Wednesday, 13 December 2023

۔" فانی دنیا سے بچو " کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے دنیاوی شہوات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں خیال کرنا کہیں تمہیں دنیا داری اطاعتِ باری تعالی ، اور اتباع ِرسول سے غافل نہ کرد ے ، جس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو آخرت بھلا دینے والے گناہوں اور نافرمانیوں سے دور رہنے کا بھی کہا ۔پہلا خطبہ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے زندگی میں شرعی پابندیاں لگائی اور اسے فانی بھی بنایا، جبکہ آخرت کی زندگی اسکے بدلے میں دی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنی بندگی کرنے والوں کو مکمل بدلہ دینے کا وعدہ بھی کیا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے متقی پرہیز گار صحابہ کرام پردرود ، سلام بھیجے۔حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی دنیا آخرت میں خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ کے بندو!ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں ذاتی مفاد دینی اقدار پر غالب ہے، جہاں شخصی مفاد کو تمام اخلاقیات پر برتری حاصل ہے۔انسان پر دنیاوی محبت کا کنٹرول ہے، یہ انسان اس دنیا کی چمک دمک میں ڈوبا ہوا ہے، جسکی بنا پر لوگوں کی محبت کا معیار دنیا ہی ہے؛ دنیا ہو تو محبت ؛ نہ ہو تو دشمنی روا رکھی جاتی ہے، اسی کی بنا پر لوگوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، اسی کو پانے کیلئے مقابلہ بازی کا سما ہے، اور اسی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔مسلم اقوام!اس فانی دنیا کے پیچھےشرعی قواعد و ضوابط کے بغیر پڑ جانا دین کیلئے انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ہی مسلمانوں کیلئے سنگین بحران ہے کہ مسلمان اس فانی دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں، اور اسی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، جس کو پانے کیلئے کسی اسلامی قانون و ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔جی ہاں! مسلمانو!ایک مسلمان کیلئے یہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے کہ دنیا اسکا ہدف بن جائے، علم حاصل کرے تو صرف اسی کے لئے، کوشش کرے تو اسی کیلئے، اور اپنے وجود میں آنے کا مقصد ہی اس کو بنا لے،اللہ تعالی نے اس قسم کے لوگوں کو دھمکی دیتے ہوئے فرمایا: وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے[2] جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں [إبراهيم: 2، 3]، اسی طرح فرمایا: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔ [التغابن: 15]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خستہ حالی سے پناہ مانگی ہے، فرمایا: «اللهم لا تجعل مُصيبتَنا في ديننا، ولا تجعل الدنيا أكبر همِّنا، ولا مبلغَ علمِنا» یا اللہ دینی معاملات میں ہمارا امتحان مت لینا، یا اللہ دنیا ہمارا مقصد مت بنانا، اور نہ ہی ہمارے علم کا مقصد دنیا داری ہو۔مسلمانو!جس شخص نے دین کے مقابلے میں دنیا کی محبت کو غالب کیا، شہوت ِ نفس کو اپنے مولا کی اطاعت پرمقدم جانا، یقینا ایسا شخص شیطان کے پھندے میں پھنس چکا ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس سے دور رکھنے کیلئے فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں دھوکہ دینے پائے۔ [فاطر: 5]صحیح بخاری میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (درہم و دینار اور زرق برق لباس کا غلام تباہ و برباد ہو گیا، اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے)اللہ کے بندو!مادہ پرستی کے دور میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی کتنی ضرورت ہے!!، جہاں درہم ، و دینار کی پرستش کی جارہی ہے، جہاں کرسی، اور چودھراہٹ کا لوگوں پر کنٹرول ہے، ان تمام برائیوں نے شرعی طرزِ زندگی اور انصاف سے دور کردیا ہے۔اصلاح ِنفس کی کتنی ضرورت ہے!! خطرناک روحانی امراض کے علاج کیلئے قرآن و سنت سے راہنمائی لینا بہت ضروری ہو چکا ہے، اور علاج صِرف اور صِرف قرآن و سنت کی بیان کردہ اقدار پر عمل ، اور باری تعالی کی رضا سنتِ نبوی کے مطابق تلاش کرنے سے ہوگا۔مسلمان بھائیو!یہ آیت ذرہ غور سے سننا، اطاعت اور فرماں برادری کیلئے سننا، اللہ تعالی فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانویں سے غافل ہیں،[7] ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے [يونس: 7، 8]اب اس حدیث مبارکہ کو بھی سننا -اللہ آپ پر رحم کرے- ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، ہم دنیا داری کا ذکر کرتے ہوئے فقر و فاقہ کا اندیشہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تمہیں فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہیں دنیا چھپر پھاڑ کر دی جائے گی، اور اتنی دی جائے گی کہ تمہاری گمراہی کا سبب یہ ہی ہوگی) اور فرمایا: (اللہ کی قسم! میں تمہیں روزِ روشن کی مانند واضح شریعت پر چھوڑے جا رہا ہوں ، -جسکے - دن اور رات -واضح ہونے کے اعتبارسے- بالکل برابر ہیں)یہ عظیم حدیث ہے، دلائلِ نبوت میں سے ہے، جس میں ہماری موجودہ زبوں حالی کا درست انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے، اس حدیث میں حق سے دوری کے اسباب بیان کئے گئے ہیں، اور بتلایا گیا ہے کہ صراطِ مستقیم سے دور ہونے کا بنیادی سبب، اور فتنوں کا سب سے بڑا ذریعہ: دلوں پر دنیا کا غلبہ، اور اسکی فانی شہوات میں ڈوب جانا ہے۔