Wednesday, 26 June 2024
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب ”کالکی اوتار“ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں يہ بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس "کالکی اوتار" کا تذکرہ ملتا ہے، وہ آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا، تو وہ اب تک جیل میں ہوتا اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی، مگر اس کے مصنف "پنڈت وید پرکاش" برہمن ہندو ہیں۔ اور وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ سنسکرت زبان کے ماھر اور معروف محقق اسکالر ہیں۔ڈاکٹر وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور ومعروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا تھا، جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں۔برھمن پنڈت وید پرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں دراصل ايک عظیم رہنما کا ذکر ملتا ہے۔ جسے ”کالکی اوتار“ کا نام دیا جاتا ہے، سو ڈاکٹر وید پرکاش گہری تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ھے کہ اس کالکی اوتار سے مراد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں، ان کو اب کسی اور کالکی اوتار کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کیلئے انہیں محض اسلام قبول کرنا ہے، اور آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے، جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔اپنے اس دعوے کی دليل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب”وید“ سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کیئے ہیں۔1۔ ”وید" کتاب میں لکھا ہے کہ(( کالکی اوتار بھگوان کاآخری اوتار ہوگا، جو پوری دنیا کو راستہ دکھائے گا۔ ))ان کلمات کا حوالہ دينے کے بعد پنڈت وید پرکاش لکھتے ہیں کہ اس پیش گوئی کا اطلاق صرف حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔2۔”ویدوں“ کی پیش گوئی کے مطابق (( کالکی اوتار ايک جزیرے میں پیدا ہوں گے))اور يہ عرب علاقہ ھی ہے، جسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔3۔ مقدس کتاب وید میں لکھا ہے کہ (( ”کالکی اوتار“ کے والد کا نام ’‘وشنو بھگت“ اور والدہ کا نام ”سومانب“ ہوگا۔))جبکہ سنسکرت زبان میں ”وشنو“ ﷲ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” بھگت“ کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں ”وشنو بھگت“ کا مطلب ﷲ کا بندہ یعنی ”عبد ﷲ“ ہوا۔اور سنسکرت میں ”سومانب“ کا مطلب "امن" ہے, جو کہ عربی زبان میں ”آمنہ“ ہو گا، اور آخری رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے والد کا نام عبد ﷲ اور والدہ کا نام آمنہ ہی ہے۔4۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ((”کالکی اوتار“ زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ اور وہ اپنے قول وقرار میں سچا اور دیانتدار ہو گا۔ ))اور يہ دونوں پھل حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کو مرغوب تھے۔ جبکہ آپ سچائی اور دیانتداری میں تو اس حد تک معروف تھے کہ مکہ میں محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کے لقب استعمال کيے جاتے تھے۔5۔ ”وید “ کے مطابق ((”کالکی اوتار“ اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہوگا)) اور يہ بھی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی پورے عرب میں عزت اور شام وعراق میں پہچان تھی۔6۔ہماری کتاب کہتی ہے کہ ((بھگوان ”کالکی اوتار“ کو اپنے خصوصی قاصد کے ذريعے ايک غار میں پڑھائے گا۔)) اس معاملے میں يہ بھی درست ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں ﷲ تعالی نے غار حراء میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذريعے تعلیم دی۔7۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق ((بھگوان ”کالکی اوتار“ کو ايک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔))اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ”براق پر معراج کا سفر“ اس پیش گوئی کا مصداق بن کر اسے آپ کی بابت ھی درست ثابت کرتا ہے؟