Saturday, 16 December 2023
اتنا خوبصورت اتفاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!"چاند ہم سے 3 لاکھ اور 84 ہزار کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے،، کوٸی بھی اسپیس گاڑی چاند تک پہنچنے کے لٸے تقریبا تین دن کا وقت لیتی ہے۔۔ ہم چاند کا صرف ایک side دیکھ سکتے ہیں۔چاند کا دوسرا side ہم نہیں دیکھ سکتے کیونکہ چاند زمین کے ساتھ ٹاٸیڈلی لاکڈ ہے اس کے علاوہ "چاند" پر باقاعدہ دن اور رات بھی ہوا کرتے ہیں۔۔۔ چاند پر ایک دن 14 زمینی دنوں کے برابر ہوتا ہے۔اسطرح چاند پر رات بھی تقریبا 14 زمینی دنوں کے برابر ہوتی ہے۔چاند کا قطر 3475 کلو میٹر ہے،جبکہ گولاٸی تقریبا 10921 کلو میٹر ہے، اس کے علاوہ سب سے اہم بات چاند سے متعلق یہ ہے کہ وہاں "گریوٹی" زمین کی نسبت بہت کم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا وزن "زمین" پر 80 کلو گرام ہے۔ اُس چیز کا وزن چاند پر تقریبا پانچ یا چھ کلو گرام کے برابر ہوگا،اس طرح زمین پر جس چیز کا وزن ہزار کلو گرام ہے، تو اُس کا وزن چاند پر 60 کلو گرام سے زیادہ نہیں ہوگا، مطلب یہ کہ ہم چاند پر 1000 کلو گرام وزنی چیز بھی بہت آسانی کے ساتھ اٹھاسکتے ہیں۔ چونکہ وہاں کشش ثقل بہت ہی کم فورس اپلائی ہورہی ہے،،،، لہٰذا وہاں آپ زمین کے حساب سے زیادہ وزنی شے بھی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ وہاں پر کوئی چیز اگر اوپر کی طرف پھینکی جاٸے،، وہ بہت دور تک جاۓ گی، کم گریوٹی فورس کی وجہ سے۔چنانچہ جو دوست کرکٹ کھیلنے کے تو شوقین ہیں،، مگر بالکل بھی چھکا نہیں لگاسکتے،، تو ان کی اطلاع کیلٸے عرض ہے کہ ایسے حضرات وہاں بڑی آسانی سے دو سو میٹر لمبا "چھکا" بھی مار سکتے ہیں۔ساٸنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاند ہر سال زمین سے تقریبا 1.5 انچ دور جا رہا ہے۔ ایک دن چاند ہم سے اتنا دور ہوگا جتنا آج کل پلوٹو ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ چاند کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چاند زمین کے سمندروں میں موجود tides پر باقاعدہ اثر انداز بھی ہوتا ہے۔۔ چاند کے بغیر اونچی مدوجزر ختم ہوجاٸیں گے،،،،،،،، اور کم مدوجزر پیدا ہوں گے۔ اس سے متعدد اقسام کے جانور جو tidal زون میں رہتے ہیں،، جیسے کہ کیکڑے، سمندری snails وغیرہ کی زندگیاں خطرے میں پڑجاٸیں گی اور سمندر کے بڑے جانوروں جو ان جانوروں پر سارا دار ومدار رکھتے ہیں، کی غذا میں زبردست خلل آجاٸے گا،،، جس کی وجہ سے پورے آبی ماحولیاتی نظام میں بگاڑ آجاٸے گا۔ایسا ہوجانے سے سمندری مخلوقات کی life cycle پر اثر پڑے گا،،،،،،،، اور ان آبی مخلوقات کے مرنے سے خشکی والے جانداروں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہونگی۔۔ یعنی زمین کا life cycle مکمل طور پر متاثر ہوجائے گا۔اسٹرولوجیسٹ کا ماننا ہے کہ ہماری زمین کا چار 4 ارب سال پہلے کسی سیارے سے ٹکراؤ ہوا تھا،جس کی وجہ سے زمین آج بھی 23.5 ڈگری جھکی ہوئی ہے اور اسی ٹکراؤ کے باعث چاند وجود میں آیا، یعنی چاند پہلے ہماری زمین کا ہی حصہ تھا ،،،،،،،اگر چاند نہ بنتا تو ہماری زمین جھکی ہوئی شاید نہ ہوتی،،،، اور اگر زمین جھکی نہ ہوتی تو زمین پہ "موسم" نہ ہوتے جسکا براہ راست اثر ہماری زندگی پر پڑتا یعنی مختلف موسموں کا آنا چاند ہی کی وجہ سے ہے۔۔۔۔ ابھی زمین زیادہ تر چاند کی کشش ثقل کی وجہ سے 23.5º پر اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے۔ اگر چاند غائب ہو گیا، تو زمین کا محور 10 سے 45º تک کہیں بھی ڈگمگاتا رہے۔ناسا "اسٹرولوجیسٹ" کہتے ہیں کہ "کشش ثقل" کسی بھی سیارے کے گھومنے کی رفتار کو کم کرنے کا باعث ہے۔۔۔۔۔۔ اگر چاند نہ ہوتا تو ہماری زمین بہت تیزی سے گھومتی،، اور اس کا نتيجہ یہ نکلتا کہ دن بہت چھوٹے ہوتے،، جسکی وجہ سے زمین گرم نہ ہو پاتی اور انسان نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ انسان زیادہ ٹھنڈ برداشت نہیں کرسکتے،،، گویا ہماری بقا میں چاند کا کلیدی کردار ہے،، بعض لوگ ان کو ایک "خوبصورت" اتفاق کہتے ہیں لیکن اتفاق اتنا خوبصورت نہیں
Thursday, 14 December 2023
