیس ہزار کا لشکر دہلی کی طرف روانہ ہوگیا۔جنوری 1760ء کو دیتاجی سندھیا بیس ہزار لشکر کےساتھ ابدالی فوج کے مقابلے پر نکل آیا، ایک خونریز معرکے کے بعد مسلمان فتح یاب ہوئے اور دیتاجی گھوڑے سے گر کر مارا گیا۔ اس شاندار فتح کے بعد احمد شاہ دہلی سے پانچ میل دور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح کے مزار پر حاضری دی۔ دہلی کی حفاظت کے لیے چند دن قیام کیا، پھر سرکش جاٹوں کے رہنما راجہ سورج مَل کو سزا دینے کے لئے جنوب کا رُخ کیا۔ فروری میں جاٹوں کے مرکز پر حملے کئے جس سے جاٹوں میں بددلی پھیلی گئی۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ جاٹوں کو مرہٹوں کےساتھ ملنے سے روکے اور اپنی جانب الجھائے رکھے۔یہ مقصد پورا ہوتے ہی اس نے مرہٹوں کے اس لشکر کی جانب کوچ کیا جو دہلی کے آس پاس دریائے جمنا کے پار منڈلا رہا تھا ۔ احمد شاہ اسے دہلی پر قبضہ سے روکنا چاہتا تھا مگر مرہٹہ سردار ہولکر نے احمد شاہ کا سامنا نہ کیا۔ وہ کبھی ریگستانوں اور کبھی جنگل میں غائب ہو جاتا اور اچانک ابدالی فوج پر حملہ کرکے پھر روپوش ہوجاتا۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا۔ ابدالی فوج نے ہولکر کے لشکر کا پڑاؤ معلوم کیا اور رات کی تاریکی میں حملہ کرکے مرہٹوں کے چھکے چھڑا دیے۔ ہولکر نے جم کر لڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس زور دار لڑائی میں مرہٹوں کے کئی بڑے بڑے سردار اور سپاہی مارے گئے۔ ہولکر صرف تین سو آدمیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ سکا۔ دہلی پر قبضے کا خیال ترک کرکے اب وہ آگرہ کی طرف دوڑ رہا تھا۔ دہلی کے گرد ونواح کو مرہٹوں سے پاک کرکے احمد شاہ ابدالی مغلوں کے اس پایہ تخت میں داخل ہوا۔ اس نے شہر کے نظم ونسق کو درست کیا اور قلعے سمیت تمام دفاعی انتظامات کے استحکام کا کام شروع کرایا۔ کچھ دنوں بعد ابدالی نے دو ہزار سپاہی دہلی کی حفاظت کےلئے چھوڑ کر 72 میل دور جمنا کے مشرقی کنارے پرانوپ شہر کو اپنی چھاؤنی بنالیا۔ اب اسے مرہٹوں کے ردعمل کا انتظار تھا۔1760ء کا تقریباً پورا سال احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کی جھڑپوں میں گزرا۔ مرہٹے کسی میدان میں اپنی پوری طاقت سامنے نہ لائے۔ دراصل یہ ان کا طریقہ جنگ تھا کہ چھوٹے چھوٹے گھڑسوار دستوں کے ساتھ دشمن پر متعدد اطراف سے حملہ کرکے اس کی طاقت کو منتشر کردی جائے۔ مغل کے بھاری بھرکم فوج کے خلاف یہ چال کامیاب رہی مگر افغان جانبازوں نے اس صورت حال کا بڑی ذہانت اور پامردی سے مقابلہ کیا اور تمام جھڑپوں اور معرکوں میں مرہٹے ہمیشہ شکست کھا کر پسپا ہوتے رہے۔احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان میں نئے اتحادیوں کی تلاش جاری رکھی اور اپنی طاقت کو مقامی سرداروں اور نوابوں کی مدد سے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی۔ روہیلہ سردار احمد خان بنگش سپہ سالار ابدالی کے پڑاؤ میں حاضری دی اور ہر طرح تعاون کا یقین دلایا۔ اس سال جولائی کے مہینے میں شاہ نے علی گڑھ میں قیام کے دوران اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ نواب شجاع الدولہ ہندوستان کے طاقتور ترین امراء میں سے تھے۔ احمد شاہ بنگش نامور شجاع الدولہ نے دس ہزار سپاہی پیش کئے۔ کچھ دنوں بعد قندھار سے دس ہزار مزید تازہ دم سپاہیوں کی کمک آگئی۔ اس طرح فوج کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ گئی۔مرہٹہ سردار یہ کامیابیوں دیکھ کر سخت پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پونا میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے والی مرہٹوں کی اصل طاقت جلد از جلد ظاہر ہو اور احمد شاہ سے فیصلہ کن ٹکر لے۔آخر کار ساڑھے تین لاکھ مرہٹوں کا سیلاب "پونا" سے نکل کر جون کو گوالیار پہنچا۔ جولائی کے وسط میں یہ لشکر آگرہ پہنچا جہاں مرہٹہ سالار راؤ ہولکر اور جاٹوں کا سردار سورج مَل بھی اپنی فوجوں کے ساتھ ان سے آملے۔ یہ وہ دن تھے جب احمد شاہ ابدالی بلند شہر کے قریب انوپ شہر میں پڑاؤ ڈال کر اودھ کے نواب شجاع الدولہ سے مذاکرات کررہا تھا۔ برسات کا موسم تھا ، دریائے جمنا طغیانی پر تھا اور ابدالی فوج مرہٹہ فوجوں کو دہلی کی جانب پیش قدمی سے روکنے کے لیے دریا عبور نہیں کرسکتی تھیں۔ مرہٹہ لشکر آگرہ سے دہلی پر حملے کے لیے چلا تو جوش و خروش سے سہمی جاتی تھی۔ قدم قدم پر مسلمانوں کی بستیاں لوٹی جارہی تھیں، دیہات اُجڑ رہے تھے۔ ہزاروں مسلمانوں نے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں میں پناہ لے لی تاکہ مرہٹوں کی غارت گری سے محفوظ رہیں۔اس وقت ہندوستان کے مؤرخ کا قلم تھررہا تھا کہ آیندہ صفحے پر شاید مسلمانوں کی مکمل تباہی کے سوا کچھ تحریر نہ ہوگا۔۔۔۔ یقیناً ایسا ہی ہوتا اگر اس وقت اللّٰہ تعالیٰ کی تائید غیبی سے مسلمانوں کا محافظ احمد شاہ ابدالی میدان میں موجود نہ ہوتا۔ 22 جولائی 1760ء کو مرہٹوں نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کرلیا، شاہی خزانے میں انہیں کوئی خاص دولت ہاتھ نہ لگی اسلئے کہ مغل حکومت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ البتہ انہوں نے لال قلعہ دہلی کی سونے کی چھت اترواکر اپنے لیے سونے کے سکے بنوائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کی شاہی مسجد کے منبر پر رام کی مورتی رکھیں گے، جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بھاؤ کے ساتھ تین لاکھ افراد کا لشکر دہلی میں ایک ماہ کے قیام کے دوران خوراک ورسد کی کمی کا شکار ہوگیا۔ ستمبر کے اواخر میں بھاؤ نے فوج کو لےکر گنج پورہ پر چھڑائی کرکے مسلمانوں کا بےدردی سے قتل عام کیا اور خوراک ورسد سمیت سب کچھ لٹ لیا۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر مرہٹوں کے قبضے کی خبر بڑے تحمل کے ساتھ سنی ، وہ جانتا تھا کہ مرہٹوں سے عنقریب کھلے میدان میں بدلہ لیا جائے گا۔ مگر گنج پورہ کے مرکزِ خوراک پر قبضہ اور مسلمانوں کی قتل عام اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس نے عہد کیا کہ مرہٹوں کو اس بری طرح کچلے گا کہ ان کی نسلیں یاد کریں گی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: "میں نے زندگی بھر اپنی قوم کی ایسی تذلیل نہیں دیکھی، میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔"اس نے دریا کی طغیانی کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کو پار کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل شاہ نے دو روز تک روزہ رکھا اور اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعائیں کرتا رہا۔ 25 اکتوبر کو افغان جانباز دریائے جمنا کے ٹھاٹھیں مارتے پانی میں اترے مگر پانی انہیں آگے بڑھنے سے روک رہی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے ایک تیر لیا، قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کرکے اس پر دم کیں اور تیر دریا کے بپھرے ہوئے سینے میں پیوست کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کا جوش تھمنے لگا، مجاہدین کی مسرت کا عالم دیدنی تھا، وہ تکبیر کے نعرے بلند کرکے ترتیب کےساتھ گھوڑے جمنا کے لہروں میں ڈالتے گئے۔ ابدالی خود بھی موجوں میں اترگیا۔ دوسری طرف مرہٹے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ مجاہدین اسلام پر تیر برسانا شروع کردیا ۔ دو ہزار مسلمان ڈوب گئے اور 58 ہزار جانبازوں سمیت شام سے پہلے پہلے ابدالی دریا کے پار اُترچکا تھا۔سدا شیو بھاؤ دہلی واپس آ کر فتح کا جشن منا رہا تھا ، کہ اچانک احمد شاہ ابدالی کے دریا عبور کرنے کی اطلاع ملی۔۔۔ ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے فوری طور پر دہلی سے کوچ کیا اور پانی پت کی طرف ہٹنے لگا کیونکہ اس کے لاکھوں سپاہیوں کی صف بندی پانی پت کے وسیع میدان کےسوا کہیں نہیں ہوسکتی تھی۔بھاؤ 29 اکتوبر 1760ء کو اپنے لشکر کے ساتھ پانی پت کے میدان میں پہنچا۔ احمد شاہ ابدالی دریائے جمنا عبور کرکے تقریباً 16 میل کا فیصلہ طے کر کے بھاؤ کے لشکر کے بالمقابل آگیا۔یہ پانی پت کا وہ تاریخی میدان تھا جہاں 1526ء میں بابر اور ابرہیم لودھی کے معرکے نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی تھی۔ پانی پت کا یہ میدان ایک بار پھر تاریخِ ہند کا ایک نیا باب دیکھنے والا تھا۔ ایک طرف ہندوستان کی تمام باطل قوتیں اب یہاں جمع تھیں تو دوسری طرف اس سیلاب کے مقابلے میں مٹھی بھر مسلمان جانباز تھیں۔ پانی پت کے میدان میں دونوں فریق تقریباً پانچ میل کا فاصلہ رکھ کر پڑاؤ ہوئے تھے۔ دو ماہ تک (نومبر ، دسمبر) دونوں فوجوں میں کئی چھوٹے بڑے جھڑپیں ہوئیں۔ مرہٹے فوج خوراک ورسد کی کمی اور تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے بغاوت پر اترنے والی تھی کہ بھاؤ نے ابدالی کو صلح کی پیشکش کی اور پس پردہ جنگ کیلئے اپنے لشکر کو تیار کردیا۔نواب شجاع الدولہ مان گیا، مگر دہلی کے نواب نجیب الدولہ نے اس سے انکار کیا اور کہا: " مرہٹے دہلی کے لال قلعے پر قبضہ کر چکے ہیں، گنج پورہ کے 20 ہزار افغانوں کے خوں میں ہاتھ رنگ چکے ہیں، آج اگر ہم نے صلح کرلی تو کل کو بادشاہ سلامت کی افغان واپسی کے بعد یہ تازہ دم افواج کے ساتھ مسلمانوں پر یلغار کردیں گے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ختم کر ڈالیں گے۔"یہ اہم مشاورت پانی پت کے میدان میں 13 اور14 جنوری کی درمیانی شب ہو رہی تھی نجیب الدولہ کی حقیقت کشاہ تقریر نے سب کی آنکھیں کھول دیں۔ احمد شاہ ابدالی کو بھی اطمینان ہوگیا کہ فیصلہ میدان جنگ میں تلوار کی دھار ہی سے ہوگا، تاہم انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ بھاؤ کا پیغام صلح بد نیتی پر مبنی ہے۔صبح ہوئی تو حالات بدل تھے۔ بھاؤ کی لشکر پیش قدمی کررہے تھے۔ احمد شاہ تیزی سے اپنے خیمے سے باہر نکلا ، بدلتے حالات کا جائزہ لیا اور فوری طور پر فوج کو فوراً تیار ہونے کا حکم دیا۔ افغان سپاھی جو بے خبر سو رہے تھے یکدم بیدار ہوئے اور حیرت انگیز طور پر چند لمحوں میں اسلحوں سمیت صف آرا ہوئے۔احمد شاہ ابدالی کے افغان لشکر کی تعداد 26 ہزار گھڑسواروں پر مشتمل تھی۔ ان کے ساتھ مسلمان امراء (روہیلہ، نجیب الدولہ، دوآب کے افغان اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ) کے 40 ہزار پیادہ اور گھڑ سوار سپاہی تھے۔ شاہ نے 66 ہزار سپاہیوں کی صف بندی کی۔ مقابلے میں مرہٹوں کے لشکر کی تعداد 3 لاکھ سے اوپر تھی۔ ایک مؤرخ لکھتے ہیں کہ مرہٹہ فوج کی تعداد 5 لاکھ تھی۔14 جنوری 1761ء کی صبح کو پانی پت کے میدان میں دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہ جنگ طلوع آفتاب سے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی۔ روہیلہ سپاہیوں نے بہادری کی داستان رقم کی۔ ابدالی فوج کے سپاہیوں کا رعب مرہٹوں پر چھایا رہا۔ آخر کار زبردست لڑائی کے بعد سہ پہر کو مسلمانوں نے تین لاکھ مرہٹوں کے سیلاب کو کچل کر فتح حاصل کی۔اس تاریخی جنگ میں 20 ہزار کے قریب مسلمان جانباز شہید ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ مرہٹے مار کر جہنم رسید کئے گئے۔ 22 ہزار مرہٹے پکڑ کر قیدی بنالئےگئے۔ پچاس ہزار کے قریب بھاگنے اور بستیوں میں چھپنے کے دوران مارے گئے۔ بمشکل ایک لاکھ سے کم سپانہ بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ مرہٹوں سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مرہٹے شکست کھاکر بھاگے تو ان کا پیچھا کرکے انہیں مارنے والوں میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ عورتیں، بچے اور دیہات کے ہندو بھی شامل تھیں جسے بےدردی سے مارے اور لوٹے گئے تھے۔ اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے۔ مسلمانوں نے اس جنگ میں ہزاروں ہاتھی اور اونٹ، لاکھوں گھوڑے، لاکھوں نقد روپے اور لاکھوں مویشیاں حاصل کئے۔اس شاندار فتح کے بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرکے شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا۔ مغل سلطنت ہی کو ہندوستان کے مسلمانوں کی سطوت و شوکت کا وارث قرار دیا اور خود کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے گریز کیا۔ شاہ نے تمام ہندوستانی امراء اور سرداروں کو ہدایت کی کہ مغل سلطنت کے وارث شاہ عالم ثانی کو ہندوستان کا فرمانروا تسلیم کریں۔ سلطنت دہلی کے اس انتظام کے بعد احمد شاہ ابدالی دو ماہ بعد 20 مارچ 1761ء کو دہلی سے واپس افغانستان روانہ ہوگیا۔#نتائج ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا نام، شان و شوکت، عزت اور وقار بلند ہوگیا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی وجود باقی رہ گئی۔مرہٹوں کا خاتمہ ہو گیا۔ ہندوستان پر ان کی حکومت کی خواہش اور شاہی مسجد دہلی کے منبر پر رام کی مورتی لگانے کا خواب بکھر گیا۔مرہٹوں کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔مرہٹے پھر کبھی اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے۔اللہ تعالیٰ اس عظیم مسلم فاتح #احمدشاہ_بابا کی قبر کو نور سے بھر دے
Saturday, 24 April 2021
#دنیا کی کُل 7 ارب 60 کروڑ آبادی کو فی کس 20 #ڈالر کے حساب سے 152 ارب ڈالر میں #کرونا کی #ویکسین لگائی جاسکتی ہے، دوسری طرف دنیا کا #ملٹری بجٹ لگ بھگ 2000 ارب ڈالر سالانہ ہے۔دنیا بھر میں 250 ڈالر فی کس سے زائد #دفاع پر خرچ ہو رہا ہے لیکن 20 ڈالر فی کس ویکسین پر خرچ نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ دفاعی بجٹ کا صرف 8٪ کم کرکے کرہ ارض کے ہر انسان کو کرونا ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔#انسانوں کی ترجیح #انسانیت کو بچانا نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے۔
Thursday, 22 April 2021
