Tuesday, 22 August 2023
پشتون اپنے اوپر ظلم اور جبر کا زمہ دار خودتحریر: شہناز گُلدی بلوچستان پوسٹپاکستان کو بنگالیوں نے بنایا، 1905 کو بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام ہوا جو انگریز سرکار نے صرف ہندوستان کی قوم پرست جماعت کانگریس کے خلاف استمعال کرنا تھا تاکہ انگریزوں اپنے فارمولا ڈیوائیڈ اینڈ رول کے سہارے ہندوستان میں حکمرانی کر سکے۔ انگریزوں نے صرف کانگریسی لیڈروں اور ورکروں کو جیل میں سزائیں اور پھانسیاں دی ہیں جو ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ نکوبار آئیلنڈ میں سیلولر جیل(کالا پانی) میں قیدی صرف کانگریسی رہنما اور ورکر تھے نہ کہ مسلم لیگی۔ کیا انگریزوں نے کوئی پنجابی مسلمان کو پھانسی دی ہے کہ تم کیوں پاکستان کی مانگ رہے ہو؟ جی نہیں! کیا کوئی بلوچ اور سندھی کو پھانسی دی کہ کیوں ہندوستان کی آزادی یا پاکستان مانگ رہے ہو؟ جی نہیں۔ہم پشتون قوم پرست تو شروع ہی سے پاکستان کے بننے کے خلاف تھے، ہمارا اپنا آزاد پشتونستان کی سر زمین تھی جو افغانستان کا حصہ تھا۔ ہم اپنے وطن لوی افغانستان کے تھے، پشاور سے اٹک تک لوی افغانستان تھا انگریز سر ڈورینڈ نے ہمیں تقسیم کیا۔ ہمارا تو ایک آزاد وطن تھا تو ہمیں کیوں پاکستان چایے تھا؟ اور کیوں ہندوستان کی تقسیم چایتے جہاں وہیں کے مسلمانوں نے پہلے گیارہ سو سال بادشاہی جو کی تھی؟بلوچستان کو تو بعد میں 1948 میں زبردستی قبضہ کرکے شامل کیا گیا۔ آدھا پنجاب بھی ہندوستان میں رہ گیا۔ مطلب کہ آج کے پاکستان میں نہ بلوچ اور پشتون پاکستان کے بنانے میں شامل تھے اور نہ ہی سندھی اور پنجابی! بس انگریزوں نے کُچھ بُزدل لوگوں کے لئے پاکستان بنایا جو بعد میں بھاگ کر ادھر کراچی میں آئے اور بولتے ہیں کہ ہم نے قربانی دی، قربانی تو آزادی سے پہلے دی جاتی ہے۔ جب انگریزوں نے اپنے فائدے کیلئے پاکستان بنایا تو بعد میں بھاگنے کا نام کیسے قربانی؟اگر تاریخ کو پڑھا جائے تو پتا چلے گا کہ پاکستان کو بنگالیوں نے بنایا اور انہی بنگالیوں نے دیکھا کہ ہمارا ہی بنایا گیا مُلک ہمارے عورتوں کا ریپ، بچوں، طالب علموں اور رہنماوں کا قتل عام اور شہریں تباہ کر رہاہے تو بنگالیوں نے یک سال کے اندر اندر دل سے پاکستان کی محبت پھنک کر نفرت کو پالا اور اسی مُلک کو توڑ دیا۔ جب قوموں کو مشکل وقت آ جاتا ہے تو طالب علم، پروفیسر اور انقلابی لیڈر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، شھادت اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرتے بلکہ ان کو نفرت میں بدل دیتے ہیں اور اپنی قوم کو یک نظریہ اور سوچ کے مطابق آزادی کی منزل دیتے ہیں۔ تو بنگالی شیخ مجیب الرحمان جو ایک انتہائی پاکستان پرست تھا انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بنگالی قوم کو 1971 میں بنگلہ دیش کا تُخفہ دیا۔ مطلب وہی کیا جو ایک انقلابی لیڈر کرتا ہے۔یاد رہے اس وقت بھی بنگالی قوم میں جماعت اسلامی کے الشمس، البدر اور رضاکار جیسے غدار لوگ تھے جو اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو شھیدکر رہے تھے پر اُن گُل خانوں کو شکست ہوئی جو بعد میں انقلابیوں نے چُن چُن کر مارا۔اسی طرع 1947 والا انگریزوں کا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا اور دو قومی نظریہ گیا بھاڑ میں۔ اس پاکستان کی وجہ سے برصیغر کے مسلمان تقسم اور کمزور پڑ گئے۔ آج پاکستان کی اکونومی 210 بلین ڈالر ہے تو بنگلہ دیش کی 324 بلین۔ پاکستان کے فارن ریزرو 4 بلین ڈالر تو بنگلادیش کے فارن ریزرو 60 بلین ڈالر ہیں۔ پاکستان کی جی ڈی پی پر کیپیٹا 990 ہے تو بنگلہ دیش کا 2300 جی ڈی پی پر کپیٹا ہے مطلب آج بنگالی پاکستانیوں سے تین گُناہ خوشحال ہیں۔1973 میں جب بلوچ اور پشتون اپنے وطن کی آزادی کیلئے پنجابی کے خلاف لڑنے لگے تو مذہب کو استمعال کرکے پشتونوں کو گمراہ کیا گیا بعد میں 1980 کی دھائی میں جہاد کے نعرے لگے جس سے صرف ڈورائینڈ لائین کے دونوں طرف پشتون قوم تباہ ہوئی۔ چالیس سال سے پشتونوں کا قتل عام اور بربادی ہو رہی ہے اور جس بدنام جہاد کیلئے جو ڈالر اور سعودی ریال آئے وہ سارے پنجابی جنرل کھاگئے اور تباہی اور مرنے والے صرف پشتون۔ قدوس بزنجو اور بُہت سارے علاقائی سردار ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے بلوچوں کو گمراھی میں لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہاں خیر بخش مری، نواب بُگٹی، اللہ نظر، اسلم بلوچ، میر بنگُلزئی، بشیر زیب اور کافی نوجوان لیڈر ہیں جن لوگوں نے بلوچ قوم کو آزاد بلوچستان کی راہ دی ہے۔بلوچستان کے لوگ اپنے شھادت اور قربانیوں کو آزادی کی کِرن سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہاں پاکستان پشتون فوجیوں کو بلوچ آزادی پسند سرمچاروں کے خلاف استمعال کرتا ہے۔ اس پر ہمیں بے حد دُکھ ہے۔ دوسری طرف ہمارے محمود اچکزی، محسن داوڑ، ایمل ولی اور مذہبی پشتون لیڈر مُنافق اور بُزدل ہیں جو آزاد پشتونستان کی بات نہیں کرتے بس قوم کو مزید تباھی کی طرف لے جارہے ہیں۔
بلوچستان کے ایک پشتون مجاہد پالے شاہ خوستی کے سوا بلوچستان کے تقریباً تمام پشتون مشران انگریز کے وفادار رہے ماسوائے چند ایک کہ جن میں قابل ذکر نام عبدالصمد خان اچکزئی، ملک عبدالعلی کاکڑ اور ان کے چند رفقا کا تھا جو ایک آزادی پسند سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ تھے اور ماسوائے کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار میں آباد بازئی نوجوان انگریز راج کے ِخلاف چند کاروائیوں کے بعد زیر حراست آگئے اور کچھ شہید ہوگئے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچ اکثریتی بیلٹ میں خونریز مزاحمت اپنے عروج پر رہی بلوچستان کے تخت نشین والئیے ریاستِ قلات خان محراب خان انگریز فوج کو للکارنے والے اور 400 ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرنے والے پہلے بلوچ قبائلی رہنما تھے۔ پورے کالونیل دور میں انگریز کو بلوچستان کے بلوچ قبائلی علاقے میں چھاپہ مار کاروائیوں سے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ باجوڑ سے ٹرانسفر ہونے والا برطانوی جنرل ڈیوس جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور تھا کوہلو میں بلوچ آزادی پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا جس کے نتیجے میں قلات، کوہلو بارکھان اور وڈھ میں برطانوی راج کی جانب سے بلوچ حریت پسندوں کے خلاف بڑے حملے کئیے گئے۔ ان حملوں میں میروانی اور ساسولی قبیلے کے نامور بلوچ سردار بھی شہید ہوئے اور خان آف قلات کے قریبی عزیز میر شکر خان بھی داد شجاعت وصول کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ قلات آپریشن کے بعد رابرٹ سنڈیمن نے باوجہِ خوف کوئٹہ سے بھاگ کر پشین جانے کو ترجیح دی اور وہیں سکونت اختیار کی۔ فرنگی خود کو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ مری کے علاقے میں حق نواز مری اور شاہ نواز مری جو حقو اور شاہو کے نام سے مشہور تھے انہوں نے برٹش انڈین آرمی کا جینا حرام کر رکھا تھا اور بارکھان میں فقیر کالے خان بجرانی مری نے انگریز کے پاوں جمنے نہیں دئیے، کالے خان کی سر کی قیمت تاجِ برطانیہ کی طرف سے تمام برضغیر کے مطلوب ترین باغیوں میں سب زیادہ مقرر کی گئی تھی۔ نورا مینگل اور میر شہباز گرگناڑی نے جھالاوان کے قبائلی علاقے میں گوریلا کمانڈ سنبھال رکھی تھی جبکہ گوریلا قائد شاہداد بنگلزئی "دینار زئی" اور ولی محمد شاہوانی "سوری زئی" جیسے کئی ایک حریت پسندوں نے سراوان کے قبائلی علاقے اور چلتن کے پہاڑی سلسلے سے لے کر کوئٹہ شہر کے گردونواح میں برطانوی فوج کا جینا محال کر رکھا تھا جبکہ خاران میں چھاپہ مار سجاول محمد حسنی انگریز کے دانت کھٹے کر رہا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے دشت و جبل میں فرنگی کے خلاف میدانِ رزم کی گرم بازاریاں کم و بیش یا زیادہ تر غیور بلوچ قبائل کے حصے میں ہی آئیں۔ درگئی اور شمالی وزیرستان کے بعد سب سے زیادہ مزاحمت اور حزیمت کا سامنا برطانوی راج کو بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں کرنا پڑا۔*کلیم امام کی کتاب ”بلوچستان ماضی حال اور متقبل“ سے اقتباس*
Subscribe to:
Posts (Atom)