Saturday, 24 June 2023

Titanic. ٹائٹینک اور ٹائٹن آبدوز!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن 2009 میں امریکہ کے ایک ائیروسپیس انجنیئر سٹاکٹن رش(پہلی تصویرمیں) نے اوشین گیٹ (OceanGate Expedition) نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جسکا مقصد گہرے سمندروں میں 4 سے 6 کلومیٹر کی گہرائی کی آبدوزیں بنانا تھا جو ملٹری، تحقیق اور تفریح(ایڈونچر ٹورزم) کے لیے استعمال ہوسکتی ہوں۔ اس کمپنی کا ایک مقصد دنیا کے امیر ترین افراد کو گہرے سمندروں میں آبدوز کے ذریعے سیاحت پر لے جانا بھی تھا۔2009 سے اب تک اس کمپنی کی تین آبدوزیں 200 سے زائد مرتبہ گہرے سمندروں میں مختلف مقاصد کے لیے گئیں اور بحفاظت واپس لوٹیں۔ اس حوالے سے ایک اہم آبدوز جسکا چرچہ آجکل دنیا بھر میں ہو رہا ہے وہ ٹائٹن تھی جسے کمپنی کے مطابق زیرِ سمندر 4 کلومیٹر کی گہرائی تک جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ بُرج خلیفہ جو اس وقت دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے ایک کلومیٹر سے بھی کم اونچی ہے جبکہ نانگا پربت کے بیس کیمپ کی اونچائی سطح سمندر سے تقریبا 4 کلومیٹر (3850 میٹر) اوپر ہے۔ مگر سمندر کی اتنی گہرائی میں کون سیاحت کے کیے جائے گا اور وہاں کیا ہو گا؟ اسکا جواب ہے ٹائٹینک۔ جی ہاں وہی ٹائیٹنک جس پر مشہورِ زمانہ فلم بنی جسکی شہرت کی وجہ اس میں موجود ایک سین ہے جس میں لیونارڈر ڈی کیپری اور کیٹ ونسلٹ ٹائیٹینک کے عشرے پر ایک دوسرے سے جڑے سمندر کو بانہیں کھول کر دیکھ رہے ہیں. (آپ جس سین کا سوچ رہے تھے وہ بھی مشہور ہے)۔ ویسے بتاتا چلوں کہ اس فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون فلم کی تیاری کے سلسلے میں 33 مرتبہ سمندر سے نیچے جا کر اسکا ملبہ دیکھ بکے ہیں۔ٹائٹینک اپنے زمانے کا سب سے بڑا جہاز تھا اور یہ 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر پر سمندر میں تودے کے ٹکرانے سے ڈوب گیا۔ اس جہاز کا ملبہ کینیڈا کے علاقے نیوفاؤنڈ لینڈ کے ساحلوں سے 700 کلومیٹر دور آج بھی بین الاقوامی سمندروں میں غرق ہے۔ اس ملبے کو 1985 میں دریافت کیا گیا۔ یہ ملبہ سمندر میں تقریباً 4 کلومیٹر نیچے موجود ہے۔ اسی ملبے کو امیر سیاحوں کو دکھانے کے لیے اوشنگیٹ ایک آبدوز استعمال کرتی رہی جسکا نام ٹائٹن تھا۔ یہ آبدوز 2021 میں پہلی مرتبہ ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچی۔اس ٹرپ پر ایک آدمی کا ٹکٹ 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر تھا۔ ایک ڈالر آج کل 288 روپے پر پھر رہا یے۔ خیر دوسری مرتبہ یہ 2022 میں ٹائٹینک کے ملبے تک سیاحوں کو بحفاظت لے کر گئی۔ اور اب تیسری مرتبہ 18 جون بروز اتوار کو یہ پانچ سیاحوں کو سمندر میں غرق ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے لے جا رہی تھی کہ اسکا رابطہ سمندر کی سطح پر موجود اپنی معاون کشتیوں سے، سفر کے آغاز کے1 گھنٹہ اور 45 منٹ بعد منقطع ہو گیا۔ جسکے بعد پوری دنیا میں اسکی خبر پھیل گئی اور اسکی تلاش کے لیے کوششیں ہوںے لگیں ۔یاد رہے کہ اس آبدوز پر 96 گھنٹے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن موجود تھی لہذا یہ اُنہد تھی کہ اگر اس آبدوز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا اور اسکا محض رابطہ منقطع ہوا ہے تو اسے بچایا جا سکتا ہے۔ ٹائٹن ہر پہلی مرتبہ جانے والے ایک جرمن سیاح آرتھر لئوبل کہتے ہیں کہ یہ آبدوز مکمل طور پر محفوظ نہیں تھی۔ اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک ہزار میٹر کے بعد آبدوز کے بیٹری سسٹم (آبدوز بجلی سے چلتی تھی) میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تاہم بالاخر یہ آبدوز ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور انہوں نے وہاں تین گھنٹے اسکی واحد کھڑکی اور اس پر موجود کیمروں کی مدد سے ملبہ دیکھا اور پھر بحفاظت لوٹے۔ البتہ وہ یہ یاد کرتے ہیں کہ آبدوز میں درجہ حرارت کم و بیش 4 ڈگری سینٹی گریڈ تھا ،یہ چھوٹی سی آبدوز تھی جس میں چار سے پانچ افراد ایک دوسرے سے جڑ کر ہی بیٹھ سکتے تھے۔ ٹائٹن دراصل ایک مکمل آبدوز نہیں تھی بلکہ آبدوز جیسی تھی جسکے Submersible کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ محض چند گھنٹے تک سمندر کے نیچے رہ سکتی یے جبکہ ایک مکمل آبدوز کئی ماہ تک سمندر میں رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔گزشتہ ہفتے یعنی 18 جون 2023 کو ٹائٹن میں پانچ افراد سوار ہوئے جن میں اس آبدوز می کمپنی اوشین گیٹ کا مالک سٹاکٹن رش، برطانوی کاروباری شخصیت ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی پروفیشنل غوطہ خور پال ہنری اور پاکستان کے کمپنی اینگرو کے وائس پریزیڈنٹ شہزادہ داؤد اور اُنکے جواں سال بیٹے شامل تھے۔ٹائٹن نے تقریباً 4 کلومیٹر سمندر سے نیچے جانا تھا جہاں ٹائیٹینک کا ملبہ پڑا تھا۔اس تک پہنچنے میں اسے 2 گھنٹے اور 45 منٹ لگنے تھے۔ جسکے بعد اس نے تین سے چار گھنٹے تک ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنا تھا۔ اور پھر واپسی کا سفر کرنا تھا۔ اس پورے سفر کا کل دورانیہ کم و بیش دس سے گیارہ گھنٹے تک کا تھا۔ زمین کی سطح پر انسانوں پر کرہ ہوائی یعنی زمین کی فضا میں موجود گیسیوں کا دباؤ ہوتا ہے جو ہر وقت ہم پر رہتا ہے۔ یہ 1atm یعنی ایک ایٹموسفیرک پریشر کہلاتا ہے۔لیکن چونکہ انسان زمین پر ہی رہتے ہیں اور انکا ارتقاء زمین پر ہی ہوا ہے لہذا ہم اس دباؤ کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کوئی نارمل ہے۔ لیکن اگر آپ زمین کی سطح سے اوپر ہوا میں اڑیں تو یہ دباؤ کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ اوپر کی فضا کثیف ہے سو کم ہوا کے باعث آپ پر کم دباؤ پڑتا ہے۔ اور اگر آپ خلا میں نکل جائیں تو یہ دباؤ مکمل ختم ہو جائے گا۔تاہم اس سے اُلٹ اگر اپ سمندر میں جائیں تو دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ سمندر کا پانی فضا میں موجود گیسوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ لہذا سمندر میں ہر 10 میٹر کی گہرائی کے بعد آپکے جسم پر دباؤ 1 atm مزہد بڑھتا رہتا ہے۔سو اگر اپ سمندر میں محض 10 میٹر نیچے جائیں تو آ پر دباؤ یا پریشر 2 atm ہو جائے گا۔ یہ کم۔و بیش کھانا بناناے کے لہے استعمال ہونے والے کوکر کے اندر کا پریشر ہے۔