زکوٰۃ کسے دینا جائز ہے اور کسے دینا جائز نہیں؟ بقلم: مولانا ندیم احمد انصاریزکوٰۃ کا نظام دراصل غریب مسلمان کی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اسے اس کے صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مستحقین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم جاکر مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرو، بلکہ ہر مقام پر مال داروں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحق تک زکوٰۃ کے مال کا پہنچانا خود زکوٰۃ ادا کرنے والے پر لازم و ضروری ہے۔ اس کے باوجود آج بعض لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے اور بعض صحیح حساب سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور بعض حساب تو صحیح رکھتے ہیں لیکن مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ افسوس کہ ہمارے آس پاس ایسے ہی لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔زکوٰۃ کے مصارف:شریعت نے جس طرح زکوٰۃ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے اسی طرح مستحق کو زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہے۔ فقہاے اسلام کی صراحت کے مطابق درجِ تمام لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؛(۱) فقیر: یعنی جو اتنے مال کا مالک نہ ہو جس پر خود زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، خواہ وہ کمانے کی اہلیت رکھتا ہو۔(۲)مسکین: یعنی وہ جس کے پاس کسی قسم کا کچھ بھی مال نہ ہو۔(۳) مُکاتب: یعنی وہ غلام جس نے اپنے آقا سے طے کرلیا ہو کہ مخصوص ومتعین رقم ادا کردینے پر وہ آزاد ہوجائے گا۔(۴) مقروض: یعنی ایسا قرض دار جس کے پاس قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اتنا مال نہ بچے، جس کی قیمت بقدرِنصاب ہو۔(۵) فی سبیل اللہ:یعنی ایسا شخص جو غازیوں یا حاجیوں سے بچھڑ گیا ہو، مثلاً کوئی لشکر یا حاجیوں کا کوئی قافلہ جارہا تھا،یہ شخص کسی ضرورت سے قافلے سے جدا ہوا اور پھر راستہ بھول گیا یا کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ وہ قافلے تک نہ پہنچ سکا۔(۶) ابن السبیل: یعنی وہ مسافر جو سفر کے دوران ضرورت مند ہوگیا۔(۷) عاملِ زکوٰۃ: یعنی وہ شخص جو اسلامی حکومت کی جانب سے عشرو زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر ہو، اس کو اتنا مال دیا جائے گا جو اس کے اور اس کے مدد گاروں یعنی کارندوں اور سپاہیوں کے لئے کافی ہوجائے۔ (مراقی الفلاح،ہندیہ)زکوٰۃ کی ادایگی کے مراتب:ذی رحم رشتےداروں کو زکوٰۃ دینا سب سے بہتر ہے، پھر اپنے پڑوسیوں کو، پھر اپنے محلّے والوں کو، پھر اپنے پیشے والوں کو، پھر اپنے شہر والوں کو۔ المختصر! جو جتنا مستحق جتنا زیادہ قریب ہو اس کا اتنا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ وہ اہلِ علم اور طالبِ علم جو کہ فقیر اور زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو زکوٰۃ دینے میں انشاء اللہ دو اجر ملیں گے؛ (۱) زکوٰۃ کا اور (۲) علم کی اشاعت اور خدمت ِدین کا۔بس یہ خیال رہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے، اس کا شمار اس فہرست میں نہ ہو جنھیں زکوٰۃ دینا جائز ہی نہیں۔ (نورالایضاح)جنھیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں:بعض افراد ایسے بھی ہیں جنھیں زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، من جملہ ان کے درجِ ذیل حضرات کو زکاہ کی رقم نہیں دی جا سکتی لیکن نفلی صدقات انھیں بھی دیے جا سکتے ہیں:(۱) زکوٰۃ دینے والے کے اصول یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، اور نانا، نانی وغیرہ۔(۲) زکوٰۃ دینے والے کے فروع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی اور نواسا، نواسی وغیرہ۔(۳) زکوٰۃ دینے والے کی بیوی یا زکوٰۃ دینے والی کا شوہر۔(۴) اپنا مملوک غلام یا مُکاتب۔(۵) ایسا مال دار، جو کسی بھی ایسی چیز کا مالک ہو جو نصاب کی قیمت کے برابر ہو۔(۶) سادات اور بنو ہاشم کی آل و اولاد۔(۷) کافر۔ (مراقی الفلاح، ہندیہ) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
#زکوٰۃ کے متعلق انتہائی اہم معلومات 01 lakh. 👉 250002 lakh. 👉 500003 lakh. 👉 7500. 04 lakh. 👉 1000005 lakh. 👉 1250006 lakh. 👉 1500007 lakh. 👉 1750008 lakh. 👉 2000009 lakh. 👉 2250010 lakh. 👉 2500020 lakh. 👉 5000030 lakh. 👉 7500040 lakh. 👉 10000050 lakh. 👉 12500001 cror. 👉 25000002 caror. 👉 500000ہم زکوٰۃ کیسےادا کریں؟اکثرمسلمان رمضان المبارک میں زکاة ادا کرتے ہیں اس لیےاللہ کی توفیق سےیہ تحریر پڑھنےکےبعدآپ اس قابل ہوجائیں گےکہ آپ جان سکیں🔹سونا چاندی🔸زمین کی پیداوار🔹مال تجارت🔸جانور🔹پلاٹ🔸کرایہ پر دیےگئے مکان🔹گاڑیوں اوردکان وغیرہ کی زکاۃ کیسے اداکی جاتی ہے۔1۔زکوٰۃکا انکار کرنے والاکافر ہے۔(حم السجدۃآیت نمبر6-7)2۔زکوٰۃادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائےگا۔(التوبہ34-35)📌3۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم قحط سالی کاشکار ہوجاتی ہے۔(طبرانی)4۔زکاة كامنکرجوزکاۃادانہیں کرتااسکی نماز،روزہ،حج سب بیکار اور حبث ہیں۔5 ۔زکوٰۃاداکرنے والےقیامت کے دن ہر قسم کےغم اورخوف سےمحفوظ ہونگے۔(البقرہ277)6۔زکوٰۃ کی ادائیگی گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔(التوبہ103)زکوٰۃکا حکمہر مال دارمسلمان مردہویاعورت پر زکوٰۃ واجب ہے۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ ،عاقل ہویا غیر عاقل بشرط یہ کہ وہ صاحب نصاب ہو۔