اگر انسانی دل ایمانی حقائق اور اسلامی اخلاق سے عاری ہو کر اس دنیا کی لذت میں گرفتار ہوجائے؛ تو یہ انسان کو ہر بُری سے بُری عادت اور کام پر آمادہ کر دیتی ہے، ذرا غور کریں! جو شخص زکاۃ نہیں دیتا اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا مال و دولت کی حرص نہیں!؟جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا ہے؛ کیا وجہ؟ کیا فانی دنیا کی محبت نہیں!؟ جھوٹ، دھوکہ ، فراڈ، اور حسد کی کیا وجہ ہے؟ کیااس فانی دنیا کاتسلط نہیں!؟چنانچہ ان باتوں سے پتا چلتا ہےکہ ، دنیا سے محبت کرناہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، دنیا سے محبت اسلامی احکامات کی پابندی کے بغیر کرنا تمام گناہوں کا بنیادی سبب ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے جس کا تم پر زیادہ اندیشہ ہے وہ اللہ کی جانب سے تمہارے لئے نکلنے والی زمین کی برکت ہے) کہا گیا: زمین کی برکت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (دنیاوی آسائش)مسلمانو!کیا اب بھی ہم نہیں سمجھیں گے؟ کیا اب بھی ہم اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر نہیں کرینگے!؟ کہ یہ تکالیف سے گھِرا ہوا ٹھکانہ نہیں ہے!؟ جہاں برائیوں کی بھرمار ہے، اور خوف و خطر سے بھر پور ہے، کوئی عقل مند ہے !! جو اس فانی دنیا میں مشغول ہو کر ہمیشہ کی زندگی سے غافل ہوجائے!؟کیا یہ بات مُمَس نہیں کہ ہر مخلوق نے لازمی طور پر فنا ہونا ہے!؟ کبھی سوچا نہیں کہ دنیا تو بالکل سائے کی طرح ہے، ایک لمحہ کیلئے سایہ آتا ہے اور پھر اسکا زوال بھی شروع ہو جاتاہے۔ اللہ تعالی نے اسی لئے فرمایا: وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے [آل عمران: 185]اللہ کی قسم! جو بھی اللہ کے احکامات سے روگردانی کرے، اور ممنوعہ کاموں میں ڈوب جائے، یا امتِ اسلامیہ دینی منہج سے دور ہو جائے، اسکا نتیجہ بہت ہی بھیانک اور ندامت خیز ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ نے بہت دنیا جمع کی، اس دوران حلال و حرام کی بالکل تمیز نہ کی جو دل چاہتا کر گزرتا، چنانچہ جب موت کا وقت قریب آیا تو یاد کرنے لگا کہ دنیا میں کس انداز سے زندگی گزاری، اور اب آخرت میں اسکا کیا بنے گا!؟ اور کہا: کاش کہ میں بادشاہ نہ ہوتا؛ میں مزدور ہوتا، یا بکریوں کا چرواہا ہوتا۔امت مسلمہ! اپنے دین کا سودا دنیا سے مت کرنا چاہے کتنا ہی زیادہ ظاہری منافع کیوں نہ ہو، اگر اس پر کار بند ہو جاؤ گے تو ترقی، عزت، امن و سلامتی ہوگی۔جس کو دنیا نے اندھا کردیا دنیا ہی اسکے لئے پہلی ترجیح بن گئی، پھر اس کیلئے معصوم لوگوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا، عزتیں لوٹ لیں، مال و دولت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا، سن لے!!! تم نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، جبارِ اکبر کی نافرمانی کی، اپنے رب کو نگہبان مان لے، سیدھے راستے پر آجا اور اپنا انجام سوچ کر نصیحت حاصل کرلے۔جس کو دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے، جس کی بنا پر حلال و حرام میں تمیز کیلئے بغیر اسے جمع کرنے پر تُلا ہوا ہے، سن لے!!! وقت ختم ہونے سے پہلے اللہ سے ڈر جا، ایک دن اہل و عیال ، مال و متاع اور اس سر زمین کو چھوڑ جانا ہے۔سودی کاروبار کرنے والو! مسلمانوں میں سود پھیلانے والو! اللہ کا خوف دل میں بیٹھاؤ، اللہ کی ناراضگی مول مت لو، اسکی پکڑ بڑی سخت ہے۔مسلم معاشرے میں بے حیائی اور گندگی پھیلانے والےمسلمان نوجوانو! اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگ لو، اللہ کے اس فرمان کو ذہن نشین کرلو: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ [النور: 19]حیا باختہ چینلز چلانے والو! کیا ابھی تک تمہاری توبہ کا وقت نہیں آیا ، جبکہ ہر طرف سے مسلمانوں کو فتنوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، کیا تمہیں اللہ کی فوراً پکڑ سے ڈر نہیں لگتا!؟ یا آخرت میں بھیانک نتائج کا خوف نہیں ہے!؟ قیامت کے دن ندامت کا وقت نہیں ہوگا۔جبکہ اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، اور فساد پھیلایا، کہا: فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا یا [13] بلاشبہ آپ کا پروردگار توگھات میں ہے [الفجر: 13، 14]جو نفسِ امارہ کے پیچھے لگ کر؛ اپنی نوکری کو کمائی کا ذریعہ بنا کر رشوت خوری کر رہا ہے، سن لے!! ان مجرمانہ کاموں پر اللہ کی لعنت ہے، یہ بھی سن لے!! رشوت خوری رسوائی اور بدنامی کے ساتھ جہنم میں لے جانے والی ہے ۔