Monday, 11 July 2022

سیّد اور میاں میں فرق؟تحریر:سیّد عاقب شاہ ترمذیبحث چلتی ہے کہ سیّد اور میاں میں کیا فرق ہے،دونوں ایک ہیں یا الگ الگ؟اگر ایک ہیں یعنی الفاظ مترادفہ ہیں تو کس بنیاد پر اور الگ الگ ہیں تو وہ بھی کس بنیاد پر؟سیّد وہ لوگ ہیں جنکا شجرہ نسب امام حسن اور امام حسین سلام اللّٰہ علیھما سے ہوتے ہوئے حضرت فاطمہ سلام اللّٰہ اور حضرت علی کرّم اللّٰہ وجہہ سے جا ملتا ہو،لغت کی کتاب فیروز الغات کے مطابق لغوی معنی کے اعتبار سے لفظِ میاں،آقا،سردار،مالک،حضور، سرکار،خاوند،شہزادہ،استاد، جناب،دوست عالم،نیک،شریف عزت دار اور بزرگ،مذہبی سربراہ کو جبکہ میاں گان انکی اولاد کو کہا جاتا ہے۔ایک انگریز مؤرخ مک میہن اُوریمزی اپنی کتاب"دا خاورہ او دا خلک" میں لکھتے ہیں میاں گان یہ ان بزرگان اور مذہبی پیشواؤں کی اولاد ہیں جنہوں نے شہرت صرف مقامی سطح پر نہیں دور دراز تک مختلف قبیلوں میں پائی بھی ہو،میاں گان ان بزرگوں کی پشت کو کہا جاتا ہے جو زمانہ قدیم میں گزرے ہو،جدید بزرگوں کی اولاد کو میاں نہیں کہا جا سکتا،آگے لکھتے ہیں کہ اخون سوات کی اولاد اس طبقے میں شامل نہیں،ان کی اولاد کو میاں گلان محض احترام کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے،اصل میں یہ اخونزادگان ہیں،مزید لکھا ہے اگر یہ خاندان اپنا روحانی ریکارڈ برقرار رکھے تو امکان ہے کہ آنے والے زمانے میں ان کی اولاد میاں گان ہو۔بالائی سوات تاریخ کے تناظر میں میاں کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہےمیاں وہ لوگ ہیں جو اصلاً سیّد نہیں ہیں،تاہم انہوں نے کسی زمانے میں سیّدوں کی خدمت کی ہو یا انکے اپنے آبا و اجداد پیر،بزرگ رہ چکے ہیں۔البتہ ایک بات ہے کہ تمام بزرگوں،پیروں اور سیّدوں کی اولاد کو عموماً احتراماً میاں اور پاچا کہا جاتا ہے،میاں بمعنیٰ جناب ہے۔آگے بحوالہ ایک افغان محقق لکھتے ہیں میاں پشتو میں عزت اور احترام کا لقب ہے جو کسی بھی شخص کو دیا جاسکتا ہے(کتاب بالائی سوات تاریخ کے تناظر میں،ص ۱۲۵)کتاب تاریخ ریاست سوات میں صفحہ نمبر/۵۱/ پر لکھا ہے وہ لوگ جنکے آباء،اجداد اپنے زمانے کے بڑی ولی تھے ان کی اولاد کو میاں کہا جاتا ہے۔اسی طرح اخوند لفظ بھی اس وقت کے بڑے عالم سکالر اور روحانی شخصیت کو کہا جاتا تھا جو آگے چل کر ان کی اولاد کو اخوند خیل کہا جاتا ہے،جن کے بڑے اپنے زمانے کے اولیاء اللّٰہ تھے اور ان کے باقاعدہ آستانے ہوا کرتے تھے تو انہیں آستانہ دار کہا جاتا تھاچونکہ یہ لفظِ میاں ایک ادب اور احترام کا لفظ ہے تو سوات،بونیر،شانگلہ،دیر اور ملاکنڈ کے بعض علاقوں میں دوسرے قبیلے کے لوگ بطور ادب و احترام سادات کو بھی میاں صاحب سے پکارتے ہیں،جس سے ہم نے یہ سمجھا جو میاں ہوگا وہ سیّد ہوگا یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ میاں کوئی خاص نسب،قبیلہ نہیں اگر کوئی خاص نسب،قبیلہ ہوتا تو نسابہ اور محققین اسے ضرور لکھتے لیکن ایسا کہیں سے ثابت نہیں بالکہ ایک ادب کا لفظ ہے جو بزرگوں کی اولاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،اس لحاظ سے جن علاقوں میں سادات کو بطور احترام میاں صاحب کہا جاتا ہے تو وہاں ہر سیّد میاں ہے لیکن ہر میاں سیّد نہیں۔اگر اسے صرف سادات ہی کے لئے خاص مانا جائے یعنی جس کے نام میں میاں ہو وہ ضرور سیّد ہوگا تو پھر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے ناموں میں لفظ میاں ہے جبکہ حال یہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی اسے سیّد نہیں کہا ہے اور خود بھی اپنے کو سیّد نہیں کہتےیہ لفظ صرف پشتون معاشرے میں احترام کے لئے خاص نہیں بالکہ اردو ادب میں بھی جا بجا ادب،احترام کے لئے استعمال کرتے ہیں،شوہر کو بھی میاں کہتے ہیں،بطورِ ادب،احترام اور تعظیماً ہندوستانی مفسرین و دیگر علماء وہ اس لفظ کو کچھ یوں ذکر کرتے ہیں "میاں اللّٰہ،اللّٰہ میاں" یعنی لفظِ اللّٰہ کے بعد یا اس سے پہلے جا بجا اپنے کلام میں لاتے ہیںپنجابی زبان بولنے والے جب آپ کی بات کاٹتے ہیں تو کہتے ہیں "ارے میاں" یہ بات اس طرح ہے،خلاصہ کلام یہ نکلا کہ لفظِ میاں کسی خاص نسب کے لئے خاص نہیں جیسے کوئی میاں صاحب بولے اور ہم کوئی نسب،قبیلہ ہی سمجھے بالکہ یہ ایک عام لفظ جو کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں ہر میاں کو سیّد نہیں سمجھنا چاہئیے،اگر کوئی آپ کے سامنے کسی کے لئے میاں صاحب استعمال کریں تو آپ کو خود تحقیق کرنی ہے کہ اس علاقے میں سادات کو کس ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے پختونخواہ کے اکثر علاقوں میں باچا صاحب،شاہ جی،باجی اگر اس علاقے میں رہنے والے صرف سادات ہو لفظ میاں صرف سادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہو تو جسکا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ سیّد ہوگا،اگر دوسرے بزرگان دین کی اولاد بھی اسی علاقے میں رہتے ہو تو پھر تحقیق کی ضرورت ہوگی کہ یہ میاں صاحب کس بزرگ کی اولاد سے ہے یعنی کس قبیلے کے سے تعلق رکھتا ہے۔سید عاقب شاہ ترمذی

Tuesday, 31 May 2022

کوئٹہ زلزلہ 1935: جب 45 سیکنڈ میں پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیایہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی اُردو پر 31 مئی 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے 87 سال قبل آج ہی کے روز آنے والے زلزلے کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔اگرچہ سال کا یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کے بیشتر باسی بند کمروں کے بجائے کھلے آسمان تلے سونے کو ترجیح دیتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ رات عام راتوں کے مقابلے میں قدرے سرد تھی اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر آبادی گھروں کے اندر چار دیواریوں میں سو رہی تھی۔آج سے ٹھیک 87 برس قبل یعنی 30 اور 31 مئی 1935 کی درمیانی شب گھروں کے اندر سونے والے کوئٹہ کے ان باسیوں کو سنبھلنے کی مہلت نہ بھی مل سکی، ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنائی دی اور اس سے قبل کہ نیند سے ہربڑا کر اٹھنے والوں کو اپنے نیچے موجود زمین کی تھرتھرا اٹھنے کی کچھ وجہ سمجھ میں آتی، سب ملیا میٹ ہو چکا تھا۔زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شہر کی بچی کھچی انتظامیہ اور فوج نے عمارتوں اور گھروں سے لاشیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا مگر چار جون تک ملبے تلے دبی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ میڈیکل افسران کے مشورے کے بعد تباہ شدہ شہر کو آئندہ 40 دن کے لیے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ گلی سڑی لاشوں کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ کم سے کم کیا جا سکے۔اوپر بیان کی گئی تفصیلات سنہ 1935 میں کوئٹہ کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی اُس رپورٹ (دی کوئٹہ ارتھ کوئیک آف 31 مئی 1935) سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اعلیٰ حکام کو ارسال کی تھی۔اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ملبے کے ڈھیر تلے تلاش اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام اتنا مشکل تھا کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ نے اس حوالے سے ایک مکمل باب لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یکم جون 1935 کی صبح سے لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور تین جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں جنھیں لاریوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میتوں کی شہر کے جنوب میں واقع قبرستانوں میں تدفین ہوئی جبکہ ہندؤ شہریوں کی میتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میتوں کو جلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے لکڑیوں کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔’چار جون کو لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اس حد تک ناقابل برداشت ہو چکا تھا کہ کوئٹہ شہر کو مکمل سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملبے تک موجود مزید میتوں کی تلاش کے کام کو 20 جولائی تک روکنا پڑا۔