نوٹ۔سود،رشوت،چوری ڈکیتی،اور دیگرحرام ذرائع سےکمایا ہوا مال ان سے زکاۃدینے کابالکل فائدہ نہیں ہوگا۔صرف حلال کمائی سے دی گئی زکوٰۃ قابل قبول ہے۔زکوٰۃ کتنی چیزوں پر ہےزکوٰۃ چار چیزوں پر فرض ہے ۔1۔سونا چاندی2۔زمین کی پیداوار3۔مال تجارت4۔جانور۔⬅سونے کی زکوٰۃ87گرام یعنی ساڑھےسات تولے سونا پر زکاۃ واجب ہے(ابن ماجہ1/1448)نوٹ۔سونا محفوظ جگہ ہو یا استعمال میں ہر ایک پرزکاۃ واجب ہے۔(سنن ابودائودکتاب الزکاۃ اوردیکھئے حاکم جز اول صفحہ 390 ۔فتح الباری جز چار صفحہ 13)⬅چاندی کی زکوٰۃ612گرام یعنی ساڑھےباون تولے چاندی پر زکاۃواجب ہے اس سے کم وزن پر نہیں۔(ابن ماجہ)✅زکوٰۃ کی شرحزکاۃ کی شرح بلحاظ قیمت یا بلحاظ وزن اڑھائی فیصد ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)زمین کی پیدا وار پر زکوٰۃمصنوعی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیدا وار اگر پانچ وسق سے زیادہ ہےیعنی(725کلوگرام تقریبا18من)ہےتو زکاۃ یعنی عشر بیسواں حصہ دینا ہوگاورنہ نہیں۔قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی پیداوار پر شرح زکاۃ دسواں حصہ ہے دیکھئے(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)نوٹ: زرعی زمین والےافراد گندم،مکی،چاول،باجرہ،آلو،سورج مکھی،کپاس،گنااوردیگر قسم کی پیداوار سے زکاۃیعنی (عشر )بیسواں حصہ ہرپیداوار سےنکالیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)⬅اونٹوں کی زکوٰۃپانچ اونٹوں کی زکاۃ ایک بکری اور دس اونٹوں کی زکاۃ دو بکریاں ہیں۔پانچ سے کم اونٹوں پر زکاۃ واجب نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)⬅بھینسوں اور گایوں کی زکوٰۃ30گائیوں پر ایک بکری زکوٰۃہے۔40گائیوں پردوسال سے بڑا بچھڑا زکاۃ دیں۔(ترمذی1/509)بھینسوں کی زکوٰۃکی شرح بھی گائیوں کی طرح ہے۔بھیڑبکریوں کی زکوٰۃ40سے ایک سو بیس بھیڑ بکریوں پر ایک بکری زکاۃ ہے۔120 سےلےکر200تک دو بکریاں زکاۃ۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ)چالیس بکریوں سے کم پرزکاۃ نہیں۔کرایہ پر دیئے گئےمکان پر زکوٰۃکرایہ پردیئے گئے مکان پر زکوٰۃنہیں لیکن اگراسکاکرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے جو نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو پھراس کرائے پر زکوٰۃ واجب ہے۔اگر کرایہ سال پورا ہونے سے پہلے خرچ ہو جائے توپھر زکوٰۃنہیں۔شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد ہوگی۔گاڑیوں پر زکوٰۃکرایہ پر چلنےوالی گاڑیوں پر زکوٰۃ نہیں بلکہ اسکے کرایہ پر ہےوہ بھی اس شرط کےساتھ کہ کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے اور نصاب تک پہنچ جائےنوٹ:گھریلو استعمال والی گاڑیوں،جانوروں،حفاظتی ہتھیار۔مکان وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں (صحیح بخاری)سامان تجارت پر زکوٰۃدکان کسی بھی قسم کی ہو اسکےسامان تجارت پر زکوٰۃدینا واجب ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے اوراس پرایک سال گزر جائے۔نوٹ:دکان کےتمام مال کا حساب کر کے اسکا چالیسواں حصہ زکاۃ دیں یعنی ۔دکان کی اس آمدنی پرزکاۃنہیں جوساتھ ساتھ خرچ ہوتی رہے صرف اس آمدنی پر زکاہ دینا ہوگی جوبنک وغیرہ میں پورا سال پڑی رہے اور وہ پیسے اتنے ہوکہ انسے ساڑھےباون تولےچاندی خریدی جاسکےپلاٹ یا زمین پر زکوٰۃجو پلاٹ منافع حاصل کرنے کے لیئے خریدا ہو اس پر زکاۃ ہوگی ذاتی استعمال کے لیئے خریدا گیا پلاٹ پر زکاۃ نہیں۔(سنن ابی دائودکتاب الزکاۃ حدیث نمبر1562)کس کس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ماں باپ اور اولاد کےسوا سب زکاۃ کےمستحق مسلمانوں کو زکاۃ دی جاسکتی ہے۔والدین اور اولاد پر اصل مال خرچ کریں زکاۃ نہیں۔نوٹ:(ماں باپ میں دادا دادی ، نانا نانی اور اولاد میں پوتے پوتیاں،نواسیاں نواسے بھی شامل ہیں۔( ابن باز)زکوٰۃکےمستحق لوگ1۔مساکین(حاجت مند)2۔غریب 3۔ زکاۃوصول کرنےوالے4۔مقروض5۔غیرمسلم جواسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتاہو6۔قیدی7۔ *مجاھدین*8۔مسافر (سورۃالتوبہ60)Q.1 سوال: زکوة کے لغوی معنی بتائیے؟جواب: پاکی اور بڑھو تری کے ہیں۔Q2 سوال: زکوة کی شرعی تعریف کیجئے؟جواب: مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ کسی مستحقِ زکوۃ کومالک بنانا۔Q 3 سوال: کتناسونا ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟جواب: ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہوQ4 سوال: کتنی چاندی ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟جواب: ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ ہو۔