وراثت کی تقسیم کا قانونی طریقہ کار آسان اردو زبان میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس پوسٹ کو ذیادہ سے ذیادہ شیئر کریں۔وراثت کی تقسیم کا مکمل اور جامع قانونی طریقہ کار:(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی.(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے.(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی.جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار:(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں.(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی. (٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے گا.X(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ:(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے.(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا.(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی.(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا.(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا.(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا.(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ: (١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے. (٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے.(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے.(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا.(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا. (٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا. (3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا.(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے. (٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا.(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گ(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ: (١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے.(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی.(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی.(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ:(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی.(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے. (٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے. (٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا.(7): کلالہ: کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو.(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں: (١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے. (٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے.(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ اسکا جوکہ عورت کیلئے ہے.الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک الله ہر شے پر گواہ ہے. (4:33)مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)الله تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی (2/3) ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف (1/2) ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد اداۓ قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ الله کی طرف سے فریضہ ہے بیشک الله جاننے والا صاحب حکمت ہے. (4:11)اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف (1/2) حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی (1/4) حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی (1/3) میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب الله ہے اور الله جاننے والا بردبار ہے. (4:12)تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ الله تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجاۓ جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف (1/2) حصہ ہے. (اگر عورت ہلاک ہوجاۓ) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی (2/3) ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عورت کیلے ہے الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.
Wednesday, 13 December 2023
۔" فانی دنیا سے بچو " کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے دنیاوی شہوات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں خیال کرنا کہیں تمہیں دنیا داری اطاعتِ باری تعالی ، اور اتباع ِرسول سے غافل نہ کرد ے ، جس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو آخرت بھلا دینے والے گناہوں اور نافرمانیوں سے دور رہنے کا بھی کہا ۔پہلا خطبہ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے زندگی میں شرعی پابندیاں لگائی اور اسے فانی بھی بنایا، جبکہ آخرت کی زندگی اسکے بدلے میں دی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنی بندگی کرنے والوں کو مکمل بدلہ دینے کا وعدہ بھی کیا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے متقی پرہیز گار صحابہ کرام پردرود ، سلام بھیجے۔حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی دنیا آخرت میں خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ کے بندو!ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں ذاتی مفاد دینی اقدار پر غالب ہے، جہاں شخصی مفاد کو تمام اخلاقیات پر برتری حاصل ہے۔انسان پر دنیاوی محبت کا کنٹرول ہے، یہ انسان اس دنیا کی چمک دمک میں ڈوبا ہوا ہے، جسکی بنا پر لوگوں کی محبت کا معیار دنیا ہی ہے؛ دنیا ہو تو محبت ؛ نہ ہو تو دشمنی روا رکھی جاتی ہے، اسی کی بنا پر لوگوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، اسی کو پانے کیلئے مقابلہ بازی کا سما ہے، اور اسی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔مسلم اقوام!اس فانی دنیا کے پیچھےشرعی قواعد و ضوابط کے بغیر پڑ جانا دین کیلئے انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ہی مسلمانوں کیلئے سنگین بحران ہے کہ مسلمان اس فانی دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں، اور اسی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، جس کو پانے کیلئے کسی اسلامی قانون و ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔جی ہاں! مسلمانو!ایک مسلمان کیلئے یہ بہت ہی بڑا فتنہ ہے کہ دنیا اسکا ہدف بن جائے، علم حاصل کرے تو صرف اسی کے لئے، کوشش کرے تو اسی کیلئے، اور اپنے وجود میں آنے کا مقصد ہی اس کو بنا لے،اللہ تعالی نے اس قسم کے لوگوں کو دھمکی دیتے ہوئے فرمایا: وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے[2] جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں [إبراهيم: 2، 3]، اسی طرح فرمایا: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔ [التغابن: 15]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خستہ حالی سے پناہ مانگی ہے، فرمایا: «اللهم لا تجعل مُصيبتَنا في ديننا، ولا تجعل الدنيا أكبر همِّنا، ولا مبلغَ علمِنا» یا اللہ دینی معاملات میں ہمارا امتحان مت لینا، یا اللہ دنیا ہمارا مقصد مت بنانا، اور نہ ہی ہمارے علم کا مقصد دنیا داری ہو۔مسلمانو!جس شخص نے دین کے مقابلے میں دنیا کی محبت کو غالب کیا، شہوت ِ نفس کو اپنے مولا کی اطاعت پرمقدم جانا، یقینا ایسا شخص شیطان کے پھندے میں پھنس چکا ہے، اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس سے دور رکھنے کیلئے فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں دھوکہ دینے پائے۔ [فاطر: 5]صحیح بخاری میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (درہم و دینار اور زرق برق لباس کا غلام تباہ و برباد ہو گیا، اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے)اللہ کے بندو!مادہ پرستی کے دور میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی کتنی ضرورت ہے!!، جہاں درہم ، و دینار کی پرستش کی جارہی ہے، جہاں کرسی، اور چودھراہٹ کا لوگوں پر کنٹرول ہے، ان تمام برائیوں نے شرعی طرزِ زندگی اور انصاف سے دور کردیا ہے۔اصلاح ِنفس کی کتنی ضرورت ہے!! خطرناک روحانی امراض کے علاج کیلئے قرآن و سنت سے راہنمائی لینا بہت ضروری ہو چکا ہے، اور علاج صِرف اور صِرف قرآن و سنت کی بیان کردہ اقدار پر عمل ، اور باری تعالی کی رضا سنتِ نبوی کے مطابق تلاش کرنے سے ہوگا۔مسلمان بھائیو!یہ آیت ذرہ غور سے سننا، اطاعت اور فرماں برادری کیلئے سننا، اللہ تعالی فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانویں سے غافل ہیں،[7] ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے [يونس: 7، 8]اب اس حدیث مبارکہ کو بھی سننا -اللہ آپ پر رحم کرے- ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، ہم دنیا داری کا ذکر کرتے ہوئے فقر و فاقہ کا اندیشہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تمہیں فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہیں دنیا چھپر پھاڑ کر دی جائے گی، اور اتنی دی جائے گی کہ تمہاری گمراہی کا سبب یہ ہی ہوگی) اور فرمایا: (اللہ کی قسم! میں تمہیں روزِ روشن کی مانند واضح شریعت پر چھوڑے جا رہا ہوں ، -جسکے - دن اور رات -واضح ہونے کے اعتبارسے- بالکل برابر ہیں)یہ عظیم حدیث ہے، دلائلِ نبوت میں سے ہے، جس میں ہماری موجودہ زبوں حالی کا درست انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے، اس حدیث میں حق سے دوری کے اسباب بیان کئے گئے ہیں، اور بتلایا گیا ہے کہ صراطِ مستقیم سے دور ہونے کا بنیادی سبب، اور فتنوں کا سب سے بڑا ذریعہ: دلوں پر دنیا کا غلبہ، اور اسکی فانی شہوات میں ڈوب جانا ہے۔