Tuesday, 13 August 2024
ڈاکٹر حاملہ خواتین کو بہت زیادہ کشتے کھلارہے ہيں ۔ ca اور آئرن کے suppliments کو حکمت میں کشتہ کہتے ھیں ان سے بچیں...جس نے بھی یہ تحریر لکھی ھے اس نے حقائق لکھے ہیں اکثر حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کو شدید مسائل کا شکار ہوتے دیکھا ھے اس تحریر میں اس کی وجوہات واضح تور پر بیان کر دی گئی ہیں*_عورت بچاؤ مہم_* ایک دوست کا سوالآج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ھوتی ہیں ۔ حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال طبی ، سہولیات میسر ہیں ۔۔۔جب کسی خاتون کو امید ھوتی ھے تو وہ فورا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ھے🧬 نو ماہ اس کے زیر نگرانی باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیںاس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں ۔۔۔مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ھے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ھوتا ۔۔؟؟نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے ۔۔۔اورvenofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجود ۔۔۔۔ڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ھو جاتی ھے۔۔۔؟؟میرے عزیزو !اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ھے کہ ۔۔ڈیلیوری نارمل نہ ھونے کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔ مسکولر ٹشوز کا سخت ھوناھےاور رطوبت تلیہ۔Lyphatic liquids کا کم ھونا ھےیاد رکھیںعورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ھو گی بچہ کے اتنے ہی چانسز نارمل کے ھوں گےاور جتنے سخت ھوں گے اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ھو گامندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت تلیہlympatic liquids بھی کم ھو جاتی ھیںجو لبریکیشن کا کام کرتی ھیں فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلے گٸے تو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سےہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ھے ۔۔قطع نظر اس کے کہبہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں ،ہسپتال ہیں ۔۔۔مہنگے ڈاکٹرز ہیں ۔۔مہنگی ادویات اور مہنگے انجکشنز۔۔۔اٸیر کنڈیشنڈ کمرے۔۔۔یاد رکھیںیہ سب کچھ کبھی بھی فطرت کا متبادل نہیں ھو سکتے۔۔۔ پیسے کا لالچ اور ہوس اور انسانیت سے دوری۔۔۔۔مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ھونا دوسری بڑی وجہ ھے۔۔۔ عورتوں کا سہل پسند ھونا اور یہ تصور کہ حمل ھو جانے کے بعد کام نہیں کرناسارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا آخری مہینوں میں کی جاٸےیا گھر کے کام کاج کیے جاٸیں ۔۔جیسے جھاڑو دینا ۔۔۔ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گیجس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔🧬خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گےتو یہ لوہا ھونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت کرے گا کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ھے جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ھو گا ۔۔۔اس کی جگہ اگر کالے چنےمربہ ھڑڑمربہ املہمربہ بہی سیب پالکساگ کلیجیدودھ انڈا شھد گھیمنقیآڑو لونگدارچینیبادامزعفران کا استعال کیا جاٸے تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگااور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ھونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ھو ں گے خوبصورت بچے پیدا ھوں گے ۔۔اور گارنٹی سے کہتا ھوں لکھ کر دینے کو تیار ھوں بچہ بھی خوبصوت پیدا ھو گا ۔ دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں ۔۔ نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت۔۔۔۔۔تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت ۔۔ہڈیاں بھی سخت ۔۔اسی لیے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ھے کہبچے کا سر بڑھا ھوا ھےماں کی ہڈی بڑھی ھوٸی ھے اپریشن ہی ھو گا۔۔۔بھاٸی نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ھے کیونکہ اس سے کماٸی زیادہ ھے آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں نارمل سے کیا ملنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔اگر قدرتی کیلشیمدودھدھی انڈےگھیکھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ھوں کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتیں مگر۔۔بڑھتی نہ۔۔سخت نہ ھوتیںہاں !!! دکان کی سیل کم ضرور ھو جاتی کمیشن ضرور کم ھو جاتا۔۔۔سٹور کی سیل کم ھو جاتیآپس میں لڑاٸی پڑ جاتی بنک بیلنس کم ھو جاتا ۔آمدنی کم ھونے کی وجہ سے۔۔۔کیونکہ عملی طور پر ہمارا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ھےتقریروں اور گفتگو میں 1000 فی صد ھے۔۔۔ڈیلوری نارمل نہ ھونے کی ایک بڑی وجہ ۔۔۔جیسا کہ میں نے بتایا ھے ہڈیوں کا سخت ھونا ۔۔مسکولر ٹشوز کا سخت ھو کر ان میں لچک کا کم ھونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ھونا ھےجو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں ۔۔۔ان سب کے لیے آخری ماہ۔۔ صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری ماٸیں استعمال کرتی آ رہی تھیںایک تو جسمانی مشقت اور ورزش تھیںپاؤں کے بل۔۔۔۔تو دوسری اھم چیز دیسی گھی ۔چھواروں زعفران کا استعمال تھا ۔۔دودھ میں ڈال کر۔۔۔جس میں فولادکیلشیمگندھکیعنی حرارتوافر مقدار میں موجود ھوتی ہیں ۔۔اس کا چھوڑ دینا ۔۔۔اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رھنا اور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانا اور venifer کے انجکشن لگوانا ھے۔۔۔ پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ھوتا ھے ۔۔اللہ کی پناہایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔۔جسم دکھایا جاتا ھے ۔۔چوڑے چمار تک جملے کستے ہیں ۔۔ ۔۔سلفی بناٸی جارہی ھوتی ہیں..*استغفراللہ۔۔۔۔۔۔۔*پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ ۔۔نارمل کیسز کو کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ھے۔۔۔ ایک اور ظلم جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ھوں ۔۔۔کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ھوتا ھے تو اسکا درجہ حرارت ٧٠ سے ٩٠ تک ھوتا ھے ۔۔۔لیبر روم میں اٸیر کنڈیشن ھونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں ۔۔۔