8۔ نیز لکھا ھے کہ ((ہمیں یقین ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار“ کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔))اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں ﷲ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔9۔ ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق یہ پیش گوئی ملتی ھے کہ((” کالکی اوتار“ گھڑ سواری، تیز اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہوگا۔))پنڈت وید پرکاش نے اس پیش گوئی پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ جو بڑا اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "گھوڑوں،تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکاہے۔اب تو ٹینک، توپ اور میزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا يہ عقل مندی نہیں ہے کہ ہم اس دور جدید میں تلواروں، نیروں اور برچھیوں سے مسلح”کالکی اوتار“ کا انتظار کرتے رہ جائیں۔ حالانکہ حقیقت يہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ”کالکی اوتار“ کے واضح اشارے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک، توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیر انداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے ۔منقول
Tuesday, 25 June 2024
زیتون کی کاشت .زیتون کا باغ لگائیں .ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ایک مرتبہ زیتون کا باغ #olivegarden لگا لیں تو وہ کم از کم ایک ہزار سال تک پھل دیتا رہے گا. زیتون کن کن اضلاع میں لگایا جاسکتا ہے؟ زیتون کے باغات پنجاب سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں. خیبر پختونخوا سے گلگت بلتستان سے لیکر سندھ ۔ سندھ سے لیکر بلوچستان حتی کہ چولستان میں بھی زیتون کی کاشت ہو سکتی ہے.. نوٹ جن علاقوں میں جنگلی زیتون۔ کہو۔ سینزلہ۔ عتمہ۔ تنگ برگہ۔ گونیر۔ خونہ۔ کاؤ ۔ خت ۔خن۔ سرسینگ۔ شیجور۔ سینجور۔ شون ۔۔ پایا جاتا ہے اس سے آٹھ سے دس پرسنٹ تیل نکالا جا سکتا ہے جو کھانے پینے میں قابل استعمال ہے پاکستان میں نو کڑوڑ جنگلی زیتون کے درخت پائے جاتے ہیں نوٹ گندم کی کاشت کے علاقوں میں کھیتوں کی بجائے کھیتوں کے کناروں رکھوں ڈیروں سکول کالجز مسجد مدرسوں پارکوں میں زیتون کے پودے لگائیں زیتون کس طرح کی زمین میں لگایا جاسکتا ہے؟ زیتون کا پودا ہر طرح کی زمینوں مثلاََ ریتلی، کچی، پکی، پتھریلی، صحرائی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے. صرف کلر والی زمین یا ایسی زمینیں جہاں پانی کھڑا رہے، زیتون کے لئے موزوں نہیں ہیں. زیتون کو کتنے پانی کی ضرورت ہے؟ زیتون کے پودے کو شروع شروع میں تقریبا دس دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. یا بلحاظ موسم پانی کی ترتیب اپ بڑھا گھٹا سکتے ہیں یعنی جبھ پودے کو پانی کی ضرورت ہو تبھ لگائیں تاکہ پھل اچھا آئے جیسے جیسے پودا بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی جاتی ہے. دو سال کے بعد زیتون کے پودے کو 20 سے 25 دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. زیتون کے پودے کب لگائے جا سکتے ہیں؟ زیتون کے پودے موسمِ بہار یعنی فروری، مارچ , اپریل یا پھر مون سون کے موسم یعنی اگست، ستمبر ، اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں. زیتون کے پودے لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ زیتون کا باغ لگاتے ہوئے پودوں کا درمیانی فاصلہ کم از کم 18*18 فٹ ہونا ضروری ہے. اس طرح ایک ایکڑ میں تقریبا 150 پودے لگائے جا سکتے ہیں. یہ بھی دھیان رہے کہ زیتون کے پودے باغ کی بیرونی حدود سے تقریباََ 8 تا 10 فٹ کھیت کے اندر ہونے چاہیئں.پودے کیسے لگانے چاہئیں؟؟ پودے لگانے کے لئے دو فٹ گہرا اور دو فٹ ہی چوڑا گڑھا کھودیں. تین لئرز میں گڑھے کے چاروں کونوں پر فینائل کی گولیاں رکھیں تاکہ پودے دیمک سے محفوظ رہیں یا بائر جرمنی کی دیمک کش دوائ استعمال کریں اس کے بعد زرخیز مٹی اور بھل سے گڑھوں کی بھرائی کر دیں. پہلے مرحلے میں اپکے گھڑے میں پانی اچھی طرح ہونا چاہئے تاکہ پودے کی نمی ارد گرد کی مٹی چوس نا لے یا پودا لگانے سے ایک ہفتہ پہلے تیار شدہ گھڑوں کو اچھی طرح پانی لگائیں اب زیتون کا پودا لگانے کے لئے آپ کی زمین تیار ہے. پودے کو احتیاط سے شاپر سے نکالیں یا صرف شاپر کا نچلا حصہ کاٹ کر گاچی کو مٹی میں دبائیں تاکہ گاچی ٹوٹ کر جڑوں کو ہوا نا لگے . گڑھے کی مٹی کھود کر پودا لگائیں اور اس کے بعد پودے کے چاروں طرف مٹی کو پاؤں کی مدد سے دبا دیں تاکہ پودا مستحکم ہو جائے. چھوٹے پودے کا تنا ذرا نازک ہوتا ہے اس لئے پودے کو پلاسٹک کے پائپ سے سہارا دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے. سہارے کے لئے لکڑی کا استعمال نہ کریں کیونکہ لکڑی کو دیمک لگ سکتی ہے جو بعد میں پودے پر بھی حملہ آور ہو سکتی ہے. زیتون کی کون کون سی اقسام کاشت کی جا سکتی ہیں؟ نمبر 1. لسینو نمبر 2. گیملک نمبر 3. پینڈولینو نمبر 4. نبالی نمبر 5. آربو سانا نمبر 6. کورونیکی نمبر 7. آربیقوینہ پنجاب اور سندھ کے گرم علاقوں سمیت دیگر گرم علاقوں کے لئے درج ذیل اقسام کاشت کرنی چاہئیں. نمبر 1. آربو سانا نمبر 2. کورونیکی نمبر 3. آربیقوینہ بلوچستان کے لیے منظور شدہ اقسام 1.,Frantouo2.Arbiquina3.Arbasona4.,Koronoki5.Leceno6.Hamdi7.Ojabalanka8.,Otobartica9.Coratina10.Jerboi.یاد رکھیں زیتون کا باغ لگاتے وقت کم از کم دو یا دو سے زائد اقسام لگانی چاہئیں اس طرح بہتر بارآوری کی بدولت پیداوار اچھی ہوتی ہے. زیتون کے باغ کو کھادیں کتنی اور کون کونسی ڈالنی چاہئیں؟ کھاد دوسرے سال کے پودے کو ڈالیں. دوسرے سال کے پودے کے لئے: گوبر کی کھاد . . . . 5 کلوگرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 5 کلو گرام کا اضافہ کریں نائٹروجن کھاد . . . . 200 گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 100 گرام کا اضافہ کریں فاسفورس کھاد . . . . 100گرام فی پودا ڈالیں . . . . اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں پوٹاش کھاد . . . . . . 50 گرام فی پودا ڈالیں . . . . .. اگلے سالوں میں ہر سال 50 گرام کا اضافہ کریں زیتون کے پودے کو پھل کتنے سال بعد لگتا ہے؟ عام طور پر 3 سال میں زیتون کے پودے پر پھل آنا شروع ہو جاتا ہے. زیتون کے پودے پر پھل پہلے سبز اور پھر جامنی ہو جاتا ہے۔ سبز پھل اچار اور جامنی تیل نکالنے کے لئے استعمال ہوتا ہے زیتون کے باغ سے فی ایکڑ کتنی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے؟ زیتون کے ایک پودے سے پیداوار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ نے پودے کی دیکھ بھال کس طرح سے کی ہے. اچھی دیکھ بھال کی بدولت ایک پودے سے 60 کلوگرام یا اس سے بھی زیادہ زیتون کا پھل با آسانی حاصل ہو سکتا ہے. لیکن اگردیکھ بھال درمیانی سی کی گئی تو 40 کلوگرام فی پودا پھل حاصل ہو سکتا ہے. انتہائی کم دیکھ بھال سے پودے کی پیداوار 25 سے 30 کلوگرام فی پودا تک بھی گر سکتی ہے. لہذا ماہرین زیتون کے باغات کی فی ایکڑ پیداوار کا حساب لگانے کے لئے بھرپور 50 کلو گرام فی پودا پیداوار کو سامنے رکھتے ہیں. اس طرح ایک ایکڑ سے 7500 کلوگرام زیتون کا پھل حاصل ہو سکتا ہے. ایک ایکڑ کے پھل سے کتنا تیل نکل آتا ہے؟ بہتر یہ ہے کہ زیتون کے کاشتکار پھل کو بیچنے کی بجائے اس کا تیل نکلوائیں اور پھر اس تیل کو مارکیٹ میں فروخت کریں. زیتون کے پھل سے 20 سے 30 فی صد کے حساب سے تیل نکل آتا ہے. 20 سے تیس فیصد کے حساب سے ایک ایکڑ زیتون کے پھل 7500 کلوگرام ) سے تقریبا 1500 کلو گرام تیل نکل آتا ہے۔۔(پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے شکریہ ) ....نوٹ ۔۔صرف منظور شدہ نرسریوں سے منطور شدہ اقسام کے پودے لگائیں۔۔لوکل پودوں پر پھل نہی لگے گا ۔ ۔۔شکریہ۔۔۔میاں احمد علی۔ گرین فاونڈیشن پاکستان ننکانہ صاحب۔..03008836857 whatsapp. مزید معلومات کے لیے ہمارے اس پیج کو جوائن فالو لائک کیجے,,,,,,,,,, ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,,, ,,,,,,,,,,, /////////////////////////////////////جنت کا مبارک درخت ( مکمل مضمون) پاکستان میں زیتون ”شجرة مبارکہ“ کی کاشت ۔