مفادِ عامہ کے پراجیکٹس پر کام کرنے والو، سن لو!! اگر دھوکہ دہی اور کرپشن کے ذریعہ دنیا جہان کی دولت بھی اکٹھی کر لو، تمہارے حصے میں وہی آئے گا جو تم کھا ، پی لو، اور پہن لو، یہ بھی سن لو!! اللہ تعالی تمہارے خلاف موقعہ کی تلاش میں ہے، عین ممکن ہے کہ تمہیں جلد سزا دے دی جائے، اور آخرت میں تو ان کیلئے سنگین قسم کے عذاب تو ہیں ہی، جبکہ تمام مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی تو بہت ہی بڑا اور سنگین جرم ہے، جیسے کہ قرآن و سنت کے بہت سے دلائل اس بارے میں موجود ہیں، کچھ لوگ اسکو معمولی سمجھتے ہیں؛ کہ میرے اوپر تو کوئی نگران نہیں ہے میں جیسے چاہوں کروں ، ایسا شخص مخلوق کی نگرانی کو اہمیت دیتے ہوئے، خالق کو بھول جاتا ہے، کہ وہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔مسلمانوں کے قومی خزانے کولوٹنے والو!!آخرت کو بھی یاد کرو، سن لو!! اس فانی دنیا کو ایک دن چھوڑ جانا ہے، ہمیشہ کی زندگی کیلئے یہاں سے جانا ہے، ذرا سوچو!! الملک الجبار کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ذہن میں لاؤ، جب تم سے قبر میں سوالات کئے جائیں گے، ذرا تصور کرو!! جب اگلی پچھلی تمام نسلیں قیامت کے دن تیرے خلاف دعویدار ہونگی، کیا کرو گے اس وقت؟؟ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسم کا کوئی بھی حصہ حرام کمائی سے پرورش پائے تووہ آگ کا زیادہ حقدار ہے، جو لوگ اللہ کے مال کو ناحق کھاتے ہیں قیامت کے دن ان کیلئے آگ ہی ہوگی)سرکاری ملازمت کے گھمنڈ میں آکر ظلم کرنے والو! اپنی کرسی محفوظ بنانے کیلئے ظلم کرنے والو! اپنے مخالف کو سزائیں دینے والو! اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنے منصب کی بنا پر فائدہ پہنچانے والو!سن لو!!! یہ منصب عارضی ہے باقی نہیں رہتا کسی نے اسی کے بارے میں کہا:"إن الوظائف لا تدوم لواحد إن كنت تنكر ذا, فأين الأول؟"یہ مناصب کسی ایک کے پاس نہیں رہتے میری بات پر یقین نہیں تو بتاؤ تم سے پہلے جو اس منصب پر تھا وہ کہاں گیا؟وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، عہدوں پر براجمان لوگو! خیانت مت کرنا، امانت کی مکمل پاسداری کرنا، قومی ملازمتیں مسلمانوں کے مفادِ عامہ کیلئے بنائی جاتی ہیں، تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، خیال کرنا کہیں کسی کو دوسرے پر ترجیح مت دینا، یا اپنے مقام اور منصب کو ذاتی مفاد یا اقرباء پروری میں استعمال نہ کرنا۔نہایت امانت داری سے اپنی ذمہ داری نبھانا، کسی بھی کام یا قرار دادکو عادلانہ انداز میں پاس کرنا، یاد رکھنا!! باضابطہ طور پر تمہاری نگرانی اگرچہ کمزور انداز سے کی جائے ، لیکن اللہ تعالی کو تمہاری آنکھوں سے ہونے والی خیانت کے ساتھ ساتھ دلوں میں چھپی باتوں کا بھی علم ہے۔ بدترین شخص وہ ہے جو کسی کی دنیا بناتے ہوئے اپنا دین برباد کر دے، اور اللہ کے ہاں وہی تباہ و برباد ہو گا جو خو د اپنے آپ کو ہلاک کرے،فرمانِ نبوی -صلی اللہ علیہ وسلم-ہے: (سبھی لوگ صبح کو نکلتے ہیں ؛ کچھ اپنے آپ کو بیچ ڈالنے کے بعد آزاد کروا لیتے ہیں اور کچھ ہلاک کر دیتے ہیں) مسلماسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔دوسرا خطبہاحسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، ان پر درود و سلام ہوں ۔حمد و صلاۃ کے بعد!اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو یہ ہی اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو وصیت کی ہے۔مسلمانو!ابدی کامیابی کا معیار : دینی احکامات کی پاسداری ، اور شرعی قواعد و ضوابط اور سنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ہے، جو شخص بھی اس راستے سے ہٹ گیا ؛ اسکے لئے قیامت کے دن عذاب ہی ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے: فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى سو جس نے سرکشی کی[37] اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی[38] تو جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہوگا[39] لیکن جو اپنے پروردگار کے حضور (جوابدہی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے آپ کو خواہش نفس سے روکے رکھا[40] تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگا [النازعات: 37- 41]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ پر ، اورتمام صحابہ کرام پر ۔(دعا)یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا للہ تمام مسلمانوں کی تکالیف کو دور فرما۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ اکرم المکرمین! ان علاقوں کو امن وسلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما، یا اللہ ! ہمارا ہدف دنیا نہ بنا، یا اللہ ہمارے علم کامقصد دنیا نہ ہو، یا اللہ دینداری میں ہماری آزمائش مت کرنا۔یا اللہ ! ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! انکے لئے امن و امان قائم فرما۔یا اللہ! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما۔یا اللہ! ہمارے خادم الحرمین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اُنکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے۔یا اللہ ہمارے ملک اور تمام مسلمانوں کے علاقوں کو امن و سلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ !ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ !ہمیں پانی پلا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہمیں پانی پلا۔اللہ کے بندو!اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔

Monday, 11 December 2023

آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔سپرمز مرد کی منی میں پائے جانے والے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں جو مباشرت کے دوران عورت کی اندام نہانی میں داخل ہو کر افزائشِ نسل کا باعث بنتے ہیں۔ ایک دفعہ کی اخراجِ منی میں کروڑوں کی تعداد میں سپرمز پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک یا دو ہی عورت کی بچہ دانی میں داخل ہو پاتے ہیں۔ افزائشِ نسل کے ساتھ ساتھ سپرمز کے اور بھی کئی کام ہیں۔ آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔1- خوراک اور سپرمزآپ جو خوراک کھاتے ہیں اس کا آپ کے سپرمز سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اچھی اور متوازن غذا صحت مند سپرمز بناتی ہے، اور باقص اور نقصان دہ غذائیں جیسا کہ چیز، الکوحل، چکنائی اور سگریٹ وغیرہ کمزور اور بیمار سپرمز پیدا کرتی ہیں۔2- موٹاپا اور سپرمزموٹاپا آپ کے سپرمز کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ موٹے ہیں اور آپ کے جسم پہ ضرورت سے زائد چربی ہے تو آپ کے سپرمز کی تعداد کم اور ان کی صحت خراب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا اپنا وزن کم کریں اور اپنا بی-ایم-آئی 25 سے بڑھنے نہ دیں۔3- سپرمز کی زندگیمباشرت کے بعد عورت کی اندام نہانی میں جانے والے سپرمز 5 دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس دوران اگر عورت کی بچہ دانی سے نکلنے والا انڈہ ان سپرمز سے مل جائے تو عورت حاملہ ہو جاتی ہے، ورنہ اس کے بعد سپرمز مر جاتے ہیں اور اندام نہانی سے خارج ہو جاتے ہیں۔4- سپرمز کی تعدادایک دفعہ کی اخراجِ منی میں تقریبا 20 کروڑ سپرمز ہوتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف دوربین سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سپرمز کی تعداد مختلف مردوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ اس میں عمر اور خوارک کا بڑا کردار ہے۔5- سپرمز کی جنسسپرمز کی بھی جنس ہوتی ہے۔ سپرمز دو اجناس کے ہوتے ہیں، ایکس اور وائے۔ عورت کے اندر صرف ایکس سپرمز پائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں ایکس اور وائے دونوں ہوتے ہیں۔ ایک مرد کا ایکس عورت کے اندر جائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے اور اگر وائے جائے تو لڑکا۔جس سے یہ بات میڈیکلی بھی پروف ہوتی ہے کہ لڑکی یا لڑکا پیدا ہونے کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے۔

جنات کا خوفقرآن کریم میں ایک پوری سورت ”سورہ جن“ جنات کے متعلق انفارمیشن کے لئے موجود ہے، جس کو پڑھنا، سمجھنا و سمجھانا ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔ دوسرا اسی قرآن کے فرمان میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت جنوں پر تھی اور جنوں سے ہی انہوں نے عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں جیسا کہ صحیح بخاری 3423 Q میں بھی ذکر ہے۔جن کا لغوی معنی "چھپی ہوئی مخلوق"۔ اسلامی عقیدے کے مطابق جن کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔سورہ الذاریات 56: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔الانعام 130: اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے۔الاعراف 27: بے شک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔الرحمن 14 - 15: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔صَلْصَالٍ‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ”ٹھیکری“ کہتے ہیں۔ مَّارِجٍ سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے آدم کو ابوالآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ”مارج“ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔“ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر)الحجر 26 - 27: اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔ اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔الحجر 65: اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا۔الرحمن 15: اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔جنوں کی طاقت: ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل 39 - 40)صحیح مسلم 2294: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے۔صحیح مسلم 2814: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔صحیح بخاری 3431: ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔“ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔مختلف شکلیں: بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہو گا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (ابی داؤد: 5256) (ابی داؤد: 5257)صحیح بخاری 3316: پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔جنوں کی خوراک: علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا: ”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے“، پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: ”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں“۔