یہ ساٸنس کا اصول ھےکہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرار ت سے پھیلتی ہیں۔۔۔۔کمرے میں ١٦ درجہ کا ٹمپریچر ھونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا ؟؟یقینا سکڑے گا تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ھو گی یا رکاوٹ؟؟یقینی جواب ھے رکاوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی ۔۔۔۔لہذا مریض جاٸے بھاڑ میں یا موت کے منہ ۔آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتیڈاکٹر ھو کر اس کی ناک پر پسینہ آجائے ۔۔اتنا بڑا ظلم ۔۔۔حد تو یہ ھے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہیںلیبر روم کا صفاٸی والا عملہ اس کا نخرہاور اس کا رعباللہ کی پناہ ۔۔۔وہ آسمان پہ ھوتا ھے۔۔۔مگر سلام ھے ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینوں پیسنی ھو کر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں گھر میں ہی۔۔۔۔ اسی سلسلے میں ایک اور مسٸلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور incobeter میں ڈالنا۔۔۔۔۔پیارے بھاٸی !جب بچہ یک دم تقریبا ٨٠ ۔۔٩٠ کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پے آئے گا تو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ھو گا۔۔؟ پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی کے باوجود لگاٸے جاتے ہیں ۔۔ جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت بھگتنا پڑتی ھے وہ ایک الگ کہانی ھے۔۔۔ پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جاٸے ۔۔۔ظلم پہ ظلم ۔۔۔ڈاکے پہ ڈاکہ ۔۔۔اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروںکہ پھل جب پکتا ھے تو خود بخود نیچے گرتا ھے۔۔دردیں قدرتی اور فطری ھونی چاہیے ۔یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ھے دشمن نہیںمصنوعی دردیں کہ ۔۔گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جاٸے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گےتو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ھے پھر نتاٸج تو بھگتنا پڑیں گے ۔۔۔۔۔سزا تو ضرور ملے گی فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔۔۔ پھر یاد رکھ لیںبچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں ۔۔۔وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیںکیو نکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ھوتا ھے جس سے وہ انیمیا کا شکار ھو جاتے ہیں ۔ ۔۔ *المختصر* ۔۔۔۔فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزا زیادہ ملے گیاس موضوع پر بہت کچھ ھے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ھو دکانداروں کو۔۔۔لیکن میرے پیارے بھاٸیو!یہ ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کی زندگیوں کا مسٸلہ ھےاس کو اتنا like .اور share کیجیے comment کیجیے کہ یہ*عورت بچاو مہم* بن جاٸے ۔۔۔اور حکمران scandanaviyan belt کی طرح سخت قوانین بنانے پر مجبور ھو جاٸیںسوشل میڈیا کی طاقت سے جہاں پر خاوند لیبر روم میں موجود ھوتا ھے۔۔۔ہمارے ہاں تو اس کی زیادہ ضرورت ھے ۔۔حتی المقدور نارمل کیس کی کوشش کی جاتی ھے آخری حد تک۔۔ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتامصنوعی دردوں کے انجکشن نہیں لگواٸے جاتے ۔۔بلکہ قدرتی دردوں کو برداشت کرنے کا کہا جاتا ھے ۔۔۔ھمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ۔۔*فرانس میں ھر حاملہ خاتون اور بچوں کو قانونا چنے روزانہ کھلاٸے جاتے ہیں* *فولاد کی کمی پوری کرنے کیلیے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ؟؟
Saturday, 10 August 2024
اسلام اور لونڈیاں ۔ ابویحییٰمجھ سے مختلف حوالوں سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں لونڈیوں کا کیا تصور ہے۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اگر ان کا ذکر آگیا ہے تو قرآن مجید کے احکام کی ابدی نوعیت کے پیش نظر ان سے تمتع کرنا (جنسی تعلق قائم کرنا) ابھی بھی جائز ہونا چاہیے۔ بلکہ عملی طور پر بہت سے لوگ آج بھی گھریلو خادماؤں سے یا بے سہارا لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ کر اسی بنیاد پر ان سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ لونڈیاں بھی منکوحہ بیویاں ہی ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ قران مجید کے کئی بیانات اس بات کی باصراحت نفی کرتے ہیں اس لیے یہ استدلال بالکلیہ رد کر دیا جاتا ہے۔ آج انشاء اللہ میں اسی نوعیت کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔دو قسم کے احکاماس معاملے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس حوالے سے بیان ہونے والے احکامات کی نوعیت کو درست طور پر سمجھا جاتا ہے نہ بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید میں مرد و زن کے تعلق کے حوالے سے دو طرح کے احکام پائے جاتے ہیں۔ ایک احکام وہ ہیں جو نزول قرآن کے وقت رائج حالات کے پس منظر میں ہیں۔ دوسرے احکام وہ ہیں جو بطور ابدی شریعت کے دیئے گئے ہیں۔پہلی قسم کے احکام وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں لونڈیوں کی موجودگی کے باوجود ان سے تمتع کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ نزول قرآن کے وقت گھر گھر لونڈیاں موجود تھیں۔ مگر اس کے باوجود قرآن مجید جب نازل ہوا تو اس نے لوگوں کو میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے سے نہیں روکا اور اس حوالے سے کوئی قانونی ممانعت ہمیں نظر نہیں آتی۔ ان قرآنی بیانات کی مثالیں درج ذیل ہیں۔مکی دور کی دو سورتوں (معارج ۳۰:۷۰، مومنون۶:۲۳) میں ارشاد ہوتا ہے۔’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں۔‘‘یہ اس ضمن کی صریح ترین آیت ہے کہ بیویوں کے علاوہ لونڈیوں سے تعلق قائم رکھنے کو قرآن نے اپنے نزول کے وقت ہرگز نہیں روکا تھا۔ یہی صورتحال ہجرت مدینہ کے بعد رہی۔ جنگ احد میں جب بہت سے مسلمانوں کی شہادت ہوگئی اور ہر دوسرے گھر میں بیواؤں اور یتیموں کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرآن مجید نے اس موقع پر عرب کے ایک اور رواج یعنی دوسری شادی کو بطور حل پیش کیا۔ مگر ایک سے زیادہ شادیوں میں یہ شرط لگا دی کہ چار سے زیادہ شادیاں نہ ہوں۔ ساتھ ہی تعدد ازواج کو عدل سے مشروط کر دیا۔ پھر فرمایا کہ اگر بیویوں میں عدل نہ کرسکو تو پھر ایک سے زیادہ بیوی نہیں کرسکتے، ہاں لونڈیوں سے تمتع البتہ جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر ڈر ہو کہ ان (بیویوں) کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو، یا پھر لونڈیاں جو تمھاری ملک میں ہوں‘‘،(النساء ۳:۴)پچھلی آیات کی طرح یہاں بھی بیوی کے ساتھ علیحدہ سے لونڈی کا ذکر یہ واضح کرتا ہے کہ جو لونڈیاں اس وقت موجود تھیں قرآن نے ان سے مقاربت کو جائز قرار دیا تھا اور بیویوں کی طرح اس کے لیے نکاح کے کسی تعلق کو لازم قرار نہیں دیا تھا۔اس ضمن میں قرآن مجید میں آخری آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہے جس میں آپ کو تعداد ازواج اور عدل کی مذکورہ بالا شرائط سے آزاد قرار دیا گیا ہے جن کی پابندی عام مسلمانوں کے لیے ضروری تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے پیغمبر ہم نے تمہارے لیے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیے ہیں حلال کر دی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو اللہ نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لیے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں فرض کیا ہے۔ (یہ) اس لیے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(اور تم کو یہ بھی اختیار ہے کہ) جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جس کو تم نے علیحدہ کر دیا ہو اگر اس کو پھر اپنے پاس طلب کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ (اجازت) اس لیے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمناک نہ ہوں اور جو کچھ تم ان کو دو اسے لے کر سب خوش رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے۔ اور اللہ جاننے والا اور بردبار ہے۔(اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہاری مملوکہ ہوں۔ اور اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے ۔‘‘، (الاحزاب ۵۲۔۵۰: ۳۳)اس آخری آیت میں جو پابندی لگائی ہے کہ اس متعین دائرے سے باہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی عورت حلال نہیں، اس میں بھی استثنا صرف لونڈیوں کا ہے کہ نکاح کے بغیر بھی آپ ان کو رکھ سکتے تھے۔ان احکام و بیانات میں یہ بات واضح ہے کہ لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت علی الاطلاق بغیر کسی نکاح کے معاہدے کے صرف اس دور کے رواج کی بنا پر دی گئی ہے جس کے تحت ایک مرد کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ محض حق ملکیت کی بنا پر لونڈی سے تعلق قائم کرے، جس طرح وہ نکاح کر کے ایک آزاد عورت سے تعلق قائم کرسکتا تھا۔ابدی احکاممرد و زن کے تعلق کے حوالے سے دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جو قرآن مجید کی ابدی شریعت کا حصہ ہیں۔ ان احکام میں قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ مرد و زن کس بنیاد پر باہمی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مقامات پر صرف نکاح کے رشتے کا ذکر کرکے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ صرف یہی وہ تعلق ہے جس کی بنیاد پر ایک مرد و عورت مقاربت کرسکتے ہیں۔ ان مقامات پر لونڈیوں کا ذکر کیا ہی نہیں گیا اور جہاں کیا گیا ہے وہاں یہ ذکر نکاح کے حوالے سے ہے۔ یہ احکام درج ذیل ہیں۔’’اور مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا۔ ایک مومن لونڈی ایک (آزاد) مشرکہ سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بھلی لگے۔ اور مشرکوں کو جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اپنی عورتیں) نکاح میں نہ دو۔ ایک مومن غلام ایک مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ تمھیں بھلا لگے‘‘،(بقرہ ۲:۲۲۱)یہ نکاح کے حوالے سے قرآن کا ایک اہم حکم ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی مشرک مرد یا عورت سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ نکاح کے لیے ایک آزاد مشرک عورت سے مومن لونڈی بہتر ہے۔ یہی معاملہ مومن غلام کا ہے کہ آزاد مشرک مرد سے بہتر ہے کہ ایک مومن غلام سے نکاح کا تعلق قائم ہو۔سورہ مائدہ میں جب دین کا اتمام ہو رہا تھا اور شریعت کے آخری اور فیصلہ کن احکام دیے جارہے تھے تو وہاں اس حکم میں ایک رعایت یہ دی گئی کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ دیکھیے اس موقع پر لونڈیوں کا ذکر بالکل حذف کر دیا گیا ہے۔’’آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں۔ ۔ ۔ اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔‘‘،(مائدہ ۵: ۵)مرد و زن کے تعلق کے ضمن میں بنیادی آیت سورہ نساء کی درج ذیل آیات ہیں۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن خواتین سے نکاح حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا (ایک رشتہ نکاح میں) اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہوچکا (سو ہوچکا) بے شک اللہ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔اور شوہر والی عورتیں بھی ( تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو۔ ۔ ۔اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو۔‘‘،(نساء ۲۵۔۲۳: ۴)اس آیت میں دو جگہ لونڈیوں کا ذکر ہے اور دونوں جگہ نکاح کے حوالے سے۔ یعنی اگر کوئی آزاد شادی شدہ عورت بطور لونڈی جنگ میں ہاتھ آجائے تو پھر اسے نئے نکاح کے لیے پچھلے شوہر سے طلاق کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا سابقہ نکاح کالعدم تصور ہوگا۔ اسی طرح آگے وضاحت کی گئی ہے کہ ایک لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔قرآن مجید کے یہی وہ مقامات ہیں جن میں مرد و زن کے تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کے سرسری مطالعے سے بھی یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت جس کے احکام قیامت تک کے لیے ہیں جب مرد و زن کے تعلق کو موضوع بناتی ہے تو صرف اور صرف نکاح کو اس کی بنیاد ٹھہراتی ہے۔ لونڈی کی ملکیت یا کسی اور بنیاد پر مرد و زن کے تعلق کی کوئی مثال اسلام کے ابدی احکام میں نہیں۔قرآن اور غلامیاسلامی شریعت کے اس مدعا کی وضاحت کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا سبب ہے کہ قرآن مجید نے اپنے نزول کے وقت لونڈیوں کے ساتھ مقاربت کو جائز قرار دیا۔ کیوں نہ ایسا ہوا کہ ایک حکم کے ذریعے سے لونڈی غلاموں کا رکھنا ہی حرام قرار دے دیا جاتا۔ اس کے برعکس نہ صرف پہلی قسم کے احکام قرآن میں پائے جاتے ہیں جن میں لونڈیوں سے مقاربت کی اجازت ہے بلکہ متعدد مقامات پر لونڈی غلاموں کا ذکرخادموں کی حیثیت سے بھی ہے۔ کیا واقعی ان احکام وبیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید غلامی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ کیا یہ واقعی اس کی منشا تھی کہ مسلمان جنگیں کرکے دوسرے لوگوں کو لونڈی غلام بنائیں۔ دنیا بھر سے معصوم بچے، بچیوں اور بڑوں کو حضرت یوسف کی طرح اغوا کیا جائے اور مسلمانوں کے بازاروں میں ان کی نیلامی ہو۔ مسلمانوں کے غلام ان کے کھیت اور کارخانوں کو چلا رہے ہوں اور لاتعداد لونڈیاں ان کے حرم میں سامان عیش کے طور پر موجود ہوں۔ہم پورے اطمینان اور اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہرگز ہرگز یہ منشا نہیں تھی۔ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ ہم پھر اس بات کو دہرانا چاہیں گے کہ قرآن مجید نے نہ لوگوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت دی اور نہ ایسا کوئی حکم کبھی دیا گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ غلامی کی لعنت ہزاروں برس سے انسانی معاشروں میں موجود تھی۔ قرآن مجید قطعی طور پر اس لعنت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس مقصد کے لیے اسلام نے انقلابی طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ایک حکم سے ساری لونڈی غلاموں کو آزاد قرار دے دیا جائے۔انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دس نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم انقلاب (Revolution) کی بجائے تدریجی اصلاح (Evolution) کا طریقہ اختیار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہو گا۔ خیال رہے کہ ہم اس مثال میں ملازمت کو غلامی جیسی برائی قرار نہیں دے رہے، بلکہ حکمت عملی کے پہلو سے ایک ایسی مثال پیش کر رہے ہیں جسے آج کا انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ملازمت کی مثالموجودہ دور میں بہت سے مالک (Employers) اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل ہو جائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں، بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لیے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے؟ اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے۔ یہ بے روزگار یقیناً روٹی، کپڑے اور مکان کے حصول کے لیے چوری، ڈاکہ زنی، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے، جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تلپٹ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا کہ وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔ انہیں کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ جو لوگ اس میں آگے بڑھیں، انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں گے اور تدریجاً تمام لوگوں کو ملازمت کی غلامی سے نجات دلا کر مکمل آزاد کیا جائے گا۔عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے فوری طور پر ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لیے تدریج کا فطری طریقہ اختیار کیا تھا۔ اور ایسا نہ کیا جاتا تو معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا۔اب اسی مثال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر منطبق کیجیے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا، بلکہ وہ اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں لونڈی غلام موجود تھے۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں کام کر رہے تھے۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ ہزاروں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور، بھکاری وجود میں آتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔ چنانچہ اسلام نے ایک تدریجی طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا۔ اس ضمن میں جو اقدامات کیے گئے ان میں سے کچھ اہم یہ ہیں:غلامی ختم کرنے کے اقداماترسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو غلاموں کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی تربیت دی۔ انہیں یہ حکم دیا کہ جو تم خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی انہیں پہناؤ اور ان کے کام میں ان کی مدد کرو۔ غلاموں کو اپنا بھائی سمجھو، ان کا خیال رکھو اور ان پر ظلم نہ کرو۔ اسی تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ اپنے غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنے لگے اور ان کا معیار زندگی بلند ہوگیا۔ سیرت و روایات کے ذخیرہ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام کو دیکھ کر یہ پہچاننا مشکل تھا کہ آقا کون ہے اور غلام کون ہے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے غلاموں سے بیٹوں کا سا سلوک کرتیں وغیرہ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اعلیٰ اخلاقی تربیت دیں اور انہیں آزاد کر دیں۔ لونڈیوں کو آزاد کرنے کے بعد ان سے شادی کرنے کو ایسا کام قرار دیا جس پر اللہ تعالیٰ کے حضور دوہرے اجر کی نوید ہے۔ بعد کے دور میں ہمیں ایسے بہت سے غلاموں یا آزاد کردہ غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو علمی اعتبار سے جلیل القدر علما صحابہ کے ہم پلہ تھے۔ ایک مثال سیدنا سالم رضی اللہ عنہ تھے جن کا شمار ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔مثال قائم کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلام آزاد کیے یہاں تک کہ اپنی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔ آپ کے جلیل القدر صحابہ کا بھی یہی عمل تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت سے ایسے غلام خرید کر آزاد کیے جن پر ان کے مالک اسلام لانے کے باعث ظلم کرتے تھے۔ صحابہ کی تاریخ میں ایسے بہت سے غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو آزاد کیے گئے تھے۔ ان کے حالات پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں جو کتب الموالی کہلاتی ہیں۔دور جاہلیت میں آزاد کردہ غلاموں کو بھی کوئی معاشرتی مقام حاصل نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ان کے سابقہ مالکوں کا ہم پلہ قرار دیا۔ایسے غلام جو آزادی کے طالب تھے، ان کی آزادی کے لیے قرآن نے "مکاتبت” کا دروازہ کھولا۔ اس کے مطابق جو غلام آزادی کا طالب تھا، وہ اپنے مالک کو اپنی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قسطوں میں رقم ادا کر کے آزاد ہوسکتا تھا۔ صحابہ کرام ایسے غلاموں کی مالی مدد کرتے جو مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک کو رقم ادا کر کے انہیں آزاد کروایا تھا۔ قرآن نے حکومتی خزانے میں سے ایسے غلاموں کی مالی امداد کا حکم دیا ہے۔ یہ وہ حکم تھا جس نے تدریجی اور قانون طریقے سے غلامی کی لعنت کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔غلامی کی سب سے بڑی جڑ جنگی قیدی تھے جن کو غلام بنایا جاتا تھا۔ قرآن نے جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ حکم دیا کہ یا تو انہیں بلامعاوضہ آزاد کر دیا جائے یا پھر ان سے جنگی تاوان وصول کر کے آزاد کیا جائے۔ اس طرح نئے غلام اور کنیزیں بننے کا سلسلہ رک گیا۔قرآن مجید میں غلامی کی ممانعت کا حکمغلامی کے خاتمے کے حوالے سے دین اسلام کی اس تمام تر تعلیمات کے باوجود بہت سے لوگ چھوٹے ہی یہ سوال کر دیتے ہیں کہ قرآن میں غلامی کی ممانعت کا حکم کہاں ہے۔ یہ حکم جب نہیں ہے تو ہم آزاد خواتین کو پکڑ کر لونڈیاں بنانے میں حق بجانب ہیں۔ اس کا سادہ ترین جواب تو میں یہ دیا کرتا ہوں کہ یہ استدلال پیش کرنے والے یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ کوئی طاقتور شخص یا کوئی دشمن ملک بالجبر ان کی اپنی خواتین کے ساتھ یہ سب کچھ کرے تو وہ حق بجانب ہوگا۔ کیا وہ اس ظلم کو ایک لمحے کے لیے بھی جائز تسلیم کریں گے؟اس بات کا علمی جواب یہ ہے کہ قرآن مجید چیزوں کو حرام قرار دینے کے لیے دو طریقے اختیار کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی چیزکا نام لے کر ممنوع قرار دے دیا جائے۔ جیسے قرآن مجید تجسس کی ممانعت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ولاتجسسوا(الحجرات12:49)۔ یعنی تم تجسس نہ کرو۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ گناہوں کی عمومی کیٹیگری کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اس کیٹیگری کے ذیل میں آنے ولی تمام چیزیں خود ہی ممنوع ہوجاتی ہیں اور قرآن کریم میں ان کی ممانعت کا حکم تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مثلاً ایک شخص یہ کہے کہ قرآن پاک میں سور کھانے کی تو ممانعت ہے البتہ سانپ کھانے کی نہیں ہے اس لیے سانپ کھانا جائز ہوگیا۔ یہی معاملہ تمام درندوں اور بول و براز وغیرہ کا ہے۔ آپ کو ان کی ممانعت کا براہ راست حکم قرآن مجید میں نہیں ملے گا۔ایسی چیزوں کی حرمت میں جیسا کہ بیان ہوا کہ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ عمومی کیٹیگری بیان ہوجاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اسی اصول پر خبائث کو حرام قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کے لیے صرف طیبات ہی حلال قرار دیے ہیں،(المائدہ 5:5)۔ چنانچہ سانپ، شیر، چیتے اور بول و براز وغیرہ اس وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں کہ انسان ان کو فطری طور پر خبیث چیزوں کے طور پر جانتا ہے۔ خیال رہے کہ استثنائی طور پر اگر کوئی واقعہ اس نوعیت کا ہوجائے کہ ایک شخص یا گروہ یہ خبیث چیزیں کھانے لگے تو اس سے ان کی فطری حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔حرمت کی ایسی ہی ایک کیٹیگری وہ ہے جس میں قران بغی یا زیادتی کو ممنوع قرار دیتا ہے،(اعراف33:7)۔ اب اس کے بعد ضروری نہیں رہتا کہ قرآن مجید ظلم کی ہر قسم کا نام لے کر یہ بیان کرے کہ فلاں زیادتی ناجائز ہے اور فلاں ظلم حرام ہے۔ بلکہ انسانی فطرت اور معاشرے جس جس چیز پر ظلم کا اطلاق کرتے ہیں وہ خود بخود اسی اصول پر حرام ہوجائے گا۔ کسی انسان کی آزادی کو سلب کرکے اسے غلام بنا لینا اسی نوعیت کی چیز ہے۔ چنانچہ غلامی اسی اصول پر حرام ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی آزادی پر حملہ کرکے اور ان کی عزت اور آزادی پامال کرکے انھیں غلام بنایا جاتا ہے، بالجبر ان سے مشقت لی جاتی ہے اور دیگر طریقوں سے انھیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ غلامی ہر حال میں ایک برائی تھی اور اسے گوارا کرنا اسلام کے لیے کسی طور ممکن نہ تھا۔ مگر جیسا کہ بار بار بیان ہوتا ہے کہ یہ برائی اتنی زیادہ پھیل چکی تھی کہ نہ صرف اس کی برائی کا تاثر ختم ہوچکا تھا بلکہ پورا معاشرتی نظام اسی پر منحصر ہوچکا تھا اس لیے دین اسلام نے اس برائی کے خاتمے میں تدریج کا طریقہ اختیار کیا۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ برائی کو بھی غیر فطری طریقے پر ختم نہیں کرتا۔چنانچہ جو لوگ آج غلامی اور خاص کر خواتین کو لونڈی بنا کر ان سے استفادہ کے قائل ہیں اور اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں غلامی کے خاتمے کا کوئی حکم نہیں وہ سرتاسر غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید ظلم و زیادتی کی ہر قسم کو حرام کرتا ہے۔ غلامی اس ظلم کی بدترین شکل ہے اور اس کا دوبارہ شروع کرنا ایک بدترین جرم ہے۔ مزید یہ بھی واضح رہے کہ قدیم دور میں غلامی کا جو سب سے بڑا ذریعہ تھا یعنی جنگی قیدیوں کو غلام بنانا، ان کے متعلق قرآن مجید نے تصریح کر دی ہے کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا ورنہ بلامعاوضہ آزاد کر دیا جائے گا،(محمد4:41)۔ غلام کسی صورت میں نہیں بنایا جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال جنگ بدر کے غریب قیدی ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے عوض آزاد کر دیا تھا۔ایک آخری سوال: غلامی ختم کیوں نہ ہوسکیاس ضمن کا ایک آخری اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ ان تمام اقدامات کے بعد بھی مسلم معاشرے میں غلامی ختم کیوں نہ ہوسکی۔ کیوں ایسا ہوا کہ بیسویں صدی تک عرب کے معاشرے میں لونڈی غلام بازاروں میں بکتے رہے؟ہمارے نزدیک اس معاملے میں اصل سانحہ یہ ہوا کہ خلافت راشدہ میں جب عرب مسلمانوں نے عالم عجم کو فتح کیا، ان فتوحات کے نتیجے میں لاکھوں مربع میل پر پھیلی قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتوں میں پائے جانے والے لاکھوں بلکہ کروڑں غلام اسلامی معاشرے میں ایک دم داخل ہوگئے۔ یہ واضح ہے کہ عرب معاشرے میں موجود ہزاروں غلاموں کو بیک جنبش قلم ختم نہیں کیا گیا تو یہ کام عجم کے لاکھوں غلاموں کے معاملے میں بھی ممکن نہ تھا۔ صحابہ کرام نے اپنی حد تک یہ کام جاری رکھا مگر اول ان کی اصل توجہ جہاد کی طرف رہی اور پھر خلافت راشدہ کے نصف آخر میں مسلمانوں کا باہمی خلفشار شروع ہوگیا۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ قرآن مجید کا فہم رکھنے والے اور اسلامی روح کو سمجھنے والے صحابہ کرام کی تعداد تیزی سے کم ہوتی گئی۔یہاں تک کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں جب باہمی جنگوں کا یہ سلسلہ تھما تو مسلم معاشرہ ملوکیت کی اجتماعی غلامی کا شکار ہوچکا تھا۔ جو معاشرہ اجتماعی غلامی کا شکار ہو وہ انفرادی غلامی کے لیے کیا کرسکتا تھا۔ چنانچہ سب نے غلامی کو ایک ناقابل تبدیل حقیقت کے طور پر قبول کرلیا اور رفتہ رفتہ غلامی کی لعنت کو مذہبی جواز بھی ملتا چلا گیا۔