‘’چار جون سے پہلے تک سڑک کنارے یا ملبے کے اوپر موجود بیشتر لاشوں کو اٹھا کر ٹھکانے لگایا جا چکا تھا۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا مگر اندازہ ہے کہ اس زلزلے میں 25 سے 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘سنہ 2005 میں بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے نے اس زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین ساٹھ ہزار کے لگ بھگ کیا ہے۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کی تحقیق کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور زیر زمین گہرائی فقط 30 کلومیٹر تھی۔خاموش گھڑیالاگرچہ اس زلزلے کے آنے کے صحیح وقت کے حوالے سے متضاد آرا ہیں مگر محکمہ موسمیات کوئٹہ کے دفتر میں موجود ایک گھڑیال اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ گھڑیال گذشتہ 86 برس سے خاموش ہے کیونکہ یہ اس المناک واقعے کا اہم گواہ ہے۔ 31 مئی 1935 کو صبح تین بج کر چار منٹ پر یہ گھڑیال اس وقت خاموش ہو گیا تھا جب زلزلے کے باعث اسے نقصان پہنچا۔ بعدازاں اسے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ کر لیا گیا کیونکہ اس پر وہ وقت محفوظ ہے جب کوئٹہ شہر پر قیامت ٹوٹی۔یاد رہے کہ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں زلزلے کا وقت تین بج کر تین منٹ بتایا گیا ہے۔زلزلے سے قبل ’پرندوں اور جانوروں میں بےچینی‘ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے سے قبل کسی بڑے تنبیہی جھٹکے (Warning Shocks ) کے حوالے سے کوئی مخصوص اطلاع نہیں تھی مگر بعدازاں زندہ بچ جانے والے کئی لوگوں نے میڈیا اور دوسرے جگہوں پر جو بیانات دیے ان کے مطابق انھوں نے بڑے جھٹکے سے پہلے مختلف تاریخوں میں زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے محسوس کیے تھے۔رپورٹ کے مطابق چونکہ کوئٹہ میں سال بھر معمولی جھٹکے محسوس کیے جاتے رہتے ہیں اس لیے ان چھوٹے جھٹکوں کا خاص نوٹس نہیں لیا گیا۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ رات کو آنے والے بڑے جھٹکے کے بعد بہت سے آفٹر شاکس آئے مگر ان میں نقصان نہیں ہوا کیونکہ شہر میں کوئی عمارت مکمل حالت میں موجود ہی نہ تھی جو ان آفٹر شاکس کے نتیجے میں متاثر ہوتی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دو افراد نے حکام کو یہ بھی بتایا کہ زلزلے کے دن انھوں نے گھروں میں پرندوں اور دیگر جانوروں کو عام دنوں کی بانسبت بے چینی کا اظہار کرتے دیکھا اور اسی لیے انھوں نے جانوروں کے کمروں کے دروازے کھول دیے تاکہ وہ باہر نکل سکیں۔اس زلزلے کے حوالے سے تحقیق کرنے والے سعید کرد نے اپنے ایک مضمون میں کوئٹہ کے ایک قصائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قصائی رات کو عموماً دیر سے گوشت کی مارکیٹ جاتے تھے۔ 31 مئی کی شب وہ جب کوئٹہ کے سنسان گلیوں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے یہ محسوس کیا عام دنوں کے برعکس کتے بہت زیادہ بھونک رہے تھے۔اس قصائی نے یہ رپورٹ دی تھی کہ رات تین بجے کے قریب انھوں نے ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سُنی اور اس کے ساتھ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھا۔زلزلے کے بعد برطانوی فوجی کمانڈر کا کنٹرول روم سے پہلا رابطہاس وقت کوئٹہ گیریزن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) جنرل کارسلیک تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے زلزلے کے فوراً بعد کنڑول روم سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ شہر گردوغبار سے اٹا ہوا ہے، ہرطرف چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی ہیں اور خیال یہ ہے کہ شہر تباہ ہو چکا ہے۔جنرل کارسلیک نے فوری طور پر ایمرجنسی کا اعلان کیا اور فوج کو سٹینڈ بائی رکھنے کا حکم جاری کیا تاہم ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق فوج نے آدھے گھنٹے میں شہر کی جانب موو کرنا شروع کیا۔محقق اور سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ حکومت بلوچستان نورخان محمد حسنی کے مطابق زلزلے کی اطلاع 31 مئی کی شب ہی شملہ پہنچا دی گئی تھی۔ اس اطلاع کے بعد حکومت کی جانب سے اگلے روز پریس کو ایک مختصر بیان جاری کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا ہے اور چند ہزار نفوس زندہ بچ گئے ہیں۔‘محمد حسنی کے مطابق یکم جون 1935 کو زلزلے کے حوالے سے مقررکردہ رابطہ افسر و افسر اطلاعات این سی او مورجی نے بذریعہ ٹیلی فون دہلی میں محکمہ انفارمیشن کے ذریعے یہ بیان جاری کرایا کہ کوئٹہ شہر کے علاوہ ایک بڑے علاقے میں زلزلہ آیا ہے یعنی دیگر شہر بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔فوجی چھاؤنی کیسے بچ گئی؟بلوچستان کے جو علاقے انگریزوں کے کنٹرول میں تھے ان کو برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا۔انھی علاقوں بالخصوص افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ انگریزوں نے سابق نازی جرمنی اور سابق سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی چھاﺅنیاں بنائی تھیں جن میں سے سب سے بڑی چھاﺅنی کوئٹہ کی تھی۔اگرچہ یہ چھاﺅنی شہر سے قریب ہی واقع ہے لیکن اس تباہ کن زلزلے میں یہ محفوظ رہی۔ماہر ارضیات اور بلوچستان یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ سنہ 1935 کے زلزلے کی فالٹ لائن شہر کے مغرب میں بروری کے علاقے میں تھی، جس علاقے میں یہ فالٹ لائن تھی وہاں زمین میں گہڑی دراڑ پڑی جس کے آثار اب بھی ہیں اور یہ کوئٹہ سے چالیس سے پچاس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے میں زیادہ واضح ہیں۔انھوں نے بتایا فوجی چھاﺅنی فالٹ لائن سے کچھ فاصلے پر تھی اور یہ چھاﺅنی جس علاقے میں قائم کی گئی تھی وہ پہاڑ کے قریب تھا جہاں زمین سخت تھی جبکہ چھاﺅنی اور شہر کے درمیان حبیب نالے سمیت ایک، دو نالے اور تھے۔ 'چونکہ حبیب نالے اور دوسرے نالوں کی وجہ سے ان میں بریک آیا اسی لیے چھاﺅنی سے پہلے زلزلے کی شدت کم ہو چکی تھی۔کیا تھا"۔انھوں نے بتایا کہ چھاﺅنی میں جو تعمیرات کی گئی تھیں ان کی چھتیں چادر کی تھیں اور وہاں اس وقت کوئی پختہ بلڈنگ نہیں تھی جس کی وجہ سے نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ایئرفورس کے ’نصف اہلکار ہلاک اور زخمی‘اگرچہ فوجی چھاﺅنی تو زلزلے سے بچ گئی لیکن رائل ایئرفورس کے حوالے سے صورتحال مختلف تھی۔چھاﺅنی کے برعکس ایئرفورس کی تنصیبات شہر کے شمال مغرب میں تھیں جو کہ فالٹ لائن کے قریب ہونے وجہ سے بری طرح سے تباہ ہوئیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں تعینات ایئرفورس اہلکاروں میں نصف ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں ایئرفورس میں ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی گئی تاہم یہ ضرور لکھا گیا کہ اینکرز میں موجود 27 طیاروں میں سے صرف تین قابل استعمال رہے تھے۔گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی ہیڈ لائٹس میں خوفناک منظر کا نظارہایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق چونکہ شدید زلزلے کی وجہ سے شہر کا واحد بجلی گھر تباہ ہوا تھا اس لیے زلزلے کے بعد شہر مکمل تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔فوجی چھاﺅنی سے نکلنے والے اہلکار جب اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر چھاﺅنی سے متصل بروس روڈ (موجودہ جناح روڈ ) کے کونے پر پہنچے تو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ہیڈ لائٹس وہ واحد ذریعہ تھیں جن کی مدد سے انھوں نے شہر کی تباہی کا پہلا نظارہ کیا۔