اگر انسانی دل ایمانی حقائق اور اسلامی اخلاق سے عاری ہو کر اس دنیا کی لذت میں گرفتار ہوجائے؛ تو یہ انسان کو ہر بُری سے بُری عادت اور کام پر آمادہ کر دیتی ہے، ذرا غور کریں! جو شخص زکاۃ نہیں دیتا اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا مال و دولت کی حرص نہیں!؟جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا ہے؛ کیا وجہ؟ کیا فانی دنیا کی محبت نہیں!؟ جھوٹ، دھوکہ ، فراڈ، اور حسد کی کیا وجہ ہے؟ کیااس فانی دنیا کاتسلط نہیں!؟چنانچہ ان باتوں سے پتا چلتا ہےکہ ، دنیا سے محبت کرناہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، دنیا سے محبت اسلامی احکامات کی پابندی کے بغیر کرنا تمام گناہوں کا بنیادی سبب ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے جس کا تم پر زیادہ اندیشہ ہے وہ اللہ کی جانب سے تمہارے لئے نکلنے والی زمین کی برکت ہے) کہا گیا: زمین کی برکت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (دنیاوی آسائش)مسلمانو!کیا اب بھی ہم نہیں سمجھیں گے؟ کیا اب بھی ہم اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر نہیں کرینگے!؟ کہ یہ تکالیف سے گھِرا ہوا ٹھکانہ نہیں ہے!؟ جہاں برائیوں کی بھرمار ہے، اور خوف و خطر سے بھر پور ہے، کوئی عقل مند ہے !! جو اس فانی دنیا میں مشغول ہو کر ہمیشہ کی زندگی سے غافل ہوجائے!؟کیا یہ بات مُمَس نہیں کہ ہر مخلوق نے لازمی طور پر فنا ہونا ہے!؟ کبھی سوچا نہیں کہ دنیا تو بالکل سائے کی طرح ہے، ایک لمحہ کیلئے سایہ آتا ہے اور پھر اسکا زوال بھی شروع ہو جاتاہے۔ اللہ تعالی نے اسی لئے فرمایا: وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے [آل عمران: 185]اللہ کی قسم! جو بھی اللہ کے احکامات سے روگردانی کرے، اور ممنوعہ کاموں میں ڈوب جائے، یا امتِ اسلامیہ دینی منہج سے دور ہو جائے، اسکا نتیجہ بہت ہی بھیانک اور ندامت خیز ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ نے بہت دنیا جمع کی، اس دوران حلال و حرام کی بالکل تمیز نہ کی جو دل چاہتا کر گزرتا، چنانچہ جب موت کا وقت قریب آیا تو یاد کرنے لگا کہ دنیا میں کس انداز سے زندگی گزاری، اور اب آخرت میں اسکا کیا بنے گا!؟ اور کہا: کاش کہ میں بادشاہ نہ ہوتا؛ میں مزدور ہوتا، یا بکریوں کا چرواہا ہوتا۔امت مسلمہ! اپنے دین کا سودا دنیا سے مت کرنا چاہے کتنا ہی زیادہ ظاہری منافع کیوں نہ ہو، اگر اس پر کار بند ہو جاؤ گے تو ترقی، عزت، امن و سلامتی ہوگی۔جس کو دنیا نے اندھا کردیا دنیا ہی اسکے لئے پہلی ترجیح بن گئی، پھر اس کیلئے معصوم لوگوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا، عزتیں لوٹ لیں، مال و دولت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا، سن لے!!! تم نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، جبارِ اکبر کی نافرمانی کی، اپنے رب کو نگہبان مان لے، سیدھے راستے پر آجا اور اپنا انجام سوچ کر نصیحت حاصل کرلے۔جس کو دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے، جس کی بنا پر حلال و حرام میں تمیز کیلئے بغیر اسے جمع کرنے پر تُلا ہوا ہے، سن لے!!! وقت ختم ہونے سے پہلے اللہ سے ڈر جا، ایک دن اہل و عیال ، مال و متاع اور اس سر زمین کو چھوڑ جانا ہے۔سودی کاروبار کرنے والو! مسلمانوں میں سود پھیلانے والو! اللہ کا خوف دل میں بیٹھاؤ، اللہ کی ناراضگی مول مت لو، اسکی پکڑ بڑی سخت ہے۔مسلم معاشرے میں بے حیائی اور گندگی پھیلانے والےمسلمان نوجوانو! اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگ لو، اللہ کے اس فرمان کو ذہن نشین کرلو: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ [النور: 19]حیا باختہ چینلز چلانے والو! کیا ابھی تک تمہاری توبہ کا وقت نہیں آیا ، جبکہ ہر طرف سے مسلمانوں کو فتنوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، کیا تمہیں اللہ کی فوراً پکڑ سے ڈر نہیں لگتا!؟ یا آخرت میں بھیانک نتائج کا خوف نہیں ہے!؟ قیامت کے دن ندامت کا وقت نہیں ہوگا۔جبکہ اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، اور فساد پھیلایا، کہا: فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا یا [13] بلاشبہ آپ کا پروردگار توگھات میں ہے [الفجر: 13، 14]جو نفسِ امارہ کے پیچھے لگ کر؛ اپنی نوکری کو کمائی کا ذریعہ بنا کر رشوت خوری کر رہا ہے، سن لے!! ان مجرمانہ کاموں پر اللہ کی لعنت ہے، یہ بھی سن لے!! رشوت خوری رسوائی اور بدنامی کے ساتھ جہنم میں لے جانے والی ہے ۔