(سنن ترمذی کتاب: تفسیر قرآن کریم باب 46: سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔)صحیح بخاری 3860: سیدنا ابوہریرہ نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا، تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ ﷺ کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے لیے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لیے ہے ۔جنوں کے جانور: ‏‏‏‏ عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا لیلۃ الجن کو سیدنا ابن مسعود، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (یعنی جس رات آپ ﷺ نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا: نہیں لیکن ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ گم ہو گئے۔ ہم نے آپ ﷺ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت بُرے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ ﷺ حرا (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے بیچ میں ہے) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! رات کو آپ ہم کو نہ ملے۔ ہم نے تلاش کیا جب بھی نہ پایا۔ آخر ہم نے بُرے طور سے رات کاٹی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جنوں کی طرف سے ایک ہلانے والا آیا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔“ پھر ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے، جنوں نے آپ ﷺ سے توشہ چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ (مسلم 1007)جنات کے رہنے کی جگہیں: اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ اسی لیے نبی ﷺ نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں۔صحیح بخاری 142: نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے”اللهم اٍني اعوذ بک من الخبث والخبائث‎" ترجمہ: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ابو داود 29: رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔ترمذی 606: جب انسان بیت الخلا جاتا ہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا۔سورہ الانعام رَبَّنَا اسْتَمْعَعَ بَعضُنَا بِبَعْضِ’’جن کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جنوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر جن کو کنٹرول میں کرنے کا ذکر نہیں ہے۔حدیث کی روشنی میں ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو تو انسان جنات پر قابو پا سکتا ہے۔صحیح بخاری 3423: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔جنات سے تکالیف: انسانوں کو جنوں اور شیاطین جو کہ جنات کی ہی ایک قسم ہیں کا اذیت پہنچانا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الناس میں خود ہمیں جنات سے پناہ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنات بیرونی سازشیں کر کے ہی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں یا اندرانی طور پر بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل ہے:سورہ بقرہ 275: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔امام قرطبی فرماتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے، نہ لگ سکتاہے۔ (تفسیر قرطبی 3/255)صحیح مسلم 7108: تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔"ابن ماجہ 3548: سیدنا عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔ابو داود 3592: سیدنا معاذ بن جبل کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے“۔نسائی 5535: ابوالاسود سلمی (ابوالیسر) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الهدم وأعوذ بك من التردي وأعوذ بك من الغرق والحريق وأعوذ بك أن يتخبطني الشيطان عند الموت وأعوذ بك أن أموت في سبيلك مدبرا وأعوذ بك أن أموت لديغا‏» ”اے اللہ! میں (دیوار کے نیچے) دب جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اونچائی سے گر پڑنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ڈوب جانے اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان موت کے وقت مجھے بہکا دے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت تیرے راستہ میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے آئے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈس لینے سے میری موت ہو“۔صحیح مسلم 7491:‏‏‏‏ جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“ (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔جنات و جادو کا علاجصحیح بخاری 5737: چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔صحیح بخاری 5763: نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادو کیا۔ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریم ﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا۔2۔ ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ " تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ (مسند احمد 15035)صحیح بخاری 5445 نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا۔صحیح بخاری 2311: سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔اس کے علاوہ یہی حدیث اس بات پر دلالت بھی کرتی ہے جن و شیاطین انسانی شکل میں ظاہر ہونے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل حدیث جادو کا توڑ اور علاج کرنے پر دلالت کرتی ہے۔صحیح بخاری 5765: قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔آخری بات: بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ (النخل 99 - 100)سب سے سخت ترین جادو تھا جو نبی کریم ﷺ پر کیا گیا۔ کالے جادو کی خطرناک ترین قسم ، اس کو بارہ گرہی جادو کہتے ہیں۔ اس نے گیارہ یا بارہ گرہیں لگائی ہوئی تھیں جادو کرکرکے۔ تو یہی دو سورتیں نبی کریم ﷺ نے پڑھیں اور جادو کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ جادو ختم ہوگیا۔ جس پر جادو ہوجائے وہ سورۃ بقرہ کی گھر میں تلاوت کرے۔ روزانہ ایک مرتبہ پوری سورہ بقرہ پڑھے۔ گھر میں سے ہر قسم کی جاندار کی تصویر کو ختم کردے۔ میوزک کی آواز نہ آئے گھر میں، گانے بجانے کی۔ گھر میں نمازوں کا اہتمام ہو، خواتین پردہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار ہوجائیں۔ اور جو طریقہ کار نبی کریم ﷺ نے دیا ہے وہ اپنا لیں۔ جادو ختم ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے وقت تھوڑا سا طویل ہوجائے۔ مہینہ، دو مہینے، چھ مہینے ، سال تک چلتا رہے۔ ممکن ہے لیکن جوایک بہت بڑا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا لیکن یہ آزمائش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے۔

Tuesday, 19 September 2023

اگر آپکو قانون کا پتہ ھے تو کوئی آپکو بلیک میل نہیں کر سکتااور اپنا حق اور انصاف لے سکتے ھیں کون سے جرم پر کون سا دفعہ لگتا ھے ملاحظ فرمائیں۔ *دفعہ 295-A* کسی مذہب کی توھین کرنا*دفعہ 295-B* قرآن پاک کی غلط تشریح کرنا*دفعہ 295-C* توھین رسالت *دفعہ 298-A* توھین صحابہ*دفعہ324* = قتل کی کوشش کی *دفعہ 302* = قتل کی سزا *دفعہ 376* = عصمت دری *دفعہ 395* = ڈکیتی *دفعہ 377* = غیر فطری حرکتیں *دفعہ 396* = ڈکیتی کے دوران قتل *دفعہ 120* = سازش *سیکشن 365* = اغوا *دفعہ 201* = ثبوت کا خاتمہ *دفعہ 34* = ارادہ نیت *دفعہ 412* = چوری کی چیز جرم کے ذریعے لینا *دفعہ 378* = چوری *دفعہ 141* = غیر قانونی جمع *دفعہ 191* = غلط ھدف بندی *دفعہ 300* = قتل *دفعہ325* = خودکش کوشش *دفعہ 420* = دھوکہ دہی *دفعہ 303* = اسقاط حمل *دفعہ 351* = حملہ کرنا *دفعہ 354* = خواتین کی شرمندگی *دفعہ 362* = اغوا*دفعہ 320* = بغیر لائسنس یا جعلی لائیسنس کے ساتھ ایکسڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا(ناقابلِ ضمانت)*دفعہ322* = ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا (قابلِ ضمانت) *دفعہ 415* = چال *دفعہ 445* = گھریلو امتیاز *دفعہ 494* = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا *دفعہ 499* = ہتک عزت *دفعہ 511* = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔ 4 ہمارے ملک میں، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔ تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں پانچ دلچسپ حقائق آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں، جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ *(1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا* - ضابطہ فوجداری کے تحت، دفعہ 46، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل، پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ (2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔(3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں - سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔ (4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔ یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا پی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو، اسے کم سے کم (6)ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ یہ دلچسپ حقائق ہیں، جو ہمارے ملک کے قانون کے تحت آتے ہیں، لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔ یہ پیغام اپنے پاس رکھیں، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

Sunday, 3 September 2023

جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، وہ آگ سے پیدا کیے گئے ، ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں ‏جو (electromagnetic spectrum) بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔ میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔ اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-visionجیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔ سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔ امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔ درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہیے۔ اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہ۔ اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی بیس ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے اور یہی وہ فریکوئینسی ہےجس میں انسان کا اپنے ذہن پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہےجس میں سو ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔ اس بات کے بعد سو سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔ پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ، صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔ ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ اگر آپ دوسری ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔تیسری ڈائیمینشن میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سےچوتھی ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ پانچویں ڈائیمینشن میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔چھٹی ڈائیمینشن میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔ساتویں ڈائیمینشن آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا۔آٹھویں ڈائیمینشن آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔نویں ڈائیمینشن ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں۔ اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہےجس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ، یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔ یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ، یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔ ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ،لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر میرے دل کو چھوا وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔الحمد للہ رب العالمین ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔۔

Tuesday, 22 August 2023

پشتون اپنے اوپر ظلم اور جبر کا زمہ دار خودتحریر: شہناز گُلدی بلوچستان پوسٹپاکستان کو بنگالیوں نے بنایا، 1905 کو بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام ہوا جو انگریز سرکار نے صرف ہندوستان کی قوم پرست جماعت کانگریس کے خلاف استمعال کرنا تھا تاکہ انگریزوں اپنے فارمولا ڈیوائیڈ اینڈ رول کے سہارے ہندوستان میں حکمرانی کر سکے۔ انگریزوں نے صرف کانگریسی لیڈروں اور ورکروں کو جیل میں سزائیں اور پھانسیاں دی ہیں جو ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ نکوبار آئیلنڈ میں سیلولر جیل(کالا پانی) میں قیدی صرف کانگریسی رہنما اور ورکر تھے نہ کہ مسلم لیگی۔ کیا انگریزوں نے کوئی پنجابی مسلمان کو پھانسی دی ہے کہ تم کیوں پاکستان کی مانگ رہے ہو؟ جی نہیں! کیا کوئی بلوچ اور سندھی کو پھانسی دی کہ کیوں ہندوستان کی آزادی یا پاکستان مانگ رہے ہو؟ جی نہیں۔ہم پشتون قوم پرست تو شروع ہی سے پاکستان کے بننے کے خلاف تھے، ہمارا اپنا آزاد پشتونستان کی سر زمین تھی جو افغانستان کا حصہ تھا۔ ہم اپنے وطن لوی افغانستان کے تھے، پشاور سے اٹک تک لوی افغانستان تھا انگریز سر ڈورینڈ نے ہمیں تقسیم کیا۔ ہمارا تو ایک آزاد وطن تھا تو ہمیں کیوں پاکستان چایے تھا؟ اور کیوں ہندوستان کی تقسیم چایتے جہاں وہیں کے مسلمانوں نے پہلے گیارہ سو سال بادشاہی جو کی تھی؟بلوچستان کو تو بعد میں 1948 میں زبردستی قبضہ کرکے شامل کیا گیا۔ آدھا پنجاب بھی ہندوستان میں رہ گیا۔ مطلب کہ آج کے پاکستان میں نہ بلوچ اور پشتون پاکستان کے بنانے میں شامل تھے اور نہ ہی سندھی اور پنجابی! بس انگریزوں نے کُچھ بُزدل لوگوں کے لئے پاکستان بنایا جو بعد میں بھاگ کر ادھر کراچی میں آئے اور بولتے ہیں کہ ہم نے قربانی دی، قربانی تو آزادی سے پہلے دی جاتی ہے۔ جب انگریزوں نے اپنے فائدے کیلئے پاکستان بنایا تو بعد میں بھاگنے کا نام کیسے قربانی؟اگر تاریخ کو پڑھا جائے تو پتا چلے گا کہ پاکستان کو بنگالیوں نے بنایا اور انہی بنگالیوں نے دیکھا کہ ہمارا ہی بنایا گیا مُلک ہمارے عورتوں کا ریپ، بچوں، طالب علموں اور رہنماوں کا قتل عام اور شہریں تباہ کر رہاہے تو بنگالیوں نے یک سال کے اندر اندر دل سے پاکستان کی محبت پھنک کر نفرت کو پالا اور اسی مُلک کو توڑ دیا۔ جب قوموں کو مشکل وقت آ جاتا ہے تو طالب علم، پروفیسر اور انقلابی لیڈر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، شھادت اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرتے بلکہ ان کو نفرت میں بدل دیتے ہیں اور اپنی قوم کو یک نظریہ اور سوچ کے مطابق آزادی کی منزل دیتے ہیں۔ تو بنگالی شیخ مجیب الرحمان جو ایک انتہائی پاکستان پرست تھا انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بنگالی قوم کو 1971 میں بنگلہ دیش کا تُخفہ دیا۔ مطلب وہی کیا جو ایک انقلابی لیڈر کرتا ہے۔یاد رہے اس وقت بھی بنگالی قوم میں جماعت اسلامی کے الشمس، البدر اور رضاکار جیسے غدار لوگ تھے جو اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو شھیدکر رہے تھے پر اُن گُل خانوں کو شکست ہوئی جو بعد میں انقلابیوں نے چُن چُن کر مارا۔