زلزلے سے شہر کی پولیس فورس اور سویلین انتظامیہ مکمل ختم ہوگئی تھیںایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق شہر کی پولیس اور سویلین انتظامیہ کا صفایا ہو گیا تھا۔ جی او سی نے تمام دستیاب وسائل برٹش بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن کے ڈسپوزل پر چھوڑ دیے تھے۔جن فوجی اہلکاروں کی شہر میں ریسکیو آپریشن میں ضرورت نہیں تھی ان کو شہر میں گشت پر لگا دیا گیا تاکہ پولیس اور سویلین انتظامیہ کی عدم موجودگی میں شہر میں کوئی ناخوشگوار پیش نہیں آئے ۔ایک لحاظ سے ایک عارضی پولیس فورس قائم کی گئی جس کی ذمہ داری ان شہریوں کی مدد کرنا تھا جو اس زلزلے میں زندہ بچ گئے تھے مگر جنھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مشکل وقت میں کیا کریں۔اس عارضی پولیس فورس کو چلانے کی ذمہ داری ان فوجی سٹوڈنٹ افسروں کوسونپی گئی جو کہ کورس کے لیے سٹاف کالج آئے ہوئے تھے۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن نے یہ محسوس کیا کہ افسروں اور اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے سویلین انتظامیہ شہر کے انتظام کو نہیں چلا سکتی اس لیے انھوں نے 31 مئی کو ہی شہر کا کنٹرول جنرل کلارسک کے حوالے کیا جنھوں نے کوئٹہ میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔نافذ کرنے کا اعلان کیا۔جہاں شہر میں عارضی پولیس فورس قائم کیا گیا وہاں پنجاب اور سابق این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختونخوا) کی حکومتوں نے کوئٹہ کے لیے سپیشل پولیس فورسز کو روانہ کیا۔ان دونوں علاقوں سے پولیس فورس آنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اب سویلین اتھارٹی دوبارہ شہر کی انتظام سنبھال سکتی ہے لہذا صرف چار ہفتے بعد یعنی 28 جون کو مارشل لا ختم کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والوں کو ریسکیو کرنا اولین ترجیحایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے جو اجلاس ہوا اس میں چھ ترجیحات طے کی گئیں جن میں سے پہلی یہ تھی کہ جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کو ریسکیو کیا جائے۔اس مقصد کے لیے شہر کو آٹھ سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے مختلف یونٹوں کو اس کام پر لگا دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک مشکل ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی تھی کیونکہ شہر میں مسافر لاریوں سمیت جو سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں تھیں ان میں سے بیشتر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔تاہم اس زلزلے میں بچ جانے والی فوجی چھاﺅنی میں فوج کی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ افسروں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں جن کو شہر میں ریسکیو اور فوج کی نقل و حمل کے لیے استعمال میں لایا گیا۔اس کے علاوہ بگائی موٹر سروس نے بنوں اور پنجاب سے 80 گاڑیوں پر مشتمل ایک فلیٹ بھیجا۔ ان گاڑیوں کو ایک ماہ کے لیے مفت فراہم کیا گیا تاہم ان کو ایندھن حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا رہا۔تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔طبی امداد، خوراک اور راشن کی فراہمیایک اہم مسئلہ جو درپیش تھا وہ کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں زندہ بچ جانے والوں کو راشن، کپڑوں اور طبی امداد کی فراہمی کا تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ کے کرنل ہواس کو سونپا گیا۔اس مقصد کے لیے دو گاڑیاں استعمال میں لائی گئیں جن میں سے ایک میں خوراک جبکہ دوسری میں طبی اشیا تھیں۔ یہ گاڑیاں ابتدائی دو ہفتوں تک لگاتار دیہاتوں کی چکر لگاتی رہیں۔اس وقت خوراک ذخیرہ کرنے کا بڑا ذریعہ خوراک کے ڈپو ہوتے تھے اور حکام نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اجناس کو وہاں سے نکال کر محفوظ کیا، اس کے علاوہ سویلین آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوج کے راشن میں کمی کی گئی۔ ریس کورس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد دس ہزار تھی۔دودھ کی فراہمی کا مفت انتظامرپورٹ کے مطابق گال بریتھ اسپنی کے مقام پر ایک ڈیری فارم قائم کیا گیا تھا اور زلزلے میں بچ جانے والی گائیں اور بھینسیں، جو شہر میں آوارہ پھر رہی تھیں، ان کو اس ڈیری فارم میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ جانوروں کے بہت سے مالکان بھی اپنے مال مویشیوں کو سنبھالنے سے قاصر تھے اس لیے انھوں نے اپنے مویشی حکام کے حوالے کر دیے تھے۔اس ڈیری فارم میں نہ صرف ان جانوروں کا دیکھ بھال کیا گیا بلکہ ان کا دودھ کیمپوں میں رہائش پزیر لوگوں کو مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ان جانوروں کی جب مزید ضرورت نہیں رہی تو ان کو ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا۔ اس ڈیری فارم کے انچارج زرعی افسر مصطفیٰ تھے، رپورٹ میں ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ہلاکتوں کے لحاظ سے متضاد اعدادوشمارنور خان محمد حسنی کی تحقیق کے مطابق حکام کی جانب سے جاری کردہ پہلی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں لکھی گئی۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد شائع ہونے والی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان لکھی گئی جبکہ پندرہ ماہ بعد شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں شہر کی آبادی 50 ہزاراور مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار بیان کی گئی۔نور خان کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ اور فوج پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ زلزلے کے بعد امدادی کام میں تاخیر کی گئی پہلے کئی گھنٹے چند سو برطانوی خاندانوں کو تلاش کرنے اور ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں صرف کیے گئے۔نورخان محمد حسنی کے مطابق اسٹاف کالج میں کورس کرنے والے ایک برطانوی افسر نے جو زلزلے کے بعد کوئٹہ میں امدادی کام کرتے رہے، لکھا ہے کہ 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔برطانوی اہلکاروں نے مسلمان متاثرین سے قرآن پر حلف لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟کیپٹن ایل اے جی پنہے کی رپورٹ میں کوئٹہ کے علاوہ ریاست قلات میں مستونگ اور قلات کے علاقوں میں بھی ریلیف اور نقصانات کے ازالے کا ذکر کیا گیا ہے۔اس وقت لوگوں کے گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ کھیتی باڑی تھی اور اس میں بڑا کردار بیلوں کا تھا۔رپورٹ کے مطابق بیلوں کے نقصانات کے ازالے کے حوالے سے متاثرین کی جانب سے جو دعوے سامنے آئے وہ مشکوک اور زیادہ لگ رہے تھے جس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں سے قرآن پر حلف لیا اور جس نے بھی حلف اٹھایا کہ زلزلے میں اُن کے بیل مرگئے ہیں تو ان کو دعوے کے مطابق بیل دیا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا جب معاملہ قرآن پر حلف کا آیا تو اس کے بعد لوگوں کی دعوؤں میں حیران کن حد تک کمی آئی۔1935 کا زلزلہ اور کوئٹہ کے لیے بلڈنگ کوڈ اور موجودہ صورتحالماہر ارضیات پروفیسر دین محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ 1934 میں کوئٹہ کے قریب ہرنائی کے علاقے میں ایک زلزلہ آیا تھا جس کے بعد انگریزوں نے ریلوے سٹیشنوں اور بعض دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے تاہم کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔کوئٹہ شہر میں سویلین تعمیرات کے حوالے سے اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔وہ بتاتے ہیں کہ 1935 کے بعد بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کیا گیا جس کے بعد 70 کی دہائی تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا تاہم اس کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی خلاف ورزی کی گئی ۔