مفادِ عامہ کے پراجیکٹس پر کام کرنے والو، سن لو!! اگر دھوکہ دہی اور کرپشن کے ذریعہ دنیا جہان کی دولت بھی اکٹھی کر لو، تمہارے حصے میں وہی آئے گا جو تم کھا ، پی لو، اور پہن لو، یہ بھی سن لو!! اللہ تعالی تمہارے خلاف موقعہ کی تلاش میں ہے، عین ممکن ہے کہ تمہیں جلد سزا دے دی جائے، اور آخرت میں تو ان کیلئے سنگین قسم کے عذاب تو ہیں ہی، جبکہ تمام مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی تو بہت ہی بڑا اور سنگین جرم ہے، جیسے کہ قرآن و سنت کے بہت سے دلائل اس بارے میں موجود ہیں، کچھ لوگ اسکو معمولی سمجھتے ہیں؛ کہ میرے اوپر تو کوئی نگران نہیں ہے میں جیسے چاہوں کروں ، ایسا شخص مخلوق کی نگرانی کو اہمیت دیتے ہوئے، خالق کو بھول جاتا ہے، کہ وہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔مسلمانوں کے قومی خزانے کولوٹنے والو!!آخرت کو بھی یاد کرو، سن لو!! اس فانی دنیا کو ایک دن چھوڑ جانا ہے، ہمیشہ کی زندگی کیلئے یہاں سے جانا ہے، ذرا سوچو!! الملک الجبار کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ذہن میں لاؤ، جب تم سے قبر میں سوالات کئے جائیں گے، ذرا تصور کرو!! جب اگلی پچھلی تمام نسلیں قیامت کے دن تیرے خلاف دعویدار ہونگی، کیا کرو گے اس وقت؟؟ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسم کا کوئی بھی حصہ حرام کمائی سے پرورش پائے تووہ آگ کا زیادہ حقدار ہے، جو لوگ اللہ کے مال کو ناحق کھاتے ہیں قیامت کے دن ان کیلئے آگ ہی ہوگی)سرکاری ملازمت کے گھمنڈ میں آکر ظلم کرنے والو! اپنی کرسی محفوظ بنانے کیلئے ظلم کرنے والو! اپنے مخالف کو سزائیں دینے والو! اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنے منصب کی بنا پر فائدہ پہنچانے والو!سن لو!!! یہ منصب عارضی ہے باقی نہیں رہتا کسی نے اسی کے بارے میں کہا:"إن الوظائف لا تدوم لواحد إن كنت تنكر ذا, فأين الأول؟"یہ مناصب کسی ایک کے پاس نہیں رہتے میری بات پر یقین نہیں تو بتاؤ تم سے پہلے جو اس منصب پر تھا وہ کہاں گیا؟وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے، عہدوں پر براجمان لوگو! خیانت مت کرنا، امانت کی مکمل پاسداری کرنا، قومی ملازمتیں مسلمانوں کے مفادِ عامہ کیلئے بنائی جاتی ہیں، تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، خیال کرنا کہیں کسی کو دوسرے پر ترجیح مت دینا، یا اپنے مقام اور منصب کو ذاتی مفاد یا اقرباء پروری میں استعمال نہ کرنا۔نہایت امانت داری سے اپنی ذمہ داری نبھانا، کسی بھی کام یا قرار دادکو عادلانہ انداز میں پاس کرنا، یاد رکھنا!! باضابطہ طور پر تمہاری نگرانی اگرچہ کمزور انداز سے کی جائے ، لیکن اللہ تعالی کو تمہاری آنکھوں سے ہونے والی خیانت کے ساتھ ساتھ دلوں میں چھپی باتوں کا بھی علم ہے۔ بدترین شخص وہ ہے جو کسی کی دنیا بناتے ہوئے اپنا دین برباد کر دے، اور اللہ کے ہاں وہی تباہ و برباد ہو گا جو خو د اپنے آپ کو ہلاک کرے،فرمانِ نبوی -صلی اللہ علیہ وسلم-ہے: (سبھی لوگ صبح کو نکلتے ہیں ؛ کچھ اپنے آپ کو بیچ ڈالنے کے بعد آزاد کروا لیتے ہیں اور کچھ ہلاک کر دیتے ہیں) مسلماسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔دوسرا خطبہاحسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، ان پر درود و سلام ہوں ۔حمد و صلاۃ کے بعد!اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو یہ ہی اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو وصیت کی ہے۔مسلمانو!ابدی کامیابی کا معیار : دینی احکامات کی پاسداری ، اور شرعی قواعد و ضوابط اور سنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارنا ہے، جو شخص بھی اس راستے سے ہٹ گیا ؛ اسکے لئے قیامت کے دن عذاب ہی ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے: فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى سو جس نے سرکشی کی[37] اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی[38] تو جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہوگا[39] لیکن جو اپنے پروردگار کے حضور (جوابدہی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے آپ کو خواہش نفس سے روکے رکھا[40] تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگا [النازعات: 37- 41]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ پر ، اورتمام صحابہ کرام پر ۔(دعا)یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا للہ تمام مسلمانوں کی تکالیف کو دور فرما۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں میں امن و امان پیدا فرما، یا اللہ اکرم المکرمین! ان علاقوں کو امن وسلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہم سے اور تمام مؤمنین سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما، یا اللہ ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما، یا اللہ ! ہمارا ہدف دنیا نہ بنا، یا اللہ ہمارے علم کامقصد دنیا نہ ہو، یا اللہ دینداری میں ہماری آزمائش مت کرنا۔