Saturday, 3 August 2024
*آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیا ہے – Artificial*“#Artificial_Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر یا کمپیوٹر بیسڈ روبوٹس کو انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے یعنی یہ انسانوں کی طرح سن سکتے ہیں بول سکتے ہیں اور ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ Artificial Intelligence میں آئے دن تجربات کیے جا رہے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے روبوٹس یا بوٹس بہت تیزی سے انسانوں کی طرح سیکھنے، سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو Self Learning کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہاہت کے ذریعہ سے مشین کو جذبات سمجنے اور جذبات کی عکاسی کرنے کے قابل بھی بنایا جا چکا ہے۔“Artificial Intelligence In Urduالسلام علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ Artificial Intelligence In Urdu کے عنوان سے ایک اور تحریر لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ایک سوال #AI یعنی Artificial Intelligence کیا ہے اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ اس دور جدید اور آنے والے دور میں AI یعنی Artificial Intelligence جیسی ٹیکنالوجی یقیناً انسانیت کے لیے فائدہ اور نقصانات دونوں اپنے ساتھ لا رہی ہے۔زیر نظر تحریر جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے طالب علموں کے لیے ایک Artificial Intelligence Article for Students بھی ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے سے آپ کو اس انوکھی تخلیق کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوں گی اور آپ کو یہ بھی تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی کہ آپ کی زندگی میں ہی یہ انوکھی ایجاد آپ کو روزانہ کی بنیادوں پر سہولیات فراہم کر رہی ہے جس کے بارے میں شاید آپ کو علم بھی نہیں۔Artificial Intelligence Meaning In UrduArtificial Intelligence کو اردو زبان میں مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مراد ایسی ذہانت ہے جو کمپیوٹر مشین میں استعمال کی جا سکتی ہو۔ آج سے کچھ سال پہلے یعنی تقریباً 1950 سے لے کر 1956 تک یہ چند سال مصنوعی ذہانت کے دور کی شرعات تصور کیا جاتے ہیں۔ ان چند سالوں میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ کمپیوٹر جیسی مشین بھی انسانوں کی طرح ذہانت استعمال کر سکتی ہے۔Artificial Intelligence in 1956John McCarthy نے 1956 میں کہا تھا کہ مستقبل میں کچھ مشینیں ایسی بھی ہوں گی جو کہ انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔ اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔Artificial Intelligence in 19501950 میں ایک بہت بڑے سائنسدان گزرے جن کا نام Alan Turing تھا انہوں نے ایک کتاب لکھیں جس میں انہوں سے ایک AI Test متعارف کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے سامنے موجود مشین یا کمپیوٹر ذہانت کا استعمال کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ہم مشین اور انسان کو ایک مقام پر جمع کر کے ان سے سوالات کر سکتے ہیں مشین اور انسان سے سوالات پوچھنے والے انسان کو اس بات کی خبر نہیں ہو گی کہ مشین کس کمرے میں ہے اور انسان کس کمرے میں۔Alan Turing Test کے مطابق ٹیسٹ کے لیے سوالات کرنے والا انسان ایک الگ کمرے میں ہو گا اور میشن اور دوسرا انسان دو الگ کمروں میں۔ سوالات کرنے ولا دونوں سے سوالات کرے گا اور دونوں اپنی ذہانت کا استعمال کر کے جواب دیں گے۔ ان جوابات کی مدد تے سوالات پوچھنے والا اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ کس کمرے میں مصنوعی ذہانت والا کمپیوٹر ہے اور کس میں انسان۔Alan Turing کے اس ٹسٹ کی مدد سے معلوم کیا جائے گا کہ انسان کون ہے اور مشین کون ہے اور اس ٹیسٹ کے دوران مشین یعنی مصنوعی ذہانت اپنی پوری طاقت استعمال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ مشین نہیں انسان ہے۔ یہ ٹسٹ انتہائی کامیاب رہا اور اس کے نتائج کی مدد سے مشین کو مزید ٹرین کرنے کے لیے نئی سمت ملی۔Artificial Intelligence in 19641964 سے 1966 کے عرصہ میں Eliza نام کا ایک پورگرام بنایا گیا جو Artificial Intelligence کی ایک مثال تھا۔ یہ پروگرام سائیکولوجسٹ پروگرام تھا جو انسانوں سے ان کے ذہنی مسائل کے بارے میں سوالات کر کے انہیں مسائل کے حل تجویز کرتا تھا۔ لیکن اگر اس پروگرام سے یہ پوچھا جائے کہ میں گاجر کا جوس کس طرح بنا سکتا ہوں تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یعنی اس سوال پر یہ پروگرام ٹیورنگ ٹسٹ پاس نہیں کر سکا۔1980 کے قریب IBM نے ایک ایسا سافٹ ویئر متعارف کروایا جو شطرج کا ماہر تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں Garry Kasparov جو کہ دنیا بھر میں شطرنج کے بہت بڑے کھلاڑی مانےجاتے تھے کو اس پروگرام نے جیتنے نہیں دیا۔ اس پروگرام کا نام Deep Blue تھا۔ لیکن ہم پہلے والا سوال ہی اگر اس پروگرام سے کریں کہ گاجر کا جوس کیسے بناتے ہیں تو اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔اسی دور میں اس بات کا اندازہ ہوا کہ جو مصنوعی ذہانت کے پروگرام بنائے جا رہے تھے وہ تمام کے تمام Rule Based پروگرام تھے یعنی ان کو پہلے سے بتا دیا جاتا تھا کہ کس عمل پر کیا ردعمل اختیار کرنا ہے۔Artificial Intelligence کی Definition کیا ہےArtificial Intelligence کو اگر سمجھنا ہو یا اس کی Definition جاننی ہو تو سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ “Artificial Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جو کمپیوٹر یا کمپیوٹر ہی کی جدید شکل روبوٹس کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سے کام کرنے لگ جائیں۔یعنی ذہانت کا استعمال کریں اور اسی ذہانت کی بنیاد پر انسانوں کی طرح فیصلے کرنے کی صلاحت رکھتے ہوں۔ اگر یہ ربوٹ یعنی ہاتھ پاؤں رکھنے والی مشین ہو تو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بر وقت اور ضرورت کے مطابق درست طریق سے استعمال کر سکتا ہو”ہماری زندگیوں میں سائنس نے جتنی ترقی کر لی ہے ہمارے بعد والی نسلوں کی زندگی میں اس ترقی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اہل دنیا ان تمام حوالوں سے پریشان بھی ہیں اور فوائد کے حصول کو ممکن بنانے پر خوش بھی ہیں۔ Artificial Intelligence بہت خاموشی سے آہستہ آہستہ ہم سب کی زندگی میں مستقل طور پر شامل ہوتی جا رہی ہےArtificial Intelligence کس طرح کام کرتی ہے؟کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو باقاعدہ نام سے پکارا جانے لگا غالباً یہ 1956 کے عرصہ کی بات ہو گی۔ اس زمانہ میں کمپیوٹر اور سائنس نے اس قدر ترقی تو ضرور کر رکھی تھی کہ ایک مشین کی مدد سے کسی پزل گیم کو ہل کروایا جاتا رہا ہے۔اس زمانہ میں کمپیوٹر سے گفتگو کرنے کے لیے صرف کمپیوٹر کے لیے مخصوص زبانوں کو استعمال کیا جاتا تھا جن میں مشین لینگویج اور پروگرام لینگویج عام تھیں۔ سی لینگویج بھی انہی کہ ایک مثال ہے ۔ یعنی کپیوٹر صرف ان ہی چند زبانوں کو سمجھتا تھا۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ کمپیوٹر کو انسانی زبان سمجھنے کے قابل بنایا جا سکے یعنی نیچرل لینگویج یعنی کمپیوٹر میں Natural language processing (NLP) کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب کوشش تھی اس کی مدد سے کمپیوٹر اس قابل ہوا کہ وہ انسانوں کی زبان کو یعنی جو انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لیے زبان استعمال کرتی ہے سمجھنے لگا۔سٹرکچر کیوری لینگویج یعنی SQL زبان بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں کوئی بھی پروگرام کمپیوٹر کو بتانے کے لیے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے جاتے ہیں اور کمپیوٹر انہیں سمجھ کر جواب دیتا ہے۔ AI اسی کی ایک جدید شکل ہے جو کہ مستقبل میں جدید سے جدید تر اور پھر جدید ترین ہو جائے گی۔کیا یہ درست ہے کہ ” AI Will Completely Change the Way We Live”اس دنیا میں موجود وہ لوگ جن کا تعلق کسی نا کسی طرح سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس سے ہے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں اور اکثر سوچتے ہیں کہ کیا مصنوعی ذہانت ہماری زندگی میں اس قدر حصہ لے سکتی ہے کہ ہماری نیچرل یعنی قدرتی زندگی اور رہن سہن یکسر بدل دے۔AI Expert جناب کائی فو لی صاحب جو کہ CEO of Sinovation Ventures بھی ہیں میڈیم ڈاٹ کام پر اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ میں نے دنیا بھر میں سفر کیا ہے اور میں اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سے بہت سی جگہوں پر ایک سوال کر چکا ہوں کہ “انسان اور مصنوعی ذہانت کا مستقبل کیا ہے؟” یہ ایک بنیادی سوال ہے جس کا موجودہ دور میں رقم ہونے والی تاریخ سے بہت گہرا تعلق ہے۔کائی فو لی کے مطابق اس سوال کے جواب میں کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہم اس وقت Artificial Intelligence نام کے ایک بلبلے میں قید ہیں اور اس کے درمیاں میں بیٹھے ہیں اور نجانے یہ ہمیں کس سمت میں کتنی بلندی تک لے جائے اور پھر کیا ہو۔ ان لوگوں کے مطابق مصنوعی ذہانت ہم انسانوں کے ذہن کو اپنے اختیار میں لینے کے قابل ہو جائے گی اور انسان کو اپنا غلام بنا کر ان پر حکمرانی کرنے لگے گی۔میرے خیال کے مطابق ایسا ممکن ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم سب کے ہاتھوں میں موجود سمارٹ فون اپنے سمارٹ ہونے کا ثبوت دینے لگا ہے۔ گوگل، بنگ ، آئی او ایس، اینڈرائڈ جیسے جدید سافٹ ویئر ہمارے مبائل فون کے ذریعہ سے ہماری معلومات کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں سوشل میڈیا پر ہونے والی تمام گفتگو اور ہماری حرکات و سکنات کو بھی محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔AI یعنی Artificial Intelligence اور موجودہ دورموجودہ دور میں Artificial Intelligence خاصی ترقی کر چکی ہے ۔ جدید دور میں تقریباً ہر بڑی انڈسٹری میں اس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر میں موجود پروگرامز بھی اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر بھی کمپیوٹر کو استعمال کر رہا ہے اور اپنے آپ کو مزید پاور فل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔Artificial Intelligence in Urdu کے عنوان سے اس تحریر کو شائع کرنے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان میں اس جدید ٹیکنالوجی کو سمجھ سکیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کے کون کون سے موڈیول کام کر رہے ہیں اور اس میں کیا کیا ٹیکنالوجیز استعمال کی جا چکی ہیں یعنی ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ AI نام کی ٹیکنالوجی اپنے اندر کتنی جدت لا چکی ہے اور کون کون سے معاملات پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ذیل میں AI کی کچھ Technologies کا ذکر کیا جا رہا ہے۔Natural Language Generationمشین اور انسان دونوں مختلف انداز میں سوالات جوابات کرتے ہیں یعنی ایک دوسرے سے ان کی کمپیونیکیشن دونوں اطراف سے مختلف ہوتی ہے انسانی دماغ اور مشین دونوں مختلف انداز میں سوچتے اور سمجھتے ہیں۔Natural Language Generation ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت کافی مشہور ہے اور یہ AI کا ایک حصہ ہے ۔ اس کی مدد سے مشین اور انسانوں کے مابین گفتگو کو انسانی انداز اور مزاج میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ نیچرل لینگویج جنریشن مصنوعی ذہانت کا ایک حصہ ہے جس کی مدد سے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والی مشینیں خودکار انداز میں انسانوں کی ضرورت کے مطابق جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرتی ہیں۔Speech recognitionSpeech Recognition ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے مشینوں کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آوازوں کو سن کر ان کو سمجھ کر ان کے مطابق جواب دیے سکیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی آواز کو سن کر سمجھ کر کمپیوٹر ہدایات وصول کرنے کی صلاحت رکھتا ہے۔اس کی مدد سے انسانی گفتگو کو کمپیوٹر مخلتف زبانوں میں بدل سکتا ہے۔ ان کی بہتریں مثال Siri نام کی ربوٹک اسسٹنٹ ہے جو آواز کو سن کے اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔Virtual AgentsVirtual Agents اس وقت دنیا میں Artificial Intelligence کی ایک بہتریں مثال ہے اس ٹیکالوجی کو دنیا میں بہت سارے کاروبار استعمال کر رہے ہیں۔ ورچول اسسٹنٹ دراصل AI کی ہی ایک Application ہے جو اپنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسانوں سے گفتگو کرتی ہے۔اس ایپلیکیشن میں Chatbots فراہم کیا جاتا ہے جو کہ انسانوں کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آپ کی کوئی کمپنی ہے اور اس میں چند بنیادی معلومات ایسی ہیں جس کے کمپنی سے خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے اہم ہیں ان معلومات کو ورچول اسسٹنٹ کی مدد سے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے اور ان سے متعلقہ تقریباً تمام متوقع سوالات کے جوابات کے لیے تمام انفارمیشن Database میں محفوظ کر لی جاتی ہے۔ اس ڈہٹابیس کی مدد سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات خودکار انداز میں یہ نظام اپنے Clients کو دیتا ہے۔ Virtual Assistant کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ زبان دانی سے واقف ہوتا ہے۔اس کی ایک اہم مثال IBM Watson ہے جو کہ Customer Service پر پوچھے جانے والے سوالات کو سمجھ بھی سکتا ہے اور ان کے جواب بھی دیتا ہے۔Decision ManagementDecision Management ایک ایسا کمپیوٹر بیسڈ نظام ہے جو کہ AI یعنی Artificial Intelligence کا معاون ہے اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مسائل کے حل کے لیے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ جدید ترین کاروبار اور ادارے اس کو استعمال کر رہے ہیں ان کی مدد سے تازہ ترین معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور ان معلومات کو پروسس کروایا جاتا ہے۔ یہ تمام معلومات کسی بھی ادارے کے ساتھ روابطہ رکھنے والے اداروں یا انسانوں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔Decision Management System انسانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اکٹھا کیا جانے والا سارا ڈیٹا پروسس کروا کر اس بات کا اندازہ کر سکیں کے مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو بہت سے سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ترین ادارے اس کو روز استعمال کر رہے ہیں۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ہمارے مبائل فون پر ہم سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کرتے ہیں یعنی فیس بک، انسٹا گرام، گوگل سرچ یا یوٹیوب وغیرہ اس کے علاوہ ہمارے فون سے ہمارے علاقے اور ہمارے سفر کی معلومات بھی ہمارا فون سیو کرتا رہتا ہے اس کے بعد کچھ ہی دن میں ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں وہی ہمیں ہمارے مبائل پر خودکار انداز میں بتایا جا رہا ہے۔یہی وہ نظام ہے جسے ہم AI اور اس کی ٹیکنالوجیز کہہ سکتے ہیں۔ ہمارا مبائل خودکار انداز میں ہمارے ڈیٹا کو سمجھتا رہتا ہے اور ہمیں اس کے مطابق فیصلہ کر کے مزید ڈیٹا دکھاتا ہے۔خواتین جو اپنے مبائل پر زیادہ تر شاپنگ وغیرہ کے سلسلہ میں سرچ کرتی ہیں انہیں اسی طرح کا ڈیٹا دکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ ڈرامے اور میک اپ وغیرہ کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔اسی طرح ہمارے مبائل فون ہمیں ہمارے علاوقے کا درجہ حرارت بتاتے ہیں۔ موسم کا حال بتاتے ہیں اور سیٹلائٹ کے ذریعہ اکٹھا ہونے والے ڈیٹا کو پروسس کر کے سمجھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ بارش کس وقت ہونی ہے۔ یہ سب AI اور اس کے چیلوں کا کمال ہے۔Biometrics & Deep Learningڈیپ لرننگ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم حصہ ہے جس کی مزید لیئرز ہیں Deep Learing کی 150 سے زیادہ لیئرز ہیں جن کی مدد سے یہ نظام ڈیٹا کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کی طرح مثالوں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ڈیپ لرننگ کی مدد سے بہت بڑی سطح پر ڈیٹا پر کام کیا جاتا ہے اور زیادہ وقت صرف کر کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں ۔ DEEP Learning میں تصاویر پر منحصر ڈیٹا کو بھی سمجھا جاتا ہے اور پہچاننے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ Biometrics بھی ایسا ہی عمل ہے اس کی مدد سے انگلیوں کے نشانات لیے جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کو پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی علم فلکیات میں بھی استعمال کی جاتی ہے اس کے علاوہ افواج اسے استعمال کر کے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس کو انسانوں کی صحت یعنی ہلتھ کے محکموں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ تمام انفارمیشن کو محفوظ کر کے اس پر پروگرام چلایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اصل میں بیماری کیا ہے اور موجودہ بیماری کی مستقبل میں کیا صورت ہو سکتی ہے اس کے بعد نتائج کے مطابق ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔اگلے دس سال اور مصنوعی ذہانت – Artificial Intelligence in 10 yearsArtificial Intelligence موجودہ دور میں بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے مگر آنے والے چند سالوں میں یہ مزید ترقی کر کے ہر شعبہ زندگی میں شامل ہونے والی ہے۔ انسانوں کے زیر استعمال مبائل فون سے لیے کر جدید ترین جہازوں اور سیٹلائٹس میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔مصنوعی ذہانت نے جب سے یہ سیکھا ہے کہ سیکھنا کس طرح سے ہے اس وقت سے یہ بہت تیزی سے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں اس کا استعمال کروبار میں صحت کے محکموں میں سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔Text based مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ ChatGPT-3 اس کی ایک اہم مثال ہے اس کے علاوہ Google Ai, Dalle-3 اور ChatGPT-4 وغیرہ ہیں ان جدید سافٹویئرز کے متعلق آپ ہماری ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں ان کے ربط یہ ہیں:-How to use ChatGPT in Pakistanاس کے علاوہ آپ اسی حوالے سے What is ChatGPT in Urdu یہ تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مزید معلومات کیلئے فالو کریں 👉
Subscribe to:
Posts (Atom)