ماہرین کے مطابق اس خلاف ورزی کی وجہ سے کوئٹہ میں کسی بڑے زلزلے کے باعث خدانخواستہ زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے بلکہ پروفیسر دین محمد کے بقول اب تو کوئٹہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔نئے کوئٹہ کی تعمیر کے بعد زلزلے کی یادگاریںاس زلزلے میں بہت سارے نابغہ روزگار لوگ بھی مارے گئے تھے جن میں نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی شامل تھے۔ وہ نہ صرف ایک صحافی تھے بلکہ کالونیل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنماﺅں میں شامل تھے۔ان میں بہت سارے ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں بھی تعمیر کی گئیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں ۔ہلاک ہونے والے مسیحیوں کی یاد میں ایک یادگار حالی روڈ پر اب بھی موجود ہے جس پر ہلاک ہونے والے افراد کے نام کندہ ہیں۔اس زلزلے میں ریلوے کے 154 ملازمین اور ان کے 489 رشتہ دار ہلاک جبکہ 98 ملازمین اور 181 رشتہ دار زخمی ہوئے تھے۔ریلوے کے جو ملازمین ہلاک ہوئے تھے ان کے نام کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے داخلی راستے پر کندہ ہیں۔ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کی رپورٹ کے مطابق جو لوگ اس سانحے میں ہلاک ہوئے تھے ان کی لاشوں کے حوالے سے مذہبی رسومات مکمل طور پر ادا کی گئیں تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے رشتہ داروں یا دوستوں کے حوالے ان کی راکھ کو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ہندوﺅں کی جو لاوارث لاشیں تھیں ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے سرکاری خرچ پر بھیجا گیا تھا۔

Friday, 13 May 2022

#قیام_وتحام_زیارت#ماشاءاللہ_ہوٹل_زیارت#سیاحوں کے لیے #خوشخبری #وادی_زیارت میں اب #وی_آئی_پی #ہوٹل اور #ریسٹ_ہاوس #دستیاب ہےوی آئی پی #ائیرکنڈیشن روم ٹی وی اور سب سہولت موجود ہے 24 کنٹھے #رابطہ کرسکتے ہے #ماشاءاللہ_ہوٹل #چوبیس #گنٹھے #گرم #پانی #گیس اور #بجلی کے ساتھ۔#زیارت میں گھومنے کے لیے گاڑی کی سہولت بھی موجود ہےPlease contact and WhatsApp. us#Noorzaman_taranMore guest Houses. and Hotels.More details about.0334320400503328098193.03032971601.#قیام_وتحامپاکستانی کھانے ۔روپےمھٹن کڑائی۔ (فل).2500ہاف1300مھٹن لاہوری۔ (فل).3500ہاف1300چکن لاہوری کڑائی (فل).1600ہاف800چکن بریانی۔ (فل)۔350ہاف180فل 1kg۔900شنواری کھانےمھٹن شنواری کڑائی (فل)2500 ہاف 1300)مھٹن نمکین کڑائی۔ (فل)2500ہاف 1300)مھٹن سلیمانی کڑائی (فل)2400ہاف2300)چکین شنواری کڑائی (فل)1300ہاف830)چکین نمکین کڑاہی۔ (فل)1300ہاف 800)چکن سلیمانی کڑائی (فل)1250ہاف 750)کابلی پلاؤ (400 بیف دم پوخ 400)چکن بادامی (1kg۔1550) ناشتہ روپےتندوری پراٹھ۔ ۔50انڈہ فراھی۔ ۔50انڈھ املیٹ۔ ۔50 چاے۔ روپےدودھ پتی چاے ۔60سلیمانی کہوہ ۔40گرین ٹی ۔40مستونگ کیک فیس ۔40 فاسٹ فوڈ۔ روپےکلب سانڈویچ ۔300چکن سانڈویچ ۔250ایگ سانڈویچ ۔180ویجیٹبل سانڈویچ ۔180 سلات۔۔ روپے فریش سلا ت ۔80 رایتہ ۔80 منرل واٹر بڑا ۔80منرل واٹر چھو ٹا ۔40 کولڈرنک۔ روپے1.5 بوتل ۔120ٹین ۔70https://www.facebook.com/118676422101025/posts/972472496721409/https://www.facebook.com/118676422101025/posts/972472496721409/https://www.facebook.com/1005908686104879/posts/5759792037383163/

Sunday, 3 April 2022

*دیسی گھی میڈیکل سائنس کی نظر میں!*🔸خالص دیسی گھی کسی بھی جانور کے دودھ سے بنایا جا سکتا ہے لیکن وہ دیسی گھی جو گائے کے دودھ سے بنایا جاتا ہے اسے سب سے بہترین مانا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے کا جو دودھ ہوتا ہے اس میں ان تمام پیڑ پودوں کا اثر ہوتا ہے جو اس مخصوص علاقے میں ہوتے ہیں جہاں وہ گائے چرتی ہے کیونکہ گائے تقریباً وہ تمام پیڑ پودے کھاتی ہے جو اس مخصوص علاقے میں اگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گائے کے دودھ میں اور اس دودھ سے بنائے ہوئے گھی میں وہ تمام پیڑ پودوں کا اثر موجود ہوتا ہے ۔#حکیم_سیف_اللہ_ہزاروی 🔸 *سائنسی پہلو*🔸اب دیسی گھی کے سائنسی پہلو کی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ چیز سمجھ لیں کہ خالص دیسی گھی میں ہوتا کیا کیا ہے ۔ دیسی گھی اپنے s.c.f.a )short chain fatty acids ) کی وجہ سے جانا جاتا ہے کیونکہ دیسی گھی اس کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے اس کے علاوہ دیسی گھی canjogated linoleic acid Butyric acid Omega 3Omega 6Omega 9 کا بہت ہی اچھا سورس مانا جاتا ہے اس کے علاوہ دیسی گھی Vitamin A Vitamin DVitamin EVitamin Kکا بھی بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے ۔چلئے یہ بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کام کیسے کرتا ہے شروعات دماغ سے کرتے ہیں ۔ 🔸 *دماغ۔*🔸دیکھئے انسان کا 60٪ دماغ فیٹس سے مل کے بنتا ہے اور جس طرح کے فیٹس سے انسانی دماغ بنتا ہے وہ فیٹس انسانی جسم خود سے نہیں بنا سکتا بلکہ انسان خوراک سے حاصل کرتا ہے ۔اس بات کو بھی سمجھ لیں کے جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے دماغ کے فیٹ سیلز بھی کم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اب کیونکہ دیسی گھی اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ، ایس سی اف اے اور بیوٹیرک ایسڈ کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے اس لئے دیسی گھی انسان کے دماغ کے لئے بہت ہی زیادہ فائدے مند رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیسی گھی آپ کے دماغ کو آپ کے نروز کو اور آپ کے نیوروٹرانسمیٹرز کو اچھے سے کام کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا ماحول فراہم کرتا ہے ۔اس لئے آپ نے اپنی نانی یا دادی کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ دیسی گھی کھایا کرو دماغ میں تراوٹ آئے گی ۔ 🔸 *آنکھیں۔*🔸اب بات کرتے ہیں آنکھوں کی ۔ دیسی گھی vitamin A کا بہت ہی اچھا سورس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ آپ کی آنکھوں کے لئے بہت ہی زیادہ فائدے مند رہتا ہے ۔اس چیز کو ذرا سا سمجھ بھی لیجئے کہ لمبے عرصے تک موبائل سکرین دیکھتے رہنے کی وجہ سے یا کمپیوٹر سکرین دیکھتے رہنے کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ ہمارے لیکریمل گلینڈز جہاں آنسو بنتے ہیں وہ صحیح طرح سے کام کرنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں میں روکھا پن سوکھا پن اور جلن اور دیکھنے جیسی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔ اب اگر آپ ان چار میں سے کوئی بیماری ہے یا آپ اپنا زیادہ تر وقت موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر بیتاتے ہیں تو آپ کو اپنی ڈائٹ میں دیسی گھی کو ضرور شامل کرنا چاہیے ۔ اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ جب وٹامن اے کی بات کی جاتی ہے تو جو وٹامن اے دیسی گھی سے حاصل ہوتا ہے وہ گاجر سے نہ صرف زیادہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ اثر دار بھی ہوتا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ دیسی گھی میں جو وٹامن ہوتا ہے یہ دو فارم میں ہوتا ہے جس میں سے ایک Ester ہے جبکہ دوسری catroten ۔ اس لئے جب آپ دیسی گھی کھاتے ہو تو یہ نا صرف آپ کے جسم کو بہت زیادہ مقدار میں وٹامن اے دیتا ہے بلکہ یہ اسے اچھی طرح سے جذب بھی کرواتا ہے ۔ 