یا اللہ ! ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، ان سے تکالیف کے بادل چھٹ دے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! انکے لئے امن و امان قائم فرما۔یا اللہ! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! ظالموں اپنی پکڑ میں لےلے، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما، یا اللہ ذو الجلال و الاکرام! مسلمانو سے ظلم ختم کرنے کے احکامات صادر فرما۔یا اللہ! ہمارے خادم الحرمین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اُنکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے۔یا اللہ ہمارے ملک اور تمام مسلمانوں کے علاقوں کو امن و سلامتی والا بنا دے۔یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچا۔یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ! تو ں ہی غنی ہے، یا اللہ !ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ !ہمیں پانی پلا، یا اللہ ذوالجلال و الاکرام! ہمیں پانی پلا۔اللہ کے بندو!اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔
Monday, 11 December 2023
آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔سپرمز مرد کی منی میں پائے جانے والے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں جو مباشرت کے دوران عورت کی اندام نہانی میں داخل ہو کر افزائشِ نسل کا باعث بنتے ہیں۔ ایک دفعہ کی اخراجِ منی میں کروڑوں کی تعداد میں سپرمز پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک یا دو ہی عورت کی بچہ دانی میں داخل ہو پاتے ہیں۔ افزائشِ نسل کے ساتھ ساتھ سپرمز کے اور بھی کئی کام ہیں۔ آئیں ہم آپ کو سپرمز کی نوعیت اور ان کے کارکردگی کے متعلق دلچسپ حقائق سے آگاہ کریں۔1- خوراک اور سپرمزآپ جو خوراک کھاتے ہیں اس کا آپ کے سپرمز سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اچھی اور متوازن غذا صحت مند سپرمز بناتی ہے، اور باقص اور نقصان دہ غذائیں جیسا کہ چیز، الکوحل، چکنائی اور سگریٹ وغیرہ کمزور اور بیمار سپرمز پیدا کرتی ہیں۔2- موٹاپا اور سپرمزموٹاپا آپ کے سپرمز کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ موٹے ہیں اور آپ کے جسم پہ ضرورت سے زائد چربی ہے تو آپ کے سپرمز کی تعداد کم اور ان کی صحت خراب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا اپنا وزن کم کریں اور اپنا بی-ایم-آئی 25 سے بڑھنے نہ دیں۔3- سپرمز کی زندگیمباشرت کے بعد عورت کی اندام نہانی میں جانے والے سپرمز 5 دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس دوران اگر عورت کی بچہ دانی سے نکلنے والا انڈہ ان سپرمز سے مل جائے تو عورت حاملہ ہو جاتی ہے، ورنہ اس کے بعد سپرمز مر جاتے ہیں اور اندام نہانی سے خارج ہو جاتے ہیں۔4- سپرمز کی تعدادایک دفعہ کی اخراجِ منی میں تقریبا 20 کروڑ سپرمز ہوتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف دوربین سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سپرمز کی تعداد مختلف مردوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ اس میں عمر اور خوارک کا بڑا کردار ہے۔5- سپرمز کی جنسسپرمز کی بھی جنس ہوتی ہے۔ سپرمز دو اجناس کے ہوتے ہیں، ایکس اور وائے۔ عورت کے اندر صرف ایکس سپرمز پائے جاتے ہیں جبکہ مرد میں ایکس اور وائے دونوں ہوتے ہیں۔ ایک مرد کا ایکس عورت کے اندر جائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے اور اگر وائے جائے تو لڑکا۔جس سے یہ بات میڈیکلی بھی پروف ہوتی ہے کہ لڑکی یا لڑکا پیدا ہونے کا دارومدار مرد پر ہوتا ہے۔
جنات کا خوفقرآن کریم میں ایک پوری سورت ”سورہ جن“ جنات کے متعلق انفارمیشن کے لئے موجود ہے، جس کو پڑھنا، سمجھنا و سمجھانا ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔ دوسرا اسی قرآن کے فرمان میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت جنوں پر تھی اور جنوں سے ہی انہوں نے عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں جیسا کہ صحیح بخاری 3423 Q میں بھی ذکر ہے۔جن کا لغوی معنی "چھپی ہوئی مخلوق"۔ اسلامی عقیدے کے مطابق جن کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔سورہ الذاریات 56: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں۔الانعام 130: اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے۔