اگر آپ نے کبھی پریشر کوکر کو پھٹتا دیکھا ہو تو آپکو اندازہ ہو گا کہ یہ کس قدر زیادہ پریشر ہوتا ہے۔ سو اگر اپ سمندر میں 4 کلومیٹر نیچے جائیں تو آپ پر دباؤ زمین پر دباؤ کے مقابلے میں تقریباً 400 گنا زیادہ ہو گا۔ یا پریشر کوکر کے دباؤ سے 200 گنا زیادہ۔ٹائٹن آبدوز کو ٹائٹنیم دھات اور کاربن فائیبر سے بنایاگیا تھا جو اتنا دباؤ برداشت کر سکتی تھی بشرطیکہ یہ مکمل طور پر سیل ہو اور اس میں کوئی فریکچر نہ ہو اور نہ ہی اسکی باڈی کہیں سے کمزور ہو۔ اگر ایسا ہو تو ایسی صورت میں نیچے جاتے ہوئے پانی کا دباؤ بڑھنے کے باعث اسکے کسی کمزور حصے پر پڑے گا اس مکمل طور پر پچکادے گا۔اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ پانچ روز تک اس آبدوز کو گہرے سمندروں میں کشتیوں اور روبوٹس اور سمندری ڈرونز کی مدد سے تلاش کیا جاتا رہا۔اور کل اسکے ملبے کا کچھ حصہ ٹائٹنک جہاز کے ملبے سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ملا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس آبدوز میں ممکنہ طور پر لیک یا فریکچر آیا جسکے باعث اس پر پانی کا دباؤ پڑا اور یہ باہر سے پڑنے والے اس شدید دباؤ سے چند ملی سیکنڈز میں ہی پچک گئی۔ یہ اتنا قلیل وقت ہے کہ اس میں آبدوز میں موجود انسانوں کا دماغ موت کو محسوس ہی نہ کر سکا ہو گا اور دیکھتے ہی دیکھتے انکا مکمل جسم پچک کر پاش پاش ہو گیا ہو گا۔اس آبدوز کے تلاش میں امریکہ، کینیڈا اور فرانس تینوں ممالک کی بحریہ اور سیکیو ٹیمیں شامل تھیں۔ اور پانچ روز تک اسکی تلاش پر تقریباً 65 لاکھ ڈالر سے زائد کا خرچ آیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں اور بحری سفر میں حفاظت کے لیے قائم ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کمرشل آبدوزوں کو محفوظ بنانے کے لیے مکمل ضابطہ کار، قوانین اور سرٹیفیکیشن وضع کی جائے تاکہ آئندہ ایسے ممکنا حادثات سے بچا جا سکے۔#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

Monday, 12 June 2023

#شجرہِ_نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟ محکمہ مال اس کا بہترین حل ہے ۔اگر آپ کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائے یہ آفس ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گائوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گائوں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گائوں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان ، لوہار ، جولاہا ، ملیار ، چمیار ، ترک ، ڈھونڈ ، سراڑہ ،ملیار، قریشی ، سید ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ،ٹوانہ، بلوچ، وٹو، کانجو، کھٹڑ، گجر ، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، جدون ، دلزاک ، ترین وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں اور اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گائوں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گائوں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گائوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گائوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گائوں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گائوں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گائوں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گائوں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا۔۔۔

Friday, 5 May 2023

كلمه اِستغفار اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.’’میں اپنے اللہ سے معافی مانگتا ھوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ھو کر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ھوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ھوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔ ( اے اللہ! ) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناھوں کا بخشنے والا ھے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ھے"۔

Friday, 28 April 2023

دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اور ملک کی کم و بیش %60 معیشت میں حصہ دار ہے، ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو غلط کام کرتا ہے اس کو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس سلطنت کے 4 حصے ہیں:01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ02۔ فوجی فائونڈیشن03۔ شاہین فائونڈیشن04۔ بحریہ فائونڈیشنفوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.نیشنل لاجسٹک سیل NLC ٹرانسپورٹیہ ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1،698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7،279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2،549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (FWO):ملک کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم Constructional Tenders جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔ایس سی او SCO:اس ادارے کو پاکستان کے جموں کشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔مشرف سرکار نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1،600 کارپوریشنز میں ہیں۔پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علائقے کی 1،800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائ ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔15 فروری 2005 میں سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ مندرجہ زیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ02۔ آرمی ويلفيئر فارماسيوٹيکل03۔ عسکری سيمينٹ لمٹيڈ04۔ عسکری کمرشل بينک05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹيڈ06۔ عسکری ليزنگ لميٹيڈ07۔ عسکری لبريکينٹس لميٹڈ08۔ آرمی شوگر ملز بدين09۔ آرمی ويلفيئر شو پروجيکٹ10۔ آرمی ويلفيئر وولن ملز لاهور11۔ آرمی ويلفيئر هوزری پروجيکٹ12۔ آرمی ويلفيئير رائس لاهور13۔ آرمی اسٹينڈ فارم پروبائباد14۔ آرمی اسٹينڈ فارم بائل گنج15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ16۔ آرمی فارم کھوسکی بدين17۔ رئيل اسٹيٹ لاهور18۔ رئيل اسٹيٹ روالپنڈی19۔ رئيل اسٹيٹ کراچی20۔ رئيل اسٹيٹ پشاور21۔ آرمی ويلفير ٹرسٹ پلازه راولپنڈی22۔ الغازی ٹريولز23۔ سروسز ٹريولز راولپنڈی24۔ ليزن آفس کراچی25۔ ليزن آفس لاهور26۔ آرمی ويلفيئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجيکٹ27۔ عسکری انفارميشن سروسفوجی فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان02۔ فوجی شوگر ملز بدين03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل04۔ فوجی شوگر ملز کين اينڈيس فارم05۔ فوجی سيريلز06۔ فوجی کارن فليکس07۔ فوجی پولی پروپائلين پروڈکٹس08۔ فائونڈيشن گیس کمپنی09۔ فوجی فرٹیلائيزر کمپنی صادق آباد ڈهرکی10۔ فوجی فرٹیلائيزر انسٹیٹیوٹ11۔ نيشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجيکٹ12۔ فائونڈيشن ميڈيک کالج13۔ فوجی کبير والا پاور کمپنی14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائيزر گھگھر پھاٹک کراچی15۔ فوجی سيکيورٹی کمپنی لميٹڈشاہين فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ شاہين انٹرنيشنل02۔ شاہين کارگو03۔ شاہين ايئرپورٹ سروسز04۔ شاہين ايئرویز05۔ شاہين کامپليکس06۔ شاہين پی ٹی وی07۔ شاہين انفارميشن اور ٹيکنالوجی سسٹمبحريه فائونڈيشن کے پروجيکٹس:01۔ بحريه يونيورسٹی02۔ فلاحی ٹريڈنگ ايجنسی03۔ بحريه ٹريول ايجنسی04۔ بحريه کنسٹرکشن05۔ بحريه پينٹس06۔ بحريه ڈيپ سی فشنگ07۔ بحريه کامپليکس08۔ بحريه ہاوسنگ09۔ بحريه ڈريجنگ10۔ بحريه بيکری11۔ بحريه شپنگ12۔ بحريه کوسٹل سروس13۔ بحريه کيٹرنگ اينڈ ڈيکوريشن سروس14۔ بحريه فارمنگ15۔ بحريه هولڈنگ16۔ بحريه شپ بريکنگ17۔ بحريه هاربر سروسز18۔ بحريه ڈائيونگ اينڈ سالويج انٹرنيشنل19۔ بحريه فائونڈيشن کالج بہاولپورملک کے تمام بڑے شہروں میں موجود کینٹونمنٹ ایریاز, ڈیفینس ہاوسنگ سوسائیٹیز, عسکری ہاوسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔ہم میں سے یہ حقیقت کسی کو معلُوم نہیں کہ فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے خسارے, کرپشن اور بدانتظامی میں سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں۔اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلینس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکِن ہر گورنمنٹ خُود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور پاتی ہے اور جو دینے میں تامل کرے تو حکُومت گرنے کے اسباب ایسے پیدا ہوتے ہیں، جیسے بارش سے پہلے بادل آتے ہیں۔سول حکُومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش %40 بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا گول چکر ہے جِس میں قوم آہستہ آہستہ ایسے پھنستی چلی جا رہی ہے کہ ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہا ہے۔جنرل نالج ؟‏وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ،سیکریٹری داخلہ۔۔۔ میجر سلیمان اعظماٹارنی جنرل۔۔۔ کیپٹن انور منصورآئی جی پنجاب۔۔۔ کیپٹن عارف نواز۔۔چیئرمین سی پیک اتھارٹی ۔۔۔ جنرل عاصم باجوہچیئرمین پی آئی اے۔۔۔ایئرمارشل ارشد محمودچیئرمین واپڈا ۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین۔‏مینیجنگ ڈائیریکٹر ہی ٹی وی۔۔۔ میجر جنرل آصف غفورڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی۔۔سکوڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت۔ڈائیریکٹر جنرل۔۔ اینٹی نارکوٹکس فورس۔۔ میجر جنرل عارف ملک۔ڈائیریکٹر ۔۔ ایرپورٹ سیکیورٹی فورس۔ میجر جنرل ظفر الحق۔ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن ۔۔ میجر جنرل عظیم‏نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ لیفٹینٹ جنرل عمر محمودوزیر اعظم ھاؤسنگ اتھارٹی۔۔ لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر ۔۔ڈائیریکٹر سپارکو : میجر جنرل قیصر انیسڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیاتڈائریکٹرجنرل نیب لاھور۔۔۔ میجر شہزاد سلیملیفٹیننٹ جنرل (رٹائیرڈ) انورعلی حیدر کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا چیرمین تعینات کر دیا گیا1955ءمیں کوٹری بیراج کی تکمیل کےبعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی 4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے 1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ6:میجرعامر۔۔243ایکڑ7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ8:صبح صادق۔۔400ایکڑصبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے 1962ءمیں دریائےسندھ پرکشمورکےقریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپےایکڑ تھا۔عسکری حکام نےصرف500روپےایکڑکےحساب سےخریدا۔گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔ایوب خان کےعہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:ملک خدا بخش بچہ وزیر زراعت۔۔158ایکڑ2:خان غلام سرور خان، وزیرمال۔۔240ایکڑ3:جنرل حبیب اللّہ وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ4:این-ایم-عقیلی وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ6:اخترحسینگورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ8:سیدحسن ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ10:این-اے-قریشی چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ11:امیرمحمد خان سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑجن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑگوھر ایوب کےسسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کےاہم کردارتھے۔جنرل ایوب نےجن ججزکوزمین الاٹ کی گئ:1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑجسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکےعلاوہ ان پرنوازشات رھیں۔ایوب خان نےجن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑنجف خان لیاقت علی قتل کیس کےکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نےماری تھی۔اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتےرھے۔ 1982میں حکومت پاکستان نےکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنےکیلئےزمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نےسندھ کےجنگلات کی قیمتی زمین240روپےایکڑکےحساب سےمفت بانٹی۔اس عرصےمیں فوج نےکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں25لاکھایکڑزمین خریدی۔