🔸 *وٹامن D*🔸تو دیسی گھی میں جو دوسرا وٹامن ہوتا ہے وہ وٹامن ڈی ہوتا ہے اور وٹامن ڈی کی سب سے بڑی حثیت یہ ہوتی ہے کہ یہ آپ کے جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کو جذب کرواتا ہے ۔ اس لئے دیسی گھی بڑھتے بچوں ، حاملہ عورتوں اور کثرت کرنے والے افراد کے لئے بہت زیادہ مفید چیز ہوتی ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا جسم خوبخود وٹامن ڈی پیدا کر لے تو آپ کو چاہیے کہ صبح صبح باریک کپڑے پہن کے کچھ دیر دھوپ میں ٹہلیں ۔ 🔸 *وٹامن E*🔸وٹامن ای کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی بہترین آنٹی آکسیڈنٹ ہوتا ہے یہ نا صرف آپ کی قوت مدافعت بڑھا دیتا ہے بلکہ آپ کے جسم میں جو ٹاکسنز پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی نکال کر باہر پھینکتا ہے لیکن یہ وٹامن ای کا اصلی فائدہ نہیں ہے وٹامن ای کا اصلی فایدہ یہ ہے کہ وٹامن ای کو مناسب مقدار میں لینے سے آپ کی جلد چکنی لچکیلی اور چمکدار ہوتی چلی جاتی ہے اس لئے اگر آپ کی عمر تیس سال سے زیادہ ہے تو آپ کو دیسی گھی کھانا بھی چاہیے اور لگانا بھی چاہیے ۔ کچھ مرد جو 6 پیک بنانے کے چکر میں اور کچھ خواتین سلم ٹریم رہنے کے چکر میں دیسی گھی کا استعمال نہیں کرتیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ دیسی گھی کھانے سے ان کے جسم کی ساخت خراب کو جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنے سے ان کی بیماروں کے خلاف قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور آپ نے کئی ایسے 6 پیک والے لڑکے اور سلم سمارٹ لڑکیاں دیکھیں ہوں گی جن کا حال موسم بدلتے ہیں بے حال ہو جاتا ہے اور نزلہ زکام ،کانسی بخار انھیں آ گھیرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا تو آپ ان سے یہ پوچھ کے دیکھ لیجئے گا سال بھر ان کے جسم میں کہیں نہ کہیں درد ضرور ہو رہا ہوتا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ایسے مسائل نہ ہوں تو آپ کو دیسی گھی ضرور استعمال کرنا چاہیے 🔸 *وٹامن کے* :🔸وٹامن کے ناصرف ہڈیوں کے لئے بہت فائدے مند ہوتا ہے بلکہ یہ کسی بھی قسم کی چوٹ کو ٹھیک کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے ۔اس لئے کٹنے پر جلنے پر اور چھپنے پر سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہاں پر دیسی گھی لگا دیا جائے 🔸 *کارڈیو ویسکولر سسٹم* :🔸 دیسی گھی میں ایس -سی -ایف -اے اور بیوٹیرک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے اگر آپ دیسی گھی لیتے ہیں تو دیسی گھی آپ کے جسم اور خون کی نالیوں میں جمی چربی کو باہر نکال دیتا ہے اس لئے اگر آپ اچھی مقدار میں دیسی گھی لیتے ہیں تو آپ موٹاپے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور یہی the ketogenic diet کا بنیادی اصول ہوتا ہے ۔ اب اس کا کیا مطلب ہوا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ موٹاپے کا شکار ہیں تو آپ کو دیسی گھی ضرور کھانا چاہیے ۔دیسی گھی لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کی وینز اور آرٹریز کی الاسٹیسٹی یا لچک بڑھا دیتا ہے اس لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہے جن کی فیملی ہسٹری دل کی بیماریوں کی ہے یا جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں اور جو لوگ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں بہت زیادہ پلیویشن ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ کیونکہ دیسی گھی میں بہت ہی اچھی مقدار میں انٹی آکسیڈنٹ کانجوگیٹڈ لینولیک ایسڈ اور فیٹ سالوبل وٹامنز ہوتے ہیں اس لئے یہ قد بڑھانے کے لئے ایک بہت ہی مفید غذا سمجھی جاتی ہے ۔🔸 *ڈئجسٹو سسٹم* :🔸اگر آپ کو کچھ تلا ہوا کھانے کو دل کر رہا ہے تو آپ ایسے دیسی گھی میں ہلکی آنچ پر تلیے اور کھائے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا ۔ایسا کیسے ہوتا ہے ؟ دیسی گھی کا سموک پوائنٹ کسی بھی طرح کے گھی سے اور کسی بھی طرح کے تیل سے زیادہ ہوتا ہے 🔸 *سموک پوائنٹ کیا ہوتا ہے* ؟🔸 سموک پوائنٹ smoke point کسی خاص چیز کے لئے اس خاص ٹمپریچر کو کہا جاتا ہے جس پوائنٹ پر وہ چیز گرم ہونے پر فری ریڈیکلز چھوڑنا شروع ہو جاتی ہے یعنی ایکسیڈائز ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ فری ریڈیکلز سے کیا نقصان ہوتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر جسم میں فری ریڈیکلز تھوڑے زیادہ بڑھ جائیں تو طرح طرح کی کارڈیو ویسکولر ڈیزز ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اگر زیادہ بڑھ جائیں تو کینسر تک ہو سکتا ہے ۔ لیکن دیسی گھی میں جو بیوٹیرک ایسڈ ہوتا ہے یہ ہماری انٹیسٹائینز میں جا کر کیلرلٹی سیلز کی پیداوار بڑھا دیتا ہے اور یہ جو کیلرٹی سیلز ہوتے ہیں وہ ہمارے جسم میں باہر سے آنے والے تمام ہر طرح کے الرجنس اور ٹاکسنز کو ختم کر دیتے ہیں کیونکہ دیسی گھی میں بہت اچھی مقدار میں کانجوگیٹڈ لینولیک ایسڈ ہوتا ہے جو کہ بہت ہی بہترین anticarcinogen مانا جاتا ہے اس لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت مفید ہے جن کی فیملی ہسٹری کینسر کی ہے یا وہ لوگ جو کینسر سے متاثر چکے ہیں ۔ڈائجسٹو سسٹم میں دیسی گھی کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کھانے کے کسی بھی ایٹم کا glycemic index کم کر دیتا ہے 🔸 *گلاسیمک انڈیکس کیا ہوتا ہے* ؟ 🔸گلاسیمک انڈیکس کسی بھی فوڈ ایٹم کی اس ویلیو کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ یہ خوراک ہمارے خون میں کتنی تیزی کے ساتھ بلڈ شوگر لیول کو بڑھا دے گا ۔اور اسی لئے دیسی گھی ان لوگوں کے لئے بہت فایدہ مند ہے جنھیں شوگر کی بیماری ہے ۔ویسے تو شوگر کے مریض کو ایسا کھانا نہیں کھانا چاہیے جس کا گلائسیمک انڈیکس زیادہ ہو لیکن اگر کھانا ہی پڑے تو اسے چاہیے کہ اس میں دیسی گھی ڈال لے ۔تیسری چیز دیسی گھی ایسینشل فیٹی ایسڈز کا بہت اچھا سورس ہوتا ہے اس لئے دیسی گھی ناصرف آپ کی intestinal walls کو پروٹیکٹ کرتا ہے بلکہ یہ السریٹو کولایٹس ،منہ کے چھالے اور پیٹ کے السر سے بھی آپ کو بچاتا ہے اور اگر یہ بیماریاں آپ کو پہلے سے ہی ہیں تو یہ ان کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے کارآمد اور قدرتی طریقہ ہے ۔🔸 *ایک دن میں کتنا دیسی گھی کھانا چاہیے* 🔸فوڈ اینڈ نیوٹریشن بورڈ آف دی نیشنل ریسرچ کے مطابق ایک صحت مند جوان کی کل خوراک کا 20 ٪ حصہ فیٹس سے لیا جانا چاہیے اس سے آپ ایک دن میں بڑے آرام سے 20 سے 30 گرام دیسی گھی کھا سکتے ہیں ۔یہاں اس بات کو بھی سمجھ لیں کیونکہ فیٹ انٹیک یعنی چکنائی لینے کی اپر لیمٹ 35٪ ہے اس لئے ہم زیادہ دیسی گھی بھی کھا سکتے ہیں لیکن ہم دن بھر میں جو خوراک لیتے ہیں اس میں بھی کہیں نہ کہیں چکنائی ضرور ہوتی ہے اس لئے 30 گرام سے زیادہ دیسی گھی نہیں کھانا چاہیے ۔اگر آپ چاہیے ہیں کہ آپ جو دیسی گھی کھا رہے ہیں اس کا آپ کو پورا پورا فایدہ ملے تو آپ روزانہ پیدل چلنے کا معمول بنا لیجئے ۔اور یہاں سب سے ضروری بات کرنا چاہوں گا کہ جو بچپن کے دن ہوتے ہیں یا جوانی کے دن یہ گروتھ ایئرز کہلاتے ہیں اور ان سالوں میں دیسی گھی بنا موٹاپے اور پیٹ بڑھنے کی پروا کیے ضرور لینا چاہے اور ضروری ہے کہ جب بچے بڑھ رہے ہوں ان کی خوراک میں دیسی گھی کو ضرور شامل کیا جائے جس سے نہ صرف وہ لمبے بلکہ چوڑی جسامت بھی حاصل کرتے ہیںخادم طب

Wednesday, 30 March 2022

*ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات* *1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83*2 غصے کو قابو میں رکھو*سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134*3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*سورۃ القصص، آیت نمبر 77*4 تکبر نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 23 *5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 22*6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11*9 والدین کی خدمت کیا کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*‏10 والدین سے اف تک نہ کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 58*12 لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282*13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،* سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36*14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280*15 سود نہ کھاؤ،* سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278*16 رشوت نہ لو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42*17 وعدہ نہ توڑو،* سورۃ الرعد، آیت نمبر 20*‏18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42*20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،* سورۃ ص، آیت نمبر 26*21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 8*23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* سورۃ النساء، آیت نمبر 7*24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 2*‏25 یتیموں کی حفاظت کرو،*سورۃ النساء، آیت نمبر 127 *26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 6*27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10*28 بدگمانی سے بچو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*29 غیبت نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*30 جاسوسی نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*31 خیرات کیا کرو،* سورۃ البقرة، آیت نمبر 271*32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو*سورة المدثر، آیت نمبر 44*33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* سورة البقرۃ، آیت نمبر 273*34 فضول خرچی نہ کیا کرو،*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67*‏35 خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*سورة البقرۃ، آیت 262*36 مہمانوں کی عزت کیا کرو،*سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27*37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44*38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36*39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* سورة البقرة، آیت نمبر 114*40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*‏42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* سورة الأنفال، آیت نمبر 15*43 مذہب میں کوئی سختی نہیں،*سورة البقرة، آیت نمبر 256*44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 150*45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* سورة البقرة، آیت نمبر، 222*46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* سورة البقرة، آیت نمبر، 233*47 جنسی بدکاری سے بچو،*سورة الأسراء، آیت نمبر 32*48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247*49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* سورة البقرة، آیت نمبر 286*50 منافقت سے بچو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16*‏51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* سورة آل عمران، آیت نمبر 190*52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* سورة آل عمران، آیت نمبر 195*53 بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 23*54 مرد خاندان کا سربراہ ہے،*سورۃ النساء، آیت نمبر 34*55 بخیل نہ بنو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 37*56 حسد نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 54*57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 29*58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*‏59 گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100*62 صحیح راستے پر رہو،* سورۃ الانعام، آیت نمبر 153*63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38*64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* سورۃ الانفال، آیت نمبر 39*65 مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3*‏66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*67 جوا نہ کھیلو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*68 ہیرا پھیری نہ کرو،* سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70*69 چغلی نہ کھاؤ،* سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1*70 کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6*73 طہارت قائم رکھو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108*74 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ الحجر، آیت نمبر 56*‏75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 17*76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* سورۃ النحل، آیت نمبر 125*77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*سورۃ فاطر، آیت نمبر 18*78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 31*79 جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*سورۃ النحل، آیت نمبر 36*‏80 کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* سورۃ النور، آیت نمبر 27*82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* سورۃ یونس، آیت نمبر 103*83 زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63*84 اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* سورة توبہ، آیت نمبر 105*85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* سورۃ الکہف، آیت نمبر 110 *‏86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* سورۃ النمل، آیت نمبر 55*‏87 حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* سورۃ توبہ، آیت نمبر 119*88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37*89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* سورۃ النور، آیت نمبر 31*90 اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 48*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ زمر، آیت نمبر 53*92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34*93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* سورۃ الشوری، آیت نمبر 38*‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* سورۃ الحدید، آیت نمبر 27*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 32*99 اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* سورۃ الضحی، آیت نمبر 10*اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ایک ڈائری بنا لیں تو ذیادہ اچھا ہے۔*

Tuesday, 16 November 2021