الاعراف 27: بے شک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔الرحمن 14 - 15: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔صَلْصَالٍ‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ”ٹھیکری“ کہتے ہیں۔ مَّارِجٍ سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے آدم کو ابوالآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ”مارج“ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔“ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر)الحجر 26 - 27: اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔ اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔الحجر 65: اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا۔الرحمن 15: اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔جنوں کی طاقت: ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل 39 - 40)صحیح مسلم 2294: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے۔صحیح مسلم 2814: تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔صحیح بخاری 3431: ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔“ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔مختلف شکلیں: بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہو گا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (ابی داؤد: 5256) (ابی داؤد: 5257)صحیح بخاری 3316: پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔جنوں کی خوراک: علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود سے کہا: کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کر لیا گیا ہے یا (جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیا کیا گیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لا رہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکرو تشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا“، ابن مسعود کہتے ہیں: ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اور ہمیں ان کے آثار (نشانات و ثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا: ”ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے“، پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: ”(اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں“۔(سنن ترمذی کتاب: تفسیر قرآن کریم باب 46: سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔)صحیح بخاری 3860: سیدنا ابوہریرہ نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا، تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ ﷺ کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی ﷺ نے ان کے لیے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لیے ہے ۔جنوں کے جانور: عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا لیلۃ الجن کو سیدنا ابن مسعود، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (یعنی جس رات آپ ﷺ نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا: نہیں لیکن ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ گم ہو گئے۔ ہم نے آپ ﷺ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت بُرے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ ﷺ حرا (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے بیچ میں ہے) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! رات کو آپ ہم کو نہ ملے۔ ہم نے تلاش کیا جب بھی نہ پایا۔ آخر ہم نے بُرے طور سے رات کاٹی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے جنوں کی طرف سے ایک ہلانے والا آیا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔“ پھر ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے، جنوں نے آپ ﷺ سے توشہ چاہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ (مسلم 1007)جنات کے رہنے کی جگہیں: اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ اسی لیے نبی ﷺ نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں۔صحیح بخاری 142: نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے”اللهم اٍني اعوذ بک من الخبث والخبائث" ترجمہ: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ابو داود 29: رسول اللہ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت (گھر) ہے۔ترمذی 606: جب انسان بیت الخلا جاتا ہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا۔