1993میں حکومت نےبہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کےحوالےکی۔جون2015میں حکومت سندھ نےجنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کےحوالےکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کےمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔2003میں تحصیل صادق آباد کےعلاقےنوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کےحوالےکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کےبغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔اسی طرح پاک نیوی نےکیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کےنام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نےاسےکاشتکاروں میں زرعی مقاصدسےتقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نےاپناحق ظاھرکیا۔اسوقت کےڈی۔جیISPRشوکت سلطان کےبقول فوج اپنی ضروریات کیلئےجگہ لےسکتی ہے۔2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکےمطابق فوج ملک27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔ اسی عرصےمیں16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئےگئے۔فوج کےپاس موجود زمین کی تفصیل:لاھور۔۔12ہزارایکڑکراچی۔۔12ہزارایکڑاٹک۔۔3000ایکڑٹیکسلا۔۔2500ایکڑپشاور۔۔4000ایکڑکوئٹہ۔۔2500ایکڑاسکی قیمت 300بلین روپےہے۔2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔بہاولپورمیں سرحدی علاقےکی زمین380روپےایکڑکےحساب سےجنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سےلیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔چندنام یہ ہیں:پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔مختلف اعدادوشمارکےمطابق فوج کےپاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کےکل رقبےکا12%ہے۔سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپےہے۔ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئےاستعمال ہورہی ہے ۔

Wednesday, 15 March 2023

2022 S C M R 1428[Supreme Court of Pakistan]Present: Sajjad Ali Shah and Jamal Khan Mandokhail, JJGOVERNMENT OF KHYBER PAKHTUNKHWA through Secretary Home and TAs and others---AppellantsVersusNOORANI GUL through LRs---RespondentsCivil Appeal No. 190 of 2015, decided on 15th April, 2022. (On appeal from the judgment of the Peshawar High Court Mingora Bench (Dar-ul-Qaza) Swat dated 19.03.2012 passed in C.R. No. 425 of 2003)(a) Khyber Pakhtunkhwa Land Revenue Act (XVII of 1967)-------Ss. 40(1) & 116---Constitution of Pakistan, Arts. 23 & 24---Unsettled land---Possession and control of occupier over unsettled land sufficient proof of ownership---After settlement proceedings land in question, which was unsettled, was recorded in the name of Provincial Government---Plaintiff/respondent filed suit to claim that land in question belonged to him---Trial Court and High Court decreed the respondent's suit---Held, that before the settlement proceedings, the government was neither the owner nor in possession of the disputed land---Respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession over the land, and as the land had no revenue record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of the plaintiff producing documentary proof---As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land was sufficient proof of ownership---Respondent's claim over the land was superior than that of the government---Appeal was dismissed. Before the settlement proceedings, the property in question was unsettled, having no revenue record to document ownership of the land owners. The government started first settlement proceedings in the area, which were completed in the year 1986, wherein, the land in question was recorded in the name of the government. Perusal of the record would reveal that there is no evidence to prove that before the settlement proceedings, the government was either owner or in possession of the disputed land nor is there any reason in doing so. To the contrary, the respondent had claimed his ownership and possession over the suit property. The respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession, as the land had no record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of producing documentary proof. During the pendency of these proceedings, a local commissioner was appointed, who also confirmed the possession of the respondent. It is a fact that some of the adjacent properties belonging to several persons had been recorded in their names during the settlement proceedings, but the government did not dispute their ownership nor objected the settlement proceedings to their extent. Admittedly, the government did not acquire the property in question through sale, gift or exchange, nor had ever claimed its right of escheat. Simply because the land in question was unsettled, when the first settlement was started, cannot be used to term it as unclaimed or ownerless property. Since the respondent was claiming to be its rightful owner before the preparation of record during the settlement proceedings of the year 1986 and also proved his possession over the land in question, therefore, his claim was superior than that of the government. It was the government that neglected its duty to conduct settlement proceedings to incorporate title and ownership in the record of rights, therefore, the rightful owners could not be deprived of their fundamental right to acquire, hold and dispose of property in any part of the country, as enshrined in Articles 23 and 24 of the Constitution. The government was bound to prove its ownership with regard to the property in question, but it did not produce any evidence to establish its ownership before the first settlement proceedings. As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land was sufficient proof of ownership, but admittedly, the government was neither in possession of the property nor the same was under its control or supervision. Since the claim of the government was not supported by any evidence, therefore, its claim merely on the basis of the land being unsettled, was not a rightful claim. Appeal was dismissed.