د افغان سيدانو تاريخ:سادات په افغانستان کې دبېلا بېلو قو مونو تر مينځ د عربانو له پښته پاتې يوه ډله ده. د دغو آر له حضرت محمد (ص) د لور بي بي فاطمې الظهرا او زوم علي (رض) له پښته گڼل کېږي . دغه سيدان د افغانستان په بېلا بېلو سيمو کې په بېلا بېلو نومونو ياديږي ٠ دبېلگې په تو گه : دافغا نستان په ختيځو ولا يتونو ننگرهار، کونړ او لغمان کې دپاچايانو او يا پاچا صاحبانو او د سيدانو يا ساداتو په نا مه ياد شوي ٠ په ځينو ځا يو نو کې ورته اغا صاحب او د افغا نستان دخوست په ولايت کې ورته سيدگي وايي ٠ په پښتونخواه کې يې باچايان يا بادشاه صاحب بولي٠ [۱]په ټولیز ډول دافغانستان په هره سېمه او په تېره بيا د پښتنو په سيمو کې دغه سيدانو ته خلک ډېر درناوی کوي، ځکه چې د اسلام دستر پيغمبر محمد (ص) دلور بي بي فا طمې (رض) اد حضرت علي کرم الله وجهه او لاده ېې گڼي٠ پښتانه دوی پيران او حضرتان بولي ٠افغانستان کې سادات او دوديزه گروهې:د افغانستان او سیمې په هېوادونو کې ځينې دوديزه شگونونه يا گروهې شته چې له مخې ېې د ځان د ډاډ لپاره د پیر، حضرت او ځينې ملنگانو څخه د مرستې په توگه تاويز او دعاگانې ترلاسه کوي څو د هغوی مراد ترسره شي . همدا رازکه څوک ناروغه شي نو ددم دعا او تعو يذونو لپاره سيدانو ته ورځي او هغه پښتانه چې دکوم سيد تر تعويذونولاندې وي نو دکند هار په اصطلاح هغوی ته دروږيان وايي او ددوی نه څا ښتونه او خوردې هم اخلي٠ په پښتني سېمو کې د دغو سيدانو يا پا چايانو سره پښتنو خپلوۍ او خيښۍ کړي دي او دوی دپښتنو سره داسې نږدې ا ړيکي لري او داسې سره اخښل شوي دي چې گواکې هيڅ پښتون هم دوی له ځانه جلا نه گڼي ٠ ددغو سيدانو نه پښتانه تل دخپل منځي شخړو او لا نجو په اوارولو کې مرسته غواړي او هره فيصله چې دوی وکړي نو دواړو غاړو ته دمنلو وړوي٠تاريخ حيات افغاني چې له نن نه ١٤٥ کلو نه وړاندې ليکل شوی د سيدا نو په اړ وند داسې ليکي:"د بني ها شمي قريشو نه دحضرت امام حسن (رض) او حضرت امام حسين (رض) او لادې ته چې د پيغمبر (ص) لمسيان ول سيدان ويل کيږي٠ د افغا نستان هيڅ يو لوی کلی نشته چې يو يادوه کوره سادات دې پکې نه وي٠ په افغانستان کې سيدانو ته د خپل معمول نوم نه پر ته خواجه، سيد، ميا، اغا، پاچا، صاحب، صاحبزاده او مير هم وايي او ورته زيات درناوی کوي"[۲]دا چې افغانستان يو لرې پروت تړلی، دوديزه هېواد پاتې شوی ټولنه ېې هم د سيمې له حال احواله ناخبره او بې پرې پاتې شوې . دتاريخ په اوږدو کې ېې د سيمو زبرځواکونو يرغلونه پې کړي او د ټولنې چوکاټ ېې څو ځایه ادل بدل کړی خو خلکو باندې ېې زور ندی رسېدلی او بيا بېرته پښېمانه په شا تمبول شوي . د همدې تمبولو په لړ کې ځينو سيمه ييزو سياستوالو د افغانانو د سپېڅلې ارادې راز د هغوی په مذهبي کلکو گروهو کې موندلی چې په لړ کې ېې ورته د هغو گروهو په چوکاټ کې د پیر او حضرت تر نوم لاندې روحاني اشخاص ورلېږلي او هغوی باندې ېې د مذهبي گروهې له خوا منلي او هغو سيمه ييزو هېوادنو خپل استخباراتي سياستونه په افغانستان کې چلولي دي . د همدې په لړ کې له پخوا څخه په افغانستان کې د پیر ، موريد، حضرت صاحب، پاچا صيب ، آغا صيب ، او نورو گروهي ستاينومونو شهرت روان و . دغو اشخاصو د نيکونو د نوم څخه په استفادې د اسلام له دین څخه ناخبرو خلکو باندې د ولامقام کسانو طبقاتي ولکه جوړه کړې چې د خلکو په لوړ کتار کې شمېرل شوي او د ټولنې په هر اړخ کې ېې د وړ او ناوړه مسلکې پوهې په درلودو ېې بيا هم لوړ ځايناستو څخه گټه پورته کړې چې د افغانستان په څو سياسي پيرونو کې په لوړو مقامونو د دوی اغېز روان و .افغانستان کې د پښتنو سيدانو د استوگنې سيمې:د کونړ ولايت دپشد دسيمې سيدان: دغه سيدان ډېر مشهور او خلک ورته ډېر درناوی لريد ننگر هار ولايت د روداتو دو لسوالۍ دمزينې دسيمې پاچاياند ننگر هار ولايت دسره رود دولسوالۍ دسيدانوکلید ننگر هار ولايت دخوږيا ڼيو دسيمې پا چاياند لغمان ولايت دعزيزخان کڅ او دتير گړيو دکلي پاچاياند کاپيسا ولايت د تگاب دولسوالۍ سيدان چې دتگاب مياگل جان اغا هم دهمدې سيدانو نه ود پکتيا دولايت سيدان چې په گرديز او زرمت کې اوسي٠ دستر سيد شيخ شاه محمد روحاني مزار هم په زرمت کې دی چې ډېر ارادتمندان لريد خوست ولايت سيدان چې دوی ورته په خپله لهجه کې سيد گي وايي او د خوست په ډبکي کې استو گنه لريد پکتيکا ولايت دارگون دبر مل دسيمې سيداندميدان او وردگو ولايت سيداند کابل ولايت دده سبزولسوالۍ دپايمنار پاچايان چې دپايمنارد پا چا صاحب زيارت هم هلته دی٠ همداراز دکابل په لويدېز کې دکلای قا ضي په سېمه کې دشاه اغا زيارت هم ډېر مشهور دی چې ډېر شمېر خلک يې زيارت ته ورځيد لوگر ولايت دمحمد اغې، څرخ او کلنگار دسيمې سيداند بغلان ولايت سيداند کندز ولايت سيداند بلخ ولايت سيداند پروان ولايت دهوفيان شريف سيدان چې سيد جان اغا پکې مشهور شخصيت تېر شوی دید غزني ولايت سيدان.چې زياتره يې په واغز کې استو گنه لري.د زابل ولايت سيداند ارزگان ولايت سيداند هېلمند ولايت سېدان: د هيلمند ولايت دگرمسير د هرات ولايت سيدان: چې په اصل کې دکونړ دپشد نه تللي دي اود دوی نېکه مرواريد اغا هلته ښخ دی او زيارت ته يې ډېر شمېر خلک ورځي٠ ددوی دکورنۍ نه يو مهم تن توراغا نو ميده٠ همداراز دهرات ولايت دکرخ دولسوالۍ سيدان او دهرات ولايت دانجيل ولسوالۍ دنوين دکلي سيدان هم مشهور ديد کندهار ولايت سېدان: د دې سيمې سېدان تذکره لاندې په بله برخه کښې ورکړ شوې ده.لنډه داچې د افغانستان په هر ولايت، ولسوالۍ او سيمو کې سيدان شته دي٠کندهار کې سيدان او د سیدانو نوموتې کورنۍ:دکندهار په ولايت کې د پښين سيدان ډير مشهور دي٠ په کند هار کې سیدان د ارغنداب، پنجوائې، شاه ولیکوټ، میوند، ډنډ، معروف، ارغستان او ښوراوک په ولسواليو او دکند هار د ښار په مرکز کې میشته دي چي په ارغنداب کي يې ځانگړې سيمې د سیدانو کلا چه، صوف، ده ماسوس او د ارغنداب د سیدانو لنگر دی ددې ترڅنگ په کندهار ښار کې د سیدانو په نوم کوڅې هم لري٠ که څه هم دکندهار د ده ماسوس سیدان ،خلک له اره صاحبزاده خېل بولي خو اوس په سیدانوسره ياديږي.په کندهار کې د نومیالي غازي شاه اشرف اغا کورنۍ: د کندهار د پنجوائې دسیدمحمد اغا کورنۍد کندهار د مشهور جهادي شخصیت ارواښاد حمیداغا کورنۍ ٠دکندهار د سیدعظیم اغا کورنۍ دکندهار دسیدعظیم اغا کورنۍد کندهار داوسني قومي مخورسپين ږیري سید عبدالظاهراغا کورنۍ چې په ډيرو جرگو کې يې دکند هار دخلکو استازیتوب کړی دی ددې کورنۍ زیات شمیر کسان اوس په جنوبي پښتونخوا کوټه کې میشته دي .دکندهار دارغنداب دحسام الدین جان اغا علمي او سیاسي کورنۍ چې په سیمه کې دپوره شهرت نه برخمنه ده٠ ددغه حسام الدین جان اغا زوم محمد سرورخان دکند هار نا ئب الحکو مه و٠دکندهار د مشهور روحاني شخصيت سیدعبدالرحمن شاه اغا کورنۍ ده خواجه دسیدقدوس اغا علم پالونکې کورنۍ چي دکندهار دکاروان او منار کوڅو په مينځ کې میشته ده .د ارغنداب دلنگر دسیدانو کورنۍ د کندهار دمشهور تاجر سیدحبیب الله جان اغا کورنی چي دکندهار په ډنډ او نوي ښارکې میشته ده ٠د زلخان د سیدانو کورنۍ د دیلاوور دسیدسرور اغا کورنۍد بازگل اغا او سیدگل اغاکورنۍ د تور اغا کورنۍ د کندهار په دهله کې دسيد محسن اغا کورنۍ دسيد حسين اغا کو رنۍ چې دکند هار په ديمراسۍ کې ئې غټه کلا او س هم دسيد قا سم جان اغا په نامه سره يا ديږي٠د ده ماسوس دغني جان اغا کورنۍ٠د ذاکر شريف دجهادي شخصیت سیدمحمدجان اغا کورنۍ٠دگلجه اباداوسبزکار دسيدانو کورنۍ٠دمېر بازار سيدان کندهار سیدانو مشهور شخصیتونهغازي شاه اشرف اغا چې په دويم ځل يې په کندهار کې دغازي امان الله خان بیرغ پورته کړه او ترغزني پورې يې ټولي سيمې بیرته دغازي امان الله خان تر ولکې لاندې راوستلې ٠غازي سیدحیدراغا چې دمیوند په تاریخي غزا کې دافغان غازیانوسره یوځای په شهادت ورسید.غازي شهید سیدامین الله اغا چې په لالا ملنگ مشهور و او په کندهاریانو کې د دجهاددیو وتلي اتل په نوم شهرت لري ٠سیدمحمدنسیم اغا چې د تنظیمه رئيس و ٠موسی کلیم اغا چې دمشهورو جهادي شخصیتونو نه و اودکوټې په سریاب کې ښخ دی .روحاني شخصیت شهیدسیدعبدالرحمن شا ه اغا چې په کندهار کې يې ژوبڼ او میوزیم درلود ٠او هم هلته ښخ دی .دکندهار وتلی ولسي شاعر سیدعبدالخالق اغاډگروال سیدنجم الدین اغا چې د سردار داودخان د نږدې ملگرو څخه و او دهغه سره دجمهوري رژيم په رامينځ ته کولو کې يې مهمه ونډه درلوده ٠ نوموړي د جهاد په دوره کې د کندهاردمجاهدینو په پوځي روزنه کې وڼده درلوده.