Q5 سوال: کتنا روپیہ ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔Q6 سوال: کتنا مالِ تجارت ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔Q7 سوال: اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے، کچھ نقد روپیہ ہے، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مالِ تجارت ہے، ان کو ملاکر دیکھا جائےتو ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت بنتی ہےاس صورت میں زکوۃ فرض ہے یا نہیں؟جواب: فرض ہے۔Q8 سوال: چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں؟جواب: فرض ہے۔Q9 سوال: عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں؟جواب: فرض ہے۔Q10 سوال: ایک صاحب نصاب شخص کودرمیان سال میں ۳۵ہزار کی آمدنی ہوئی،تویہ۳۵ ہزار بھی اموالِ زکوۃ میں شامل کئے جائیں گے یا نہیں؟جواب: شامل کئے جائیں گے۔Q 11 سوال: صنعت کار کے پاس دو قسم کا مال ہوتا ہے، ایک خام مال، جو چیزوں کی تیاری میں کام آتا ہے، اور دُوسرا تیار شدہ مال، ان دونوں قسم کے مالوں پر زکوٰة فرض ہےیانہیں؟جواب: فرض ہے۔Q12 سوال: مشینری اور دیگر وہ چیزیں جن کے ذریعہ مال تیار کیا جاتا ہے، ان پر زکوٰة فرض ہے یا نہیں؟جواب: فرض نہیں ہے۔Q13 سوال: استعمال والے زیورات پر زکوٰة ہے یا نہیں؟جواب: زکوٰة ہے۔Q14سوال: زکوٰة انگریزی مہینوں کےحساب سےنکالی جائےگی یاہجری(قمری)مہینوں کےحساب سےنکالی جائےگی؟جواب: قمری مہینوں کے حساب سے نکالی جائےگی۔Q15سوال: پلاٹ اگر اس نیت سے لیا گیا تھا کہ اس کو فروخت کریں گے اس پر زکوٰة واجب ہوگی یانہیں؟جواب: واجب ہوگی۔Q16سوال: پلاٹ خریدتے وقت تو فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی، لیکن بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو اس پر زکوٰة واجب ہےیا نہیں؟جواب: جب فروخت کردیا جاے اور رقم پر ایک سال گزر جاےتب زکوٰة فرض ہے .اگر پہلے سے صاحب نصاب ہےتو یہ رقم نصاب مین مل جاے گیQ17سوال: جو پلاٹ رہائشی مکان کے لئے خریدا گیا ہو اس پر زکوٰة ہےیا نہیں؟جواب: نہیں۔Q18سوال: اگر پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جائے اور فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ خریدا جائے توزکوۃ کس طرح ادا کی جائےگی؟جواب: ان کی کل مالیت پر زکوٰة ہر سال واجب ہوگی۔Q19سوال: جو مکان کرایہ پر دیا ہے،اس کی زکوٰة کا کیا حکم ہے؟جواب: اس کے کرایہ پر جبکہ نصاب کو پہنچے تو زکوٰة واجب ہوگی۔Q20سوال: حج کے لئے رکھی ہوئی رقم پر زکوٰة ہے یا نہیں؟جواب: زکوٰة واجب ہے۔Q21سوال: کسی کوہم زکوٰة د یں اور اس کو بتائیں نہیں تو زکوٰة اداہوجائے گی یانہیں؟جواب: ادا ہوجائے گی۔Q22سوال: ملازم نے اضافی تنخواہ کا مطالبہ کیاتو مالک نے زکوٰة کی نیت سے اضافہ کردیا کیا اس کی زکوٰة ادا ہوئی یا نہیں؟جواب: زکوٰة ادا نہیں ہوئی۔Q23سوال: کیاانکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوٰة ادا ہوجاتی ہے؟جواب: زکوٰة ادا نہیں ہوتی۔Q24سوال: اپنے ماں باپ، اور اپنی اولاد، اسی طرح شوہر بیوی ایک دُوسرے کو زکوٰة دے سکتےہیں یانہیں؟جواب: نہیں۔Q25سوال: جو لوگ خود صاحبِ نصاب ہوں ان کو زکوٰة دینا جائزہےیا نہیں؟جواب: نہیں۔Q26سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان (ہاشمی حضرات) کو زکوٰة دے سکتے ہیں یانہیں؟جواب: نہیں۔Q27سوال: اپنے بھائی، بہن، چچا، بھتیجے، ماموں، بھانجے کو زکوٰة دینا جائز ہےیانہیں؟جواب: جائز ہے اگر مستحق ہیں ۔Q28سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان یعنی: آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر، آلِ عباس اور آلِ حارث بن عبدالمطلب، ان پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو تواس کو زکوٰة دی جاسکتی ہے یا نہیں؟جواب: نہیں۔Q29سوال: اگرسید غریب اور ضرورت مند ہو تو ان کی خدمت کیسے کرنی چاہئے؟جواب: زکوۃ وصدقات کےعلاوہ دُوسرے فنڈ سے۔Q30سوال: سادات کو زکوٰة کیوں نہیں دی جاتی؟جواب: زکوٰة، لوگوں کے مال کا میل ہے۔Q31سوال: سیّد کی غیرسیّدبیوی جو زکوۃ کی مستحق ہو زکوٰة دی جاسکتی ہےیا نہیں؟جواب: اس کو زکوٰة دے سکتے ہیں۔Q32سوال: مال دار بیوی کا غریب شوہربیوی کے علاوہ دوسروں سےزکوٰة لے سکتا ہے یا نہیں؟جواب: لے سکتا ہے۔Q33سوال: غیرمسلم کو نفلی صدقہ دےسکتے ہیں،کیا وہ زکوٰة اور صدقۂ فطر کےبھی مستحق ہیں؟جواب: نہیں۔Q34سوال: مدارسِ عربیہ میں زکوٰة دینا جائز ہے یا نہیں؟جواب: بہتر ہےبوجہ دین کی اشاعت کے Q35سوال: صاحبِ نصاب لوگ بھی خود کو مسکین ظاہر کرکے زکوۃ حاصل کرلیتے ہیں، اس کاکیا حکم ہے؟جواب: ان کو زکوٰة لینا حرام ہے۔Q36سوال: چندہ وصول کرنے والے کو زکوٰة سے مقرّرہ حصہ دینا جائزہےیانہیں؟جواب: جائز نہیں۔Q37سوال: زمین بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہے، تو پیداوار اُٹھنے کے وقت اس پر کتنا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں دینا واجب ہے؟