السلام علیکم دوستو۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ زیتون کا تیل سالن کے طور پر استعمال کرو اور اسے ( سر اور بدن میں ) لگاؤ ۔ یہ مبارک درخت سے حاصل ہوتا ہے ۔ صحیح ابن ماجہ پاکستان اپنی ضرورت کا صرف تیس سے پینتیس فیصد کھانے کا تیل پیدا کرتا ہے باقی تمام تیل باہر سے منگواتا ہے۔۔ اور ہر پاکستانی سالانہ اوسط چوبیس لٹیر تیل استعمال کرتا ہے جو عالمی معیار کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان میں یہ شرع انیس لیٹر ہے۔پاکستان ہر سال تین سے چار سو ارب روبے کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے بدقسمتی یہ ہے یہ تمام کھایا جانے والا تیل غیر معیاری اور نچلے درجے کا ہے۔کیا زیتون کا تیل کھانا پکانے میں تلنے میں استعمال ہو سکتا ہے؟ یہ فیصلہ کرنے میں کہ کون سا تیل کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنا ہے یا نہی ، تیل کا استحکام۔۔ "سموک" یعنی جلنے کے نقطہ سے زیادہ اہم ہے۔ زیتون کا تیل اولیک ایسڈ اور دوسرے مرکبات سے بھرپور ہوتا ہے جو انہیں بہت مستحکم بناتا ہے۔ ایکسٹرا ورجن زیتون کے تیل میں پولیفینول اور اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو تیل کے ٹوٹنے اور فری ریڈیکلز کی تشکیل سے لڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، اضافی ورجن زیتون کا تیل سب سے زیادہ مستحکم کھانا پکانے کا تیل پایا گیا ہے۔ اسکا سموک لیول مختلف ھالتوں میں 370 f سے 410 فارن ھائیٹ تک ہے۔۔۔ جو کہ بہت بلند ہے۔۔۔۔۔زیتون کا زکر قرآن مجید میں چھے جگہ آیا ہے اللہ رب کعبہ نے قران عزیز میں اسے "مبارک درخت" قرار دیا ہے۔ اور اسکے تیل کے نور کو اپنے نور سے تتشبیح دیا ہے بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِاللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[35][ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہو جائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ [35]اور قرآن عظیم میں دوسری جگہ اسکی قسم بھی کھائ ہےبِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ. وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ (1) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور تیسری جگہ فرمایا ِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِوَشَجَرَةً تَخۡرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَيۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّهۡنِ وَصِبۡغٍ لِّلۡاٰكِلِيۡنَ"اور (اسی پانی سے) طور سینا سے ایک درخت(زیتون ) اُگتا ہے جو روغن لئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کو سالن کا اسکے بارے میں جناب رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کی تعداد چالیس سے اوپر بتائ جاتی ہے(سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیتون کا تیل لگاو اور اس کا سالن بناو، کیونکہ وہ بابرکت ہے۔“ قال الشيخ الالباني: صحيح) دنیا میں زیتون کا نوے فیصد استعمال تیل کے لیے کیا جاتا باقی دس فیصد مربے اچار بنانے کے کام آتا ہے ویسے تو زیتون کے تیل کے بے شمار فائدے ہیں لیکن کچھ درج زیل ہیں بیڈ کولیسٹرول سے نجاتبلڈ پریشر سے نجات پیٹ کی چربی سے نجاتکینسر کے خلاف زبردست قوت مدافعت اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپورآنتوں کی صحت میں بہتریسوزش کو کم کرنے والی خصوصیاتاسٹروک کے خطرات میں کمیدل کی بیماریوں سے بچاؤہڈیوں کی صحت میں بہتریدماغی امراض کے خطرات میں کمیزیتون کے درخت پر خزاں نہی آتی یہ سدا بہار ہے۔ انتہائ گرم و سرد موسم کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے دنیا میں سپین اور اٹلی اسکے سب سے بڑے سپلائر ہیں۔ غیر ملکی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس اس کی کاشت کا رقبہ سپین اور اٹلی کے مقابل ڈبل سے بھی کافی زیادہ ہےشجر کاری کی اہمیت دین اسلام میں مسلمہ ہے اپ اس کی اہمیت کا اندازہ اس قول رسول کریم ﷺ سے بخوبی لگا سکتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں سبز ٹہنی ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے ۔ (مسند احمد)ارشادِ نبویؐ ہے :’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد ) ہماری تحریک کے اولین مقاصد میں ہے کہ ہم عوام کو موٹیویٹ کریں کہ وہ پاکستان کے طول و عرض کو زیتون کے پودوں سے بھر دیں جس سے پاکستان کا امپورٹ بل برائے خوردنی تیل صفر ہو جائے اور پاکستان کی عوام کو دنیا کا سب سے اعلی معیاری پراڈکٹ استعمال کو ملے۔۔۔دوستو۔۔۔غذائ بحران کے اس دور میں ہمیں نمائشی پودوں کی بجائے ذیادہ سے ذیادہ پھل دار پودے لگانے کی ضرورت ہے۔۔دوستو پھل دار درخت لگانے کی اہمیت کا اندازہ اپ رسول اقدس ﷺ کے اس مبارک قول سے لگا سکتے ہیں عطاء نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کوئی بھی مسلمان ( جو ) درخت لگاتا ہے ، اس میں سے جو بھی کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ، اور اس میں سے جو چوری کیا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جنگلی جانور اس میں سے جو کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی اس میں ( کسی طرح کی ) کمی نہیں کرتا مگر وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح مسلم۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ہے۔“(صحیح بخاری)۔ اپنی زمینوں رقبوں گھروں پارکوں گلی محلوں سکولوں کالجوں وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ زیتون کے پھل دار درخت لگائیں تاکہ اپکو سایہ بھی ملے اور پھل بھی اور ملک کو کثیر زرمبادلہ تمام دوست ایک اہم بات زہن میں رکھیں منظور شدہ نرسریوں سے زیتون کی منظور شدہ اقسام کے پودے خریدیں ورنہ لوکل پودوں پر پھل نہی لگے گا ۔ آئیے مل کر پاکستان کی جنگ لڑیں پاکستان کو سر سبز شاداب اور مضبوط بنائیں شکریہ۔۔
Monday, 24 June 2024
معذرت کے ساتھ۔۔ سب سے زیادہ بےحیا قوم لوط علیہ سلام کی قوم تھی یہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں میں دلچسپی رکھتے تھے خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت لوط نے کہا تم یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ وہ بدنصیب بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔ اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔ لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔ اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، اور جبرائل علیہ السلام تھے پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔ حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔ تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔ کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں،؟ حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔ قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فعل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔ ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔ اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔ جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے اور بصارت ظاہر ہوگئی یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔ صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی۔۔۔کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔ صبح سویرے شروع ہونے والا یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار اور سیاہ جیل میں تبدیل کردیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحرے مردار کہا جاتا ہے جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے اور اس فحش عمل کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے!اور مجھے شرم آتی ھے یہ کہتے ھوئے کہآج ھمارے معاشرے میں یہی سب چل رہا ہے بلکہ اس قبیح کام کو قانون کی سر پرستی حاصل ہے ۔۔۔اللہ ھماری دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنانے کی عقل و عمل عطاء فرمائے ۔۔۔(واللہ اعلم)
Subscribe to:
Posts (Atom)