پښتونخوا د سيمې سيداندسوات دبو نير دسيمې سيدان چې سيد علي تېر مذي چې په پير بابا سره شهرت لري هورې ښخ دی اوټول پښتانه ورته زيات ارادت او درناوی لري٠دباجوړ دسيمې سيداندچترال دسيمې سيدانددير دسيمې سيداندخيبر ايجنسۍ سيداندکورمې ايجنسۍ سيدان چې پښتانه او شيعه مذهبه دي او داحمدزيو، دکړمان دسيدانو، د تېراه د سيدانو او دماوړه دسيدانو په نامه شهرت لري٠د اورکزيو ايجنسۍ سيدانددېره غازي خان سيداندپېښور دسيمې سيداندبنگښو دسيمې سيداند لکي مروت سيمې سيدان: چه د شېخ شاه روحاني اولاد گڼل کېږي و د ابا خېل، مټوري، و ميچن خېل کلو کښې استوگن لري. د دې نه علاوه د تاجي زو سېدان هم په علاقه کښې قدر لري. نامتو ليکوال و تاريخپوه ډاکټر سېد چراغ حسېن چه کوم نه گڼ شمېر کتابونه لکه دود چراغ، تذکره پير سباک، انوار چراغ، و د قيصو کتاب ناليدلې بلا منصوب دي، هم دې سيمې نه دې.دشمالي وزيرستان سيدان : د شمالي وزيرستان سيدانو ته په سېمه اېزه اصطلاح سيدگي وايي چې دوی ددغې سيمې په ځوی،دويگر،ډنډ،ورغړ،رباط اوشوال کې استو گنه لري او نن دپښتنوديوې قبيلې په تو گه مو جوددي٠ سيدگي په پيل کې په دوو بر خو ويشل شوي دي چې ملکا خېل او ذکر خېل نو ميږي اود قبيلوي اتحاد له مخې ملکا خېل دابر اهيم خېلو وزيرو سره متحد او يو مو ټی دي ٠ دسيد گي د قبيلې دخيلو نو او داستو گنې دسيمو نو مونه په لاندې ډول دي :ذکرخېل، شداد خېل، ابا خېل، شومېر خېل، مولي خېل او مصري خېل چې په ډنډ او رباط کې استو گنه لريشودي خېل، لاده خېل، جبر خېل، ټول بيگ خېل،کبډي خېل، اتک خېل، رومي خېل، مدک خېل، سرورخېل، زوبر خېل، نظر بيگ خېل او اخوند خېل چې په دويگر او ځوی کې استو گنه لريمياگل خېل چې په دويگر، ورغړ،ډنډ او شوال کې اوسيږيکاکا خېل، سره گنډه، تره کي گنډه، غوټي گنډه چې په ډنډ کې او سيږيملکا خېل، بودر خېل، مسيري خېل، ايبار خون خېل، گري خېل، خدري، گرړخېل، ميسون خېل او خړه شوپه چې زيات شمېر يې په ځوی او لږ شمېر يې په دويگر کې استو گنه لريهمداراز حکيم خېل په ډنډ او رباط کې استو گنه لريسهېلي پښتونخوا سيدان: د سهيلي پښتونخوا سيدان په پښين، سرانان، ژوب، چمن، لورلايي، او کوټه کې استو گنه لري چې مشهور ښا خونه يې ښاديزي، عمرزي، حيدرزي او ابراهيمزي دي٠د کوټي په سیدانو کې د سیدعبدالنافع اغا کورنۍ چي شادیزي سیدان دي دیادولووړ دي.په پښين کې دسيدانو يوه بله مشهوره کورنۍ هم شته چې مشر يې دسرانانو علي اغا دی چې يو ستر عالم ،مدرس او دکويټې،پښين او کراچۍ په پښتنو او غير پښتنو کې ډېر شمېر مريدان اوارادتمندان لري٠بايد زياته کړو چې سيدانو د هند په نيمې وچې باندې د١٤١٤ ميلادي کال نه تر ١٤٥١ ميلادي کاله پورې واکمني کړې ده چې د دوی واکمني د سيدانو د واکمنۍ په نا مه سر ه يا ديږي چې دځينو مشهورو واکمنانو نو نو مو نه يې په لا ندې ډول دي :خضرخان، سلطان مبارک شاه، سلطان محمد شاه اوسلطان علاؤالدين.[۵]افغا نستان او پښتونخوا کې د سيدانو مشهور شخصيتونهافغانستان و پښتونخوا کښې د سېدانو مشهور شخصيتونه په دې ډول دي[۶]د ختيز نابغه علامه سيد جمال الدين افغانيدپښتو ژبې ليکوال، شاعر او فيلسوف ارواښاد استاد ښاغلی گل پاچا الفت.د اعليحضرت محمد ظا هر شاه دواکمنۍ په وخت کې دعدليې وزيرار واښاد ښاغلی سيد شمس الدين مجروحدکابل پوهنتون استاد ارواښاد شهيدسيد بهاؤ الدين مجروح٠دقبايلو دوزارت پخوانی معين ښا غلی سيد مسعود پو هنياردکونړونو پخوانی والي ښاغلی سيد فضل اکبردکونړ او سنی والي ښاغلی سيد فضل الله واحديسياسي شخصيت او ليکوال شهيد ښاغلی سيد يو سف ميړنيپه ولسي جر گه کې دخوږيا ڼيو پخوانی استازی ښاغلی فاروق ميړنیدپښتو ژبې ليکوال ښاغلی سيد حسين پاچادپښتو ژبې شاعره، ليکواله او ويندويه اغلې مير من مستوره شالدپښتو ژبې ليکواله او ويندويه اغلې مير من پروين عليستر روحاني شخصيت سيد علي تر مذي مشهور په پير باباد افغانستان دملي محاذ مشر ښا غلی پير سيد احمد گيلانيد افغانستان د سيمه ييزو مطالعاتو (وفاWafa) د مرکز پخوانی ریس عبدالرسول امینښاغلی سيد اسحق گيلانيښاغلې مېرمن فا طمه گيلانيد ننگرهار دليسې پخوانی مدير ښاغلی سيد مقصود سعيديد ننگرهار دسره رود قومي مخور ارواښاد معشوق جان اغاښاغلې دکتور کبرا مظهري ماياردپښتو ژبې مشهور شاعر ښاغلی سيدمحمدطا هر بينادپښتو ژبې شاعر او ليکوال ښاغلی سيد نورالله ځلسرچینې: ډاکټر لطيف ياد شخصي ياددښتونه تاريخ حيات افغاني، دپېښور چاپ ٤٥٥ مخ دبېنوا دويبپا ڼې مشر ښاغلي خالد هادي حيدري را استول شوي معلومات پښتني قبيلې دپېښور چاپ ١٧٩ مخ< هندوستان پر اسلامي حکومت،دمفتي شوکت علي فهمي اثر ٣٥٠- ٣٦٠ مخونه، دهلي ډاکټر لطيف ياد شخصي يادونهيادونه:منډيګک تاريخي بنسټ د پښتني ټبرونو د سپړلو د پاره دغه شجرې تاسي ته وړاندي کوي، او مسوليت يې په لاندي کتابونو اړه لري، هيله ده مرسته مو وکړئ او خپلو ټبرونو په اړه شجرې/مالومات او يا هم زموږ تېروتني راته په ګوته کړئ!••• ═══ ‏༻✿༺═══ •••د نورو ورته ليکنو لپاره زموږ پاڼه پرانيزئ:☚ ‏mundigak.comد نورو تاريخي موادو د پاره زموږ پاڼه خوښه او دغه انځورونه له ملګرو سره شريک کړئ✅

#نماز_کا_طریقہجس کو نماز کا ترجمہ و تشریح نہیں آتا اس کا نماز میں زیادہ دل نہیں لگتا اسکو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں آئیں نماز سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں آللہ پاک ہم سب کو پانچ وقت کی نمازی بنا آمین ثم آمین 🤲🤲🤲 #ثـنــــاءسُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.اے ﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.#تعـــــــوذأَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں#تســـــمیہبِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.ﷲ کے نام سے جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے#سورۃ_الفـــــــاتحہالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO*تمام خوبیاں, تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے, نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے, روزِ جزا کا مالک ہے, ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں, ہمیں سیدھا راستہ دکھا, ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا, ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراھوں کا.#سورۃ_الاخـــــــلاصقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌOآپ فرما دیجئے ک: وہ ﷲ ھے جو یکتا ہے, ﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے, نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمعسر ہے.#رکـــــــوعسُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ.پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا.#قـــــومہسَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ.ﷲ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی.رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.اے ہمارے رب ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں.#سجـــــــدہسُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی.پاک ہے میرا پروردگار جو بلند تر ہے.#تشـــــــہدالتَّحِيَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ. أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں ﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور ﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور ﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں.#درودِ_اِبــــراہیـمیحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے:اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے.اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے.#دعائے_ماثــــــورہدرود شریف کے بعد یہ دعا پڑھیں :رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَءَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo*اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا...تحــــریری غلطــی ہو گئــی ہوتـــو معـــذرت خـــــواہ ہـوکاپی پیسٹ❣️❣️💓💓