اسی طرع 1947 والا انگریزوں کا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا اور دو قومی نظریہ گیا بھاڑ میں۔ اس پاکستان کی وجہ سے برصیغر کے مسلمان تقسم اور کمزور پڑ گئے۔ آج پاکستان کی اکونومی 210 بلین ڈالر ہے تو بنگلہ دیش کی 324 بلین۔ پاکستان کے فارن ریزرو 4 بلین ڈالر تو بنگلادیش کے فارن ریزرو 60 بلین ڈالر ہیں۔ پاکستان کی جی ڈی پی پر کیپیٹا 990 ہے تو بنگلہ دیش کا 2300 جی ڈی پی پر کپیٹا ہے مطلب آج بنگالی پاکستانیوں سے تین گُناہ خوشحال ہیں۔1973 میں جب بلوچ اور پشتون اپنے وطن کی آزادی کیلئے پنجابی کے خلاف لڑنے لگے تو مذہب کو استمعال کرکے پشتونوں کو گمراہ کیا گیا بعد میں 1980 کی دھائی میں جہاد کے نعرے لگے جس سے صرف ڈورائینڈ لائین کے دونوں طرف پشتون قوم تباہ ہوئی۔ چالیس سال سے پشتونوں کا قتل عام اور بربادی ہو رہی ہے اور جس بدنام جہاد کیلئے جو ڈالر اور سعودی ریال آئے وہ سارے پنجابی جنرل کھاگئے اور تباہی اور مرنے والے صرف پشتون۔ قدوس بزنجو اور بُہت سارے علاقائی سردار ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے بلوچوں کو گمراھی میں لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہاں خیر بخش مری، نواب بُگٹی، اللہ نظر، اسلم بلوچ، میر بنگُلزئی، بشیر زیب اور کافی نوجوان لیڈر ہیں جن لوگوں نے بلوچ قوم کو آزاد بلوچستان کی راہ دی ہے۔بلوچستان کے لوگ اپنے شھادت اور قربانیوں کو آزادی کی کِرن سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہاں پاکستان پشتون فوجیوں کو بلوچ آزادی پسند سرمچاروں کے خلاف استمعال کرتا ہے۔ اس پر ہمیں بے حد دُکھ ہے۔ دوسری طرف ہمارے محمود اچکزی، محسن داوڑ، ایمل ولی اور مذہبی پشتون لیڈر مُنافق اور بُزدل ہیں جو آزاد پشتونستان کی بات نہیں کرتے بس قوم کو مزید تباھی کی طرف لے جارہے ہیں۔

بلوچستان کے ایک پشتون مجاہد پالے شاہ خوستی کے سوا بلوچستان کے تقریباً تمام پشتون مشران انگریز کے وفادار رہے ماسوائے چند ایک کہ جن میں قابل ذکر نام عبدالصمد خان اچکزئی، ملک عبدالعلی کاکڑ اور ان کے چند رفقا کا تھا جو ایک آزادی پسند سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ تھے اور ماسوائے کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار میں آباد بازئی نوجوان انگریز راج کے ِخلاف چند کاروائیوں کے بعد زیر حراست آگئے اور کچھ شہید ہوگئے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچ اکثریتی بیلٹ میں خونریز مزاحمت اپنے عروج پر رہی بلوچستان کے تخت نشین والئیے ریاستِ قلات خان محراب خان انگریز فوج کو للکارنے والے اور 400 ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرنے والے پہلے بلوچ قبائلی رہنما تھے۔ پورے کالونیل دور میں انگریز کو بلوچستان کے بلوچ قبائلی علاقے میں چھاپہ مار کاروائیوں سے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ باجوڑ سے ٹرانسفر ہونے والا برطانوی جنرل ڈیوس جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور تھا کوہلو میں بلوچ آزادی پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کے نتیجے میں قلات، کوہلو بارکھان اور وڈھ میں برطانوی راج کی جانب سے بلوچ حریت پسندوں کے خلاف بڑے حملے کئیے گئے۔ ان حملوں میں میروانی اور ساسولی قبیلے کے نامور بلوچ سردار بھی شہید ہوئے اور خان آف قلات کے قریبی عزیز میر شکر خان بھی داد شجاعت وصول کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ قلات آپریشن کے بعد رابرٹ سنڈیمن نے باوجہِ خوف کوئٹہ سے بھاگ کر پشین جانے کو ترجیح دی اور وہیں سکونت اختیار کی۔ فرنگی خود کو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ مری کے علاقے میں حق نواز مری اور شاہ نواز مری جو حقو اور شاہو کے نام سے مشہور تھے انہوں نے برٹش انڈین آرمی کا جینا حرام کر رکھا تھا اور بارکھان میں فقیر کالے خان بجرانی مری نے انگریز کے پاوں جمنے نہیں دئیے، کالے خان کی سر کی قیمت تاجِ برطانیہ کی طرف سے تمام برضغیر کے مطلوب ترین باغیوں میں سب زیادہ مقرر کی گئی تھی۔ نورا مینگل اور میر شہباز گرگناڑی نے جھالاوان کے قبائلی علاقے میں گوریلا کمانڈ سنبھال رکھی تھی جبکہ گوریلا قائد شاہداد بنگلزئی "دینار زئی" اور ولی محمد شاہوانی "سوری زئی" جیسے کئی ایک حریت پسندوں نے سراوان کے قبائلی علاقے اور چلتن کے پہاڑی سلسلے سے لے کر کوئٹہ شہر کے گردونواح میں برطانوی فوج کا جینا محال کر رکھا تھا جبکہ خاران میں چھاپہ مار سجاول محمد حسنی انگریز کے دانت کھٹے کر رہا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے دشت و جبل میں فرنگی کے خلاف میدانِ رزم کی گرم بازاریاں کم و بیش یا زیادہ تر غیور بلوچ قبائل کے حصے میں ہی آئیں۔ درگئی اور شمالی وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ مزاحمت اور حزیمت کا سامنا برطانوی راج کو بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کرنا پڑا۔*کلیم امام کی کتاب ”بلوچستان ماضی حال اور متقبل“ سے اقتباس*