(b) Constitution of Pakistan-------Art. 172--- Ownerless property--- Transfer in the name of Government---"Escheat", right of--- Scope--- In case of claim of ownership of property, the government is equally responsible to show that the property has either been acquired through due process of law or it has become its owner, in respect of a property, which has no rightful owner as provided by Article 172 of the Constitution---Under the said provision of the Constitution, the government has the right to take ownership of an unclaimed or ownerless property---Such right occurs when an individual dies or disappears with no will and no heirs and his property remains unclaimed for a considerably prolonged period of time; it refers to a right of "escheat"---Before acquiring such unclaimed or ownerless property through the right of escheat, the government is required to follow the procedure provided by law and to invite objections from general public, through widely circulated notice through all mediums of communication. Mian Shafaqat Jan, Additional A.G. Khyber Pakhtunkhwa and Ali Rehman, SI (Legal) for Appellants. Muhammad Ajmal Khan, Advocate Supreme Court/Advocate-on-Record (through video link from Peshawar) for Respondents. Date of hearing: 15th April, 2022.JUDGMENT JAMAL KHAN MANDOKHAIL, J.---Facts in brief are that the land settlement proceedings were conducted in the year 1986, wherein, the unsettled property was recorded in the name of the Provincial Government. The respondent claiming to be its owner, challenged the entries through the instant suit. He claimed that the land described in the plaint belonged to him, which is in his cultivated possession. The trial court decreed the suit, whereas, the appellate court reversed the findings. The respondent filed a civil revision before the learned Peshawar High Court, Mingora Bench, which was allowed and the judgment and decree passed by the trial court was maintained. The appellants filed a civil petition for leave to appeal, wherein leave was granted by this Court on 17th March, 2015, in following terms:- "Heard the learned Additional Advocate General, KP as well as the learned ASC for the respondent and perused the record. There are conflicting judgments of the Courts below. 2. Learned Additional Advocate General contends that the impugned judgment is based on misreading and non-reading of evidence. 3. Leave to appeal is granted to examine inter alia the above contention. Till the hearing of the appeal, parties shall maintain status-quo in respect of disputed property."2. Heard the learned counsel for the parties and have perused the record. Admitted facts of the case are that the land in question was unsettled, having no revenue record. The government started first settlement proceedings in the area, which were completed in the year 1986, wherein, the land in question was recorded in the name of the government. Perusal of the record would reveal that there is no evidence to prove that before the settlement proceedings, the government was either owner or in possession of the disputed land nor is there any reason in doing so. To the contrary, the respondent has claimed his ownership and possession over the suit property. The respondent produced oral evidence to establish his ownership and possession, as the land had no record before the settlement proceedings, therefore, there was no possibility of producing documentary proof. During the pendency of these proceedings, a local commissioner was appointed, who also confirmed the possession of the respondent. It is a fact that some of the adjacent properties belonging to several persons have been recorded in their names during the settlement proceedings, but the government did not dispute their ownership nor objected the settlement proceedings to their extent.3. The land in question was recorded in the name of the government, merely on account of being an unsettled one. It is a settled principle of law that in case of claim of ownership of property, the government is equally responsible to show that the property has either been acquired through due process of law or it has become its owner, in respect of a property, which has no rightful owner as provided by Article 172 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, 1973. Under the said provision of the Constitution, the government has the right to take ownership of an unclaimed or ownerless property. It occurs when an individual dies or disappears with no will and no heirs and his property remains unclaimed for a considerably prolonged period of time. It refers to a right of "escheat". Before acquiring such unclaimed or ownerless property through the right of escheat, the government is required to follow the procedure