Saturday, 24 June 2023
Titanic. ٹائٹینک اور ٹائٹن آبدوز!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن 2009 میں امریکہ کے ایک ائیروسپیس انجنیئر سٹاکٹن رش(پہلی تصویرمیں) نے اوشین گیٹ (OceanGate Expedition) نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جسکا مقصد گہرے سمندروں میں 4 سے 6 کلومیٹر کی گہرائی کی آبدوزیں بنانا تھا جو ملٹری، تحقیق اور تفریح(ایڈونچر ٹورزم) کے لیے استعمال ہوسکتی ہوں۔ اس کمپنی کا ایک مقصد دنیا کے امیر ترین افراد کو گہرے سمندروں میں آبدوز کے ذریعے سیاحت پر لے جانا بھی تھا۔2009 سے اب تک اس کمپنی کی تین آبدوزیں 200 سے زائد مرتبہ گہرے سمندروں میں مختلف مقاصد کے لیے گئیں اور بحفاظت واپس لوٹیں۔ اس حوالے سے ایک اہم آبدوز جسکا چرچہ آجکل دنیا بھر میں ہو رہا ہے وہ ٹائٹن تھی جسے کمپنی کے مطابق زیرِ سمندر 4 کلومیٹر کی گہرائی تک جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ بُرج خلیفہ جو اس وقت دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے ایک کلومیٹر سے بھی کم اونچی ہے جبکہ نانگا پربت کے بیس کیمپ کی اونچائی سطح سمندر سے تقریبا 4 کلومیٹر (3850 میٹر) اوپر ہے۔ مگر سمندر کی اتنی گہرائی میں کون سیاحت کے کیے جائے گا اور وہاں کیا ہو گا؟ اسکا جواب ہے ٹائٹینک۔ جی ہاں وہی ٹائیٹنک جس پر مشہورِ زمانہ فلم بنی جسکی شہرت کی وجہ اس میں موجود ایک سین ہے جس میں لیونارڈر ڈی کیپری اور کیٹ ونسلٹ ٹائیٹینک کے عشرے پر ایک دوسرے سے جڑے سمندر کو بانہیں کھول کر دیکھ رہے ہیں. (آپ جس سین کا سوچ رہے تھے وہ بھی مشہور ہے)۔ ویسے بتاتا چلوں کہ اس فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون فلم کی تیاری کے سلسلے میں 33 مرتبہ سمندر سے نیچے جا کر اسکا ملبہ دیکھ بکے ہیں۔ٹائٹینک اپنے زمانے کا سب سے بڑا جہاز تھا اور یہ 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر پر سمندر میں تودے کے ٹکرانے سے ڈوب گیا۔ اس جہاز کا ملبہ کینیڈا کے علاقے نیوفاؤنڈ لینڈ کے ساحلوں سے 700 کلومیٹر دور آج بھی بین الاقوامی سمندروں میں غرق ہے۔ اس ملبے کو 1985 میں دریافت کیا گیا۔ یہ ملبہ سمندر میں تقریباً 4 کلومیٹر نیچے موجود ہے۔ اسی ملبے کو امیر سیاحوں کو دکھانے کے لیے اوشنگیٹ ایک آبدوز استعمال کرتی رہی جسکا نام ٹائٹن تھا۔ یہ آبدوز 2021 میں پہلی مرتبہ ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچی۔اس ٹرپ پر ایک آدمی کا ٹکٹ 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر تھا۔ ایک ڈالر آج کل 288 روپے پر پھر رہا یے۔ خیر دوسری مرتبہ یہ 2022 میں ٹائٹینک کے ملبے تک سیاحوں کو بحفاظت لے کر گئی۔ اور اب تیسری مرتبہ 18 جون بروز اتوار کو یہ پانچ سیاحوں کو سمندر میں غرق ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے لے جا رہی تھی کہ اسکا رابطہ سمندر کی سطح پر موجود اپنی معاون کشتیوں سے، سفر کے آغاز کے1 گھنٹہ اور 45 منٹ بعد منقطع ہو گیا۔ جسکے بعد پوری دنیا میں اسکی خبر پھیل گئی اور اسکی تلاش کے لیے کوششیں ہوںے لگیں ۔یاد رہے کہ اس آبدوز پر 96 گھنٹے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن موجود تھی لہذا یہ اُنہد تھی کہ اگر اس آبدوز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا اور اسکا محض رابطہ منقطع ہوا ہے تو اسے بچایا جا سکتا ہے۔ ٹائٹن ہر پہلی مرتبہ جانے والے ایک جرمن سیاح آرتھر لئوبل کہتے ہیں کہ یہ آبدوز مکمل طور پر محفوظ نہیں تھی۔ اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک ہزار میٹر کے بعد آبدوز کے بیٹری سسٹم (آبدوز بجلی سے چلتی تھی) میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تاہم بالاخر یہ آبدوز ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور انہوں نے وہاں تین گھنٹے اسکی واحد کھڑکی اور اس پر موجود کیمروں کی مدد سے ملبہ دیکھا اور پھر بحفاظت لوٹے۔ البتہ وہ یہ یاد کرتے ہیں کہ آبدوز میں درجہ حرارت کم و بیش 4 ڈگری سینٹی گریڈ تھا ،یہ چھوٹی سی آبدوز تھی جس میں چار سے پانچ افراد ایک دوسرے سے جڑ کر ہی بیٹھ سکتے تھے۔ ٹائٹن دراصل ایک مکمل آبدوز نہیں تھی بلکہ آبدوز جیسی تھی جسکے Submersible کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ محض چند گھنٹے تک سمندر کے نیچے رہ سکتی یے جبکہ ایک مکمل آبدوز کئی ماہ تک سمندر میں رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔گزشتہ ہفتے یعنی 18 جون 2023 کو ٹائٹن میں پانچ افراد سوار ہوئے جن میں اس آبدوز می کمپنی اوشین گیٹ کا مالک سٹاکٹن رش، برطانوی کاروباری شخصیت ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی پروفیشنل غوطہ خور پال ہنری اور پاکستان کے کمپنی اینگرو کے وائس پریزیڈنٹ شہزادہ داؤد اور اُنکے جواں سال بیٹے شامل تھے۔ٹائٹن نے تقریباً 4 کلومیٹر سمندر سے نیچے جانا تھا جہاں ٹائیٹینک کا ملبہ پڑا تھا۔اس تک پہنچنے میں اسے 2 گھنٹے اور 45 منٹ لگنے تھے۔ جسکے بعد اس نے تین سے چار گھنٹے تک ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنا تھا۔ اور پھر واپسی کا سفر کرنا تھا۔ اس پورے سفر کا کل دورانیہ کم و بیش دس سے گیارہ گھنٹے تک کا تھا۔ زمین کی سطح پر انسانوں پر کرہ ہوائی یعنی زمین کی فضا میں موجود گیسیوں کا دباؤ ہوتا ہے جو ہر وقت ہم پر رہتا ہے۔ یہ 1atm یعنی ایک ایٹموسفیرک پریشر کہلاتا ہے۔لیکن چونکہ انسان زمین پر ہی رہتے ہیں اور انکا ارتقاء زمین پر ہی ہوا ہے لہذا ہم اس دباؤ کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کوئی نارمل ہے۔ لیکن اگر آپ زمین کی سطح سے اوپر ہوا میں اڑیں تو یہ دباؤ کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ اوپر کی فضا کثیف ہے سو کم ہوا کے باعث آپ پر کم دباؤ پڑتا ہے۔ اور اگر آپ خلا میں نکل جائیں تو یہ دباؤ مکمل ختم ہو جائے گا۔تاہم اس سے اُلٹ اگر اپ سمندر میں جائیں تو دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ سمندر کا پانی فضا میں موجود گیسوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ لہذا سمندر میں ہر 10 میٹر کی گہرائی کے بعد آپکے جسم پر دباؤ 1 atm مزہد بڑھتا رہتا ہے۔سو اگر اپ سمندر میں محض 10 میٹر نیچے جائیں تو آ پر دباؤ یا پریشر 2 atm ہو جائے گا۔ یہ کم۔و بیش کھانا بناناے کے لہے استعمال ہونے والے کوکر کے اندر کا پریشر ہے۔اگر آپ نے کبھی پریشر کوکر کو پھٹتا دیکھا ہو تو آپکو اندازہ ہو گا کہ یہ کس قدر زیادہ پریشر ہوتا ہے۔ سو اگر اپ سمندر میں 4 کلومیٹر نیچے جائیں تو آپ پر دباؤ زمین پر دباؤ کے مقابلے میں تقریباً 400 گنا زیادہ ہو گا۔ یا پریشر کوکر کے دباؤ سے 200 گنا زیادہ۔ٹائٹن آبدوز کو ٹائٹنیم دھات اور کاربن فائیبر سے بنایاگیا تھا جو اتنا دباؤ برداشت کر سکتی تھی بشرطیکہ یہ مکمل طور پر سیل ہو اور اس میں کوئی فریکچر نہ ہو اور نہ ہی اسکی باڈی کہیں سے کمزور ہو۔ اگر ایسا ہو تو ایسی صورت میں نیچے جاتے ہوئے پانی کا دباؤ بڑھنے کے باعث اسکے کسی کمزور حصے پر پڑے گا اس مکمل طور پر پچکادے گا۔اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ پانچ روز تک اس آبدوز کو گہرے سمندروں میں کشتیوں اور روبوٹس اور سمندری ڈرونز کی مدد سے تلاش کیا جاتا رہا۔اور کل اسکے ملبے کا کچھ حصہ ٹائٹنک جہاز کے ملبے سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ملا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس آبدوز میں ممکنہ طور پر لیک یا فریکچر آیا جسکے باعث اس پر پانی کا دباؤ پڑا اور یہ باہر سے پڑنے والے اس شدید دباؤ سے چند ملی سیکنڈز میں ہی پچک گئی۔ یہ اتنا قلیل وقت ہے کہ اس میں آبدوز میں موجود انسانوں کا دماغ موت کو محسوس ہی نہ کر سکا ہو گا اور دیکھتے ہی دیکھتے انکا مکمل جسم پچک کر پاش پاش ہو گیا ہو گا۔اس آبدوز کے تلاش میں امریکہ، کینیڈا اور فرانس تینوں ممالک کی بحریہ اور سیکیو ٹیمیں شامل تھیں۔ اور پانچ روز تک اسکی تلاش پر تقریباً 65 لاکھ ڈالر سے زائد کا خرچ آیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں اور بحری سفر میں حفاظت کے لیے قائم ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کمرشل آبدوزوں کو محفوظ بنانے کے لیے مکمل ضابطہ کار، قوانین اور سرٹیفیکیشن وضع کی جائے تاکہ آئندہ ایسے ممکنا حادثات سے بچا جا سکے۔#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن
Monday, 12 June 2023
#شجرہِ_نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟ محکمہ مال اس کا بہترین حل ہے ۔اگر آپ کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائے یہ آفس ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گائوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گائوں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گائوں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان ، لوہار ، جولاہا ، ملیار ، چمیار ، ترک ، ڈھونڈ ، سراڑہ ،ملیار، قریشی ، سید ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ،ٹوانہ، بلوچ، وٹو، کانجو، کھٹڑ، گجر ، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، جدون ، دلزاک ، ترین وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں اور اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گائوں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گائوں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گائوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گائوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گائوں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گائوں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گائوں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گائوں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)