جواب: دسواں حصہ۔Q38سوال: اگر زمین کو خود سیراب کیا جاتا ہے تو اس کی پیداوار کاکتنا حصہ صدقہ کرنا واجب ہے؟جواب: بیسواں حصہ۔Q39سوال: ایک ملک کی کرنسی سے زکوۃ ادا کرکے دوسرے ملک بھیجا جائے تو زکوۃ کی ادائیگی کا اعتبار کس ملک کی کرنسی کا ہوگا؟جواب: جس ملک کی کرنسی سے زکوۃ ادا کی گئی۔Q40سوال: رہائشی گھر، جسم کے کپڑے ، گھر کے سامان ،سواری میں زکوۃ فرض ہے یانہیں؟جواب: نہیں۔Q41سوال: جواہر جیسے موتی ، یاقوت، اور زبر جدپر زکوۃ فرض ہے یانہیں جب کہ وہ تجارت کے لئے نہ ہوں؟جواب: نہیں۔Q42سوال: زکوۃ کی ادائیگی کب واجب ہوگی؟جواب: نصاب پر قمری سال کا گذرنا شرط ہے۔Q43سوال: اگر سال کے شروع میں نصاب کامل ہو، پھر سال کے درمیان کم ہوجائے ليكن نصاب سے كم نہ ہو پھر سال کے اخیر میں نصاب کامل ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی یانہیں؟جواب: واجب ہوگی۔Q44سوال: ایک شخص شروع سال میں مالک نصاب ہوگیا،درمیان سال میں اس مال میں اوراضافہ ہوگیا،اضافہ تجارت سے ہوا ہویا کسی نے تحفہ یاہدیہ دیاہویا میراث کا مال ملاہو،بہرحال مال میں اضافہ ہوگیا،اب پورے مال پر زکوہ واجب ہوگی یاشروع سال کے مال پر واجب ہوگی؟جواب: پورے مال پر واجب ہوگی۔Q45سوال: جو شخص اپنے تمام مال کو صدقہ کردے اور اس میں زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی یانہیں؟جواب: ساقط ہوجائےگی۔Q46۔سوال: اگر کسی شخص کا فقیر کے پاس قرض ہو اور وہ زکوٰۃ کی نیت سے اس کے ذمہ کو بری کردے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہوگی یانہیں؟جواب: ادائیگی صحیح نہیں ہوتی ۔Q47سوال: سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا اور چاندی کا ٹکڑا وزن سے نکالےیا قیمت ادا کرے؟جواب: اختیار ہے۔Q48سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں فقیر کسے کہتے ہیں؟جواب: وہ شخص ہوتا ہے جو نصاب سے کم كا مالک ہوتا ہے۔Q49سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مسکین کسے کہتے ہیں؟جواب: جو بالکل کسی چیز کا مالک نہ ہوQ50سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں عامل کسے کہتے ہیں؟جواب: وہ شخص ہوتا ہے جو زکوۃ اور عشر کو اکھٹا کرتا ہے۔اور اسلامی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہو.۔Q51سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مقروض کسے کہتے ہیں؟جواب: یہ وہ شخص ہے جس کے ذمہ قرض ہو، اپنے قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کامل کا مالک نہ رہ جاتا ہو۔تجارتی قرض کا مسئلہ الگ ہے Q52۔سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مسافر سے کیامراد ہے؟جواب: جس کا اپنے وطن میں مال ہو، لیکن اس کا مال سفر میں ختم ہوچکا ہو اور منگوانے کا کوی ذریعہ بهی نہ ہو Q53سوال: مسافر پر زکوۃ کی کتنی رقم خرچ کرنا درست ہے؟جواب: اتنی مقدار صر ف کی جائے گی کہ وہ اپنے وطن پہنچ سکے۔Q54سوال: زکوۃ کی تمام قسموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیاکسی ایک قسم پر صرف کرنا جائز ہے؟جواب: دونوں جائز ہے۔Q55 سوال: کافر کو زکوٰۃ دینا جائزہےیا نہیں؟جواب: جائزنہیں۔Q56سوال: مالدار کو زکوٰۃ دینا جائزہےیا نہیں؟جواب: جائز نہیں۔Q57سوال: مالداربچے پر زکوٰۃ صرف کرنا جائزہےیا نہیں؟جواب: جائز نہیںQ58۔سوال: بنی ہاشم اور ان کے غلاموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟جواب: جائز نہیںQ59۔سوال: مالک نصاب کا زکوۃ کو اپنے اصول پر جیسے باپ ، دادا ، اوپر تک صرف کرنا جائزہےیا نہیں؟جواب: جائز نہیںQ60۔سوال: مالک نصاب کا اپنے فروع پر جیسے ، بیٹا ،پوتا، نیچے تک زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟جواب: جائز نہیQ61۔سوال: مالک نصاب بیوی شوہر پراور مالک نصاب شوہر اپنی بیوی پر زکوۃ صرف کرسکتا ہے یا نہیں؟جواب: نہیں۔Q62سوال: مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا راستہ یا پل کے درست کرنے میں زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟جواب: جائز نہیںQ63۔سوال: میت کو کفنانے یا میت کے قرض کو پورا کرنے میں زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے یا نہیں؟جواب: جائز نہیں۔Q64سوال: زکوٰۃ کی ادائیگی بغیر تملیک(مالک بنانا) کے صحیح ہوتی ہے یا نہیں؟جواب: نہیں۔Q65سوال: زکوۃ رشتہ داروں پر اورپھر پڑوسیوں پر صرف کرنا جائز ہے یا نہیں؟جواب: بہتر ہے۔Q66سوال: مکمل نصاب کےبقدر زکوۃ ایک شخص کو دینا درست ہےیانہیں؟جواب: مکروہ تنزیہی ہے۔Q67سوال: مقروض پر اس کے قرضے کی ادائیگی کیلئے نصاب سے زیادہ صرف کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟جواب: مکروہ نہیں۔