provided by law and to invite objections from general public, through widely circulated notice through all mediums of communication.4. Admittedly, the government did not acquire the property in question through sale, gift or exchange, nor had ever claimed its right of escheat. Simply because the laud in question was unsettled, when the first settlement was started, cannot be termed it as unclaimed or ownerless property. Since the respondent is claiming to be its rightful owner before the preparation of record during the settlement proceedings of the year 1986 and also proved his possession over the land in question, therefore, his claim was superior than that of the government. As far as the contention of the learned Law Officer that the respondent has not produced any documentary proof with regard to ownership of the property in question is concerned, suffice it to observe here that admittedly before the settlement proceedings, the property in question was unsettled, having no record to document ownership of the land owners. According to the Land Revenue Act and the Settlement Manual, it is the responsibility of the Provincial Government to conduct periodical land settlement proceedings in respective Provinces, but unfortunately, the needful was not done. Under such circumstances, the land owners cannot be held responsible for having no documentary proof. It was the government that neglected its duty to conduct settlement proceedings to incorporate title and ownership in the record of rights, therefore, the rightful owners could not be deprived of their fundamental right to acquire, hold and dispose of property in any part of Pakistan, as enshrined in Articles 23 and 24 of the Constitution.5. It is a fact that after merger of the State of Swat into Pakistan, the properties which were in the ownership of Ruler of Swat, were recorded in the name of the government, whereas the properties of the individuals/private persons remained in their own names as is evident from the settlement proceedings of the year 1986, wherein, names of numerous owners of unsettled lands have been recorded in the revenue record, but the government did not question them. Admittedly, the land was unsettled, without any documentary proof and if documentary proof was to be considered as the only way to prove ownership of the land, then the principle applies to the government as well. The government was bound to prove its ownership with regard to the property in question, but it did not produce any evidence to establish its ownership before the first settlement proceedings. As there was no documentary proof whatsoever of the unsettled land, therefore, possession and control of the respondent over the land is sufficient proof of ownership, but admittedly, the government was neither in possession of the property nor the same was under its control or supervision. The claim of the government is since not supported by any evidence, therefore, merely on the basis of the land being unsettled, is not a rightful claim. Learned Additional Advocate General appearing on behalf of appellant-government has not been able to substantiate the stance of the government nor has highlighted any point of law warranting interference in the findings of the learned High Court. These are the reasons for our short order dated 15.04.2022, which is reproduced herein below:- "For reasons to be recorded separately, this appeal is dismissed."MWA/G-12/SC Appeal dismissed.

Monday, 6 March 2023

*ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات* *1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83*2 غصے کو قابو میں رکھو*سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134*3 دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*سورۃ القصص، آیت نمبر 77*4 تکبر نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 23 *5 دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 22*6 لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*7 اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*سورۃ لقمان، آیت نمبر 19*8 دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11*9 والدین کی خدمت کیا کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*‏10 والدین سے اف تک نہ کرو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23*11 والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،* سورۃ النور، آیت نمبر 58*12 لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282*13 کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،* سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36*14 اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280*15 سود نہ کھاؤ،* سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278*16 رشوت نہ لو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42*17 وعدہ نہ توڑو،* سورۃ الرعد، آیت نمبر 20*‏18 دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*19 سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42*20 لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،* سورۃ ص، آیت نمبر 26*21 انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*22 مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 8*23 خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* سورۃ النساء، آیت نمبر 7*24 یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 2*‏25 یتیموں کی حفاظت کرو،*سورۃ النساء، آیت نمبر 127 *26 دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 6*27 لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10*28 بدگمانی سے بچو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*29 غیبت نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*30 جاسوسی نہ کرو،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*31 خیرات کیا کرو،* سورۃ البقرة، آیت نمبر 271*32 غرباء کو کھانا کھلایا کرو*سورة المدثر، آیت نمبر 44*33 ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* سورة البقرۃ، آیت نمبر 273*34 فضول خرچی نہ کیا کرو،*سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67*‏35 خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*سورة البقرۃ، آیت 262*36 مہمانوں کی عزت کیا کرو،*سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27*37 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44*38 زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36*39 لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* سورة البقرة، آیت نمبر 114*40 صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*41 جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* سورة البقرة، آیت نمبر 190*‏42 جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* سورة الأنفال، آیت نمبر 15*43 مذہب میں کوئی سختی نہیں،*سورة البقرة، آیت نمبر 256*44 تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 150*45 حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* سورة البقرة، آیت نمبر، 222*46 بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* سورة البقرة، آیت نمبر، 233*47 جنسی بدکاری سے بچو،*سورة الأسراء، آیت نمبر 32*48 حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247*49 کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* سورة البقرة، آیت نمبر 286*50 منافقت سے بچو،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 14-16*‏51 کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* سورة آل عمران، آیت نمبر 190*52 عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* سورة آل عمران، آیت نمبر 195*53 بعض رشتہ داروں سے شادی حرام ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 23*54 مرد خاندان کا سربراہ ہے،*سورۃ النساء، آیت نمبر 34*55 بخیل نہ بنو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 37*56 حسد نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 54*57 ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 29*58 فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* سورۃ النساء، آیت نمبر 135*‏59 گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*60 نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2*61 اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 100*62 صحیح راستے پر رہو،* سورۃ الانعام، آیت نمبر 153*63 جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 38*64 گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* سورۃ الانفال، آیت نمبر 39*65 مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3*‏66 شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*67 جوا نہ کھیلو،* سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 90*68 ہیرا پھیری نہ کرو،* سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 70*69 چغلی نہ کھاؤ،* سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر 1*70 کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*71 نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* سورۃ الاعراف، آیت نمبر 31*72 آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 6*73 طہارت قائم رکھو،* سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 108*74 اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ الحجر، آیت نمبر 56*‏75 اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 17*76 لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* سورۃ النحل، آیت نمبر 125*77 کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*سورۃ فاطر، آیت نمبر 18*78 غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* سورۃ النحل، آیت نمبر 31*79 جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*سورۃ النحل، آیت نمبر 36*‏80 کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12*81 اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* سورۃ النور، آیت نمبر 27*82 اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* سورۃ یونس، آیت نمبر 103*83 زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63*84 اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* سورة توبہ، آیت نمبر 105*85 اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* سورۃ الکہف، آیت نمبر 110 *‏86 ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* سورۃ النمل، آیت نمبر 55*‏87 حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* سورۃ توبہ، آیت نمبر 119*88 زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37*89 عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* سورۃ النور، آیت نمبر 31*90 اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* سورۃ النساء، آیت نمبر 48*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* سورۃ زمر، آیت نمبر 53*92 برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34*93 فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* سورۃ الشوری، آیت نمبر 38*‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* سورۃ الحدید، آیت نمبر 27*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*سورۃ النساء، آیت نمبر 32*99 اللہ سے معافی مانگو وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 199*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* سورۃ الضحی، آیت نمبر 10*اسے لازمی پڑھیں اور دیکھیں کہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ایک ڈائری بنا لیں تو ذیادہ اچھا ہے۔**جزاکم اللہ خیرا کثیرا*