سورہ الانعام رَبَّنَا اسْتَمْعَعَ بَعضُنَا بِبَعْضِ’’جن کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جنوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر جن کو کنٹرول میں کرنے کا ذکر نہیں ہے۔حدیث کی روشنی میں ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو تو انسان جنات پر قابو پا سکتا ہے۔صحیح بخاری 3423: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔جنات سے تکالیف: انسانوں کو جنوں اور شیاطین جو کہ جنات کی ہی ایک قسم ہیں کا اذیت پہنچانا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الناس میں خود ہمیں جنات سے پناہ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنات بیرونی سازشیں کر کے ہی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں یا اندرانی طور پر بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل ہے:سورہ بقرہ 275: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔امام قرطبی فرماتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے، نہ لگ سکتاہے۔ (تفسیر قرطبی 3/255)صحیح مسلم 7108: تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔"ابن ماجہ 3548: سیدنا عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔ابو داود 3592: سیدنا معاذ بن جبل کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے“۔نسائی 5535: ابوالاسود سلمی (ابوالیسر) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الهدم وأعوذ بك من التردي وأعوذ بك من الغرق والحريق وأعوذ بك أن يتخبطني الشيطان عند الموت وأعوذ بك أن أموت في سبيلك مدبرا وأعوذ بك أن أموت لديغا» ”اے اللہ! میں (دیوار کے نیچے) دب جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اونچائی سے گر پڑنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ڈوب جانے اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان موت کے وقت مجھے بہکا دے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت تیرے راستہ میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے آئے، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈس لینے سے میری موت ہو“۔صحیح مسلم 7491: جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“ (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔جنات و جادو کا علاجصحیح بخاری 5737: چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کر لینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔صحیح بخاری 5763: نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادو کیا۔ آپ ﷺ پر جادو کا اثر ہوا کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریم ﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا۔2۔ ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ " تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ (مسند احمد 15035)صحیح بخاری 5445 نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا۔صحیح بخاری 2311: سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔اس کے علاوہ یہی حدیث اس بات پر دلالت بھی کرتی ہے جن و شیاطین انسانی شکل میں ظاہر ہونے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل حدیث جادو کا توڑ اور علاج کرنے پر دلالت کرتی ہے۔صحیح بخاری 5765: قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔آخری بات: بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ (النخل 99 - 100)سب سے سخت ترین جادو تھا جو نبی کریم ﷺ پر کیا گیا۔ کالے جادو کی خطرناک ترین قسم ، اس کو بارہ گرہی جادو کہتے ہیں۔ اس نے گیارہ یا بارہ گرہیں لگائی ہوئی تھیں جادو کرکرکے۔ تو یہی دو سورتیں نبی کریم ﷺ نے پڑھیں اور جادو کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ جادو ختم ہوگیا۔ جس پر جادو ہوجائے وہ سورۃ بقرہ کی گھر میں تلاوت کرے۔ روزانہ ایک مرتبہ پوری سورہ بقرہ پڑھے۔ گھر میں سے ہر قسم کی جاندار کی تصویر کو ختم کردے۔ میوزک کی آواز نہ آئے گھر میں، گانے بجانے کی۔ گھر میں نمازوں کا اہتمام ہو، خواتین پردہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار ہوجائیں۔ اور جو طریقہ کار نبی کریم ﷺ نے دیا ہے وہ اپنا لیں۔ جادو ختم ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے وقت تھوڑا سا طویل ہوجائے۔ مہینہ، دو مہینے، چھ مہینے ، سال تک چلتا رہے۔ ممکن ہے لیکن جوایک بہت بڑا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا لیکن یہ آزمائش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)