Q68سوال: بغیر ضرورت کے ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ کو منتقل کرناکیسا ہے؟جواب: مکروہ تنزیہی هے Q69۔سوال: اپنے رشتہ داروں کیلئے زکوۃ کا منتقل کرناکیسا ہے؟جواب: مکروہ نہیں ہے۔Q70سوال: مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا راستہ یا پل کے درست کرنے میں زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟جواب: جائز نہیں۔Q71سوال: ایک شخص جو زکاة کا مستحق نہیں ہے، لیکن وہ ڈاکٹر بننا چاہتاہے،کیا اس کو زکاة دی جاسکتی ہے؟جواب: صدقات نافلہ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔Q72سوال: اگر زکاة کسی غریب غیر مسلم کو دیدی جائے تو اداہوجائے گی یا نہیں؟جواب: زکاة ادا نہ ہوگی۔Q73سوال: کیا اپنے مستحق زکاة بھائی کو زکاة کی رقم دی جا سکتی ہے؟جواب: دی جا سکتی ہے ۔Q74سوال: کیا مستحق زکاة چچیرے ، ممیرے، خلیرے بھائی کو یا اپنے بھتیجے کو زکاة دے سکتے ہیں ؟جواب: دے سکتے ہیں۔سوال: کیا مدرسہ کے مہتمم یا ناظم کو جو طلبہ کی وکیل ہوتے ہیں زکاة دی جاسکتی ہے ؟ جواب: دی جاسکتی ہے۔بلکہ افضل ہےQ75 سوال: زکوۃ کی ادائیگی کے لئےسونےکی قیمت فروخت کا اعتبارہوگا یاقیمت خرید کا ؟جواب: قیمت فروختQ76۔سوال: سونے پر زکاة موجودہ قیمت کے حساب سے ہوگی یا خریدنے کے وقت کی قیمت کے حساب سے ہوگی ؟جواب: موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔Q77۔سوال: کیا زکاة مستحق زکاة اپنے بھانجے کی تعلیم پر خرچ کرسکتے ہیں؟جواب: ہاں۔مگر اس کو دے دی جائے تاکہ وہ مالک بن جاےQ78سوال: کیا نابالغ بیٹا یا بیٹی کے مال پر بھی زکوة دینا فرض ہے؟جواب: نہیںQ79سوال: مسجد کے امام یامؤذن کی ماہانہ تنخواہ کو زکاۃ میں شامل کرسکتے ہیں یا نہیں؟جواب: نہیں۔Q80سوال: کیا لڑکی زکوة کی رقم اپنے والدین کو دے سکتی ہے۔جواب: نہیں۔Q81سوال: کیا نفلی صدقہ کا گوشت صدقہ کرنے والا بھی خود استعمال کرسکتا ہے؟جواب: کرسکتا ہے۔Q82سوال: صدقات واجبہ جیسے نذر وغیرہ کا گوشت کیا صدقہ دینے والا خود بھی کھاسکتا ہے۔جواب: نہیں.🌹🥀🌹🥀🌹🥀🌹جو بات اپکو تفصیلا بتلائ گئ اپ اسکوشئیر کریں اور ہم سب کو بتائیے کہ زکوة کیسے ادا کریں شکریہ
Monday, 19 April 2021
Tuesday, 13 April 2021
Sunday, 11 April 2021
#زیارت ضلع زیارت کے نئے تعمیر ہونے والے جوڈیشل کمپلیکس کے افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا ، جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے پر چیف جسٹس ہائی کورٹ کو پولیس کے چاق وچوبند دستے نے سلامی پیش کی جس کے بعد چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور صوبائی وزیر پی ایچ ای حاجی نورمحمد دمڑ نے نے نیو جوڈیشل کمپلیکس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ہائی کورٹ بلوچستان کے ججز، جسٹس ہاشم خان کاکڑ، جسٹس محمد اعجاز سواتی، جسٹس کامران خان ملاخیل، جسٹس عبداللہ بلوچ، جسٹس نزیراحمد لانگو، جسٹس روزی خان بڑیچ، جسٹس عبدالحمید بلوچ، رجسٹرار بلوچستان ہائی کورٹ راشد محمود، ممبر انسپکشن ٹیم بلوچستان ہائی کورٹ آفتاب احمد لون، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ارباب محمد طاہر کاسی، ڈپٹی کمشنر زیارت وقار خورشید عالم، ایڈیشنل سیشن جج زیارت برکت اللہ مرغزانی، جوڈیشل مجسٹریٹ زیارت محیب اللہ ترین، ایڈوکیٹ مسعود دوتانی، ایڈوکیٹ موسیٰ جان کاکڑ، ایڈوکیٹ محمد یعقوب کاکڑ، ایڈوکیٹ محمد کاشف پانیزئی، چیف انجینئر الیاس لاشاری، چیف انجینئیر ایوب ناصر، ایس ڈی او صغیر احمد کاکڑ، وکلاء، آفیسران ،قبائلی عمائدین اور میڈیا نمائندگان موجود تھے۔ اس موقع پر چیف جسٹس ودیگر جج صاحبان نے نئے تعمیر ہونے والے جوڈیشل کمپلیکس کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا۔ تقریب میں پہنچنے پر چیف جسٹس و دیگر ججز کو زیارت بار کی جانب سے روایتی پشتون پگڑیاں پہنائی گئی۔تقریب کے شروع میں زیارت بار ایسوسی ایشن کے صدر مسعود خان دوتانی نے سپاسانامہ پیش کیا کہ زیارت کی خوبصورتی صنوبر کے قیمتی درختوں، چیری اور سیب کی باغات سے ہیں مگر یہاں پر بدقسمتی سے گیس اور بجلی دونوں غائب ہیں جو کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، ڈی ایچ کیو ہسپتال میں فیمیل ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگوں کو ایمرجنسی میں بھی کوئٹہ جانا پڑتا ہے، ڈسٹرکٹ کورٹ زیارت سنجاوی کو ڈویژنل سیشن کا درجہ دیا جائے، زیارت بار کے لئے آن لائن لائبریری دی جائے تاکہ وکلاء اور ججز دونوں استفادہ حاصل کرسکے، زیارت کے وکلاء کے لئے چیمبرز کی جگہ مخصوص کی جائے، بار روم کے لئے بار اٹینڈنٹ تعینات کیا جائے، احاطہ عدالت روڈ کے کنارے مسجد کی تعمیر کی جائے، زیارت عدالت میں خالی آسامیوں کو پر کیا جائے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)