Thursday, 2 February 2023

#تارن #قبیلہ:تاران کا اصلی نام سید طاہر تھا، لقب تارن تھا۔کاکڑ کے جداعلی نے اُنہیں اپنا بیٹا بنایا تھا اس لیے پشتون کاکڑ قبیلے میں شمار ہوتے ہیں، ورنہ اصلا" نسلا" پشتون نہیں ہے۔مشوانی کا والدہ بھی کاکڑ قبیلے سے تھا اور دونوں ایک دور کے بھی تھے اس لیے مشوانی اور تاران اکثر اکٹھے آباد ہیں ۔بلوچستان میں تارن، تارنڑ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تاران کے نام سے ان کی آولاد جانے جاتے ہیں (تاریخ صولت افغانی از زرداد خان) (2)شجرہ یہ ہے سید طاہر المقلب تاران بن سید ناصر بن سید علاء الدین بن سیدقطب الدین بن سیدداود بن سلطان کبیر بن سید شمس الدین بن سید احمد بن سید علی رفاعی بن سید حسن بن سید محمد بن سید جواد(حواد) بن سیدعلی رضا بن سید موسیٰ کاظم بن سید جعفر بن محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بن ابی طالب۔(3)سیدتاران کے بیٹے کا نام انجر (انجو) تھا۔ان کے بیٹے کا نام خواجہ کبیر تھا۔خواجہ کبیر کے پانچ بیٹے تھے۔مکانون، اذین، اسماعیل، نور اور ابراہیم ۔۔۔۔بعد میں تاران کا نسل اسی سے پھیلا ہے۔۔۔۔سید تاران اور سیدگیسودراز کا زمانہ ایک ہے۔اسی اعتبار سے تاران کا زمانہ 400ھ، 430ھ (1010ء تا 1038ء) بنتاہے۔(روحانی رابطہ، اثر، ص 405، 406).لیکن میدان(دیر) پڑیکس کے تاران کے ساتھ جو شجرہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔سیدتاران بن سیدناصر بن ابو یوسف بن سیدعلی بن سید قطب بن سید داء الدین بن سید شمس الدین بن سید حبیب بن سیدمعروف بن سیدعلی بن سید جنید بغدادی بن سیدحسن بن سیدابراہیم بن سید علی بن سید اصغر بن سید حیسن رض بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ۔۔۔۔۔۔پھر سید تاران کے بیٹے سید ملک داد اور ملک داد بیٹے ملا مذید(مجید) اور پھر ملامزید کے دو بیٹے ملاکریم اور شیخ بابا اور ملاکریم کے بیٹے کوکئ ملک لکھا ہے(انٹرویو از محمد بھادر خان، المعروف سکرٹری صاحب، جون 2002)......مزکورہ فرق ایک تو اس لحاظ سے ہے کہ اس شجرے میں کچھ نام، اصل نام کے بجائے القاب وغیرہ لکھے گئے ہیں مثلاً ابویوسف، جنید بغدادی وغیرہ اور کچھ نام ادھے لکھے گئے ہیں ۔(4)عام طور لوگ اور بعض مورخین نے تاران کو پشتون قبیلہ قراردیا ہے اور اُسے کاکڑ قبیلے کا ذیلی شاخ سمجھا ہے(تار پشاور، ص 342، 343)لیکن یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ کاکڑ کے جداعلی نے اُسے اپنا متبنی اور بیٹا بنایا تھا اور اُسے مال میں حصہ بھی دیا تھا اس وجہ سے اُنہیں پشتون قبیلہ سمجھا گیا۔تاریخ میں اُسے افاغنہ سادات کہاجاتاہے. نسلا" یہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ کی اولاد ہیں ۔(5)یہ خاندان اور قبیلہ اہل علم کا خاندان کہلاتاہے۔سید طاہر رح تاران، سید محمود رح، مولانا عبدالوہاب پنجوبابا، پانچ بھائی المعروف "پنزہ پیران "حضرت سید خواجہ جواد، حضرت سید وجود، حضرت سید احمد ،حضرت سید خواجہ محمد، اور حضرت سید خواجہ حسن جیسے اولیاء مشایخ اور علماء اسی خاندان سے تعلق رکتھے ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)#تارن #قبیلہ:تاران کا اصلی نام سید طاہر تھا، لقب تارن تھا۔کاکڑ کے جداعلی نے اُنہیں اپنا بیٹا بنایا تھا اس لیے پشتون کاکڑ قبیلے میں شمار ہوتے ہیں، ورنہ اصلا" نسلا" پشتون نہیں ہے۔مشوانی کا والدہ بھی کاکڑ قبیلے سے تھا اور دونوں ایک دور کے بھی تھے اس لیے مشوانی اور تاران اکثر اکٹھے آباد ہیں ۔بلوچستان میں تارن، تارنڑ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تاران کے نام سے ان کی آولاد جانے جاتے ہیں (تاریخ صولت افغانی از زرداد خان) (2)شجرہ یہ ہے سید طاہر المقلب تاران بن سید ناصر بن سید علاء الدین بن سیدقطب الدین بن سیدداود بن سلطان کبیر بن سید شمس الدین بن سید احمد بن سید علی رفاعی بن سید حسن بن سید محمد بن سید جواد(حواد) بن سیدعلی رضا بن سید موسیٰ کاظم بن سید جعفر بن محمد باقر بن سید علی زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بن ابی طالب۔(3)سیدتاران کے بیٹے کا نام انجر (انجو) تھا۔ان کے بیٹے کا نام خواجہ کبیر تھا۔خواجہ کبیر کے پانچ بیٹے تھے۔مکانون، اذین، اسماعیل، نور اور ابراہیم ۔۔۔۔بعد میں تاران کا نسل اسی سے پھیلا ہے۔۔۔۔سید تاران اور سیدگیسودراز کا زمانہ ایک ہے۔اسی اعتبار سے تاران کا زمانہ 400ھ، 430ھ (1010ء تا 1038ء) بنتاہے۔(روحانی رابطہ، اثر، ص 405، 406).لیکن میدان(دیر) پڑیکس کے تاران کے ساتھ جو شجرہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔سیدتاران بن سیدناصر بن ابو یوسف بن سیدعلی بن سید قطب بن سید داء الدین بن سید شمس الدین بن سید حبیب بن سیدمعروف بن سیدعلی بن سید جنید بغدادی بن سیدحسن بن سیدابراہیم بن سید علی بن سید اصغر بن سید حیسن رض بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ۔۔۔۔۔۔پھر سید تاران کے بیٹے سید ملک داد اور ملک داد بیٹے ملا مذید(مجید) اور پھر ملامزید کے دو بیٹے ملاکریم اور شیخ بابا اور ملاکریم کے بیٹے کوکئ ملک لکھا ہے(انٹرویو از محمد بھادر خان، المعروف سکرٹری صاحب، جون 2002)......مزکورہ فرق ایک تو اس لحاظ سے ہے کہ اس شجرے میں کچھ نام، اصل نام کے بجائے القاب وغیرہ لکھے گئے ہیں مثلاً ابویوسف، جنید بغدادی وغیرہ اور کچھ نام ادھے لکھے گئے ہیں ۔(4)عام طور لوگ اور بعض مورخین نے تاران کو پشتون قبیلہ قراردیا ہے اور اُسے کاکڑ قبیلے کا ذیلی شاخ سمجھا ہے(تار پشاور، ص 342، 343)لیکن یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ کاکڑ کے جداعلی نے اُسے اپنا متبنی اور بیٹا بنایا تھا اور اُسے مال میں حصہ بھی دیا تھا اس وجہ سے اُنہیں پشتون قبیلہ سمجھا گیا۔تاریخ میں اُسے افاغنہ سادات کہاجاتاہے. نسلا" یہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ کی اولاد ہیں ۔(5)یہ خاندان اور قبیلہ اہل علم کا خاندان کہلاتاہے۔سید طاہر رح تاران، سید محمود رح، مولانا عبدالوہاب پنجوبابا، پانچ بھائی المعروف "پنزہ پیران "حضرت سید خواجہ جواد، حضرت سید وجود، حضرت سید احمد ،حضرت سید خواجہ محمد، اور حضرت سید خواجہ حسن جیسے اولیاء مشایخ اور علماء اسی خاندان سے تعلق رکتھے ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)